• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایات- حَوْأَبِ کے کتے اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (ایک تحقیقی جائزہ)

شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
حمیر بھائی آپ کی بات بالکل بجا ہے۔ حال ہی میں ایک مولوی صاحب المعروف "مولوی اسحاق جھال والے" گزرے ہیں۔ یہ موصوف خود کو اہل حدیث کہلواتے تھے۔ وہ بھی کٹر اہل حدیث۔ مگر موصوف شیعوں کی محفلوں میں جا کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید پر تبرہ کرتے تھے۔ انہوں نے تو خالد بن ولید اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما تک کہ نہیں بخشا۔ علماء اہلحدیث نے ان سے برائت کا اظہار کیا ہے اور انکو چھپا رافضی قرار دیا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ جن موصوف کی ویڈیو آپ نے شئیر کی ہے اور انکو "اہل سنت عالم دین" قرار دیا ہے، ان موصوف کے اساتذہ، ان کے مدرسے کا نام، ان کی شاگرد کون ہیں، اور کن "اہل سنت علماء" سے انکو شرف صحبت حاصل رہا ہے، ذرا یہ بیان کر دیں تاکہ ان کو "ایک اہل سنت عالم دین" ماننے میں آسانی ہو۔ ہر سفید پگڑی والا اور سنیوں جیسے نام والا اہل سنت نہیں ہوتا۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
@محمد علی جواد بھائی آپ نے میری بات کو صحیح سمجھا نہیں۔ میں کاندھلوی صاحب کو منکر حدیث نہیں کہتا، میں انکو امین احسن اصلاحی اور غامدی صاحب کے منہج پر سمجھتا ہوں۔ یہ منہج کلیتاَ انکار حدیث کا نہیں، بلکہ استخفاف و تشکیک فی الحدیث کا ہے۔ ان میں بھی آگے دو قسم کے گروہ ہیں، ایک جو تجدد پسندی میں احادیث کا انکار یا ان میں تشکیک پیدا کر کہ عوام میں پھیلا رہے ہیں، اور دوسرا گروہ حنفیت میں اتنا ڈوب گیا ہے کہ اپنے امام اور ان کی رائے کو حق ثابت کرنے کے لیئے محدثین اور ان کی مسانید و جوامع پر اعتراضات کرنے لگتا ہے۔ اور انکار حدیث کے چور دروازے کھولتا ہے۔ فیض عالم صدیقی بڑے عالم تھے، لیکن وہی ہوا، انکی 90٪ کتب شیعہ کے رد میں لکھی گئی ہیں۔ کتب بہت ہی مقبول بھی ہوئیں جیسے محمود عباسی کی کتب کو مقبولیت حاصل ہوئی، مگر جب زندگی کا بنیادی مشن اگر انبیاء کی دعوت و منہج کے مطابق نہ ہو، اور مقصد ہی صرف ایک مخصوص گمراہ گروہ کے اعتراضات کےخلاف جنگ ہو، اور اس جنگ میں اکثر اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{ وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ سَنَانُ قَوْمٍ عَلٰی اَنْ لَا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی } (المائدہ)
'' یعنی کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم نا انصافی کرو، بلکہ انصاف ہی کرو، یہی تقوے کے زیادہ قریب ہے۔''

روافض اسی لائق ہیں کہ ان سے علمی میدان میں جنگ کی جائے، مگر ایک صف ہمارے ان علماء کی ہے جن میں امام ابن تیمیہ اور علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ ہیں، اور ایک صف محمود احمد عباسی، فیض عالم، تمنا عمادی اور کاندھلوی صاحب وغیرہ کی ہے۔ فرق صرف مندرجہ بالا آیت کے مطابق منہج اختیار کرنے کا ہے۔ ایک گروہ صحابہ کرام کی بشری غلطیوں سے واقف ہو کر بھی، نبوی منھج کے مطابق ان کی سیرت کا مطالعہ "رضی اللہ عنہ" کے اصول کے مطابق کرتا ہے، اور دوسرا گروہ، "نئی تحقیق" کا نارہ لگا کر کبھی رافضیت (مولانا مودودی) کی طرف مائل ہو جاتا ہے، تو کبھی ناصبیت (فیض عالم، عباسی و کاندھلوی صاحبان) کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا قائل نہیں، تو کوئی حضرت عثمان و معاویہ رضی اللہ عنہما کی سیرت کو مختلف شکوک پھیلا کر داغ دار کر رہا ہے۔
واللہ اعلم،
جزاک الله -

