نہیںکیا طبقات ابن سعد کی ہر روایت کو صحیح مانا جائے گا؟
نہیںکیا طبقات ابن سعد کی ہر روایت کو صحیح مانا جائے گا؟
جزاک الله - بلکل صحیح فرمایا -آپ جناب کے نزدیک تو ہر وہ شخص ناصبی ہے جو خلفائے ثلاثہ سے محبت رکھتا ہے۔ بلکہ یہ تو پورا فورم ہی "ناصبیوں" سے بھرپور ہے۔ اب بات کو غلط رنگ میں مت لے جائے گا کہ ہمیں سیدنا علی رضی اللہ سے بالکل بھی محبت نہیں ہے، یہ تو آپکی بات کا ایک جواب تھا جو عرض کیا گیا
ذرا یہ بھی ثابت کردیجئے کہ قیس بن ابی حازم ناصبی کسطرح تھا؟؟؟ کبھی آپ اس کو تابعین میں شمار کرتے ہیں اور کبھی ناصبی کہتے ہیں- جبکہ بقول اہل تشیع کے علماء کے- اس ناصبیت کا آغاز تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت کے دور میں شروع ہوا تھا- اور کچھ مورخین کے نزدیک پہلی صدی کے آواخر میں اموی دور میں اس کا آغازہوا (واللہ اعلم)-ابی حازم ناصبی تھا اور ناصبی ہونے کے باوجود وہ یہ روایت بیان کررہا ہے حیرت انگیز بات ہے یعنی یہ ناصبی اپنے عقائد کے برخلاف ایک روایت بیان کررہا ہے پھر جانے کیوں ایسے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ اہل سنت (یہاں اہل سنت لکھا ہے وہابی نہیں )کے اصول حدیث کے مطابق ثقہ بدعتی کی وہ روایت قبول نہیں کی جائے جو اس کے عقائد کو تقویت دے یا اس کے عقائد کی دعوت دے لیکن یہاں اس کے بلکہ الٹ ہے ۔
مزید اس روایت پر بھی تبصرہ کر دیجئے کہ جو اس بات کی نفی کررہی ہے کہ "قیس بن ابی حازم" ناصبی تھا -ابی حازم ناصبی تھا اور ناصبی ہونے کے باوجود وہ یہ روایت بیان کررہا ہے حیرت انگیز بات ہے یعنی یہ ناصبی اپنے عقائد کے برخلاف ایک روایت بیان کررہا ہے پھر جانے کیوں ایسے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ اہل سنت (یہاں اہل سنت لکھا ہے وہابی نہیں )کے اصول حدیث کے مطابق ثقہ بدعتی کی وہ روایت قبول نہیں کی جائے جو اس کے عقائد کو تقویت دے یا اس کے عقائد کی دعوت دے لیکن یہاں اس کے بلکہ الٹ ہے ۔
مطلب یہ میں نے پہلے ہی شبہ کا اظہار کردیا تھا کہ یہاں کچھ ترجمہ کا مسئلہ لگ رہا ہے۔ اور اسکے بعد "صاحبان علم" سے گزارش بھی کی تھی کہ اس معاملے میں غور کریں۔ اب اگر اللہ نے آپکو علم سے نوازا ہی تھا تو یہاں ترجمہ کی اس غلطی کو پہلے ہی پوائینٹ آؤٹ کردیتے اور عربی ایڈیشن سے صحیح عبارت لگا دیتے۔ لیکن افسوس، جن کو صاحبان علم ہونے کا گمان ہے، وہ ہی آج کل غرور میں آجاتے ہیں۔ خیر ایسی غلطی اور تراجم کی ڈنڈیاں تو اہل تشیع حضرات میں کامن ہے، اس معاملے میں خیرسے آپ لوگ بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ مثال کے طور پرایک ریفرنس کے سلسلے میں طبقات ابن سعد کو دیکھنے کا موقع ملا، تو اس میں کوفہ کے صحابہ اور تابعین کے والی جلد میں مجھے
قیس بن ابی حازم، جو حواب کے واقعے کے مرکزی راوی ہیں، کے متعلق یہ معلومات ملیں۔
10794 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اب اس اسکین کے مطابق، قیس بن ابی حازم، جنگ قادسیہ میں شہید ہوگئے تھے۔ جنگ قادسیہ جو سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ عنہکے عہد خلافت میں سن 14 ہجریمیں لڑی گئی تھی، اس میں ان راوی کی شہادت کا تذکرہ موجود ہے، اور یہ بات انکے شاگرداسمعیل بن ابی خالد،جو خود کلاب الحواب کی روایت کے دوسرے راوی ہیں، بتا رہے ہیں۔ اسی اسکین کے آخر میں دوسرے صفحے پر (صفحہ نمبر 68) محمد بن عمرو کے حوالے سے یہ بات بھی کی گئی ہے کہ قیس کی وفات اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی خلافت کے آخری دنوں میں ہوئی۔ اب یا تو یہ ترجمہ کی غلطی لگ رہی ہے کہ "شریک" کی جگہ "شہید" لکھا گیا ہےیا پھر اسکے معنی شہید کے ہی ہیں۔ یعنی قیس بن ابی حازم کی وفات جنگ قادسیہ ہی میں ہوئی تھی۔ پھر دوسری بات بے معنی مانی جائے گی۔
اب اسکے حوالے سے ہے کہ قیس بن ابی حازم کی شہادت اگر جنگ قادسیہ میں ہی ہوئی، تو انکا جنگ جمل میں ہونا تو قطعی غیر یقینی ہوگیا ہے، کیونکہ جنگ جمل بالتفاق سن 36 ہجری میں لڑی گئی تھی۔ جبکہ میں اوپر بیان کرچکا ہوں کہ قادسیہ کی جنگ 14 ہجری کو لڑی گئی تھی۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ یہ روایت "کلاب الحواب" وضع کی گئی ہوگی کیونکہ اسکا مرکزی راوی، قیس بن ابی حازم تو اس واقعے میں شریک ہی نہیں تھا۔ ایک بات اور بھی بتادو کہ قیس بن ابی حازم پر ایک الزام مدلس ہونے کا بھی ہے، جو مطابق علل الحدیث وا معارف الرجال والتاریخ جلد اول صفحہ 164 پر لکھا ہوا ہے۔
صاحبان علم سے گزارش ہے کہ اس معاملے پر ذرا غور کریں۔
جزاک الله متفق-@بہرام صاحب، آپ نے یہ میرا مراسلہ بغور دیکھا تھا، یا بغیر دیکھے ہی عورتوں کی طرح کوسنے دینے لگ گئے
مطلب یہ میں نے پہلے ہی شبہ کا اظہار کردیا تھا کہ یہاں کچھ ترجمہ کا مسئلہ لگ رہا ہے۔ اور اسکے بعد "صاحبان علم" سے گزارش بھی کی تھی کہ اس معاملے میں غور کریں۔ اب اگر اللہ نے آپکو علم سے نوازا ہی تھا تو یہاں ترجمہ کی اس غلطی کو پہلے ہی پوائینٹ آؤٹ کردیتے اور عربی ایڈیشن سے صحیح عبارت لگا دیتے۔ لیکن افسوس، جن کو صاحبان علم ہونے کا گمان ہے، وہ ہی آج کل غرور میں آجاتے ہیں۔ خیر ایسی غلطی اور تراجم کی ڈنڈیاں تو اہل تشیع حضرات میں کامن ہے، اس معاملے میں خیرسے آپ لوگ بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر
ذیل کا اسکین دیکھئے۔ اس میں نہج البلاغہ مکتبوب نمبر ۵۸کا ترجمہ شیعاوں کے ایک بہت بڑے علامہ "السید ذیشان حیدر جوادی" نے کچھ اسطرح کیا ہے
اصل خطبہ :الظاہر انّ ربّنا واحد و نبیّنا واحد و دعوتنا فی الاسلام واحدۃ لا نستزیدہم فی الایمان باللّٰہ والتصدیق برسولہ ولا یستزیدوننا
رافضی ترجمہ :جب بظاہر دونوں کا خدا ایک تھا، رسول ایک تھا، پیغام ایک تھا، نہ ہم اپنے ایمان و تصدیق مین اضافہ کے طلبگار تھے اور نہ وہ اپنے ایمان کے بڑھانہ چاہتے تھے
اصلی ترجمہ: ظاہر ہے کہ ہمارا رب ایک ہے، ہمارے نبی ایک ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے میں نہ ہم ان سے زیادہ ہیں اور نہ وہ ہم سے زیادہ ہیں ہماری اور ان کی دینی حالت ایک جیسی ہے
10916 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اب یہاں پر لفظ "بظاہر" اور "ظاہر" ہے میں شیعاوں نے ذبردست ڈنڈی ماری، کیونکہ ظاہر ہے الفاظ سے سیدنا علی رض کا مقصد یہ تھا کہ معاویہ رض اور اہل شام، مسلمان ہی ہیں اور انکے درمیان ناتفاقی دو مسلم بھائیوں کے درمیان ہونے والی ناتفاقی میں شمار ہوتی ہے۔ جبکہ رافضی ترجمہ میں "بظاہر" کے لفظ سے تشبیہ دی گئ کہ خدانخواستہ معاویہ رض اور اہل شام کافر ہیں۔
