محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
السلام و علیکم رحمت الله-
اسلام جب اپنے نبی اور محسنین تلامذہ نبوت خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم کی وجہ سے بام عروج پر پہنچا اور معلوم کرہ ارضی کے چپہ چپہ پر چھا گیا۔ بڑی بڑی متمدن فارس و روم کی حکومتیں پیوند خاک ہوگئیں تو یہود و مجوس منافقانہ انداز میں اسلام میں داخل ہوئے اور حسد و نفاق کی وجہ سے اسلام سے انتقام کی ٹھانی۔ ان کا سرغنہ صنعأ، یمن کا عبد اللہ بن سباء یہودی عالم تھا ۔عبداللہ بن سباء اور اس کی پیروکار ذریت کے اسلام سوز مسلم کش کارنامے تاریخ کی سب سے معتبر کتابوں کے علاوہ شیعہ کی علم اسماء الرجال کی کتابوں میں صراحت سے موجود ہیں۔ اس نے اپنی پرتقیہ ، خفیہ تحریک سے صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ کے قتل کا ہی کام نہ لیا بلکہ اسلام کے اساسی عقائد پر تیشہ چلایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رب باور کرایا۔ ۔ امامت کا عقیدہ ایجاد کرکے ختم نبوت کا صفایا کیا۔ قرآن میں تحریف اور کمی و بیشی کا نظریہ ایجاد کرکے اسلام کی جڑ کاٹ دی۔ سرمایہ نبوت ، تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو معاذ اللہ منافق ، غاصب اور بے ایمان کہہ کر پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ناکامی اور اسلام کے جھٹلانے کا برملا اعلان کیا۔ امہات المومنین رضوان اللہ علیہن اجمعات، بنات طاہرات رضوان اللہ علیہن اجمعات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سسرالی اور خاندانی رشتوں کی عظمت کا انکار کرکے ’’مقام اہل بیت‘‘ کے نظریہ کو بھی تہس نہس کردیا-
رافضیوں کی ایجاد کردہ باطل روایتوں میں سے ایک روایت یہ ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ "تمام مومنین کی ماں حضرت عائشہ رضی الله عنہ خلیفہ المسلمین حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کی شہادت کی دلدوز خبرسن کر جب زبیر رضی الله تعالی عنہ ، عبدللہ بن عمر رضی الله تعالی عنہ اور بنو امیہ کی ایک جماعت کے ساتھ بصرہ روانہ ہوئیں تو راستے میں ایک جگہ قیام کیا - اس جگہ کا نام روایت میں حَوْأَبِ بیان کیا جاتا ہے - اس جگہ (بقول رافضیوں کے) پر حضرت عائشہ رضی الله عنہ کتے تھے (فنعوز باللہ )- اور اس کی پیشنگوئی نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم زندگی میں کر دی تھی - آیے اب ان روایت کا جایزہ لیتے جن میں یہ اس کی بہتان کی تصریح ہے اور جس کو بغیر سمجھے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے منسوب گیا- اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کہ کچھ کہ اہل بیعت کو زبردستی خون عثمان رضی الله عنہ کے معاملے حق ثابت کیا جائے اور جنہوں نے اس خون کے بدلے کا مطالبہ کیا ان کو ذلیل و رسوا اور جھوٹا ثابت کیا جائے -چاہے وہ نبی کریم کے خاندان کی انتہائی معزز اور قابل احترام ہستیاں نہ ہوں -اور جن کی چھوٹی سے چھوٹی گستاخی بھی ایک شدید کبیرہ گناہ ہے -
افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ رافضیوں کا اکابرین صحابہ وصحابیات رضوان الله اجمعین کے متعلق ان روایت کو پھیلانا اور ان پاک ہستیوں پر تعن تشنیع کرنا ان کے باطل مذہب کا حصّہ ہے - لیکن جن کے یہ مذہب کا حصّہ نہیں یعنی کچھ نام نہاد اہل سنّت علماء بھی ایسے ہے جو اپنی نادانی میں ان جھوٹی روایات کو صحیح سمجھ بیٹھے-اور منبر پر ان کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں اور پھر ایسی روایات کی مختلف اور عجیب و غریب توجیہات کرتے نظر آتے ہیں-تا کہ ان کے اکابرین جن سے یہ بے سروپا روایات لی گیں ہیں وہ بھی صحیح ثابت ہو جائیں اوردوسری طرف کوئی ان علماء کورافضیوں کا ہمنوا بھی نہ کہہ سکے- جب کہ یہ روایات تو اس قابل بھی نہیں کہ ان کو اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کے اصولوں کے تحت پرکھا جائے کہ آیا یہ روایات ضعیف یا حسن کے درجے پر ہیں یا نہیں وغیرہ؟؟ - ایمان کا تقاضہ تو یہ ہی کہ ایسی جھوٹی روایات جن میں صحابہ و صحابیات رضوان الله اجمعین کی تنقیص کا پہلو نکلتا ہو اس کو سن کر ہی اس کا انکار کردینا چاہیے- جب کہ حَوْأَبِ کے کتوں سے متعلق روایت میں صرف حضرت عائشہ رضی الله عنہ پر ہی تنقیص کا پہلو نہیں نکلتا بلکہ اس بڑھ کر نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی ذات پاک پربہتان عظیم کا پہلو بھی نکلتا ہے- کہ انہوں نے ایسی بات اپنی محبوب ترین زوجہ جن کی گود میں آپ صل الله علیہ و آ له وسلم جان حق الله کے حوالے کی ان سے متعلق بیان فرمائی ہو-
لیکن پھربھی اہل علم کے لئے اس حَوْأَبِ کے کتوں سے متعلق روایت پر تحقیق حاضر ہے جودلیل کے طور پر گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے یہاں پیش کی جاتی ہے کہ بہرحال اسلامی روایات کو پرکھنے کے جو اسلامی اصول محدثین نے بیان کیے ہیں ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اور وہ ختم نہیں ہونی چاہیے -
طبری نے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے لشکر کے ساتھ مکہ سے بصرہ جا رہی تھیں تو راستے میں ایک مقام حوأب آیا جہاں کتے بھونکے۔ جب سیدہ کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا:
“مجھے واپس لوٹاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ازواج مطہرات سے یہ فرماتے سنا ہے کہ نجانے تم میں سے وہ کون ہو گی، جس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے۔”( ایضاً ۔ 3/2-74)
اس روایت کا مقصد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اقدام کو غلط ثابت کرنا تھا اور اس کے گھڑنے والے وہ لوگ ہیں جو باغیوں ہی کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس روایت کی دو اسناد طبری نے بیان کی ہیں، وہ یہ ہیں:
1۔ حدثني إسماعيل بن موسى الفزاري، قال: أخبرنا علي بن عابس الأزرق، قال: حدثنا أبو الخطاب الهجري، عن صفوان بن قبيضة الأحمسي، قال: حدثني العرني صاحب الجمل.
2۔ حدثني أحمد بن زهير، قال: حدثناأبي، قال: حدثني وهب بن جرير بن حازم، قال: سمعت يونس بن يزيد الأيلي، عن الزهري.
اب آئیے، ان دونوں اسناد کا تجزیہ کرتے ہیں:
1۔ پہلی سند میں پہلا شخص اسماعیل بن موسی الفزاری (d. 245/859)ہے جو کوفہ کا رہنے والا ایک غالی راوی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیا کرتا تھا۔ دوسرا شخص علی بن عابس ہے جسے امام نسائی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ تیسرا اور چوتھا راوی ابو الخطاب ہجری اور صفوان بن قبیضہ کے حالات نامعلوم ہیں۔ پانچواں راوی قبیلہ بنو عرینہ کا وہ شخص ہے جس سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے اونٹ خریدا گیا تھا۔ اس شخص کا نام بھی معلوم نہیں ہے کجا اس کے حالات سے یہ علم ہو سکے کہ یہ کون تھا اور کس درجے میں قابل اعتماد تھا۔ اس تفصیل کے بعد اس سند کے بارے میں بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ یہ صحیح حدیث نہیں ہے بلکہ ایک گھڑی ہوئی روایت ہے ۔
2۔ دوسری سند میں آخری راوی زہری (58-124/677-741)ہیں جو جنگ جمل کے 22 سال بعد پیدا ہوئے ۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے یہ روایت کس سے سنی تھی اور وہ کس درجے میں قابل اعتماد تھا؟ ان سے اس روایت کو یونس بن یزید ایلی روایت کر رہے ہیں جو قابل اعتماد راوی نہیں ہیں۔
اس تفصیل کے بعد اس سند کے بارے میں بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ یہ صحیح حدیث نہیں ہے بلکہ ایک گھڑی ہوئی روایت ہے جو کسی ایسے راوی کی ایجاد ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بغض رکھتا تھا۔
امام احمد مسند میں، ابن حبان صحیح میں ، حاکم مستدرک میں روایت کرتے ہیں کہ :
دَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَتْ عَائِشَةُ بَلَغَتْ مِيَاهَ بَنِي عَامِرٍ لَيْلًا نَبَحَتِ الْكِلَابُ، قَالَتْ: أَيُّ مَاءٍ هَذَا؟ قَالُوا: مَاءُ الْحَوْأَبِ قَالَتْ: مَا أَظُنُّنِي إِلَّا أَنِّي رَاجِعَةٌ فَقَالَ بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعَهَا: بَلْ تَقْدَمِينَ فَيَرَاكِ الْمُسْلِمُونَ، فَيُصْلِحُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ذَاتَ بَيْنِهِمْ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا ذَاتَ يَوْمٍ: “كَيْفَ بِإِحْدَاكُنَّ تَنْبَحُ عَلَيْهَا كِلَابُ الْحَوْأَبِ؟
قیس بن ابی حازم کہتا ہے کہ پس جب عائشہ ( رضی الله تعالی عنہا) بنی عامر کے پانی ( تالاب) پر رات میں پہنچیں تو کتے بھونکے. عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے پوچھا یہ کون سا پانی ہے. بتایا گیا الْحَوْأَبِ کا پانی ہے. آپ رضی الله تعالی عنہا نے کہا میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اب واپس جانا چاہیے! اس پر ان کے ساتھ لوگوں نے کہا نہیں آگے چلیں مسلمان اپ کو دیکھ رہے ہیں، پس الله ان کے درمیان سب ٹھیک کر دے گا. عائشہ ( رضی الله تعالی عنہا) نے کہا بے شک رسول الله نے ایک روز (اپنی بیویوں سے) کہا تھا کہ کیسی ہو گی تم میں سے ایک جس پر الْحَوْأَبِ کے کتے بھونکیں گے-
البانی کتاب الصحيحة میں اس روایت کو صحیح کہتے ہیں -
اإسناده صحيح جداً، صححه خمسة من كبار أئمة الحديث هم: ابن حبان، والحاكم، والذهبي، وابن كثير، وابن حجر سلسلة الأحاديث الصحيحة 1: 767 رقم 474
لیکن وہ اجتہادی غلطی پرہیں -
اس کی سند میں قَيْسُ بنُ أَبِي حَازِمٍ ہے
الذھبی تلخیص میں اس پر سکوت کرتے ہیں . الذھبی سير أعلام النبلاء میں قَيْسُ بنُ أَبِي حَازِمٍ کے ترجمے میں لکھتے ہیں کہ امام یحیی بن سعید اس روایت کو منکر کہتے ہیں
قال ابن المدينى عن يحيى بن سعيد : منكر الحديث ، ثم ذكر له حديث كلاب الحوأب
علی ابن المدينى ، يحيى بن سعيد سے نقل کرتے ہیں کہ قیس منکر الحدیث ہے پھر انہوں نے اسکی الحوأب کے کتوں والی روایت بیان کی
یحیی بن سعید القطان کے سامنے البانی ،الذھبی، حاکم، ابن حجر کی حثیت ہی کیا ہے
کتاب مَنْ تَكلَّم فيه الدَّارقطني في كتاب السنن من الضعفاء والمتروكين والمجهولين از ابن زريق (المتوفى: 803هـ) کے مطابق الدارقطني اس کو ليس بقوي قوی نہیں کہتے ہیں
امام بخاری اور مسلم نے قیس کی عائشہ رضی الله عنہا سے مروی کوئی روایت نقل نہیں کی
تاریخ بغداد کے مطابق قد كان نزل الكوفة، وحضر حرب الخوارج بالنهروان مع علي بْن أبي طالب
قیس کوفہ گیا اور علی رضی الله تعالی عنہ کے ساتھ خوارج سے قتال بھی کیا
ایک اور روایت میں ہے کہ :
حَدَّثنا سَهْل بن بحر، قَال: حَدَّثنا أَبُو نعيم، قَال: حَدَّثنا عِصَامُ بْنُ قُدَامَةَ، عَن عِكْرِمة، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم لِنِسَائِهِ: لَيْتَ شعري أيتكن صاحبة الجمل الأدبب ، تخرج كِلابُ حَوْأَبٍ، فَيُقْتَلُ عَنْ يَمِينِهَا، وعَن يَسَارِهَا قَتْلًا كَثِيرًا، ثُمَّ تَنْجُو بَعْدَ مَا كَادَتْ.
ابن عبّاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے کے فرمایا کاش کہ جان لے نشانی، بپھرے بالوں والے ،اونٹ والی ، اس پر حواب کے کتے نکلیں گے، اپنے دائیں اور بائیں ڈھیروں کو قتل کرے گی پھر نقصان اٹھا کر بچ جائے گی-
رافضیت سے پر اس روایت کی سند میں عصام بن قدامة ہے
ابن القطان اس کو لم يثبته، مظبوط نہیں کہتے ہیں .
أبو زرعة ، لا بأس به کہتے ہیں
النسائي ، ثقة کہتے ہیں
أبو حاتم کہتے ہیں له حديث منكر اس کی حدیث منکر ہے-
الغرض جنگ جمل کے حوالے سے عائشہ رضی الله عنہا کی تنقیص میں کوئی روایت صحیح نہیں ہے جلیل القدر محدثین نے ایسی روایات کو منکر کہا ہے اور شیعہ اور اہل سنت کے جن لوگوں نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ان کو روز محشر اس کا جواب دینا ہو گا-
لوگوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ ان روایات میں براہ راست ام المومنین کی تنقیص کی گئی ہے اور ان کی چھوٹا ثابت کرنے کی لا حاصل مگر مذموم کوشش کی گئی ہے - اگردل پر پتھر رکھ کر ان جھوٹی روایات کو قبول کربھی لیا جائے - تو سوال ہے کہ اس روایت میں کتوں کے بھونکنے کا ذکر کیا نبی کریم کی مبارک زبان سے اپنی زوجہ کے لئے زیب دیتا ہے ؟؟؟ پھر یہ کہ کتے تو ہر ایرے غیرے پر بھونکتے ہیں- اب قافلے میں موجود کوئی بھی معزز ہستی ہو یا کوئی عام لوگوں کا قافله ہو -اس بات سے یہ کس طرح اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جن پر کتے بھونکتے ہیں وہ جھوٹے یا دغا باز لوگ ہوتے ہیں - جیسا کہ سبائیوں نے ان روایات کی بنیاد پر ام المومنین پر ایک لغو الزام لگانے کی مذموم کوشش کی کہ وہ اپناؤ اجتہاد میں غلط تھیں -
الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے اور نبی کریم اور آپ کے اصحاب و صحابیت کا انتہائی ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرماے- اورباطل قوتوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت و صلاحیت عطا فرماے (آمین)-
اسلام جب اپنے نبی اور محسنین تلامذہ نبوت خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم کی وجہ سے بام عروج پر پہنچا اور معلوم کرہ ارضی کے چپہ چپہ پر چھا گیا۔ بڑی بڑی متمدن فارس و روم کی حکومتیں پیوند خاک ہوگئیں تو یہود و مجوس منافقانہ انداز میں اسلام میں داخل ہوئے اور حسد و نفاق کی وجہ سے اسلام سے انتقام کی ٹھانی۔ ان کا سرغنہ صنعأ، یمن کا عبد اللہ بن سباء یہودی عالم تھا ۔عبداللہ بن سباء اور اس کی پیروکار ذریت کے اسلام سوز مسلم کش کارنامے تاریخ کی سب سے معتبر کتابوں کے علاوہ شیعہ کی علم اسماء الرجال کی کتابوں میں صراحت سے موجود ہیں۔ اس نے اپنی پرتقیہ ، خفیہ تحریک سے صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ کے قتل کا ہی کام نہ لیا بلکہ اسلام کے اساسی عقائد پر تیشہ چلایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رب باور کرایا۔ ۔ امامت کا عقیدہ ایجاد کرکے ختم نبوت کا صفایا کیا۔ قرآن میں تحریف اور کمی و بیشی کا نظریہ ایجاد کرکے اسلام کی جڑ کاٹ دی۔ سرمایہ نبوت ، تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو معاذ اللہ منافق ، غاصب اور بے ایمان کہہ کر پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ناکامی اور اسلام کے جھٹلانے کا برملا اعلان کیا۔ امہات المومنین رضوان اللہ علیہن اجمعات، بنات طاہرات رضوان اللہ علیہن اجمعات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سسرالی اور خاندانی رشتوں کی عظمت کا انکار کرکے ’’مقام اہل بیت‘‘ کے نظریہ کو بھی تہس نہس کردیا-
رافضیوں کی ایجاد کردہ باطل روایتوں میں سے ایک روایت یہ ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ "تمام مومنین کی ماں حضرت عائشہ رضی الله عنہ خلیفہ المسلمین حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کی شہادت کی دلدوز خبرسن کر جب زبیر رضی الله تعالی عنہ ، عبدللہ بن عمر رضی الله تعالی عنہ اور بنو امیہ کی ایک جماعت کے ساتھ بصرہ روانہ ہوئیں تو راستے میں ایک جگہ قیام کیا - اس جگہ کا نام روایت میں حَوْأَبِ بیان کیا جاتا ہے - اس جگہ (بقول رافضیوں کے) پر حضرت عائشہ رضی الله عنہ کتے تھے (فنعوز باللہ )- اور اس کی پیشنگوئی نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم زندگی میں کر دی تھی - آیے اب ان روایت کا جایزہ لیتے جن میں یہ اس کی بہتان کی تصریح ہے اور جس کو بغیر سمجھے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے منسوب گیا- اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کہ کچھ کہ اہل بیعت کو زبردستی خون عثمان رضی الله عنہ کے معاملے حق ثابت کیا جائے اور جنہوں نے اس خون کے بدلے کا مطالبہ کیا ان کو ذلیل و رسوا اور جھوٹا ثابت کیا جائے -چاہے وہ نبی کریم کے خاندان کی انتہائی معزز اور قابل احترام ہستیاں نہ ہوں -اور جن کی چھوٹی سے چھوٹی گستاخی بھی ایک شدید کبیرہ گناہ ہے -
افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ رافضیوں کا اکابرین صحابہ وصحابیات رضوان الله اجمعین کے متعلق ان روایت کو پھیلانا اور ان پاک ہستیوں پر تعن تشنیع کرنا ان کے باطل مذہب کا حصّہ ہے - لیکن جن کے یہ مذہب کا حصّہ نہیں یعنی کچھ نام نہاد اہل سنّت علماء بھی ایسے ہے جو اپنی نادانی میں ان جھوٹی روایات کو صحیح سمجھ بیٹھے-اور منبر پر ان کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں اور پھر ایسی روایات کی مختلف اور عجیب و غریب توجیہات کرتے نظر آتے ہیں-تا کہ ان کے اکابرین جن سے یہ بے سروپا روایات لی گیں ہیں وہ بھی صحیح ثابت ہو جائیں اوردوسری طرف کوئی ان علماء کورافضیوں کا ہمنوا بھی نہ کہہ سکے- جب کہ یہ روایات تو اس قابل بھی نہیں کہ ان کو اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کے اصولوں کے تحت پرکھا جائے کہ آیا یہ روایات ضعیف یا حسن کے درجے پر ہیں یا نہیں وغیرہ؟؟ - ایمان کا تقاضہ تو یہ ہی کہ ایسی جھوٹی روایات جن میں صحابہ و صحابیات رضوان الله اجمعین کی تنقیص کا پہلو نکلتا ہو اس کو سن کر ہی اس کا انکار کردینا چاہیے- جب کہ حَوْأَبِ کے کتوں سے متعلق روایت میں صرف حضرت عائشہ رضی الله عنہ پر ہی تنقیص کا پہلو نہیں نکلتا بلکہ اس بڑھ کر نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی ذات پاک پربہتان عظیم کا پہلو بھی نکلتا ہے- کہ انہوں نے ایسی بات اپنی محبوب ترین زوجہ جن کی گود میں آپ صل الله علیہ و آ له وسلم جان حق الله کے حوالے کی ان سے متعلق بیان فرمائی ہو-
لیکن پھربھی اہل علم کے لئے اس حَوْأَبِ کے کتوں سے متعلق روایت پر تحقیق حاضر ہے جودلیل کے طور پر گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے یہاں پیش کی جاتی ہے کہ بہرحال اسلامی روایات کو پرکھنے کے جو اسلامی اصول محدثین نے بیان کیے ہیں ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اور وہ ختم نہیں ہونی چاہیے -
طبری نے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے لشکر کے ساتھ مکہ سے بصرہ جا رہی تھیں تو راستے میں ایک مقام حوأب آیا جہاں کتے بھونکے۔ جب سیدہ کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا:
“مجھے واپس لوٹاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ازواج مطہرات سے یہ فرماتے سنا ہے کہ نجانے تم میں سے وہ کون ہو گی، جس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے۔”( ایضاً ۔ 3/2-74)
اس روایت کا مقصد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اقدام کو غلط ثابت کرنا تھا اور اس کے گھڑنے والے وہ لوگ ہیں جو باغیوں ہی کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس روایت کی دو اسناد طبری نے بیان کی ہیں، وہ یہ ہیں:
1۔ حدثني إسماعيل بن موسى الفزاري، قال: أخبرنا علي بن عابس الأزرق، قال: حدثنا أبو الخطاب الهجري، عن صفوان بن قبيضة الأحمسي، قال: حدثني العرني صاحب الجمل.
2۔ حدثني أحمد بن زهير، قال: حدثناأبي، قال: حدثني وهب بن جرير بن حازم، قال: سمعت يونس بن يزيد الأيلي، عن الزهري.
