السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس ساری گفتگو کے بعد میں یہ سمجھا ہوں کہ اہل حدیث کے بقول تروایح 8 رکعات ہیں جو دراصل تہجد ہیں ۔ جو اس سے زیادہ پڑھتا ہے وہ نفل میں اضافہ کرتا ہے جو جائز ہے۔
جی درست! لیکن یوں کہنا بہتر ہوگا کہ رکعات نفل زیادہ کرتا ہے، فی نفسہ یہ کسی نفل کا اضافہ نہیں! بلکہ وہی نفل نماز ہے!
سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ اختیاری ہیں۔ کرلیں تو ثواب نہ کرنے پرکوئی گناہ نہیں اور آخرت میں اس کے بارے میں کوئی سوال نہ ہوگا۔؟
جی درست! مگر ایک بات کا خیال رہے ؛ جو پہلے بھی آپ کو ہی کہی تھی کہ:
نہیں گنہگار نہیں ہوں گے!
بس اس کا خیال رکھیئے گا کہ کہیں اس حدیث کے مصداق نہ ہو جائیں؛
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ الطَّوِيلُ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا فَقَالُوا وَأَيْنَ نَحْنُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ أَحَدُهُمْ أَمَّا أَنَا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ أَنْتُمْ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی ، کہا ہم کو حمید بن ابی حمید طویل نے خبر دی ، انہوں نے حضرت انس بن مالک سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ تین حضرات ( علی بن ابی طالب ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون رضی ا للہ عنہم ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیاتو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیامقابلہ ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات پھر نماز پڑھا کروںگا ۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوںگا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوںگا ۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروںگا ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں ؟ سن لو ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گا ر ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں ۔ نماز پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میںعورتوں سے نکاح کر تا ہوں ۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔
صحيح البخاري»» كِتَابُ النِّكَاحِ»» بَابُ التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ
جو اس کو تہجد کی نماز کے علاوہ ایک الگ نماز سمجھ کر پڑھے اور اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرے تو کیا یہ بھی جائز ہوگا۔کیا یہ بدعت نہیں ہوگا؟
معاملہ ذرا پیچیدہ ہے!
صرف نام دینے بدعت کا حکم نہیں لگے گا!
جیسے تراویح جو کہ تہجد و قیام اللیل ہے ، اسے ایک نام دیا گیا، اس امر میں مسئلہ نہیں!
اگر کوئی شروع رات میں تراویح کے بعد آخر رات میں نوافل کو تہجد کا نام دے تو یہ غلط نہیں! بلکہ درست ہے، کہ وہ ہے تہجد ہی!
لیکن تراویح کو تہجد سے خارج قرار دینا باطل ہے!
لیکن دونوں اوقات میں نوافل کا ادا کرنا درست ہے! یہ نوافل بدعت نہیں کہلائیں گے!
جو تواتر کے ساتھ رمضان میں تروایح نہیں پڑھتا یا بالکل نہیں پڑھتا تو کیا وہ گناہ گار ہوگا۔؟
جی! جیسا اوپر بیان کیا! اور قیام رمضان پر تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اور بھی بشارتیں اور فضائل ہیں!
لیکن بہر حال یہ نوافل ہی ہیں!
(اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی کہ کیا اہل حدیث حضرات تراویح کے بعد اخیر رات میں تہجدکی نماز دوبارہ بھی پڑھتے ہیں؟)
جی! یہ اسی طرح ہے جیسے کہ وتر کو آخری نماز بنانے کے متعلق احادیث ہیں!
کوئی اول شب میں تراویح کے بعد آخر رات میں دوبارہ نوافل ادا کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، اور اسےوتر آخر میں ادا کرنے چائیں!