• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان المبارک اور ترویح کے رکعات

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ
محترم داؤد بھائی
معاملہ ذرا پیچیدہ ہے!
صرف نام دینے بدعت کا حکم نہیں لگے گا!
جیسے تراویح جو کہ تہجد و قیام اللیل ہے ، اسے ایک نام دیا گیا، اس امر میں مسئلہ نہیں!
اگر کوئی شروع رات میں تراویح کے بعد آخر رات میں نوافل کو تہجد کا نام دے تو یہ غلط نہیں! بلکہ درست ہے، کہ وہ ہے تہجد ہی!
لیکن تراویح کو تہجد سے خارج قرار دینا باطل ہے!
لیکن دونوں اوقات میں نوافل کا ادا کرنا درست ہے! یہ نوافل بدعت نہیں کہلائیں گے!
تکرار کی معذرت
میرے سوال کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص تراویح کو تہجد سے بالکل ایک الگ نماز سمجھتا ہے ۔ وہ ایک نئی نماز پڑھتا ہے جو شریعت نے بتلائی نہیں ۔ تو پھر یہ بدعت کیوں نہیں۔ مسئلہ تو اس کو نسبت دینے کا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو اس نام سے ایسے ادا کیا۔ جب کہ آپ کی تحقیق کے مطابق ایسا نہیں ہے۔ اگر کوئی مغرب کو ظہر کہ کر ادا کرے اور رکعتیں مغرب کی ہی پڑھے تو کیا یہ توجیہ قابل قبول ہوگی کہ رکعتیں تو صحیح ادا کیں لیکن نماز میں نام کی نسبت الگ ہوگئی۔

جی درست! مگر ایک بات کا خیال رہے ؛ جو پہلے بھی آپ کو ہی کہی تھی کہ:
اس کےتحت آپ نے جو حدیث ذکر کی ہے ۔ اگر اس پر عمل کریں تو صحیح عمل تو یہی ہوگا کہ رمضان کے اخیر عشرے میں تروایح جماعت کے ساتھ ادا کریں باقی رمضان گھر میں تہجد ادا کریں۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
1۔ ایک فریق کا بار بار ضعیف احادیث پیش کرنا ، دوسرے کا بار بار اس کی تردید کرنا ۔ گویا ضعیف حدیث سے استدلال کرنا ہی محل نزاع ہے ۔
درج ذیل حدیث کو ضعیف کہا گیا ہے۔ اس حدیث کا متن صحابہ کرام کےاجماع کے مطابق ہے۔
اس حدیث کے ضعف پر کیا دلائل ہیں؟

مصنف ابن أبي شيبة: كَمْ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ»
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
صرف ۳۰ مسائل نماز سے متعلق نقل کیئے ہیں جن میں احناف اہل مکہ کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ سینکڑوں مسائل موجود ہیں جن میں احناف کا اہل مکہ سے اختلاف ہے ،ہم نے اختصار کے پیشِ نظر ان کا تذکرہ نہیں کیا۔
آپ اختلافی مسائل کے پیچھے پڑ گئے حالانکہ میں نے اتفاقی مسئلہ کی بات کی کہ جس پر خلفاء راشدین سے لے کر اب تک اتفاق تھا اور ہے اس میں رخنہ ڈالنا اور تفرقہ بازی کو ہوا دینا کچھ ٹھیک بات نہیں۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
اس حدیث کے ضعف پر کیا دلائل ہیں؟
مصنف ابن أبي شيبة: كَمْ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنِ الْحَكَمِ، ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ»
257 ـ "ت ق - إبراهيم" بن عثمان بن خواستي أبو شيبة العبسي مولاهم الكوفي قاضي واسط. روى عن خاله الحكم بن عتيبة وأبي إسحاق السبيعي والأعمش وغيرهم. وعنه شعبة وهو أكبر منه وجرير بن عبد الحميد وشبابة والوليد بن مسلم وزيد بن الحباب ويزيد بن هارون وعلي بن الجعد وعدة. قال أحمد ويحيى وأبو داود: "ضعيف", وقال يحيى أيضا: "ليس بثقة", وقال البخاري: "سكتوا عنه", وقال الترمذي: "منكر الحديث", وقال النسائي والدولابي: "متروك الحديث", وقال أبو حاتم: "ضعيف الحديث سكتوا عنه وتركوا حديثه", وقال الجوزجاني: "ساقط", وقال صالح جزرة: "ضعيف لا يكتب حديثه". روى عن الحكم أحاديث مناكير وقال أبو علي النيسابوري: "ليس بالقوي", وقال الأحوص الغلابي وممن روى عنه شعبة من الضعفاء أبو شيبة, وقال معاذ بن معاذ العنبري كتبت إلى شعبة وهو ببغداد أسأله عن أبي شيبة القاضي أروي عنه فكتب إلي لا ترو عنه فإنه رجل مذموم, وإذا قرأت كتابي فمزقه وكذبه شعبة في قصة, وقال عباس الدوري عن يحيى بن معين قال قال يزيد بن هارون ما قضى على الناس رجل يعني في زمانه أعدل في قضاء منه, وكان يزيد على كتابته أيام كان قاضيا, وقال ابن عدي له أحاديث صالحة وهو خير من إبراهيم بن أبي حية. قال قعنب ابن المحرر مات سنة "169". قلت: وقال ابن سعد: كان ضعيفا في الحديث", وقال الدارقطني: "ضعيف", وقال ابن المبارك: "إرم به", وقال أبو طالب عن أحمد: "منكر الحديث قريب من الحسن بن عمارة", ونقل ابن عدي عن أبي شيبة أنه قال: "ما سمعت من الحكم إلا حديثا واحدا".
عنوان الكتاب: تهذيب التهذيب (ط. الهند)
المؤلف: أحمد بن علي بن حجر العسقلاني أبو الفضل شهاب الدين ح
الة الفهرسة: غير مفهرس
الناشر: دارئة المعارف النظامية - الهند
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
257 ـ "ت ق - إبراهيم" بن عثمان بن خواستي أبو شيبة العبسي مولاهم الكوفي قاضي واسط. روى عن خاله الحكم بن عتيبة وأبي إسحاق السبيعي والأعمش وغيرهم. وعنه شعبة وهو أكبر منه وجرير بن عبد الحميد وشبابة والوليد بن مسلم وزيد بن الحباب ويزيد بن هارون وعلي بن الجعد وعدة. قال أحمد ويحيى وأبو داود: "ضعيف", وقال يحيى أيضا: "ليس بثقة", وقال البخاري: "سكتوا عنه", وقال الترمذي: "منكر الحديث", وقال النسائي والدولابي: "متروك الحديث", وقال أبو حاتم: "ضعيف الحديث سكتوا عنه وتركوا حديثه", وقال الجوزجاني: "ساقط", وقال صالح جزرة: "ضعيف لا يكتب حديثه". روى عن الحكم أحاديث مناكير وقال أبو علي النيسابوري: "ليس بالقوي", وقال الأحوص الغلابي وممن روى عنه شعبة من الضعفاء أبو شيبة, وقال معاذ بن معاذ العنبري كتبت إلى شعبة وهو ببغداد أسأله عن أبي شيبة القاضي أروي عنه فكتب إلي لا ترو عنه فإنه رجل مذموم, وإذا قرأت كتابي فمزقه وكذبه شعبة في قصة, وقال عباس الدوري عن يحيى بن معين قال قال يزيد بن هارون ما قضى على الناس رجل يعني في زمانه أعدل في قضاء منه, وكان يزيد على كتابته أيام كان قاضيا, وقال ابن عدي له أحاديث صالحة وهو خير من إبراهيم بن أبي حية. قال قعنب ابن المحرر مات سنة "169". قلت: وقال ابن سعد: كان ضعيفا في الحديث", وقال الدارقطني: "ضعيف", وقال ابن المبارك: "إرم به", وقال أبو طالب عن أحمد: "منكر الحديث قريب من الحسن بن عمارة", ونقل ابن عدي عن أبي شيبة أنه قال: "ما سمعت من الحكم إلا حديثا واحدا".
عنوان الكتاب: تهذيب التهذيب (ط. الهند)
المؤلف: أحمد بن علي بن حجر العسقلاني أبو الفضل شهاب الدين ح
الة الفهرسة: غير مفهرس
الناشر: دارئة المعارف النظامية - الهند
"ضعيف"
"ليس بثقة"
"سكتوا عنه"
"منكر الحديث"
"متروك الحديث"
"ضعيف الحديث سكتوا عنه وتركوا حديثه"
"ساقط"
"ضعيف لا يكتب حديثه"
"ليس بالقوي"

کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ یہ مذکورہ راوی جھوٹا ہے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ یہ مذکورہ راوی جھوٹا ہے؟
جھوٹا ہونا آخری درجہ کی جرح ہے ۔ اوپر جرح کے جو الفاظ ذکر ہوئے ہیں ، اسے ’ جرح مفسر ‘ اور ’ جرح شدید ‘ کہا جاتا ہے ۔ میرے خیال میں بات کو سمیٹنے کی طرف آنا چاہیے نہ کہ الجھانے کی طرف ۔
آپ سیدھا کہہ دیں کہ اس سے متعلق صحیح سند والی روایت ہمارے پاس نہیں ، اور نہ ہی ہم اس کی ضرورت سمجھتے ہیں ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ یہ مذکورہ راوی جھوٹا ہے؟
اس راوی کے متعلق یہ معلوم ہونے کے بعد بھی اس کی روایت سے استدلال کرنے ولا جاہل اور کذاب ہے!
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
جھوٹا ہونا آخری درجہ کی جرح ہے ۔ اوپر جرح کے جو الفاظ ذکر ہوئے ہیں ، اسے ’ جرح مفسر ‘ اور ’ جرح شدید ‘ کہا جاتا ہے ۔
جرح مفسر اسے کہیں گے جس میں جارح کسی کے ضعف کا سبب بتائے۔
اہم بات
جارح بذاتِ خود جرح کی اہلیت رکھتا ہو اور اس کی جرح کو حتمی یقین نہ رکھا جائے۔ کیونکہ اس بات کا بھی وقی امکان ہے کہ جارح کو غلطی لگی ہو یا یہ بھی امکان ہے کہ جارح متعصب ہو۔
المیہ
ابتدا میں کسی نے جرح کی اور بعد والوں نے آنکھیں بند کر کے اسے نقل کر دیا اور مرحوم البانی صاحب (اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے) نے تو ایسی حدیثوں کو ہی الگ کر دیا!!!!!!
حقیقت
محدثین کرام بعض احادیث کو ذکر کرکے لکھتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے مگر اہل علم کے ہاں عمل اس پر ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ضعیف راوی کے لئے لازم نہیں آتا کہ وہ ہر ہر حدیث میں ٹھوکر ہی کھا رہا ہو۔
حدیث کا اصل متن ہے۔ جس روایت میں ضعیف راوی ہو اس کے متن پر غور کرنا چاہیئے (للہ خوض نہیں کرنا)۔
واللہ اعلم بالصواب
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
آپ سیدھا کہہ دیں کہ اس سے متعلق صحیح سند والی روایت ہمارے پاس نہیں ، اور نہ ہی ہم اس کی ضرورت سمجھتے ہیں ۔
سب سے پہلی بات یہ کہ اس کو بطور دلیل نہیں بلکہ اس ضمن میں پیش کیا جارہا ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ کو بدعت کی تہمت سے بچایا جائے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ خلفائے راشدین کسی امر پر جب تک ان کے پاس نص نہ ہو صحابہ کرام کو اس پر جمع نہیں کر تے تھے۔
ایک صاف اور سیدھی بات کو الجھانے کی کوشش اچھی بات نہیں۔ بیس (20) تراویح ایک ایسا عمل ہے جو تسلسل اور تواتر کے ساتھ اب تک چلا آرہا ہے جسے ایک خلیفہ راشد نے اس شکل و صورت میں رواج دیا۔ اس پر کسی دیگر ثبوت کی ضرورت ہی نہیں۔ ہاں البتہ کسی کے پاس ثبوت ہو کہ یہ فلاں وقت میں شروع ہوئی نہ کہ خلفاء کے زمانہ سے تو وہ پیش کرے کیوں خواہ مخواہ لوکوں کو پریشان کر رکھا ہے۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اس راوی کے متعلق یہ معلوم ہونے کے بعد بھی اس کی روایت سے استدلال کرنے ولا جاہل اور کذاب ہے!
جناب کا یہ اصول صرف اسی راوی کے لئے ہے یا تمام ضعیف روات کے لئے بھی؟
 
Top