• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایات- حَوْأَبِ کے کتے اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (ایک تحقیقی جائزہ)

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
متعلقہ صفحات پیش خدمت ہیں بصورت پی ڈی ایف:
السلام و علیکم -

قدیم مورخ ابو الفرج بن قدامہ بن جعفر متوفی (٢٩٠ھ) (اس حواب کے کتے والی روایت پر اس کا کوئی تبصرہ موجود نہیں) -اس نے اپنی ایک کتاب "الخراج سنعتہ الکتبہ" میں ان راستوں کی تمام منازل لکھی ہیں جو مکہ یا مدینہ سے بصرہ یا کوفہ کو جاتے تھے- اس نے مکہ سے بصرہ کے بیچ میں کل ٢١ منزلیں بیان کی ہیں لیکن کہیں بھی "حواب " نام کی نہ کوئی بستی کا ذکر ہے اور نہ ہی اس نام کا کوئی ٹھہرنے کا مقام ہے- (یاد رہے کہ ام المومین حضرت عائشہ رضی الله عنہ خون عثمان رضی الله عنہ کے سلسلے میں حضرت علی رضی الله عنہ سے مصالحت کے لئے مکہ سے بصرہ کے لئے روانہ ہوئیں تھیں) - قابل ذکر بات یہ ہے کہ مذکورہ روایات میں "حواب یا الحواب" کا نام بکثرت آیا ہے- لیکن قدیم تاریخی کتابوں اور جدولوں میں اس نام کا کوئی مقام موجود ہی نہیں ہے - جو اس بات کو دلیل فراہم کرتا ہے کہ یہ واقعہ ضعیف و من گھڑت ہے - اس کے علاوہ اس واقعہ میں اور بھی بہت سی علتیں ہیں جو پہلے بیان کی جا چکی ہیں- (واللہ اعلم)-
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
ویسے عجیب بات ہے کہ "با سند احادیث" کو "بے سند تاریخ" پر ترجیح دی جا رہی ہے۔ عقل تو اس بات تسلیم کرتی ہے کے جیسے 10 مختلف لوگ ایک لمبے سفر میں آنے والے مقامات میں اختلاف کر سکتے ہیں، کوئی ایک مقام کم تو کوئی ذیادہ تفصیل سے بتاتا ہے، تو احادیث کی بنیاد پر اس راستے میں ایک مقام کا اضافہ کر لیا جائے۔ مگر یہ تب ہو سکتا ہے جب دل و دماغ آزاد ہو کر سوچیں۔
اس سلسلہ کے ایک "محقق" صاحب نے صحیح البخاری کی احادیث کو تاریخ کے میزان میں تول کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی عمر بوقت نکاح کی روایات کا انکار کیا ہے۔ صحیحین سے باہر کی احادیث کے راویوں پر جرح تو ایک بہانہ ہے ان لوگوں کے ذہن میں تشکیک ڈالنے کے لیئے جن کو فن جرح و تعدیل کا خاص علم نہیں، اگر مسئلہ ان کے فہم کے خلاف ہو جائے تو بخاری و مسلم کی احادیث کو بھی نہیں چھوڑا جاتا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
محمد عثمان بھائی
میرے خیال میں جلدی میں جملہ الٹ لکھ دیا ہے:
ویسے عجیب بات ہے کہ "با سند احادیث" کو "بے سند تاریخ" پر ترجیح دی جا رہی ہے۔
لکھنا چاہیئے تھا ’‘ بے سند تاریخ کو با اسناد احادیث پر ترجیح دی جارہی ہے ۔ ’‘
اور یہ پورا تھریڈ دراصل تین ،چار ،باتوں پر مشتمل ہے ۔
(۱) حجیت حدیث (۲) اسناد حدیث کا مقام (۳) تاریخ کی حیثیت (۴)مجہول نوعیت کی ’‘ درایت’‘
اور ان موضوعات پر بحث تقریباً ایک صدی سے پاک و ہند میں اس وقت سے جاری ہے جب سے مستشرقین نے احادیث کے متعلق
تشکیک کی مہم ’’تحقیق ‘‘ کے نام سے شروع کی ہے۔
اور ہندوستانی غلاموں کا ذہن ان غیر مسلم مستشرقین کی بکواسات کو حرف آخر سمجھتا تھا ۔
اس لئے یہاں ’’چٹو ‘‘اور ’‘ چکڑالوی ’‘ اور پرویز ’‘ جیسے ابن سباء کےپیرو پیدا ہوئے،
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ویسے عجیب بات ہے کہ "با سند احادیث" کو "بے سند تاریخ" پر ترجیح دی جا رہی ہے۔ عقل تو اس بات تسلیم کرتی ہے کے جیسے 10 مختلف لوگ ایک لمبے سفر میں آنے والے مقامات میں اختلاف کر سکتے ہیں، کوئی ایک مقام کم تو کوئی ذیادہ تفصیل سے بتاتا ہے، تو احادیث کی بنیاد پر اس راستے میں ایک مقام کا اضافہ کر لیا جائے۔ مگر یہ تب ہو سکتا ہے جب دل و دماغ آزاد ہو کر سوچیں۔
اس سلسلہ کے ایک "محقق" صاحب نے صحیح البخاری کی احادیث کو تاریخ کے میزان میں تول کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی عمر بوقت نکاح کی روایات کا انکار کیا ہے۔ صحیحین سے باہر کی احادیث کے راویوں پر جرح تو ایک بہانہ ہے ان لوگوں کے ذہن میں تشکیک ڈالنے کے لیئے جن کو فن جرح و تعدیل کا خاص علم نہیں، اگر مسئلہ ان کے فہم کے خلاف ہو جائے تو بخاری و مسلم کی احادیث کو بھی نہیں چھوڑا جاتا۔
محدثین و مجتہدین کے ہاں روایات کو جن اصولوں پر پرکھا جاتا تھا ان اصولوں میں تاریخی حقائق کو لازماً مدنظر رکھا جاتا تھا اور اس کی اہمیت سے پہلو تہی نہیں کی جاتی تھی - ہمارے ہاں تاریخی حقائق کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہی ہے کہ مختلف گروہوں کی طرف سے کبھی صحابیات رضوان الله اجمعین پر انگلی اٹھتی ہے تو کبھی کسی معتبر صحابی اور ان کے ساتھیوں کو باغی قرار دے دیا جاتا ہے- تو کبھی خلیفہ سوم رضی الله عنہ پر خلافت کے معاملے میں ان کو عدم ذمہ دارقرار دے دیا جاتا ہے- تو کبھی ٦١ ہجری کی خلافت کرنے والوں کو بے وقوف کہا جاتا ہے اور ان سے پناہ مانگی جاتی ہے -تو کبھی کربلا سے متعلق ایسے افسانے گھڑے جاتے ہیں کہ جن کا نہ کوئی سر ہوتا ہے اور نہ پیر -کبھی خلافت کو بادشاہت قرار دے دیا جاتا ہے - تو کبھی یہ باور کرایا جاتا ہے کہ معتبر صحابہ کرام ممبر پر بیٹھ کر اہل بیعت کو گالیاں دیا کرتے تھے- اور اس سب کا فائدہ ایک گروہ خوب اٹھاتا ہے -
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
محمد عثمان بھائی
میرے خیال میں جلدی میں جملہ الٹ لکھ دیا ہے:

