• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایات- حَوْأَبِ کے کتے اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (ایک تحقیقی جائزہ)

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم رحمت الله-

اسلام جب اپنے نبی اور محسنین تلامذہ نبوت خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم کی وجہ سے بام عروج پر پہنچا اور معلوم کرہ ارضی کے چپہ چپہ پر چھا گیا۔ بڑی بڑی متمدن فارس و روم کی حکومتیں پیوند خاک ہوگئیں تو یہود و مجوس منافقانہ انداز میں اسلام میں داخل ہوئے اور حسد و نفاق کی وجہ سے اسلام سے انتقام کی ٹھانی۔ ان کا سرغنہ صنعأ، یمن کا عبد اللہ بن سباء یہودی عالم تھا ۔عبداللہ بن سباء اور اس کی پیروکار ذریت کے اسلام سوز مسلم کش کارنامے تاریخ کی سب سے معتبر کتابوں کے علاوہ شیعہ کی علم اسماء الرجال کی کتابوں میں صراحت سے موجود ہیں۔ اس نے اپنی پرتقیہ ، خفیہ تحریک سے صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ کے قتل کا ہی کام نہ لیا بلکہ اسلام کے اساسی عقائد پر تیشہ چلایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رب باور کرایا۔ ۔ امامت کا عقیدہ ایجاد کرکے ختم نبوت کا صفایا کیا۔ قرآن میں تحریف اور کمی و بیشی کا نظریہ ایجاد کرکے اسلام کی جڑ کاٹ دی۔ سرمایہ نبوت ، تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو معاذ اللہ منافق ، غاصب اور بے ایمان کہہ کر پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ناکامی اور اسلام کے جھٹلانے کا برملا اعلان کیا۔ امہات المومنین رضوان اللہ علیہن اجمعات، بنات طاہرات رضوان اللہ علیہن اجمعات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سسرالی اور خاندانی رشتوں کی عظمت کا انکار کرکے ’’مقام اہل بیت‘‘ کے نظریہ کو بھی تہس نہس کردیا-

رافضیوں کی ایجاد کردہ باطل روایتوں میں سے ایک روایت یہ ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ "تمام مومنین کی ماں حضرت عائشہ رضی الله عنہ خلیفہ المسلمین حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کی شہادت کی دلدوز خبرسن کر جب زبیر رضی الله تعالی عنہ ، عبدللہ بن عمر رضی الله تعالی عنہ اور بنو امیہ کی ایک جماعت کے ساتھ بصرہ روانہ ہوئیں تو راستے میں ایک جگہ قیام کیا - اس جگہ کا نام روایت میں حَوْأَبِ بیان کیا جاتا ہے - اس جگہ (بقول رافضیوں کے) پر حضرت عائشہ رضی الله عنہ کتے تھے (فنعوز باللہ )- اور اس کی پیشنگوئی نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم زندگی میں کر دی تھی - آیے اب ان روایت کا جایزہ لیتے جن میں یہ اس کی بہتان کی تصریح ہے اور جس کو بغیر سمجھے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے منسوب گیا- اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کہ کچھ کہ اہل بیعت کو زبردستی خون عثمان رضی الله عنہ کے معاملے حق ثابت کیا جائے اور جنہوں نے اس خون کے بدلے کا مطالبہ کیا ان کو ذلیل و رسوا اور جھوٹا ثابت کیا جائے -چاہے وہ نبی کریم کے خاندان کی انتہائی معزز اور قابل احترام ہستیاں نہ ہوں -اور جن کی چھوٹی سے چھوٹی گستاخی بھی ایک شدید کبیرہ گناہ ہے -

افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ رافضیوں کا اکابرین صحابہ وصحابیات رضوان الله اجمعین کے متعلق ان روایت کو پھیلانا اور ان پاک ہستیوں پر تعن تشنیع کرنا ان کے باطل مذہب کا حصّہ ہے - لیکن جن کے یہ مذہب کا حصّہ نہیں یعنی کچھ نام نہاد اہل سنّت علماء بھی ایسے ہے جو اپنی نادانی میں ان جھوٹی روایات کو صحیح سمجھ بیٹھے-اور منبر پر ان کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں اور پھر ایسی روایات کی مختلف اور عجیب و غریب توجیہات کرتے نظر آتے ہیں-تا کہ ان کے اکابرین جن سے یہ بے سروپا روایات لی گیں ہیں وہ بھی صحیح ثابت ہو جائیں اوردوسری طرف کوئی ان علماء کورافضیوں کا ہمنوا بھی نہ کہہ سکے- جب کہ یہ روایات تو اس قابل بھی نہیں کہ ان کو اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کے اصولوں کے تحت پرکھا جائے کہ آیا یہ روایات ضعیف یا حسن کے درجے پر ہیں یا نہیں وغیرہ؟؟ - ایمان کا تقاضہ تو یہ ہی کہ ایسی جھوٹی روایات جن میں صحابہ و صحابیات رضوان الله اجمعین کی تنقیص کا پہلو نکلتا ہو اس کو سن کر ہی اس کا انکار کردینا چاہیے- جب کہ حَوْأَبِ کے کتوں سے متعلق روایت میں صرف حضرت عائشہ رضی الله عنہ پر ہی تنقیص کا پہلو نہیں نکلتا بلکہ اس بڑھ کر نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی ذات پاک پربہتان عظیم کا پہلو بھی نکلتا ہے- کہ انہوں نے ایسی بات اپنی محبوب ترین زوجہ جن کی گود میں آپ صل الله علیہ و آ له وسلم جان حق الله کے حوالے کی ان سے متعلق بیان فرمائی ہو-

لیکن پھربھی اہل علم کے لئے اس حَوْأَبِ کے کتوں سے متعلق روایت پر تحقیق حاضر ہے جودلیل کے طور پر گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے یہاں پیش کی جاتی ہے کہ بہرحال اسلامی روایات کو پرکھنے کے جو اسلامی اصول محدثین نے بیان کیے ہیں ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اور وہ ختم نہیں ہونی چاہیے -

طبری نے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے لشکر کے ساتھ مکہ سے بصرہ جا رہی تھیں تو راستے میں ایک مقام حوأب آیا جہاں کتے بھونکے۔ جب سیدہ کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا:
“مجھے واپس لوٹاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ازواج مطہرات سے یہ فرماتے سنا ہے کہ نجانے تم میں سے وہ کون ہو گی، جس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے۔”( ایضاً ۔ 3/2-74)

اس روایت کا مقصد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اقدام کو غلط ثابت کرنا تھا اور اس کے گھڑنے والے وہ لوگ ہیں جو باغیوں ہی کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس روایت کی دو اسناد طبری نے بیان کی ہیں، وہ یہ ہیں:

1۔ حدثني إسماعيل بن موسى الفزاري، قال: أخبرنا علي بن عابس الأزرق، قال: حدثنا أبو الخطاب الهجري، عن صفوان بن قبيضة الأحمسي، قال: حدثني العرني صاحب الجمل.
2۔ حدثني أحمد بن زهير، قال: حدثناأبي، قال: حدثني وهب بن جرير بن حازم، قال: سمعت يونس بن يزيد الأيلي، عن الزهري.


