• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایات- حَوْأَبِ کے کتے اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (ایک تحقیقی جائزہ)

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
وعلیکم السلام بھائی @محمد عثمان

بھائی یہ جو @محمد علی جواد بھائی نے اس "حواب" والی روایت کے خلاف اتنا سخت رویہ رکھا ہوا ہے، اسکا سبب کیا ہے، وہ میں آپ کو بتاتا ہوں، اور یہ بھی دیکھئے کہ ہمارے "اہل سنت علماء" نے ہی یہاں کیا کیا گل کھلائے ہیں، یہ حدیث دیکھئے، اسی واقعے سے متعلق
) یہ حدیث ام سلمہ رض سے یوں روایت کی گئی ہے :
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے بعض امہات مؤمنین(اپنی بیویوں) کے باہر نکلنے کے بارے میں یاددہانی کی ، عائشہ نے اس پر مذاق اڑایا، حضرت نے اس سے مخاطب ہوکر فرمایا : اے حمیرا ! :خبر دار، کہیں ان میں سے تم ہی نہ ہو، اے حمیرا : گویا میںدیکھ رہاہوںکہ حواٴب کے کتے تم پر بھونک رہے ہیں ، اس وقت تم علی بن ابیطالب سے جنگ کروگی جبکہ تم ظالم ہوگی
سیوطی نے خصائص، ج ۲/ ۱۳۷ ، ابن عبد البر نے عائشہ کی تشریح میں استیعاب میں یہ روایت نقل کی گئی ہے ۔ اس کے بعد کہا گیا ہے : یہ روایت نبوت کی نشانیوں میں سے ہے ۔


اب بتائے کہ کیا یہ علامہ جلال الدین سیوطی صاحب اور حافظ عبدالبر صاحب کیا علمائے اہل تشیع میں شمار ہوتے ہیں؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کیا اس معاملے میں خطا پر تھے اور ظالم تھے، حالانکہ یہ دونوں تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ، خلیفہ مظلوم کی شہادت کے قصاص کے لئے نکلے تھے۔ پھر انکے ساتھ سیدنا زبیر اور سیدنا طلحہ رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی موجود تھے؟ کیا انکو بھی قصاص شرعی لینے کے سلسلے میں خطاوار ٹہرایا جائے گا؟ یہی حدیث جب ہمارے سنی علماء بتاتے ہیں تو غالبا اسی حصے کو بڑھا چڑھا کر بتایا جاتا ہے، اور اس پر تو بہت زور دیا جاتا ہے کہ "

یہ روایت نبوت کی نشانیوں میں سے ہے "۔ توثابت یہ ہوا کہ سیدہ عائشہ رض کو نعوذباللہ جب تک خطا وار اور ظالم نہ ٹھرایا جائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نشانیاں ہی ظاہر نہیں ہونگی۔
لاحول ولا قوۃ الا باللہ

کیسا سنگین مذاق ہے جو اس امت کے لئے اسطرح کی حدیثوں کو لاکر بار بار کھیلا جارہا ہے۔ اور شکوہ ہمیں یہاں غیروں سے نہیں بلکہ اپنوں سے ہی ہے۔ پھر جب کوئی ایسے ہی حدیثوں کو لیکر (نعوذ باللہ۔ العیاذ باللہ) "عائشہ ۔ فاحشہ" کا نعرہ لگاتا ہے، تو ہم بلاوجہ اسکو گالیاں دینے لگتے ہیں۔
جزاک الله -

آپ کی بات حق ہے- انہی روایتوں کو من و عن قبول کرنے کا نتیجہ ہے کہ اہل سنّت میں بھی باطل مسالک کے نظریات کے ترویج عام ہوتی جا رہی ہے -
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
لیکن ہمارے ”طبقہء اہلِ حدیث“کا ”ایمانِ کامل“ہے کہ ”محدثینِ کرامؒ“نے ”دودھ کا دودھ“اور ”پانی کا پانی “ کر دیا ہے اور اب ہمارا ”یہی“ فرض ہے کہ ”آنکھیں بند“کر کے ان ”روایات“کو ”من وعن “ مان لیں جو ”اصولِ حدیث“کی رو سے ”صحیح“ ہو اور بس ۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
جزاک الله -

آپ کی بات حق ہے- انہی روایتوں کو من و عن قبول کرنے کا نتیجہ ہے کہ اہل سنّت میں بھی باطل مسالک کے نظریات کے ترویج عام ہوتی جا رہی ہے -
جزاک اللہ بھائی، ویسے آپ تھوڑا سا تحمل سے سوچیں تو احادیث کو من و عن قبول کرنے سے اہل سنت میں باطل مسالک کے نظریات کی ترویج نہیں ہوئی، بلکہ احادیث کو اپنے خود ساختہ اصولوں پر رد کرنے کی وجہ سے اہل سنت میں باطل نظریات کی ترویج ہوئی ہے۔ مثلاَ کاندھلوی صاحب کو دیکھ لیں، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو صحابی نہیں مانتے، انکی صحابیت کی احادیث و روایات کا انکار کر دیا، شیعوں نے اصحاب رسول کے فضائل میں وارد احادیث کا انکار کیا، سر سید احمد نے عقل کے خلاف احادیث کا انکار کیا، مرزا قادیانی نے رفع و نزول عیسی اور ختم نبوت میں وارد احادیث کا انکار کیا، پرویز نے سر سید کی تقلید کی اور احادیث کا مزاق اڑایا، امین احسن اصلاحی نے معتزلہ کی پیروی میں اخبار احاد کا عقیدہ میں انکار کیا اور آج کل غامدی صاحب کی گل فشانیاں آپ کے سامنے ہیں۔
انکار حدیث اور احادیث میں تشکیک پیدا کر کہ انکار کا راستہ ہموار کرنا ہی در حقیقت باطل نظریات کی ترویج کا سبب ہے محترم بھائی، والسلام۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
جزاک اللہ بھائی، ویسے آپ تھوڑا سا تحمل سے سوچیں تو احادیث کو من و عن قبول کرنے سے اہل سنت میں باطل مسالک کے نظریات کی ترویج نہیں ہوئی، بلکہ احادیث کو اپنے خود ساختہ اصولوں پر رد کرنے کی وجہ سے اہل سنت میں باطل نظریات کی ترویج ہوئی ہے۔ مثلاَ کاندھلوی صاحب کو دیکھ لیں، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو صحابی نہیں مانتے، انکی صحابیت کی احادیث و روایات کا انکار کر دیا، شیعوں نے اصحاب رسول کے فضائل میں وارد احادیث کا انکار کیا، سر سید احمد نے عقل کے خلاف احادیث کا انکار کیا، مرزا قادیانی نے رفع و نزول عیسی اور ختم نبوت میں وارد احادیث کا انکار کیا، پرویز نے سر سید کی تقلید کی اور احادیث کا مزاق اڑایا، امین احسن اصلاحی نے معتزلہ کی پیروی میں اخبار احاد کا عقیدہ میں انکار کیا اور آج کل غامدی صاحب کی گل فشانیاں آپ کے سامنے ہیں۔
انکار حدیث اور احادیث میں تشکیک پیدا کر کہ انکار کا راستہ ہموار کرنا ہی در حقیقت باطل نظریات کی ترویج کا سبب ہے محترم بھائی، والسلام۔
محمد عثمان بھائی - آپ امام بخاری رحم الله اور امام احمد بن حمبل رحم الله کی پیش کردہ ان احادیث کے بارے میں کیا کہیں گے -



بخاری نے ثابت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی خلافت کے لیے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صدیق سب سے زیادہ مستحق تھے اسی لیے آپ نے مختلف مواقعوں پر اس کی طرف اشارہ فرمایا۔


ترجمہ: ’’۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے ارادہ کیا کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بیٹے کو بلا کر ان کے (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے) حق میں وصیت کردوں کہ کہیں کچھ مُدّعی اور آرزو مند پیدا نہ ہو جائیں لیکن پھر میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اور مومنین، ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی اور کو پسند نہ کریں گے ‘‘۔

(ترجمہ حدیث بخاری ص۔ ۱۰۷۲ جلد نمبر ۲)

اسی طرح امام بخاری ایک خاتون کی حدیث لائے۔

ترجمہ: ’’۔۔۔جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔ آپ نے ان کو (کچھ دن بعد) پھر آنے کا حکم دیا۔ ان خاتون نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں پھر آؤں اور آپ کو نہ پاؤں؟ گویا وہ یہ کہنا چاہتی تھیں کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہوں تو کیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلی جانا ‘‘۔

(ترجمہ حدیث بخاری صح۵۱۶، جلد۔۱)

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری بیماری میں حکم دیا کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دو کہ میری جگہ لوگوں کی امامت کریں۔

ترجمہ: ’’۔۔۔ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور جب آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کا مرض شدید ہوگیا تو آپؐ نے فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے صاحب ان کے پاس آئے پس (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں لوگوں کی امامت کر کے نماز پڑھائی ‘‘

(ترجمہ حدیث بخاری ص۔ ۹۳، جلد ۔۱)

بخاری نے علی رضی اللہ عنہ کی زبان سے بھی ثابت کردیا کہ ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کی اُمید نہیں تھی اور وہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی افضلیت کو جانتے اور مانتے تھے۔


ترجمہ: ’’۔۔۔علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم، مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بیماری میں وفات پاجائیں گے کیونکہ میں بنو عبدالمطلب کے مرنے والوں کے چہرے پہچانتا ہوں تو اے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آؤ چلیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرلیں کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ کون ہوگا اگر خلافت ہمارے خاندان میں رہنے والی ہے تو ہمیں علم ہو جائے گا اور اگر کسی دوسرے کے لیے ہوگی تو ہم آپ صلّی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرلیں گے اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم وصیت کر جائیں گے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اللہ قسم! اگر ہم نے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم سے خلافت کے بارے میں سوال کیا اور آپؐ وصیت کر جائیں گے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اللہ قسم! اگر ہم نے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم سے خلافت کے بارے میں سوال کیا اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے منع کردیا تو لوگ ہمیں کبھی بھی خلیفہ نہ بنائیں گے ۔ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی بھی خلافت کے بارے میں سوال نہ کروں گا ‘‘۔

(ترجمہ حدیث بخاری صحیح ۹۲۷، جلد۔۲)

لیکن مسند احمد بن حنبل کی روایت بیان کرتی ہے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلافت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں نہیں تھے بلکہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم خلیفہ بنانا چاہتے تھے اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کو امید تھی کہ وہی خلیفہ ہوں گے اس لیے امورِ خلافت کے بارے میں انہیں وصیت بھی کی یہ اور بات کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بعض حضرات نے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پر عمل نہ ہونے دیا اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وصی رسول اللہ اور خلیفہ بلافصل نہ بن سکے۔

ترجمہ: ’’۔۔۔علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے علی! اگر تم میرے بعد خلیفہ بنو تو اہلِ نجران کو جزیرہ عرب سے نکال دینا ‘‘۔

(ترجمہ روایت مسند احمد بن حنبل ص۔۸۷ ، جلد ۔۱)



وصیتِ (امامت) رُسول صلّی اللہ علیہ وسلم اللہ کا مسئلہ
بخاری اس وصیت کی بات کو شدّت کے ساتھ رد کرنے کے لیے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاا کی حدیث لائے ہیں۔

ترجمہ: ’’۔۔۔الاسود کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاا کے پاس لوگوں نے ذکر کیا کہ کیا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا وصی ہونے کی وصیت کی تھی؟ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاا نے فرمایا کہ آخر کس وقت ان کے متعلق یہ وصیّت کی؟ میں تو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے سے یا اپنی گود سے تکیہ لگائے ہوئے تھی کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا طشت مانگا اور میری گود میں جھک پڑے مجھے تو معلوم بھی نہ ہوا کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو بتاؤ کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کب وصیت کی؟

(ترجمہ حدیث بخاری ص۔۳۸۲، جلد۔۱)

بخاری ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاف اشارے کے سلسلے میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کی حدیث لائے ہیں۔

ترجمہ: باب ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دروازے کے سوا مسجد میں کھلنے والے سارے دروازے بند کردیئے جائیں ‘‘۔

ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ رویات کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے تقریر فرمائی اور کہا کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو انتخاب کرنے کا موقع دیا کہ وہ دنیا کو پسند کرتا ہے یا اس چیز کو جو اللہ کے پاس ہے پس اس بندے نے اس چیز کو پسند کیا جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ‘‘۔
یہ سن کر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رو پڑے ہم لوگوں کو ان کے رونے پر تعجب ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بندے کا واقعہ بیان کررہے ہیں جس کو ان دو چیزوں میں سے انتخاب کرنے کا موقع دیا گیا ہے آخر اس میں رونے کی کیا بات ہے (لیکن جب نبی ؐ کی وفات ہو گئی) تب ہم سمجھے کہ وہ بندے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے، اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم سب میں سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ سب سے زیادہ اپنی صحبت اور اپنے مال سے مجھ پر احسان کرنے والے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ، اگر میں کسی کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ خلیل بناتا تو بے شک ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بناتا، لیکن اسلام کی اخوت اور مودّت کافی ہے۔
مسجد کے اندر کھلنے والے سارے دروازے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دروازے کے علاوہ بند کردیئے جائیں ‘‘ ۔


(ترجمہ حدیث بخاری ص۔ ۵۱۶، جلد۔۱ )

اس حدیث کے مقابلہ میں مسند احمد کی روایت یہ ہے ۔

ترجمہ: ’’زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب کے دروازے مسجد نبوی میں کھلتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن حکم دیا کہ علی کے دروازے کے علاوہ سارے دروازے بند کردو، تو لوگوں نے اس حکم میں کلام کیا۔
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کی پھر فرمایا’’امّابعد ! پس میں نے حکم دیا کہ سارے دروازے بند کردیئے جائیں سوائے علی کے دروازے کے، اور اس سلسلے میں تم میں سے کہنے والے نے کچھ کہا (اعتراض کیا) اللہ کی قسم! میں نے نہ تو کوئی چیز بندکی اور نہ کھولی، مگر اس وقت جب مجھے حکم دیا گیا کسی بات کا اور تب میں نے اس کی پیروی کی ‘‘۔


(ترجمہ روایت مسند احد بن حنبل ص۔۳۶۹، جلد۔۴)

