شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,011
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
عبدالوکیل ناصر حفطہ اللہ کا زیر نظر مضمون اصل میں حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ کے رسالے ارسال الیدین بعد الرکوع میں بطور ضمیمہ شامل کیا گیا ہے جسے ادارہ اشاعت قرآن و حدیث، کراچی کی جانب سے شائع کیا گیا ہے۔
بہترین اور قابل مطالعہ مضمون ہے۔ شاہد نذیر
امام ابن القیم رحمہ اللہ اپنی معرکۃ الآراء کتاب’’ اعلام الموقعین‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترک کی نقل کرنا دو قسم پر ہے ۔ اور دونوں سنت ہیں، ایک ان کا صراحت سے یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ترک کر دیا، اسے اختیار نہیں کیا‘‘۔
(۱) جیسے کہ شہداء احد کے بارے میں مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے انہیں غسل دیا اور نہ ہی ان کے جنازے کی نماز پڑھی۔
(۲) نماز عید کے لئے مروی ہے کہ اس کے لئے نہ اذان ہوتی تھی نہ اقامت ہوتی تھی اور نہ ہی منادی ہوتی تھی۔
(۳) دو نمازوں کے جمع کر کے پڑھنے کے موقعہ پر مروی ہے کہ ان دونوں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوافل و سنت پڑھے نہ ان میں سے کسی کے بعد وغیرہ وغیرہ ۔
دوسری قسم ترک کی یہ ہے کہ کسی فعل کی نقل نہ ہو باوجود یہ کہ اسباب ایسے موجود ہوں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کرتے تو ضرور لوگ اسے روایت کرتے یا تو سب ہی روایت کرتے یا کم از کم کوئی نہ کوئی ضرور اسے بیان کرتا۔
اور جب کسی نے بھی اسے بیان ہی نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی کوئی اصل ہے ہی نہیں۔ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اجمعین) ایسے نہ تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل کو امت تک نہ پہنچائیں،کوئی کسی بھی وقت کہیں بھی اسے بیان نہ کرے۔ یہ بالکل نہ ممکن ہے۔ اس کی مثالیں سنئے:
(۱) نماز کے شروع میں نیت کے الفاظ زبان سے نہ کہنا۔
(۲) ہمیشگی اور پابندی کے ساتھ صبح اور عصر کی نماز کے بعد یا پانچوں نمازوں کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعا نہ مانگنا اور مقتدیوں کا آمین نہ کہنا۔
(۳) صبح کی نماز کے آخر میں بعد از رکوع ہر رکوع ہر روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اٹھا کر دعا ئے قنوت ’’ اللھم اھدنا‘‘ کے ساتھ نہ مانگنا اور سب مقتدیوں کا آمین نہ کہنا۔ (یہ نا ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کام مواظبت کے ساتھ کریں روزانہ کریں اور پھر کوئی بڑا ، کوئی چھوٹا کوئی مرد کوئی عورت اس( کام) کو نقل نہ کرے، بیان نہ کرے)
(۴) مزدلفہ میں رات گذرانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل نہ کرنا۔
(۵) شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل نہ کرنا۔
(۶) طواف زیارت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل نہ کرنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ان وقتوں میں غسل کو مستحب کہتے ہیں ان کا قول غلط ہے اور ان موقعوں پر غسل کرنا بھی خلاف سنت ہے۔ کیوں کہ ترک فعل بھی سنت ہے جس طرح کسی فعل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کرنا سنت ہے۔ پس جب ہم کسی ایسے کام کا کرنا مستحب مانیں گے۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہو تو ایسا ہی برا ہوگا جیسے ہم کسی ایسے کام کے نہ کرنے کو مستحب جانیں جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا ہو۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اگر اس پر یہ اعتراض ہو کہ نبی علیہ السلام نے اسے (یعنی کام کو) نہیں کیا۔ اس پر آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟ کیوں کہ عدم نقل عدم فعل کو مستلزم نہیں۔
تو ہم جواب دیں گے کہ یہ اعتراض سنت و طریقہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناشناسی پر مبنی ہے۔ اور اگر آپ کو اسی پر اصرار ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی تراویح کی نماز کے لئے بھی اذان کو مستحب بتلائے تو آپ اسے کیا جواب دیں گے؟ وہ بھی آپ سے کہہ سکتا ہے( جو آپ نے ہم سے کہا) کہ اس کے مستحب نہ ہونے کی دلیل کیا ہے؟ اگر آپ کہیں کہ اس کا منقول نہ ہونا ہی اس کے عدم استحباب کی دلیل ہے تو وہ پلٹ کر آپ کو کہے گا کہ کرنے کی روایت کا نہ پایا جانا نہ کرنے کا تقاضہ ضروری طورپر نہیں کرتا۔
اسی طرح ہو سکتا ہے کوئی کہہ دے کہ ہر نماز کے لئے غسل بھی واجب ہے تم کہو کہ یہ منقول نہیں۔ وہ کہے گا منقول نہ ہونے سے فی الواقع غسل کا بھی نہ ہونا لازم نہیں آتا اور کیوں جی اگر کوئی کہے کہ اذان کے آخری کلمے’’ لا الہ الا اللہ‘‘ کے بعد ’’ رحمکم اللہ‘‘ کہنا بھی مستحب ہے تم اگر انکار بھی کرو گے تو زیادہ سے زیادہ تمہاری دلیل یہی ہوگی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منقول نہیں۔ وہ آپ کا یہ قاعدہ پیش کر دے گا کہ منقول نہ ہونا یہ ثابت نہیں کرتا ہے کہ دراصل موجود ہی نہ ہو۔
اگر کوئی کھڑا ہو کر یہ کہنا شروع کر دے کہ سیاہ لباس اور طیلسانی کپڑا پہننا جمعہ کا خطبہ دینے والے خطیب کے لئے ضروری ہے اور خطیب جب گھر سے چلے تو اس کے آگے چاؤش ہوں اور جب کبھی وہ اللہ اور اس کے رسول کا نام لے تو مؤذن بھی اپنی آواز بلند کریں۔ سب مل کر یا الگ الگ تم انکار کرو تو وہ تم سے دلیل طلب کرے تم کہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسا ہونا مروی نہیں تو وہ کہے کہ مروی نہ ہونے سے واقعہ میں ایسا نہ ہونا ضروری نہیں ہو سکتا۔