اب آئیے، ان دونوں اسناد کا تجزیہ کرتے ہیں:
1۔ پہلی سند میں پہلا شخص اسماعیل بن موسی الفزاری (d. 245/859)ہے جو کوفہ کا رہنے والا ایک غالی راوی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیا کرتا تھا۔ دوسرا شخص علی بن عابس ہے جسے امام نسائی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ تیسرا اور چوتھا راوی ابو الخطاب ہجری اور صفوان بن قبیضہ کے حالات نامعلوم ہیں۔ پانچواں راوی قبیلہ بنو عرینہ کا وہ شخص ہے جس سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے اونٹ خریدا گیا تھا۔ اس شخص کا نام بھی معلوم نہیں ہے کجا اس کے حالات سے یہ علم ہو سکے کہ یہ کون تھا اور کس درجے میں قابل اعتماد تھا۔ اس تفصیل کے بعد اس سند کے بارے میں بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ یہ صحیح حدیث نہیں ہے بلکہ ایک گھڑی ہوئی روایت ہے ۔

2۔ دوسری سند میں آخری راوی زہری (58-124/677-741)ہیں جو جنگ جمل کے 22 سال بعد پیدا ہوئے ۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے یہ روایت کس سے سنی تھی اور وہ کس درجے میں قابل اعتماد تھا؟ ان سے اس روایت کو یونس بن یزید ایلی روایت کر رہے ہیں جو قابل اعتماد راوی نہیں ہیں۔

اس تفصیل کے بعد اس سند کے بارے میں بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ یہ صحیح حدیث نہیں ہے بلکہ ایک گھڑی ہوئی روایت ہے جو کسی ایسے راوی کی ایجاد ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بغض رکھتا تھا۔

امام احمد مسند میں، ابن حبان صحیح میں ، حاکم مستدرک میں روایت کرتے ہیں کہ :

دَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَتْ عَائِشَةُ بَلَغَتْ مِيَاهَ بَنِي عَامِرٍ لَيْلًا نَبَحَتِ الْكِلَابُ، قَالَتْ: أَيُّ مَاءٍ هَذَا؟ قَالُوا: مَاءُ الْحَوْأَبِ قَالَتْ: مَا أَظُنُّنِي إِلَّا أَنِّي رَاجِعَةٌ فَقَالَ بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعَهَا: بَلْ تَقْدَمِينَ فَيَرَاكِ الْمُسْلِمُونَ، فَيُصْلِحُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ذَاتَ بَيْنِهِمْ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا ذَاتَ يَوْمٍ: “كَيْفَ بِإِحْدَاكُنَّ تَنْبَحُ عَلَيْهَا كِلَابُ الْحَوْأَبِ؟


قیس بن ابی حازم کہتا ہے کہ پس جب عائشہ ( رضی الله تعالی عنہا) بنی عامر کے پانی ( تالاب) پر رات میں پہنچیں تو کتے بھونکے. عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے پوچھا یہ کون سا پانی ہے. بتایا گیا الْحَوْأَبِ کا پانی ہے. آپ رضی الله تعالی عنہا نے کہا میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اب واپس جانا چاہیے! اس پر ان کے ساتھ لوگوں نے کہا نہیں آگے چلیں مسلمان اپ کو دیکھ رہے ہیں، پس الله ان کے درمیان سب ٹھیک کر دے گا. عائشہ ( رضی الله تعالی عنہا) نے کہا بے شک رسول الله نے ایک روز (اپنی بیویوں سے) کہا تھا کہ کیسی ہو گی تم میں سے ایک جس پر الْحَوْأَبِ کے کتے بھونکیں گے-

البانی کتاب الصحيحة میں اس روایت کو صحیح کہتے ہیں -

اإسناده صحيح جداً، صححه خمسة من كبار أئمة الحديث هم: ابن حبان، والحاكم، والذهبي، وابن كثير، وابن حجر سلسلة الأحاديث الصحيحة 1: 767 رقم 474

لیکن وہ اجتہادی غلطی پرہیں -

اس کی سند میں قَيْسُ بنُ أَبِي حَازِمٍ ہے

الذھبی تلخیص میں اس پر سکوت کرتے ہیں . الذھبی سير أعلام النبلاء میں قَيْسُ بنُ أَبِي حَازِمٍ کے ترجمے میں لکھتے ہیں کہ امام یحیی بن سعید اس روایت کو منکر کہتے ہیں
قال ابن المدينى عن يحيى بن سعيد : منكر الحديث ، ثم ذكر له حديث كلاب الحوأب

علی ابن المدينى ، يحيى بن سعيد سے نقل کرتے ہیں کہ قیس منکر الحدیث ہے پھر انہوں نے اسکی الحوأب کے کتوں والی روایت بیان کی

یحیی بن سعید القطان کے سامنے البانی ،الذھبی، حاکم، ابن حجر کی حثیت ہی کیا ہے

کتاب مَنْ تَكلَّم فيه الدَّارقطني في كتاب السنن من الضعفاء والمتروكين والمجهولين از ابن زريق (المتوفى: 803هـ) کے مطابق الدارقطني اس کو ليس بقوي قوی نہیں کہتے ہیں

امام بخاری اور مسلم نے قیس کی عائشہ رضی الله عنہا سے مروی کوئی روایت نقل نہیں کی

تاریخ بغداد کے مطابق قد كان نزل الكوفة، وحضر حرب الخوارج بالنهروان مع علي بْن أبي طالب

قیس کوفہ گیا اور علی رضی الله تعالی عنہ کے ساتھ خوارج سے قتال بھی کیا

ایک اور روایت میں ہے کہ :
حَدَّثنا سَهْل بن بحر، قَال: حَدَّثنا أَبُو نعيم، قَال: حَدَّثنا عِصَامُ بْنُ قُدَامَةَ، عَن عِكْرِمة، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم لِنِسَائِهِ: لَيْتَ شعري أيتكن صاحبة الجمل الأدبب ، تخرج كِلابُ حَوْأَبٍ، فَيُقْتَلُ عَنْ يَمِينِهَا، وعَن يَسَارِهَا قَتْلًا كَثِيرًا، ثُمَّ تَنْجُو بَعْدَ مَا كَادَتْ.

