• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رکوع کے بعد قیام میں ہاتھوں کو چھوڑنا ہی صحیح عمل ہے۔

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
اس لئے مسئلہ اجتھادی ہے اور اجتھادی رہنے دیا جائے اور کسی اور علمی تحقیقی کام میں صلاحیتیں صرف کی جائیں ۔
کسی مسئلہ کے اجتہادی ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس مسئلہ کو حل کر کے امت مسلمہ کو انتشار سے نجات نہ دلائی جائے۔ اور نہ ہی کسی مسئلہ کے اجتہادی ہونے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں فریقین حق بجانب ہیں۔ اس طرح کے مسائل میں علماء کرام کا اپنے اپنے دائرہ میں محدود رہنا اور علمی مباحث سے مسئلہ کو حل نہ کرنا ہی عوام میں اختلاف اور انتشار کا باعث بنتا ہے۔ اس مضمون کو پیش کرنے کا میرا مقصد ہی یہ تھا کہ علمی بحث کے زریعے سے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے یا چھوڑنے کے مسئلہ میں راجح اور مرجوع کا فیصلہ کر لیا جائے اور یہ بات بھی عام لوگوں کے سامنے آجائے کہ اس خاص مسئلہ میں غلطی کس فریق سے ہوئی ہے۔ تاکہ مضبوط دلائل کو دیکھتے ہوئے عام آدمی کے لئے کوئی ایک موقف اختیار کرنا آسان ہو۔

شیخ بشیر احمد حفظہ اللہ سے میری درخواست ہے کہ ہمیں دلائل کے زریعے مطمئن کریں کہ جس موقف کو آپ راجح قرار دے رہے ہیں اس پر آپ کے پاس کون سے دلائل ہیں اور کتنے مضبوط ہیں۔ اس سلسلے میں اگربشیر بھائی صرف شیخ رفیق طاہر حفظہ اللہ سے ہی تھوڑی دیر دلائل کی بحث کر لیں تو یقیناً اس مسئلہ کی حقیقت واضح ہو جائے گی۔

مجھ ناچیز کے نزدیک اس مسئلہ میں علمی بحث کے زریعے مسئلہ سلجھے گا جو کہ اکثر علماء کی طرف سے خاموشی کی وجہ سے الجھا ہوا ہے۔ ایک طرف اس سے انتشار اور نفرتوں میں کمی واقع ہوگی اور دوسری طرف فریقین بھی جان لیں گے کہ مذکورہ مسئلہ میں مضبوط دلائل کی وجہ سے کون حق پر ہے اور کون خطاء کھا رہا ہے۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
اللہ کا لاکھ فضل وکرم ہے کہ اللہ نے ہمیں اہل الحدیث بنایا ہے اور کسی شخصیت سے مرعوب ہونے کے شر سے محفوظ رکھا ہے ۔ ہمارا مسلک اتباع کتاب وسنت ہے ۔ ہمارا بچہ بچہ یہ نعرہء
محترم شیخ ! میں آپ کے جواب سے حیرت زدہ ہی نہیں بلکہ ششدر رہ گیا ہوں۔
معذرت ! مگر مجھے یہ کہنے دیجئے کہ یا تو آپ نے میرا سوال ہی صحیح طرح سمجھا نہیں یا آپ کے پاس میرے سوال کا کوئی جواب نہیں۔
آپ نے جو "مسلک" کی تعریف ، تائید و حمایت میں جو طویل تقریر عرض فرمائی ہے ، ظاہر ہے کہ کم از کم مجھے اس کی ضرورت نہیں :)
میں ایک بار پھر اپنا سوال دہراتا ہوں ، تاکہ آپ سمیت سب کو معلوم ہو کہ میں نے اجتہاد یا استنباط کے انکار کا نہ تو کوئی ذکر چھیڑا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی "قید" کو ترجیح دی ہے۔ میرا سوال صرف اتنا ہے کہ :
مجھے یہ جاننے کی خواہش ہے کہ وہ کون کون سے قابل احترام شارحینِ بخاری ہیں جنہوں نے یہ فیصلہ صادر کیا ہو کہ ارسال الیدین بعد الرکوع کے مسئلہ کی تائید میں یہ حدیثِ بخاری فیصلہ کن " حکم " کی حیثیت رکھتی ہے کہ جس میں تاویل کی گنجائش نہیں ہے ۔
اگر اس ضمن میں اپنی مفید معلومات سے آگاہ کریں تو نوازش ہوگی۔