محترم آپ کی بات وزن تو ہے - لیکن وہ کہتے ہیں نہ کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے- کاندھلوی ، جاوید غامدی ، اصلاحی، عباسی وغیرہ اسی لئے ابھر کر سامنے آے کہ معذرت کے ساتھ ہمارا ایک طبقہ روایت پرستی کے سمندر میں غرق ہوا ہوا تھا اور اب بھی ہے - ان میں سے اکثریت ایسی ہے جو اپنے آپ میں یہ دعوا کرتے ہیں کہ ہم غیر مقلد ہیں - لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ طبقہ اپنے کسی نہ کسی پسندیدہ شخصیت، عالم یا محدث کی جامد تقلید کرتا ہوا نظر آتا ہیں- یہ سوچے بغیر کہ وہ بھی ایک انسان ہے اور اس سے غلطی ہونا فطرت کا تقاضہ ہے- ہمارے اہل حدیث علماء اورممبرز کو اکثر یہ بات نہیں سمجھ آتی کہ کہ اگر کوئی اور عالم کسی روایت کو دلیل کی بنیاد پر رد کرتا ہے تو اس کو منکرین حدیث کی صف میں لا کھڑا کیا جاتا ہے - یہ سوچے بغیر کہ قرون اولیٰ کے راوی بھی تو آخرانسان تھے -ضروری نہیں کہ انہوں نے جو سنا وہ من و عن آگے بیان کیا ہو - اس میں ممکن ہے کوئی چیز رہ گئی ہو یا کوئی راوی کوئی بات بھول گیا ہو یا کسی نے نبی کریم یا کسی صحابی کی بات کو صحیح طور پر نہ سمجھا ہو- میں یہ نہیں کہتا کہ کاندھلوی یا اصلاحی یا عباسی کا ہر لفظ حرف آخر ہے- ظاہر ہے یہ لوگ بھی انسان ہیں -اور جانب داری کا مادہ ہر انسان میں کسی نہ کسی طور پر پایا جاتا ہے- کسی میں زیادہ کسی میں کم -کاندھلوی نے اپنی کتابوں میں کئی مواقعوں پر محدثین و مجتہدین کے بارے میں کافی ترش زبان استمعال کی ہے - جو کہ ایک معتبر عالم کو زیب نہیں دیتا - عباسی اور اصلاحی نے کئی جگہوں پراعتدال سے کام نہیں لیا - یہی حال تاریخ کے معاملے میں مودودی صاحب کا رہا - لیکن ان کی ہر بات کو رد کرنا بھی جس میں ایک خاص نقطہ نظر سے دلیل پائی جاتی ہو یہ کوئی اچھا طرز عمل نہیں ہے -

صحابہ کرام جیسی عظیم ہستیوں میں بھی اختلاف راے ہوا -حتیٰ کہ محدثین و مجتہدین نے بھی ایک دوسرے سے کئی ایک معاملات میں اختلاف راے کیا - امام ابو حنیفہ رح ، امام حنبل رح امام ابن تیمیہ رح ، امام سفیان سوری رح امام بخاری رح وغیرہ کے آپس میں شدید اختلافات ہوے -اکثر نے ایک دوسرے کو کذاب تک بھی کہہ دیا- لیکن اس سب کے باوجود بھی یہ سب کسی کی حق بات کو فورا قبول کرتے رہے-حتیٰ کہ یہ کہتے رہے کہ اگر میری بات حق نہیں تو اس کو دیوار پر دے مارو- یہ دیکھے بغیرکہ اس کی کیا حثیت ہے- ہرمحدث کا احادیث نبوی کو پرکھنے کا معیار بھی مختلف رہا - امام بخاری رح کا روایات کو پرکھنے کا معیار دوسرے محدثین کی نسبت زیادہ سخت تھا - تو کیا کسی نے اس سے یہ اخذ کیا کہ باقی محدثین کا معیار کم تر ہے اس لئے یہ سب منکرین حدیث کی صف میں شامل ہیں یا استخفاف و تشکیک فی الحدیث کے مرتکب ہیں؟؟؟-