ابن عبّاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے کے فرمایا کاش کہ جان لے نشانی، بپھرے بالوں والے ،اونٹ والی ، اس پر حواب کے کتے نکلیں گے، اپنے دائیں اور بائیں ڈھیروں کو قتل کرے گی پھر نقصان اٹھا کر بچ جائے گی-

رافضیت سے پر اس روایت کی سند میں عصام بن قدامة ہے

ابن القطان اس کو لم يثبته، مظبوط نہیں کہتے ہیں .

أبو زرعة ، لا بأس به کہتے ہیں

النسائي ، ثقة کہتے ہیں

أبو حاتم کہتے ہیں له حديث منكر اس کی حدیث منکر ہے-

الغرض جنگ جمل کے حوالے سے عائشہ رضی الله عنہا کی تنقیص میں کوئی روایت صحیح نہیں ہے جلیل القدر محدثین نے ایسی روایات کو منکر کہا ہے اور شیعہ اور اہل سنت کے جن لوگوں نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ان کو روز محشر اس کا جواب دینا ہو گا-

لوگوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ ان روایات میں براہ راست ام المومنین کی تنقیص کی گئی ہے اور ان کی چھوٹا ثابت کرنے کی لا حاصل مگر مذموم کوشش کی گئی ہے - اگردل پر پتھر رکھ کر ان جھوٹی روایات کو قبول کربھی لیا جائے - تو سوال ہے کہ اس روایت میں کتوں کے بھونکنے کا ذکر کیا نبی کریم کی مبارک زبان سے اپنی زوجہ کے لئے زیب دیتا ہے ؟؟؟ پھر یہ کہ کتے تو ہر ایرے غیرے پر بھونکتے ہیں- اب قافلے میں موجود کوئی بھی معزز ہستی ہو یا کوئی عام لوگوں کا قافله ہو -اس بات سے یہ کس طرح اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جن پر کتے بھونکتے ہیں وہ جھوٹے یا دغا باز لوگ ہوتے ہیں - جیسا کہ سبائیوں نے ان روایات کی بنیاد پر ام المومنین پر ایک لغو الزام لگانے کی مذموم کوشش کی کہ وہ اپناؤ اجتہاد میں غلط تھیں -

الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے اور نبی کریم اور آپ کے اصحاب و صحابیت کا انتہائی ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرماے- اورباطل قوتوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت و صلاحیت عطا فرماے (آمین)-
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بلاعنوان
أَنَّ عائِشَةَ لَمَّا أتتْ على الحَوْأَبِ فسمِعَتْ نُباحَ الكِلابِ فقالتْ ما أَظُنًّنِي إلَّا راجِعَةً إِنَّ رَسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ قال لنا أَيَّتُكُنَّ يَنبحُ عليها كِلابُ الحَوْأَبِ فقالَ لها الزُّبيرُ ترجِعينَ عسى اللَّهُ أَنْ يُصلِحَ بِكِ بينَ النَّاسِ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 6/217
خلاصة حكم المحدث: إسناده على شرط الصحيحين


لما أقبلَتْ عائشةُ فنزلَتْ بعضَ مياهِ بني عامرٍ نبحَتْ عليْها الكِلابُ فقالَتْ أيُّ ماءٍ هذا قالوا الحوأبُ قالَتْ ما أظنُّني إلا راجعةً فقال لها بعضُ من كان معها بل تقدمُينَ فيراكِ المسلمونَ فيصلحُ اللهُ ذات بينِهم فقالَتْ إنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ قال لنا ذاتَ يومِ كيفَ بإحداكُنَ تنبحُ عليْها كلابُ الحَوْأبِ
الراوي: قيس بن أبي حازم المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 13/59
خلاصة حكم المحدث: إسناده على شرط الصحيح


قَالَت : لَمَّا أتَتْ علَى الحَوْأَبِ سمِعتْ نباحَ الكلابِ فقالت : ما أظنُّني إلَّا راجِعَةٌ ، إنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وعلى آلِهِ وسلَّمَ قال لنا : أيَّتُكنَّ تَنبحُ عليها كلابُ الحَوأَبِ . فقال لَها الزُّبيرُ : ترجِعينَ عسى اللَّهُ عزَّ وجلَّ أن يُصلِحَ بِك بينَ النَّاسِ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: الوادعي - المصدر: صحيح دلائل النبوة - الصفحة أو الرقم: 505
خلاصة حكم المحدث: صحيح على شرط الشيخين


أن الرسول الله صلى الله عليه وسلم قال لنسائه أيتكن صاحبة الجمل الأدبب تخرج حتى تنبحها كلاب الحوأب يقتل عن يمينها وعن شمالها قتلى كثيرة وتنجو من بعد ما كادت
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 13/59
خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات


لما أقبلت عائشةُ بلغت مياهَ بني عامرٍ ليلًا نبحتِ الكلابُ قالت : أيُّ ماءٍ هذا ؟ قالوا : ماءُ الحَوْأَبِ قالت : ما أَظُنُّني إلا أني راجعةٌ فقال بعضُ من كان معها بل تقدُمينَ فيراك المسلمونَ فيُصلِحُ اللهُ ذاتَ بينهم قالت : إنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ قال لها ذاتَ يومٍ : كيف بإحداكنَّ تنبحُ عليها كلابُ الحَوْأَبِ
الراوي: قيس بن أبي حازم المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 1/847
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح جدا رجاله ثقات أثبات من رجال الستة


أنَّ عائِشَةَ لمَّا نَزَلَتْ علَى الحَوْأَبِ سمِعَتْ نُبَاحَ الكلابِ فقالَتْ ما أظُنُّنِي إلَّا رَاجِعَةً سمِعْتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ لنا أَيَّتُكُنَّ ينبَحُ علَيْها كلابُ الحَوْأَبِ فقال لها الزبيرُ ترجعينَ عسى اللهُ أنْ يُصْلِحَ بِكِ بينَ الناسِ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 7/237
خلاصة حكم المحدث: رجال أحمد رجال الصحيح


ابن کثیر ،ابن حجر عسقلانی، علامہ البانی اور علامہ ھیثمی بھی کیا شیعہ تھے جو انہوں نے اس روایت کو بیان کیا اور اس روایت کو صحیح بھیہ کہا ؟؟؟؟
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
السلام و علیکم رحمت الله-