براہ مہربانی خط کشیدہ الفاظ پر غور فرمائیں۔
آپ یہی سمجھیں کہ میں ہی وہ پہلا شخص ہوں جو صحیح بخاری کی اس روایت سے یہ مطلب و مسئلہ کشید کررہاہوں
کیا میں اس کا یہ مطلب لے سکتا ہوں کہ :
آج تک صحیح بخاری کے کسی ایک بھی شارح نے متذکرہ حدیثِ بخاری سے وہ مطلب و مسئلہ کشید نہیں کیا جو آپ کر رہے ہیں؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
کیا میں اس کا یہ مطلب لے سکتا ہوں کہ :
آج تک صحیح بخاری کے کسی ایک بھی شارح نے متذکرہ حدیثِ بخاری سے وہ مطلب و مسئلہ کشید نہیں کیا جو آپ کر رہے ہیں؟
باذوق بھائی! اگر بالفرض نہیں کیا تو کیا کوئی صاحبِ علم اس قسم کا اجتہاد نہیں کر سکتا؟ جس کی باقاعدہ ٹھوس لغوی یا دیگر کوئی بنیاد ہو؟ جس میں بلا شبہ صحت وضعف دونوں کا امکان ہے۔
لیکن کیا ہم علمی طور پر کتاب وسنت میں اجتہاد یا نئے علمی نکات اخذ کرنے کا باب بند کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ قرآن کریم کے علمی نکات کبھی ختم نہ ہوں گے۔
(پہلے یہاں ایک حدیث ذکر کی گئی تھی، لیکن چونکہ وہ ضعیف ہے، لہٰذا اس پوسٹ کو دوبارہ ایڈٹ کر دیا گیا ہے۔)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
عبدالوکیل ناصر حفطہ اللہ کا زیر نظر مضمون اصل میں حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ کے رسالے ارسال الیدین بعد الرکوع میں بطور ضمیمہ شامل کیا گیا ہے جسے ادارہ اشاعت قرآن و حدیث، کراچی کی جانب سے شائع کیا گیا ہے۔
بہترین اور قابل مطالعہ مضمون ہے۔ شاہد نذیر
آپ حضرات کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ جس لائبریری سے محدث اور رشد جیسے علمی وتحقیقی مجلات نکلتے ہیں اور جہاں سے کتاب سنت ڈاٹ کام اور پھر اس کے بعد علمی ودعوتی محدث فورم کا اجراء کیا گیا ہے، وہ لائبریری در اصل محدث العصر حضرۃ العلام حافظ عبد اللہ محدث روپڑی﷫ کی ہی لائبریری ہے، جسے باقاعدہ سے اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے، اور اس وقت لاہور میں عربی کتابوں کی شائد سب سے بڑی لائبریری ہے۔
ربنا تقبل منا إنك أنت السميع العليم وتب علينا إنك أنت التواب الرحيم
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جزاک اللہ بھائیو۔ اس موضوع پر واقعی بحث کی ضرورت ہے کیونکہ ایک ہی مسجد میں دو ایک ہی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کے طریقہ نماز میں فرق پڑ جاتا ہے ۔ جو کہ بذات خود آپس میں نفرت بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,981
پوائنٹ
323
۱۔محترم شیخ ! میں آپ کے جواب سے حیرت زدہ ہی نہیں بلکہ ششدر رہ گیا ہوں۔
معذرت ! مگر مجھے یہ کہنے دیجئے کہ یا تو آپ نے میرا سوال ہی صحیح طرح سمجھا نہیں یا آپ کے پاس میرے سوال کا کوئی جواب نہیں۔
آپ نے جو "مسلک" کی تعریف ، تائید و حمایت میں جو طویل تقریر عرض فرمائی ہے ، ظاہر ہے کہ کم از کم مجھے اس کی ضرورت نہیں :)
میں ایک بار پھر اپنا سوال دہراتا ہوں ، تاکہ آپ سمیت سب کو معلوم ہو کہ میں نے اجتہاد یا استنباط کے انکار کا نہ تو کوئی ذکر چھیڑا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی "قید" کو ترجیح دی ہے۔ میرا ۲۔سوال صرف اتنا ہے کہ :
مجھے یہ جاننے کی خواہش ہے کہ وہ کون کون سے قابل احترام شارحینِ بخاری ہیں جنہوں نے یہ فیصلہ صادر کیا ہو کہ ارسال الیدین بعد الرکوع کے مسئلہ کی تائید میں یہ حدیثِ بخاری فیصلہ کن " حکم " کی حیثیت رکھتی ہے کہ جس میں تاویل کی گنجائش نہیں ہے ۔
اگر اس ضمن میں اپنی مفید معلومات سے آگاہ کریں تو نوازش ہوگی۔

