• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سعودی مفتی نے بوفے کیخلاف فتویٰ جاری کرتے ہوئے غیر شرعی قرار دیدیا !!!

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
میں تو سمجھا تھا کہ شاید کوئی حدیث پیش کی جائے گی فائدہ دکھانے کے لئے ۔
میں نے کب کہا کہ میں آپ کو قرآن یا حدیث سے جواب دوں گا اس پر؟؟
میں آپ کو سمجھانے کے لئے کہا تھا کہ لوگوں کی سوچ اس طرح ہے جو لوگ شراب پیتے ہیں وہ اسی طرح کا بہانا بناتے ہیں اور شراب پیتے ہیں، یہاں بات ہو رہی ہے بوفے کی تو یہاں اسباب بیان کیے جا رہے ہیں کہ کیوں بوفے میں فایدہ ہے یا نقصان.
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
میں تو سمجھا تھا کہ شاید کوئی حدیث پیش کی جائے گی فائدہ دکھانے کے لئے ۔

حدیث نہیں قرآن پیش ہے، ”فائدہ“ دکھانے کے لئے:

سُوۡرَةُ البَقَرَة
۞ يَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلۡخَمۡرِ وَٱلۡمَيۡسِرِ‌ۖ قُلۡ فِيهِمَآ إِثۡمٌ۬ ڪَبِيرٌ۬ وَمَنَـٰفِعُ لِلنَّاسِ وَإِثۡمُهُمَآ أَڪۡبَرُ مِن نَّفۡعِهِمَا‌ۗ وَيَسۡـَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ ٱلۡعَفۡوَ‌ۗ كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمُ ٱلۡأَيَـٰتِ لَعَلَّڪُمۡ تَتَفَكَّرُونَ (٢١٩)


سورة البَقَرَة
لوگ آپ سے شراب اور قمار کی نسبت دریافت کرتے ہیں۔ آپ فرمادیجیے کہ ان دونوں (کے استعمال) میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں بھی ہیں اور لوگوں کو (بعضے) فائدے بھی ہیں اور (وہ) گناہ کی باتیں ان فائدوں سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں اور لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ (خیرخیرات میں) کتنا خرچ کیا کریں آپ فرمادیجیے کہ جتنا آسان ہو الله تعالیٰ اسی طرح احکام کوصاف صاف بیان فرماتے ہیں تاکہ تم دنیا و آخرت کے معاملات میں سوچ لیا کرو۔ (۲۱۹)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم سب بھائیوں کی رائے دیکھیں -

اب میری اس امیج میں رائے نمبر 5 - (اسراف کرنے والے) کو دیکھیں-

کیا اللہ سبحان و تعالیٰ کو یہ پسند ہیں - یہ تو ایک پہلو ہے -

1000590_631872903534793_1533465848_n (1).jpg

الحمد للہ :

ہرچیز میں اسراف اورفضول خرچی مذموم اورممنوع ہے ، اورخاص کرکھانے پینے میں اوربھی زيادہ ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ کھاؤ پیؤ اوراسراف وفضول خرچی نہ کرو ، یقینا اللہ تعالی اسراف کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا } الاعراف ( 31 ) ۔
اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اس طرح فرمایا :

( آدمی کےلیے سب سے برا برتن اس کا بھرا ہوا پیٹ ہے ، ابن آدم کو چند لقمے ہی کافی ہیں جن سے وہ اپنی پیٹھ سیدھی رکھے ، اگر وہ ضرورہی بھرنا چاہے تو ( پیٹ کےتین حصے کرے ) ایک کھانے کےلیے ، اورایک پینے کے لیے ، اور ایک حصہ سانس کے لیے )

سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2380 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 3349 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ترمذی ( 1939 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
کھانے پینے میں اسراف کے اندر بہت سے مفاسد پائے جاتے ہیں جن میں سے چند ایک کوذیل میں ذکر کیا جاتا ہے :

انسان دنیا میں جتنی بھی اچھی پاکیزہ نعمتیں حاصل کرتا ہے اس کا آخرت میں اتنا ہی حصہ کم ہوجاتا ہے ۔

امام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے ابوجحیفہ رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( دنیا میں زيادہ پیٹ بھر کرکھانے والے روزقیامت سب سے زيادہ بھوکے ہوں گے ) ۔
اورابن ابی الدنیا نے کچھ الفاظ کی زیادتی کے ساتھ روایت کی ہے :