ہمارا اصل مسلہ ہی یہ ہی کہ ہم اپنی اپنی پسندیدہ شخصیات کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ان کی کی کسی بھی ایسی بات جو دلیل و حق سے ثابت نہ ہوتی ہو اس کو رد کرنے کا حوصلہ اپنے اندر نہیں پاتے -اور جو حق بات کرتا ہے اس کی تعصب کی بنیاد پر حق بات کو قبول نہیں کرتے- اور یہی چیز مسلک پرستی کا باعث بنتی ہے -

وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ سَنَانُ قَوْمٍ عَلٰی اَنْ لَا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی } (المائدہ)
'' یعنی کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم نا انصافی کرو، بلکہ انصاف ہی کرو، یہی تقوے کے زیادہ قریب ہے-

اس پر آیت قرآنی پرعمل ہم پر واجب ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگراس قرانی پر بھی عمل ہو جائے توہمارے دینی مسائل کے حل ہمیں مل سکے گا - ان شاء الله -

وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا سوره الفرقان
اور وہ الله کے نیک بندے کہ جب انہیں ان کے رب کی آیتوں سے سمجھایا جاتا ہے تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے- (یعنی تحقیق کرتے ہیں تقلید نہیں)-

الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
السلام و علیکم و رحمت الله -

کیا اس کا حوالہ مل سکتا ہے ؟؟؟ کیوں کہ روایت کے متن سے تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اشارہ حقیقی کتوں کی طرف ہے نہ کہ کسی انسان کی طرف ہے -اوراس جگہ جس کا نام روایات میں "حواب" بتایا گیا ہے - دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک قدیم مورخ ابو الفرج بن قدامہ بن جعفر متوفی (٢٩٠ھ) (اس حواب کے کتے والی روایت پر اس کا کوئی تبصرہ بھی موجود نہیں) -اس نے اپنی ایک کتاب "الخراج سنعتہ الکتبہ" میں ان راستوں کی اہم منازل لکھی ہیں جو مکہ یا مدینہ سے بصرہ یا کوفہ کو جاتے تھے اس نے مکہ سے بصرہ کے بیچ میں کل ٢١ منزلیں بیان کی ہیں لیکن کہیں بھی "حواب " نام کی نہ کوئی بستی کا ذکر ہے اور نہیں ہی اس نام کا کوئی ٹھہرنے کا مقام ہے-

تقریباً یہی بات دور حاضر کے ایک مورخ محمود احمد عباسی نے اپنی کتاب "خلافت معاویہ و یزید رضی الله عنہ" میں لکھی ہے کہ رافضی و اہل سنّت کی اکثریت کربلا کربلا کی رٹ لگاے رکھتی ہے - لیکن بیچارے یہ نہیں جانتے کہ جغرافی اعتبار سے مکہ اور مدینہ سے کوفہ کی طرف جاتے ہوے کوفہ کا مقام پہلے آتا ہے اور کربلا کا مقام بعد میں آتا ہے - یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت حسین رضی الله عنہ آزم سفر تو کوفہ کے لئے ہوے اور پہنچے سیدھے کربلا - یعنی جو مقام بعد میں آتا ہے وہاں وه پہلے پہنچ گئے - اور کوفہ کو نظر انداز کر گئے -؟؟؟ یہ اب تک اس واقعہ کربلا پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے -
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکا تہ !
معجم البلدان از امام شہاب الدین ابو عبداللہ یاقوت بن عبد اللہ الحموی الرومی البغدادی ،جلد نمبر 02 صفحہ نمبر 314
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
السلام و علیکم و رحمت الله -