لکھنا چاہیئے تھا ’‘ بے سند تاریخ کو با اسناد احادیث پر ترجیح دی جارہی ہے ۔ ’‘
اور یہ پورا تھریڈ دراصل تین ،چار ،باتوں پر مشتمل ہے ۔
(۱) حجیت حدیث (۲) اسناد حدیث کا مقام (۳) تاریخ کی حیثیت (۴)مجہول نوعیت کی ’‘ درایت’‘
اور ان موضوعات پر بحث تقریباً ایک صدی سے پاک و ہند میں اس وقت سے جاری ہے جب سے مستشرقین نے احادیث کے متعلق
تشکیک کی مہم ’’تحقیق ‘‘ کے نام سے شروع کی ہے۔
اور ہندوستانی غلاموں کا ذہن ان غیر مسلم مستشرقین کی بکواسات کو حرف آخر سمجھتا تھا ۔
اس لئے یہاں ’’چٹو ‘‘اور ’‘ چکڑالوی ’‘ اور پرویز ’‘ جیسے ابن سباء کےپیرو پیدا ہوئے،
جزاک اللہ بھائی، صحیح بات ہے، قرآن و حدیث پر جب بھی کوئی اعتراض دیکھتا ہوں تو خون کھولنے لگتا ہے، اور اسی جذباتی کیفیت میں ،اعتدال کو مد نظر رکھتے ہوئے، کبھی کبھی جملہ الٹ لکھ بیٹھتا ہوں۔۔۔ اللہ آپکو جزائے خیر دے۔ آمین۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
محترم -