توابوجحیفہ رضي اللہ تعالی عنہ نے موت تک کبھی بھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا ۔

علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ ( 342 ) ۔
عمر رضي اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :

اللہ کی قسم اگر میں چاہوں تو تم سے بہتر اورنرم لباس زيب تن کرسکتا ہوں ، اورتم سے اچھا اوربہتر کھانا کھا سکتاہوں ، اورتم سے بہتر اوراچھی زندگی بسر کرسکتا ہوں ، لیکن میں نے دیکھا ہے کہ اللہ تعالی نے ایک قوم کو ان کے فعل کی وجہ سے عار دلاتے ہوئے فرمایا ہے :

{ تم نے اپنی نیکیاں دنیا کی زندگي میں ہی برباد کردیں اوران کے فائدے اٹھا چکے ، پس آج تمہیں ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی ، اس باعث کہ تم زمین میں ناحق تکبر کیا کرتے تھے ، اوراس باعث بھی کہ تم حکم عدولی کیا کرتے تھے } الاحقاف ( 20 ) ۔ دیکھیں حلیۃ الاولیاء ( 1 / 49 ) ۔

یہ بھی ہے کہ :

زيادہ کھانے پینے کی وجہ انسان بہت ساری اطاعات کرنے سے مشغول ہوجاتا ہے اورکما حقہ اطاعات نہیں کرسکتا ، مثلا قرآن مجید کی تلاوت وغیرہ ، حالانکہ ضروری تو یہ ہے کہ مسلمان کے لیے اس مہینہ میں شغل ہی اطاعت ہونا چاہیے جیسا کہ سلف صالحین کی عادت تھی ۔

آپ دیکھتے ہونگے کہ عورت دن کا اکثر حصہ باورچی خانے میں کھانے پکانے کے لیے ہی صرف کردیتی ہے ، اوراسی طرح رات کا بھی اکثر حصہ کھانے پکانے اورمشروبات تیار کرنے میں گزر جاتا ہے ۔

مفاسد میں یہ بھی ہے کہ : انسان جب زيادہ کھائے پیے تواس میں سستی پیدا ہوجاتی ہے ، اورنیند بھی زيادہ آتی ہے ، جس سے وہ اپنا زيادہ وقت ضائع کربیٹھتا ہے ۔

سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

جب آپ اپنے جسم کو صحیح رکھنا چاہتے اورنیند کم کرنا چاہتے ہیں توکھانا کم کھایا کرو ۔

یہ بھی ہے کہ :

زيادہ کھانے سے قلبی غفلت پیدا ہوتی ہے ۔
امام احمد رحمہ اللہ تعالی سے پوچھا گیا کہ :
کیا پیٹ بھر کرکھانے والا کو رقت قلبی حاصل ہوتی ہے ؟

امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے کہا : میرے خیال میں ایسا نہیں ہوتا ، یعنی اسے یہ حاصل نہیں ہوسکتی ۔

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 
  • پسند
Reactions: Dua

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بوفے کھانا جائز ہے۔امام وخطیب مسجد الحرام الشیخ دکتور سعود شریم۔


"الشريم": "البوفيه المفتوح" جائز لأن الثمن والطعام معلومان!