کیا اس کا حوالہ مل سکتا ہے ؟؟؟ کیوں کہ روایت کے متن سے تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اشارہ حقیقی کتوں کی طرف ہے نہ کہ کسی انسان کی طرف ہے -اوراس جگہ جس کا نام روایات میں "حواب" بتایا گیا ہے - دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک قدیم مورخ ابو الفرج بن قدامہ بن جعفر متوفی (٢٩٠ھ) (اس حواب کے کتے والی روایت پر اس کا کوئی تبصرہ بھی موجود نہیں) -اس نے اپنی ایک کتاب "الخراج سنعتہ الکتبہ" میں ان راستوں کی اہم منازل لکھی ہیں جو مکہ یا مدینہ سے بصرہ یا کوفہ کو جاتے تھے اس نے مکہ سے بصرہ کے بیچ میں کل ٢١ منزلیں بیان کی ہیں لیکن کہیں بھی "حواب " نام کی نہ کوئی بستی کا ذکر ہے اور نہیں ہی اس نام کا کوئی ٹھہرنے کا مقام ہے-

تقریباً یہی بات دور حاضر کے ایک مورخ محمود احمد عباسی نے اپنی کتاب "خلافت معاویہ و یزید رضی الله عنہ" میں لکھی ہے کہ رافضی و اہل سنّت کی اکثریت کربلا کربلا کی رٹ لگاے رکھتی ہے - لیکن بیچارے یہ نہیں جانتے کہ جغرافی اعتبار سے مکہ اور مدینہ سے کوفہ کی طرف جاتے ہوے کوفہ کا مقام پہلے آتا ہے اور کربلا کا مقام بعد میں آتا ہے - یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت حسین رضی الله عنہ آزم سفر تو کوفہ کے لئے ہوے اور پہنچے سیدھے کربلا - یعنی جو مقام بعد میں آتا ہے وہاں وه پہلے پہنچ گئے - اور کوفہ کو نظر انداز کر گئے -؟؟؟ یہ اب تک اس واقعہ کربلا پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے -
محمود احمد عباسی کے بارہ میں تو اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کبھی پیدل یا گھوڑے پر سوار مدینہ سے کوفہ تک گئے بھی ہیں کہ نہیں، اگر گئے ہیں تو یقیناَ بہت ہی ہمت کا کام کیا ہے۔ اب اللہ ہی جانتا ہے کہ جس راستے سے وہ گئے ہیں، وہ وہی راستہ تھا جس کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنایا یا کوئی اور ہی راستہ تھا، کیونکہ یہ تو ایک عام سی بات ہے کہ ایک جگہ جانے کے بہت سے راستے اپنائے جا سکتے ہیں۔ اور آج سے 1400 سال پہلے کیا یہی راستہ استعمال ہوتا تھا یا کوئی اور، اس کا ثبوت بھی عباسی صاحب اور ان کے مقلدین کے ذمہ ہے۔ ہندستان میں بیٹھ کر، دنیا کا نقشہ پکڑ کر، فٹے سے سیدھی لکیر لگا کر اگر کوئی مدینہ سے عراق کا راستہ معلوم کریگا تو یقیناَ اس بے مثال تحقیق پر اس آدمی کو خراج تحسین پیش کرنی چاہیئے۔
"دور حاضر کے محققین" کے بارہ میں تو اس سے ذیادہ اور کیا کہا جا سکتا ہے، البتہ وہ "بیچارے" جو "جغرافیہ" نہیں جانتے ان کے لیئے مندرجہ ذیل تصویر اس بات کو سمجھنے کے لیئے کافی ہے کہ مدینہ سے کوفہ جانے کا راستہ کیا ہے:



یہ راستہ جو گوگل میپ دکھا رہا ہے، کربلہ سے ہوتا ہوا کوفہ جاتا ہے۔ اور اللہ جانے اور کتنے راستے آج سے 1400 سال پہلے یہاں موجود ہونگے، اور کیا معلوم اب بھی ہوں۔

"یہ اب تک اس واقعہ کربلا پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے"
ماشاءاللہ، خود ہی سوال اٹھا کر، نہ دائیں دیکھتے ہیں نہ بایئں، اور اپنے ہی سوال کو "بہت بڑا سوالیہ نشان" قرار دے دیتے ہیں۔ بھائی ہماری کوئی لڑائی نہیں، بس ایک درخواست ہے کہ مقلدین احناف کہتے ہیں ہمارے امام نے تحقیق کر کہ یہ فرمایا ہوگا اس لئے سب صحیح ہے، اور ان کی اس بات پر تنقید کی جاتی ہے کہ یہ تقلید صحیح نہیں، مگر اس غیر محسوس تقلید کہ بارے میں ہم سوچتے ہی نہیں جو ہم "دور حاضر کے محققین اور دانشوروں" کی کرنے لگے ہیں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محمود احمد عباسی کے بارہ میں تو اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کبھی پیدل یا گھوڑے پر سوار مدینہ سے کوفہ تک گئے بھی ہیں کہ نہیں، اگر گئے ہیں تو یقیناَ بہت ہی ہمت کا کام کیا ہے۔ اب اللہ ہی جانتا ہے کہ جس راستے سے وہ گئے ہیں، وہ وہی راستہ تھا جس کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنایا یا کوئی اور ہی راستہ تھا، کیونکہ یہ تو ایک عام سی بات ہے کہ ایک جگہ جانے کے بہت سے راستے اپنائے جا سکتے ہیں۔ اور آج سے 1400 سال پہلے کیا یہی راستہ استعمال ہوتا تھا یا کوئی اور، اس کا ثبوت بھی عباسی صاحب اور ان کے مقلدین کے ذمہ ہے۔ ہندستان میں بیٹھ کر، دنیا کا نقشہ پکڑ کر، فٹے سے سیدھی لکیر لگا کر اگر کوئی مدینہ سے عراق کا راستہ معلوم کریگا تو یقیناَ اس بے مثال تحقیق پر اس آدمی کو خراج تحسین پیش کرنی چاہیئے۔
"دور حاضر کے محققین" کے بارہ میں تو اس سے ذیادہ اور کیا کہا جا سکتا ہے، البتہ وہ "بیچارے" جو "جغرافیہ" نہیں جانتے ان کے لیئے مندرجہ ذیل تصویر اس بات کو سمجھنے کے لیئے کافی ہے کہ مدینہ سے کوفہ جانے کا راستہ کیا ہے:



یہ راستہ جو گوگل میپ دکھا رہا ہے، کربلہ سے ہوتا ہوا کوفہ جاتا ہے۔ اور اللہ جانے اور کتنے راستے آج سے 1400 سال پہلے یہاں موجود ہونگے، اور کیا معلوم اب بھی ہوں۔

"یہ اب تک اس واقعہ کربلا پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے"
ماشاءاللہ، خود ہی سوال اٹھا کر، نہ دائیں دیکھتے ہیں نہ بایئں، اور اپنے ہی سوال کو "بہت بڑا سوالیہ نشان" قرار دے دیتے ہیں۔ بھائی ہماری کوئی لڑائی نہیں، بس ایک درخواست ہے کہ مقلدین احناف کہتے ہیں ہمارے امام نے تحقیق کر کہ یہ فرمایا ہوگا اس لئے سب صحیح ہے، اور ان کی اس بات پر تنقید کی جاتی ہے کہ یہ تقلید صحیح نہیں، مگر اس غیر محسوس تقلید کہ بارے میں ہم سوچتے ہی نہیں جو ہم "دور حاضر کے محققین اور دانشوروں" کی کرنے لگے ہیں۔
محترم -

آپ نے بغیر پڑھے تبصرہ کردیا محمود احمد عباسی کی تحقیق پر. کاش آپ نے ان کی کتاب :خلافت معاویہ و یزید رضی عنہ غور سے پڑھی ہوتی تو یہ بونگی نہ ماری ہوتی - انہوں نے اس زمانے کے مشہور مورخین کے جدولوں کو سامنے رکھ کر ہی تجزیہ پیش کیا تھا کہ اس وقت مکہ مدینہ سے کوفہ جانے کا لوگ کون سا راستہ اختیار کرتے تھے - افسوس کہ تعصب میں آپ اہل علم کی باتوں کو ماننے کے لئے تیارنہیں - اور ظاہر ایسے کر رہے ہیں کہ جیسے آپ روز کوفہ کا سفر کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ حضرت حسین رضی الله عنہ کو کوفہ جانے کا کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا- جس راستے کا آپ ذکر کر رہے ہیں اس کا شاید عباسی نے بھی ذکر کیا ہے اگر یہ راستہ جو آپ نے بیان کیا ہے اگر اسی راستے پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے لئے روانہ ہوتے تب بھی کسی بھی صورت وہ ١٠ محرم کو کربلا تک نہیں پہنچ پاتے تھے -افسوس اس بات کا ہے کہ اگر یہی بات آپ کے کسی من پسند اہل حدیث عالم نے کہی ہوتی تو آپ بلا چوں چرا اس کو مان لیتے -میں عباسی کا پیروکار نہیں لیکن اگر کوئی دلیل سے بات کرتا ہے چاہے کوئی بھی ہو میں اس کی قدر کرتا ہوں. آپ سے گزارش ہے کہ ایک دفعہ تعصب کی عینک اتار کر غور سے محمود احمد عباسی کی تحاریر کو پڑھیں - حقائق خود ہی واضح ہو جائیں گے -

یہ اہل سنّت کے نا اہل علماء ہیں جنہوں نے نبی کریم کی عمار بن یاسر کے شہید ہونے والی پیشنگوئی پر معتبر صحابی رسول حضرت امیرمعاویہ رضی الله عنہ اور انکے ساتھیوں کو باغی بنا دیا - جب کہ یہ عقل کے اندھے یہ نہیں جانتے کہ اگر واقعی حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ جنگ صفین میں حضرت علی رضی الله عنہ کی طرف سے لڑتے ہوے شہید ہوے تھے تو ان ہی کے سگے بھائی عقیل بن ابی طالب رضی الله عنہ تو امیر معاویہ رضی الله عنہ کی صف میں تھے -کیا وہ بھی باغی ہو گئے؟؟- یہ عباسی کا ہی کمال ہے کہ جس نے یہ ثابت کردیا کہ عمار بن یاسر سبائی گروہ کے ہاتھوں شہید ہوے -نہ کہ امیر معاویہ کے `ہاتھوں شہید ہوے -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
@محمد عثمان بھائی
@خضر حیات بھائی
@محمد علی جواد بھائی
@اسحاق سلفی بھائی

ذرا آپ لوگ اس وڈیو کو بھی دیکھئے، خصوصا اسکے اسکے 3:00 منٹ والے حصے کو، جہاں اسی واقعہ حواب کے لیکر یہ ہمارے اہل سنت "عالم دین" کسطرح سیدہ عائشہ رض کی توہین کررہے ہیں، واضح رہے کہ یہ "اہلسنت عالم دین" جنکا نام انجئنیر علی مرزا ہے، انکے کئی ایک وڈیو انکے پیج کر موجود ہیں جہاں انہوں نے سیدنا معایہ رض اور امیر یزید کے بارے میں اسطرح کی شرانگیز وڈیوز اپلوڈ کی ہوئی ہیں، اور واقعہ کربلا اور حسینیت کی آڑ لیکر ان حضرات کو ٹھیک ٹھاک بہتان لگا کر بدنام کیا گیا ہے۔
ان مرزا صاحب کی تقریر سے پتہ چلتا ہےکہ یہ بندہ عالم نہیں ،بلکہ عالم کا بھیس بنائے بیٹھا ہے ۔
البتہ موضوع اور نفس مضمون بتاتاہے کہ شہرت مقصود ہے۔واللہ اعلم ۔
کیونکہ مارکیٹ کی طلب کے مطابق ترسیل کی گئی ہے ۔۔۔ذیل کے جملے دیکھیں،
حکومت کی رٹ۔۔۔۔حکومت کے خلاف چند لوگوں کا ٹولہ ۔۔۔پھر خیر سے اس ٹولے کو باغی ہونے کا سرٹیفکیٹ۔۔۔۔پھر کلین سویپ

پتہ نہیں سننے والے کس مٹی کے بنے بیٹھے ہوں گے ۔۔
جنہوں نے مرزا صاحب کو اتنا نہیں بتایا ۔کہ بھائی ! یہ حکومت مخالف گروہ کوئی برقعہ پوش مولویوں کی جماعت نہیں ۔
بلکہ حواری رسول ﷺ ، اوراپنی زندگی میں نوید شہادت سے سرفراز جناب زبیر بن عوام ،اور یکے از عشرہ مبشرہ جناب طلحہ رضی اللہ عنہما
اور مومنوں کی ماں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دیگر کئی ایک صحابہ تھے ،یہ مرزا صاحب ان کا ذکر ایسے کر رہے ہیں ،گویا
کوئی بہت معمولی حیثیت کے چند خارجی تھے ،نعوذ باللہ۔۔
اور مرزا صاحب شاید جانتے نہیں یا تجاہل عافانہ سے کام لے رہے ہیں ۔یہ گروہ مقدس کسی ذاتی مفاد و منفعت یا ذاتی دشمنی کے سبب تو نہیں کھڑا ہوا تھا ،بلکہ جناب ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے ظالمانہ قتل کےقصاص کا طالب تھا ۔
اور قاتل بلاشک و شبہ اول تا آخر صف سرکار میں جلوہ افروز تھے ۔اور بڑے مناصب پر متمکن تھے ۔
شاید مرزاصاحب نے ’‘ خلافت و ملوکیت کی شرعی حیثیت ’‘ نہیں پڑھی۔۔۔

اور مرزا صاحب جس حدیث کو سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی بشارت میں سناکر گرجتے دکھائی دے رہے ہیں ۔وہ بھی انہوں کسی اردو رسالے سے یا مولوی جھال والے سے سنی ہے ۔کیونکہ یہ حدیث وہ ام المومنین سیدہ صدیقہ اور جناب طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم پر فٹ کر رہے ہیں جبکہ یہ حدیث صرف ان خوارج کے بابت ہے جنہوں نے صحابہ کرام کو ۔۔ان الحکم الا للہ۔۔کا مخالف بناکر ان سے قتال کیا ۔
حدیث مذکورہ کے الفاظ دیکھئے :
إِنَّ مِنْكُمْ مَنْ يُقَاتِلُ عَلَى تَأْوِيلِ هَذَا الْقُرْآنِ، كَمَا قَاتَلْتُ عَلَى تَنْزِيلِهِ "، فَاسْتَشْرَفْنَا وَفِينَا أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَقَالَ: " لَا، وَلَكِنَّهُ خَاصِفُ النَّعْلِ ". قَالَ: فَجِئْنَا نُبَشِّرُهُ، قَالَ: وَكَأَنَّهُ قَدْ سَمِعَهُ ))(مسند 11773)
تم میں سے ایک اس قرآن کی تاویل پر جنگ کرے گا ،اسی طرح جس طرح میں نے اس کی تنزیل پر قتال کیا ۔
اب دیکھئے ،،مرزا صاحب کا مرکزی مقصود،یعنی جنگ جمل و صفین تو کسی صورت اس زد میں نہیں آتے ۔
لیکن مرزا صاحب کی انجیئرنگ کی ڈگری کا کمال ۔۔۔کہ وہ خارجیوں کی جگہ طلحہ و زبیر کو کھڑا کر گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ستم تو یہ ایک طرف وہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے بارے گرج کر بتاتے ہیں ،انہیں قتل کرنے والی جماعت باغی ہوگی ،
لیکن یہ جس عظیم ہستی کو جناب رسول اللہ ﷺ کہیں ۔اے زبیر! تجھ پر میرے ماں ،باپ قربان
فَلَمَّا رَجَعْتُ جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَبَوَيْهِ فَقَالَ : " فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي " [ متفق عليه ]
اوروہ عظیم انسان جسے جنت کی بشارت ساری امت جانتی ہو ،،،طلحہ رضی اللہ عنہ جن کے بارے ارشاد نبوی تھا کہ
((مَن سرَّه أن ينظر إلى شهيدٍ يمشي على وجه الأرض، فلينظر إلى طلحة بن عبيدالله))رواه الترمذي في سننه من حديث جابر - رضي الله عنه
اگر زمین پر زندہ چلتا پھرتا جنتی دیکھنا ہو تو ۔طلحہ رضی اللہ عنہ کو دیکھ لو ۔
مرزا صاحب اپنی انجینئرڈ تقریر میں یہ نہیں بتاتے ایسے لوگ جنگ جمل میں ام المومنین رضی اللہ عنہا کے ساتھ تھے۔
 
