• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایات- حَوْأَبِ کے کتے اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (ایک تحقیقی جائزہ)

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
حمیر یوسف بھائی سلام عرض ہے۔ آپ نے فرمایا کہ:
"علامہ ابن جوزی رح کہتے ہیں کہ "جو روایت درایت کے معیار پر پوری نہیں اترتی وہ روایت اگر صحیح بھی ہو تو یا تو اس کی تاویل کی جائے گی یا اس کو رد کردیا جائے گا- سقہ راوی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غلطی نہیں کر سکتا"

حمیر بھائی اس حوالے سے ایک بات تو ثابت ہوئی جو اسی موضوع کی پوسٹس میں کی گئی تھی کہ علمائے حدیث "صرف روایت کی سند" پر غور نہیں بلکہ "متن پر بھی برابر غور کرتے تھے، اور اسی لیئے ایسے اصول بھی ان کے ہاں موجود ہیں۔

اب بھائی یہ درایت والی بات بہت اہم ہے، اسی درایت کو مولانا شبلی مرحوم نے بھی ذکر کیا، مولانا اصلاحی اور غامدی صاحب بھی ذکر کرتے ہیں، اور دوسری طرف غلام احمد پرویز اور مرزا قادیانی نے بھی اسی درایت کو مختلف الفاظ میں ذکر کیا ہے، اور ان سب کا مقصد "درایت" کے اصول اپنی عقل کے حساب سے بنا کر، "عقل"کو وحی پر فقیت دینا تھا۔ اب دیکھیں سرسید کی درایت کے مطابق "تمام معجزات" ان کے درائتی اصولوں کے خلاف ہونے کیا بنا پر رد کر دیئے گئے۔ قرآنی مفاہیم کا حلیہ بگاڑ دیا گیا الفاظ کے تراجم کو "درایت کے مطابق کرنے کے لیئے"۔

اس لیئے بھائی علامہ ابن جوزی کی بات حق ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ درایت کے اصول ان کے ہاں کیا ہیں، اور خود درایت کا مفہوم ان کے ہاں کیا ہے؟۔ کیوں یہ احادیث جن کو منکرین حدیث نے خلاف عقل اور خلاف درایت کہ کر رد کر دیا، یہ ان علماء حدیث کی درایت و عقل کے خلاف کیوں نہ ہوئیں؟ اس قسم کہ اعتراضات کو زینہ بنا کر آہستہ آہستہ علماء محدثین کو بد عقل اور جاہل ثابت کرنا، اور ان علماء سے ہوتے ہوئے اصحاب رسول پر تعن کرنا اس گروہ کا مقصد ہے جسے منکرین حدیث کہا جاتا ہے۔ آپ مصر کے "سنی" منکر حدیث ابو رویہ کے بارہ میں جانتے ہونگے جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر تعن کرتا ہے کہ انہوں نے اتنی احادیث کہاں سے جمع کر لی، اور کچھ "بے تکی" احادیث (نعوذباللہ) پر رد کرتا ہے جو ان سے مروی ہیں اور درایت کی چھری چلا کر کہتا ہے کہ ابو ہریرہ بہت بعد میں مسلمان ہوئے، پہلے یہودی تھے، سب سے ذیادہ احادیث روایت کرنا خلاف واقعہ ہے، اور اسکو یہودی سازش قرار دیتا ہے۔ حنفیوں کے بڑے عالم زاہد الکوثری نے متعدد علماء حدیث پر تبرہ کیا ہے، اور متعدد احادیث کا انکار کیا ہے۔ یہ درایت ہے کیا، اور کس کس فتنہ کہ دروازے کھولتی ہے، علمائے حدیث جانتے ہیں، تب ہی اس پر نقد کرتے ہیں، مگر ہمارے بھائی اس تنقید کو یہ رنگ دیتے ہیں کہ علماء درایت کہ دشمن ہیں، متن کو دیکھتے ہی نہیں۔

باقی جو دلائل النبوہ والی بات آپ نے کی، تو بھائی یہ بات صرف اس طرح نبوت کی دلیل بنی کہ ایک واقعہ جو وفات النبی کے ایک خاص عرصہ بعد پیش آیا، اس واقعہ کی خبر اللہ کے نبی صلی اللہ سلیہ وسلم نے بہت عرصہ پہلے دے دی تھی، جو یقینا وحی الہی کے مطابق دی تھی، بالکل ویسے ہی جیسہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں فرمایا کہ "میرا یہ بیٹا مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کا سبب بنے گا" او کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ خبر بھی اخبار غیب میں سے تھی۔

باقی قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ حق تھا، اس مطالبے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی اختلاف نہیں تھا۔ لیکن میں اس بحث میں نہیں جانا چاھتا۔

اس روایت سے عائشہ رضی اللہ عنہا پر کوئی اعتراض نہیں آتا۔ اس کا جواب میں پہلے بھی دے چکا ہوں۔ ایک اور انداز سے سمجھیں، میں آپ سے کہوں کہ "حمیر وہ دن کیسا ہوگا جس دن تم پنڈی جاتے ہوئے اسلام آباد کے پاس سے گزرو گے اور تم پر فیض آباد کے کتے بھونکنے لگیں گے" اب آپ بتائیں آپ پر ایک محلے کے کتے بھونکنا شروع ہو گئے، تو کیا آپ پنڈی چوری کرنے جا رہے تھے؟ کیا کبھی آپ پر یا کسی بھی شریف آدمی پر آوارہ کتے نہیں بھونکے؟ نہیں بھونکے تو دلیل دیں؟ بھائی ایک واقعے کی منظر کشی کی گئی ہے، اب اسکو رافضی سوچ ایک منفی انداز سے دیکھے تو ہمیں کیا ضرورت ہے پریشان ہونے کی؟

باقی آپ نے آیات کی جو تاویل و تشریع، اپنے قیاس اور احادیث کی مدد سے پیش کی ہے، ان احادیث اور آپ کے قیاس کو رافضی حضرات حجت ہی نہیں مانتے، آپ کیسے ان کے اعتراضات کو دفع کریں گے۔ یقیناَ ہمیں ان ہی کی کتب سے ان کے خلاف استدلال کرنا پڑے گا، قرآن کی دیگر آیات اور صحیح عقلی دلائل سے ان کے اعتراضات کا رد کرنا پڑے گا۔ اور یہی وہ کام ہے جو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ و دیگر علماء نے کیا۔ اپنی احادیث و آثار کو ان کے بیہودہ بے تکے اعتراضات کی بھینٹ چڑھا کر رد نہیں کیا۔

واللہ اعلم۔ جزاک اللہ۔
السلام علیکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محترم بھائی !
اس تھریڈ میں بار بار ۔۔درایت ۔۔کا تذکرہ ہو رہا ہے ۔
میرا سوال یہ کہ ۔درایت ۔ کیا ہے؟ تھوڑی وضاحت سے سمجھا دیں ۔
دوسرا یہ کہ ابن الجوزی ؒ نے کس کتاب میں ۔ درایت والا اصول لکھا ہے ؟
اور اگریہ بھی بتا دیں کہ ابن جوزی سے پہلے بھی کسی نے اس ۔درایت ۔کا ذکر کیا ہے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
"گمنام" بھائی "سبائیت ، رافضیت و ناصبیت" کا توڑ بھی ہے ہمارے پاس اور " الحاد و انکار حدیث" کا بھی۔ آپ کے "مان لینے" سے "توڑ" ختم نہیں ہو جاتے۔ آپ بھی دعا کریں، ہم بھی کرتے ہیں، اور دعا میں اللہ سے ان بھایئوں کے لئے "ہدایت" کا سوال کرتے ہیں جو کسی "دلیل کے بغیر"، "ضد" اور "تعصب " کا شکار ہو کر، "جواب نا بننے" پر بھی "غیر مطعلق" پوسٹ کرنے سے "باز" نہیں آتے۔ امید ہے "تشفعی" ہوگی۔آللہ "ہم سب" کو ہدایت دے۔ آمین۔
کا ش ”سبائیت و رافضیت “کا توڑ ”طبقہء اہلِ حدیث“ کے پاس ہوتا مگر ”افسوس “ کہ ایسا ”ممکن“ نہیں ۔ خیر یہ تو صرف ”صحابہؓ“کے متعلق ہے ”ایسے“ لوگوں نے تو ”حضرت ابراہیم ؑ“ کو بھی محض”روایت“کی بنیاد پر نہ چھوڑا۔اللہ تعالٰی ہم سب کو ”روایت پرستی“سے ”محفوظ“فرمائے، آمین ثم آمین ”یا رب العا لمین“ !
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
بھائیو !تھریڈ کا ساتواں صفحہ چل رہا ہے ،
کوئی مجھے ’‘درایت ’‘ اور اس کےناظم تعارف کروائے گا ، ؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
لیکن ہمارے ”طبقہء اہلِ حدیث“کا ”ایمانِ کامل“ہے کہ ”محدثینِ کرامؒ“نے ”دودھ کا دودھ“اور ”پانی کا پانی “ کر دیا ہے اور اب ہمارا ”یہی“ فرض ہے کہ ”آنکھیں بند“کر کے ان ”روایات“کو ”من وعن “ مان لیں جو ”اصولِ حدیث“کی رو سے ”صحیح“ ہو اور بس ۔
جزاک الله -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محمد عثمان بھائی میں آپ پر اعتراض نہیں کر رہا بس ایک چھوٹی سی بات ذہن میں آئی سوچہ پوچھ لوں ۔۔ کیا سیدنا امام حسین رضہ حصول تعلیم کے حساب سے تابعی نہین ہیں۔۔
اگر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا اور پھر ایمان پر مرنا ہی صحابیت ہے تو پھر ہمیں عبدالرحمن بن عدیس اور عمرو بن الحمق کو بھی صحابی ماننا پڑے گا کیوں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا ابن عدیس واقعہ رضوان اور بیعت شجرہ میں موجود تھا۔۔اور یہ دونوں قاتلین سیدنا عثمان ہیں ، محمد بن ابی بکر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زندگی مین پیدا ہوا تھا

کیا ایسا نہین ہے کہ صحابی اس کو کہا جائے جس نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو اور پھر کم سے کم ایک سال تک آپ کی رفاقت کی ہو۔
میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں اس پر روشنی ڈالیں
@ ایڈمن بھائی اگر پوسٹ یہ موضوع سے مناسب نہیں تو پھر یا تو اس کو ختم کرسکتے ہین یا پھر کہین اور منتقل کردیں شکریہ
جزاک الله -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ماننا پڑیگا کہ ”روایت پرستی و سبائیت“ کے ”طلسم کا کوئی ”توڑ “ نہیں۔ ہم بس اللہ تعالٰی سے ”دعاگو“ ہیں کہ وہ ان ”سبائیت زدہ“حضرات کو ”ہدایت“ دے۔
جزاک الله -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محترم @محمد عثمان بھائی
آپ کا بات کا انکار نہیں کرتا، کہ ہم سب کو صحیح حدیث سے انکار نہیں کرنا چاہئے، بلکہ اس پر ہونے والے رافضیوں کے باطل اعتراضات کو رد کرنا چاہئے۔ لیکن یہ بھی اصول ہمارے محدثین کرام نے ہمیں بتایا ہے کہ اگر کسی حدیث سے کسی صحابی کی تنقیص ثابت ہورہی ہو یا تو اسکو رد کرو، یا پھر اسکی مناسب تاویل کرو، اسی دھاگے پر محترم جواد بھائ نے علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کا ایک اصول بتایا تھا کہ

علامہ ابن جوزی رح کہتے ہیں کہ "جو روایت درایت کے معیار پر پوری نہیں اترتی وہ روایت اگر صحیح بھی ہو تو یا تو اس کی تاویل کی جائے گی یا اس کو رد کردیا جائے گا- سقہ راوی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غلطی نہیں کر سکتا"

تو عزیز برادر، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ واقعہ حواب والی روایت، سیدہ عائشہ رض کی شان میں تنقیص نہیں کرتی؟ اگر نہیں کرتی تو ذرا آپ مجھے بھی بتادیں کہ کسطرح یہ حدیث، دلائل نبوہ میں شمار ہوتی ہے؟ آپ اس حدیث سے کیا مراد لیتے ہیں؟ اور اس حدیث کا پس منظر کیا ہے؟

رہا سوال آپکا جو اپ نے سورۃ تحریم کی ان آیات کے بارے میں کہا تھا

[QUOTE="محمد عثمان, post: 212093, member: 1362

"اے نبی آپ کیوں حرام کرتے ہیں جو الله نے آپ کے لیے حلال کیا ہے آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے" سورۃ تحریم، 1

"اگر تم دونوں الله کی جناب میں توبہ کرو تو (بہتر) ورنہ تمہارے دل تو مائل ہو ہی چکے ہیں اور اگر تم آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تو بے شک الله آپ کا مددگار ہے اور جبرائیل اور نیک بخت ایمان والے بھی اور سب فرشتے اس کے بعد آپ کے حامی ہیں" سورۃ تحریم-5
تو محترم بھائی، ان آیات کے ذریعے تو ہمیں یہ ہرگز پتہ نہیں چلتا کہ ان میں وہ کونسی "دو بیویاں" شامل تھیں اور ایسا کونسا انہوں نے "راز" افشا کردیا، جس پر انکو تنبیہ کی گئی؟ یہ انکشاف بھی ہمیں روایات ہی بتاتی ہیں جو تفسیر اور حدیثوں کی کتابوں میں درج ہیں کہ ان میں کون کون سی نبی ﷺ کی ازواج رضی اللہ عنھن شامل تھیں اور وہ راز کیسا تھا۔ یہ میں نہیں ہرگز کہہ رہا کہ ان روایات کو بھی ہم یکسر مسترد کردیں، لیکن ایک تقابلے والی بات یہاں عرض کررہا ہوں۔ اللہ کو ان دو ہستیوں کی عزت کا پردہ رکھنا تھا، چاہے انکی جیسی بھی حرکت تھی، اللہ نے ان دو خاتونوں کا احترام کرتے ہوئے اپنی مقدس کتاب میں انکا نام تک ہرگز نہیں بتایا، بس انکو یہ تنبیہ دی اور ساتھ ہی میں یہ بھی بتادیا کہ اگر وہ اس حد سے آگے بڑھیں تو انکے ساتھ یہ یہ ہوسکتا ہے۔ اب یہ بھی حقیقت ہے کہ سیدہ عائشہ رض اور سیدہ حفضہ رض (جیسا ہمیں صحیح روایات بتاتی ہیں) کو اللہ کی یہ تنبیہ پہنچی تو انہوں نے اسی ذمن میں اللہ سے معافی بھی مانگی اور توبہ بھی کی، اور اللہ ہی نے انکو معاف بھی کیا۔ جسکا ثبوت یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے انکو طلاق دی ہی نہیں، بلکہ اپنے آخری ایام انکے ہی گھر گزارنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا اور آج تک وہ وہیں آرام فرما ہیں جہاں سیدہ عائشہ رض کا گھر تھا۔

اسکے برعکس اگر آپ ان احادیث کو دیکھئے، تو اسمیں تو سراسر سیدہ عائشہ رض کا نام لیا گیا ہے اور انکو ایک ایسے معاملے میں خطاوار کہاجارہا ہے کہ جسکی بنیاد بھی خود قران میں ہی رکھی گئی تھی، یعنی قصاص عثمان رض۔ اور اگر آپکو صلح حدیبیہ کا واقعہ اچھی طرح یاد ہے تو یہ بھی پتہ ہوگا کہ عثمان رض کا قصاص لینا تو خود آنحضرت ﷺ کی سنت تھی، جسکو انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ عثمان رض کا کہہ کر تمام صحابہ کرام رض سے اس معاملے میں بیعت کی۔ تو بتائیے کہ اس معاملے میں سیدہ عائشہ رض یا وہ تمام صحابہ کرام رض کیسے غلط ہوسکتے ہیں، جنہوں نے حدیبیہ کے مقام پر قصاص عثمان رض کے لئے آنحضرت ﷺ سے بیعت کی تھی۔ اب یہ تو اللہ تعالیٰ ہی کو پتہ تھا کہ اس وقت سیدنا عثمان رض بحافظت قریش کے ہاتھوں بچ جائے گے، لیکن یہ شہادت انکا آگے کے زمانے میں مقدر ہوگی۔ تو صحابہ کرام اور امہات المومنین رض کا جو موقف تھا، اس بیعت کے نظریے کی رو سے ہر گز غلط نہ تھا۔

باقی بھائی آپکی باتیں بھی درست ہیں، ہمیں ہر حدیث کو اپنے فہم اور عقل کی بنیاد پر مسترد نہیں کرنا چاہئے بلکہ جو اس فن میں ماہر ہیں، انکو ہی موقع ملنا چاہئے کہ وہ حدیث پر صحیح یا غلط کا فیصلہ دائر کریں، لیکن جب حدیث پر لگنے والے اعتراضات صحیح بھی ثابت ہوجائے تو پھر بھی اس حدیث کو صحیح سمجھنا یہ بات بھی بالکل غلط ہے۔ والسلام[/QUOTE]

جزاک الله -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محمد عثمان بھائی - آپ امام بخاری رحم الله اور امام احمد بن حمبل رحم الله کی پیش کردہ ان احادیث کے بارے میں کیا کہیں گے -



بخاری نے ثابت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی خلافت کے لیے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صدیق سب سے زیادہ مستحق تھے اسی لیے آپ نے مختلف مواقعوں پر اس کی طرف اشارہ فرمایا۔


ترجمہ: ’’۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے ارادہ کیا کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بیٹے کو بلا کر ان کے (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے) حق میں وصیت کردوں کہ کہیں کچھ مُدّعی اور آرزو مند پیدا نہ ہو جائیں لیکن پھر میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اور مومنین، ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی اور کو پسند نہ کریں گے ‘‘۔

(ترجمہ حدیث بخاری ص۔ ۱۰۷۲ جلد نمبر ۲)

اسی طرح امام بخاری ایک خاتون کی حدیث لائے۔

ترجمہ: ’’۔۔۔جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔ آپ نے ان کو (کچھ دن بعد) پھر آنے کا حکم دیا۔ ان خاتون نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں پھر آؤں اور آپ کو نہ پاؤں؟ گویا وہ یہ کہنا چاہتی تھیں کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہوں تو کیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلی جانا ‘‘۔

(ترجمہ حدیث بخاری صح۵۱۶، جلد۔۱)

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری بیماری میں حکم دیا کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دو کہ میری جگہ لوگوں کی امامت کریں۔

ترجمہ: ’’۔۔۔ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور جب آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کا مرض شدید ہوگیا تو آپؐ نے فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے صاحب ان کے پاس آئے پس (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں لوگوں کی امامت کر کے نماز پڑھائی ‘‘

(ترجمہ حدیث بخاری ص۔ ۹۳، جلد ۔۱)

بخاری نے علی رضی اللہ عنہ کی زبان سے بھی ثابت کردیا کہ ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کی اُمید نہیں تھی اور وہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی افضلیت کو جانتے اور مانتے تھے۔


ترجمہ: ’’۔۔۔علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم، مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بیماری میں وفات پاجائیں گے کیونکہ میں بنو عبدالمطلب کے مرنے والوں کے چہرے پہچانتا ہوں تو اے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آؤ چلیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرلیں کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ کون ہوگا اگر خلافت ہمارے خاندان میں رہنے والی ہے تو ہمیں علم ہو جائے گا اور اگر کسی دوسرے کے لیے ہوگی تو ہم آپ صلّی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرلیں گے اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم وصیت کر جائیں گے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اللہ قسم! اگر ہم نے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم سے خلافت کے بارے میں سوال کیا اور آپؐ وصیت کر جائیں گے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اللہ قسم! اگر ہم نے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم سے خلافت کے بارے میں سوال کیا اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے منع کردیا تو لوگ ہمیں کبھی بھی خلیفہ نہ بنائیں گے ۔ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی بھی خلافت کے بارے میں سوال نہ کروں گا ‘‘۔

(ترجمہ حدیث بخاری صحیح ۹۲۷، جلد۔۲)

لیکن مسند احمد بن حنبل کی روایت بیان کرتی ہے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلافت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں نہیں تھے بلکہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم خلیفہ بنانا چاہتے تھے اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کو امید تھی کہ وہی خلیفہ ہوں گے اس لیے امورِ خلافت کے بارے میں انہیں وصیت بھی کی یہ اور بات کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بعض حضرات نے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پر عمل نہ ہونے دیا اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وصی رسول اللہ اور خلیفہ بلافصل نہ بن سکے۔

ترجمہ: ’’۔۔۔علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے علی! اگر تم میرے بعد خلیفہ بنو تو اہلِ نجران کو جزیرہ عرب سے نکال دینا ‘‘۔

(ترجمہ روایت مسند احمد بن حنبل ص۔۸۷ ، جلد ۔۱)



وصیتِ (امامت) رُسول صلّی اللہ علیہ وسلم اللہ کا مسئلہ
بخاری اس وصیت کی بات کو شدّت کے ساتھ رد کرنے کے لیے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاا کی حدیث لائے ہیں۔

ترجمہ: ’’۔۔۔الاسود کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاا کے پاس لوگوں نے ذکر کیا کہ کیا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا وصی ہونے کی وصیت کی تھی؟ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاا نے فرمایا کہ آخر کس وقت ان کے متعلق یہ وصیّت کی؟ میں تو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے سے یا اپنی گود سے تکیہ لگائے ہوئے تھی کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا طشت مانگا اور میری گود میں جھک پڑے مجھے تو معلوم بھی نہ ہوا کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو بتاؤ کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کب وصیت کی؟

(ترجمہ حدیث بخاری ص۔۳۸۲، جلد۔۱)

بخاری ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاف اشارے کے سلسلے میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کی حدیث لائے ہیں۔

ترجمہ: باب ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دروازے کے سوا مسجد میں کھلنے والے سارے دروازے بند کردیئے جائیں ‘‘۔

ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ رویات کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے تقریر فرمائی اور کہا کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو انتخاب کرنے کا موقع دیا کہ وہ دنیا کو پسند کرتا ہے یا اس چیز کو جو اللہ کے پاس ہے پس اس بندے نے اس چیز کو پسند کیا جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ‘‘۔
یہ سن کر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رو پڑے ہم لوگوں کو ان کے رونے پر تعجب ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بندے کا واقعہ بیان کررہے ہیں جس کو ان دو چیزوں میں سے انتخاب کرنے کا موقع دیا گیا ہے آخر اس میں رونے کی کیا بات ہے (لیکن جب نبی ؐ کی وفات ہو گئی) تب ہم سمجھے کہ وہ بندے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے، اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم سب میں سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ سب سے زیادہ اپنی صحبت اور اپنے مال سے مجھ پر احسان کرنے والے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ، اگر میں کسی کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ خلیل بناتا تو بے شک ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بناتا، لیکن اسلام کی اخوت اور مودّت کافی ہے۔
مسجد کے اندر کھلنے والے سارے دروازے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دروازے کے علاوہ بند کردیئے جائیں ‘‘ ۔


(ترجمہ حدیث بخاری ص۔ ۵۱۶، جلد۔۱ )

اس حدیث کے مقابلہ میں مسند احمد کی روایت یہ ہے ۔

ترجمہ: ’’زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب کے دروازے مسجد نبوی میں کھلتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن حکم دیا کہ علی کے دروازے کے علاوہ سارے دروازے بند کردو، تو لوگوں نے اس حکم میں کلام کیا۔
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کی پھر فرمایا’’امّابعد ! پس میں نے حکم دیا کہ سارے دروازے بند کردیئے جائیں سوائے علی کے دروازے کے، اور اس سلسلے میں تم میں سے کہنے والے نے کچھ کہا (اعتراض کیا) اللہ کی قسم! میں نے نہ تو کوئی چیز بندکی اور نہ کھولی، مگر اس وقت جب مجھے حکم دیا گیا کسی بات کا اور تب میں نے اس کی پیروی کی ‘‘۔


(ترجمہ روایت مسند احد بن حنبل ص۔۳۶۹، جلد۔۴)

ہجرت مدینہ بخاری


ہجرت مدینہ کا واقعہ اور بخاری و مسند احمد بن حنبل کا الگ الگ بیان۔

ترجمہ: ’’۔۔۔۔ ابن شہاب عروہ کے واسطے سے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں کہ ہم لوگ ایک دن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں ٹھیک دوپہر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کہنے والے نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ دیکھو وہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم منہ پر چادر ڈالے تشریف لارہے ہیں۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ آمد ایسے وقت تھی کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت تشریف نہیں لایا کرتے تھے ۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میرے ماں باپ ان پر قربان واللہ ضرور کوئی خاص بات ہے جب ہی تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم اس وقت تشریف لائے ہیں۔
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دے دی گئی۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم اندر آگئے اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اپنے پاس سے اوروں کو ہٹا دو۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میرا باپ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم پر قربان ، یہاں تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے اہل کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم پر قربان ! کیا مجھے بھی رفاقت کا شرف حاصل ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔
اب ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم پر قربان آپ صلّی اللہ علیہ وسلم دو اونٹنیوں میں سے ایک لےلیجئے۔ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا مگر قیمت دے کر ۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاا کہتی ہیں کہ ہم نے ان دونوں حضرات کے لیے جلدی میں جو تیار ہوسکتا تیار کردیا اور ہم نے ان کے لیے ایک چمڑے کی تھیلی میں کھانا رکھدیا اور میری بہن اسماء بنتِ ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ازار بند کا ایک ٹکڑا کاٹ کر تھیلی کے منہ کو بند کردیا اسی لیے ان کا ذاتُ النّطاق (ازار بند والی) لقب ہوگیا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جبلِ ثور کے غار میں پہنچ گئے اور اس غار میں تین دن چھپے رہے۔


(ترجمہ حدیث بخاری ص۔ ۵۵۳، جلد۔۱)

بخاری کی حدیث بیان کرتی ہے کہ ہجرت مدینہ کے وقت شروع سے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے مگر مسند احمد کی روایت کہتی ہے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہجرت کی بالکل خبر نہ تھی اور ان کو اس وقت معلوم ہوا جب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو بتلایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر گئے اور مجھے اپنے بستر پر لٹا گئے ہیں۔ (تاکہ مشرکین ، دھوکا کھا جائیں)

روایت یہ ہے ۔

ترجمہ: ’’۔۔۔۔عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ تُف ہے ان پر جو ایسے شخص (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی برائی کررہے ہیں جس کی دس مشہور فضیلتیں ہیں ان میں سے ایک یہ کہ انہوں نے (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے اللہ کی رضا کے لیے اپنی جان بیچ دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس پہن کر ان کی جگہ (ہجرت مدینہ کے موقع پر) ان کے بستر پر سو گئے۔ مشرک رات کو رسول اللہ علیہ وسلم پر پتھراؤ کیا کرتے تھے۔ اس رات ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورہے تھے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمجھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ! علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسم تو بئرمیمون کی طرف چلے گئے ہیں۔ ان سے جاکر مل جایئے۔ پس ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روانہ ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں داخل ہو گئے۔ اب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتھر مارے جانے لگے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مارے جاتے تھے ۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تڑپ اٹھتے اور بل کھاتے تھے انہوں نے اپنے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپ رکھا تھا چہرہ باہر اس وقت تک نہ نکالا جب تک صبح نہ ہو گئی۔ پھر چہرے سے کپڑا ہٹایا مشرکوں نے کہا کہ بدبخت تم ہو۔ تمہارے صاحب پر ہم پتھراؤ کرتے تھے اور وہ بل تک نہیں کھاتے تھے۔ اور تم کانپ کانپ رہے تھے۔ ہم نے اس کو سخت ناپسند کیا ‘‘۔

(ترجمہ روایت مسند احمد ص۔۳۳۱، جلد۔۱)

اس طرح مسند احمد نے بتلایا کہ ہجرت کے معاملے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر راز میں رکھا تھا کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس وقت پتہ چلا جب انہوں نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بسترِ نبویؐ پر سوتے ہوئے پاکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھا اور اے نبی اللہ کہہ کر خطاب کیا اس وقت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتلایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بئرمیمون کی طرف گئے ہیں تب ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر غارِ ثور میں داخل ہوئے۔


۹ ہجری میں حج کی امارت کا مسئلہ
بخاری نے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری روز میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے واضح اشارے فرما دیئے تھے۔ اور ۹ ہجری میں جنگ تبوک سے واپس ہوتے ہوئے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر حج بنا کر مکّے روانہ کردیا تھا پھر جب سورہ برأت کی آیتیں اتریں تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان آیتوں کے احکام کا اعلان عام کرنے کے لیے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس مکّے بھیج دیا اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے اصحاب کے ساتھ مل کر اعلان کیا۔


لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

مسند احمد کی روایتیں بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر ضرور بنایا تھا مگر جب سورہ برأت کی آیتیں اتریں تو آپ ؐ نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معزول کر کے واپس بلالیا اور اپنے قریب ترین فرد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر بنایا۔

بخاری اور مسند احمد کی دونوں دونوں روایتیں سامنے ہیں۔

ترجمہ: ’’۔۔۔۔ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے اس حج میں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حجتہ الوداع سے پہلے امیر بنایا تھا ایک جماعت کے ساتھ بھیجا تاکہ ہم لوگوں میں یہ اعلان کردیں کہ اس سال کے بعد نہ تو کوئی مشرک حج کرسکے گا اور نہ کعبہ کا برہنہ طواف۔
حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ وہ سورۃ برأۃ کا اعلان کریں۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا پس علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمارے ساتھ مل کر منیٰ میں یوم النحر برأت کا اعلان کیا کہ نہ حج کرے اس سال کے بعد کوئی مشرک اور نہ خانہ کعبہ کا برہنہ طواف ہو۔


(ترجمہ حدیث بخاری ص۔ ۶۷۱، جلد۔۲)

ان حدیثوں کے مقابلے میں مسند احمد بن حنبل کی روایتیں یہ ہیں۔

ترجمہ: ’’۔۔۔۔علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ برأت کی دس آیتیں نازل ہوئیں تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوایا اور مکّے بھیجا تاکہ انہیں مکّے والوں کو پڑھ کر سنا دیں۔ پھر مجھے (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جلد جاکر ملو اور جہاں بھی ملو ان سے کتاب لے لینا اور تم خود اہل مکّہ کے پاس لے جانا اور پڑھ کر سنانا۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں ان (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے حجفہ میں ملا اور کتاب لے لی۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (مدینے ) لوٹ آئے۔
انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا میرے متعلق کچھ نازل ہوا ہے ارشاد فرمایا، نہیں لیکن جبرئیل میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ کی طرف سے دوسرا کوئی شخص ہرگز قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم خود جائیں یا اس کو بھیجیں جو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم میں سے ہو ‘‘۔

(ترجمہ روایت مسند احمد بن حنبل ص۔۱۵۱، جلد۔۱)

یہ روایت ثابت کرتی ہے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ’’رجلُ منک ‘‘ (وہ شخص جو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم میں سے ہو) میں سے نہیں تھے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ایسے شخص تھے۔


مسند نے دوسری روایت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صدیق کی زبانی لاکر یہی بات ثابت کردی کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی صلّی اللہ علیہ وسلم نے معزول کر کے فرمایا کہ مجھے یہ حکم ملا ہے کہ ان آیتوں کی تبلیغ میں خود کروں یا وہ شخص جو مجھ سے ہو۔ (رجل منّی)



ترجمہ: ’’۔۔۔۔ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں برأت کا یہ اعلان کرنے کے لیے مکے والوں کے پاس بھیجا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک نہ تو حج کرنے کے لیے آئے اور نہ برہنہ (حالت میں) خانہ کعبہ کا طواف کرے۔ جنّت میں مسلم شخص کے علاوہ کوئی اور داخل نہ ہوگا۔ وہ شخص جس کے درمیان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کسی مدّت کا معاہدہ ہے تو وہ معاہدہ اس مدت تک باقی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ مشرکین سے بری ہے اور اس کا رسول بھی۔
پھر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا وہ تین دن چلتے رہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ جاؤ جاکر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مل جاؤ اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میرے پاس بھیج دو۔ اور تم خود اس اعلان کو مکّے والوں تک پہنچاؤ۔
پس علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا ہی کیا اور جب وہ (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے تو روئے اور کہا کہ اے رسول اللہ! کیا میرے بارے میں کوئی نئی بات واقع ہوئی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، تمہارے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ بھی واقع نہیں ہوا۔ لیکن مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ان کو کوئی اور نہ پہنچائے۔ مگر ‘میں’ یا وہ شخص جو مؔ سے ہو ‘‘۔


(ترجمہ روایت مسند احمد بن حنبل ص۔۳ ، جلد۔۱)


عثمان رضی اللہ عنہ اور قرآن میں تحریف کامسئلہ


کہنے والے کہتے ہیں کہ موجودہ قرآن وہ قرآن نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا تھا موجودہ قرآن میں صرف چھ ہزار کے قریب آیتیں ہیں حالانکہ اصلی قرآن جو جبرئیل علیہ السلام لے کر آئے تھے اور جسے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرتب کر کے اپنے بعد کے آنے والے آئمہ کے سپرد کردیا تھا اور جو اب صرف بارہویں امام ’’المہدی ‘‘ کے پاس ایک غار میں موجود ہے (۱۷۰۰۰) سترہ ہزار آیتیں تھیں ۔ اس اصلی قرآن میں مسئلہ امامت کا ہر جگہ بیان تھا اسی میں سورۃ علی، سورۃ فاطمہ، حسن و حسین نامی سورتیں بھی تھیں لیکن لوگوں نے کاٹ چھانٹ کر کے ان کو نکال کر موجودہ قرآن مرتب کردیا ۔

اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہ بات کیسے ممکن ہے ! جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود لے لیا ہے۔

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ


’’ہم نے ہی قرآن (الذّکر) کو نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں ‘‘۔ (الحجر آیت ۔۹)

اُمّت کی اکثریت اجماع ہے کہ قرآن کی آیتوں اور سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی (اللہ کی طرف سے) ہے۔

بخاری روایت کرتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے بعد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے سے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زید بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ قرآن کی آیتوں کو جمع کر کے ایک مُصحف (کتابی شکل میں) مرتب کریں۔ انہوں نے اس پر عمل کیا اور یہ مصحف ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس محفوظ رہا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اور پھر ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس۔ پھر اسی مصحف کو حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لے کر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی نقول سارے صوبوں کو بھیج کر حکم دیا کہ اب اسی نسخے کے مطابق قرأت کی جائے، اور دوسرے تمام مصحف جلا دیئے جائیں۔

ترجمہ: ’’۔۔۔۔یہ نسخہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کی وفات تک رہا، پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اور پھر حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس۔ حذیفہ بن الیمان ارمینیہ اور آذربائیجان کی جنگوں میں شریک تھے۔ وہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس واپس آئے انہوں نے ان جنگوں میں دیکھا کہ مجاہدین قرأت قرآن کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں انہوں نے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہاکہ اے امیر المومنین! اس امّت کی خبر لیجئے اس سے پہلے کہ لوگ کتاب (قرآن) میں اس طرح اختلاف کریں جیسے یہود و نصاریٰ نے کیا تھا۔ عثمان نے ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہلوایا کہ قرآن کا وہ سرکاری نسخہ جوان کے پاس (عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد) محفوظ ہے بھیج دیں۔ اس کی نقلیں کرانے کے بعد، وہ ان کو واپس کردیا جائے گا۔ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ نسخہ بھیج دیا۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سعید بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبدالرحمٰن بن الحارث ابن ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کو نقلیں کرنے کا حکم دیا۔ ان چار حضرات میں سے صرف زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ انصاری تھے باقی تینوں حضرات قریشی تھے۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تینوں کو یہ ہدایت کی کہ جب زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہسے تمہارا اختلاف ہو، تو اس کو قریش کی زبان میں لکھنا کیونکہ قرآن مجید قریش کی زبان میں اترا ہے۔ غرض اِن حضرات نے (اس سرکاری) قرآن کی نقلیں کیں۔ اور ان نسخوں میں سے ایک ایک نسخہ ہر صوبے کو بھیج دیا گیا۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا کہ (قرآن کو اس نسخے کے مطابق پڑھا جائے اور ) باقی نسخے جلادیئے جائیں ‘‘

(ترجمہ حدیث بخاری ص۔۷۴۶، جلد۔۲)

پھر بخاری حدیث لائے کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن کو جس شکل میں پایا تھا اس میں ذرّہ برابر بھی ردوبدل نہیں کیا۔

ترجمہ: ’’۔۔۔۔عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں (کہ جب قرآن کی نقلیں تیار کی جارہی تھیں تو) میں نے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ سورۃ البقرۃ کی یہ آیت وَالَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنۡكُمْ وَیَذَرُوۡنَ اَزْوَاجًا ۚۖ وَّصِیَّۃً لِّاَزْوَاجِہِمۡ مَّتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَیۡرَ اِخْرَاجٍ ۚ کو تو دوسری آیت (جو اس سے پہلے سورۃ البقرۃ میں آچکی ہے) وَالَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنۡكُمْ وَیَذَرُوۡنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًا ۚ نے منسوخ کردیا ہے تو پھر آپ اس کو کیوں لکھواتے ہیں۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ اے بھتیجے میں قرآن کی کسی چیز کو اس کی جگہ سے نہیں ہٹاؤ ں گا ‘‘

(ترجمہ حدیث بخاری ص۔۶۵۱، جلد۔۲)

اب مسند احمد بن حنبل کی روایت دیکھئے۔
(عکس روایت مسند احمد بن حنبل ص۔۵۷، جلد۔۱)

(یہ مسند احمد میں سندِ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی روایت ہے)

ترجمہ: ’’۔۔۔۔یزید (الفارسی) کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ اس کا کیا سبب ہے کہ آپ نے انفال کو جو مثانی (قرآن کی بار بار پڑھی جانے والی چھوٹی سورتوں) میں سے ہے اور برأت کو جو مائین (بڑی سورتوں) میں سے ہے ملا دیا اور ان کے درمیان ایک سطر میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بھی نہیں لکھی اوراُس کو سبع طوال (سات لمبی سورتوں) میں رکھ دیا کس چیز نے آپ کو اس بات پر آمادہ کیا؟ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض اوقات کئی کئی سورتیں نازل ہوتی تھیں اور جب آپ صلّی اللہ علیہ وسلم پر کوئی چیز نازل ہوتی تھی تو آپ کا تبانِ وحی میں سے بعض کو بلا کر فرمادیتے تھے کہ اِس کو اُس صورت میں رکھ دو جس میں ان باتوں کا ذکر ہے، اور اس کے بعد جو نازل ہوتا اس کے متعلق بھی یہی فرماتے ۔ سورۃ الانفال قیام مدینہ کے ابتدائی زمانہ میں نازل ہوئی تھی، اور سورۃ برأت قرآن کا آخری حصہ ہے جو نازل ہوا اور دونوں کے قصّے ملتے جلتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو یہ نہیں بتایا کہ یہ (سورۃ الانفال) اس (سورۃ برأت) میں سے ہے۔ میں نے گمان کیا کہ یہ اسی میں سے ہے اس وجہ سے میں نے ان دونوں کو ملا دیا اور بیچ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی سطر بھی نہیں لکھی۔ اس روایت کے رادی ابن جعفر نے یہ اضافہ بھی کیا کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اور میں نے اس کو سبع طوال میں رکھ دیا ‘‘۔

(ترجمہ روایت مسند احمد بن حنبل ص۔۵۷، جلد۔۱)

بخاری روایت کریں کہ قرآن کی ترتیب ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوگئی تھی اور قرآن کا وہ سرکاری نسخہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور پھر ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس محفوظ تھا اس کی صرف نقلیں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے مملکتِ اسلامیہ میں بھیج دی گئیں تھیں اور یہ روایت بیان کرتی ہیں کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کا قرآن کی ترتیب میں دخل ہے انہوں نے اس میں تصّرف بھی کیا ہے اور یہ بھی کہ قرآن کی ترتیب جو خالص توقیفی (اللہ کی طرف سے) مانی جاتی ہے صحیح نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ دِیْنَکُمْ اور یہ کہ ’’ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ‘‘۔ یہ بھی محلِ نظر ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرآن کی ترتیب کے سلسلے میں پورا حکم دیئے بغیر وفات پاگئے اور قرآن صحیح طور پر مکمل نہ ہوسکا۔ خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُمہات المومنین ، سارے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے زمانے میں اسی (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مرتب کردہ) قرآن کو پڑھتے رہے اور کوئی کھٹک پیدا نہ ہوئی۔ دراصل یہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پردہ میں خود قرآن کریم پروار ہے اور کہا جارہا ہے کہ قرآن کریم میں تصرّف ہوا ہے اور ضرور ہوا ہے اور چونکہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسخے کی نقلیں کرائی تھیں اس لیے یہ سلسلہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گزر کر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے اور اس طرح لوگوں کا یہ الزام کہ فلاں، فلاں اور فلاں نے اصلی قرآن میں کتر بیونت کر کے اپنے مفاد کے خلاف جو خاندانِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آئمہ کے بارے میں مواد تھا۔ اس کو قرآن سے نکال دیا ہے۔


اس طرح خفلفاء ثلاثہ پر قرآن میں تحریف اور تصّرف کا الزام ثابت کرتے ہوئے مسند احمد بن حنبل کی روایتوں نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضلیت کی ترتیب بھی بدل ڈالی۔

بخاری نے ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث لاکر ثابت کیا ہے کہ وہ تین حضرات جن کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔

ترجمہ: ’’۔۔۔۔ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے حکم دیا کہ میں دروازہ کی دربانی کروں پھر ایک صاحب آئے اور اندر آنے کی اجازت مانگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو اجازت دے دو اور جنّت کی خوشخبری بھی سنا دو۔ میں دیکھتا ہوں تو وہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ پھر ایک دوسرے صاحب آئے۔ انہوں نے بھی اندر آنے کی اجازت مانگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اجازت دے دو۔ اور جنّت کی خوشخبری بھی سنا دو۔ دیکھتا کیا ہوں کہ وہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ پھر ایک تیسرے صاحب صاحب نے اجازت طلب کی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا کہ اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنادو (دنیا میں) ایک بڑی آزمائش کے بعد ، میں نے دیکھا کہ وہ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ‘‘۔

(ترجمہ حدیث بخاری ص۔۵۲۲، جلد۔۱)

لیکن مسند کی روایت بیان کرتی ہے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد رسول اللہ علیہ وسلم عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بجائے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنے کی بے قرار کے ساتھ دُعا کرتے رہے یہاں تک کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے۔

ترجمہ: ’’۔۔۔۔جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس اب ایک جنتی شخص آئیں گے۔ پس ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے۔ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے پاس اب ایک جوان آئیں گے۔ جو جنّتی ہیں۔ پس عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے۔ پھر آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس ایک جنّتی شخص آئیں گے اور پھر دعا کہ اے اللہ ! اس آنے والے کو علی بنا دے۔ اے اللہ اس آنے والے کو علی بنا دے! پس علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے ‘‘۔

(ترجمہ روایت مسند احمد بن حنبل ص۔۳۸۰، جلد۔۳)

ترجمہ: ’’۔۔۔۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے زمانے میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے۔ پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو، پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو، اس کے بعد ہم اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیتے تھے اور ان میں باہم کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتے تھے ‘‘۔

(ترجمہ حدیث بخاری ص۔۵۲۲، ۵۲۳)

بخاری نے ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث لاکر ثابت کیا ہے کہ وہ تین حضرات جن کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔


ترجمہ: ’’۔۔۔۔ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے حکم دیا کہ میں دروازہ کی دربانی کروں پھر ایک صاحب آئے اور اندر آنے کی اجازت مانگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو اجازت دے دو اور جنّت کی خوشخبری بھی سنا دو۔ میں دیکھتا ہوں تو وہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ پھر ایک دوسرے صاحب آئے۔ انہوں نے بھی اندر آنے کی اجازت مانگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اجازت دے دو۔ اور جنّت کی خوشخبری بھی سنا دو۔ دیکھتا کیا ہوں کہ وہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ پھر ایک تیسرے صاحب صاحب نے اجازت طلب کی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا کہ اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنادو (دنیا میں) ایک بڑی آزمائش کے بعد ، میں نے دیکھا کہ وہ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ‘‘۔ (ترجمہ حدیث بخاری ص۔۵۲۲، جلد۔۱)

لیکن مسند کی روایت بیان کرتی ہے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد رسول اللہ علیہ وسلم عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بجائے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنے کی بے قرار کے ساتھ دُعا کرتے رہے یہاں تک کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے۔


ترجمہ: ’’۔۔۔۔جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس اب ایک جنتی شخص آئیں گے۔ پس ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے۔ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے پاس اب ایک جوان آئیں گے۔ جو جنّتی ہیں۔ پس عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے۔ پھر آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس ایک جنّتی شخص آئیں گے اور پھر دعا کہ اے اللہ ! اس آنے والے کو علی بنا دے۔ اے اللہ اس آنے والے کو علی بنا دے! پس علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے ‘‘۔

(ترجمہ روایت مسند احمد بن حنبل ص۔۳۸۰، جلد۔۳)

ترجمہ: ’’۔۔۔۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے زمانے میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے۔ پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو، پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو، اس کے بعد ہم اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیتے تھے اور ان میں باہم کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتے تھے ‘‘۔

(ترجمہ حدیث بخاری ص۔۵۲۲، ۵۲۳، )




جزاک الله -
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میں تقریبا روز اول سے اس موضوع کو دیکھ رہا ہوں ، بلکہ حسب توفیق بغور سمجھنے کی بھی کوشش کی ۔ دو تین دن ہوگئے میں نے بعض اراکین کی کچھ باتیں نوٹ کیں تاکہ ان پر کچھ تبصرہ کروں لیکن پھر دیکھا ان میں سے کئی باتیں ایک رکن محمد عثمان بھائی اپنے انداز میں کر چکے ہیں ، لہذا میں نے مزید انتظار کرنا مناسب سمجھا کہ بحث یقینا کسی نتیجہ تک پہنچے گی ۔
لیکن آج دوبارہ تازہ شراکتیں دیکھنے سے محسوس ہورہا ہے کہ ’’ لا علمی و کج بحثی ‘‘ حدود سے تجاوز کررہی ہے ، جس سے صاحب علم لوگ تو کوئی متاثر نہیں ہوں گے لیکن فورم کے عام اراکین ممکن ہے شکو ک و شبہات کا شکار ہو جائیں ۔ اس لیے علم حدیث کا ایک مبتدی طالب علم ہونے کی حیثیت سے کچھ لکھنا چاہتا ہوں ۔
بھائی محمد علی جواد صاحب اورن کے ہمنواؤں نے جن باتوں پر اس موضوع کی بنیاد رکھی ہے وہ تقریبا درج ذیل ہیں :
پہلی بات

۔ زیر بحث روایت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تنقیص کا پہلو نکلتا ہے ۔ روایت کے الفاظ کا ترجمہ جیساکہ انہوں نے خود نقل کیا ہے کچھ یوں ہے :
’’جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے لشکر کے ساتھ مکہ سے بصرہ جا رہی تھیں تو راستے میں ایک مقام حوأب آیا جہاں کتے بھونکے۔ جب سیدہ کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا:
“مجھے واپس لوٹاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ازواج مطہرات سے یہ فرماتے سنا ہے کہ نجانے تم میں سے وہ کون ہو گی، جس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے۔”( ایضاً ۔ 3/2-74) ‘‘
گویا یہ کتے بھونکنا ان کے نزدیک تنقیص ٹھہرا ۔ بلکہ اس سے بڑھ کر لکھتے ہیں :
’’ جب کہ حَوْأَبِ کے کتوں سے متعلق روایت میں صرف حضرت عائشہ رضی الله عنہ پر ہی تنقیص کا پہلو نہیں نکلتا بلکہ اس بڑھ کر نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی ذات پاک پربہتان عظیم کا پہلو بھی نکلتا ہے- کہ انہوں نے ایسی بات اپنی محبوب ترین زوجہ جن کی گود میں آپ صل الله علیہ و آ له وسلم جان حق الله کے حوالے کی ان سے متعلق بیان فرمائی ہو- ‘‘
لیکن دوسری جگہ بقلم خود لکھتے ہے :
’’پھر یہ کہ کتے تو ہر ایرے غیرے پر بھونکتے ہیں- اب قافلے میں موجود کوئی بھی معزز ہستی ہو یا کوئی عام لوگوں کا قافله ہو -اس بات سے یہ کس طرح اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جن پر کتے بھونکتے ہیں وہ جھوٹے یا دغا باز لوگ ہوتے ہیں - جیسا کہ سبائیوں نے ان روایات کی بنیاد پر ام المومنین پر ایک لغو الزام لگانے کی مذموم کوشش کی کہ وہ اپناؤ اجتہاد میں غلط تھیں - ‘‘
اسی طرح لکھتے ہیں کہ
’’اگر کسی پر کتے بھونکے بھی تو اس سے یہ کبھی بھی اخذ نہیں کیا گیا کہ وہ شخص غلطی پر ہے یا جھوٹا ہے وغیرہ - ‘‘
گویا یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس واقعہ سے ان کے حق میں تنقیص و تحقیر کا کوئی پہلو نہیں نکلتا ۔
اب اس تناقض اور تضاد کا کیا مطلب ہے ۔؟
اب اسی متناقض اور متردد بات کے ضمن میں ایک اصول بھی بیان کرتے ہیں ۔
ذرا اصول دیکھیے :
دوسری بات

جن روایات سے صحابہ کی تنقیص کا پہلو نکلتا ہے ، انہیں فورا رد کردینا چاہیے ، اصول حدیث پر پرکھنے کی ضرورت نہیں ۔
ان کے اپنے الفاظ یوں ہیں :
’’ایمان کا تقاضہ تو یہ ہی کہ ایسی جھوٹی روایات جن میں صحابہ و صحابیات رضوان الله اجمعین کی تنقیص کا پہلو نکلتا ہو اس کو سن کر ہی اس کا انکار کردینا چاہیے- ‘‘
میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ جناب اس روایت میں کون سی تنقیص ہے ۔؟ وہ تنقیص جس کے وجود و عدم وجود میں جناب خود متناقض ہیں ۔؟ عربی کا ایک مقولہ ہے ’’ ثبت العرش ثم انقش ‘‘ پہلے تنقیص ثابت کرلیں پھر اس بنیاد پر روایات کے رد کرنے کا کام بھی شروع کر لیجیے گا ۔
اور پھر یہ اصول کس نے بنایا ۔؟ کسی نے اس کو ابن جوزی کی طرف منسوب کیا لیکن حوالہ ۔؟ اور پھر کیا ابن جوزی اکیلے ہی محدث ہیں ۔؟ جن پر اصول حدیث کی بنیاد ہے ۔؟
حدیث کے قبول و رد کا کوئی اصول بیان کرنا چاہتے ہیں تو أئمہ حدیث کے حوالے بیان کریں ، اگر اختلاف ہے تو راجح قول بیان کریں ، پھر وجوہ ترجیح بیان کریں ۔ تاکہ آپ کی بات میں کوئی وزن بھی ہو اور ’’ روایات حدیثیہ ‘‘ پر حملہ کرنے کا کوئی جواز بھی سامنے آئے ۔
اور پھر یہ بتائیں کہ کیا صحابہ کرام معصوم عن الخطاء تھے ، اگر نہیں تھیں تو ان کی لغزشیں ، کمیاں ، کوتاہیاں (جو در حقیقت ان کے نیکیوں کے بحر بے کنار کے سامنے ایک قطرے کی بھی حثیت نہیں رکھتیں ، اور رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کی سند کے ہوتے ہوئے ان کی کوئی حیثیت نہیں) ، نقل ہو گئیں تو اس کا مطلب ہے کہ نقل کرنے والا جھوٹا ہے ۔؟
قابل اعتماد راویوں پر حملہ کرنے کی بجائے پہلے اپنے ذہن کی صفائی اور فہم کی دھلائی کرلینی چاہیے ، کیونکہ عین ممکن ہے کہ مسئلہ راوی کی روایت میں نہیں بلکہ ہماری نام نہاد درایت میں ہو ۔
اس طرح تو کوئی بھی من پسند اصول بنا کر احادیث پر چھری چلا دے گا ، بلکہ لوگوں نے چلائی ہیں ، کسی نے معارضہ بالقرآن کے بہانہ سے روایات کو رد کرنا شروع کیا ہے ، کسی نے کہا یہ قیاس کے مطابق نہیں ، کسی نے کہا یہ راوی کی رائے سے مطابقت نہیں رکھتی ۔؟ وغیرہ وغیرہ
حالانکہ :
کم من عائب قولا صحيحا
وآفته من الفهم السقيم

تیسری بات

لکھتے ہیں :
لیکن پھربھی اہل علم کے لئے اس حَوْأَبِ کے کتوں سے متعلق روایت پر تحقیق حاضر ہے جودلیل کے طور پر گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے یہاں پیش کی جاتی ہے کہ بہرحال اسلامی روایات کو پرکھنے کے جو اسلامی اصول محدثین نے بیان کیے ہیں ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اور وہ ختم نہیں ہونی چاہیے - ‘‘
میری گزارش یہ ہے کہ ذرا بیان فرمادیں کہ محدثین کے اصولوں کی آپ کے نزدیک کیا مسلمہ حیثیت ہے ۔؟ کیا ان اصولوں کی اتنی ہی حیثیت ہے کہ وہ ’’ نام نہاد درایت ‘‘ کا سامنا بھی نہیں کرسکتے ۔؟ کیا اتنی ہی حیثیت ہے کہ جو آدمی دو چار اردو کتابیں پڑھ لیتا ہے وہ ان میں شکوک و شبہات پیدا کرنا شروع کردیتا ہے ۔؟
جس آدمی کو ’’ روایت ‘‘ کے صحیح ہونےکی بنیادی شروط کا نہیں پتہ وہ ’’ درایت ‘‘ میں خود کو ماہر سمجھتا ہے ۔۔؟ جس کو یہ نہیں پتہ کہ راوی ’’ ثقہ ‘‘ ہوتا ہے یا ’’ سقہ ‘‘ ۔؟!
یہ محدثین کے اصول ہیں یا ’’ ٹشو پیپر ‘‘ ۔؟ جب چاہا کہا کہ یہ ’’ مسلمہ اصول ‘‘ ہیں اور جب چاہا کہا کہ یہ ’’ درایت ‘‘ کے خلاف ہیں ۔
خیر آپ اگر ایک دو اصول بیان کردیں تو بہت ہی بہتر ہوگا ، کم از کم سند رہے کہ آپ فلاں فلاں اصول کو تو مانتے ہیں ۔
دوسری بات : اگر خود محدثین کے راویوں اور روایات کے متعلق بنائے گئے اصولوں کے مطابق زیر بحث روایت ضعیف ہے ، تو پھر محدثین کے بنائے ہوئے اصولوں سے ناراضی اور بیزاری چہ معنی دارد ۔؟
اور پھر محدثین کے انہیں اصولوں کو ماننے والوں کو ’’ اعتدال سےہٹے ہوئے قرار دینا ‘‘ ’’ روایت پرست قرار دینا ‘‘ ’’ اہل تشیع کے مشابہ کہنا ‘‘ ’’ سبائیت ‘‘ سے متہم قرار دینا یہ کہاں کا انصاف ہے ۔؟
چوتھی بات

کیا راویوں کی بات ماننا روایت پرستی ہے ۔؟ کیا راویوں کی بات ماننا ان کو ’’ معصومیت ‘‘ کا درجہ دینا ہے ۔؟
کسی نے کہا کہ راویوں کی بات ماننا روایت پرستی ہے ۔ اور یہ ان کو ’’ معصوم ‘‘ سمجھنے کے مترادف ہے ۔
کلمہ ’’ اہل درایت ‘‘ کا اگر عام فہم معنی کیا جائے تو میں یہ کہوں گا کہ ’’ اہل فہم و بصیرت ‘‘ لیکن عصر حاضر میں ’’ درایت ‘‘ کا واویلا کرنے والوں کا حال بزبان شاعر یوں ہے :
جہلت ولا تدری بأنک جاہل
بھلا یہ بات کوئی سمجھدار آدمی کرسکتا ہے ک کسی کی بات ماننا اس کو ’’ معصومیت ‘‘ کے درجہ پر فائز کرنا ہے ۔؟
ٹی کے ایچ صاحب ایک آدمی نیکی تقوی پرہیزگاری میں اعلی درجہ پر فائز ہے ، جھوٹ نہیں بولتا ، حافظہ مضبوط ہے ، سکیڑوں روایات اس کی نوک زبان پر ہیں ، آخر اس کی بات کو آپ کس منطق سے رد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔؟ صرف اس بنیاد پر کہ آپ کی عقل میں نہیں آرہی ۔؟ سبحان قاسم العقول !
اور پھر یہ بھی محدثین پر اتہام ہےکہ وہ صرف راویوں کی ثقاہت وعدالت کی پرکھ کرتے ہیں ’’ متون ‘‘ سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ، بلکہ میں کہوں گا اصول حدیث سے جہالت کا اعلانیہ اظہار ہے ۔
اصول حدیث کے اندر موجود ’’ حدیث مقبول ‘‘ کی پانچ شروط ہی دیکھ لی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ محدثین صرف رواۃ پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ روایات یا کہہ لیں متون کو بھی پرکھتے ہیں ۔
عدالت و دیانت ، حفظ و ضبط ، اتصال سند ، علت کانہ ہونا ، شذوذ کا نہ ہونا ۔
حدیث صحیح کی پانچ شروط میں سے آخری دو اس وقت تک متحقق ہی نہیں ہوتیں جب تک متون کی پرکھ نہ کرلی جائے ۔
اس کے باوجود ’’ مستشرقین ‘‘ کی بولی بولنا ، کہ محدثین درایت کے اصولوں سے واقف نہیں تھے ، خود قائل کی اپنی شان میں گستاخی ہے ۔
محمد علی جواد صاحب لکھتے ہیں :
’’قدیم مورخ ابو الفرج بن جعفر (متوفی ٢٩٠ھ ) نے مکہ سے بصرہ تک کے راستے میں ٢١ منزلیں بیان کیں ہیں- اوربیچ میں کہیں بھی "حواب " نام کا مقام کوئی نہیں ہے -پھر یہ ان روایتوں میں کیسے بیان ہو گیا؟؟ ‘‘
اس پر میں اس کے سوا اور کئی تبصرہ نہیں کرتا کہ کیا یہ ’’ روایت پرستی ‘‘ نہیں ہے ۔؟ جن کے نزدیک تیسری صدی ہجری کے مورخ کی بات معتبر ہے ، وہ انہیں ادوار کے محدثین کی نقل کردہ احادیث سے کیوں بیزار ہوجاتے ہیں ۔؟
اور پھر انداز استدلال دیکھیں کہ ایک طرف تو ’’ بیان نہ کرنا ‘‘ بھی حجت ہے ، جبکہ دوسری طرف ’’ بیان کرنے ‘‘ کی بھی کوئی حیثیت نہیں ۔ فیا للہ العجب !
محمد علی جواد صاحب غالبا محمد عثمان صاحب کے جواب میں لکھتے ہیں :
’’اگرچہ آپ نے مراسلے میں اعتدال قائم رکھنے کی کوشش کی ہے - جو کہ اچھی ہے - اور روایتی اہل سنّت سے ہٹ کر روایت پر اپنا موقف پیش کیا ہے - لیکن میرا بلکہ اکثراہل علم کا کہنا یہی ہے کہ ہمارے ہاں اکثر اہل سنّت مختلف روایات کو پرکھنے معاملے میں اعتدال پرستی سے ہٹے ہوے ہیں - ‘‘
میری گزارش ہے کہ ذرا ’’ اہل سنت ‘‘ سے اپنی مراد واضح کردیں ، اعتدال پرستی بھی بیان کردیں جس سے علماء اہل سنت ہٹے ہوئے ہیں ، اور ان اکثر علماء کا تذکرہ بھی کردیں جو آپ کے ہمنوا ہیں ۔
پانچویں بات

اور ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’ اور جو ذرا بھی ان روایت کے متن پر جائز تنقید کرتا ہے تو اس پر ان اہل سنّت کے علماء کا خون کھولنے لگتا ہے اور انہیں اپنے سوا ہر کوئی منکرین حدیث کی صف میں کھڑا نظر آتا ہے - چاہے روایت میں کتنا ہی قابل اعتراض مواد کیوں نہ موجود ہو - ان کے نزدیک راوی کی ثقاہت ہی روایت کے سچا ہونے کے لئے کافی ہوتی ہے ۔ ‘‘
علماء کا خون کھولنا چاہیے ، جس طرح قرآن میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کی بیخ کنی ضروری ہے ، اسی طرح سنت میں شکوک و شبہات یا محافظین و ناقلین سنت پر طعن و تشنیع کا دفاع کرنا بھی ضروری ہے ۔ روایات کی صحت و ضعف میں متقدمین و متاخرین کا اختلاف ہے ، اس وقت بھی ہوا آج بھی ہوسکتا ہے ، اصولوں کی بنیاد پر ، دلائل کی بنیاد پر ، اس پر چیں بہ چیں ہونے کی ضرورت نہیں ، لیکن اختلاف کرنے والا اس کا اہل ہونا چاہیے ، یہ نہیں کہ اپنے فہم سقیم کو روایت کے صحت و ضعف کے فیصلے کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کردے ۔ اور اسے یہ بھی پتہ نہ ہو کہ صدیوں سے جو اصول متفقہ طور پر محدثین کے ہاں رائج ہیں وہ کیا ہے ۔؟ متاخر متقدم سے اختلاف کرسکتا ہے ، لیکن کم از کم اختلاف کی بنیاد متاخر کی جہالت نہیں بلکہ اس کا ’’ علم ‘‘ ہونا چاہیے ۔
جواد بھائی مزید لکھتے ہیں :
’’ سوچنے والی بات ہے کہ اگر ثقاہت اور اجماع ہی روایت کو پرکھنے کا اصل اصول ہے تو ۔۔۔‘‘
میری گزارش یہ ہے کہ ’’ ثقاہت ‘‘ سے تو آپ کی مراد سمجھ چکے لیکن ’’ اجماع ‘‘ سے آپ کی یہاں کیا مراد ہے ۔؟
چھٹی گزارش

اسی طرح لکھتے ہیں :
’’ صحابہ سے بڑھ کر کون سقہ ہو گا لیکن ان میں بھی نبی کریم صل الله و آ وسلم کے اکثر احکامات کو سمجھنے میں غلطی لگی ۔ لیکن کسی نے ایک دوسرے کو منکرین حدیث کا طعنہ نہ دیا - ‘‘
مجھے ذرا یہ بتائیں کہ یہ بات کس نے کہی کہ صحابہ کرام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’اکثر احکامات ‘‘ سمجھنے میں غلطی لگی ۔؟ یہ آپ کی اپنی تحقیق ہے یا کسی ’’ محقق ‘‘ سے منقول ہے ۔؟
اسی سے ملتا جلتا دعوی آپ کا یہ ہے کہ :
’’ بلکہ خود محدثین میں اکثر روایت کو سمجھنے میں شدید اختلاف ہوا لیکن کسی نے ایک دوسرے پر منکرہنے کا الزام عائد نہیں کیا ۔ ‘‘
کوئی چند نمونے لے لیں ، اور پھر ذرا دراسہ کرکے ثابت کردیں کہ اکثر احادیث میں محدثین کا آپس میں اختلاف رہا ہے ۔
ویسے میں آپ کے ساتھ اس حد تک متفق ہوں کہ بہت ساری حدیثوں ( نہ کہ اکثر ) میں محدثین کا اختلاف ہے ، اور کوئی بھی دوسرے کو منکر حدیث نہیں کہتا ۔ لیکن یہ سب کیوں ہے کیوں کہ ان کا اختلاف مسلمہ اصولوں کی بنیاد پر ہے ۔ گویا اصولوں میں متفق ہیں لیکن فروع میں اختلاف ہے ، بالفاظ دیگر شرائط صحت میں متفق ہیں لیکن کسی روایت میں ان شرائط کے ہونے نہ ہونے میں اختلاف ہے ۔
لیکن جن کو ہم منکریں حدیث کہہ دیتے ہیں ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پہلے تو خیر سے کوئی اصول ہیں ہی نہیں ، اور رہے محدثین کے اصول تو ان کو بھی وہ ’’ میں نہ مانوں ‘‘ کی بے اصولی سے رد کردیتے ہیں ۔
ساتویں گزارش

آپ نے کہا :
’’ امام بخاری رح اور امام احمد بن حنبل رح میں خلق قرآن کے نظریہ کے معاملے میں شدید اختلاف تھا - لیکن پھربھی انہوں نے ایک دوسرے پر منکر حدیث کا الزام عائد نہ کیا - ‘‘
کوئی حوالہ بھی لکھ دیں ، امامین کا آپس میں اختلاف کہاں کس جگہ ہوا ؟ کس نے نقل کیا ہے ؟ کس کتاب میں بیان ہوا ہے یہ اختلاف ۔؟ اگر الفاظ نقل کردیں تو بہتر ہے ۔
آپ نے کہا :
’’یہی نہیں بلکہ امام بخاری رح نے "حواب کے کتے" والی روایت کو اس قابل ہی نہیں جانا کہ وہ اپنی صحیح میں اس کو تحریر کرتے - جب کہ حواب کے کتے والی روایت کا ایک راوی یونس بن يزيد الأيلي جو سقہ راوی میں شمار ہوتا ہے صحیحین میں اس سے متعدد روایتیں منقول ہیں - تو کیا اس بنیاد پر امام بخاری رح منکر حدیث ہوے ؟؟؟ ‘‘
امام بخاری نے کسی جگہ دعوی کیا ہے کہ ہر صحیح حدیث کو میں اپنی کتاب صحیح میں ضرور ذکر کروں گا ۔؟ یا اس کے برعکس کہا ہو کہ جو روایات میں نے نہیں ذکر کیں وہ سب غیر صحیح ہیں ۔؟
آٹھویں گزارش

مزید ایک جگہ دیکھیں آپ نے کیا لکھا ہے :
’’ جہاں تک "حواب کے کتے" والی روایت کا تعلق ہے تو اس پر اصل اعتراض ہی اس بات پر ہے کہ نبی کریم جیسی عظیم المرتبت شخصیت اپنی اتنی محبوب زوجہ کے لئے یہ الفاظ استمعال کر سکتے ہیں یا نہیں؟؟ ظاہر ہے کہ ایسا بظاہر ممکن نہیں - اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کر رہا کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہ دیگر صحابہ کرام کے ساتھ خون عثمان رضی الله عنہ کا بدلہ لینے کا مطالبہ لے کر بصرہ روانہ ہویئں تھیں - ان کا یہ اجتہاد صحیح تھا یا غلط یہ بھی زیر بحث نہیں - لیکن اصل مسلہ اس روایت میں یہ ہے کہ کیا نبی کریم (نعوز باللہ ) اس بھونڈے انداز میں ام المومینن رضی الله عنہ کے اجتہاد کو غلط کہنے کی پیشنگوپی کرسکتے ہیں؟؟؟ ‘‘
پیارے بھائی گزارش یہ ہے کہ آپ جیسے لوگوں کا عموما رویہ یہ ہوتا کہ احادیث نقل کرکے کہتے ہیں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معاذ اللہ ایسی غلط حرکت ، بھونڈا انداز وغیرہ وغیرہ کرسکتے ہیں ۔ جیساکہ عمر عائشہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں احادیث کے بارے میں منکرین حدیث کا رویہ ہے ۔
میری گزارش ہے کہ روایات رد کرنے کے جوش و جذبہ میں حضور کے بارے میں احتمالا بھی ایسے الفاظ استعمال نہ کریں ، کیونکہ آپ کو وحی کے ذریعے نہیں بتایا گیا کہ یہ روایت غیر ثابت ہے ، بلکہ آپ کی عقل نے یہ کہا ہے ، جو ممکن ہے غلط بھی ہو اور درست بھی ۔ تو اس طرح کی زبان استعمال کرتے ہوئے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ثبوت کے احتمال کو مدنظر رکھنا چاہیے ، تاکہ بزبان خود ’’ گستاخی ‘‘ کے مرتکب نہ ہوں ۔
نویں بات

’’ اور بقول حمیر یوسف صاحب کے کہ اہل سنّت نے انہی روایات کو بنیاد بنا کر یہ کہہ ڈالا کہ یہ روایت نبوت کی نشانیوں میں سے ہے "۔ توثابت یہ ہوا کہ سیدہ عائشہ رض کو نعوذباللہ جب تک خطا وار اور ظالم نہ ٹھرایا جائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نشانیاں ہی ظاہر نہیں ہونگی۔ ‘‘
اس طرح کی احادیث میں علامات نبوت وہ نہیں جو حمیر صاحب سمجھ رہے ہیں ، بلکہ یہ ہےکہ آپ نے آئندہ ہونے والے ایک واقعہ کی وقوع سے کئی سال پہلے پیشین گوئی کردی ہے ۔ اسی بنیاد پر سیوطی وغیرہ نے اس اس ضمن میں ذکر کیا ہے ۔
بڑے احترام سے گزارش ہے کہ محدثین ، علماء کی بات کو پہلے سمجھیں ، پھر اس پر اعتراض کریں ، ورنہ اس سے ان ہستیوں کا تو کچھ نہیں بگڑنے والا ، الٹا اعتراض کرنے والے ’’ بیچارے ‘‘ لگتے ہیں ۔
دسویں بات

کسی نے لکھا :
’’ کیا یہ بہتر ہے کہ ہم ان روایات پر اپنے روایتی اصولوں کو سامنے رکھ کر ان کی مختلف تاویلیں پیش کریں - یا یہ بہتر ہے کہ ان روایت میں پاے جانے والے قابل اعتراض مواد کی بنیاد پر پوری روایت کو مسترد کر دیا جائے ؟؟؟ ظاہر ہے کہ دوسرا اصول زیادہ بہتر ہے - تا کہ مسلمانوں میں پیدا ہونے والے ہر شکوک شبہات کا شروع میں ہی خاتمہ کردیا جائے -اور کسی کو یہ کہنے کی جراءت ہی نہ ہو کہ صحابہ و صحابیات رضوان اللّہ اجمعین اپنے کردار کے لحاظ سے ایسے اورایسے تھے- ‘‘
میری گزارش یہ ہےکہ آپ مسلمانوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات ختم نہیں کررہے ، یہ کام علماء بخوبی سرانجام دے چکے ہیں او ردے رہے ہیں ، بلکہ آپ دین دشمنوں کو دینی اثاثے اور مواد پر ’’ انگشت نمائی ‘‘ کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔ عافیت اصولوں کی پاسداردی کرنے میں ہی ہے ، جو اصولوں سے ثابت ہے وہ حق ہے ، جو غلط ہے وہ اصولوں کے مطابق نہیں ۔ جو اصولوں سے ہٹ کر حق و باطل کی تلاش میں ہے اس کو صراط مستقیم کی دعا کرنی چاہیے ۔
کچھ لوگ اللہ کی صفات کا انکار صرف اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ا س سے شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں ، حالانکہ صفات الہیہ برحق ہیں اور قصور ان کے ’’ شکوک و شبہات ‘‘ کا ہے ، جو غلط جگہ پر آجاتے ہیں ۔
کسی نے لکھا ہے :
’’ بہرحال یہی وہ بنیادی نقطۂ ہے کہ جس کی بنیاد پر ان روایتوں کی جانچ پڑتال ضروری ہے -اور ان کو اپنے آئمہ کرام کی محبت و غلو میں من وعن قبول کرنا ہمیں گمراہی کے رستے پر ڈال سکتے ہے - ‘‘
اگر سلف صالحین کا راستہ گمراہی ہے تو شاید آپ کے نزدیک شاید ’’ صراط مستقیم ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’ گمراہی ‘‘ کیاجاتا ہے ۔
پھر بھی اگر یہ چیزیں آپ کے لیے گمراہی کا سبب بنتی ہیں تو ان کا مطالعہ نہ فرمایا کریں ، کہیں ایسا نہ ہوا کہ ایک گمراہی سے بھاگتے بھاگتے آپ دوسری میں گرفتار ہو جائیں اور ’’ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمہ صافی ‘‘ سے سیراب ہونے سے ہی محروم ہوجائیں ۔ ’’ قرآن ‘‘ تو آپ کے پاس ہو لیکن اس کی محمدی تفسیر سےفیضیاب ہونے میں ’’ شکوک وشبہات ‘‘ آڑے آ جائیں ۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے ، اور شیطانی وسوسوں سے محفوظ فرمائے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
میں تقریبا روز اول سے اس موضوع کو دیکھ رہا ہوں ، بلکہ حسب توفیق بغور سمجھنے کی بھی کوشش کی ۔ دو تین دن ہوگئے میں نے بعض اراکین کی کچھ باتیں نوٹ کیں تاکہ ان پر کچھ تبصرہ کروں لیکن پھر دیکھا ان میں سے کئی باتیں ایک رکن محمد عثمان بھائی اپنے انداز میں کر چکے ہیں ، لہذا میں نے مزید انتظار کرنا مناسب سمجھا کہ بحث یقینا کسی نتیجہ تک پہنچے گی ۔
لیکن آج دوبارہ تازہ شراکتیں دیکھنے سے محسوس ہورہا ہے کہ ’’ لا علمی و کج بحثی ‘‘ حدود سے تجاوز کررہی ہے ، جس سے صاحب علم لوگ تو کوئی متاثر نہیں ہوں گے لیکن فورم کے عام اراکین ممکن ہے شکو ک و شبہات کا شکار ہو جائیں ۔ اس لیے علم حدیث کا ایک مبتدی طالب علم ہونے کی حیثیت سے کچھ لکھنا چاہتا ہوں ۔
بھائی محمد علی جواد صاحب اورن کے ہمنواؤں نے جن باتوں پر اس موضوع کی بنیاد رکھی ہے وہ تقریبا درج ذیل ہیں :
پہلی بات

۔ زیر بحث روایت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تنقیص کا پہلو نکلتا ہے ۔ روایت کے الفاظ کا ترجمہ جیساکہ انہوں نے خود نقل کیا ہے کچھ یوں ہے :

گویا یہ کتے بھونکنا ان کے نزدیک تنقیص ٹھہرا ۔ بلکہ اس سے بڑھ کر لکھتے ہیں :

لیکن دوسری جگہ بقلم خود لکھتے ہے :

اسی طرح لکھتے ہیں کہ

گویا یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس واقعہ سے ان کے حق میں تنقیص و تحقیر کا کوئی پہلو نہیں نکلتا ۔
اب اس تناقض اور تضاد کا کیا مطلب ہے ۔؟
اب اسی متناقض اور متردد بات کے ضمن میں ایک اصول بھی بیان کرتے ہیں ۔
ذرا اصول دیکھیے :
دوسری بات

جن روایات سے صحابہ کی تنقیص کا پہلو نکلتا ہے ، انہیں فورا رد کردینا چاہیے ، اصول حدیث پر پرکھنے کی ضرورت نہیں ۔
ان کے اپنے الفاظ یوں ہیں :

میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ جناب اس روایت میں کون سی تنقیص ہے ۔؟ وہ تنقیص جس کے وجود و عدم وجود میں جناب خود متناقض ہیں ۔؟ عربی کا ایک مقولہ ہے ’’ ثبت العرش ثم انقش ‘‘ پہلے تنقیص ثابت کرلیں پھر اس بنیاد پر روایات کے رد کرنے کا کام بھی شروع کر لیجیے گا ۔
اور پھر یہ اصول کس نے بنایا ۔؟ کسی نے اس کو ابن جوزی کی طرف منسوب کیا لیکن حوالہ ۔؟ اور پھر کیا ابن جوزی اکیلے ہی محدث ہیں ۔؟ جن پر اصول حدیث کی بنیاد ہے ۔؟
حدیث کے قبول و رد کا کوئی اصول بیان کرنا چاہتے ہیں تو أئمہ حدیث کے حوالے بیان کریں ، اگر اختلاف ہے تو راجح قول بیان کریں ، پھر وجوہ ترجیح بیان کریں ۔ تاکہ آپ کی بات میں کوئی وزن بھی ہو اور ’’ روایات حدیثیہ ‘‘ پر حملہ کرنے کا کوئی جواز بھی سامنے آئے ۔
اور پھر یہ بتائیں کہ کیا صحابہ کرام معصوم عن الخطاء تھے ، اگر نہیں تھیں تو ان کی لغزشیں ، کمیاں ، کوتاہیاں (جو در حقیقت ان کے نیکیوں کے بحر بے کنار کے سامنے ایک قطرے کی بھی حثیت نہیں رکھتیں ، اور رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کی سند کے ہوتے ہوئے ان کی کوئی حیثیت نہیں) ، نقل ہو گئیں تو اس کا مطلب ہے کہ نقل کرنے والا جھوٹا ہے ۔؟
قابل اعتماد راویوں پر حملہ کرنے کی بجائے پہلے اپنے ذہن کی صفائی اور فہم کی دھلائی کرلینی چاہیے ، کیونکہ عین ممکن ہے کہ مسئلہ راوی کی روایت میں نہیں بلکہ ہماری نام نہاد درایت میں ہو ۔
اس طرح تو کوئی بھی من پسند اصول بنا کر احادیث پر چھری چلا دے گا ، بلکہ لوگوں نے چلائی ہیں ، کسی نے معارضہ بالقرآن کے بہانہ سے روایات کو رد کرنا شروع کیا ہے ، کسی نے کہا یہ قیاس کے مطابق نہیں ، کسی نے کہا یہ راوی کی رائے سے مطابقت نہیں رکھتی ۔؟ وغیرہ وغیرہ
حالانکہ :
کم من عائب قولا صحيحا
وآفته من الفهم السقيم

تیسری بات

لکھتے ہیں :

میری گزارش یہ ہے کہ ذرا بیان فرمادیں کہ محدثین کے اصولوں کی آپ کے نزدیک کیا مسلمہ حیثیت ہے ۔؟ کیا ان اصولوں کی اتنی ہی حیثیت ہے کہ وہ ’’ نام نہاد درایت ‘‘ کا سامنا بھی نہیں کرسکتے ۔؟ کیا اتنی ہی حیثیت ہے کہ جو آدمی دو چار اردو کتابیں پڑھ لیتا ہے وہ ان میں شکوک و شبہات پیدا کرنا شروع کردیتا ہے ۔؟
جس آدمی کو ’’ روایت ‘‘ کے صحیح ہونےکی بنیادی شروط کا نہیں پتہ وہ ’’ درایت ‘‘ میں خود کو ماہر سمجھتا ہے ۔۔؟ جس کو یہ نہیں پتہ کہ راوی ’’ ثقہ ‘‘ ہوتا ہے یا ’’ سقہ ‘‘ ۔؟!
یہ محدثین کے اصول ہیں یا ’’ ٹشو پیپر ‘‘ ۔؟ جب چاہا کہا کہ یہ ’’ مسلمہ اصول ‘‘ ہیں اور جب چاہا کہا کہ یہ ’’ درایت ‘‘ کے خلاف ہیں ۔
خیر آپ اگر ایک دو اصول بیان کردیں تو بہت ہی بہتر ہوگا ، کم از کم سند رہے کہ آپ فلاں فلاں اصول کو تو مانتے ہیں ۔
دوسری بات : اگر خود محدثین کے راویوں اور روایات کے متعلق بنائے گئے اصولوں کے مطابق زیر بحث روایت ضعیف ہے ، تو پھر محدثین کے بنائے ہوئے اصولوں سے ناراضی اور بیزاری چہ معنی دارد ۔؟
اور پھر محدثین کے انہیں اصولوں کو ماننے والوں کو ’’ اعتدال سےہٹے ہوئے قرار دینا ‘‘ ’’ روایت پرست قرار دینا ‘‘ ’’ اہل تشیع کے مشابہ کہنا ‘‘ ’’ سبائیت ‘‘ سے متہم قرار دینا یہ کہاں کا انصاف ہے ۔؟
چوتھی بات

کیا راویوں کی بات ماننا روایت پرستی ہے ۔؟ کیا راویوں کی بات ماننا ان کو ’’ معصومیت ‘‘ کا درجہ دینا ہے ۔؟
کسی نے کہا کہ راویوں کی بات ماننا روایت پرستی ہے ۔ اور یہ ان کو ’’ معصوم ‘‘ سمجھنے کے مترادف ہے ۔
کلمہ ’’ اہل درایت ‘‘ کا اگر عام فہم معنی کیا جائے تو میں یہ کہوں گا کہ ’’ اہل فہم و بصیرت ‘‘ لیکن عصر حاضر میں ’’ درایت ‘‘ کا واویلا کرنے والوں کا حال بزبان شاعر یوں ہے :
جہلت ولا تدری بأنک جاہل
بھلا یہ بات کوئی سمجھدار آدمی کرسکتا ہے ک کسی کی بات ماننا اس کو ’’ معصومیت ‘‘ کے درجہ پر فائز کرنا ہے ۔؟
ٹی کے ایچ صاحب ایک آدمی نیکی تقوی پرہیزگاری میں اعلی درجہ پر فائز ہے ، جھوٹ نہیں بولتا ، حافظہ مضبوط ہے ، سکیڑوں روایات اس کی نوک زبان پر ہیں ، آخر اس کی بات کو آپ کس منطق سے رد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔؟ صرف اس بنیاد پر کہ آپ کی عقل میں نہیں آرہی ۔؟ سبحان قاسم العقول !
اور پھر یہ بھی محدثین پر اتہام ہےکہ وہ صرف راویوں کی ثقاہت وعدالت کی پرکھ کرتے ہیں ’’ متون ‘‘ سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ، بلکہ میں کہوں گا اصول حدیث سے جہالت کا اعلانیہ اظہار ہے ۔
اصول حدیث کے اندر موجود ’’ حدیث مقبول ‘‘ کی پانچ شروط ہی دیکھ لی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ محدثین صرف رواۃ پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ روایات یا کہہ لیں متون کو بھی پرکھتے ہیں ۔
عدالت و دیانت ، حفظ و ضبط ، اتصال سند ، علت کانہ ہونا ، شذوذ کا نہ ہونا ۔
حدیث صحیح کی پانچ شروط میں سے آخری دو اس وقت تک متحقق ہی نہیں ہوتیں جب تک متون کی پرکھ نہ کرلی جائے ۔
اس کے باوجود ’’ مستشرقین ‘‘ کی بولی بولنا ، کہ محدثین درایت کے اصولوں سے واقف نہیں تھے ، خود قائل کی اپنی شان میں گستاخی ہے ۔
محمد علی جواد صاحب لکھتے ہیں :

اس پر میں اس کے سوا اور کئی تبصرہ نہیں کرتا کہ کیا یہ ’’ روایت پرستی ‘‘ نہیں ہے ۔؟ جن کے نزدیک تیسری صدی ہجری کے مورخ کی بات معتبر ہے ، وہ انہیں ادوار کے محدثین کی نقل کردہ احادیث سے کیوں بیزار ہوجاتے ہیں ۔؟
اور پھر انداز استدلال دیکھیں کہ ایک طرف تو ’’ بیان نہ کرنا ‘‘ بھی حجت ہے ، جبکہ دوسری طرف ’’ بیان کرنے ‘‘ کی بھی کوئی حیثیت نہیں ۔ فیا للہ العجب !
محمد علی جواد صاحب غالبا محمد عثمان صاحب کے جواب میں لکھتے ہیں :

میری گزارش ہے کہ ذرا ’’ اہل سنت ‘‘ سے اپنی مراد واضح کردیں ، اعتدال پرستی بھی بیان کردیں جس سے علماء اہل سنت ہٹے ہوئے ہیں ، اور ان اکثر علماء کا تذکرہ بھی کردیں جو آپ کے ہمنوا ہیں ۔
پانچویں بات

اور ایک جگہ لکھتے ہیں :

علماء کا خون کھولنا چاہیے ، جس طرح قرآن میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کی بیخ کنی ضروری ہے ، اسی طرح سنت میں شکوک و شبہات یا محافظین و ناقلین سنت پر طعن و تشنیع کا دفاع کرنا بھی ضروری ہے ۔ روایات کی صحت و ضعف میں متقدمین و متاخرین کا اختلاف ہے ، اس وقت بھی ہوا آج بھی ہوسکتا ہے ، اصولوں کی بنیاد پر ، دلائل کی بنیاد پر ، اس پر چیں بہ چیں ہونے کی ضرورت نہیں ، لیکن اختلاف کرنے والا اس کا اہل ہونا چاہیے ، یہ نہیں کہ اپنے فہم سقیم کو روایت کے صحت و ضعف کے فیصلے کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کردے ۔ اور اسے یہ بھی پتہ نہ ہو کہ صدیوں سے جو اصول متفقہ طور پر محدثین کے ہاں رائج ہیں وہ کیا ہے ۔؟ متاخر متقدم سے اختلاف کرسکتا ہے ، لیکن کم از کم اختلاف کی بنیاد متاخر کی جہالت نہیں بلکہ اس کا ’’ علم ‘‘ ہونا چاہیے ۔
جواد بھائی مزید لکھتے ہیں :

میری گزارش یہ ہے کہ ’’ ثقاہت ‘‘ سے تو آپ کی مراد سمجھ چکے لیکن ’’ اجماع ‘‘ سے آپ کی یہاں کیا مراد ہے ۔؟
چھٹی گزارش

اسی طرح لکھتے ہیں :

مجھے ذرا یہ بتائیں کہ یہ بات کس نے کہی کہ صحابہ کرام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’اکثر احکامات ‘‘ سمجھنے میں غلطی لگی ۔؟ یہ آپ کی اپنی تحقیق ہے یا کسی ’’ محقق ‘‘ سے منقول ہے ۔؟
اسی سے ملتا جلتا دعوی آپ کا یہ ہے کہ :

کوئی چند نمونے لے لیں ، اور پھر ذرا دراسہ کرکے ثابت کردیں کہ اکثر احادیث میں محدثین کا آپس میں اختلاف رہا ہے ۔
ویسے میں آپ کے ساتھ اس حد تک متفق ہوں کہ بہت ساری حدیثوں ( نہ کہ اکثر ) میں محدثین کا اختلاف ہے ، اور کوئی بھی دوسرے کو منکر حدیث نہیں کہتا ۔ لیکن یہ سب کیوں ہے کیوں کہ ان کا اختلاف مسلمہ اصولوں کی بنیاد پر ہے ۔ گویا اصولوں میں متفق ہیں لیکن فروع میں اختلاف ہے ، بالفاظ دیگر شرائط صحت میں متفق ہیں لیکن کسی روایت میں ان شرائط کے ہونے نہ ہونے میں اختلاف ہے ۔
لیکن جن کو ہم منکریں حدیث کہہ دیتے ہیں ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پہلے تو خیر سے کوئی اصول ہیں ہی نہیں ، اور رہے محدثین کے اصول تو ان کو بھی وہ ’’ میں نہ مانوں ‘‘ کی بے اصولی سے رد کردیتے ہیں ۔
ساتویں گزارش

آپ نے کہا :

کوئی حوالہ بھی لکھ دیں ، امامین کا آپس میں اختلاف کہاں کس جگہ ہوا ؟ کس نے نقل کیا ہے ؟ کس کتاب میں بیان ہوا ہے یہ اختلاف ۔؟ اگر الفاظ نقل کردیں تو بہتر ہے ۔
آپ نے کہا :

امام بخاری نے کسی جگہ دعوی کیا ہے کہ ہر صحیح حدیث کو میں اپنی کتاب صحیح میں ضرور ذکر کروں گا ۔؟ یا اس کے برعکس کہا ہو کہ جو روایات میں نے نہیں ذکر کیں وہ سب غیر صحیح ہیں ۔؟
آٹھویں گزارش

مزید ایک جگہ دیکھیں آپ نے کیا لکھا ہے :

پیارے بھائی گزارش یہ ہے کہ آپ جیسے لوگوں کا عموما رویہ یہ ہوتا کہ احادیث نقل کرکے کہتے ہیں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معاذ اللہ ایسی غلط حرکت ، بھونڈا انداز وغیرہ وغیرہ کرسکتے ہیں ۔ جیساکہ عمر عائشہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں احادیث کے بارے میں منکرین حدیث کا رویہ ہے ۔
میری گزارش ہے کہ روایات رد کرنے کے جوش و جذبہ میں حضور کے بارے میں احتمالا بھی ایسے الفاظ استعمال نہ کریں ، کیونکہ آپ کو وحی کے ذریعے نہیں بتایا گیا کہ یہ روایت غیر ثابت ہے ، بلکہ آپ کی عقل نے یہ کہا ہے ، جو ممکن ہے غلط بھی ہو اور درست بھی ۔ تو اس طرح کی زبان استعمال کرتے ہوئے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ثبوت کے احتمال کو مدنظر رکھنا چاہیے ، تاکہ بزبان خود ’’ گستاخی ‘‘ کے مرتکب نہ ہوں ۔
نویں بات


اس طرح کی احادیث میں علامات نبوت وہ نہیں جو حمیر صاحب سمجھ رہے ہیں ، بلکہ یہ ہےکہ آپ نے آئندہ ہونے والے ایک واقعہ کی وقوع سے کئی سال پہلے پیشین گوئی کردی ہے ۔ اسی بنیاد پر سیوطی وغیرہ نے اس اس ضمن میں ذکر کیا ہے ۔
بڑے احترام سے گزارش ہے کہ محدثین ، علماء کی بات کو پہلے سمجھیں ، پھر اس پر اعتراض کریں ، ورنہ اس سے ان ہستیوں کا تو کچھ نہیں بگڑنے والا ، الٹا اعتراض کرنے والے ’’ بیچارے ‘‘ لگتے ہیں ۔
دسویں بات

کسی نے لکھا :

میری گزارش یہ ہےکہ آپ مسلمانوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات ختم نہیں کررہے ، یہ کام علماء بخوبی سرانجام دے چکے ہیں او ردے رہے ہیں ، بلکہ آپ دین دشمنوں کو دینی اثاثے اور مواد پر ’’ انگشت نمائی ‘‘ کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔ عافیت اصولوں کی پاسداردی کرنے میں ہی ہے ، جو اصولوں سے ثابت ہے وہ حق ہے ، جو غلط ہے وہ اصولوں کے مطابق نہیں ۔ جو اصولوں سے ہٹ کر حق و باطل کی تلاش میں ہے اس کو صراط مستقیم کی دعا کرنی چاہیے ۔
کچھ لوگ اللہ کی صفات کا انکار صرف اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ا س سے شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں ، حالانکہ صفات الہیہ برحق ہیں اور قصور ان کے ’’ شکوک و شبہات ‘‘ کا ہے ، جو غلط جگہ پر آجاتے ہیں ۔
کسی نے لکھا ہے :

اگر سلف صالحین کا راستہ گمراہی ہے تو شاید آپ کے نزدیک شاید ’’ صراط مستقیم ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’ گمراہی ‘‘ کیاجاتا ہے ۔
پھر بھی اگر یہ چیزیں آپ کے لیے گمراہی کا سبب بنتی ہیں تو ان کا مطالعہ نہ فرمایا کریں ، کہیں ایسا نہ ہوا کہ ایک گمراہی سے بھاگتے بھاگتے آپ دوسری میں گرفتار ہو جائیں اور ’’ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمہ صافی ‘‘ سے سیراب ہونے سے ہی محروم ہوجائیں ۔ ’’ قرآن ‘‘ تو آپ کے پاس ہو لیکن اس کی محمدی تفسیر سےفیضیاب ہونے میں ’’ شکوک وشبہات ‘‘ آڑے آ جائیں ۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے ، اور شیطانی وسوسوں سے محفوظ فرمائے ۔
جزاک اللہ خیر الجزاء
آپ نے اس دھاگہ کے اکثر پہلووں کی غلطیوں کی نشاندہی فرمادی ہے ۔
احادیث نبویہ میں تشکیک اور تخریب کا بنیادی ہتھیار یہی استعمال کیا جاتا ہے ،،کہ احادیث کے مضامین میں موجود حقیقت کو قرآن ،یا اللہ اور رسول اللہﷺ کی عظمت،اور دین کے بنیادی حقائق کے منافی بناکر پیش کیا جاتا ہے ۔
اور پھر یہیں ایک ہتھیار ’‘ برآمد ’‘ ہوتا ہے۔۔۔جس کا نام شریف ۔۔۔درایت ۔۔ہوتا ہے ،،،
جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ،یہ لوگ نہ تو ۔۔درایت ۔۔کا معنی جانے ہیں ۔۔اور نہ کبھی اپنی درایت کی ایک متفقہ تعریف پر متفق ہوتے نظر آئے ہیں ۔
اسی لئے میں پچھلی پوسٹ میں درایت کا پوچھا تھا ۔
 
Top