إبراهيم الحذيفي- سبق: أجاز إمام وخطيب المسجد الحرام، الشيخ الدكتور سعود الشريم، البوفيه المفتوح، مخالفاً الفتوى التي صدرت من الشيخ صالح الفوزان بتحريمه، وقال الشريم: إن "اﻷصل في المعاملات اﻹباحة، ولا يحرم شيء إلا بدليل يجب الرجوع إليه؛ لقول الله- عز وجل-: "وأحل الله البيع وحرم الربا".
وأوضح الشيخ "الشريم" أن "مدار الخلاف في قول من أجاز البوفيه المفتوح وقول من حرمه؛ هو: هل الجهالة متحققة في هذا البيع أم لا؛ ﻷن النبي- صلى الله عليه وسلم- "نهى عن بيع الغرر". رواه مسلم. وينبني على هذه المسألة مسائل كثيرة مشابهة لها؛ مثل: دخول صالة ألعاب بثمن معين، واللعب دون مدة أو عدد معين، وكذلك بيع كل شيء بريال، أو نحو ذلك.
وتابع: "من تأمل المسألة وجد أن الثمن معلوم، والطعام أمامه معلوم، وفي الغالب أنه يعلم مقدار أكله، ولا تضره جهالة يسيرة يصعب التخلص منها غالب اﻷحيان، وﻷن المراد من البوفيه أكل شيء يشاهده؛ فلا جهالة فيه إذن، ولا علاقة له بشبع المشتري؛ ﻷنه لا تأثير له في الحكم، وإنما التأثير في معرفة المأكول".
ودعا "الشريم" اﻷمة إلى "أن ترعى حق علمائها بتوقيرهم وإنزالهم منازلهم من العلم والمعرفة والثقة؛ فقد حمَّلهم الله الاجتهاد والفتوى، وليس عيبًا أن يكون هناك سؤال عن حكم البوفيه المفتوح، وليس عيبًا على العالم أن يفتي فيه؛ فلكل سؤال جواب، وليست الفتوى مختصة بالمسائل الكبار فحسب".
وأضاف: "لا ينبغي احتقار أي سؤال في العبادات أو المعاملات مهما صغر شأنه، فقد قيل لسلمان الفارسي: قد علمكم نبيكم كل شيء حتى الخراءة" يعني قضاء الحاجة.

لنک
خضر حیات بھائی سےترجمے کی گزارش ہے تاکہ اراکین فورم آگاہ ہو سکیں۔
جزاک اللہ خیرا
اس عبارت کا خلاصہ چند نکات میں یوں ہے :
1۔ شریم صاحب حفظہ اللہ کے نزدیک بوفیہ جائز ہے ۔ کیونکہ قرآن وسنت میں اس کی ممانعت پر واضح دلیل موجود نہیں ۔
2۔ بوفیہ کے جواز اور عدم جواز میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ یہ ’’ غرر ‘‘ میں آتا ہے کہ نہیں ؟ ( کیونکہ بیع الغرر بالاتفاق ممنوع اور حرام ہے ۔ ) مانعین کے نزدیک اس میں کھانے کی مقدار معلوم نہ ہونے کی وجہ سے جہالت ہے لہذا یہ غرر میں شامل ہے ۔ جبکہ جواز کے قائلین کے نزدیک اس میں غرر نہیں کیونکہ یہاں قیمت بھی طے ہے اور کھانا بھی سب کے سامنے متعین ہوتا ہے ۔ اور یہ بھی عموما معلوم ہی ہوتا ہے کہ ایک آدمی اندازا کتنا کھاتا ہے ۔
3۔ کہتے ہیں کہ علماء کی عزت و توقیر کرنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالی نے ان کو بلند مقام سے نوازا ہے ۔ اور ویسے بھی اس فتوی کو بنیاد بناکر شیخ فوازان کا مذاق اڑانے کا کوئی معنی نہیں بنتا ۔ بوفیہ کے بارے میں فتوی پوچھنا عیب نہیں اور نہ ہی اس کا جواب دینا کوئی عجیب بات ہے ۔ دینی مسائل میں سے کسی بھی چھوٹے بڑے مسئلہ کو حقیر یا غیر اہم نہیں سمجھنا چاہیے
( چھوٹے بڑے میں یوں تفریق کا انداز تو اہل کتاب کا ہے ) انہوں نے حضرت سلمان الفارسی کو کہا تھا کہ تمہارا نبی تمہیں قضائے حاجت جیسے مسائل بھی بتاتا ہے !
یہ تھا خلاصہ شریم کے فتوی کے اور ان کے نزدیک بوفیہ سے کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ۔
مزید وضاحت کے لیے کچھ گزراشات کا اضافہ کروں گا :
یہ مسئلہ ایسا نہیں کہ شیخ فوزان سے پہلی دفعہ پوچھا گیا ہے اور انہوں نے اس کی تحریم کا فتوی دیا ہے اور اب اس کے بعد شریم صاحب نے جواز کا فتوی فرمایا ہے ۔ بلکہ یہ مسئلہ دیگر علماء کے ہاں بھی زیر بحث رہا ہے ۔ چنانچہ دونوں طرف کبار علماء ہیں جو اپنے اپنے موقف کے دلائل پیش کرچکے ہیں ۔ جواز کے قائلین میں سے ایک بڑا نام شیخ ابن عثیمین کا ہے ۔
جبکہ مانعین میں شیخ محمد مختار شنقیطی ہیں ۔
یہ مسئلہ مختلف فیہ کیوں ہے اس کی طرف اشارہ شریم کے فتوی میں بھی گزر چکا لیکن مزید وضاحت کچھ یوں ہے :
صحیح مسلم کے اندر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے :
نہی عن بیع الغرر
کہ آپ نے جس بیع کے اندر دھوکہ ہو اس سے منع فرمایا ہے ۔
بیع کے اندر دھوکہ کیسے ہوتا ہے اس کی مختلف صورتیں ہیں مثلا کہنا کہ اس تالاب کے اندر جتنی مچھلیاں ہیں وہ آپ کے لیے مثلا 1000 ہزار روپے کی ہیں ۔ اب یہاں مچھلیاں کیسی ہیں ؟ کتنی ہیں ؟ یہ سب مجھول ہے اس لیے یہ بیع جائز نہیں ۔ یا کوئی کہے کہ یہ موٹر سائیکل میں آپ سے خریدتا ہوں ان تمام پیسوں کی جتنے میری جیب میں ہیں ۔ تو یہاں قیمت میں دھوکہ ہے کیونکہ جیب میں ایک روپیہ سے لے کر بڑی سے بڑی رقم ہوسکتی ہے ۔
اب یہ صورتیں باتفاق علماء ناجائز اور ممنوع ہیں ۔ اس کو پہلی قسم تصور کریں ۔
دوسری طرف خرید و فروخت کی کچھ ایسی صورتیں ہیں جن میں تھوڑا بہت غرر کا احتمال ہوتا ہے مثلا کسی جگہ حمام میں نہانے کی قیمت ( یا کرایہ ) 20 روپے ہیں ۔ اب ہر ایک آدمی سے 20 روپے ہی لیے جاتے ہیں حالانکہ کچھ آدمی تھوڑا پانی ( یا دیگر لوازمات صابن وغیرہ ) استعمال کرتے ہیں کچھ لوگ زیادہ استعمال کرتے ہیں ۔
یا بعض دفعہ جہالت کی حالت میں سودا کرنا مجبوری ہوتی ہے مثلا جب کسی جانور کی خرید و فروخت کی جاتی ہے مثلا گائے کی تو اس کے ساتھ ہی اس کے پیٹ کے اندر بچہ بھی فروخت ہوتا ہے حالانکہ اس کی کیفیت معلوم نہیں ہوتی ۔ وہ صحت مند بھی ہوسکتا ہے کمزور بھی ہوسکتا ہے حتی کہ زندہ یا مردہ کا بھی احتمال موجود ہوتا ہے ۔
اب یہاں اسی جہالت کی حالت میں بیع ہوتی ہے اور یہ سب کے نزدیک جائز ہے کیونکہ یہاں مجبوری ہے کہ گائے کا پیٹ پھاڑ کر تو دیکھا نہیں جاسکتا ۔
غرر کی یہ ہلکی اور مجبوری والی صورتوں کے جائز ہونے پر امت کا اجماع ہے ۔ اس کو دوسری قسم تصور کریں ۔
غرر کی ایک تیسری قسم بھی ہے یہ ان اشیاء سے متعلقہ غرر ہے ( یا غرر کی وہ صورتیں ہیں ) جو واضح طور پر نہ تو پہلی قسم سے ہوتا ہے کہ اس کو حرام کہا جائے اور نہ ہی دوسری قسم سے ہوتا ہے کہ اس کو جائز کہا جائے ۔
اب یہاں غرر متعین کرنے میں علماء کی آراء مختلف ہوجاتی ہیں بعض علماء اس کو پہلی قسم سے ملاتے ہیں تو ان کے نزدیک وہ بھی ناجائز اور ممنوع ہوتا ہے بعض اس کو دوسری صورت سے ملاتے ہیں چنانچہ ان کے نزدیک یہ جائز ہوتا ہے ۔
علامہ قرافی مالکی کی درج ذیل عبارت کا یہی مفہوم ہے فرماتے ہیں :
قال القرافي : الغرر والجهالة - أي في البيع - ثلاثة أقسام : كثير ممتنع إجماعا , كالطير في الهواء , وقليل جائز إجماعا , كأساس الدار وقطن الجبة , , ومتوسط اختلف فيههل يلحق بالأول أم بالثاني ؟ وقال ابن رشد الحفيد : الفقهاء متفقون على أن الغرر الكثير في المبيعات لا يجوز ، وأن القليل يجوز.
اب بوفیہ کے اندر جس قسم کا غرر پایا جاتا ہے وہ اسی تیسری قسم سے کہا جاسکتا ہے ۔ اس کی مزید وضاحت شیخ ابن عثیمین کی درج ذیل عبارت سے ہو گی فرماتے ہیں :
" الشرح الممتع " (4/322)