یہ میں نہیں کہہ رہا کہ ابی حازم ناصبی تھا بلکہ آپ ہی کے ہم عقیدہ وہابی کہتے ہیں میرے پاس بخاری کی ایک سوفٹ ویئر ہے جو وہابیوں نے بنائی ہے اس میں کسی راوی کے نام پر کلک کرنے سے اس راوی کے بارے میں معلومات کی ایک ونڈو آجاتی ہے اور جب میں قیس بن ابی حازم کے نام پر کلک کیا تو وہاں یہ معلومات درج تھیںذرا یہ بھی ثابت کردیجئے کہ قیس بن ابی حازم ناصبی کسطرح تھا؟؟؟ کبھی آپ اس کو تابعین میں شمار کرتے ہیں اور کبھی ناصبی کہتے ہیں- جبکہ بقول اہل تشیع کے علماء کے- اس ناصبیت کا آغاز تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت کے دور میں شروع ہوا تھا- اور کچھ مورخین کے نزدیک پہلی صدی کے آواخر میں اموی دور میں اس کا آغازہوا (واللہ اعلم)-
اس روایت کا اگر عربی متن بھی پیش کردیا جائے تو مہربانی ہوگیمزید اس روایت پر بھی تبصرہ کر دیجئے کہ جو اس بات کی نفی کررہی ہے کہ "قیس بن ابی حازم" ناصبی تھا -
قیس بن ابی حازم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ چہرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے پوچھا‘ آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ ’’ میں نے آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ
پل صراط پر سے صرف وہی گزر کر جنت میں جائے گا جس کو علی وہاں سے گزرنے کا پروانہ دیں گے۔‘‘ اس پر سیدنا علی رضی اﷲ عنہ ہنسنے لگے اور فرمایا‘ اے ابوبکر ! آپ کو بشارت ہو۔ میرے آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ (اے علی!) پل صراط پر سے گزرنے کا پروانہ صرف اسی کو دینا جس کے دل میں ابوبکر کی محبت ہو۔‘‘ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ ج۲:۵۵ امطبوعہ مصر)-
اب آپ کے تمام اشکال دور ہوگئے ہونگے اور اب تو مسئلہ آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا اب ارشاد فرمائیں کہ روایت کلاب حواب صحیح ہے یا نہیں یا اب بھی صحابہ پرستی میں وہی کہیں گے کہ "مرغے کی ایک ٹانگ "@بہرام صاحب، آپ نے یہ میرا مراسلہ بغور دیکھا تھا، یا بغیر دیکھے ہی عورتوں کی طرح کوسنے دینے لگ گئے
مطلب یہ میں نے پہلے ہی شبہ کا اظہار کردیا تھا کہ یہاں کچھ ترجمہ کا مسئلہ لگ رہا ہے۔ اور اسکے بعد "صاحبان علم" سے گزارش بھی کی تھی کہ اس معاملے میں غور کریں۔ اب اگر اللہ نے آپکو علم سے نوازا ہی تھا تو یہاں ترجمہ کی اس غلطی کو پہلے ہی پوائینٹ آؤٹ کردیتے اور عربی ایڈیشن سے صحیح عبارت لگا دیتے۔
وعن قيس بن أبي حازم قال: التقى أبو بكر الصديق وعلي بن أبي طالب فتبسم أبو بكر في وجه علي فقال له علي: ما لك تبسمت؟ فقال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: "لا يجوز أحد الصراط إلا من كتب له علي بن أبي طالب الجواز" فضحك علي وقال: ألا أبشرك يا أبا بكر؟ قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم: "لا يكتب الجواز إلا لمن أحب أبا بكر" خرجه ابن السمان.[الرياض النضرة في مناقب العشرة ]۔اس روایت کا اگر عربی متن بھی پیش کردیا جائے تو مہربانی ہوگی