کوئی کہے شعبان کی پندرہویں شب کو رجب کے پہلے جمعہ کی شب کو ساری رات نماز میں گزارنا مستحب ہے اور تمہارے انکار پر وہ تمہیں وہی کہے جو تم نے ہمیں کہا تھا تو آخر تمہارا جواب کیا ہوگا؟
الغرض اگر تم نے یہ اصول جاری کیا تو بدعتوں کا دروازہ کھل جائے گا اور ہر بدعتی اپنی بدعت کے لئے اس کو دلیل بنالے گا، سند بنالے گا۔ پس صحیح بات یہی ہے کہ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئے ہوئے کام کرنا سنت ہے اسی طرح آپ کے چھوڑے ہوئے کام چھوڑ دینا بھی سنت ہے۔(اعلام الموقعین ،عربی جلد۲، اردو جلد اول)
(رکوع کے بعد ہاتھ نہ باندھنا اسی تناظر میں دیکھا جائے تو سنت ترکیہ قرار پاتا ہے۔واللہ اعلم)
امام ابن القیم رحمہ اللہ کی اس گفتگو کے بعد غور کیجئے کہ نماز کے مسائل کس قدر واضح ہیں۔ ان میں کوئی بھی ابہام و اشکال اور اخفاء نہیں رہاہے۔ ائمہ کرام علماء عظام (رحمہم اللہ وشکرسعیھم) ہر دور میں چند ایک مخصوص( نماز کی) غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔ حتی کہ امام احمد رحمہ اللہ نے نماز میں پائی جانے والی کم و بیش سو غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی اور پھر سنت سے ان کی اصلاح کی بھی کوشش کی۔(جیسا کہ عندالعلماء معروف ہے)
امام شاطبی رحمہ اللہ ، امام ابن القیم رحمہ اللہ وغیرہ نے اپنی اپنی کتب میں بہت سی چھوٹ جانے والی رہ جانے والی سنتوں کی نشاندہی کی اور ساتھ ساتھ ان بدعات کا بھی قلع قمع کیا جو سنت کے مفقود ہونے سے وجود میں آئی تھیں۔ فجزاھم اللہ خیر الجزاء۔
(اصحاب علم و ذوق اس کی تفصیل اعلام الموقعین اور الاعتصام میں دیکھ سکتے ہیں)
مگر اتنی محنتو ں کے باوجود زیر نظر مسئلہ’’ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا‘‘ (جس کے مقابلے میں ارسال الیدین بعد الرکوع کو خلاف سنت قرار دیا جا رہا ہے) کہیں بھی کسی بھی تصنیف میں دکھا ئی نہیں دیتا۔ اضطراب لحیۃ تک بیان کر دینے والے سے یہ( اگر واقعی یہ کوئی مسئلہ تھا) تو مخفی کیسے رہ گیا؟
اگر رکوع کے بعد ہاتھ نہ باندھناغلطی تھی ،کوتاہی تھا، سنت کی موت تھی تو پھر امام احمد رحمہ اللہ نے اپنے ذکر کردہ سو مسائل میں اسے ذکر کر کے اس کی اصلاح کیوں نہ کی؟ بلکہ اس کے بر عکس بعد الرکوع کے مسئلے میں اختیار دیدیا کہ باندھ لو تو بھی صحیح چھوڑ دو تو بھی صحیح آخر کیوں؟
وہ کون سے دلائل تھے جن کی بنیاد پر امام احمد رحمہ اللہ جیسے محدث و فقیہ نے اس مسئلہ میں گنجائش کا راستہ اختیار کیا؟ کیا آج وہ دلائل ارسال والوں کو کفایت نہیں کر رہے؟ جو انہیں( وضع الیدین والے) آئیں بائیں شائیں کا حامل قرار دیتے ہیں۔
کیا امام احمد رحمہ اللہ کی طرح وضع الیدین والے بھی اتنے معتدل مزاج ہیں؟ اگر ہیں تو پھر آئیں بائیں شائیں اور خلاف سنت کے فتوے کس بنیاد پر؟
وضع کے حق میں انہی سابقہ باتوں کو گھما پھرا کر بار بار چھاپنا (جبکہ ان تمام باتوں کا جواب شافی و کافی ہو چکا ہے) کیا معنی رکھتا ہے؟
حتی کہ ایک صاحب نے( جن کی کتاب ابھی تک چھپی نہیں ہے) یہاں تک لکھ دیا کہ ارسال والے اپنے عمل کو سنت کہہ کر’’ من کذب علی متعمدا۔۔۔۔۔‘‘ کی رو سے جہنم کے ایندھن ہیں۔ نعوذباللہ من ذلک
اور موصوف کی سب سے وزنی دلیل( ان کے زعم میں ) یہ تھی کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور یہ فطری عمل ہے جبکہ ارسال ایک غیر فطری عمل ہے۔ سبحان اللہ
اگر ازراہ انصاف دیکھا جائے تو محدثین کے ابواب و تراجم ، احادیث کا سیاق و سباق اس سلسلے میں بالکل واضح ہے کہ ہاتھ باندھنے کا عمل قیام قبل الرکوع میں ہے۔
اسی طرح امت مسلمہ کا عملی تواتر بھی اسی کی تائید کرتا ہے اور یہ بات فریق ثانی کو بھی تسلیم ہے کہ تواتر عملی کسی ثابت شدہ عمل کا مؤید ہو سکتا ہے۔
اسی طرح اگر کچھ روایتوں میں مطلقا ہاتھ باندھنے کا ذکر آیا ہے تو اس مطلق کو بھی مقید پر محمول کیا جائے گا۔ اور ہاتھ باندھنے کا عمل قیام قبل الرکوع کے ساتھ مقید ہے۔ کما لا یخفی علی اھلم العلم والمعرفۃ
اس مسئلہ میں احباب وضع الیدین (بعدالرکوع) کی طرف سے چند شبھات پیش کیئے جاتے ہیں۔ تو اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ضرورت محسوس ہوئی کہ مختصراً و اجمالاً شبھات کو مع الجواب جمع کر دیا جائے۔ تاکہ متلاشیان علم و حق کی تشنہ لبی کے لئے سیرابی کی راہ ہموار ہو سکے۔ ملاحظہ کیجئے۔ واللہ ولی التوفیق
شبہ:
ایک رکعت میں دو قیام ہوتے ہیں بالکل ایک ہی حیثیت کے۔
الجواب: امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی’’کتاب الصلاۃ‘‘ میں صرف سجدہ ہی کو ایک رکعت میں دوہرا(مکرر) ذکر کیا ہے، اور لکھا ہے کہ یہی سب سے افضل ترین رکن ہے اور اس کی تکرار بھی اس کی عظمت و فضیلت کی نشاندہی ہے۔ اس طرح کی بات شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’ حجۃ اللہ البا لغۃ‘‘ میں لکھی ہے۔ لہٰذا یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایک رکعت کے ارکان میں صرف رکن سجدہ ہی دوہرا یا جاتا ہے۔ اور اسی طرح یہ بھی سمجھ لینا چاہیئے کہ قیام قبل الرکوع اور قیام بعدالرکوع میں بھی فرق واضح ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کا بعد الرکوع میں وضع اور ارسال میں اختیار بھی دونوں قیاموں میں فرق کی دلیل ہے۔ کیوں کہ قبل الرکوع کے قیام میں یہ اختیار نہیں پایا جاتا کہ اس میں تو وضع کی دلیلیں خود مسند احمد میں بھی درج ہیں۔
نیز اھل علم کا قیام بعد الرکوع کو قومہ قرار دینا بھی دونوں قیاموں کی حیثیت میں فرق کی دلیل ہے ۔ اس لئے ایک رکعت میں دو قیاموں کو ایک ہی حیثیت سے بیان کرنا، لکھنا اور دونوں کا حکم ایک ہی قرار دینا فہم سلف صالحین کے منافی ہے۔واللہ اعلم
شبہ:
