• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایات- حَوْأَبِ کے کتے اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (ایک تحقیقی جائزہ)

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
میں تقریبا روز اول سے اس موضوع کو دیکھ رہا ہوں ، بلکہ حسب توفیق بغور سمجھنے کی بھی کوشش کی ۔ دو تین دن ہوگئے میں نے بعض اراکین کی کچھ باتیں نوٹ کیں تاکہ ان پر کچھ تبصرہ کروں لیکن پھر دیکھا ان میں سے کئی باتیں ایک رکن محمد عثمان بھائی اپنے انداز میں کر چکے ہیں ، لہذا میں نے مزید انتظار کرنا مناسب سمجھا کہ بحث یقینا کسی نتیجہ تک پہنچے گی ۔
لیکن آج دوبارہ تازہ شراکتیں دیکھنے سے محسوس ہورہا ہے کہ ’’ لا علمی و کج بحثی ‘‘ حدود سے تجاوز کررہی ہے ، جس سے صاحب علم لوگ تو کوئی متاثر نہیں ہوں گے لیکن فورم کے عام اراکین ممکن ہے شکو ک و شبہات کا شکار ہو جائیں ۔ اس لیے علم حدیث کا ایک مبتدی طالب علم ہونے کی حیثیت سے کچھ لکھنا چاہتا ہوں ۔
بھائی محمد علی جواد صاحب اورن کے ہمنواؤں نے جن باتوں پر اس موضوع کی بنیاد رکھی ہے وہ تقریبا درج ذیل ہیں :
پہلی بات

۔ زیر بحث روایت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تنقیص کا پہلو نکلتا ہے ۔ روایت کے الفاظ کا ترجمہ جیساکہ انہوں نے خود نقل کیا ہے کچھ یوں ہے :

گویا یہ کتے بھونکنا ان کے نزدیک تنقیص ٹھہرا ۔ بلکہ اس سے بڑھ کر لکھتے ہیں :

لیکن دوسری جگہ بقلم خود لکھتے ہے :

اسی طرح لکھتے ہیں کہ

گویا یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس واقعہ سے ان کے حق میں تنقیص و تحقیر کا کوئی پہلو نہیں نکلتا ۔
اب اس تناقض اور تضاد کا کیا مطلب ہے ۔؟
اب اسی متناقض اور متردد بات کے ضمن میں ایک اصول بھی بیان کرتے ہیں ۔
ذرا اصول دیکھیے :
دوسری بات

جن روایات سے صحابہ کی تنقیص کا پہلو نکلتا ہے ، انہیں فورا رد کردینا چاہیے ، اصول حدیث پر پرکھنے کی ضرورت نہیں ۔
ان کے اپنے الفاظ یوں ہیں :

میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ جناب اس روایت میں کون سی تنقیص ہے ۔؟ وہ تنقیص جس کے وجود و عدم وجود میں جناب خود متناقض ہیں ۔؟ عربی کا ایک مقولہ ہے ’’ ثبت العرش ثم انقش ‘‘ پہلے تنقیص ثابت کرلیں پھر اس بنیاد پر روایات کے رد کرنے کا کام بھی شروع کر لیجیے گا ۔
اور پھر یہ اصول کس نے بنایا ۔؟ کسی نے اس کو ابن جوزی کی طرف منسوب کیا لیکن حوالہ ۔؟ اور پھر کیا ابن جوزی اکیلے ہی محدث ہیں ۔؟ جن پر اصول حدیث کی بنیاد ہے ۔؟
حدیث کے قبول و رد کا کوئی اصول بیان کرنا چاہتے ہیں تو أئمہ حدیث کے حوالے بیان کریں ، اگر اختلاف ہے تو راجح قول بیان کریں ، پھر وجوہ ترجیح بیان کریں ۔ تاکہ آپ کی بات میں کوئی وزن بھی ہو اور ’’ روایات حدیثیہ ‘‘ پر حملہ کرنے کا کوئی جواز بھی سامنے آئے ۔
اور پھر یہ بتائیں کہ کیا صحابہ کرام معصوم عن الخطاء تھے ، اگر نہیں تھیں تو ان کی لغزشیں ، کمیاں ، کوتاہیاں (جو در حقیقت ان کے نیکیوں کے بحر بے کنار کے سامنے ایک قطرے کی بھی حثیت نہیں رکھتیں ، اور رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کی سند کے ہوتے ہوئے ان کی کوئی حیثیت نہیں) ، نقل ہو گئیں تو اس کا مطلب ہے کہ نقل کرنے والا جھوٹا ہے ۔؟
قابل اعتماد راویوں پر حملہ کرنے کی بجائے پہلے اپنے ذہن کی صفائی اور فہم کی دھلائی کرلینی چاہیے ، کیونکہ عین ممکن ہے کہ مسئلہ راوی کی روایت میں نہیں بلکہ ہماری نام نہاد درایت میں ہو ۔
اس طرح تو کوئی بھی من پسند اصول بنا کر احادیث پر چھری چلا دے گا ، بلکہ لوگوں نے چلائی ہیں ، کسی نے معارضہ بالقرآن کے بہانہ سے روایات کو رد کرنا شروع کیا ہے ، کسی نے کہا یہ قیاس کے مطابق نہیں ، کسی نے کہا یہ راوی کی رائے سے مطابقت نہیں رکھتی ۔؟ وغیرہ وغیرہ
حالانکہ :
کم من عائب قولا صحيحا
وآفته من الفهم السقيم

تیسری بات

لکھتے ہیں :

میری گزارش یہ ہے کہ ذرا بیان فرمادیں کہ محدثین کے اصولوں کی آپ کے نزدیک کیا مسلمہ حیثیت ہے ۔؟ کیا ان اصولوں کی اتنی ہی حیثیت ہے کہ وہ ’’ نام نہاد درایت ‘‘ کا سامنا بھی نہیں کرسکتے ۔؟ کیا اتنی ہی حیثیت ہے کہ جو آدمی دو چار اردو کتابیں پڑھ لیتا ہے وہ ان میں شکوک و شبہات پیدا کرنا شروع کردیتا ہے ۔؟
جس آدمی کو ’’ روایت ‘‘ کے صحیح ہونےکی بنیادی شروط کا نہیں پتہ وہ ’’ درایت ‘‘ میں خود کو ماہر سمجھتا ہے ۔۔؟ جس کو یہ نہیں پتہ کہ راوی ’’ ثقہ ‘‘ ہوتا ہے یا ’’ سقہ ‘‘ ۔؟!
یہ محدثین کے اصول ہیں یا ’’ ٹشو پیپر ‘‘ ۔؟ جب چاہا کہا کہ یہ ’’ مسلمہ اصول ‘‘ ہیں اور جب چاہا کہا کہ یہ ’’ درایت ‘‘ کے خلاف ہیں ۔
خیر آپ اگر ایک دو اصول بیان کردیں تو بہت ہی بہتر ہوگا ، کم از کم سند رہے کہ آپ فلاں فلاں اصول کو تو مانتے ہیں ۔
دوسری بات : اگر خود محدثین کے راویوں اور روایات کے متعلق بنائے گئے اصولوں کے مطابق زیر بحث روایت ضعیف ہے ، تو پھر محدثین کے بنائے ہوئے اصولوں سے ناراضی اور بیزاری چہ معنی دارد ۔؟
اور پھر محدثین کے انہیں اصولوں کو ماننے والوں کو ’’ اعتدال سےہٹے ہوئے قرار دینا ‘‘ ’’ روایت پرست قرار دینا ‘‘ ’’ اہل تشیع کے مشابہ کہنا ‘‘ ’’ سبائیت ‘‘ سے متہم قرار دینا یہ کہاں کا انصاف ہے ۔؟
چوتھی بات

کیا راویوں کی بات ماننا روایت پرستی ہے ۔؟ کیا راویوں کی بات ماننا ان کو ’’ معصومیت ‘‘ کا درجہ دینا ہے ۔؟
کسی نے کہا کہ راویوں کی بات ماننا روایت پرستی ہے ۔ اور یہ ان کو ’’ معصوم ‘‘ سمجھنے کے مترادف ہے ۔
کلمہ ’’ اہل درایت ‘‘ کا اگر عام فہم معنی کیا جائے تو میں یہ کہوں گا کہ ’’ اہل فہم و بصیرت ‘‘ لیکن عصر حاضر میں ’’ درایت ‘‘ کا واویلا کرنے والوں کا حال بزبان شاعر یوں ہے :
جہلت ولا تدری بأنک جاہل
بھلا یہ بات کوئی سمجھدار آدمی کرسکتا ہے ک کسی کی بات ماننا اس کو ’’ معصومیت ‘‘ کے درجہ پر فائز کرنا ہے ۔؟
ٹی کے ایچ صاحب ایک آدمی نیکی تقوی پرہیزگاری میں اعلی درجہ پر فائز ہے ، جھوٹ نہیں بولتا ، حافظہ مضبوط ہے ، سکیڑوں روایات اس کی نوک زبان پر ہیں ، آخر اس کی بات کو آپ کس منطق سے رد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔؟ صرف اس بنیاد پر کہ آپ کی عقل میں نہیں آرہی ۔؟ سبحان قاسم العقول !
اور پھر یہ بھی محدثین پر اتہام ہےکہ وہ صرف راویوں کی ثقاہت وعدالت کی پرکھ کرتے ہیں ’’ متون ‘‘ سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ، بلکہ میں کہوں گا اصول حدیث سے جہالت کا اعلانیہ اظہار ہے ۔
اصول حدیث کے اندر موجود ’’ حدیث مقبول ‘‘ کی پانچ شروط ہی دیکھ لی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ محدثین صرف رواۃ پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ روایات یا کہہ لیں متون کو بھی پرکھتے ہیں ۔
عدالت و دیانت ، حفظ و ضبط ، اتصال سند ، علت کانہ ہونا ، شذوذ کا نہ ہونا ۔
حدیث صحیح کی پانچ شروط میں سے آخری دو اس وقت تک متحقق ہی نہیں ہوتیں جب تک متون کی پرکھ نہ کرلی جائے ۔
اس کے باوجود ’’ مستشرقین ‘‘ کی بولی بولنا ، کہ محدثین درایت کے اصولوں سے واقف نہیں تھے ، خود قائل کی اپنی شان میں گستاخی ہے ۔
محمد علی جواد صاحب لکھتے ہیں :

اس پر میں اس کے سوا اور کئی تبصرہ نہیں کرتا کہ کیا یہ ’’ روایت پرستی ‘‘ نہیں ہے ۔؟ جن کے نزدیک تیسری صدی ہجری کے مورخ کی بات معتبر ہے ، وہ انہیں ادوار کے محدثین کی نقل کردہ احادیث سے کیوں بیزار ہوجاتے ہیں ۔؟
اور پھر انداز استدلال دیکھیں کہ ایک طرف تو ’’ بیان نہ کرنا ‘‘ بھی حجت ہے ، جبکہ دوسری طرف ’’ بیان کرنے ‘‘ کی بھی کوئی حیثیت نہیں ۔ فیا للہ العجب !
محمد علی جواد صاحب غالبا محمد عثمان صاحب کے جواب میں لکھتے ہیں :

میری گزارش ہے کہ ذرا ’’ اہل سنت ‘‘ سے اپنی مراد واضح کردیں ، اعتدال پرستی بھی بیان کردیں جس سے علماء اہل سنت ہٹے ہوئے ہیں ، اور ان اکثر علماء کا تذکرہ بھی کردیں جو آپ کے ہمنوا ہیں ۔
پانچویں بات

اور ایک جگہ لکھتے ہیں :

علماء کا خون کھولنا چاہیے ، جس طرح قرآن میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کی بیخ کنی ضروری ہے ، اسی طرح سنت میں شکوک و شبہات یا محافظین و ناقلین سنت پر طعن و تشنیع کا دفاع کرنا بھی ضروری ہے ۔ روایات کی صحت و ضعف میں متقدمین و متاخرین کا اختلاف ہے ، اس وقت بھی ہوا آج بھی ہوسکتا ہے ، اصولوں کی بنیاد پر ، دلائل کی بنیاد پر ، اس پر چیں بہ چیں ہونے کی ضرورت نہیں ، لیکن اختلاف کرنے والا اس کا اہل ہونا چاہیے ، یہ نہیں کہ اپنے فہم سقیم کو روایت کے صحت و ضعف کے فیصلے کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کردے ۔ اور اسے یہ بھی پتہ نہ ہو کہ صدیوں سے جو اصول متفقہ طور پر محدثین کے ہاں رائج ہیں وہ کیا ہے ۔؟ متاخر متقدم سے اختلاف کرسکتا ہے ، لیکن کم از کم اختلاف کی بنیاد متاخر کی جہالت نہیں بلکہ اس کا ’’ علم ‘‘ ہونا چاہیے ۔
جواد بھائی مزید لکھتے ہیں :

میری گزارش یہ ہے کہ ’’ ثقاہت ‘‘ سے تو آپ کی مراد سمجھ چکے لیکن ’’ اجماع ‘‘ سے آپ کی یہاں کیا مراد ہے ۔؟
چھٹی گزارش

اسی طرح لکھتے ہیں :

مجھے ذرا یہ بتائیں کہ یہ بات کس نے کہی کہ صحابہ کرام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’اکثر احکامات ‘‘ سمجھنے میں غلطی لگی ۔؟ یہ آپ کی اپنی تحقیق ہے یا کسی ’’ محقق ‘‘ سے منقول ہے ۔؟
اسی سے ملتا جلتا دعوی آپ کا یہ ہے کہ :

کوئی چند نمونے لے لیں ، اور پھر ذرا دراسہ کرکے ثابت کردیں کہ اکثر احادیث میں محدثین کا آپس میں اختلاف رہا ہے ۔
ویسے میں آپ کے ساتھ اس حد تک متفق ہوں کہ بہت ساری حدیثوں ( نہ کہ اکثر ) میں محدثین کا اختلاف ہے ، اور کوئی بھی دوسرے کو منکر حدیث نہیں کہتا ۔ لیکن یہ سب کیوں ہے کیوں کہ ان کا اختلاف مسلمہ اصولوں کی بنیاد پر ہے ۔ گویا اصولوں میں متفق ہیں لیکن فروع میں اختلاف ہے ، بالفاظ دیگر شرائط صحت میں متفق ہیں لیکن کسی روایت میں ان شرائط کے ہونے نہ ہونے میں اختلاف ہے ۔
لیکن جن کو ہم منکریں حدیث کہہ دیتے ہیں ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پہلے تو خیر سے کوئی اصول ہیں ہی نہیں ، اور رہے محدثین کے اصول تو ان کو بھی وہ ’’ میں نہ مانوں ‘‘ کی بے اصولی سے رد کردیتے ہیں ۔
ساتویں گزارش

آپ نے کہا :

کوئی حوالہ بھی لکھ دیں ، امامین کا آپس میں اختلاف کہاں کس جگہ ہوا ؟ کس نے نقل کیا ہے ؟ کس کتاب میں بیان ہوا ہے یہ اختلاف ۔؟ اگر الفاظ نقل کردیں تو بہتر ہے ۔
آپ نے کہا :

امام بخاری نے کسی جگہ دعوی کیا ہے کہ ہر صحیح حدیث کو میں اپنی کتاب صحیح میں ضرور ذکر کروں گا ۔؟ یا اس کے برعکس کہا ہو کہ جو روایات میں نے نہیں ذکر کیں وہ سب غیر صحیح ہیں ۔؟
آٹھویں گزارش

مزید ایک جگہ دیکھیں آپ نے کیا لکھا ہے :

پیارے بھائی گزارش یہ ہے کہ آپ جیسے لوگوں کا عموما رویہ یہ ہوتا کہ احادیث نقل کرکے کہتے ہیں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معاذ اللہ ایسی غلط حرکت ، بھونڈا انداز وغیرہ وغیرہ کرسکتے ہیں ۔ جیساکہ عمر عائشہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں احادیث کے بارے میں منکرین حدیث کا رویہ ہے ۔
میری گزارش ہے کہ روایات رد کرنے کے جوش و جذبہ میں حضور کے بارے میں احتمالا بھی ایسے الفاظ استعمال نہ کریں ، کیونکہ آپ کو وحی کے ذریعے نہیں بتایا گیا کہ یہ روایت غیر ثابت ہے ، بلکہ آپ کی عقل نے یہ کہا ہے ، جو ممکن ہے غلط بھی ہو اور درست بھی ۔ تو اس طرح کی زبان استعمال کرتے ہوئے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ثبوت کے احتمال کو مدنظر رکھنا چاہیے ، تاکہ بزبان خود ’’ گستاخی ‘‘ کے مرتکب نہ ہوں ۔
نویں بات


اس طرح کی احادیث میں علامات نبوت وہ نہیں جو حمیر صاحب سمجھ رہے ہیں ، بلکہ یہ ہےکہ آپ نے آئندہ ہونے والے ایک واقعہ کی وقوع سے کئی سال پہلے پیشین گوئی کردی ہے ۔ اسی بنیاد پر سیوطی وغیرہ نے اس اس ضمن میں ذکر کیا ہے ۔
بڑے احترام سے گزارش ہے کہ محدثین ، علماء کی بات کو پہلے سمجھیں ، پھر اس پر اعتراض کریں ، ورنہ اس سے ان ہستیوں کا تو کچھ نہیں بگڑنے والا ، الٹا اعتراض کرنے والے ’’ بیچارے ‘‘ لگتے ہیں ۔
دسویں بات

کسی نے لکھا :

میری گزارش یہ ہےکہ آپ مسلمانوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات ختم نہیں کررہے ، یہ کام علماء بخوبی سرانجام دے چکے ہیں او ردے رہے ہیں ، بلکہ آپ دین دشمنوں کو دینی اثاثے اور مواد پر ’’ انگشت نمائی ‘‘ کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔ عافیت اصولوں کی پاسداردی کرنے میں ہی ہے ، جو اصولوں سے ثابت ہے وہ حق ہے ، جو غلط ہے وہ اصولوں کے مطابق نہیں ۔ جو اصولوں سے ہٹ کر حق و باطل کی تلاش میں ہے اس کو صراط مستقیم کی دعا کرنی چاہیے ۔
کچھ لوگ اللہ کی صفات کا انکار صرف اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ا س سے شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں ، حالانکہ صفات الہیہ برحق ہیں اور قصور ان کے ’’ شکوک و شبہات ‘‘ کا ہے ، جو غلط جگہ پر آجاتے ہیں ۔
کسی نے لکھا ہے :

اگر سلف صالحین کا راستہ گمراہی ہے تو شاید آپ کے نزدیک شاید ’’ صراط مستقیم ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’ گمراہی ‘‘ کیاجاتا ہے ۔
پھر بھی اگر یہ چیزیں آپ کے لیے گمراہی کا سبب بنتی ہیں تو ان کا مطالعہ نہ فرمایا کریں ، کہیں ایسا نہ ہوا کہ ایک گمراہی سے بھاگتے بھاگتے آپ دوسری میں گرفتار ہو جائیں اور ’’ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمہ صافی ‘‘ سے سیراب ہونے سے ہی محروم ہوجائیں ۔ ’’ قرآن ‘‘ تو آپ کے پاس ہو لیکن اس کی محمدی تفسیر سےفیضیاب ہونے میں ’’ شکوک وشبہات ‘‘ آڑے آ جائیں ۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے ، اور شیطانی وسوسوں سے محفوظ فرمائے ۔
کیا آپ اس ”بات“ کی ”ضمانت “ دیتے ہیں کہ ”محدثین کرامؒ“ نے ”راویوں“کے ”باطن“میں ”جھانک“ کر ”جرح و تعدیل“کا کام ”سر انجام“دیا ؟ اور انکے فیصلے ”خدائی“ہیں ؟
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
اس طرح کی احادیث میں علامات نبوت وہ نہیں جو حمیر صاحب سمجھ رہے ہیں ، بلکہ یہ ہےکہ آپ نے آئندہ ہونے والے ایک واقعہ کی وقوع سے کئی سال پہلے پیشین گوئی کردی ہے ۔ اسی بنیاد پر سیوطی وغیرہ نے اس اس ضمن میں ذکر کیا ہے ۔
بڑے احترام سے گزارش ہے کہ محدثین ، علماء کی بات کو پہلے سمجھیں ، پھر اس پر اعتراض کریں ، ورنہ اس سے ان ہستیوں کا تو کچھ نہیں بگڑنے والا ، الٹا اعتراض کرنے والے ’’ بیچارے ‘‘ لگتے ہیں ۔
محترم @خضرحیات بھائی۔ السلام علیکم
جناب میں نے آج سے تقریبا دو مہینے پہلے یہاں ان ہی احادیث کے متعلق تحقیق کا ایک مراسلہ بھیجا تھا۔
http://forum.mohaddis.com/threads/واقعہ-حواب-کے-متعلق-احادیث-کی-تحقیق-درکار-ہے؟.25645/
لیکن جناب اس مراسلے پر کسی نے توجہ نہ دی۔ اور میں نے خود ان احادیث کو اچھی طرح مختلف جگہوں پر دیکھنے کی کوشش کی۔ لیکن مجھے کوئی واضح جواب نہیں ملا تھا، اس لئے میں نے آپکے اس فورم کا سہارا لیا۔ میں نے اپنی اس پوسٹ میں دو چار احادیث جو واقعے حواب کے متعلق تھیں، انکو کوٹ کرکے کچھ سوالات پوچھے تھے، لیکن شائد وہ نظر انداز ہوگئے، اگر آپ لوگ انکو بروقت دیکھ لیتے تو شائد میری جو غلط فہمیاں تھیں، اس حدیث کے متعلق وہ دور ہوجاتی۔ خیر اب میں مسند احمد بن حنبل کی حدیث کے متعلق تو کچھ نہیں کہونگا، کیونکہ میرا اتنا علم نہیں ہے کہ میں اسپر کچھ کہوں، میں آپ سے یا اس فورم پر موجود کسی اور اور اہل علم بھائی سے درخواست کرونگا کہ وہ بس مجھے ذرا اس حدیث کے متعلق تفضیل سے بتادے کہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ اور علامہ عبدالبر رحمہ اللہ صاحبان نے اپنی کتب میں لکھی ہوئی ہیں۔ اور کچھ اس کے متعلق سوالات۔ یہ سولاات میں اپنی ذاتی تشفی کے لئے پوچھ رہا ہوں، یہ اس سے کوئی مراد نہ لے کہ میں "بحث برائے بحث" کررہا ہوں۔ اگر میرے پہلے مراسلے پر ہی میرے ان سوالات کا تشفی اور جامع جوابات دے دیتا تو شائد میرے طرف سے یہ یہ کمنٹ نہ آتا جسکا محترم خضر صاحب نے نوٹ لیا۔ بحر حال حدیث یہ ہے

) یہ حدیث ام سلمہ رض سے یوں روایت کی گئی ہے :
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے بعض امہات مؤمنین(اپنی بیویوں) کے باہر نکلنے کے بارے میں یاددہانی کی ، عائشہ نے اس پر مذاق اڑایا، حضرت نے اس سے مخاطب ہوکر فرمایا : اے حمیرا ! :خبر دار، کہیں ان میں سے تم ہی نہ ہو، اے حمیرا : گویا میںدیکھ رہاہوںکہ حواٴب کے کتے تم پر بھونک رہے ہیں ، اس وقت تم علی بن ابیطالب سے جنگ کروگی جبکہ تم ظالم ہوگی
سیوطی نے خصائص، ج ۲/ ۱۳۷ ، ابن عبد البر نے عائشہ کی تشریح میں استیعاب میں یہ روایت نقل کی گئی ہے ۔ اس کے بعد کہا گیا ہے : یہ روایت نبوت کی نشانیوں میں سے ہے ۔

سوالات میرے کچھ یہاں یہ ہیں: -
1) کیا یہ حدیث اپنی اسنادی حیثیت سے مظبوط ہے یا اسمیں کچھ ضعف پایا جاتا ہے؟
2) کن کن محدثین کرام نے اس حدیث پر کلام کیا ہے، انکی تفضیل؟
3) حضور اکرم ﷺ نے جب بیویوں کا باہر نکلنے سے منع فرمایا، پھر بھی عائشہ رض نے مذاق اڑایا ؟ کیا اس حدیث میں ایسا ہی ہے (معذرت کے ساتھ مجھے اسکا عربی متن نہ مل سکا) ۔ اگر ایسا ہی تو کیا اسکو سیدہ عائشہ رض کی شان میں تنقیص سمجھا جائے یا نہیں؟
4) اس حدیث میں رسول اکرم ﷺ نے واقعہ حواب میں سیدہ عائشہ رض پر کتوں کے بھونکنے کو سیدنا علی بن ابی طالب
رض سے جنگ کرنے سے منسلک کیا اور یہ بھی فرمایا کہ تم (عائشہ رض) ظالم ہوگی؟ کیا یہ بات سہی ہے یا غلط؟ اگر حواب والی روایت صحیح ہے تو روایت کا یہ ٹکڑا بھی درست ہے کیا؟
5) پھر اسکو "علامات نبویہ" میں سے ایک بتایا گیا ہے۔ اسکا مجھے تفضیلی جواب مہربانی سے دے دیں کہ "علامات نبویہ" سے مراد کیا حواب کےکتوں کا سیدہ عائشہ رض پر بھونکنا ہے یا سیدہ کا حضرت علی رض سے جنگ کرنا میں سے ہے؟ علامہ سیوطی نے یہاں کیا مراد لی ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
محترم @خضرحیات بھائی۔ السلام علیکم
جناب میں نے آج سے تقریبا دو مہینے پہلے یہاں ان ہی احادیث کے متعلق تحقیق کا ایک مراسلہ بھیجا تھا۔
http://forum.mohaddis.com/threads/واقعہ-حواب-کے-متعلق-احادیث-کی-تحقیق-درکار-ہے؟.25645/
لیکن جناب اس مراسلے پر کسی نے توجہ نہ دی۔ اور میں نے خود ان احادیث کو اچھی طرح مختلف جگہوں پر دیکھنے کی کوشش کی۔ لیکن مجھے کوئی واضح جواب نہیں ملا تھا، اس لئے میں نے آپکے اس فورم کا سہارا لیا۔ میں نے اپنی اس پوسٹ میں دو چار احادیث جو واقعے حواب کے متعلق تھیں، انکو کوٹ کرکے کچھ سوالات پوچھے تھے، لیکن شائد وہ نظر انداز ہوگئے، اگر آپ لوگ انکو بروقت دیکھ لیتے تو شائد میری جو غلط فہمیاں تھیں، اس حدیث کے متعلق وہ دور ہوجاتی۔ خیر اب میں مسند احمد بن حنبل کی حدیث کے متعلق تو کچھ نہیں کہونگا، کیونکہ میرا اتنا علم نہیں ہے کہ میں اسپر کچھ کہوں، میں آپ سے یا اس فورم پر موجود کسی اور اور اہل علم بھائی سے درخواست کرونگا کہ وہ بس مجھے ذرا اس حدیث کے متعلق تفضیل سے بتادے کہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ اور علامہ عبدالبر رحمہ اللہ صاحبان نے اپنی کتب میں لکھی ہوئی ہیں۔ اور کچھ اس کے متعلق سوالات۔ یہ سولاات میں اپنی ذاتی تشفی کے لئے پوچھ رہا ہوں، یہ اس سے کوئی مراد نہ لے کہ میں "بحث برائے بحث" کررہا ہوں۔ اگر میرے پہلے مراسلے پر ہی میرے ان سوالات کا تشفی اور جامع جوابات دے دیتا تو شائد میرے طرف سے یہ یہ کمنٹ نہ آتا جسکا محترم خضر صاحب نے نوٹ لیا۔ بحر حال حدیث یہ ہے

) یہ حدیث ام سلمہ رض سے یوں روایت کی گئی ہے :
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے بعض امہات مؤمنین(اپنی بیویوں) کے باہر نکلنے کے بارے میں یاددہانی کی ، عائشہ نے اس پر مذاق اڑایا، حضرت نے اس سے مخاطب ہوکر فرمایا : اے حمیرا ! :خبر دار، کہیں ان میں سے تم ہی نہ ہو، اے حمیرا : گویا میںدیکھ رہاہوںکہ حواٴب کے کتے تم پر بھونک رہے ہیں ، اس وقت تم علی بن ابیطالب سے جنگ کروگی جبکہ تم ظالم ہوگی
سیوطی نے خصائص، ج ۲/ ۱۳۷ ، ابن عبد البر نے عائشہ کی تشریح میں استیعاب میں یہ روایت نقل کی گئی ہے ۔ اس کے بعد کہا گیا ہے : یہ روایت نبوت کی نشانیوں میں سے ہے ۔

سوالات میرے کچھ یہاں یہ ہیں: -
1) کیا یہ حدیث اپنی اسنادی حیثیت سے مظبوط ہے یا اسمیں کچھ ضعف پایا جاتا ہے؟
2) کن کن محدثین کرام نے اس حدیث پر کلام کیا ہے، انکی تفضیل؟
3) حضور اکرم ﷺ نے جب بیویوں کا باہر نکلنے سے منع فرمایا، پھر بھی عائشہ رض نے مذاق اڑایا ؟ کیا اس حدیث میں ایسا ہی ہے (معذرت کے ساتھ مجھے اسکا عربی متن نہ مل سکا) ۔ اگر ایسا ہی تو کیا اسکو سیدہ عائشہ رض کی شان میں تنقیص سمجھا جائے یا نہیں؟
4) اس حدیث میں رسول اکرم ﷺ نے واقعہ حواب میں سیدہ عائشہ رض پر کتوں کے بھونکنے کو سیدنا علی بن ابی طالب
رض سے جنگ کرنے سے منسلک کیا اور یہ بھی فرمایا کہ تم (عائشہ رض) ظالم ہوگی؟ کیا یہ بات سہی ہے یا غلط؟ اگر حواب والی روایت صحیح ہے تو روایت کا یہ ٹکڑا بھی درست ہے کیا؟
5) پھر اسکو "علامات نبویہ" میں سے ایک بتایا گیا ہے۔ اسکا مجھے تفضیلی جواب مہربانی سے دے دیں کہ "علامات نبویہ" سے مراد کیا حواب کےکتوں کا سیدہ عائشہ رض پر بھونکنا ہے یا سیدہ کا حضرت علی رض سے جنگ کرنا میں سے ہے؟ علامہ سیوطی نے یہاں کیا مراد لی ہے؟
السلام علیکم :
فی الحال ۔الخصائص الکبری ۔کی روایت کے متعلق ذیل میں مختصراً کچھ عرض ہے وہ ملاحظہ فرمائیں ،،،
دیگر نکات پر وقت ملتے ہی مزید عرض کردیا جائے گا ۔ان شاء اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) پہلی بات یہ کہ خصائص ۔والی روایت کے ترجمہ میں بہت بڑی خرابی یا غلطی یہ ہے،کہ
عربی لفظ (ضحکت )محض ۔ہنسنے ۔ کو۔۔مذاق اڑانا ۔بنادیا گیا ؛
حالانکہ یہ لفظ ہنسنے ، مسکرانے کے معنی میں احادیث میں عام مستعمل ہے ۔جس کی دومثالیں حدی صحیح سے پیش خدمت ہیں :
صحیح بخاری میں کتاب الصیام میں مشہورہے۔۔۔کہ ایک صحابی کو نبی کریم ﷺ نے اپنی طرف سے کھجوروں کا ٹوکرا دیتے ہوئے فرمایا
کہ جا کر یہ کھجوریں فقراء میں تقسیم کردو ۔
مکرم صحابی یہ سن کر کہنے لگا ۔کیا مجھ سے بھی بڑا کوئی فقیر و محتاج ہو گا ۔۔اللہ کی قسم ،مدینہ کی آبادی میں میرے گھرانے سے زیادہ محتاج کوئی نہیں ؛۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ ﷺ یہ سن کر کھلکھلا کر ہنس پڑے ،اور فرمایا جا یہ کھجور تو ہی لے جا اور اپنے گھر والوں کو کھلا
«خُذْهَا، فَتَصَدَّقْ بِهِ» فَقَالَ الرَّجُلُ: أَعَلَى أَفْقَرَ مِنِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَوَاللَّهِ مَا بَيْنَ لاَبَتَيْهَا - يُرِيدُ الحَرَّتَيْنِ - أَهْلُ بَيْتٍ أَفْقَرُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي،
فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ، ثُمَّ قَالَ: «أَطْعِمْهُ أَهْلَكَ»

یہ حدیث شریف غور سے پڑھیں ،اور بتائیں ،کیا نبی کریم ﷺ نے اس صحابی کا مذاق اڑایا تھا ،یا استعجاب کا اظہار فرمایا تھا ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب دوسری مثال دیکھئے :
صحیح بخاری ہی میں ایک جماعت صحابہ کا قصہ وارد ہے ۔ان میں سے ایک نے کسی کو ۔دم ۔یعنی جھاڑ پھونک کی تھی ،اور بدلے میں کچھ بکریاں لے لی تھیں،دوسرے صحابہ کو اس پر بڑا اعتراض تھا ۔معاملہ نبی کریم ﷺ کے سامنے پیش ہوا ۔
آپ نے فرمایا تم نے ٹھیک کیا ۔اس مال سے میرا حصہ بھی نکالو !
اور یہ کہہ کر آپ ﷺ ہنسنے لگے (فداہ ابی و امی )
ثُمَّ قَالَ: «قَدْ أَصَبْتُمْ، اقْسِمُوا، وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا» فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۲) خصائص سیوطی والی روایت ہی صحیح نہیں ، علامہ المزی اور علامہ ابن قیم رحمہما اللہ اور کئی دیگر محدثین کا کہنا ہے کہ :
قال المزي رحمه الله تعالى: " وكل حديث فيه يا حميراء فهو موضوع إلا حديثا عند النسائي "
’‘ ہر وہ حدیث جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ۔یا حمیراء ۔کہا گیا ہے ،وہ موضوع ہے ۔سوائے نسائی کی روایت کے )
اور خصائص سیوطی کی روایت کا سکین بھی پیش خدمت ہے ؛
الحميراء.jpg

الحوأب  دلائل النبوة1.jpg
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
کیا آپ اس ”بات“ کی ”ضمانت “ دیتے ہیں کہ ”محدثین کرامؒ“ نے ”راویوں“کے ”باطن“میں ”جھانک“ کر ”جرح و تعدیل“کا کام ”سر انجام“دیا ؟ اور انکے فیصلے ”خدائی“ہیں ؟
جناب ! یہ خدائی فیصلے (انا لہ لحافظون )اور(لتبین للناس ) کا عملی نفاذ ہے؛
اور آپ نے چونکہ محدثین کرام کو دیکھا ،بلکہ پڑھا ہی نہیں ،وگرنہ یوں نہ کہتے ۔
آپ نے اپنے دور کے مسلمانوں کو دیکھا ہے ،اور قیاس فرمالیا کہ گزرے دور کے لوگ بھی ایسے ہی ہونگے ؛؛
وہ دن ہوا ہو ئے کہ پسینہ گلاب تھا
اب عطر بھی ملو تو محبت کی بو نہیں
کاش آپ محدثین کے قوانین و شرائط کسی مستند کتاب سے پڑھ لیتے توانہیں پٹھانکوٹ کے کسی مولوی جیسا تو نہ سمجھتے۔
کاش آپ ’‘ فتح المغیث ’‘ یا ’‘فتح الباقی ‘‘سمجھ سکتے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
”مؤرخین“کا کہنا ہے کہ ”حواب“ کے کتے بھونکنے کا ”اشارہ“حضرت عائشہ صدیقہؓ کی طرف نہیں بلکہ” اُم زمل سلمیٰ بنت مالک“کی طرف تھا۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

موضوع کافی طویل ہوچکا ہے اور فورم سے کچھ دن غیرحاضری کی وجہ سے میں اس مراسلے پر دوسرے ممبرز کی پوسٹ پرکچھ حتمی راے دینے سے قاصر ہوں-

بہرحال یہاں ایک دوست "محمّد عثمان" صاحب نے کاندھلوی صاحب کے حوالے سے مجھ پر کچھ تنقید کی تھی -کہ اس قسم کی روایتوں کو رد کرنے کا سہرا مولانا حبیب الرحمان کاندھلوی کو جاتا ہے - جو اہل علم کے مطابق منکرین حدیث میں شمار ہوتے ہیں - لیکن کاندھلوی صاحب جو کہ خود دیوبندی ہیں اس حواب کے کتے والی روایت پر تحقیق کرتے ہوے اپنی کتاب مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت جلد ١ میں کہتے ہیں کہ میں نے جو کچھ اس بارے میں لکھا ہے اس کا کثیر حصّہ میں نے ایک اہل حدیث عالم "فیض عالم صدیقی" کی تحقیق سے لیا ہے- جن کو ٨ ستمبر ٨٣ء میں جہلم کی ایک جامعہ مسجد کی گیلری میں گولیاں مار کر شہید کردیا گیا تھا -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
”مؤرخین“کا کہنا ہے کہ ”حواب“ کے کتے بھونکنے کا ”اشارہ“حضرت عائشہ صدیقہؓ کی طرف نہیں بلکہ” اُم زمل سلمیٰ بنت مالک“کی طرف تھا۔
السلام و علیکم و رحمت الله -

کیا اس کا حوالہ مل سکتا ہے ؟؟؟ کیوں کہ روایت کے متن سے تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اشارہ حقیقی کتوں کی طرف ہے نہ کہ کسی انسان کی طرف ہے -اوراس جگہ جس کا نام روایات میں "حواب" بتایا گیا ہے - دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک قدیم مورخ ابو الفرج بن قدامہ بن جعفر متوفی (٢٩٠ھ) (اس حواب کے کتے والی روایت پر اس کا کوئی تبصرہ بھی موجود نہیں) -اس نے اپنی ایک کتاب "الخراج سنعتہ الکتبہ" میں ان راستوں کی اہم منازل لکھی ہیں جو مکہ یا مدینہ سے بصرہ یا کوفہ کو جاتے تھے اس نے مکہ سے بصرہ کے بیچ میں کل ٢١ منزلیں بیان کی ہیں لیکن کہیں بھی "حواب " نام کی نہ کوئی بستی کا ذکر ہے اور نہیں ہی اس نام کا کوئی ٹھہرنے کا مقام ہے-

تقریباً یہی بات دور حاضر کے ایک مورخ محمود احمد عباسی نے اپنی کتاب "خلافت معاویہ و یزید رضی الله عنہ" میں لکھی ہے کہ رافضی و اہل سنّت کی اکثریت کربلا کربلا کی رٹ لگاے رکھتی ہے - لیکن بیچارے یہ نہیں جانتے کہ جغرافی اعتبار سے مکہ اور مدینہ سے کوفہ کی طرف جاتے ہوے کوفہ کا مقام پہلے آتا ہے اور کربلا کا مقام بعد میں آتا ہے - یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت حسین رضی الله عنہ آزم سفر تو کوفہ کے لئے ہوے اور پہنچے سیدھے کربلا - یعنی جو مقام بعد میں آتا ہے وہاں وه پہلے پہنچ گئے - اور کوفہ کو نظر انداز کر گئے -؟؟؟ یہ اب تک اس واقعہ کربلا پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
السلام و علیکم و رحمت الله -

موضوع کافی طویل ہوچکا ہے اور فورم سے کچھ دن غیرحاضری کی وجہ سے میں اس مراسلے پر دوسرے ممبرز کی پوسٹ پرکچھ حتمی راے دینے سے قاصر ہوں-

بہرحال یہاں ایک دوست "محمّد عثمان" صاحب نے کاندھلوی صاحب کے حوالے سے مجھ پر کچھ تنقید کی تھی -کہ اس قسم کی روایتوں کو رد کرنے کا سہرا مولانا حبیب الرحمان کاندھلوی کو جاتا ہے - جو اہل علم کے مطابق منکرین حدیث میں شمار ہوتے ہیں - لیکن کاندھلوی صاحب جو کہ خود دیوبندی ہیں اس حواب کے کتے والی روایت پر تحقیق کرتے ہوے اپنی کتاب مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت جلد ١ میں کہتے ہیں کہ میں نے جو کچھ اس بارے میں لکھا ہے اس کا کثیر حصّہ میں نے ایک اہل حدیث عالم "فیض عالم صدیقی" کی تحقیق سے لیا ہے- جن کو ٨ ستمبر ٨٣ء میں جہلم کی ایک جامعہ مسجد کی گیلری میں گولیاں مار کر شہید کردیا گیا تھا -
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس فورم کے ایک سینئر رکن مجلس شوری جناب طالب نور صاحب لکھتے ہیں :

کافی عرصہ قبل ایک فورم پر کسی دیوبندی نے اہل حدیث پر حکیم فیض عالم کی عبارات کو بنیاد بنا کر اعتراضات کئے تھے جس کے جواب میں ایک چھوٹی سی تحریر لکھی تھی۔ موضوع کچھ تھا بحث کسی اور طرف چل نکلی ہے نیز ڈھونڈنے پر یہ تحریر مل گئی سو پیش کی جا رہی ہے، والسلام۔
فیض عالم صدیقی۲.gif
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
@محمد علی جواد بھائی آپ نے میری بات کو صحیح سمجھا نہیں۔ میں کاندھلوی صاحب کو منکر حدیث نہیں کہتا، میں انکو امین احسن اصلاحی اور غامدی صاحب کے منہج پر سمجھتا ہوں۔ یہ منہج کلیتاَ انکار حدیث کا نہیں، بلکہ استخفاف و تشکیک فی الحدیث کا ہے۔ ان میں بھی آگے دو قسم کے گروہ ہیں، ایک جو تجدد پسندی میں احادیث کا انکار یا ان میں تشکیک پیدا کر کہ عوام میں پھیلا رہے ہیں، اور دوسرا گروہ حنفیت میں اتنا ڈوب گیا ہے کہ اپنے امام اور ان کی رائے کو حق ثابت کرنے کے لیئے محدثین اور ان کی مسانید و جوامع پر اعتراضات کرنے لگتا ہے۔ اور انکار حدیث کے چور دروازے کھولتا ہے۔ فیض عالم صدیقی بڑے عالم تھے، لیکن وہی ہوا، انکی 90٪ کتب شیعہ کے رد میں لکھی گئی ہیں۔ کتب بہت ہی مقبول بھی ہوئیں جیسے محمود عباسی کی کتب کو مقبولیت حاصل ہوئی، مگر جب زندگی کا بنیادی مشن اگر انبیاء کی دعوت و منہج کے مطابق نہ ہو، اور مقصد ہی صرف ایک مخصوص گمراہ گروہ کے اعتراضات کےخلاف جنگ ہو، اور اس جنگ میں اکثر اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{ وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ سَنَانُ قَوْمٍ عَلٰی اَنْ لَا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی } (المائدہ)
'' یعنی کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم نا انصافی کرو، بلکہ انصاف ہی کرو، یہی تقوے کے زیادہ قریب ہے۔''

روافض اسی لائق ہیں کہ ان سے علمی میدان میں جنگ کی جائے، مگر ایک صف ہمارے ان علماء کی ہے جن میں امام ابن تیمیہ اور علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ ہیں، اور ایک صف محمود احمد عباسی، فیض عالم، تمنا عمادی اور کاندھلوی صاحب وغیرہ کی ہے۔ فرق صرف مندرجہ بالا آیت کے مطابق منہج اختیار کرنے کا ہے۔ ایک گروہ صحابہ کرام کی بشری غلطیوں سے واقف ہو کر بھی، نبوی منھج کے مطابق ان کی سیرت کا مطالعہ "رضی اللہ عنہ" کے اصول کے مطابق کرتا ہے، اور دوسرا گروہ، "نئی تحقیق" کا نارہ لگا کر کبھی رافضیت (مولانا مودودی) کی طرف مائل ہو جاتا ہے، تو کبھی ناصبیت (فیض عالم، عباسی و کاندھلوی صاحبان) کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا قائل نہیں، تو کوئی حضرت عثمان و معاویہ رضی اللہ عنہما کی سیرت کو مختلف شکوک پھیلا کر داغ دار کر رہا ہے۔
واللہ اعلم،

 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
@محمد عثمان بھائی
@خضر حیات بھائی
@محمد علی جواد بھائی
@اسحاق سلفی بھائی

ذرا آپ لوگ اس وڈیو کو بھی دیکھئے، خصوصا اسکے اسکے 3:00 منٹ والے حصے کو، جہاں اسی واقعہ حواب کے لیکر یہ ہمارے اہل سنت "عالم دین" کسطرح سیدہ عائشہ رض کی توہین کررہے ہیں، واضح رہے کہ یہ "اہلسنت عالم دین" جنکا نام انجئنیر علی مرزا ہے، انکے کئی ایک وڈیو انکے پیج کر موجود ہیں جہاں انہوں نے سیدنا معایہ رض اور امیر یزید کے بارے میں اسطرح کی شرانگیز وڈیوز اپلوڈ کی ہوئی ہیں، اور واقعہ کربلا اور حسینیت کی آڑ لیکر ان حضرات کو ٹھیک ٹھاک بہتان لگا کر بدنام کیا گیا ہے۔
 
Top