براہ مہربانی خط کشیدہ الفاظ پر غور فرمائیں۔

۳۔کیا میں اس کا یہ مطلب لے سکتا ہوں کہ :
آج تک صحیح بخاری کے کسی ایک بھی شارح نے متذکرہ حدیثِ بخاری سے وہ مطلب و مسئلہ کشید نہیں کیا جو آپ کر رہے ہیں؟
۱۔ یہ طویل تقریر آپکے لیے نہیں !!!
چونکہ اس فورم پر آپ جیسی شخصیت کے علاوہ کچھ ہمارے نونہالان بھی ہماری ان تحاریر کو پڑھتے ہیں اس لیے اہل السنہ کا منہج ذکر کردینا میں نے ضروری سمجھا۔ آپ کے مستوى علمی سے تو ہم پرانے واقف ہیں اورجانتے ہیں کہ آپ دوحرفی بات اور اشارہ بھی سمجھ جاتے ہیں لیکن چونکہ یہ عبارت صرف آپ نے نہیں پڑھنی تھی اس لیے اسکی وضاحت ضروری سمجھی ۔
۲۔ مجھے معلوم نہیں کہ کسی شارح نے یہ مفہوم کشید کیا ہے یا نہیں ہے , لہذا میں ہاں یاناں میں ہرگز جواب نہیں دے سکتا !!!!!
۳۔ آپ یہ مطلب اس وقت تک ہرگز نہیں لے سکتے جب تک آج تک لکھی گئی تمام تر شروحات بخاری پڑھ نہ لیں !!!
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,981
پوائنٹ
323
لیکن کیا ہم علمی طور پر کتاب وسنت میں اجتہاد یا نئے علمی نکات اخذ کرنے کا باب بند کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ قرآن کریم کے علمی نکات کبھی ختم نہ ہوں گے۔ نبی کریمﷺ کا فرمان عالی شان ہے: « القرآن حبل الله المتين لا تنقضي عجائبه »
میرے محترم!
یہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ہے !!!!
اسے امام ترمذی نے اپنی جامع میں بایں طور نقل فرمایا ہے :
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ قَال سَمِعْتُ حَمْزَةَ الزَّيَّاتَ عَنْ أَبِي الْمُخْتَارِ الطَّائِيِّ عَنْ ابْنِ أَخِي الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ عَنْ الْحَارِثِ قَالَ مَرَرْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ يَخُوضُونَ فِي الْأَحَادِيثِ فَدَخَلْتُ عَلَى عَلِيٍّ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَلَا تَرَى أَنَّ النَّاسَ قَدْ خَاضُوا فِي الْأَحَادِيثِ قَالَ وَقَدْ فَعَلُوهَا قُلْتُ نَعَمْ قَالَ أَمَا إِنِّي قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَلَا إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ فَقُلْتُ مَا الْمَخْرَجُ مِنْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ نَبَأُ مَا كَانَ قَبْلَكُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ وَحُكْمُ مَا بَيْنَكُمْ وَهُوَ الْفَصْلُ لَيْسَ بِالْهَزْلِ مَنْ تَرَكَهُ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَهُ اللَّهُ وَمَنْ ابْتَغَى الْهُدَى فِي غَيْرِهِ أَضَلَّهُ اللَّهُ وَهُوَ حَبْلُ اللَّهِ الْمَتِينُ وَهُوَ الذِّكْرُ الْحَكِيمُ وَهُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ هُوَ الَّذِي لَا تَزِيغُ بِهِ الْأَهْوَاءُ وَلَا تَلْتَبِسُ بِهِ الْأَلْسِنَةُ وَلَا يَشْبَعُ مِنْهُ الْعُلَمَاءُ وَلَا يَخْلَقُ عَلَى كَثْرَةِ الرَّدِّ وَلَا تَنْقَضِي عَجَائِبُهُ هُوَ الَّذِي لَمْ تَنْتَهِ الْجِنُّ إِذْ سَمِعَتْهُ حَتَّى قَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ مَنْ قَالَ بِهِ صَدَقَ وَمَنْ عَمِلَ بِهِ أُجِرَ وَمَنْ حَكَمَ بِهِ عَدَلَ وَمَنْ دَعَا إِلَيْهِ هَدَى إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ خُذْهَا إِلَيْكَ يَا أَعْوَرُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَإِسْنَادُهُ مَجْهُولٌ وَفِي الْحَارِثِ مَقَالٌ
جامع الترمذي ابواب فضائل القرآن باب ما جاء في فضل القرآن حـ 2906

اسکی سند میں ابو المختار الطائی , اور ابن اخی الحارث الاعور , دونوں مجہول ہیں , اور حارث بن عبد اللہ الاعور, تو رافضی اور کذاب ہے !!!
ان تینو رواۃکی موجودگی اس روایت کو بیان کرنا حرام کردیتی ہے الا کہ سقم واضح کرنے کے لیے اسے بیان کیا جائے ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
رفیق طاہر بھائی!
احادیث کی صحت وضعف اور راویوں کے حالات سے مجھے کچھ زیادہ شد بد نہیں، اس سلسلے میں عام طور پر ویب سائٹ الدرر السنية پر خاص طور پر علامہ البانی﷫ کے حکم پر اعتماد کرتا ہوں، اس حدیث کے متعلق وہاں تلاش کیا تو ائمہ ابن تیمیہ﷫ اور ابن حجر﷫ کے حوالے سے جو ملا، اس کا ربط لگا دیا۔
واللہ اعلم!
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,981
پوائنٹ
323
رفیق طاہر بھائی!
احادیث کی صحت وضعف اور راویوں کے حالات سے مجھے کچھ زیادہ شد بد نہیں، اس سلسلے میں عام طور پر ویب سائٹ الدرر السنية پر خاص طور پر علامہ البانی﷫ کے حکم پر اعتماد کرتا ہوں، اس حدیث کے متعلق وہاں تلاش کیا تو ائمہ ابن تیمیہ﷫ اور ابن حجر﷫ کے حوالے سے جو ملا، اس کا ربط لگا دیا۔
واللہ اعلم!
لیں جناب فضیلۃ الشیخ علوی بن عبد القادر السقاف کی آفشل سائیٹ الدرر السنیہ سے اس حدیث کا حکم ملاحظہ فرمائیں :
الدرر السنية - الموسوعة الحديثية
 
Top