ہجرت مدینہ بخاری


ہجرت مدینہ کا واقعہ اور بخاری و مسند احمد بن حنبل کا الگ الگ بیان۔

ترجمہ: ’’۔۔۔۔ ابن شہاب عروہ کے واسطے سے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں کہ ہم لوگ ایک دن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں ٹھیک دوپہر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کہنے والے نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ دیکھو وہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم منہ پر چادر ڈالے تشریف لارہے ہیں۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ آمد ایسے وقت تھی کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت تشریف نہیں لایا کرتے تھے ۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میرے ماں باپ ان پر قربان واللہ ضرور کوئی خاص بات ہے جب ہی تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم اس وقت تشریف لائے ہیں۔
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دے دی گئی۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم اندر آگئے اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اپنے پاس سے اوروں کو ہٹا دو۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میرا باپ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم پر قربان ، یہاں تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے اہل کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم پر قربان ! کیا مجھے بھی رفاقت کا شرف حاصل ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔
اب ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم پر قربان آپ صلّی اللہ علیہ وسلم دو اونٹنیوں میں سے ایک لےلیجئے۔ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا مگر قیمت دے کر ۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاا کہتی ہیں کہ ہم نے ان دونوں حضرات کے لیے جلدی میں جو تیار ہوسکتا تیار کردیا اور ہم نے ان کے لیے ایک چمڑے کی تھیلی میں کھانا رکھدیا اور میری بہن اسماء بنتِ ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ازار بند کا ایک ٹکڑا کاٹ کر تھیلی کے منہ کو بند کردیا اسی لیے ان کا ذاتُ النّطاق (ازار بند والی) لقب ہوگیا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جبلِ ثور کے غار میں پہنچ گئے اور اس غار میں تین دن چھپے رہے۔


(ترجمہ حدیث بخاری ص۔ ۵۵۳، جلد۔۱)

بخاری کی حدیث بیان کرتی ہے کہ ہجرت مدینہ کے وقت شروع سے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے مگر مسند احمد کی روایت کہتی ہے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہجرت کی بالکل خبر نہ تھی اور ان کو اس وقت معلوم ہوا جب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو بتلایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر گئے اور مجھے اپنے بستر پر لٹا گئے ہیں۔ (تاکہ مشرکین ، دھوکا کھا جائیں)

روایت یہ ہے ۔

ترجمہ: ’’۔۔۔۔عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ تُف ہے ان پر جو ایسے شخص (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی برائی کررہے ہیں جس کی دس مشہور فضیلتیں ہیں ان میں سے ایک یہ کہ انہوں نے (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے اللہ کی رضا کے لیے اپنی جان بیچ دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس پہن کر ان کی جگہ (ہجرت مدینہ کے موقع پر) ان کے بستر پر سو گئے۔ مشرک رات کو رسول اللہ علیہ وسلم پر پتھراؤ کیا کرتے تھے۔ اس رات ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورہے تھے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمجھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ! علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسم تو بئرمیمون کی طرف چلے گئے ہیں۔ ان سے جاکر مل جایئے۔ پس ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روانہ ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں داخل ہو گئے۔ اب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتھر مارے جانے لگے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مارے جاتے تھے ۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تڑپ اٹھتے اور بل کھاتے تھے انہوں نے اپنے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپ رکھا تھا چہرہ باہر اس وقت تک نہ نکالا جب تک صبح نہ ہو گئی۔ پھر چہرے سے کپڑا ہٹایا مشرکوں نے کہا کہ بدبخت تم ہو۔ تمہارے صاحب پر ہم پتھراؤ کرتے تھے اور وہ بل تک نہیں کھاتے تھے۔ اور تم کانپ کانپ رہے تھے۔ ہم نے اس کو سخت ناپسند کیا ‘‘۔

(ترجمہ روایت مسند احمد ص۔۳۳۱، جلد۔۱)

اس طرح مسند احمد نے بتلایا کہ ہجرت کے معاملے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر راز میں رکھا تھا کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس وقت پتہ چلا جب انہوں نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بسترِ نبویؐ پر سوتے ہوئے پاکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھا اور اے نبی اللہ کہہ کر خطاب کیا اس وقت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتلایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بئرمیمون کی طرف گئے ہیں تب ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر غارِ ثور میں داخل ہوئے۔


۹ ہجری میں حج کی امارت کا مسئلہ

بخاری نے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری روز میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے واضح اشارے فرما دیئے تھے۔ اور ۹ ہجری میں جنگ تبوک سے واپس ہوتے ہوئے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر حج بنا کر مکّے روانہ کردیا تھا پھر جب سورہ برأت کی آیتیں اتریں تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان آیتوں کے احکام کا اعلان عام کرنے کے لیے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس مکّے بھیج دیا اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے اصحاب کے ساتھ مل کر اعلان کیا۔


لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

مسند احمد کی روایتیں بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر ضرور بنایا تھا مگر جب سورہ برأت کی آیتیں اتریں تو آپ ؐ نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معزول کر کے واپس بلالیا اور اپنے قریب ترین فرد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر بنایا۔

بخاری اور مسند احمد کی دونوں دونوں روایتیں سامنے ہیں۔

ترجمہ: ’’۔۔۔۔ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے اس حج میں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حجتہ الوداع سے پہلے امیر بنایا تھا ایک جماعت کے ساتھ بھیجا تاکہ ہم لوگوں میں یہ اعلان کردیں کہ اس سال کے بعد نہ تو کوئی مشرک حج کرسکے گا اور نہ کعبہ کا برہنہ طواف۔
حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ وہ سورۃ برأۃ کا اعلان کریں۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا پس علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمارے ساتھ مل کر منیٰ میں یوم النحر برأت کا اعلان کیا کہ نہ حج کرے اس سال کے بعد کوئی مشرک اور نہ خانہ کعبہ کا برہنہ طواف ہو۔


(ترجمہ حدیث بخاری ص۔ ۶۷۱، جلد۔۲)

ان حدیثوں کے مقابلے میں مسند احمد بن حنبل کی روایتیں یہ ہیں۔

ترجمہ: ’’۔۔۔۔علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ برأت کی دس آیتیں نازل ہوئیں تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوایا اور مکّے بھیجا تاکہ انہیں مکّے والوں کو پڑھ کر سنا دیں۔ پھر مجھے (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جلد جاکر ملو اور جہاں بھی ملو ان سے کتاب لے لینا اور تم خود اہل مکّہ کے پاس لے جانا اور پڑھ کر سنانا۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں ان (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے حجفہ میں ملا اور کتاب لے لی۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (مدینے ) لوٹ آئے۔
انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا میرے متعلق کچھ نازل ہوا ہے ارشاد فرمایا، نہیں لیکن جبرئیل میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ کی طرف سے دوسرا کوئی شخص ہرگز قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم خود جائیں یا اس کو بھیجیں جو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم میں سے ہو ‘‘۔

(ترجمہ روایت مسند احمد بن حنبل ص۔۱۵۱، جلد۔۱)

یہ روایت ثابت کرتی ہے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ’’رجلُ منک ‘‘ (وہ شخص جو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم میں سے ہو) میں سے نہیں تھے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ایسے شخص تھے۔


مسند نے دوسری روایت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صدیق کی زبانی لاکر یہی بات ثابت کردی کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی صلّی اللہ علیہ وسلم نے معزول کر کے فرمایا کہ مجھے یہ حکم ملا ہے کہ ان آیتوں کی تبلیغ میں خود کروں یا وہ شخص جو مجھ سے ہو۔ (رجل منّی)



ترجمہ: ’’۔۔۔۔ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں برأت کا یہ اعلان کرنے کے لیے مکے والوں کے پاس بھیجا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک نہ تو حج کرنے کے لیے آئے اور نہ برہنہ (حالت میں) خانہ کعبہ کا طواف کرے۔ جنّت میں مسلم شخص کے علاوہ کوئی اور داخل نہ ہوگا۔ وہ شخص جس کے درمیان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کسی مدّت کا معاہدہ ہے تو وہ معاہدہ اس مدت تک باقی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ مشرکین سے بری ہے اور اس کا رسول بھی۔
پھر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا وہ تین دن چلتے رہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ جاؤ جاکر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مل جاؤ اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میرے پاس بھیج دو۔ اور تم خود اس اعلان کو مکّے والوں تک پہنچاؤ۔
پس علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا ہی کیا اور جب وہ (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے تو روئے اور کہا کہ اے رسول اللہ! کیا میرے بارے میں کوئی نئی بات واقع ہوئی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، تمہارے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ بھی واقع نہیں ہوا۔ لیکن مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ان کو کوئی اور نہ پہنچائے۔ مگر ‘میں’ یا وہ شخص جو مؔ سے ہو ‘‘۔


(ترجمہ روایت مسند احمد بن حنبل ص۔۳ ، جلد۔۱)


عثمان رضی اللہ عنہ اور قرآن میں تحریف کامسئلہ


کہنے والے کہتے ہیں کہ موجودہ قرآن وہ قرآن نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا تھا موجودہ قرآن میں صرف چھ ہزار کے قریب آیتیں ہیں حالانکہ اصلی قرآن جو جبرئیل علیہ السلام لے کر آئے تھے اور جسے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرتب کر کے اپنے بعد کے آنے والے آئمہ کے سپرد کردیا تھا اور جو اب صرف بارہویں امام ’’المہدی ‘‘ کے پاس ایک غار میں موجود ہے (۱۷۰۰۰) سترہ ہزار آیتیں تھیں ۔ اس اصلی قرآن میں مسئلہ امامت کا ہر جگہ بیان تھا اسی میں سورۃ علی، سورۃ فاطمہ، حسن و حسین نامی سورتیں بھی تھیں لیکن لوگوں نے کاٹ چھانٹ کر کے ان کو نکال کر موجودہ قرآن مرتب کردیا ۔

اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہ بات کیسے ممکن ہے ! جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود لے لیا ہے۔

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ


’’ہم نے ہی قرآن (الذّکر) کو نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں ‘‘۔ (الحجر آیت ۔۹)

اُمّت کی اکثریت اجماع ہے کہ قرآن کی آیتوں اور سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی (اللہ کی طرف سے) ہے۔

بخاری روایت کرتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے بعد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے سے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زید بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ قرآن کی آیتوں کو جمع کر کے ایک مُصحف (کتابی شکل میں) مرتب کریں۔ انہوں نے اس پر عمل کیا اور یہ مصحف ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس محفوظ رہا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اور پھر ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس۔ پھر اسی مصحف کو حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لے کر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی نقول سارے صوبوں کو بھیج کر حکم دیا کہ اب اسی نسخے کے مطابق قرأت کی جائے، اور دوسرے تمام مصحف جلا دیئے جائیں۔

ترجمہ: ’’۔۔۔۔یہ نسخہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کی وفات تک رہا، پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اور پھر حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس۔ حذیفہ بن الیمان ارمینیہ اور آذربائیجان کی جنگوں میں شریک تھے۔ وہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس واپس آئے انہوں نے ان جنگوں میں دیکھا کہ مجاہدین قرأت قرآن کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں انہوں نے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہاکہ اے امیر المومنین! اس امّت کی خبر لیجئے اس سے پہلے کہ لوگ کتاب (قرآن) میں اس طرح اختلاف کریں جیسے یہود و نصاریٰ نے کیا تھا۔ عثمان نے ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہلوایا کہ قرآن کا وہ سرکاری نسخہ جوان کے پاس (عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد) محفوظ ہے بھیج دیں۔ اس کی نقلیں کرانے کے بعد، وہ ان کو واپس کردیا جائے گا۔ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ نسخہ بھیج دیا۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سعید بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبدالرحمٰن بن الحارث ابن ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کو نقلیں کرنے کا حکم دیا۔ ان چار حضرات میں سے صرف زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ انصاری تھے باقی تینوں حضرات قریشی تھے۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تینوں کو یہ ہدایت کی کہ جب زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہسے تمہارا اختلاف ہو، تو اس کو قریش کی زبان میں لکھنا کیونکہ قرآن مجید قریش کی زبان میں اترا ہے۔ غرض اِن حضرات نے (اس سرکاری) قرآن کی نقلیں کیں۔ اور ان نسخوں میں سے ایک ایک نسخہ ہر صوبے کو بھیج دیا گیا۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا کہ (قرآن کو اس نسخے کے مطابق پڑھا جائے اور ) باقی نسخے جلادیئے جائیں ‘‘

(ترجمہ حدیث بخاری ص۔۷۴۶، جلد۔۲)

پھر بخاری حدیث لائے کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن کو جس شکل میں پایا تھا اس میں ذرّہ برابر بھی ردوبدل نہیں کیا۔

ترجمہ: ’’۔۔۔۔عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں (کہ جب قرآن کی نقلیں تیار کی جارہی تھیں تو) میں نے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ سورۃ البقرۃ کی یہ آیت وَالَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنۡكُمْ وَیَذَرُوۡنَ اَزْوَاجًا ۚۖ وَّصِیَّۃً لِّاَزْوَاجِہِمۡ مَّتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَیۡرَ اِخْرَاجٍ ۚ کو تو دوسری آیت (جو اس سے پہلے سورۃ البقرۃ میں آچکی ہے) وَالَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنۡكُمْ وَیَذَرُوۡنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًا ۚ نے منسوخ کردیا ہے تو پھر آپ اس کو کیوں لکھواتے ہیں۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ اے بھتیجے میں قرآن کی کسی چیز کو اس کی جگہ سے نہیں ہٹاؤ ں گا ‘‘

(ترجمہ حدیث بخاری ص۔۶۵۱، جلد۔۲)

اب مسند احمد بن حنبل کی روایت دیکھئے۔
(عکس روایت مسند احمد بن حنبل ص۔۵۷، جلد۔۱)

(یہ مسند احمد میں سندِ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی روایت ہے)

ترجمہ: ’’۔۔۔۔یزید (الفارسی) کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ اس کا کیا سبب ہے کہ آپ نے انفال کو جو مثانی (قرآن کی بار بار پڑھی جانے والی چھوٹی سورتوں) میں سے ہے اور برأت کو جو مائین (بڑی سورتوں) میں سے ہے ملا دیا اور ان کے درمیان ایک سطر میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بھی نہیں لکھی اوراُس کو سبع طوال (سات لمبی سورتوں) میں رکھ دیا کس چیز نے آپ کو اس بات پر آمادہ کیا؟ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض اوقات کئی کئی سورتیں نازل ہوتی تھیں اور جب آپ صلّی اللہ علیہ وسلم پر کوئی چیز نازل ہوتی تھی تو آپ کا تبانِ وحی میں سے بعض کو بلا کر فرمادیتے تھے کہ اِس کو اُس صورت میں رکھ دو جس میں ان باتوں کا ذکر ہے، اور اس کے بعد جو نازل ہوتا اس کے متعلق بھی یہی فرماتے ۔ سورۃ الانفال قیام مدینہ کے ابتدائی زمانہ میں نازل ہوئی تھی، اور سورۃ برأت قرآن کا آخری حصہ ہے جو نازل ہوا اور دونوں کے قصّے ملتے جلتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو یہ نہیں بتایا کہ یہ (سورۃ الانفال) اس (سورۃ برأت) میں سے ہے۔ میں نے گمان کیا کہ یہ اسی میں سے ہے اس وجہ سے میں نے ان دونوں کو ملا دیا اور بیچ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی سطر بھی نہیں لکھی۔ اس روایت کے رادی ابن جعفر نے یہ اضافہ بھی کیا کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اور میں نے اس کو سبع طوال میں رکھ دیا ‘‘۔

(ترجمہ روایت مسند احمد بن حنبل ص۔۵۷، جلد۔۱)

بخاری روایت کریں کہ قرآن کی ترتیب ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوگئی تھی اور قرآن کا وہ سرکاری نسخہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور پھر ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس محفوظ تھا اس کی صرف نقلیں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے مملکتِ اسلامیہ میں بھیج دی گئیں تھیں اور یہ روایت بیان کرتی ہیں کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کا قرآن کی ترتیب میں دخل ہے انہوں نے اس میں تصّرف بھی کیا ہے اور یہ بھی کہ قرآن کی ترتیب جو خالص توقیفی (اللہ کی طرف سے) مانی جاتی ہے صحیح نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ دِیْنَکُمْ اور یہ کہ ’’ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ‘‘۔ یہ بھی محلِ نظر ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرآن کی ترتیب کے سلسلے میں پورا حکم دیئے بغیر وفات پاگئے اور قرآن صحیح طور پر مکمل نہ ہوسکا۔ خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُمہات المومنین ، سارے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے زمانے میں اسی (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مرتب کردہ) قرآن کو پڑھتے رہے اور کوئی کھٹک پیدا نہ ہوئی۔ دراصل یہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پردہ میں خود قرآن کریم پروار ہے اور کہا جارہا ہے کہ قرآن کریم میں تصرّف ہوا ہے اور ضرور ہوا ہے اور چونکہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسخے کی نقلیں کرائی تھیں اس لیے یہ سلسلہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گزر کر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے اور اس طرح لوگوں کا یہ الزام کہ فلاں، فلاں اور فلاں نے اصلی قرآن میں کتر بیونت کر کے اپنے مفاد کے خلاف جو خاندانِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آئمہ کے بارے میں مواد تھا۔ اس کو قرآن سے نکال دیا ہے۔


اس طرح خفلفاء ثلاثہ پر قرآن میں تحریف اور تصّرف کا الزام ثابت کرتے ہوئے مسند احمد بن حنبل کی روایتوں نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضلیت کی ترتیب بھی بدل ڈالی۔

بخاری نے ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث لاکر ثابت کیا ہے کہ وہ تین حضرات جن کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔

ترجمہ: ’’۔۔۔۔ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے حکم دیا کہ میں دروازہ کی دربانی کروں پھر ایک صاحب آئے اور اندر آنے کی اجازت مانگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو اجازت دے دو اور جنّت کی خوشخبری بھی سنا دو۔ میں دیکھتا ہوں تو وہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ پھر ایک دوسرے صاحب آئے۔ انہوں نے بھی اندر آنے کی اجازت مانگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اجازت دے دو۔ اور جنّت کی خوشخبری بھی سنا دو۔ دیکھتا کیا ہوں کہ وہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ پھر ایک تیسرے صاحب صاحب نے اجازت طلب کی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا کہ اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنادو (دنیا میں) ایک بڑی آزمائش کے بعد ، میں نے دیکھا کہ وہ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ‘‘۔

(ترجمہ حدیث بخاری ص۔۵۲۲، جلد۔۱)

لیکن مسند کی روایت بیان کرتی ہے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد رسول اللہ علیہ وسلم عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بجائے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنے کی بے قرار کے ساتھ دُعا کرتے رہے یہاں تک کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے۔

ترجمہ: ’’۔۔۔۔جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس اب ایک جنتی شخص آئیں گے۔ پس ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے۔ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے پاس اب ایک جوان آئیں گے۔ جو جنّتی ہیں۔ پس عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے۔ پھر آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس ایک جنّتی شخص آئیں گے اور پھر دعا کہ اے اللہ ! اس آنے والے کو علی بنا دے۔ اے اللہ اس آنے والے کو علی بنا دے! پس علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے ‘‘۔

(ترجمہ روایت مسند احمد بن حنبل ص۔۳۸۰، جلد۔۳)

ترجمہ: ’’۔۔۔۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے زمانے میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے۔ پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو، پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو، اس کے بعد ہم اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیتے تھے اور ان میں باہم کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتے تھے ‘‘۔

(ترجمہ حدیث بخاری ص۔۵۲۲، ۵۲۳)

بخاری نے ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث لاکر ثابت کیا ہے کہ وہ تین حضرات جن کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔


ترجمہ: ’’۔۔۔۔ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے حکم دیا کہ میں دروازہ کی دربانی کروں پھر ایک صاحب آئے اور اندر آنے کی اجازت مانگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو اجازت دے دو اور جنّت کی خوشخبری بھی سنا دو۔ میں دیکھتا ہوں تو وہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ پھر ایک دوسرے صاحب آئے۔ انہوں نے بھی اندر آنے کی اجازت مانگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اجازت دے دو۔ اور جنّت کی خوشخبری بھی سنا دو۔ دیکھتا کیا ہوں کہ وہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ پھر ایک تیسرے صاحب صاحب نے اجازت طلب کی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا کہ اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنادو (دنیا میں) ایک بڑی آزمائش کے بعد ، میں نے دیکھا کہ وہ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ‘‘۔ (ترجمہ حدیث بخاری ص۔۵۲۲، جلد۔۱)

لیکن مسند کی روایت بیان کرتی ہے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد رسول اللہ علیہ وسلم عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بجائے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنے کی بے قرار کے ساتھ دُعا کرتے رہے یہاں تک کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے۔


ترجمہ: ’’۔۔۔۔جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس اب ایک جنتی شخص آئیں گے۔ پس ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے۔ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے پاس اب ایک جوان آئیں گے۔ جو جنّتی ہیں۔ پس عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے۔ پھر آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس ایک جنّتی شخص آئیں گے اور پھر دعا کہ اے اللہ ! اس آنے والے کو علی بنا دے۔ اے اللہ اس آنے والے کو علی بنا دے! پس علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے ‘‘۔

(ترجمہ روایت مسند احمد بن حنبل ص۔۳۸۰، جلد۔۳)

ترجمہ: ’’۔۔۔۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے زمانے میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے۔ پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو، پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو، اس کے بعد ہم اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیتے تھے اور ان میں باہم کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتے تھے ‘‘۔

(ترجمہ حدیث بخاری ص۔۵۲۲، ۵۲۳، )




 
Last edited by a moderator:

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
محترم @محمد عثمان بھائی
آپ کا بات کا انکار نہیں کرتا، کہ ہم سب کو صحیح حدیث سے انکار نہیں کرنا چاہئے، بلکہ اس پر ہونے والے رافضیوں کے باطل اعتراضات کو رد کرنا چاہئے۔ لیکن یہ بھی اصول ہمارے محدثین کرام نے ہمیں بتایا ہے کہ اگر کسی حدیث سے کسی صحابی کی تنقیص ثابت ہورہی ہو یا تو اسکو رد کرو، یا پھر اسکی مناسب تاویل کرو، اسی دھاگے پر محترم جواد بھائ نے علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کا ایک اصول بتایا تھا کہ

علامہ ابن جوزی رح کہتے ہیں کہ "جو روایت درایت کے معیار پر پوری نہیں اترتی وہ روایت اگر صحیح بھی ہو تو یا تو اس کی تاویل کی جائے گی یا اس کو رد کردیا جائے گا- سقہ راوی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غلطی نہیں کر سکتا"

تو عزیز برادر، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ واقعہ حواب والی روایت، سیدہ عائشہ رض کی شان میں تنقیص نہیں کرتی؟ اگر نہیں کرتی تو ذرا آپ مجھے بھی بتادیں کہ کسطرح یہ حدیث، دلائل نبوہ میں شمار ہوتی ہے؟ آپ اس حدیث سے کیا مراد لیتے ہیں؟ اور اس حدیث کا پس منظر کیا ہے؟

رہا سوال آپکا جو اپ نے سورۃ تحریم کی ان آیات کے بارے میں کہا تھا

[QUOTE="محمد عثمان, post: 212093, member: 1362

"اے نبی آپ کیوں حرام کرتے ہیں جو الله نے آپ کے لیے حلال کیا ہے آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے" سورۃ تحریم، 1

"اگر تم دونوں الله کی جناب میں توبہ کرو تو (بہتر) ورنہ تمہارے دل تو مائل ہو ہی چکے ہیں اور اگر تم آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تو بے شک الله آپ کا مددگار ہے اور جبرائیل اور نیک بخت ایمان والے بھی اور سب فرشتے اس کے بعد آپ کے حامی ہیں" سورۃ تحریم-5
[/QUOTE]

تو محترم بھائی، ان آیات کے ذریعے تو ہمیں یہ ہرگز پتہ نہیں چلتا کہ ان میں وہ کونسی "دو بیویاں" شامل تھیں اور ایسا کونسا انہوں نے "راز" افشا کردیا، جس پر انکو تنبیہ کی گئی؟ یہ انکشاف بھی ہمیں روایات ہی بتاتی ہیں جو تفسیر اور حدیثوں کی کتابوں میں درج ہیں کہ ان میں کون کون سی نبی ﷺ کی ازواج رضی اللہ عنھن شامل تھیں اور وہ راز کیسا تھا۔ یہ میں نہیں ہرگز کہہ رہا کہ ان روایات کو بھی ہم یکسر مسترد کردیں، لیکن ایک تقابلے والی بات یہاں عرض کررہا ہوں۔ اللہ کو ان دو ہستیوں کی عزت کا پردہ رکھنا تھا، چاہے انکی جیسی بھی حرکت تھی، اللہ نے ان دو خاتونوں کا احترام کرتے ہوئے اپنی مقدس کتاب میں انکا نام تک ہرگز نہیں بتایا، بس انکو یہ تنبیہ دی اور ساتھ ہی میں یہ بھی بتادیا کہ اگر وہ اس حد سے آگے بڑھیں تو انکے ساتھ یہ یہ ہوسکتا ہے۔ اب یہ بھی حقیقت ہے کہ سیدہ عائشہ رض اور سیدہ حفضہ رض (جیسا ہمیں صحیح روایات بتاتی ہیں) کو اللہ کی یہ تنبیہ پہنچی تو انہوں نے اسی ذمن میں اللہ سے معافی بھی مانگی اور توبہ بھی کی، اور اللہ ہی نے انکو معاف بھی کیا۔ جسکا ثبوت یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے انکو طلاق دی ہی نہیں، بلکہ اپنے آخری ایام انکے ہی گھر گزارنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا اور آج تک وہ وہیں آرام فرما ہیں جہاں سیدہ عائشہ رض کا گھر تھا۔

اسکے برعکس اگر آپ ان احادیث کو دیکھئے، تو اسمیں تو سراسر سیدہ عائشہ رض کا نام لیا گیا ہے اور انکو ایک ایسے معاملے میں خطاوار کہاجارہا ہے کہ جسکی بنیاد بھی خود قران میں ہی رکھی گئی تھی، یعنی قصاص عثمان رض۔ اور اگر آپکو صلح حدیبیہ کا واقعہ اچھی طرح یاد ہے تو یہ بھی پتہ ہوگا کہ عثمان رض کا قصاص لینا تو خود آنحضرت ﷺ کی سنت تھی، جسکو انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ عثمان رض کا کہہ کر تمام صحابہ کرام رض سے اس معاملے میں بیعت کی۔ تو بتائیے کہ اس معاملے میں سیدہ عائشہ رض یا وہ تمام صحابہ کرام رض کیسے غلط ہوسکتے ہیں، جنہوں نے حدیبیہ کے مقام پر قصاص عثمان رض کے لئے آنحضرت ﷺ سے بیعت کی تھی۔ اب یہ تو اللہ تعالیٰ ہی کو پتہ تھا کہ اس وقت سیدنا عثمان رض بحافظت قریش کے ہاتھوں بچ جائے گے، لیکن یہ شہادت انکا آگے کے زمانے میں مقدر ہوگی۔ تو صحابہ کرام اور امہات المومنین رض کا جو موقف تھا، اس بیعت کے نظریے کی رو سے ہر گز غلط نہ تھا۔

باقی بھائی آپکی باتیں بھی درست ہیں، ہمیں ہر حدیث کو اپنے فہم اور عقل کی بنیاد پر مسترد نہیں کرنا چاہئے بلکہ جو اس فن میں ماہر ہیں، انکو ہی موقع ملنا چاہئے کہ وہ حدیث پر صحیح یا غلط کا فیصلہ دائر کریں، لیکن جب حدیث پر لگنے والے اعتراضات صحیح بھی ثابت ہوجائے تو پھر بھی اس حدیث کو صحیح سمجھنا یہ بات بھی بالکل غلط ہے۔ والسلام
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
جزاک اللہ بھائی، ویسے آپ تھوڑا سا تحمل سے سوچیں تو احادیث کو من و عن قبول کرنے سے اہل سنت میں باطل مسالک کے نظریات کی ترویج نہیں ہوئی، بلکہ احادیث کو اپنے خود ساختہ اصولوں پر رد کرنے کی وجہ سے اہل سنت میں باطل نظریات کی ترویج ہوئی ہے۔ مثلاَ کاندھلوی صاحب کو دیکھ لیں، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو صحابی نہیں مانتے، انکی صحابیت کی احادیث و روایات کا انکار کر دیا، شیعوں نے اصحاب رسول کے فضائل میں وارد احادیث کا انکار کیا، سر سید احمد نے عقل کے خلاف احادیث کا انکار کیا، مرزا قادیانی نے رفع و نزول عیسی اور ختم نبوت میں وارد احادیث کا انکار کیا، پرویز نے سر سید کی تقلید کی اور احادیث کا مزاق اڑایا، امین احسن اصلاحی نے معتزلہ کی پیروی میں اخبار احاد کا عقیدہ میں انکار کیا اور آج کل غامدی صاحب کی گل فشانیاں آپ کے سامنے ہیں۔
انکار حدیث اور احادیث میں تشکیک پیدا کر کہ انکار کا راستہ ہموار کرنا ہی در حقیقت باطل نظریات کی ترویج کا سبب ہے محترم بھائی، والسلام۔
محمد عثمان بھائی میں آپ پر اعتراض نہیں کر رہا بس ایک چھوٹی سی بات ذہن میں آئی سوچہ پوچھ لوں ۔۔ کیا سیدنا امام حسین رضہ حصول تعلیم کے حساب سے تابعی نہین ہیں۔۔
اگر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا اور پھر ایمان پر مرنا ہی صحابیت ہے تو پھر ہمیں عبدالرحمن بن عدیس اور عمرو بن الحمق کو بھی صحابی ماننا پڑے گا کیوں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا ابن عدیس واقعہ رضوان اور بیعت شجرہ میں موجود تھا۔۔اور یہ دونوں قاتلین سیدنا عثمان ہیں ، محمد بن ابی بکر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زندگی مین پیدا ہوا تھا

کیا ایسا نہین ہے کہ صحابی اس کو کہا جائے جس نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو اور پھر کم سے کم ایک سال تک آپ کی رفاقت کی ہو۔
میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں اس پر روشنی ڈالیں
@ ایڈمن بھائی اگر پوسٹ یہ موضوع سے مناسب نہیں تو پھر یا تو اس کو ختم کرسکتے ہین یا پھر کہین اور منتقل کردیں شکریہ
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
@ابو حمزہ بھائی السلام علیکم۔ آپ نے جس انداز سے مجھ سے مخاطب ہو کر یہ سوال کیا ہے، بھائی سچ بتاوں اتنی خوشی ہو رہی ہے اس سلیقہ اختلاف کو دیکھ کر، کاش ہم سب مسلمان باہمی مسائل کو اسی انداز گفتگو سے حل کر لیں۔ آمین۔

پیارے بھائی اصل میں اگر صحابی کی تعریف بیان کر دی جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے۔ محدث کے فتاوی میں الدین الخالص کے حوالے سے صحابی کی یہ تعریف موجود ہے:

"صحابی وہ ہے جس نے نبی ﷺ کو دیکھا اور آپ پر ایمان لایا اور ایمان ہی پر وہ فوت ہوا یا آپ سے بات کی اور آپ کے منہ مبارک سے آپ کی بات سنی جیسے ابن ام مکتومؓ (نابینا) ۔
اور جس نے آپ ﷺ کو نہیں دیکھا اور آپ کے زمانے میں موجود تھا تو اس کا شمار صحابہ میں نہ ہوگا جیسے اویس قرنیؒ یہ یمن میں تھے اور والدہ کی خدمت کی وجہ سے رکے ہوئے تھے جب یہ مدینہ پہنچے تو اس کے پہنچنے سے پہلے ہی نبی ﷺ فوت ہو گئے تھے۔ تو وہ صحابی شمار نہیں ہوئے اور نص نبوی کے مطابق وہ خیر التابعین ہیں جیسے کہ مسلم (2/۳۱۱) میں ہے۔
اور جن لوگوں نے آپ کو دیکھا لیکن آپ ﷺ پر ایمان نہیں لائے یا ایمان لانے کے بعد مرتد ہوگئے تو یہ کافر ہیں اور صحابہ میں سے نہیں۔"

میرے خیال میں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما اس تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ رہا مسئلہ کاندھلوی صاحب کا تو ان کا رد کرتے ہوئے شیخ ارشاد الحق اثری صاحب فرماتے ہیں:
"

حضرت حسن ؓ وحسین ؓ کی پیدائش کب ہوئی ؟
حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ سے ان کے بغض وعناد ہی کا نتیجہ ہے کہ تمام مورخین اہل سنت سے ہٹ کر کاندھلوی صاحب حضرت حسن ؓ کی پیدائش ۷ھ میں اور حضرت حسین ؓ کی پیدائش ۹ھ میں قرار دیتے ہیں ۔ اور اسی بنیاد پر انہوں نے یہ بھی لکھ دیا کہ:
ان امور سے یہ بات خود بخود ثابت ہوجاتی ہے کہ حجرت حسن ؓ صحابی نہ تھے کجاکہ حسین ؓ کی صحابیت ‘‘
(مذہبی داستانیں جلد۱‘ص ۲۸۷‘۲۹۳)
حالانکہ حضرت حسن ؓ ۳ھ میں اور حضرت حسین ۴ ھ میں پیدا ہوئے حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں ۔’’کان مولدالحسن فی رمضان ستۃ ثلاث من الھجرۃ عندالاکثر‘‘کہ حضرت حسن ؓ کا مولد اکثر مورخین کے نزدیک رمضان کے مہینہ میں ۳ ھ میں ہے ’’وکان مولد الحسین فی شعبان ستۃ اربع فی قول الاکثر‘‘کہ حضرت حسین ؓ کا مولد اکثر مورخین کے نزدیک شعبان ۴ھ میں ہے۔(فتح الباری جلد۷‘ ص۹۵)یہی بات انہوں نے ترمذی جلد۲‘ ص۲۹۶ میں کہی اور الاصابہ جلد۲‘ص۱۱ میں اسی قول کو انہوں نے ’’اثبت‘‘ قرار دیا۔ نیز ملاحظہ ہو ارشاد الساری جلد۶‘ص ۱۰۸ الفتوحات الربانیہ جلد۲ ص۲۹۳‘عمدۃ القاری جلد۱۶ ص۲۳۹ تہذیب الاسماء للنوی جلد۱ ص۱۵۸ ‘تاریخ الاسلام للذہبی جلد۲ ‘ص ۳۳‘ السیر جلد ۳‘ص۲۴۶‘الاستیعاب جلد ۱‘ ص۱۳۹‘تلقیح فھوم اہل العصر ص۲۰‘ الکامل لابن اثیر جلد۲ ‘ص۱۶۶‘مرآۃ الزمان جلد۱ ‘ص۶‘ تہذیب ابن عساکر جلد۴ ‘ص۲۰۲ خلاصۃ تہذیب الکمال ص ۶۷"

بہت شکریہ، جزاک اللہ۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
حمیر یوسف بھائی سلام عرض ہے۔ آپ نے فرمایا کہ:
"علامہ ابن جوزی رح کہتے ہیں کہ "جو روایت درایت کے معیار پر پوری نہیں اترتی وہ روایت اگر صحیح بھی ہو تو یا تو اس کی تاویل کی جائے گی یا اس کو رد کردیا جائے گا- سقہ راوی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غلطی نہیں کر سکتا"

حمیر بھائی اس حوالے سے ایک بات تو ثابت ہوئی جو اسی موضوع کی پوسٹس میں کی گئی تھی کہ علمائے حدیث "صرف روایت کی سند" پر غور نہیں بلکہ "متن پر بھی برابر غور کرتے تھے، اور اسی لیئے ایسے اصول بھی ان کے ہاں موجود ہیں۔

اب بھائی یہ درایت والی بات بہت اہم ہے، اسی درایت کو مولانا شبلی مرحوم نے بھی ذکر کیا، مولانا اصلاحی اور غامدی صاحب بھی ذکر کرتے ہیں، اور دوسری طرف غلام احمد پرویز اور مرزا قادیانی نے بھی اسی درایت کو مختلف الفاظ میں ذکر کیا ہے، اور ان سب کا مقصد "درایت" کے اصول اپنی عقل کے حساب سے بنا کر، "عقل"کو وحی پر فقیت دینا تھا۔ اب دیکھیں سرسید کی درایت کے مطابق "تمام معجزات" ان کے درائتی اصولوں کے خلاف ہونے کیا بنا پر رد کر دیئے گئے۔ قرآنی مفاہیم کا حلیہ بگاڑ دیا گیا الفاظ کے تراجم کو "درایت کے مطابق کرنے کے لیئے"۔

اس لیئے بھائی علامہ ابن جوزی کی بات حق ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ درایت کے اصول ان کے ہاں کیا ہیں، اور خود درایت کا مفہوم ان کے ہاں کیا ہے؟۔ کیوں یہ احادیث جن کو منکرین حدیث نے خلاف عقل اور خلاف درایت کہ کر رد کر دیا، یہ ان علماء حدیث کی درایت و عقل کے خلاف کیوں نہ ہوئیں؟ اس قسم کہ اعتراضات کو زینہ بنا کر آہستہ آہستہ علماء محدثین کو بد عقل اور جاہل ثابت کرنا، اور ان علماء سے ہوتے ہوئے اصحاب رسول پر تعن کرنا اس گروہ کا مقصد ہے جسے منکرین حدیث کہا جاتا ہے۔ آپ مصر کے "سنی" منکر حدیث ابو رویہ کے بارہ میں جانتے ہونگے جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر تعن کرتا ہے کہ انہوں نے اتنی احادیث کہاں سے جمع کر لی، اور کچھ "بے تکی" احادیث (نعوذباللہ) پر رد کرتا ہے جو ان سے مروی ہیں اور درایت کی چھری چلا کر کہتا ہے کہ ابو ہریرہ بہت بعد میں مسلمان ہوئے، پہلے یہودی تھے، سب سے ذیادہ احادیث روایت کرنا خلاف واقعہ ہے، اور اسکو یہودی سازش قرار دیتا ہے۔ حنفیوں کے بڑے عالم زاہد الکوثری نے متعدد علماء حدیث پر تبرہ کیا ہے، اور متعدد احادیث کا انکار کیا ہے۔ یہ درایت ہے کیا، اور کس کس فتنہ کہ دروازے کھولتی ہے، علمائے حدیث جانتے ہیں، تب ہی اس پر نقد کرتے ہیں، مگر ہمارے بھائی اس تنقید کو یہ رنگ دیتے ہیں کہ علماء درایت کہ دشمن ہیں، متن کو دیکھتے ہی نہیں۔

باقی جو دلائل النبوہ والی بات آپ نے کی، تو بھائی یہ بات صرف اس طرح نبوت کی دلیل بنی کہ ایک واقعہ جو وفات النبی کے ایک خاص عرصہ بعد پیش آیا، اس واقعہ کی خبر اللہ کے نبی صلی اللہ سلیہ وسلم نے بہت عرصہ پہلے دے دی تھی، جو یقینا وحی الہی کے مطابق دی تھی، بالکل ویسے ہی جیسہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں فرمایا کہ "میرا یہ بیٹا مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کا سبب بنے گا" او کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ خبر بھی اخبار غیب میں سے تھی۔

باقی قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ حق تھا، اس مطالبے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی اختلاف نہیں تھا۔ لیکن میں اس بحث میں نہیں جانا چاھتا۔

اس روایت سے عائشہ رضی اللہ عنہا پر کوئی اعتراض نہیں آتا۔ اس کا جواب میں پہلے بھی دے چکا ہوں۔ ایک اور انداز سے سمجھیں، میں آپ سے کہوں کہ "حمیر وہ دن کیسا ہوگا جس دن تم پنڈی جاتے ہوئے اسلام آباد کے پاس سے گزرو گے اور تم پر فیض آباد کے کتے بھونکنے لگیں گے" اب آپ بتائیں آپ پر ایک محلے کے کتے بھونکنا شروع ہو گئے، تو کیا آپ پنڈی چوری کرنے جا رہے تھے؟ کیا کبھی آپ پر یا کسی بھی شریف آدمی پر آوارہ کتے نہیں بھونکے؟ نہیں بھونکے تو دلیل دیں؟ بھائی ایک واقعے کی منظر کشی کی گئی ہے، اب اسکو رافضی سوچ ایک منفی انداز سے دیکھے تو ہمیں کیا ضرورت ہے پریشان ہونے کی؟

باقی آپ نے آیات کی جو تاویل و تشریع، اپنے قیاس اور احادیث کی مدد سے پیش کی ہے، ان احادیث اور آپ کے قیاس کو رافضی حضرات حجت ہی نہیں مانتے، آپ کیسے ان کے اعتراضات کو دفع کریں گے۔ یقیناَ ہمیں ان ہی کی کتب سے ان کے خلاف استدلال کرنا پڑے گا، قرآن کی دیگر آیات اور صحیح عقلی دلائل سے ان کے اعتراضات کا رد کرنا پڑے گا۔ اور یہی وہ کام ہے جو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ و دیگر علماء نے کیا۔ اپنی احادیث و آثار کو ان کے بیہودہ بے تکے اعتراضات کی بھینٹ چڑھا کر رد نہیں کیا۔

واللہ اعلم۔ جزاک اللہ۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ماننا پڑیگا کہ ”روایت پرستی و سبائیت“ کے ”طلسم کا کوئی ”توڑ “ نہیں۔ ہم بس اللہ تعالٰی سے ”دعاگو“ ہیں کہ وہ ان ”سبائیت زدہ“حضرات کو ”ہدایت“ دے۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
"گمنام" بھائی "سبائیت ، رافضیت و ناصبیت" کا توڑ بھی ہے ہمارے پاس اور " الحاد و انکار حدیث" کا بھی۔ آپ کے "مان لینے" سے "توڑ" ختم نہیں ہو جاتے۔ آپ بھی دعا کریں، ہم بھی کرتے ہیں، اور دعا میں اللہ سے ان بھایئوں کے لئے "ہدایت" کا سوال کرتے ہیں جو کسی "دلیل کے بغیر"، "ضد" اور "تعصب " کا شکار ہو کر، "جواب نا بننے" پر بھی "غیر مطعلق" پوسٹ کرنے سے "باز" نہیں آتے۔ امید ہے "تشفعی" ہوگی۔آللہ "ہم سب" کو ہدایت دے۔ آمین۔
 
Top