اسلام جب اپنے نبی اور محسنین تلامذہ نبوت خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم کی وجہ سے بام عروج پر پہنچا اور معلوم کرہ ارضی کے چپہ چپہ پر چھا گیا۔ بڑی بڑی متمدن فارس و روم کی حکومتیں پیوند خاک ہوگئیں تو یہود و مجوس منافقانہ انداز میں اسلام میں داخل ہوئے اور حسد و نفاق کی وجہ سے اسلام سے انتقام کی ٹھانی۔ ان کا سرغنہ صنعأ، یمن کا عبد اللہ بن سباء یہودی عالم تھا ۔عبداللہ بن سباء اور اس کی پیروکار ذریت کے اسلام سوز مسلم کش کارنامے تاریخ کی سب سے معتبر کتابوں کے علاوہ شیعہ کی علم اسماء الرجال کی کتابوں میں صراحت سے موجود ہیں۔ اس نے اپنی پرتقیہ ، خفیہ تحریک سے صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ کے قتل کا ہی کام نہ لیا بلکہ اسلام کے اساسی عقائد پر تیشہ چلایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رب باور کرایا۔ ۔ امامت کا عقیدہ ایجاد کرکے ختم نبوت کا صفایا کیا۔ قرآن میں تحریف اور کمی و بیشی کا نظریہ ایجاد کرکے اسلام کی جڑ کاٹ دی۔ سرمایہ نبوت ، تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو معاذ اللہ منافق ، غاصب اور بے ایمان کہہ کر پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ناکامی اور اسلام کے جھٹلانے کا برملا اعلان کیا۔ امہات المومنین رضوان اللہ علیہن اجمعات، بنات طاہرات رضوان اللہ علیہن اجمعات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سسرالی اور خاندانی رشتوں کی عظمت کا انکار کرکے ’’مقام اہل بیت‘‘ کے نظریہ کو بھی تہس نہس کردیا-

رافضیوں کی ایجاد کردہ باطل روایتوں میں سے ایک روایت یہ ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ "تمام مومنین کی ماں حضرت عائشہ رضی الله عنہ خلیفہ المسلمین حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کی شہادت کی دلدوز خبرسن کر جب زبیر رضی الله تعالی عنہ ، عبدللہ بن عمر رضی الله تعالی عنہ اور بنو امیہ کی ایک جماعت کے ساتھ بصرہ روانہ ہوئیں تو راستے میں ایک جگہ قیام کیا - اس جگہ کا نام روایت میں حَوْأَبِ بیان کیا جاتا ہے - اس جگہ (بقول رافضیوں کے) پر حضرت عائشہ رضی الله عنہ کتے تھے (فنعوز باللہ )- اور اس کی پیشنگوئی نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم زندگی میں کر دی تھی - آیے اب ان روایت کا جایزہ لیتے جن میں یہ اس کی بہتان کی تصریح ہے اور جس کو بغیر سمجھے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے منسوب گیا- اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کہ کچھ کہ اہل بیعت کو زبردستی خون عثمان رضی الله عنہ کے معاملے حق ثابت کیا جائے اور جنہوں نے اس خون کے بدلے کا مطالبہ کیا ان کو ذلیل و رسوا اور جھوٹا ثابت کیا جائے -چاہے وہ نبی کریم کے خاندان کی انتہائی معزز اور قابل احترام ہستیاں نہ ہوں -اور جن کی چھوٹی سے چھوٹی گستاخی بھی ایک شدید کبیرہ گناہ ہے -

افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ رافضیوں کا اکابرین صحابہ وصحابیات رضوان الله اجمعین کے متعلق ان روایت کو پھیلانا اور ان پاک ہستیوں پر تعن تشنیع کرنا ان کے باطل مذہب کا حصّہ ہے - لیکن جن کے یہ مذہب کا حصّہ نہیں یعنی کچھ نام نہاد اہل سنّت علماء بھی ایسے ہے جو اپنی نادانی میں ان جھوٹی روایات کو صحیح سمجھ بیٹھے-اور منبر پر ان کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں اور پھر ایسی روایات کی مختلف اور عجیب و غریب توجیہات کرتے نظر آتے ہیں-تا کہ ان کے اکابرین جن سے یہ بے سروپا روایات لی گیں ہیں وہ بھی صحیح ثابت ہو جائیں اوردوسری طرف کوئی ان علماء کورافضیوں کا ہمنوا بھی نہ کہہ سکے- جب کہ یہ روایات تو اس قابل بھی نہیں کہ ان کو اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کے اصولوں کے تحت پرکھا جائے کہ آیا یہ روایات ضعیف یا حسن کے درجے پر ہیں یا نہیں وغیرہ؟؟ - ایمان کا تقاضہ تو یہ ہی کہ ایسی جھوٹی روایات جن میں صحابہ و صحابیات رضوان الله اجمعین کی تنقیص کا پہلو نکلتا ہو اس کو سن کر ہی اس کا انکار کردینا چاہیے- جب کہ حَوْأَبِ کے کتوں سے متعلق روایت میں صرف حضرت عائشہ رضی الله عنہ پر ہی تنقیص کا پہلو نہیں نکلتا بلکہ اس بڑھ کر نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی ذات پاک پربہتان عظیم کا پہلو بھی نکلتا ہے- کہ انہوں نے ایسی بات اپنی محبوب ترین زوجہ جن کی گود میں آپ صل الله علیہ و آ له وسلم جان حق الله کے حوالے کی ان سے متعلق بیان فرمائی ہو-

لیکن پھربھی اہل علم کے لئے اس حَوْأَبِ کے کتوں سے متعلق روایت پر تحقیق حاضر ہے جودلیل کے طور پر گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے یہاں پیش کی جاتی ہے کہ بہرحال اسلامی روایات کو پرکھنے کے جو اسلامی اصول محدثین نے بیان کیے ہیں ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اور وہ ختم نہیں ہونی چاہیے -

طبری نے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے لشکر کے ساتھ مکہ سے بصرہ جا رہی تھیں تو راستے میں ایک مقام حوأب آیا جہاں کتے بھونکے۔ جب سیدہ کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا:
“مجھے واپس لوٹاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ازواج مطہرات سے یہ فرماتے سنا ہے کہ نجانے تم میں سے وہ کون ہو گی، جس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے۔”( ایضاً ۔ 3/2-74)

اس روایت کا مقصد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اقدام کو غلط ثابت کرنا تھا اور اس کے گھڑنے والے وہ لوگ ہیں جو باغیوں ہی کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس روایت کی دو اسناد طبری نے بیان کی ہیں، وہ یہ ہیں:

1۔ حدثني إسماعيل بن موسى الفزاري، قال: أخبرنا علي بن عابس الأزرق، قال: حدثنا أبو الخطاب الهجري، عن صفوان بن قبيضة الأحمسي، قال: حدثني العرني صاحب الجمل.
2۔ حدثني أحمد بن زهير، قال: حدثناأبي، قال: حدثني وهب بن جرير بن حازم، قال: سمعت يونس بن يزيد الأيلي، عن الزهري.


اب آئیے، ان دونوں اسناد کا تجزیہ کرتے ہیں:
1۔ پہلی سند میں پہلا شخص اسماعیل بن موسی الفزاری (d. 245/859)ہے جو کوفہ کا رہنے والا ایک غالی راوی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیا کرتا تھا۔ دوسرا شخص علی بن عابس ہے جسے امام نسائی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ تیسرا اور چوتھا راوی ابو الخطاب ہجری اور صفوان بن قبیضہ کے حالات نامعلوم ہیں۔ پانچواں راوی قبیلہ بنو عرینہ کا وہ شخص ہے جس سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے اونٹ خریدا گیا تھا۔ اس شخص کا نام بھی معلوم نہیں ہے کجا اس کے حالات سے یہ علم ہو سکے کہ یہ کون تھا اور کس درجے میں قابل اعتماد تھا۔ اس تفصیل کے بعد اس سند کے بارے میں بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ یہ صحیح حدیث نہیں ہے بلکہ ایک گھڑی ہوئی روایت ہے ۔

2۔ دوسری سند میں آخری راوی زہری (58-124/677-741)ہیں جو جنگ جمل کے 22 سال بعد پیدا ہوئے ۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے یہ روایت کس سے سنی تھی اور وہ کس درجے میں قابل اعتماد تھا؟ ان سے اس روایت کو یونس بن یزید ایلی روایت کر رہے ہیں جو قابل اعتماد راوی نہیں ہیں۔

اس تفصیل کے بعد اس سند کے بارے میں بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ یہ صحیح حدیث نہیں ہے بلکہ ایک گھڑی ہوئی روایت ہے جو کسی ایسے راوی کی ایجاد ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بغض رکھتا تھا۔

امام احمد مسند میں، ابن حبان صحیح میں ، حاکم مستدرک میں روایت کرتے ہیں کہ :

دَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَتْ عَائِشَةُ بَلَغَتْ مِيَاهَ بَنِي عَامِرٍ لَيْلًا نَبَحَتِ الْكِلَابُ، قَالَتْ: أَيُّ مَاءٍ هَذَا؟ قَالُوا: مَاءُ الْحَوْأَبِ قَالَتْ: مَا أَظُنُّنِي إِلَّا أَنِّي رَاجِعَةٌ فَقَالَ بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعَهَا: بَلْ تَقْدَمِينَ فَيَرَاكِ الْمُسْلِمُونَ، فَيُصْلِحُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ذَاتَ بَيْنِهِمْ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا ذَاتَ يَوْمٍ: “كَيْفَ بِإِحْدَاكُنَّ تَنْبَحُ عَلَيْهَا كِلَابُ الْحَوْأَبِ؟


قیس بن ابی حازم کہتا ہے کہ پس جب عائشہ ( رضی الله تعالی عنہا) بنی عامر کے پانی ( تالاب) پر رات میں پہنچیں تو کتے بھونکے. عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے پوچھا یہ کون سا پانی ہے. بتایا گیا الْحَوْأَبِ کا پانی ہے. آپ رضی الله تعالی عنہا نے کہا میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اب واپس جانا چاہیے! اس پر ان کے ساتھ لوگوں نے کہا نہیں آگے چلیں مسلمان اپ کو دیکھ رہے ہیں، پس الله ان کے درمیان سب ٹھیک کر دے گا. عائشہ ( رضی الله تعالی عنہا) نے کہا بے شک رسول الله نے ایک روز (اپنی بیویوں سے) کہا تھا کہ کیسی ہو گی تم میں سے ایک جس پر الْحَوْأَبِ کے کتے بھونکیں گے-

البانی کتاب الصحيحة میں اس روایت کو صحیح کہتے ہیں -

اإسناده صحيح جداً، صححه خمسة من كبار أئمة الحديث هم: ابن حبان، والحاكم، والذهبي، وابن كثير، وابن حجر سلسلة الأحاديث الصحيحة 1: 767 رقم 474

لیکن وہ اجتہادی غلطی پرہیں -

اس کی سند میں قَيْسُ بنُ أَبِي حَازِمٍ ہے

الذھبی تلخیص میں اس پر سکوت کرتے ہیں . الذھبی سير أعلام النبلاء میں قَيْسُ بنُ أَبِي حَازِمٍ کے ترجمے میں لکھتے ہیں کہ امام یحیی بن سعید اس روایت کو منکر کہتے ہیں
قال ابن المدينى عن يحيى بن سعيد : منكر الحديث ، ثم ذكر له حديث كلاب الحوأب

علی ابن المدينى ، يحيى بن سعيد سے نقل کرتے ہیں کہ قیس منکر الحدیث ہے پھر انہوں نے اسکی الحوأب کے کتوں والی روایت بیان کی

یحیی بن سعید القطان کے سامنے البانی ،الذھبی، حاکم، ابن حجر کی حثیت ہی کیا ہے

کتاب مَنْ تَكلَّم فيه الدَّارقطني في كتاب السنن من الضعفاء والمتروكين والمجهولين از ابن زريق (المتوفى: 803هـ) کے مطابق الدارقطني اس کو ليس بقوي قوی نہیں کہتے ہیں

امام بخاری اور مسلم نے قیس کی عائشہ رضی الله عنہا سے مروی کوئی روایت نقل نہیں کی

تاریخ بغداد کے مطابق قد كان نزل الكوفة، وحضر حرب الخوارج بالنهروان مع علي بْن أبي طالب

قیس کوفہ گیا اور علی رضی الله تعالی عنہ کے ساتھ خوارج سے قتال بھی کیا

ایک اور روایت میں ہے کہ :
حَدَّثنا سَهْل بن بحر، قَال: حَدَّثنا أَبُو نعيم، قَال: حَدَّثنا عِصَامُ بْنُ قُدَامَةَ، عَن عِكْرِمة، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم لِنِسَائِهِ: لَيْتَ شعري أيتكن صاحبة الجمل الأدبب ، تخرج كِلابُ حَوْأَبٍ، فَيُقْتَلُ عَنْ يَمِينِهَا، وعَن يَسَارِهَا قَتْلًا كَثِيرًا، ثُمَّ تَنْجُو بَعْدَ مَا كَادَتْ.