Last edited:
شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
مرزا صاحب شیعہ حضرات کے گھسے پٹے اعتراضات پیش کرتے ہے اس بات سے لا علم کہ عرصہ دراز ہوا علماء کرام اس کہ عمدہ جواب دے چکے ہے اللہ ان کو ھدایت دیں صحیح جانب۔۔۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکا تہ !
معجم البلدان از امام شہاب الدین ابو عبداللہ یاقوت بن عبد اللہ الحموی الرومی البغدادی ،جلد نمبر 02 صفحہ نمبر 314
شکریہ
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
@محمد علی جواد بھائی "بونگی" کس نے ماری ہے یہ ملاحظہ کر لیں:

پہلے آپ نے فرمایا:
"
لیکن بیچارے یہ نہیں جانتے کہ جغرافی اعتبار سے مکہ اور مدینہ سے کوفہ کی طرف جاتے ہوے کوفہ کا مقام پہلے آتا ہے اور کربلا کا مقام بعد میں آتا ہے - یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت حسین رضی الله عنہ آزم سفر تو کوفہ کے لئے ہوے اور پہنچے سیدھے کربلا - یعنی جو مقام بعد میں آتا ہے وہاں وه پہلے پہنچ گئے - اور کوفہ کو نظر انداز کر گئے -؟؟؟ یہ اب تک اس واقعہ کربلا پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے "

اور اس کے بعد فرماتے ہیں:
محترم -

جس راستے کا آپ ذکر کر رہے ہیں اس کا شاید عباسی نے بھی ذکر کیا ہے اگر یہ راستہ جو آپ نے بیان کیا ہے اگر اسی راستے پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے لئے روانہ ہوتے تب بھی کسی بھی صورت وہ ١٠ محرم کو کربلا تک نہیں پہنچ پاتے تھے-
اب بتائیں اس سے زیادہ اور کیا" " ہوگی۔ خالی جگہ آپ اپنے حساب سے چن لیں، چاھے "بونگی" نا اہلی" یا کوئی بھی۔ بات ہوئی ہے کربلہ کے راستے میں آنے یا نہ آنے کی، اور آپ پہنچ گئے واقعے کی تاریخ پر، سبحان اللہ۔ رافضیوں کے اعتراضات سے خوف ذدہ ہو کر، اور عباسی صاحب پر تنقید کو برداشت نہ کرتے ہوئے آپ بالکل ہی آؤٹ ہو گئے بھائی۔ ذرا تحمل رکھیں۔ علماء کو "نا اہل" اور " عقل کے اندھے" کہنے سے سچ جھوٹ میں نہیں بدل سکتا۔ اللہ آپکو دلائل کی غیر موجودگی میں برداشت اور تحمل کا دامن تھامے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
 
Top