پہلے آپ بتائیں کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام کے دونوں عمل جو قرآن مجید میں بیان ہوے ہیں - ان کو کیا کہنا چاہیے؟؟؟- کیوں جو لنک میں نے آپ کو فراہم کیا تھا- اس میں کذب کے عربی میں مختلف مفاہیم ہیں- جیسے لفظ مولا ایک حدیث کے مطابق حضرت علی رضی الله عنہ کے لئے بولا گیا ہے - لیکن قرآن کریم میں یہی لفظ "مولا یا مولانا" الله کی ذات کے لئے بھی بولا گیا ہے- کیوں کہ اس کا مفہوم مختلف جگہوں پر مختلف ہیں - اب آگر "کذب" سے مراد صرف ایک ہی معنی یعنی "حقیقی جھوٹ " کے لیے جائیں یا لیے جانے چاہییں تو یہ اعتراض والی بات بن سکتی ہے-
پھر وہی بات کہ عرض کی گئی تھی کہ لفظ کذب کو قرآن میں کن معنوں میں کہا گیا ہے اور ایک بار پھر آپ نے لیکچر لفظ مولاہ پر ارشاد فرمادیا لیکن ایک بات تو ہے کہ قرآن میں لفظ مولاہ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی آیا اور اللہ کے نیک بندوں کے لئے بھی اور زرخرید غلام کے آقا یا مالک کے لئے بھی آیا ہے

آپ سے ایک بار پھر سے گذارش ہے کہ آپ یہ ارشاد فرمادیں کہ لفظ کذب قرآن میں کن معنوں میں آیا ہے ؟؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
پھر وہی بات کہ عرض کی گئی تھی کہ لفظ کذب کو قرآن میں کن معنوں میں کہا گیا ہے اور ایک بار پھر آپ نے لیکچر لفظ مولاہ پر ارشاد فرمادیا لیکن ایک بات تو ہے کہ قرآن میں لفظ مولاہ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی آیا اور اللہ کے نیک بندوں کے لئے بھی اور زرخرید غلام کے آقا یا مالک کے لئے بھی آیا ہے

آپ سے ایک بار پھر سے گذارش ہے کہ آپ یہ ارشاد فرمادیں کہ لفظ کذب قرآن میں کن معنوں میں آیا ہے ؟؟؟
محترم -

قران میں تو کذب کا مطلب 'غلط بیانی یا جھوٹ' کے زمرے میں ہی آیا ہے (واللہ اعلم) - لیکن ضروری نہیں کہ قرآن میں عربی کا لفظ جن معنی میں استمعال ہوا ہے - عام عربی بول چال میں بھی صرف وہی مطلب اخذ ہو - احادیث نبوی میں لفظ 'کذب' ان معنی میں نہیں استمعال نہیں ہوا جن معنی میں قرآن میں ہے -سب جانتے ہیں کہ عربی بڑی فصیح زبان ہے اور ایک لفظ کے اس زبان میں کئی کئی معنی ہوتے ہیں- پھر آپ نے یہ بھی نہیں بتایا کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام کے جو دو فعل قران میں بیان ہوے ہیں ان کو عربی میں کن الفاظ سے تعبیرکرنا چاہیے تھا -؟؟؟
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
قابل ذکر بات یہ ہے کہ مذکورہ روایات میں "حواب یا الحواب" کا نام بکثرت آیا ہے- لیکن قدیم تاریخی کتابوں اور جدولوں میں اس نام کا کوئی مقام موجود ہی نہیں ہے - جو اس بات کو دلیل فراہم کرتا ہے کہ یہ واقعہ ضعیف و من گھڑت ہے - اس کے علاوہ اس واقعہ میں اور بھی بہت سی علتیں ہیں جو پہلے بیان کی جا چکی ہیں- (واللہ اعلم)-
حواب بصرہ کے راستے کا ایک نخلستان ہے۔ حواب بنت کلب بن وبرہ کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے اس جگہ کا نام حواب مشہور ہو گیا (معجم البلدان: جلد2 صفحہ 314، لمؤلف: ياقوت بن عبد الله الحموي الرومي البغدادي شهاب الدين أبو عبد اللہ۔بحوالہ عبد اللہ ابن سبا، صدر اسلام میں اسکی فتنہ انگیزیاں اور ان کے اثرات، مولف: سلیمان بن حمد العودہ)
کتاب کے بارہ میں:
"كتاب معجم البلدان, موسوعة شهيرة للأديب والشاعر الشيخ الإمام شهاب الدين أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الحموي الرومي البغدادي .كتبها بين أعوام 1220 و 1224 میلادیۃ۔



 
Top