محمد عثمان بھائی
میرے خیال میں جلدی میں جملہ الٹ لکھ دیا ہے:
ویسے عجیب بات ہے کہ "با سند احادیث" کو "بے سند تاریخ" پر ترجیح دی جا رہی ہے۔
لکھنا چاہیئے تھا ’‘ بے سند تاریخ کو با اسناد احادیث پر ترجیح دی جارہی ہے ۔ ’‘
اور یہ پورا تھریڈ دراصل تین ،چار ،باتوں پر مشتمل ہے ۔
(۱) حجیت حدیث (۲) اسناد حدیث کا مقام (۳) تاریخ کی حیثیت (۴)مجہول نوعیت کی ’‘ درایت’‘
اور ان موضوعات پر بحث تقریباً ایک صدی سے پاک و ہند میں اس وقت سے جاری ہے جب سے مستشرقین نے احادیث کے متعلق
تشکیک کی مہم ’’تحقیق ‘‘ کے نام سے شروع کی ہے۔
اور ہندوستانی غلاموں کا ذہن ان غیر مسلم مستشرقین کی بکواسات کو حرف آخر سمجھتا تھا ۔
اس لئے یہاں ’’چٹو ‘‘اور ’‘ چکڑالوی ’‘ اور پرویز ’‘ جیسے ابن سباء کےپیرو پیدا ہوئے،