اب آئیے، ان دونوں اسناد کا تجزیہ کرتے ہیں:
1۔ پہلی سند میں پہلا شخص اسماعیل بن موسی الفزاری (d. 245/859)ہے جو کوفہ کا رہنے والا ایک غالی راوی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیا کرتا تھا۔ دوسرا شخص علی بن عابس ہے جسے امام نسائی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ تیسرا اور چوتھا راوی ابو الخطاب ہجری اور صفوان بن قبیضہ کے حالات نامعلوم ہیں۔ پانچواں راوی قبیلہ بنو عرینہ کا وہ شخص ہے جس سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے اونٹ خریدا گیا تھا۔ اس شخص کا نام بھی معلوم نہیں ہے کجا اس کے حالات سے یہ علم ہو سکے کہ یہ کون تھا اور کس درجے میں قابل اعتماد تھا۔ اس تفصیل کے بعد اس سند کے بارے میں بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ یہ صحیح حدیث نہیں ہے بلکہ ایک گھڑی ہوئی روایت ہے ۔
2۔ دوسری سند میں آخری راوی زہری (58-124/677-741)ہیں جو جنگ جمل کے 22 سال بعد پیدا ہوئے ۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے یہ روایت کس سے سنی تھی اور وہ کس درجے میں قابل اعتماد تھا؟ ان سے اس روایت کو یونس بن یزید ایلی روایت کر رہے ہیں جو قابل اعتماد راوی نہیں ہیں۔
اس تفصیل کے بعد اس سند کے بارے میں بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ یہ صحیح حدیث نہیں ہے بلکہ ایک گھڑی ہوئی روایت ہے جو کسی ایسے راوی کی ایجاد ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بغض رکھتا تھا۔
امام احمد مسند میں، ابن حبان صحیح میں ، حاکم مستدرک میں روایت کرتے ہیں کہ :
دَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَتْ عَائِشَةُ بَلَغَتْ مِيَاهَ بَنِي عَامِرٍ لَيْلًا نَبَحَتِ الْكِلَابُ، قَالَتْ: أَيُّ مَاءٍ هَذَا؟ قَالُوا: مَاءُ الْحَوْأَبِ قَالَتْ: مَا أَظُنُّنِي إِلَّا أَنِّي رَاجِعَةٌ فَقَالَ بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعَهَا: بَلْ تَقْدَمِينَ فَيَرَاكِ الْمُسْلِمُونَ، فَيُصْلِحُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ذَاتَ بَيْنِهِمْ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا ذَاتَ يَوْمٍ: “كَيْفَ بِإِحْدَاكُنَّ تَنْبَحُ عَلَيْهَا كِلَابُ الْحَوْأَبِ؟
قیس بن ابی حازم کہتا ہے کہ پس جب عائشہ ( رضی الله تعالی عنہا) بنی عامر کے پانی ( تالاب) پر رات میں پہنچیں تو کتے بھونکے. عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے پوچھا یہ کون سا پانی ہے. بتایا گیا الْحَوْأَبِ کا پانی ہے. آپ رضی الله تعالی عنہا نے کہا میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اب واپس جانا چاہیے! اس پر ان کے ساتھ لوگوں نے کہا نہیں آگے چلیں مسلمان اپ کو دیکھ رہے ہیں، پس الله ان کے درمیان سب ٹھیک کر دے گا. عائشہ ( رضی الله تعالی عنہا) نے کہا بے شک رسول الله نے ایک روز (اپنی بیویوں سے) کہا تھا کہ کیسی ہو گی تم میں سے ایک جس پر الْحَوْأَبِ کے کتے بھونکیں گے-
البانی کتاب الصحيحة میں اس روایت کو صحیح کہتے ہیں -
اإسناده صحيح جداً، صححه خمسة من كبار أئمة الحديث هم: ابن حبان، والحاكم، والذهبي، وابن كثير، وابن حجر سلسلة الأحاديث الصحيحة 1: 767 رقم 474
لیکن وہ اجتہادی غلطی پرہیں -
اس کی سند میں قَيْسُ بنُ أَبِي حَازِمٍ ہے
الذھبی تلخیص میں اس پر سکوت کرتے ہیں . الذھبی سير أعلام النبلاء میں قَيْسُ بنُ أَبِي حَازِمٍ کے ترجمے میں لکھتے ہیں کہ امام یحیی بن سعید اس روایت کو منکر کہتے ہیں
قال ابن المدينى عن يحيى بن سعيد : منكر الحديث ، ثم ذكر له حديث كلاب الحوأب
علی ابن المدينى ، يحيى بن سعيد سے نقل کرتے ہیں کہ قیس منکر الحدیث ہے پھر انہوں نے اسکی الحوأب کے کتوں والی روایت بیان کی
یحیی بن سعید القطان کے سامنے البانی ،الذھبی، حاکم، ابن حجر کی حثیت ہی کیا ہے
کتاب مَنْ تَكلَّم فيه الدَّارقطني في كتاب السنن من الضعفاء والمتروكين والمجهولين از ابن زريق (المتوفى: 803هـ) کے مطابق الدارقطني اس کو ليس بقوي قوی نہیں کہتے ہیں
امام بخاری اور مسلم نے قیس کی عائشہ رضی الله عنہا سے مروی کوئی روایت نقل نہیں کی
تاریخ بغداد کے مطابق قد كان نزل الكوفة، وحضر حرب الخوارج بالنهروان مع علي بْن أبي طالب
قیس کوفہ گیا اور علی رضی الله تعالی عنہ کے ساتھ خوارج سے قتال بھی کیا
ایک اور روایت میں ہے کہ :
حَدَّثنا سَهْل بن بحر، قَال: حَدَّثنا أَبُو نعيم، قَال: حَدَّثنا عِصَامُ بْنُ قُدَامَةَ، عَن عِكْرِمة، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم لِنِسَائِهِ: لَيْتَ شعري أيتكن صاحبة الجمل الأدبب ، تخرج كِلابُ حَوْأَبٍ، فَيُقْتَلُ عَنْ يَمِينِهَا، وعَن يَسَارِهَا قَتْلًا كَثِيرًا، ثُمَّ تَنْجُو بَعْدَ مَا كَادَتْ.
ابن عبّاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے کے فرمایا کاش کہ جان لے نشانی، بپھرے بالوں والے ،اونٹ والی ، اس پر حواب کے کتے نکلیں گے، اپنے دائیں اور بائیں ڈھیروں کو قتل کرے گی پھر نقصان اٹھا کر بچ جائے گی-
رافضیت سے پر اس روایت کی سند میں عصام بن قدامة ہے
ابن القطان اس کو لم يثبته، مظبوط نہیں کہتے ہیں .
أبو زرعة ، لا بأس به کہتے ہیں
النسائي ، ثقة کہتے ہیں
أبو حاتم کہتے ہیں له حديث منكر اس کی حدیث منکر ہے-
الغرض جنگ جمل کے حوالے سے عائشہ رضی الله عنہا کی تنقیص میں کوئی روایت صحیح نہیں ہے جلیل القدر محدثین نے ایسی روایات کو منکر کہا ہے اور شیعہ اور اہل سنت کے جن لوگوں نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ان کو روز محشر اس کا جواب دینا ہو گا-
لوگوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ ان روایات میں براہ راست ام المومنین کی تنقیص کی گئی ہے اور ان کی چھوٹا ثابت کرنے کی لا حاصل مگر مذموم کوشش کی گئی ہے - اگردل پر پتھر رکھ کر ان جھوٹی روایات کو قبول کربھی لیا جائے - تو سوال ہے کہ اس روایت میں کتوں کے بھونکنے کا ذکر کیا نبی کریم کی مبارک زبان سے اپنی زوجہ کے لئے زیب دیتا ہے ؟؟؟ پھر یہ کہ کتے تو ہر ایرے غیرے پر بھونکتے ہیں- اب قافلے میں موجود کوئی بھی معزز ہستی ہو یا کوئی عام لوگوں کا قافله ہو -اس بات سے یہ کس طرح اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جن پر کتے بھونکتے ہیں وہ جھوٹے یا دغا باز لوگ ہوتے ہیں - جیسا کہ سبائیوں نے ان روایات کی بنیاد پر ام المومنین پر ایک لغو الزام لگانے کی مذموم کوشش کی کہ وہ اپناؤ اجتہاد میں غلط تھیں -
الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے اور نبی کریم اور آپ کے اصحاب و صحابیت کا انتہائی ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرماے- اورباطل قوتوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت و صلاحیت عطا فرماے (آمین)-