"مسألة : هناك محلات تبيع الأطعمة تقول : ادفع عشرين ريالا والأكل حتى الشبع ؟
الجواب : الظاهر أن هذا يتسامح فيه ؛ لأن الوجبة معروفة ، وهذا مما تتسامح فيه العادة ، ولكن لو عرف الإنسان من نفسه أنه أكول فيجب أن يشترط على صاحب المطعم ؛ لأن الناس يختلفون " .

سائل : بعض ہوٹلوں والے کہتے ہیں کہ 20 ریال ادا کریں اور پیٹ بھرنے تک کھاتے رہیں ؟
شیخ : ظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس میں نرمی کرنی چاہیے کیونکہ عموما آدمی جتنا کھاتا ہے وہ سب کے ہاں معروف ہے ۔ ہاں البتہ اگر کسی انسان کو پتہ ہو کہ وہ خلاف عادت عام انسانوں سے بڑھ کر زیادہ کھاتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہوٹل کے مالک کو اس سے باخبر کردے ( تاکہ وہ دھوکے میں نہ رہے ) ۔
شیخ کا فتوی جواز کا ہے لیکن اس میں دو باتیں بہت واضح ہیں :
1۔ ایک تو کھانے کو والے کو حسب عادت ہی کھانا چاہیے ( نہ یہ کہ اب پیسے تو دیے ہی ہیں لہذا کسر نکال لیں ۔ ابتسامہ )
2۔ اگر کوئی معروف مقدار اور عادت سے زیادہ کھاتا ہو ( یا کھانے کی نیت ہو ) تو اسے ہوٹل والے کو باخبر کرنا ضروری ہے ۔
اب پہلی صورت میں ہوٹل والے کے ساتھ کھانے کی مقدار طے کرنے کااس وجہ سے نہیں کہا کیونکہ ایس صورت میں غرر بالکل تھوڑا ہوتا ہے ۔
جبکہ دوسری صورت میں ہوٹل والے کے ساتھ پہلے سے طے کرنا ضروری کیوں قرار دیا ہے کیونکہ یہاں غرر کثیر کا احتمال موجود ہے ۔
گزارش :
اس طرح کے مسائل میں فریقین کے دلائل دیکھ لینے چاہییں اور انصاف کے ساتھ جو بات زیادہ درست لگے اس پر عمل کرنا چاہیے ۔
اس طرح کے مسائل جن میں اختلاف ہو ان میں واقع ہونے سے پرہیز کرنا بھی ایک بہترین طریقہ ہے تاکہ آدمی مختلف فیہ اور شک و شبہ والی صورت سے نکل جائے ۔ واللہ اعلم ۔
ایک سوال :
یہ بوفیہ کا نظام شروع کب سے ہوا ؟ اور کہاں سے آیا ؟
کوئی بھائی اس سلسلے میں معلومات رکھتے ہوئے ضرور بیان فرمائیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بعض بھائی بوفیہ کی حلت و حرمت میں اسراف اور عدم اسراف کے حوالے سے دلائل پیش کر رہے ہیں میرے خیال سےیہ درست نہیں ۔
کیونکہ اسراف کا اس مسئلہ کے جواز یا عدم جواز کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں ۔
کیونکہ اسراف تو اس وقت بھی حرام اور ناجائز ہے جب ایک آدمی قیمت متعین کرکے متعین مقدار میں ضرورت سے زیادہ کھانا لے اور پھر اس کو ضائع کردے ۔
اب اسراف تو یہاں بھی پایا جارہا ہے لیکن اس فضول خرچی کی مذمت کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسی صورت میں خرید و فروخت ہی ممنوع یا ناجائز ہے ۔ واللہ اعلم ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بعض بھائی بوفیہ کی حلت و حرمت میں اسراف اور عدم اسراف کے حوالے سے دلائل پیش کر رہے ہیں میرے خیال سےیہ درست نہیں ۔
کیونکہ اسراف کا اس مسئلہ کے جواز یا عدم جواز کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں ