وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ
محترم داؤد بھائی
میرے سوال کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص تراویح کو تہجد سے بالکل ایک الگ نماز سمجھتا ہے ۔ وہ ایک نئی نماز پڑھتا ہے جو شریعت نے بتلائی نہیں ۔ تو پھر یہ بدعت کیوں نہیں۔ مسئلہ تو اس کو نسبت دینے کا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو اس نام سے ایسے ادا کیا۔ جب کہ آپ کی تحقیق کے مطابق ایسا نہیں ہے۔ اگر کوئی مغرب کو ظہر کہ کر ادا کرے اور رکعتیں مغرب کی ہی پڑھے تو کیا یہ توجیہ قابل قبول ہوگی کہ رکعتیں تو صحیح ادا کیں لیکن نماز میں نام کی نسبت الگ ہوگئی۔
محترم داؤد بھائی
تکرار کی معذرتمعاملہ ذرا پیچیدہ ہے!
صرف نام دینے بدعت کا حکم نہیں لگے گا!
جیسے تراویح جو کہ تہجد و قیام اللیل ہے ، اسے ایک نام دیا گیا، اس امر میں مسئلہ نہیں!
اگر کوئی شروع رات میں تراویح کے بعد آخر رات میں نوافل کو تہجد کا نام دے تو یہ غلط نہیں! بلکہ درست ہے، کہ وہ ہے تہجد ہی!
لیکن تراویح کو تہجد سے خارج قرار دینا باطل ہے!
لیکن دونوں اوقات میں نوافل کا ادا کرنا درست ہے! یہ نوافل بدعت نہیں کہلائیں گے!
میرے سوال کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص تراویح کو تہجد سے بالکل ایک الگ نماز سمجھتا ہے ۔ وہ ایک نئی نماز پڑھتا ہے جو شریعت نے بتلائی نہیں ۔ تو پھر یہ بدعت کیوں نہیں۔ مسئلہ تو اس کو نسبت دینے کا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو اس نام سے ایسے ادا کیا۔ جب کہ آپ کی تحقیق کے مطابق ایسا نہیں ہے۔ اگر کوئی مغرب کو ظہر کہ کر ادا کرے اور رکعتیں مغرب کی ہی پڑھے تو کیا یہ توجیہ قابل قبول ہوگی کہ رکعتیں تو صحیح ادا کیں لیکن نماز میں نام کی نسبت الگ ہوگئی۔
اس کےتحت آپ نے جو حدیث ذکر کی ہے ۔ اگر اس پر عمل کریں تو صحیح عمل تو یہی ہوگا کہ رمضان کے اخیر عشرے میں تروایح جماعت کے ساتھ ادا کریں باقی رمضان گھر میں تہجد ادا کریں۔جی درست! مگر ایک بات کا خیال رہے ؛ جو پہلے بھی آپ کو ہی کہی تھی کہ: