میں تقریبا روز اول سے اس موضوع کو دیکھ رہا ہوں ، بلکہ حسب توفیق بغور سمجھنے کی بھی کوشش کی ۔ دو تین دن ہوگئے میں نے بعض اراکین کی کچھ باتیں نوٹ کیں تاکہ ان پر کچھ تبصرہ کروں لیکن پھر دیکھا ان میں سے کئی باتیں ایک رکن محمد عثمان بھائی اپنے انداز میں کر چکے ہیں ، لہذا میں نے مزید انتظار کرنا مناسب سمجھا کہ بحث یقینا کسی نتیجہ تک پہنچے گی ۔
لیکن آج دوبارہ تازہ شراکتیں دیکھنے سے محسوس ہورہا ہے کہ ’’ لا علمی و کج بحثی ‘‘ حدود سے تجاوز کررہی ہے ، جس سے صاحب علم لوگ تو کوئی متاثر نہیں ہوں گے لیکن فورم کے عام اراکین ممکن ہے شکو ک و شبہات کا شکار ہو جائیں ۔ اس لیے علم حدیث کا ایک مبتدی طالب علم ہونے کی حیثیت سے کچھ لکھنا چاہتا ہوں ۔
بھائی محمد علی جواد صاحب اورن کے ہمنواؤں نے جن باتوں پر اس موضوع کی بنیاد رکھی ہے وہ تقریبا درج ذیل ہیں :
پہلی بات
۔ زیر بحث روایت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تنقیص کا پہلو نکلتا ہے ۔ روایت کے الفاظ کا ترجمہ جیساکہ انہوں نے خود نقل کیا ہے کچھ یوں ہے :
گویا یہ کتے بھونکنا ان کے نزدیک تنقیص ٹھہرا ۔ بلکہ اس سے بڑھ کر لکھتے ہیں :
لیکن دوسری جگہ بقلم خود لکھتے ہے :
اسی طرح لکھتے ہیں کہ
گویا یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس واقعہ سے ان کے حق میں تنقیص و تحقیر کا کوئی پہلو نہیں نکلتا ۔
اب اس تناقض اور تضاد کا کیا مطلب ہے ۔؟
اب اسی متناقض اور متردد بات کے ضمن میں ایک اصول بھی بیان کرتے ہیں ۔
ذرا اصول دیکھیے :
دوسری بات
جن روایات سے صحابہ کی تنقیص کا پہلو نکلتا ہے ، انہیں فورا رد کردینا چاہیے ، اصول حدیث پر پرکھنے کی ضرورت نہیں ۔
ان کے اپنے الفاظ یوں ہیں :
میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ جناب اس روایت میں کون سی تنقیص ہے ۔؟ وہ تنقیص جس کے وجود و عدم وجود میں جناب خود متناقض ہیں ۔؟ عربی کا ایک مقولہ ہے ’’ ثبت العرش ثم انقش ‘‘ پہلے تنقیص ثابت کرلیں پھر اس بنیاد پر روایات کے رد کرنے کا کام بھی شروع کر لیجیے گا ۔
اور پھر یہ اصول کس نے بنایا ۔؟ کسی نے اس کو ابن جوزی کی طرف منسوب کیا لیکن حوالہ ۔؟ اور پھر کیا ابن جوزی اکیلے ہی محدث ہیں ۔؟ جن پر اصول حدیث کی بنیاد ہے ۔؟
حدیث کے قبول و رد کا کوئی اصول بیان کرنا چاہتے ہیں تو أئمہ حدیث کے حوالے بیان کریں ، اگر اختلاف ہے تو راجح قول بیان کریں ، پھر وجوہ ترجیح بیان کریں ۔ تاکہ آپ کی بات میں کوئی وزن بھی ہو اور ’’ روایات حدیثیہ ‘‘ پر حملہ کرنے کا کوئی جواز بھی سامنے آئے ۔
اور پھر یہ بتائیں کہ کیا صحابہ کرام معصوم عن الخطاء تھے ، اگر نہیں تھیں تو ان کی لغزشیں ، کمیاں ، کوتاہیاں (جو در حقیقت ان کے نیکیوں کے بحر بے کنار کے سامنے ایک قطرے کی بھی حثیت نہیں رکھتیں ، اور رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کی سند کے ہوتے ہوئے ان کی کوئی حیثیت نہیں) ، نقل ہو گئیں تو اس کا مطلب ہے کہ نقل کرنے والا جھوٹا ہے ۔؟
قابل اعتماد راویوں پر حملہ کرنے کی بجائے پہلے اپنے ذہن کی صفائی اور فہم کی دھلائی کرلینی چاہیے ، کیونکہ عین ممکن ہے کہ مسئلہ راوی کی روایت میں نہیں بلکہ ہماری نام نہاد درایت میں ہو ۔
اس طرح تو کوئی بھی من پسند اصول بنا کر احادیث پر چھری چلا دے گا ، بلکہ لوگوں نے چلائی ہیں ، کسی نے معارضہ بالقرآن کے بہانہ سے روایات کو رد کرنا شروع کیا ہے ، کسی نے کہا یہ قیاس کے مطابق نہیں ، کسی نے کہا یہ راوی کی رائے سے مطابقت نہیں رکھتی ۔؟ وغیرہ وغیرہ
حالانکہ :
کم من عائب قولا صحيحا
وآفته من الفهم السقيم
تیسری بات
لکھتے ہیں :
میری گزارش یہ ہے کہ ذرا بیان فرمادیں کہ محدثین کے اصولوں کی آپ کے نزدیک کیا مسلمہ حیثیت ہے ۔؟ کیا ان اصولوں کی اتنی ہی حیثیت ہے کہ وہ ’’ نام نہاد درایت ‘‘ کا سامنا بھی نہیں کرسکتے ۔؟ کیا اتنی ہی حیثیت ہے کہ جو آدمی دو چار اردو کتابیں پڑھ لیتا ہے وہ ان میں شکوک و شبہات پیدا کرنا شروع کردیتا ہے ۔؟
جس آدمی کو ’’ روایت ‘‘ کے صحیح ہونےکی بنیادی شروط کا نہیں پتہ وہ ’’ درایت ‘‘ میں خود کو ماہر سمجھتا ہے ۔۔؟ جس کو یہ نہیں پتہ کہ راوی ’’ ثقہ ‘‘ ہوتا ہے یا ’’ سقہ ‘‘ ۔؟!
یہ محدثین کے اصول ہیں یا ’’ ٹشو پیپر ‘‘ ۔؟ جب چاہا کہا کہ یہ ’’ مسلمہ اصول ‘‘ ہیں اور جب چاہا کہا کہ یہ ’’ درایت ‘‘ کے خلاف ہیں ۔
خیر آپ اگر ایک دو اصول بیان کردیں تو بہت ہی بہتر ہوگا ، کم از کم سند رہے کہ آپ فلاں فلاں اصول کو تو مانتے ہیں ۔
دوسری بات : اگر خود محدثین کے راویوں اور روایات کے متعلق بنائے گئے اصولوں کے مطابق زیر بحث روایت ضعیف ہے ، تو پھر محدثین کے بنائے ہوئے اصولوں سے ناراضی اور بیزاری چہ معنی دارد ۔؟
اور پھر محدثین کے انہیں اصولوں کو ماننے والوں کو ’’ اعتدال سےہٹے ہوئے قرار دینا ‘‘ ’’ روایت پرست قرار دینا ‘‘ ’’ اہل تشیع کے مشابہ کہنا ‘‘ ’’ سبائیت ‘‘ سے متہم قرار دینا یہ کہاں کا انصاف ہے ۔؟
چوتھی بات
کیا راویوں کی بات ماننا روایت پرستی ہے ۔؟ کیا راویوں کی بات ماننا ان کو ’’ معصومیت ‘‘ کا درجہ دینا ہے ۔؟
کسی نے کہا کہ راویوں کی بات ماننا روایت پرستی ہے ۔ اور یہ ان کو ’’ معصوم ‘‘ سمجھنے کے مترادف ہے ۔
کلمہ ’’ اہل درایت ‘‘ کا اگر عام فہم معنی کیا جائے تو میں یہ کہوں گا کہ ’’ اہل فہم و بصیرت ‘‘ لیکن عصر حاضر میں ’’ درایت ‘‘ کا واویلا کرنے والوں کا حال بزبان شاعر یوں ہے :
جہلت ولا تدری بأنک جاہل
بھلا یہ بات کوئی سمجھدار آدمی کرسکتا ہے ک کسی کی بات ماننا اس کو ’’ معصومیت ‘‘ کے درجہ پر فائز کرنا ہے ۔؟
ٹی کے ایچ صاحب ایک آدمی نیکی تقوی پرہیزگاری میں اعلی درجہ پر فائز ہے ، جھوٹ نہیں بولتا ، حافظہ مضبوط ہے ، سکیڑوں روایات اس کی نوک زبان پر ہیں ، آخر اس کی بات کو آپ کس منطق سے رد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔؟ صرف اس بنیاد پر کہ آپ کی عقل میں نہیں آرہی ۔؟ سبحان قاسم العقول !
اور پھر یہ بھی محدثین پر اتہام ہےکہ وہ صرف راویوں کی ثقاہت وعدالت کی پرکھ کرتے ہیں ’’ متون ‘‘ سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ، بلکہ میں کہوں گا اصول حدیث سے جہالت کا اعلانیہ اظہار ہے ۔
اصول حدیث کے اندر موجود ’’ حدیث مقبول ‘‘ کی پانچ شروط ہی دیکھ لی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ محدثین صرف رواۃ پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ روایات یا کہہ لیں متون کو بھی پرکھتے ہیں ۔
عدالت و دیانت ، حفظ و ضبط ، اتصال سند ، علت کانہ ہونا ، شذوذ کا نہ ہونا ۔
حدیث صحیح کی پانچ شروط میں سے آخری دو اس وقت تک متحقق ہی نہیں ہوتیں جب تک متون کی پرکھ نہ کرلی جائے ۔
اس کے باوجود ’’ مستشرقین ‘‘ کی بولی بولنا ، کہ محدثین درایت کے اصولوں سے واقف نہیں تھے ، خود قائل کی اپنی شان میں گستاخی ہے ۔
محمد علی جواد صاحب لکھتے ہیں :
اس پر میں اس کے سوا اور کئی تبصرہ نہیں کرتا کہ کیا یہ ’’ روایت پرستی ‘‘ نہیں ہے ۔؟ جن کے نزدیک تیسری صدی ہجری کے مورخ کی بات معتبر ہے ، وہ انہیں ادوار کے محدثین کی نقل کردہ احادیث سے کیوں بیزار ہوجاتے ہیں ۔؟
اور پھر انداز استدلال دیکھیں کہ ایک طرف تو ’’ بیان نہ کرنا ‘‘ بھی حجت ہے ، جبکہ دوسری طرف ’’ بیان کرنے ‘‘ کی بھی کوئی حیثیت نہیں ۔ فیا للہ العجب !
محمد علی جواد صاحب غالبا محمد عثمان صاحب کے جواب میں لکھتے ہیں :
میری گزارش ہے کہ ذرا ’’ اہل سنت ‘‘ سے اپنی مراد واضح کردیں ، اعتدال پرستی بھی بیان کردیں جس سے علماء اہل سنت ہٹے ہوئے ہیں ، اور ان اکثر علماء کا تذکرہ بھی کردیں جو آپ کے ہمنوا ہیں ۔
پانچویں بات
اور ایک جگہ لکھتے ہیں :
علماء کا خون کھولنا چاہیے ، جس طرح قرآن میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کی بیخ کنی ضروری ہے ، اسی طرح سنت میں شکوک و شبہات یا محافظین و ناقلین سنت پر طعن و تشنیع کا دفاع کرنا بھی ضروری ہے ۔ روایات کی صحت و ضعف میں متقدمین و متاخرین کا اختلاف ہے ، اس وقت بھی ہوا آج بھی ہوسکتا ہے ، اصولوں کی بنیاد پر ، دلائل کی بنیاد پر ، اس پر چیں بہ چیں ہونے کی ضرورت نہیں ، لیکن اختلاف کرنے والا اس کا اہل ہونا چاہیے ، یہ نہیں کہ اپنے فہم سقیم کو روایت کے صحت و ضعف کے فیصلے کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کردے ۔ اور اسے یہ بھی پتہ نہ ہو کہ صدیوں سے جو اصول متفقہ طور پر محدثین کے ہاں رائج ہیں وہ کیا ہے ۔؟ متاخر متقدم سے اختلاف کرسکتا ہے ، لیکن کم از کم اختلاف کی بنیاد متاخر کی جہالت نہیں بلکہ اس کا ’’ علم ‘‘ ہونا چاہیے ۔
جواد بھائی مزید لکھتے ہیں :
میری گزارش یہ ہے کہ ’’ ثقاہت ‘‘ سے تو آپ کی مراد سمجھ چکے لیکن ’’ اجماع ‘‘ سے آپ کی یہاں کیا مراد ہے ۔؟
چھٹی گزارش
اسی طرح لکھتے ہیں :
مجھے ذرا یہ بتائیں کہ یہ بات کس نے کہی کہ صحابہ کرام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’اکثر احکامات ‘‘ سمجھنے میں غلطی لگی ۔؟ یہ آپ کی اپنی تحقیق ہے یا کسی ’’ محقق ‘‘ سے منقول ہے ۔؟
اسی سے ملتا جلتا دعوی آپ کا یہ ہے کہ :
کوئی چند نمونے لے لیں ، اور پھر ذرا دراسہ کرکے ثابت کردیں کہ اکثر احادیث میں محدثین کا آپس میں اختلاف رہا ہے ۔
ویسے میں آپ کے ساتھ اس حد تک متفق ہوں کہ بہت ساری حدیثوں ( نہ کہ اکثر ) میں محدثین کا اختلاف ہے ، اور کوئی بھی دوسرے کو منکر حدیث نہیں کہتا ۔ لیکن یہ سب کیوں ہے کیوں کہ ان کا اختلاف مسلمہ اصولوں کی بنیاد پر ہے ۔ گویا اصولوں میں متفق ہیں لیکن فروع میں اختلاف ہے ، بالفاظ دیگر شرائط صحت میں متفق ہیں لیکن کسی روایت میں ان شرائط کے ہونے نہ ہونے میں اختلاف ہے ۔
لیکن جن کو ہم منکریں حدیث کہہ دیتے ہیں ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پہلے تو خیر سے کوئی اصول ہیں ہی نہیں ، اور رہے محدثین کے اصول تو ان کو بھی وہ ’’ میں نہ مانوں ‘‘ کی بے اصولی سے رد کردیتے ہیں ۔
ساتویں گزارش
آپ نے کہا :
کوئی حوالہ بھی لکھ دیں ، امامین کا آپس میں اختلاف کہاں کس جگہ ہوا ؟ کس نے نقل کیا ہے ؟ کس کتاب میں بیان ہوا ہے یہ اختلاف ۔؟ اگر الفاظ نقل کردیں تو بہتر ہے ۔
آپ نے کہا :
امام بخاری نے کسی جگہ دعوی کیا ہے کہ ہر صحیح حدیث کو میں اپنی کتاب صحیح میں ضرور ذکر کروں گا ۔؟ یا اس کے برعکس کہا ہو کہ جو روایات میں نے نہیں ذکر کیں وہ سب غیر صحیح ہیں ۔؟
آٹھویں گزارش
مزید ایک جگہ دیکھیں آپ نے کیا لکھا ہے :
پیارے بھائی گزارش یہ ہے کہ آپ جیسے لوگوں کا عموما رویہ یہ ہوتا کہ احادیث نقل کرکے کہتے ہیں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معاذ اللہ ایسی غلط حرکت ، بھونڈا انداز وغیرہ وغیرہ کرسکتے ہیں ۔ جیساکہ عمر عائشہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں احادیث کے بارے میں منکرین حدیث کا رویہ ہے ۔
میری گزارش ہے کہ روایات رد کرنے کے جوش و جذبہ میں حضور کے بارے میں احتمالا بھی ایسے الفاظ استعمال نہ کریں ، کیونکہ آپ کو وحی کے ذریعے نہیں بتایا گیا کہ یہ روایت غیر ثابت ہے ، بلکہ آپ کی عقل نے یہ کہا ہے ، جو ممکن ہے غلط بھی ہو اور درست بھی ۔ تو اس طرح کی زبان استعمال کرتے ہوئے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ثبوت کے احتمال کو مدنظر رکھنا چاہیے ، تاکہ بزبان خود ’’ گستاخی ‘‘ کے مرتکب نہ ہوں ۔
نویں بات
اس طرح کی احادیث میں علامات نبوت وہ نہیں جو حمیر صاحب سمجھ رہے ہیں ، بلکہ یہ ہےکہ آپ نے آئندہ ہونے والے ایک واقعہ کی وقوع سے کئی سال پہلے پیشین گوئی کردی ہے ۔ اسی بنیاد پر سیوطی وغیرہ نے اس اس ضمن میں ذکر کیا ہے ۔
بڑے احترام سے گزارش ہے کہ محدثین ، علماء کی بات کو پہلے سمجھیں ، پھر اس پر اعتراض کریں ، ورنہ اس سے ان ہستیوں کا تو کچھ نہیں بگڑنے والا ، الٹا اعتراض کرنے والے ’’ بیچارے ‘‘ لگتے ہیں ۔
دسویں بات
کسی نے لکھا :
میری گزارش یہ ہےکہ آپ مسلمانوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات ختم نہیں کررہے ، یہ کام علماء بخوبی سرانجام دے چکے ہیں او ردے رہے ہیں ، بلکہ آپ دین دشمنوں کو دینی اثاثے اور مواد پر ’’ انگشت نمائی ‘‘ کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔ عافیت اصولوں کی پاسداردی کرنے میں ہی ہے ، جو اصولوں سے ثابت ہے وہ حق ہے ، جو غلط ہے وہ اصولوں کے مطابق نہیں ۔ جو اصولوں سے ہٹ کر حق و باطل کی تلاش میں ہے اس کو صراط مستقیم کی دعا کرنی چاہیے ۔
کچھ لوگ اللہ کی صفات کا انکار صرف اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ا س سے شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں ، حالانکہ صفات الہیہ برحق ہیں اور قصور ان کے ’’ شکوک و شبہات ‘‘ کا ہے ، جو غلط جگہ پر آجاتے ہیں ۔
کسی نے لکھا ہے :
اگر سلف صالحین کا راستہ گمراہی ہے تو شاید آپ کے نزدیک شاید ’’ صراط مستقیم ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’ گمراہی ‘‘ کیاجاتا ہے ۔
پھر بھی اگر یہ چیزیں آپ کے لیے گمراہی کا سبب بنتی ہیں تو ان کا مطالعہ نہ فرمایا کریں ، کہیں ایسا نہ ہوا کہ ایک گمراہی سے بھاگتے بھاگتے آپ دوسری میں گرفتار ہو جائیں اور ’’ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمہ صافی ‘‘ سے سیراب ہونے سے ہی محروم ہوجائیں ۔ ’’ قرآن ‘‘ تو آپ کے پاس ہو لیکن اس کی محمدی تفسیر سےفیضیاب ہونے میں ’’ شکوک وشبہات ‘‘ آڑے آ جائیں ۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے ، اور شیطانی وسوسوں سے محفوظ فرمائے ۔