ابن عبّاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے کے فرمایا کاش کہ جان لے نشانی، بپھرے بالوں والے ،اونٹ والی ، اس پر حواب کے کتے نکلیں گے، اپنے دائیں اور بائیں ڈھیروں کو قتل کرے گی پھر نقصان اٹھا کر بچ جائے گی-

رافضیت سے پر اس روایت کی سند میں عصام بن قدامة ہے

ابن القطان اس کو لم يثبته، مظبوط نہیں کہتے ہیں .

أبو زرعة ، لا بأس به کہتے ہیں

النسائي ، ثقة کہتے ہیں

أبو حاتم کہتے ہیں له حديث منكر اس کی حدیث منکر ہے-

الغرض جنگ جمل کے حوالے سے عائشہ رضی الله عنہا کی تنقیص میں کوئی روایت صحیح نہیں ہے جلیل القدر محدثین نے ایسی روایات کو منکر کہا ہے اور شیعہ اور اہل سنت کے جن لوگوں نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ان کو روز محشر اس کا جواب دینا ہو گا-

لوگوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ ان روایات میں براہ راست ام المومنین کی تنقیص کی گئی ہے اور ان کی چھوٹا ثابت کرنے کی لا حاصل مگر مذموم کوشش کی گئی ہے - اگردل پر پتھر رکھ کر ان جھوٹی روایات کو قبول کربھی لیا جائے - تو سوال ہے کہ اس روایت میں کتوں کے بھونکنے کا ذکر کیا نبی کریم کی مبارک زبان سے اپنی زوجہ کے لئے زیب دیتا ہے ؟؟؟ پھر یہ کہ کتے تو ہر ایرے غیرے پر بھونکتے ہیں- اب قافلے میں موجود کوئی بھی معزز ہستی ہو یا کوئی عام لوگوں کا قافله ہو -اس بات سے یہ کس طرح اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جن پر کتے بھونکتے ہیں وہ جھوٹے یا دغا باز لوگ ہوتے ہیں - جیسا کہ سبائیوں نے ان روایات کی بنیاد پر ام المومنین پر ایک لغو الزام لگانے کی مذموم کوشش کی کہ وہ اپناؤ اجتہاد میں غلط تھیں -

الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے اور نبی کریم اور آپ کے اصحاب و صحابیت کا انتہائی ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرماے- اورباطل قوتوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت و صلاحیت عطا فرماے (آمین)-
اللہ تعالٰی آپکو ”جزائے خیر“عطاء فرمائے کیونکہ آپ ”سبائیوں“کی”ملی بھگت“ کا جو ”پردہ “چاک کر رہے ہیں اس پر کچھ ”اہلِ حق“بھی شائد” نالاں“ ہو جائیں آپ انکی ”مطلق“ پرواہ نہ کریں کوئی آپ کے ساتھ ہو نہ ہو ”ان شاء اللہ تعالٰی“ میں اس”مقصد“میں آپ کے ساتھ ہوں۔
”سبائیوں“کی چال کو سمجھنا ہر کسی کی بات نہیں اور اس میں بھی کوئی ”شک وشبہ“ نہیں کہ ”اہلِ سنت “کے کچھ علماء بھی ”خطاء“کر گئے ہیں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
بلاعنوان
أَنَّ عائِشَةَ لَمَّا أتتْ على الحَوْأَبِ فسمِعَتْ نُباحَ الكِلابِ فقالتْ ما أَظُنًّنِي إلَّا راجِعَةً إِنَّ رَسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ قال لنا أَيَّتُكُنَّ يَنبحُ عليها كِلابُ الحَوْأَبِ فقالَ لها الزُّبيرُ ترجِعينَ عسى اللَّهُ أَنْ يُصلِحَ بِكِ بينَ النَّاسِ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 6/217
خلاصة حكم المحدث: إسناده على شرط الصحيحين


لما أقبلَتْ عائشةُ فنزلَتْ بعضَ مياهِ بني عامرٍ نبحَتْ عليْها الكِلابُ فقالَتْ أيُّ ماءٍ هذا قالوا الحوأبُ قالَتْ ما أظنُّني إلا راجعةً فقال لها بعضُ من كان معها بل تقدمُينَ فيراكِ المسلمونَ فيصلحُ اللهُ ذات بينِهم فقالَتْ إنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ قال لنا ذاتَ يومِ كيفَ بإحداكُنَ تنبحُ عليْها كلابُ الحَوْأبِ
الراوي: قيس بن أبي حازم المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 13/59
خلاصة حكم المحدث: إسناده على شرط الصحيح


قَالَت : لَمَّا أتَتْ علَى الحَوْأَبِ سمِعتْ نباحَ الكلابِ فقالت : ما أظنُّني إلَّا راجِعَةٌ ، إنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وعلى آلِهِ وسلَّمَ قال لنا : أيَّتُكنَّ تَنبحُ عليها كلابُ الحَوأَبِ . فقال لَها الزُّبيرُ : ترجِعينَ عسى اللَّهُ عزَّ وجلَّ أن يُصلِحَ بِك بينَ النَّاسِ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: الوادعي - المصدر: صحيح دلائل النبوة - الصفحة أو الرقم: 505
خلاصة حكم المحدث: صحيح على شرط الشيخين



أن الرسول الله صلى الله عليه وسلم قال لنسائه أيتكن صاحبة الجمل الأدبب تخرج حتى تنبحها كلاب الحوأب يقتل عن يمينها وعن شمالها قتلى كثيرة وتنجو من بعد ما كادت
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 13/59
خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات


لما أقبلت عائشةُ بلغت مياهَ بني عامرٍ ليلًا نبحتِ الكلابُ قالت : أيُّ ماءٍ هذا ؟ قالوا : ماءُ الحَوْأَبِ قالت : ما أَظُنُّني إلا أني راجعةٌ فقال بعضُ من كان معها بل تقدُمينَ فيراك المسلمونَ فيُصلِحُ اللهُ ذاتَ بينهم قالت : إنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ قال لها ذاتَ يومٍ : كيف بإحداكنَّ تنبحُ عليها كلابُ الحَوْأَبِ
الراوي: قيس بن أبي حازم المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 1/847
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح جدا رجاله ثقات أثبات من رجال الستة


أنَّ عائِشَةَ لمَّا نَزَلَتْ علَى الحَوْأَبِ سمِعَتْ نُبَاحَ الكلابِ فقالَتْ ما أظُنُّنِي إلَّا رَاجِعَةً سمِعْتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ لنا أَيَّتُكُنَّ ينبَحُ علَيْها كلابُ الحَوْأَبِ فقال لها الزبيرُ ترجعينَ عسى اللهُ أنْ يُصْلِحَ بِكِ بينَ الناسِ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 7/237
خلاصة حكم المحدث: رجال أحمد رجال الصحيح


ابن کثیر ،ابن حجر عسقلانی، علامہ البانی اور علامہ ھیثمی بھی کیا شیعہ تھے جو انہوں نے اس روایت کو بیان کیا اور اس روایت کو صحیح بھیہ کہا ؟؟؟؟
علامہ حجر عسقلانی ، ابن کثیر ، اور علامہ البانی رح نے یہ روایات طبری سے لی ہیں - سب سے پہلے علامہ ابن جریر طبری رح نے اس واقعہ کو تحریر کیا -تاریخ طبری کی ١٤ جلدوں سے ٨ جلدیں ضیف روایات پر مبنی ہیں - صحیحین میں اس واقعہ سے متعلق ایک بھی روایت نہیں ہے - جب کہ قیس بن ابی حازم کی دوسری اکثر روایات امام بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں موجود ہیں - پھر کیا وجہ ہے کہ قیس بن ابی حازم کی اس روایت کو اپنی صحیح میں نہیں لیا گیا -ظاہر ہے یہ اس قابل ہی نہیں کہ اس کو لیا جاسکے -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اللہ تعالٰی آپکو ”جزائے خیر“عطاء فرمائے کیونکہ آپ ”سبائیوں“کی”ملی بھگت“ کا جو ”پردہ “چاک کر رہے ہیں اس پر کچھ ”اہلِ حق“بھی شائد” نالاں“ ہو جائیں آپ انکی ”مطلق“ پرواہ نہ کریں کوئی آپ کے ساتھ ہو نہ ہو ”ان شاء اللہ تعالٰی“ میں اس”مقصد“میں آپ کے ساتھ ہوں۔
”سبائیوں“کی چال کو سمجھنا ہر کسی کی بات نہیں اور اس میں بھی کوئی ”شک وشبہ“ نہیں کہ ”اہلِ سنت “کے کچھ علماء بھی ”خطاء“کر گئے ہیں۔
بہت شکریہ بھائی - دین میں سب سے مشکل کام حق بات کہنا ہے -جب کہ ہمارے اپنے کسی غلط کام میں ملوث ہوں تو تنقید اور بھی مشکل ہو جاتی ہے- لیکن نبی کریم اور آپ کے خاندان کے لوگ اور دیگر صحابہ و صحابیت رضوان الله اجمعین کی عزت ہمارے گھر والوں کی عزت سے بھی بہت بڑھ کر ہے - ان کا دفاع ہمارے لئے صرف ضروری نہیں بلکہ ہمارے ایمان کا حصّہ ہے - ان ہستیوں پر کیچڑ اچھالنا اسلام اور اپنے ایمان پر کیچڑ اچھالنے کے مترادف ہے - الله ہم کو ثابت قدم رکھے (آمین)-
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اس روایت کو یونس بن یزید ایلی روایت کر رہے ہیں جو قابل اعتماد راوی نہیں ہیں۔
یونس بن یزید جو آپ کے نزدیک قابل اعتماد راوی نہیں اس نا قابل اعتبار راوی سے امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں جیسے آپ اصح کتاب بعد کتاب اللہ مانتے ہیں 248 روایات نقل کی ہیں امام مسلم نے اپنی صحیح میں اس ناقابل اعتبار راوی سے 278 روایات نقل کی ہیں اس کے علاوہ دیگر محدیثین نے یونس بن یزید سے روایات اپنی کتب میں لی ہیں اس لئے آپ کا یونس کے بارے فرمادینا کہ قبل اعتماد نہیں کوئی حیثت نہیں رکھتا
ابن حبان نے ان کا ذکر ثقات ابن حبان میں کیا ہے آپ لکھتے ہیں
يونس بن يزيد بن أبي المخارق الإيلي القرشي كنيته أبو يزيد وقد قيل إنه يونس بن يزيد بن أبي النجاد يروى عن الزهري ونافع روى عنه بن المبارك والليث بن سعد مات بمصر سنة تسع وخمسين ومائة

اگر یونس بن یزید کو ناقابل اعتماد مانا جائے تو صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے صحیح ہونے پر حرف آئے گا اس لئے اس راوی کو قبل اعتماد مان لیا جائے اگر نہیں ماناجاتا تو پھر سوائے منکر حدیث کی ڈگر پر چلنے اور کوئی چارہ نہیں کیونکہ میں تو یہ کہا کرتا ہوں بغض اہل بیت اطہار یا صحابہ پرستی کا انجام انکار حدیث کی صورت میں نکلتا ہے
والسلام
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
یونس بن یزید جو آپ کے نزدیک قابل اعتماد راوی نہیں اس نا قابل اعتبار راوی سے امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں جیسے آپ اصح کتاب بعد کتاب اللہ مانتے ہیں 248 روایات نقل کی ہیں امام مسلم نے اپنی صحیح میں اس ناقابل اعتبار راوی سے 278 روایات نقل کی ہیں اس کے علاوہ دیگر محدیثین نے یونس بن یزید سے روایات اپنی کتب میں لی ہیں اس لئے آپ کا یونس کے بارے فرمادینا کہ قبل اعتماد نہیں کوئی حیثت نہیں رکھتا
ابن حبان نے ان کا ذکر ثقات ابن حبان میں کیا ہے آپ لکھتے ہیں
يونس بن يزيد بن أبي المخارق الإيلي القرشي كنيته أبو يزيد وقد قيل إنه يونس بن يزيد بن أبي النجاد يروى عن الزهري ونافع روى عنه بن المبارك والليث بن سعد مات بمصر سنة تسع وخمسين ومائة

اگر یونس بن یزید کو ناقابل اعتماد مانا جائے تو صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے صحیح ہونے پر حرف آئے گا اس لئے اس راوی کو قبل اعتماد مان لیا جائے اگر نہیں ماناجاتا تو پھر سوائے منکر حدیث کی ڈگر پر چلنے اور کوئی چارہ نہیں کیونکہ میں تو یہ کہا کرتا ہوں بغض اہل بیت اطہار یا صحابہ پرستی کا انجام انکار حدیث کی صورت میں نکلتا ہے
والسلام
السلام و علیکم -

یونس بن یزید الایلی کے بارے میں امام احمد بن حنبل رح کا کہنا یہ ہے کہ یہ زہری سے منکر (انتہائی عجیب و غریب) قسم کی روایتیں بیان کرتے ہیں- واقعہ تحکیم سے متعلق طبری میں انہوں نے اشعث بن قیس رح جنہوں نے صلح کے معاہدے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا - ان اشعث بن قیس رح کو باغی قرار دے دیا - "حواب کے کتے" والی روایت بھی انہوں بے زہری سے ہی نقل کی ہے - دوسرے یہ کہ علامہ ابن جوزی رح کا احادیث نبوی کو پرکھنے کا ایک اصول یہ بھی تھا کہ جو روایت درایت کے معیار پر پوری نہیں اترتی وہ روایت اگر صحیح بھی ہو تو یا تو اس کی تاویل کی جائے گی یا اس کو رد کردیا جائے گا- سقہ راوی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غلطی نہیں کر سکتا -باقی بخاری و مسلم میں یونس بن یزید الایلی کی زیادہ تر وہ روایات ہیں جو درایت کو معیار پر پورا اترتی ہیں (واللہ اعلم) -اس لئے قابل قبول ہیں- جن روایتوں میں صحابہ و صحابیت رضوان الله اجمعین کی تنقیص کا پہلو اجاگر ہوتا ہو اس کو من وعن قبول کرنا اسلام کی ایک دیوار کو گرانے کے مترادف ہے- میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں کہ اہل تشیع کا تو مذہب ہی صحابہ و صحابیت رضوان الله اجمین پر لعنت و ملامت کرنا ہے- (ان کے ہان ایک بھی ایسی روایت نہیں ملتی جس سے شیخین یا امہات المومنین رضی الله عنہ کی شان اور قد رومنزلت ثابت ہوتی ہو)- ان کے ہان صرف اہل بیعت اور چند ایک صحابہ کے علاوہ باقی سب منافقین کی صف میں شامل ہیں- لیکن افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ ہمارے اہل سنّت میں بھی بہت سے علماء ایسے ہیں جنہوں نے ان رافضیوں کی چھوٹی روایات کو من و عن قبول کرلیا بغیر تحقیق کیے - جب کہ ان کو اس پر تحقیق کرنی چاہیے تھی کہ کیا نبی کریم اپنی زوجہ کے متعلق ایسا فرما بھی سکتے ہیں یا نہیں؟؟

دوسرے یہ آپ کے نزدیک جن صحابہ کرام رضوان الله اجمعین نے حضرت علی رضی الله عنہ یا بنو ہاشم سے اجتہادی اختلاف کیا ان کی ہر قسم کی قدر و منزلت بیان کرنا صحابہ پرستی میں شامل ہے- لیکن دوسری طرف آپ کے نزدیک حضرت علی رضی الله عنہ اور اہل بیعت ہر قسم کی اجتہادی غلطی سے پاک ہیں- بتائیں یہ کس قسم کا انصاف ہے -مطلب یہ کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی دن رات کی سالہا سال کی محنت سے صرف چند نفوس ہی مومن بن سکے باقی سب منافق یا کافر ہوگئے (نعوز باللہ من ذالک)- یہ تو نبی کریم پر ایک بہتان ہے کہ آپ صل الله علیہ وآ له وسلم کی دعوت کو صرف چند ہستیاں ہی سمجھ سکیں باقی سب صرف دکھاوے کے طور پر مسلمان ہوے- کیا یہ ممکن ہے ؟؟؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اس بحث کے دو پہلو ہیں
1-اس موضوع کو حدیث کی صحت کے حوالے سے دیکھنا اور فیصلہ کرنا
2-اس حدیث کو درست فرض کر لینا اور پھر فیصلہ کرنا

پہلے پہلو کو باقی بھائی دیکھ رہے ہیں میں دوسرے پہلو سے علی بہرام سے بات کرنا چاہوں گا اگر وہ چاہیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اس بحث کے دو پہلو ہیں
1-اس موضوع کو حدیث کی صحت کے حوالے سے دیکھنا اور فیصلہ کرنا
2-اس حدیث کو درست فرض کر لینا اور پھر فیصلہ کرنا

پہلے پہلو کو باقی بھائی دیکھ رہے ہیں میں دوسرے پہلو سے علی بہرام سے بات کرنا چاہوں گا اگر وہ چاہیں
علی بہرام کے چاہنے کا انتظار کیے بغیر میں عوام الناس کے سامنے دوسرے پہلو کی وضاحت رکھتا ہوں
یاد رکھیں کہ اس پہلو میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ وہ حدیث صحیح ہے اب پھر اس سے کیا مطلب نکلتا ہے اس بارے عقل سے بات کرتے ہیں اگر مخالفین میں ہے تو

پہلی بات
اگر کوئی ہماری ماں عائشہ رضی اللہ عنھا کو غلط کہتا ہے تو (عقل رکھنے والے کے لئے) سوچنے کی بات ہے کہ کس کی بات پر اعتبار کر کے وہ جاہل عائشہ رضی عنھا کو غلط کہ رہا ہے
ظاہر ہے کہ اگر کوئی ہماری ماں کو سچا ہی نہیں سمجھتا تو یہ بات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود تو بتا نہیں رہے بلکہ عائشہ رضی اللہ عنھا خود ہی بتا رہی ہیں تو میرا سوال ہے کہ قرآن میں ہے کہ ان جاءکم فاسق ----- تو جاہل حضرات جو انکو نعوذ باللہ فاسقہ سمجھتے ہیں وہ انکی بات پر یقین کیسے کر رہے ہیں
یہ تو شیخ چلی والی جہالت ہو گئی جو جس ٹہنی پر بیٹھا تھا اسی کو کاٹ رہا تھا اور الٹا بتانے والوں کو بے وقوف سمجھ رہا تھا
یہ بھی اپنے آباء یعنی یہود کی پیروی کرتے ہیں جن کے بارے اللہ کہتا ہے کہ قالوا انومن کما امن السفھا الا انھم ھم السفھاء یعنی اصل بے وقوف یہ خود ہیں
کبھی غلط فہمی سے ہونے والی غلطی کا انسان خود بھی بتاتا ہے اس طرح تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلطیوں کا بھی قرآن میں ذکر ہے جس بارے عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ اگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات چھپاتے تو قرآن کی وہ آیات چھپاتے مگر انھوں نے نہیں چھپایا کیونکہ ولم یصرو علی ما فعلوا وھم یعلمون

دوسری بات بعد میں انشاءاللہ
 
Top