ۡۡ
جناب عالی، اسطرح تو اس حدیث کے نچلے راویوں یعنی یحیی اور اسمعیل بن ابی خالد پر ایک زبردست آبجیکشن لگ سکتی ہے، کیونکہ انکو اپنے شیخ (استاد) کی تاریخ وفات کا ہی صحیح نہیں پتا، اور اگر ایسا ہی ہی معاملہ ہے تو وہ پھر جنگ جمل کی رپورٹنگ کیسے صحیح کرسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ طبقات ابن سعد ، جسکا اسکین گزشتہ مراسلہ میں اپلوڈ کیا گیا تھا، اسکے مدون کردہ مورخ اور محدث، علامہ محمد بن سعد، ایک ثقہ مورخ و محدث مانے جاتے ہیں، لیکن
ابن سعد اگرچہ خود تو بڑے قابل اعتماد مورخ ہیں مگر وہ محمد بن عمر الواقدی کے شاگرد ہیں جنہیں محدثین نے نہایت ہی ضعیف قرار دیا ہے۔ اس وجہ سے ابن سعد کی وہ روایات جو واقدی کے توسط سے منقول ہیں، قابل اعتماد نہیں مانی جاتی ہیں
اور یہ روایت جو انہوں نے قیس بن ابی حازم کی قادسیہ میں شہادت کی دی ہے، اس میں واقدی کا عنصر شامل نہیں ہے۔
برائے کرم ذرا اس اشکال کو بھی تو دور کریں
یعنی استاد ضیف اور شاگرد قابل اعتماد چلو کوئی بات نہیں
اب زرا طبقات ابن سعد کا آپ کا پیش کیا ہوا اسکین ملاحظہ کرتے ہیں
اسماعیل بن ابی خالد کہتے کہ میں قیس کو یہ کہتے سنا کہ وہ قادسیہ کی جنگ میں شہید ہوئے
یعنی یہ قیس بن ابی حازم کی کرامت ہے کہ وہ خود ہی اسماعیل بن ابی خالد سے کہہ رہے ہیں میں یعنی قیس بن ابی حازم قادسیہ کی جنگ میں شہید ہوا
ہےنا دلچسپ اور عجیب بات
لیکن جب ہم ابن سعد کی
الطبقات الكبرى الكبرى
جوکہ طبقات ابن سعد کے نام سے مشہور ہے کا عربی متن دیکھتے ہیں تو پھر یہ عقد کھلتا ہے کہ اردو ترجمہ میں کیا ڈنڈی ماری گئی ہے آپ بھی عربی متن کو ملاحظہ فرمائیں
قيس بن أبي حازم
واسمه عوف بن عبد الحارث بن عوف بن حشيش بن هلال بن الحارث بن رزاح بن كلب بن عمرو بن لؤي من أحمس وقد روى قيس بن أبي حازم عن أبي بكر وعمر وعثمان وعلي وطلحة والزبير وسعد بن أبي وقاص وعبد الله بن مسعود وخباب وخالد بن الوليد وحذيفة وأبي هريرة وعقبة بن عامر وجرير بن عبد الله وعدي بن عميرة وأسماء بنت أبي بكر وقد شهد القادسية قال أخبرنا عبد الله بن الزبير الحميدي قال حدثنا سفيان بن عيينة عن إسماعيل بن أبي خالد قال سمعت قيسا يقول إنه شهد القادسية قال فخطبنا خالد بن الوليد بالحيرة وأنا فيهم قال محمد بن سعد وإنما أراد أنه حضر مع خالد بن الوليد أول أمر العراق حين صالح خالد أهل الحيرة وهذا كله ينسب إلى القادسية قال أخبرنا عمرو بن عاصم الكلابي قال حدثنا عمر بن أبي زائدة قال رأيت قيس بن أبي حازم يخضب بالصفرة قال أخبرنا وكيع بن الجراح عن أبن أبي خالد عن قيس بن أبي حازم أنه أوصى أن يسل من قبل رجليه قال محمد بن عمر توفي قيس بن أبي حازم في آخر خلافة سليمان بن عبد الملك
یعنی یہ عقد کھلا کہ یہاں شہید نہیں بلکہ شھد القادسیہ ہے جس کا معنی ہوتا ہے کہ جنگ قادسیہ میں حاضر تھا اور بھائی لوگوں نے اردو ترجمہ میں ماری گئی ڈنڈی کو بنیاد بنا کر صفحے کے صفحے کالے کردئے کیونکہ ہر وہابی یہ سمجھتا ہے کہ میرے مولوی نے اس کا ترجمہ کیا اس لئے ٹھیک ہوگا یعنی قول امام پر اس درجہ اعتماد کہ کسی وہابی نے اوریجنل عربی متن دیکھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی
وہابی بڑے عالم بنے پھرتے ہیں جو ترجمہ بھی صحیح نہیں کرتے