• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سعودی مفتی نے بوفے کیخلاف فتویٰ جاری کرتے ہوئے غیر شرعی قرار دیدیا !!!

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
سعودی مفتی صاحب - جو سعودی عرب کی ہیئۃ کبار العلماء میں شامل ہیں - نے بوفے کو غیر شرعی کہنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس میں غرر (دھوکا) ہے۔ اور شریعت اسلامیہ میں دھوکے کی بیع ناجائز ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے:
نَهَى رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ عن بَيعِ الغررِ
قالَ أيُّوبُ : وفسَّرَ يحيى ، بيعَ الغررِ ، قالَ : إنَّ منَ الغَرَرِ ضربةَ الغائصِ ، وبيعُ الغررِ العَبدُ الآبقُ ، وبيعُ البَعيرِ الشَّاردِ ، وبيعُ الغَررِ ما في بطونِ الأنعامِ ، وبيعُ الغَررِ ترابُ المعادِنِ ، وبيعُ الغررِ ما في ضُروعِ الأنعامِ ، إلَّا بِكَيلٍ
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: أحمد شاكر - المصدر: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 4/266
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح


نبی کریمﷺ نے دھوکے کی بیع سے منع فرمایا ہے۔
راویوں کی تشریح کے مطابق دھوکے کی بیع میں غوطہ خور کی غوطے کی قیمت، بھاگے ہوئے غلام اور اونٹ وغیرہ کی بیع، حاملہ جانور کے پیٹ میں موجود بچے کی بیع، ؟؟؟، تھنوں میں موجود دودھ کی بیع وغیرہ وغیرہ شامل ہیں کہ ان تمام میں شے کی مقدار معلوم نہیں۔ البتہ اگر ماپ یا وزن معلوم ہو تو صحیح ہے۔
بوفے میں دھوکے کی صورت مفتی صاحب کے نزدیک یہ ہے کہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ قیمت کتنے وزن اور کتنے کھانوں کی ہے۔ (یہی مفتی صاحب کی دلیل ہے جو ان کے فتویٰ میں موجود ہے۔)

کسی کو اس بارے میں اختلاف ہو سکتا ہے کہ نہیں بوفے میں دھوکہ اور غرر نہیں ہے لہٰذا یہ ناجائز نہیں ہے جیسے مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے کہا ہے

لیکن!!

بلاوجہ اس فتویٰ کا مذاق اڑانا کسی طور پر مناسب نہیں۔ یہ عام طور پر سیکولر حضرات کا انداز ہے کہ بلاوجہ ہی علماء پر اس قسم کے اعتراضات اور مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو کافی عرصہ سے یہ صورتحال ہے۔ عرب ملکوں میں پہلے ایسا نہیں تھا، لیکن حالیہ زمانے میں میں نے محسوس کیا ہے کہ ان میں یہ خرابی شروع ہوچکی ہے اور وہ مفتی صاحبان کے فتاویٰ کی اس قسم کی پھبتیاں بلا وجہ اڑاتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ سیکولر حضرات کا یہ کہنا ہے:

پاکستان میں شہریوں کی بڑٰی تعداد نے بھی اس فتویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا میں اس سے زیادہ اہم معاملات ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی سعودی مفتی کے تازہ فتوے پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ چونکہ دنیا میں آج بڑے بڑے مسائل موجود ہیں لہٰذا عام عبادات ومعاملات وغیرہ میں اللہ ورسول کے احکام کو نظر انداز کر دینا چاہئے!!

انا للہ وانا الیہ راجعون!!

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
سعودی مفتی صاحب نے بوفے کو غیر شرعی کہنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس میں غرر (دھوکا) ہے۔ اور شریعت اسلامیہ میں دھوکے کی بیع ناجائز ہے۔

کسی کو اس بارے میں اختلاف ہو سکتا ہے کہ نہیں بوفے میں دھوکہ اور غرر نہیں ہے لہٰذا یہ ناجائز نہیں ہے جیسے مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے کہا ہے

لیکن!!

بلاوجہ اس فتویٰ کا مذاق اڑانا کسی طور پر مناسب نہیں۔ یہ عام طور پر سیکولر حضرات کا انداز ہے کہ بلاوجہ ہی علماء پر اس قسم کے اعتراضات اور مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو کافی عرصہ سے یہ صورتحال ہے۔ عرب ملکوں میں پہلے ایسا نہیں تھا، لیکن حالیہ زمانے میں میں نے محسوس کیا ہے کہ ان میں یہ خرابی شروع ہوچکی ہے اور وہ مفتی صاحبان کے فتاویٰ کی اس قسم کی پھبتیاں بلا وجہ اڑاتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ سیکولر حضرات کا یہ کہنا ہے:

اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ چونکہ دنیا میں آج بڑے بڑے مسائل موجود ہیں لہٰذا عام عبادات ومعاملات وغیرہ میں اللہ ورسول کے احکام کو نظر انداز کر دینا چاہئے!!

انا للہ وانا الیہ راجعون!!

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
جزاک اللہ خیرا انس بھائی
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
بلاوجہ اس فتویٰ کا مذاق اڑانا کسی طور پر مناسب نہیں۔ یہ عام طور پر سیکولر حضرات کا انداز ہے کہ بلاوجہ ہی علماء پر اس قسم کے اعتراضات اور مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو کافی عرصہ سے یہ صورتحال ہے۔ عرب ملکوں میں پہلے ایسا نہیں تھا، لیکن حالیہ زمانے میں میں نے محسوس کیا ہے کہ ان میں یہ خرابی شروع ہوچکی ہے اور وہ مفتی صاحبان کے فتاویٰ کی اس قسم کی پھبتیاں بلا وجہ اڑاتے رہتے ہیں
”اصولی طور“ پر تو یہ بات درست ہے کہ علمائے کرام کی رائے یا فتویٰ کا مذاق نہیں اڑانا چاہئے، خواہ وہ رائے یا فتویٰ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ علمی انداز میں ایسی رائے کو رَد بھی کیا جاسکتا ہے اور اس کا ”محاسبہ“ بھی کیا جانا چاہئے تاکہ اسلام ”دنیا داروں“ کے نزدیک مذاق بن کر نہ رہ جائے۔ اور دنیا کو یہ معلوم بھی ہوجائے کہ اسلام ”ایسے فتووں“ کا مجموعہ نہیں ہے۔

لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں ہے۔ خود اسی فورم میں مختلف مسالک کے علمائے کرام کی نہ صرف (غلط) رائے کا بے دریغ مذاق اڑایا جاتا ہے بلکہ متعلقہ عالم دین،اس کے مسلک حتیٰ کہ اس مسلک سے ”منسلک“ عوام الناس پر بھی دل کھول کر ”تبرا بازی“ کی جاتی ہے۔ اور بالعموم ایسے مراسلوں کا کوئی ”انتظامی نوٹس“ بھی نہیں لیا جاتا۔ آخر اس ”عملی تربیت“ کا نتیجہ بھی تو نکلنا ہی ہے۔

خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ بلکہ ”پیرائے معترضہ“ تھا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ آج کوئی بھی بات یا خبر انتہائی تیزی سے پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ اور سوشیل میڈیا کی بدولت پوری دنیا کے عوام و خواص کو یہ یکساں سہولت حاصل ہے کہ وہ ہر بات یا خبر پر اپنے ہر قسم کے رد عمل کا اظہار بھی کرسکتے ہیں۔ قبل ازیں یہ سہولت صرف مخصوص اہل قلم کو حاصل تھی۔ لہٰذا آج کے اس عہد میں علمائے کرام اور مفتیان کرام کو فتاویٰ جاری کرتے وقت بہت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اب ان کا ”سامنا“ صرف اہل علم سے ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے عوام سے بھی ہے۔ ”غیر ضروری“ فتووں سے بھی اجتناب کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سیکولر میڈیا انہی ”فتووں کی روشنی“ میں اسلام کو ”مشق ستم“ کا نشانہ بناتا ہے۔ مثلاً آج سے کوئی پون صدی قبل برصغیر کے ایک بڑے عالم دین نے فتویٰ دیا تھا کہ لاؤڈ اسپیکر پر اذان اور نماز نہیں ہوتی۔ گو تب بھی بعض علمائے کرام اس فتویٰ کے خلاف تھے۔ مگر تب یہ فتویٰ عوام میں ”مذاق“ نہیں بنا تھا کہ تب صرف محدود اخبارات و جرائد موجود تھے۔ اگر یہی فتویٰ آج کوئی مفتی دے تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس کے خلاف کیا کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ابھی کل تک ٹی وی کو ہی (قطع نظر اس کے غیر اسلامی پروگراموں کے) حرام قرار دیا جاتا رہا ہے۔ آج یہی فتویٰ دینے والے خود اپنے ٹی وی چینل قائم کر رہے ہیں۔

ابھی چند برس قبل ایک ممتاز سعودی عالم دین نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ اگر شوہر بیوی کی پٹائی کرے تو جواباً بیوی بھی شوہر پر ہاتھ اٹھا سکتی ہے۔ اس فتویٰ کو حقوق نسواں کی تنظیموں نے خوب خوب اچھالنے کی کوشش کی۔ اب ایسے فتووں کا تو مذاق ہی اڑنا ہے۔



 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
”اصولی طور“ پر تو یہ بات درست ہے کہ علمائے کرام کی رائے یا فتویٰ کا مذاق نہیں اڑانا چاہئے، خواہ وہ رائے یا فتویٰ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ علمی انداز میں ایسی رائے کو رَد بھی کیا جاسکتا ہے اور اس کا ”محاسبہ“ بھی کیا جانا چاہئے تاکہ اسلام ”دنیا داروں“ کے نزدیک مذاق بن کر نہ رہ جائے۔ اور دنیا کو یہ معلوم بھی ہوجائے کہ اسلام ”ایسے فتووں“ کا مجموعہ نہیں ہے۔

لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں ہے۔ خود اسی فورم میں مختلف مسالک کے علمائے کرام کی نہ صرف (غلط) رائے کا بے دریغ مذاق اڑایا جاتا ہے بلکہ متعلقہ عالم دین،اس کے مسلک حتیٰ کہ اس مسلک سے ”منسلک“ عوام الناس پر بھی دل کھول کر ”تبرا بازی“ کی جاتی ہے۔ اور بالعموم ایسے مراسلوں کا کوئی ”انتظامی نوٹس“ بھی نہیں لیا جاتا۔ آخر اس ”عملی تربیت“ کا نتیجہ بھی تو نکلنا ہی ہے۔
علماء کی آراء کا مذاق اور ان کے اقوال کی توہین یہ ایک المیہ ہے جس میں بلا استثناء تمام مذاہب و جماعتیں اور فِرَق کے بعض لوگ نظر آتے ہیں ۔ اللہ ہمیں اہل علم کی قدر کی توفیق عنایت فرمائے ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ بلکہ ”پیرائے معترضہ“ تھا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ آج کوئی بھی بات یا خبر انتہائی تیزی سے پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ اور سوشیل میڈیا کی بدولت پوری دنیا کے عوام و خواص کو یہ یکساں سہولت حاصل ہے کہ وہ ہر بات یا خبر پر اپنے ہر قسم کے رد عمل کا اظہار بھی کرسکتے ہیں۔ قبل ازیں یہ سہولت صرف مخصوص اہل قلم کو حاصل تھی۔ لہٰذا آج کے اس عہد میں علمائے کرام اور مفتیان کرام کو فتاویٰ جاری کرتے وقت بہت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اب ان کا ”سامنا“ صرف اہل علم سے ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے عوام سے بھی ہے۔ ”غیر ضروری“ فتووں سے بھی اجتناب کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سیکولر میڈیا انہی ”فتووں کی روشنی“ میں اسلام کو ”مشق ستم“ کا نشانہ بناتا ہے۔ مثلاً آج سے کوئی پون صدی قبل برصغیر کے ایک بڑے عالم دین نے فتویٰ دیا تھا کہ لاؤڈ اسپیکر پر اذان اور نماز نہیں ہوتی۔ گو تب بھی بعض علمائے کرام اس فتویٰ کے خلاف تھے۔ مگر تب یہ فتویٰ عوام میں ”مذاق“ نہیں بنا تھا کہ تب صرف محدود اخبارات و جرائد موجود تھے۔ اگر یہی فتویٰ آج کوئی مفتی دے تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس کے خلاف کیا کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ابھی کل تک ٹی وی کو ہی (قطع نظر اس کے غیر اسلامی پروگراموں کے) حرام قرار دیا جاتا رہا ہے۔ آج یہی فتویٰ دینے والے خود اپنے ٹی وی چینل قائم کر رہے ہیں۔

’غیر ضروری‘ فتووں سے ہر دور میں، ہر وقت ہی اجتناب کرنا چاہئے خواہ سننے والے تھوڑے ہوں یا زیادہ! کیونکہ یہ بہت حساس معاملہ ہے کہ بات ’دین اسلام‘ سے متعلق ہے، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ یا ان کی طرف سے رسول کریمﷺ ہی حکم صادر فرما سکتے ہیں، اگر لا علمی میں بات کی جائے تو ڈر ہے کہ کہیں افتراء علی اللہ وافتراء علی الرسول نہ ہوجائے جو اکبر الکبائر میں سے ہیں۔

البتہ درج بالا فتویٰ میں مجھے کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی۔
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
السلام علیکم
یہ تو وہی بات ہوئی کہ شراب کے فائدے کم اور نقصان بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اس بنا پر شراب کو صحیح نہیں کہا جا سکتا.
کوئی ایک فائدہ بتائیں گے بھائی صاحب؟
باقی بوفے جانا جن لوگوں کو فائدہ مند لگتا ہے وہی جاتے ہیں عام لوگوں کے بارے میں کہہ چکا کہ وہ بوفے جانے کا کبھی سوچتے بھی نہیں ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بوفے کھانا جائز ہے۔امام وخطیب مسجد الحرام الشیخ دکتور سعود شریم۔


"الشريم": "البوفيه المفتوح" جائز لأن الثمن والطعام معلومان!


إبراهيم الحذيفي- سبق: أجاز إمام وخطيب المسجد الحرام، الشيخ الدكتور سعود الشريم، البوفيه المفتوح، مخالفاً الفتوى التي صدرت من الشيخ صالح الفوزان بتحريمه، وقال الشريم: إن "اﻷصل في المعاملات اﻹباحة، ولا يحرم شيء إلا بدليل يجب الرجوع إليه؛ لقول الله- عز وجل-: "وأحل الله البيع وحرم الربا".
وأوضح الشيخ "الشريم" أن "مدار الخلاف في قول من أجاز البوفيه المفتوح وقول من حرمه؛ هو: هل الجهالة متحققة في هذا البيع أم لا؛ ﻷن النبي- صلى الله عليه وسلم- "نهى عن بيع الغرر". رواه مسلم. وينبني على هذه المسألة مسائل كثيرة مشابهة لها؛ مثل: دخول صالة ألعاب بثمن معين، واللعب دون مدة أو عدد معين، وكذلك بيع كل شيء بريال، أو نحو ذلك.
وتابع: "من تأمل المسألة وجد أن الثمن معلوم، والطعام أمامه معلوم، وفي الغالب أنه يعلم مقدار أكله، ولا تضره جهالة يسيرة يصعب التخلص منها غالب اﻷحيان، وﻷن المراد من البوفيه أكل شيء يشاهده؛ فلا جهالة فيه إذن، ولا علاقة له بشبع المشتري؛ ﻷنه لا تأثير له في الحكم، وإنما التأثير في معرفة المأكول".
ودعا "الشريم" اﻷمة إلى "أن ترعى حق علمائها بتوقيرهم وإنزالهم منازلهم من العلم والمعرفة والثقة؛ فقد حمَّلهم الله الاجتهاد والفتوى، وليس عيبًا أن يكون هناك سؤال عن حكم البوفيه المفتوح، وليس عيبًا على العالم أن يفتي فيه؛ فلكل سؤال جواب، وليست الفتوى مختصة بالمسائل الكبار فحسب".
وأضاف: "لا ينبغي احتقار أي سؤال في العبادات أو المعاملات مهما صغر شأنه، فقد قيل لسلمان الفارسي: قد علمكم نبيكم كل شيء حتى الخراءة" يعني قضاء الحاجة.

لنک
خضر حیات بھائی سےترجمے کی گزارش ہے تاکہ اراکین فورم آگاہ ہو سکیں۔
جزاک اللہ خیرا
 
Top