• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روضہ رسول ﷺ کے سبز گنبد کو گرا دیا جائے

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
’’روضہ رسول ﷺ کے سبز گنبد کو گرا دیا جائے ‘‘
1925 میں جب سعودی نجدی علما نے سبز گندب کو گرانے کا فتویٰ دیا تو ہندوستان سے کس عالم نے انہیں مناظرے میں شکست دی؟
http://javedch.com/islam/2017/05/16/273341
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مدینے میں مسجد نبوی ﷺ پر جو سبز گنبد نظر آتا ہے، یہ تبلیغ جماعت کا کارنامہ ہے۔ 1902میں سلطان عبد العزیز بن عبد الرحمان بن سعود ایک چھوٹی سی ریاست درعیہ کا حکمران تھا۔ عبد العزیز بہت نیک آدمی اور عظیم بادشاہ تھا۔ اس نے 1902 میں ریاض کو فتح کیا۔ ایک چھوٹا سا ماڈل قائم کیا۔ 1924 میں اس نے مکہ اور 1925 میں مدینہ فتح کیا۔ 1936 میں اس نے سارا عرب فتح کرکے اس کا نام المملکۃ العربیتہ السعودیہ رکھا۔ 1939 وہاں تیل نکل آیا۔ 1925 میں جب مدینہ فتح ہوا تو علمائے نجد جن میں شدت بہت ہے، وہ محبت اور حدود میں فرق نہیں کر سکتے۔ گستاخی بھی حرام ہے اور حدود سے تجاوز بھی حرام ہے۔ ان نجدی علمانے کہا کہ مدینے میں جتنے نشانات ہیں، سارے مٹا دو، اس وقت جنت البقیع کے سارے نشانات مٹا دیئے گئے۔ امہات المومنین، صحابہ، اہلبیت اور آل رسول ﷺ کے سب نشات مٹا دیئے گئے۔انہوں نے کہا کہ یہ سبز گنبد بھی توڑ دیا جائے۔ قبر پر گنبد بنانا منع ہے۔ مولانا طارق جمیل نے کہا کہ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ قبر پر گنبد بنانا منع ہے۔ اس سبز گنبد کو توڑ دیا جائے۔ جب یہ فتویٰ دنیا میں پھیلا تو اس پر رد عمل ہوا کہ یہ کیوں توڑا جائے؟ اس وقت سعودی نجدی علما نے مناظرے کی دعوت دی۔ ساری دنیا سے علما وہاں جمع ہو گئے۔ 1925 میں ہندوستان سے بھی ایک وفد وہاں گیا۔ اس وفد میں ایک شخص شبیر احمد عثمانی جو کہ مدرسہ دیوبند کا پڑھا ہوا ہے وہ بھی شامل تھا۔ ہندوستان کے وفد کی جب آپس میں گفتگو ہوئی کہ ہمارا مقدمہ کون لڑے گا تو عراقی ، شامی اور ترک سب علما نے شبیر احمد عثمانی کو ترجمان مقرر کیا۔ سلطان عبد العزیز کے سامنے مناظرہ ہوا۔ علمائے نجد نے اپنے دلائل پیش کئے۔ تمام حدیثیں تھیں اور صحیح حدیثیں تھیں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے ایک حدیث کو بنیاد بنا کر دو گھنٹے مناظرہ کیا۔ وہ بخاری شریف کی ایک حدیث ہے دینائے کعبہ، اس میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ! یہ تیری قوم ابھی نئی نئی مسلمان ہوئی ہے، اگر تھوڑا زمانہ گزرا ہوتا تو میں بیت اللہ نئے سرے سے بناتا ہے۔ اس کا فرش نیچے لے جاتا، اس کے دو دروازے بناتا ، ایک داخلی اور ایک خارجی، میں حطیم اس میں شامل کر دیتا، لیکن مجھے خطرہ ہے کہ مسلمان بگڑجائیں گے۔اس حدیث کو مولانا شبیر احمد عثمانی نے بنیاد بنایا اور دو گھنٹے بات کی۔ علمائے نجد سر جھکا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ سلطان عبد العزیز نے علمائے نجد سے کہا کہ اس کو جواب دو۔ اس وقت علمائے نجد نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔ پھر سلطان عبد العزیز نے کہا کہ شبیر احمد عثمانی کا فیصلہ صحیح ہے۔ اسلئے اس سبز گنبد کو باقی رکھا جائے گا۔ یہ سبز گنبد برصغیر کے علما کے طفیل کھڑا ہے۔
خبر ختم ہوئی۔۔

تبصرہ از نعیم یونس:

محترم تبلیغی جماعت و دیوبندی حضرات!!

آپ نے صحیح حدیث سے استدلال پیش کیا اور علمائے نجد کے سر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے جھک گئے۔۔اور بقول آپ کے کہ علمائے نجد نے کہا:
ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔
الحمد للہ علی ذلک!

لیکن ہم آپ کو کتنی ہی صحیح احادیث پیش کرتے ہیں، اُسی صحیح بخاری سے۔۔لیکن آپ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔۔اُلٹا باطل تاویلات کا انبار لگا دیتے ہیں۔۔
جس بات پر آپ فخر کر رہے ہیں۔۔اُسی کو اپنے لیے اصول مقرر کر لیں!!۔۔اور جب صحیح حدیث آجائے تو باطل تاویلات کا دروازہ بند کر کے فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سر تسلیم خم کر لیا کریں!!
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
’’روضہ رسول ﷺ کے سبز گنبد کو گرا دیا جائے ‘‘
1925 میں جب سعودی نجدی علما نے سبز گندب کو گرانے کا فتویٰ دیا تو ہندوستان سے کس عالم نے انہیں مناظرے میں شکست دی؟
http://javedch.com/islam/2017/05/16/273341
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مدینے میں مسجد نبوی ﷺ پر جو سبز گنبد نظر آتا ہے، یہ تبلیغ جماعت کا کارنامہ ہے۔ 1902میں سلطان عبد العزیز بن عبد الرحمان بن سعود ایک چھوٹی سی ریاست درعیہ کا حکمران تھا۔ عبد العزیز بہت نیک آدمی اور عظیم بادشاہ تھا۔ اس نے 1902 میں ریاض کو فتح کیا۔ ایک چھوٹا سا ماڈل قائم کیا۔ 1924 میں اس نے مکہ اور 1925 میں مدینہ فتح کیا۔ 1936 میں اس نے سارا عرب فتح کرکے اس کا نام المملکۃ العربیتہ السعودیہ رکھا۔ 1939 وہاں تیل نکل آیا۔ 1925 میں جب مدینہ فتح ہوا تو علمائے نجد جن میں شدت بہت ہے، وہ محبت اور حدود میں فرق نہیں کر سکتے۔ گستاخی بھی حرام ہے اور حدود سے تجاوز بھی حرام ہے۔ ان نجدی علمانے کہا کہ مدینے میں جتنے نشانات ہیں، سارے مٹا دو، اس وقت جنت البقیع کے سارے نشانات مٹا دیئے گئے۔ امہات المومنین، صحابہ، اہلبیت اور آل رسول ﷺ کے سب نشات مٹا دیئے گئے۔انہوں نے کہا کہ یہ سبز گنبد بھی توڑ دیا جائے۔ قبر پر گنبد بنانا منع ہے۔ مولانا طارق جمیل نے کہا کہ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ قبر پر گنبد بنانا منع ہے۔ اس سبز گنبد کو توڑ دیا جائے۔ جب یہ فتویٰ دنیا میں پھیلا تو اس پر رد عمل ہوا کہ یہ کیوں توڑا جائے؟ اس وقت سعودی نجدی علما نے مناظرے کی دعوت دی۔ ساری دنیا سے علما وہاں جمع ہو گئے۔ 1925 میں ہندوستان سے بھی ایک وفد وہاں گیا۔ اس وفد میں ایک شخص شبیر احمد عثمانی جو کہ مدرسہ دیوبند کا پڑھا ہوا ہے وہ بھی شامل تھا۔ ہندوستان کے وفد کی جب آپس میں گفتگو ہوئی کہ ہمارا مقدمہ کون لڑے گا تو عراقی ، شامی اور ترک سب علما نے شبیر احمد عثمانی کو ترجمان مقرر کیا۔ سلطان عبد العزیز کے سامنے مناظرہ ہوا۔ علمائے نجد نے اپنے دلائل پیش کئے۔ تمام حدیثیں تھیں اور صحیح حدیثیں تھیں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے ایک حدیث کو بنیاد بنا کر دو گھنٹے مناظرہ کیا۔ وہ بخاری شریف کی ایک حدیث ہے دینائے کعبہ، اس میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ! یہ تیری قوم ابھی نئی نئی مسلمان ہوئی ہے، اگر تھوڑا زمانہ گزرا ہوتا تو میں بیت اللہ نئے سرے سے بناتا ہے۔ اس کا فرش نیچے لے جاتا، اس کے دو دروازے بناتا ، ایک داخلی اور ایک خارجی، میں حطیم اس میں شامل کر دیتا، لیکن مجھے خطرہ ہے کہ مسلمان بگڑجائیں گے۔اس حدیث کو مولانا شبیر احمد عثمانی نے بنیاد بنایا اور دو گھنٹے بات کی۔ علمائے نجد سر جھکا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ سلطان عبد العزیز نے علمائے نجد سے کہا کہ اس کو جواب دو۔ اس وقت علمائے نجد نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔ پھر سلطان عبد العزیز نے کہا کہ شبیر احمد عثمانی کا فیصلہ صحیح ہے۔ اسلئے اس سبز گنبد کو باقی رکھا جائے گا۔ یہ سبز گنبد برصغیر کے علما کے طفیل کھڑا ہے۔
خبر ختم ہوئی۔۔
آج بھی کچھ شقی القلب حضرات اس گنبد کو گرانے کے حق میں ہیں اپنی سفاہت اور جہالت کے سبب۔
مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے جو دلیل دی وہ اپنی جگہ بجا مگر جو اسے ڈھانا چاہ رہے تھے ان کے پاس بھی کوئی دلیل نہیں تھی۔ جن احادیث کو وہ اس مقصد مضموم کے لئے بہانہ بنا رہے تھے ان کی زد میں روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آتا ہی نہیں۔
جتنی احادیث ہیں ان میں قبر پر عمارت بنانے کی ممانعت ہے اور یہاں عمارت میں قبر بنائی گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں۔
ذی فہم سمجھ سکتا ہے اس فرق کو جو قبر پر عمارت بنانے اور عمارت میں قبر بنانے میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
آج بھی کچھ شقی القلب حضرات اس گنبد کو گرانے کے حق میں ہیں اپنی سفاہت اور جہالت کے سبب۔
مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے جو دلیل دی وہ اپنی جگہ بجا مگر جو اسے ڈھانا چاہ رہے تھے ان کے پاس بھی کوئی دلیل نہیں تھی۔ جن احادیث کو وہ اس مقصد مضموم کے لئے بہانہ بنا رہے تھے ان کی زد میں روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آتا ہی نہیں۔
جتنی احادیث ہیں ان میں قبر پر عمارت بنانے کی ممانعت ہے اور یہاں عمارت میں قبر بنائی گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں۔
ذی فہم سمجھ سکتا ہے اس فرق کو جو قبر پر عمارت بنانے اور عمارت میں قبر بنانے میں ہے۔
اس خبر کا تجزیہ کرنے کا اصل مقصد یہ ہے:
جس بات پر آپ فخر کر رہے ہیں۔۔اُسی کو اپنے لیے اصول مقرر کر لیں!!۔۔اور جب صحیح حدیث آجائے تو باطل تاویلات کا دروازہ بند کر کے فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سر تسلیم خم کر لیا کریں!!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
ذی فہم سمجھ سکتا ہے اس فرق کو جو قبر پر عمارت بنانے اور عمارت میں قبر بنانے میں ہے۔
نیچے مولانا طارق جمیل صاحب کا بیان بھی پڑھ لیں جس سے وہ "غیر ذی فہم" ثابت ہوتے ہیں..

۔ مولانا طارق جمیل نے کہا کہ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ قبر پر گنبد بنانا منع ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
آج بھی کچھ شقی القلب حضرات اس گنبد کو گرانے کے حق میں ہیں اپنی سفاہت اور جہالت کے سبب۔
مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے جو دلیل دی وہ اپنی جگہ بجا مگر جو اسے ڈھانا چاہ رہے تھے ان کے پاس بھی کوئی دلیل نہیں تھی۔ جن احادیث کو وہ اس مقصد مضموم کے لئے بہانہ بنا رہے تھے ان کی زد میں روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آتا ہی نہیں۔
جتنی احادیث ہیں ان میں قبر پر عمارت بنانے کی ممانعت ہے اور یہاں عمارت میں قبر بنائی گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں۔
ذی فہم سمجھ سکتا ہے اس فرق کو جو قبر پر عمارت بنانے اور عمارت میں قبر بنانے میں ہے۔
اگر گنبد خضراء کی کوئی عظمت و اہمیت یا شریعت محمّدیہ میں اس کا کوئی مقام ہوتا تو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی وفات کے فوراً بعد ہی آپ کی قبر مبارک پر صحابہ کرام رضوان الله آجمیین اس کی تعمیر فرما دیتے- تاریخی اعتبار سے گنبد خضراء کی تعمیر ایک بادشاہ مصر ٦٢٧ ہجری میں کی جو بلاشبہ ایک بدعت تھی- زمانہ گزرنے کی بنا پر بدعتی اور کلمہ گو مشرکوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا اور آجکل دنیا میں ایسے مسلمانوں کی کثرت ہے جو نبی صل الله علیہ و آ له وسلم سے غلو کی حد تک محبّت میں مبتلا ہیں- اور یہ ایک امر ہے کہ گنبد خضراء کو گرانے کی صورت میں ایک عالمی فتنہ اٹھنے کا اندیشہ ہے- اس بنا پر بہتر طریقہ یہی ہے کہ گنبد خضراء کو قبر مبارک پر ایسے ہی رہنے دیا جائے- ورنہ شرعی لحاظ سے اس کی کوئی حیثیت نہیں - گنبد کی تعمیر کے وقت اس وقت کے علماء ہر چند کہ اس صاحب اقتدار کو نہ روک سکے ، مگر انہوں نے اس کام کو بہت برا سمجھا ، اور جب یہ مشورہ دینے والا کمال احمد معزول کیا گیا-
تو لوگوں نے اس کی معزولی کو الله کی طرف سے اس کے اس فعل کی پاداش شمار کیا

یہ لنک پڑھ لیجئے-

http://forum.mohaddis.com/threads/گنبد-خضراء-کی-تاریخ.18455/
 
Last edited:
Top