نسائی میں ہے’’اذا کان قائما فی الصلاۃ۔۔۔‘‘ یعنی جب بھی نماز میں آپ کھڑے ہوتے تو دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ کر کھڑے ہوتے۔ لہٰذا ہر قیام میں ہاتھ باندھنا ثابت ہوا۔
الجواب: یہاں غالباًلفظ ’’اذا‘‘ کے عموم سے استدلال کیا گیا ہے۔ حالانکہ ہر وقت ہر مسئلہ میں اسی طرح استدلال کرنا صحیح نہیں۔ اگر یہ بات ہی صحیح ہے تو پھر صحیح بخاری میں’’ اذا قام فی الصلاۃ رفع یدیہ‘‘ وارد ہوا ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوتے رفع الیدین کرتے تھے ۔اب عموم کا تقاضہ ہے کہ جب بھی پہلی رکعت سے کھڑے ہوں یا تیسری سے کھڑے ہوں رفع الیدین کیا جائے اسی طرح وتر کی 9رکعت میں ہر رکعت کے قیام پر اور سجدہ تلاوت سے اٹھ کر رفع الیدین کیا جائے(جبکہ سجدہ تلاوت حالت نماز میں ہو)۔
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس’’عموم‘‘ کا قائل وفاعل کوئی بھی نہیں۔ آخر کیوں؟ اور نہ ہی کوئی اس کا مخصص پیش کر سکتا ہے۔ اور نہ ہی ان مقامات پر رفع الیدین کی ممانعت کسی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ حدیث سیدنا وائل رضی اللہ عنہ کی ہے۔ اگر تمام ذخیرہ احادیث سے ان کی وضع الیدین کی مرویات جمع کی جائیں تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ ہاتھ قیام قبل الرکوع میں باندھے جائیں گے۔(تفصیل کے لے سلسلہ صحیحہ ۲۲۳۷ دیکھئے)
تیسری بات یہ ہے کہ نسائی کی شرح’’ ذخیرۃ العقبی فی شرح المجتبی‘‘ جو (۴۰) اجزاء میں چھپی ہے اس میں بھی’’ اذا‘‘ کے عموم سے استدلال کر کے بعد الرکوع ہاتھ باندھنے والوں کے استدلال کی تردیدی کی گئی ہے۔
شبہ:
بخاری میں’’ اذا قام فی الصلاۃ‘‘ہے جبکہ نسائی میں’’ اذا کان قائما فی الصلاۃ‘‘ ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔
الجواب: قام اور قائما میں اذا کی وجہ سے عموم کا معنی ہی پایا جاتا ہے۔ دونوں میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ نیز یہ کہ نسائی والی روایت بیہقی و طبرانی وغیرہ میں ’’ کان اذا قام فی الصلاۃ قبض علی شمالہ بیمینہ ‘‘ کے الفاظ سے وارد ہوئی ہے۔(دیکھئے سلسلہ صحیحہ نمبر ۲۲۳۷)
لہٰذا دونوں لفظ ایک ہی معنی میں آئے ہیں کہ جب بھی نماز میں کھڑے ہوئے۔
مزید یہ کہ شیخ محدث دیار سندھ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے بھی الجامع الصغیر کے حوالے سے یہ الفاظ لکھے ہیں’’کان اذا قام فی الصلاۃ۔۔۔۔۔۔۔‘‘اور اس قام کو قائماً کے معنی میں لیتے ہوئے ترجمہ کیا ہے’’جب بھی نماز میں کھڑے ہوئے۔۔۔۔۔۔‘‘
(دیکھئے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا صفحہ ۱۵ طبع مکتبہ الدعوۃ السلفیہ حیدر آباد سندھ)
لہٰذا قام اور قائماً میں معناً کوئی فرق نہیں خصوصاً فیما نحن فیہ۔۔۔
شبہ:
بخاری میں حدیث ہے کہ آپ رکوع سے سر اٹھاکر اتنی دیر کھڑے رہتے کہ ہم کہتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ اشتباہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہاتھ بندھے ہوں۔
الجواب: بھولنے کی وجہ صرف طول قیام تھا۔ مسند احمد میں ہے’’قد نسی من طول ما یقوم‘‘ہاتھوں کے باندھنے کو بھول و نسیان کی وجہ قرار دینا خود ساختہ اختراع ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
(۱) ای نسی وجوب الھوی الی السجود
(۲) یحتمل ان یکون المراد انہ نسی انہ فی الصلاۃ
(۳) او ظن انہ وقت القنوت حیث کان معتدلا۔۔۔(فتح الباری)
اب اس فرمان ابن حجر پر ازراہ انصاف غور کیجئے کیا معنی نکلتا ہے۔
ابن حجر رحمہ اللہ کی دوسری بات کیا واضح نہیں کہ اشتباہ کی وجہ صرف ارسال الیدین تھا۔ کیا ہاتھ بندھے ہونے کی صورت میں یہ خیال ہو سکتا تھا، کہ شاید نماز کی حالت ہی میں نہیں؟ اسی طرح ابن حجر رحمہ اللہ کی(تیسری بات کہ حالت اعتدال میں تھے اور گمان تھا کہ یہ وقت قنوت ہے) پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ’’کان معتدلا‘‘ سے مراد ہاتھ چھوڑ کر سیدھا کھڑے ہونا مراد ہے۔
(یاد رہے کہ لفظ اعتدال سے اور جگہ ہم ارسال مراد نہیں لیتے مگر یہاں یہ اس معنی کا متقاضی ہے)
شبہ:
نماز میں ہاتھ کی صرف ۴ حالتیں ہیں( ہاتھ باندھنا، گٹھنے پر رکھنا، زمین پر رکھنا ،ران پر رکھنا)۔
الجواب: یہ جملہ کہ نماز کی چار ہی حالتیں ہیں کسی حدیث کا ٹکڑا نہیں ہے۔ بلکہ خود ساختہ اختراع ہے۔
’’ام لھم شرکاء شرعوالھم من الدین مالم یاذن بہ اللہ‘‘
کیا رفع الیدین ہاتھوں سے نہیں ہوتا؟ رفع الیدین ہاتھوں کی پانچویں حالت ہے۔ لہٰذا چار کا خود ساختہ عقیدہ حدیث کی روشنی میں ٹوٹ گیا۔
کیا قنوت میں ہاتھ نہیں اٹھائے جاتے؟ تو یہ بھی ایک حالت ہے۔ جس نے چار حالتوں کی قید کو پاش پاش کر دیا۔
نمازی کی ہر حرکت کو توقیفی قرار دینا( اپنی طرف سے) شریعت سازی ہے۔ کیوں کہ تجربہ شاہد ہے کہ نمازی شخص کئی ایک حرکتیں (اختیاری وغیر اختیاری) سر انجام دیتا ہے۔ تو کیا اسے توقیفی قرار دے کر اسے سنت کا درجہ دیا جائے گا؟
ذرا بتائیے! کہ حدیث میں رکوع و سجود کی حالت میں نگاہ کے بارے میں کیاحکم وارد ہوا ہے، نگاہ کہاں رکھی جائے گی؟
نیز قیام میں دونوں پیروں کا درمیانی فاصلہ کس قدر ہوگا؟
شبہ:
اس مسئلہ میں صحابہ بھی مختلف فیہ تھے۔
الجواب: یہ بات دنیا کی کسی بھی کتاب میں نہیں ہے۔ اگر ہے تو ذرا اس کتاب کا نام بتادیں، یہ بھی بتادیں کہ ارسال الیدین والوں کے دلائل کیا کیا تھے؟
(یاد رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نماز نبی علیہ السلام سے سیکھی تھی، کتب احادیث سے نہیں)
شبہ:
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے’’المحلیٰ‘‘ میں لکھا ہے’’ویستحب ان یضع المصلی یدہ الیمنیٰ علی کوع یدہ الیسریٰ فی الصلاۃ فی وقوفہ کلہ فیھا‘‘ نیز المحلی میں بڑے بڑے محدثین ہاتھ باندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔
الجواب:یہ بھی سراسر غلط فہمی اور استقراء و تتبع کی کمی کے باعث ہے۔ یا پھر ادھوری عبارتیں نقل کر نے کی وجہ سے ایسا ہے۔(یہ کوئی دلیل تو نہیں مگر الزامی جواب سنیئے)
اس سلسلے میں عرض ہے کہ کیا امام ابن حزم رحمہ اللہ کا صرف باب قائم کر دینا ہی دلیل ہے؟
کیا اسے دلیل بنا کر ’’شرع مالم یاذن بہ اللہ ‘‘ کا ارتکاب نہیں کیا جا رہا؟
اور اگر امام ابن حزم رحمہ اللہ کا قائم کر دہ باب بھی دلیل و حجت ہے تو پھر دیگر ائمہ حدیث کے قائم کر دہ باب حجت کیوں نہیں ہو سکتے، جن میں صراحت کی گئی ہے کہ ہاتھ باندھنے کا عمل قبل الرکوع کے قیام میں ہوگا۔
امام ابن حزم کے ہاں ہاتھ باندھنا( نماز میں) فقط مستحب ہے ۔ کیا آپ کے ہاں بھی فقط مستحب ہے؟ اگر ہے تو مستحباب کے لئے اس قدر شورو غوغا کس لئے؟ اور اگر نہیں تو پھر اس سے استدلال کیوں؟
یاد رکھیئے کہ دلیل تو امام ابن حزم رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث و آثار صحیحہ ہی ہوں گے۔ آئے دیکھئے وہ کیا ذکر کرتے ہیں۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ پہلی دلیل میں حدیث وائل بن حجر رحمہ اللہ عنہ نقل کرتے ہیں۔ جس کے الفاظ ہیں’’ رفع یدیہ حین دخل فی الصلاۃ کبر ثم التحف بثوبہ ثم وضع یدہ الیمنیٰ علی الیسریٰ‘‘
اب ایمانداری سے بتائیں اس میں قیام قبل الرکوع میں وضع ہے یا بعد الرکوع ؟ یا مطلقا قیام میں وضع ہے؟
یقیناًصرف پہلی ہی بات ہے، اب بتایئے جناب کہ صرف باب سے استدلال کرنا کیسا ہے، جبکہ حدیث باب اپنے موقف میں واضح ہے اور یہ بات امام ابن حزم کو بھی معلوم تھی اور اس باب سے انہوں نے بھی وہ مطلب اخذ نہیں کیا جو آج کے متاخرین نے اخذ کیا ہے۔ اسی طرح تیسری دلیل کے طور پر جو اثر امام ابن حزم نے پیش کیا ہے وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اثر ہے جو ہم قیام قبل الرکوع میں وضع کی دلیل بنا کر پیش کر چکے ہیں۔ تفصیل المحلیٰ میں دیکھ لیں، بات سمجھ آجائے گی۔ ان شاء اللہ
اور جہاں تک بات ہے بڑے بڑے محدثین کے عامل وضع ہونے کی تو یہ بھی سراسر خوش فہمی پر مبنی ہے۔ اس لئے کہ جن چند ایک بزرگوں کے امام ابن حزم نے نام دیئے ہیں، ان میں ابراہیم نخعی، سعید بن جبیر اور محمد بن سیرین (رحمہم اللہ )سے تو ارسال کا عمل ہی ملتا ہے۔
(دیکھیئے ابن ابی شیبہ ، التمھید وغیرہ)
اب اگر اس ارسال کو مطلقاً مانیں تو مسئلہ ہی ختم اور اگر آپ ضد چھوڑ کر( اچھے بچوں کی طرح )اس ارسال کو بعد الرکوع پر محمول کر لیں تو سب صحیح ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ
ویسے یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اصحاب وضع کبھی بھی امام ابن حزم رحمہ اللہ کی ’’ المحلیٰ‘‘ سے پوری عبارتیں مع احادیث و آثار نقل نہیں کرتے۔ آخر کیوں؟
’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘
شبہ:
ائمہ اربعہ کے ہاں بھی (بعد الرکوع) ہاتھ باندھنا ہی ہے۔
الجواب: ائمہ اربعہ کا عمل کوئی دلیل تو نہیں ہے؟ مگر انہیں وضع کا عامل قرار دینا بھی صحیح نہیں ہے۔ تفصیل دیکھئے۔
فقہ حنفی:
فقہ حنفی میں قومہ میں ارسال اتفاقی عمل ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری)
ارسال پر تین ائمہ احناف کا اتفاق اور امام محمد کا عمل دلیل ہے۔
(البنایہ شرح الھدایہ)
بعدالرکوع وضع کے مسنون نہ ہونے پر اجماع ہے۔
(بدائع الصنائع)
صحیح بات یہی ہے کہ قومہ و قیام بعد الرکوع میں وضع نہیں ۔
(عمدۃ القاری)
عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ نے یہ تو لکھا ہے کہ وضع اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں(کیونکہ اصول حنفیہ کے موافق ہے) مگر یہ بھی تو لکھا ہے
کہ یہ تمام کتب( احناف) کے خلاف ہے*۔(السعایہ، سہیل اکیڈمی لاہور)
موجودہ حنفیوں کا عمل بھی ارسال ہی کا مؤید ہے۔
فقہ مالکی:
امام مالک رحمہ اللہ سے نماز میں ہاتھوں کے بارے میں دوباتیں نقل ہوئی ہیں۔ (۱) نماز میں صرف ارسال ہی ہے۔(قیام اول ہو یا ثانی)(۲) نماز میں ہاتھ باندھے جائیں گے۔ (التمہید)
اب عملی زندگی میں مالکی مقلدین کا عمل دیکھ لیں وہ کس پر عمل پیرا ہیں بعد از رکوع تو یقیناًارسال ہی کے عامل ہیں۔
فقہ شافعی:
امام نووی رحمہ اللہ نے’’ المجموع‘‘ میں لکھا ہے’’فاذا اعتدل قائماً حط یدیہ‘‘ یعنی بعد الرکوع جب سیدھا کھڑا ہو تو ہاتھوں کو گرادے۔ (المجموع شرح المھذب)
دکتو روہبہ زحیلی نے بھی شافعی نماز کے طریقہ میں بعد الرکوع ارسال کا ذکر کیا ہے۔ (الفقہ الاسلامی جلد اول)
____________________________________________________________________________
* حنفیہ اسے سنت نہیں کہتے بلکہ اصول کے موافق بتاتے ہیں۔
عملی طور پر بھی تجربہ کر لیں شافعی مقلدین کیا کرتے ہیں۔(ارسال ہی کرتے ہیں)
فقہ حنبلی:
فقہ حنبلی میں امام احمد رحمہ اللہ سے بعد الرکوع کے قیام میں وضع اور ارسال کا اختیار نقل کیا گیا ہے۔ مگر فقہ حنبلی میں فقط ارسال کا بھی قول ذکر
ہوا ہے۔ جیسے کہ صاحب الانصاف نے ایک جگہ لکھا ہے’’أو ارسلھما نص علیہ کما سبق وعنہ اذا قام رفعھما ثم حطھما فقط ،وقال فی المذہب والافادات والتلخیص وغیرھم: اذا انتصب قائماً ارسل یدیہ‘‘
(الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف علی مذہب الامام احمد بن حنبل)
خلاصہ کلام یہ کہ صرف ارسال بھی نقل ہوا ہے اور موجودہ حنبلی مقلدین کی اکثریت کا عمل اس کا مؤید ہے۔ نیز فقہ حنبلی کے معروف عابد و زاہد شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے بھی ارسال ہی ذکر کیا ہے۔
(غنیۃ الطالبین دیکھئے)
کتبہ عبدالوکیل ناصر
وصلی اللہ تعالیٰ علی نبیہ محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین
عبدالوکیل ناصر حفطہ اللہ کا زیر نظر مضمون اصل میں حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ کے رسالے ارسال الیدین بعد الرکوع میں بطور ضمیمہ شامل کیا گیا ہے جسے ادارہ اشاعت قرآن و حدیث، کراچی کی جانب سے شائع کیا گیا ہے۔
بہترین اور قابل مطالعہ مضمون ہے۔ شاہد نذیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضمیمہ ارسال الیدین
(از قلم عبدالوکیل ناصر)
(از قلم عبدالوکیل ناصر)
امام ابن القیم رحمہ اللہ اپنی معرکۃ الآراء کتاب’’ اعلام الموقعین‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترک کی نقل کرنا دو قسم پر ہے ۔ اور دونوں سنت ہیں، ایک ان کا صراحت سے یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ترک کر دیا، اسے اختیار نہیں کیا‘‘۔
(۱) جیسے کہ شہداء احد کے بارے میں مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے انہیں غسل دیا اور نہ ہی ان کے جنازے کی نماز پڑھی۔
(۲) نماز عید کے لئے مروی ہے کہ اس کے لئے نہ اذان ہوتی تھی نہ اقامت ہوتی تھی اور نہ ہی منادی ہوتی تھی۔
(۳) دو نمازوں کے جمع کر کے پڑھنے کے موقعہ پر مروی ہے کہ ان دونوں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوافل و سنت پڑھے نہ ان میں سے کسی کے بعد وغیرہ وغیرہ ۔
دوسری قسم ترک کی یہ ہے کہ کسی فعل کی نقل نہ ہو باوجود یہ کہ اسباب ایسے موجود ہوں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کرتے تو ضرور لوگ اسے روایت کرتے یا تو سب ہی روایت کرتے یا کم از کم کوئی نہ کوئی ضرور اسے بیان کرتا۔
اور جب کسی نے بھی اسے بیان ہی نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی کوئی اصل ہے ہی نہیں۔ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اجمعین) ایسے نہ تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل کو امت تک نہ پہنچائیں،کوئی کسی بھی وقت کہیں بھی اسے بیان نہ کرے۔ یہ بالکل نہ ممکن ہے۔ اس کی مثالیں سنئے:
(۱) نماز کے شروع میں نیت کے الفاظ زبان سے نہ کہنا۔
(۲) ہمیشگی اور پابندی کے ساتھ صبح اور عصر کی نماز کے بعد یا پانچوں نمازوں کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعا نہ مانگنا اور مقتدیوں کا آمین نہ کہنا۔
(۳) صبح کی نماز کے آخر میں بعد از رکوع ہر رکوع ہر روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اٹھا کر دعا ئے قنوت ’’ اللھم اھدنا‘‘ کے ساتھ نہ مانگنا اور سب مقتدیوں کا آمین نہ کہنا۔ (یہ نا ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کام مواظبت کے ساتھ کریں روزانہ کریں اور پھر کوئی بڑا ، کوئی چھوٹا کوئی مرد کوئی عورت اس( کام) کو نقل نہ کرے، بیان نہ کرے)
(۴) مزدلفہ میں رات گذرانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل نہ کرنا۔
(۵) شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل نہ کرنا۔
(۶) طواف زیارت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل نہ کرنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ان وقتوں میں غسل کو مستحب کہتے ہیں ان کا قول غلط ہے اور ان موقعوں پر غسل کرنا بھی خلاف سنت ہے۔ کیوں کہ ترک فعل بھی سنت ہے جس طرح کسی فعل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کرنا سنت ہے۔ پس جب ہم کسی ایسے کام کا کرنا مستحب مانیں گے۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہو تو ایسا ہی برا ہوگا جیسے ہم کسی ایسے کام کے نہ کرنے کو مستحب جانیں جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا ہو۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اگر اس پر یہ اعتراض ہو کہ نبی علیہ السلام نے اسے (یعنی کام کو) نہیں کیا۔ اس پر آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟ کیوں کہ عدم نقل عدم فعل کو مستلزم نہیں۔
تو ہم جواب دیں گے کہ یہ اعتراض سنت و طریقہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناشناسی پر مبنی ہے۔ اور اگر آپ کو اسی پر اصرار ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی تراویح کی نماز کے لئے بھی اذان کو مستحب بتلائے تو آپ اسے کیا جواب دیں گے؟ وہ بھی آپ سے کہہ سکتا ہے( جو آپ نے ہم سے کہا) کہ اس کے مستحب نہ ہونے کی دلیل کیا ہے؟ اگر آپ کہیں کہ اس کا منقول نہ ہونا ہی اس کے عدم استحباب کی دلیل ہے تو وہ پلٹ کر آپ کو کہے گا کہ کرنے کی روایت کا نہ پایا جانا نہ کرنے کا تقاضہ ضروری طورپر نہیں کرتا۔
اسی طرح ہو سکتا ہے کوئی کہہ دے کہ ہر نماز کے لئے غسل بھی واجب ہے تم کہو کہ یہ منقول نہیں۔ وہ کہے گا منقول نہ ہونے سے فی الواقع غسل کا بھی نہ ہونا لازم نہیں آتا اور کیوں جی اگر کوئی کہے کہ اذان کے آخری کلمے’’ لا الہ الا اللہ‘‘ کے بعد ’’ رحمکم اللہ‘‘ کہنا بھی مستحب ہے تم اگر انکار بھی کرو گے تو زیادہ سے زیادہ تمہاری دلیل یہی ہوگی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منقول نہیں۔ وہ آپ کا یہ قاعدہ پیش کر دے گا کہ منقول نہ ہونا یہ ثابت نہیں کرتا ہے کہ دراصل موجود ہی نہ ہو۔
اگر کوئی کھڑا ہو کر یہ کہنا شروع کر دے کہ سیاہ لباس اور طیلسانی کپڑا پہننا جمعہ کا خطبہ دینے والے خطیب کے لئے ضروری ہے اور خطیب جب گھر سے چلے تو اس کے آگے چاؤش ہوں اور جب کبھی وہ اللہ اور اس کے رسول کا نام لے تو مؤذن بھی اپنی آواز بلند کریں۔ سب مل کر یا الگ الگ تم انکار کرو تو وہ تم سے دلیل طلب کرے تم کہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسا ہونا مروی نہیں تو وہ کہے کہ مروی نہ ہونے سے واقعہ میں ایسا نہ ہونا ضروری نہیں ہو سکتا۔
کوئی کہے شعبان کی پندرہویں شب کو رجب کے پہلے جمعہ کی شب کو ساری رات نماز میں گزارنا مستحب ہے اور تمہارے انکار پر وہ تمہیں وہی کہے جو تم نے ہمیں کہا تھا تو آخر تمہارا جواب کیا ہوگا؟
الغرض اگر تم نے یہ اصول جاری کیا تو بدعتوں کا دروازہ کھل جائے گا اور ہر بدعتی اپنی بدعت کے لئے اس کو دلیل بنالے گا، سند بنالے گا۔ پس صحیح بات یہی ہے کہ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئے ہوئے کام کرنا سنت ہے اسی طرح آپ کے چھوڑے ہوئے کام چھوڑ دینا بھی سنت ہے۔(اعلام الموقعین ،عربی جلد۲، اردو جلد اول)
(رکوع کے بعد ہاتھ نہ باندھنا اسی تناظر میں دیکھا جائے تو سنت ترکیہ قرار پاتا ہے۔واللہ اعلم)
امام ابن القیم رحمہ اللہ کی اس گفتگو کے بعد غور کیجئے کہ نماز کے مسائل کس قدر واضح ہیں۔ ان میں کوئی بھی ابہام و اشکال اور اخفاء نہیں رہاہے۔ ائمہ کرام علماء عظام (رحمہم اللہ وشکرسعیھم) ہر دور میں چند ایک مخصوص( نماز کی) غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔ حتی کہ امام احمد رحمہ اللہ نے نماز میں پائی جانے والی کم و بیش سو غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی اور پھر سنت سے ان کی اصلاح کی بھی کوشش کی۔(جیسا کہ عندالعلماء معروف ہے)
امام شاطبی رحمہ اللہ ، امام ابن القیم رحمہ اللہ وغیرہ نے اپنی اپنی کتب میں بہت سی چھوٹ جانے والی رہ جانے والی سنتوں کی نشاندہی کی اور ساتھ ساتھ ان بدعات کا بھی قلع قمع کیا جو سنت کے مفقود ہونے سے وجود میں آئی تھیں۔ فجزاھم اللہ خیر الجزاء۔
(اصحاب علم و ذوق اس کی تفصیل اعلام الموقعین اور الاعتصام میں دیکھ سکتے ہیں)
مگر اتنی محنتو ں کے باوجود زیر نظر مسئلہ’’ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا‘‘ (جس کے مقابلے میں ارسال الیدین بعد الرکوع کو خلاف سنت قرار دیا جا رہا ہے) کہیں بھی کسی بھی تصنیف میں دکھا ئی نہیں دیتا۔ اضطراب لحیۃ تک بیان کر دینے والے سے یہ( اگر واقعی یہ کوئی مسئلہ تھا) تو مخفی کیسے رہ گیا؟
اگر رکوع کے بعد ہاتھ نہ باندھناغلطی تھی ،کوتاہی تھا، سنت کی موت تھی تو پھر امام احمد رحمہ اللہ نے اپنے ذکر کردہ سو مسائل میں اسے ذکر کر کے اس کی اصلاح کیوں نہ کی؟ بلکہ اس کے بر عکس بعد الرکوع کے مسئلے میں اختیار دیدیا کہ باندھ لو تو بھی صحیح چھوڑ دو تو بھی صحیح آخر کیوں؟
وہ کون سے دلائل تھے جن کی بنیاد پر امام احمد رحمہ اللہ جیسے محدث و فقیہ نے اس مسئلہ میں گنجائش کا راستہ اختیار کیا؟ کیا آج وہ دلائل ارسال والوں کو کفایت نہیں کر رہے؟ جو انہیں( وضع الیدین والے) آئیں بائیں شائیں کا حامل قرار دیتے ہیں۔
کیا امام احمد رحمہ اللہ کی طرح وضع الیدین والے بھی اتنے معتدل مزاج ہیں؟ اگر ہیں تو پھر آئیں بائیں شائیں اور خلاف سنت کے فتوے کس بنیاد پر؟
وضع کے حق میں انہی سابقہ باتوں کو گھما پھرا کر بار بار چھاپنا (جبکہ ان تمام باتوں کا جواب شافی و کافی ہو چکا ہے) کیا معنی رکھتا ہے؟
حتی کہ ایک صاحب نے( جن کی کتاب ابھی تک چھپی نہیں ہے) یہاں تک لکھ دیا کہ ارسال والے اپنے عمل کو سنت کہہ کر’’ من کذب علی متعمدا۔۔۔۔۔‘‘ کی رو سے جہنم کے ایندھن ہیں۔ نعوذباللہ من ذلک
اور موصوف کی سب سے وزنی دلیل( ان کے زعم میں ) یہ تھی کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور یہ فطری عمل ہے جبکہ ارسال ایک غیر فطری عمل ہے۔ سبحان اللہ
اگر ازراہ انصاف دیکھا جائے تو محدثین کے ابواب و تراجم ، احادیث کا سیاق و سباق اس سلسلے میں بالکل واضح ہے کہ ہاتھ باندھنے کا عمل قیام قبل الرکوع میں ہے۔
اسی طرح امت مسلمہ کا عملی تواتر بھی اسی کی تائید کرتا ہے اور یہ بات فریق ثانی کو بھی تسلیم ہے کہ تواتر عملی کسی ثابت شدہ عمل کا مؤید ہو سکتا ہے۔
اسی طرح اگر کچھ روایتوں میں مطلقا ہاتھ باندھنے کا ذکر آیا ہے تو اس مطلق کو بھی مقید پر محمول کیا جائے گا۔ اور ہاتھ باندھنے کا عمل قیام قبل الرکوع کے ساتھ مقید ہے۔ کما لا یخفی علی اھلم العلم والمعرفۃ
اس مسئلہ میں احباب وضع الیدین (بعدالرکوع) کی طرف سے چند شبھات پیش کیئے جاتے ہیں۔ تو اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ضرورت محسوس ہوئی کہ مختصراً و اجمالاً شبھات کو مع الجواب جمع کر دیا جائے۔ تاکہ متلاشیان علم و حق کی تشنہ لبی کے لئے سیرابی کی راہ ہموار ہو سکے۔ ملاحظہ کیجئے۔ واللہ ولی التوفیق
شبہ:
ایک رکعت میں دو قیام ہوتے ہیں بالکل ایک ہی حیثیت کے۔
الجواب: امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی’’کتاب الصلاۃ‘‘ میں صرف سجدہ ہی کو ایک رکعت میں دوہرا(مکرر) ذکر کیا ہے، اور لکھا ہے کہ یہی سب سے افضل ترین رکن ہے اور اس کی تکرار بھی اس کی عظمت و فضیلت کی نشاندہی ہے۔ اس طرح کی بات شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’ حجۃ اللہ البا لغۃ‘‘ میں لکھی ہے۔ لہٰذا یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایک رکعت کے ارکان میں صرف رکن سجدہ ہی دوہرا یا جاتا ہے۔ اور اسی طرح یہ بھی سمجھ لینا چاہیئے کہ قیام قبل الرکوع اور قیام بعدالرکوع میں بھی فرق واضح ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کا بعد الرکوع میں وضع اور ارسال میں اختیار بھی دونوں قیاموں میں فرق کی دلیل ہے۔ کیوں کہ قبل الرکوع کے قیام میں یہ اختیار نہیں پایا جاتا کہ اس میں تو وضع کی دلیلیں خود مسند احمد میں بھی درج ہیں۔
نیز اھل علم کا قیام بعد الرکوع کو قومہ قرار دینا بھی دونوں قیاموں کی حیثیت میں فرق کی دلیل ہے ۔ اس لئے ایک رکعت میں دو قیاموں کو ایک ہی حیثیت سے بیان کرنا، لکھنا اور دونوں کا حکم ایک ہی قرار دینا فہم سلف صالحین کے منافی ہے۔واللہ اعلم
شبہ:
نسائی میں ہے’’اذا کان قائما فی الصلاۃ۔۔۔‘‘ یعنی جب بھی نماز میں آپ کھڑے ہوتے تو دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ کر کھڑے ہوتے۔ لہٰذا ہر قیام میں ہاتھ باندھنا ثابت ہوا۔
الجواب: یہاں غالباًلفظ ’’اذا‘‘ کے عموم سے استدلال کیا گیا ہے۔ حالانکہ ہر وقت ہر مسئلہ میں اسی طرح استدلال کرنا صحیح نہیں۔ اگر یہ بات ہی صحیح ہے تو پھر صحیح بخاری میں’’ اذا قام فی الصلاۃ رفع یدیہ‘‘ وارد ہوا ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوتے رفع الیدین کرتے تھے ۔اب عموم کا تقاضہ ہے کہ جب بھی پہلی رکعت سے کھڑے ہوں یا تیسری سے کھڑے ہوں رفع الیدین کیا جائے اسی طرح وتر کی 9رکعت میں ہر رکعت کے قیام پر اور سجدہ تلاوت سے اٹھ کر رفع الیدین کیا جائے(جبکہ سجدہ تلاوت حالت نماز میں ہو)۔
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس’’عموم‘‘ کا قائل وفاعل کوئی بھی نہیں۔ آخر کیوں؟ اور نہ ہی کوئی اس کا مخصص پیش کر سکتا ہے۔ اور نہ ہی ان مقامات پر رفع الیدین کی ممانعت کسی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ حدیث سیدنا وائل رضی اللہ عنہ کی ہے۔ اگر تمام ذخیرہ احادیث سے ان کی وضع الیدین کی مرویات جمع کی جائیں تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ ہاتھ قیام قبل الرکوع میں باندھے جائیں گے۔(تفصیل کے لے سلسلہ صحیحہ ۲۲۳۷ دیکھئے)
تیسری بات یہ ہے کہ نسائی کی شرح’’ ذخیرۃ العقبی فی شرح المجتبی‘‘ جو (۴۰) اجزاء میں چھپی ہے اس میں بھی’’ اذا‘‘ کے عموم سے استدلال کر کے بعد الرکوع ہاتھ باندھنے والوں کے استدلال کی تردیدی کی گئی ہے۔
شبہ:
بخاری میں’’ اذا قام فی الصلاۃ‘‘ہے جبکہ نسائی میں’’ اذا کان قائما فی الصلاۃ‘‘ ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔
الجواب: قام اور قائما میں اذا کی وجہ سے عموم کا معنی ہی پایا جاتا ہے۔ دونوں میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ نیز یہ کہ نسائی والی روایت بیہقی و طبرانی وغیرہ میں ’’ کان اذا قام فی الصلاۃ قبض علی شمالہ بیمینہ ‘‘ کے الفاظ سے وارد ہوئی ہے۔(دیکھئے سلسلہ صحیحہ نمبر ۲۲۳۷)
لہٰذا دونوں لفظ ایک ہی معنی میں آئے ہیں کہ جب بھی نماز میں کھڑے ہوئے۔
مزید یہ کہ شیخ محدث دیار سندھ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے بھی الجامع الصغیر کے حوالے سے یہ الفاظ لکھے ہیں’’کان اذا قام فی الصلاۃ۔۔۔۔۔۔۔‘‘اور اس قام کو قائماً کے معنی میں لیتے ہوئے ترجمہ کیا ہے’’جب بھی نماز میں کھڑے ہوئے۔۔۔۔۔۔‘‘
(دیکھئے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا صفحہ ۱۵ طبع مکتبہ الدعوۃ السلفیہ حیدر آباد سندھ)
لہٰذا قام اور قائماً میں معناً کوئی فرق نہیں خصوصاً فیما نحن فیہ۔۔۔
شبہ:
بخاری میں حدیث ہے کہ آپ رکوع سے سر اٹھاکر اتنی دیر کھڑے رہتے کہ ہم کہتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ اشتباہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہاتھ بندھے ہوں۔
الجواب: بھولنے کی وجہ صرف طول قیام تھا۔ مسند احمد میں ہے’’قد نسی من طول ما یقوم‘‘ہاتھوں کے باندھنے کو بھول و نسیان کی وجہ قرار دینا خود ساختہ اختراع ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
(۱) ای نسی وجوب الھوی الی السجود
(۲) یحتمل ان یکون المراد انہ نسی انہ فی الصلاۃ
(۳) او ظن انہ وقت القنوت حیث کان معتدلا۔۔۔(فتح الباری)
اب اس فرمان ابن حجر پر ازراہ انصاف غور کیجئے کیا معنی نکلتا ہے۔
ابن حجر رحمہ اللہ کی دوسری بات کیا واضح نہیں کہ اشتباہ کی وجہ صرف ارسال الیدین تھا۔ کیا ہاتھ بندھے ہونے کی صورت میں یہ خیال ہو سکتا تھا، کہ شاید نماز کی حالت ہی میں نہیں؟ اسی طرح ابن حجر رحمہ اللہ کی(تیسری بات کہ حالت اعتدال میں تھے اور گمان تھا کہ یہ وقت قنوت ہے) پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ’’کان معتدلا‘‘ سے مراد ہاتھ چھوڑ کر سیدھا کھڑے ہونا مراد ہے۔
(یاد رہے کہ لفظ اعتدال سے اور جگہ ہم ارسال مراد نہیں لیتے مگر یہاں یہ اس معنی کا متقاضی ہے)
شبہ:
نماز میں ہاتھ کی صرف ۴ حالتیں ہیں( ہاتھ باندھنا، گٹھنے پر رکھنا، زمین پر رکھنا ،ران پر رکھنا)۔
الجواب: یہ جملہ کہ نماز کی چار ہی حالتیں ہیں کسی حدیث کا ٹکڑا نہیں ہے۔ بلکہ خود ساختہ اختراع ہے۔
’’ام لھم شرکاء شرعوالھم من الدین مالم یاذن بہ اللہ‘‘
کیا رفع الیدین ہاتھوں سے نہیں ہوتا؟ رفع الیدین ہاتھوں کی پانچویں حالت ہے۔ لہٰذا چار کا خود ساختہ عقیدہ حدیث کی روشنی میں ٹوٹ گیا۔
کیا قنوت میں ہاتھ نہیں اٹھائے جاتے؟ تو یہ بھی ایک حالت ہے۔ جس نے چار حالتوں کی قید کو پاش پاش کر دیا۔
نمازی کی ہر حرکت کو توقیفی قرار دینا( اپنی طرف سے) شریعت سازی ہے۔ کیوں کہ تجربہ شاہد ہے کہ نمازی شخص کئی ایک حرکتیں (اختیاری وغیر اختیاری) سر انجام دیتا ہے۔ تو کیا اسے توقیفی قرار دے کر اسے سنت کا درجہ دیا جائے گا؟
ذرا بتائیے! کہ حدیث میں رکوع و سجود کی حالت میں نگاہ کے بارے میں کیاحکم وارد ہوا ہے، نگاہ کہاں رکھی جائے گی؟
نیز قیام میں دونوں پیروں کا درمیانی فاصلہ کس قدر ہوگا؟
شبہ:
اس مسئلہ میں صحابہ بھی مختلف فیہ تھے۔
الجواب: یہ بات دنیا کی کسی بھی کتاب میں نہیں ہے۔ اگر ہے تو ذرا اس کتاب کا نام بتادیں، یہ بھی بتادیں کہ ارسال الیدین والوں کے دلائل کیا کیا تھے؟
(یاد رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نماز نبی علیہ السلام سے سیکھی تھی، کتب احادیث سے نہیں)
شبہ:
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے’’المحلیٰ‘‘ میں لکھا ہے’’ویستحب ان یضع المصلی یدہ الیمنیٰ علی کوع یدہ الیسریٰ فی الصلاۃ فی وقوفہ کلہ فیھا‘‘ نیز المحلی میں بڑے بڑے محدثین ہاتھ باندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔
الجواب:یہ بھی سراسر غلط فہمی اور استقراء و تتبع کی کمی کے باعث ہے۔ یا پھر ادھوری عبارتیں نقل کر نے کی وجہ سے ایسا ہے۔(یہ کوئی دلیل تو نہیں مگر الزامی جواب سنیئے)
اس سلسلے میں عرض ہے کہ کیا امام ابن حزم رحمہ اللہ کا صرف باب قائم کر دینا ہی دلیل ہے؟
کیا اسے دلیل بنا کر ’’شرع مالم یاذن بہ اللہ ‘‘ کا ارتکاب نہیں کیا جا رہا؟
اور اگر امام ابن حزم رحمہ اللہ کا قائم کر دہ باب بھی دلیل و حجت ہے تو پھر دیگر ائمہ حدیث کے قائم کر دہ باب حجت کیوں نہیں ہو سکتے، جن میں صراحت کی گئی ہے کہ ہاتھ باندھنے کا عمل قبل الرکوع کے قیام میں ہوگا۔
امام ابن حزم کے ہاں ہاتھ باندھنا( نماز میں) فقط مستحب ہے ۔ کیا آپ کے ہاں بھی فقط مستحب ہے؟ اگر ہے تو مستحباب کے لئے اس قدر شورو غوغا کس لئے؟ اور اگر نہیں تو پھر اس سے استدلال کیوں؟
یاد رکھیئے کہ دلیل تو امام ابن حزم رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث و آثار صحیحہ ہی ہوں گے۔ آئے دیکھئے وہ کیا ذکر کرتے ہیں۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ پہلی دلیل میں حدیث وائل بن حجر رحمہ اللہ عنہ نقل کرتے ہیں۔ جس کے الفاظ ہیں’’ رفع یدیہ حین دخل فی الصلاۃ کبر ثم التحف بثوبہ ثم وضع یدہ الیمنیٰ علی الیسریٰ‘‘
اب ایمانداری سے بتائیں اس میں قیام قبل الرکوع میں وضع ہے یا بعد الرکوع ؟ یا مطلقا قیام میں وضع ہے؟
یقیناًصرف پہلی ہی بات ہے، اب بتایئے جناب کہ صرف باب سے استدلال کرنا کیسا ہے، جبکہ حدیث باب اپنے موقف میں واضح ہے اور یہ بات امام ابن حزم کو بھی معلوم تھی اور اس باب سے انہوں نے بھی وہ مطلب اخذ نہیں کیا جو آج کے متاخرین نے اخذ کیا ہے۔ اسی طرح تیسری دلیل کے طور پر جو اثر امام ابن حزم نے پیش کیا ہے وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اثر ہے جو ہم قیام قبل الرکوع میں وضع کی دلیل بنا کر پیش کر چکے ہیں۔ تفصیل المحلیٰ میں دیکھ لیں، بات سمجھ آجائے گی۔ ان شاء اللہ
اور جہاں تک بات ہے بڑے بڑے محدثین کے عامل وضع ہونے کی تو یہ بھی سراسر خوش فہمی پر مبنی ہے۔ اس لئے کہ جن چند ایک بزرگوں کے امام ابن حزم نے نام دیئے ہیں، ان میں ابراہیم نخعی، سعید بن جبیر اور محمد بن سیرین (رحمہم اللہ )سے تو ارسال کا عمل ہی ملتا ہے۔
(دیکھیئے ابن ابی شیبہ ، التمھید وغیرہ)
اب اگر اس ارسال کو مطلقاً مانیں تو مسئلہ ہی ختم اور اگر آپ ضد چھوڑ کر( اچھے بچوں کی طرح )اس ارسال کو بعد الرکوع پر محمول کر لیں تو سب صحیح ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ
ویسے یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اصحاب وضع کبھی بھی امام ابن حزم رحمہ اللہ کی ’’ المحلیٰ‘‘ سے پوری عبارتیں مع احادیث و آثار نقل نہیں کرتے۔ آخر کیوں؟
’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘
شبہ:
ائمہ اربعہ کے ہاں بھی (بعد الرکوع) ہاتھ باندھنا ہی ہے۔
الجواب: ائمہ اربعہ کا عمل کوئی دلیل تو نہیں ہے؟ مگر انہیں وضع کا عامل قرار دینا بھی صحیح نہیں ہے۔ تفصیل دیکھئے۔
فقہ حنفی:
فقہ حنفی میں قومہ میں ارسال اتفاقی عمل ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری)
ارسال پر تین ائمہ احناف کا اتفاق اور امام محمد کا عمل دلیل ہے۔
(البنایہ شرح الھدایہ)
بعدالرکوع وضع کے مسنون نہ ہونے پر اجماع ہے۔
(بدائع الصنائع)
صحیح بات یہی ہے کہ قومہ و قیام بعد الرکوع میں وضع نہیں ۔
(عمدۃ القاری)
عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ نے یہ تو لکھا ہے کہ وضع اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں(کیونکہ اصول حنفیہ کے موافق ہے) مگر یہ بھی تو لکھا ہے
کہ یہ تمام کتب( احناف) کے خلاف ہے*۔(السعایہ، سہیل اکیڈمی لاہور)
موجودہ حنفیوں کا عمل بھی ارسال ہی کا مؤید ہے۔
فقہ مالکی:
امام مالک رحمہ اللہ سے نماز میں ہاتھوں کے بارے میں دوباتیں نقل ہوئی ہیں۔ (۱) نماز میں صرف ارسال ہی ہے۔(قیام اول ہو یا ثانی)(۲) نماز میں ہاتھ باندھے جائیں گے۔ (التمہید)
اب عملی زندگی میں مالکی مقلدین کا عمل دیکھ لیں وہ کس پر عمل پیرا ہیں بعد از رکوع تو یقیناًارسال ہی کے عامل ہیں۔
فقہ شافعی:
امام نووی رحمہ اللہ نے’’ المجموع‘‘ میں لکھا ہے’’فاذا اعتدل قائماً حط یدیہ‘‘ یعنی بعد الرکوع جب سیدھا کھڑا ہو تو ہاتھوں کو گرادے۔ (المجموع شرح المھذب)
دکتو روہبہ زحیلی نے بھی شافعی نماز کے طریقہ میں بعد الرکوع ارسال کا ذکر کیا ہے۔ (الفقہ الاسلامی جلد اول)
____________________________________________________________________________
* حنفیہ اسے سنت نہیں کہتے بلکہ اصول کے موافق بتاتے ہیں۔
عملی طور پر بھی تجربہ کر لیں شافعی مقلدین کیا کرتے ہیں۔(ارسال ہی کرتے ہیں)
فقہ حنبلی:
فقہ حنبلی میں امام احمد رحمہ اللہ سے بعد الرکوع کے قیام میں وضع اور ارسال کا اختیار نقل کیا گیا ہے۔ مگر فقہ حنبلی میں فقط ارسال کا بھی قول ذکر
ہوا ہے۔ جیسے کہ صاحب الانصاف نے ایک جگہ لکھا ہے’’أو ارسلھما نص علیہ کما سبق وعنہ اذا قام رفعھما ثم حطھما فقط ،وقال فی المذہب والافادات والتلخیص وغیرھم: اذا انتصب قائماً ارسل یدیہ‘‘
(الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف علی مذہب الامام احمد بن حنبل)
خلاصہ کلام یہ کہ صرف ارسال بھی نقل ہوا ہے اور موجودہ حنبلی مقلدین کی اکثریت کا عمل اس کا مؤید ہے۔ نیز فقہ حنبلی کے معروف عابد و زاہد شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے بھی ارسال ہی ذکر کیا ہے۔
(غنیۃ الطالبین دیکھئے)
کتبہ عبدالوکیل ناصر
وصلی اللہ تعالیٰ علی نبیہ محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین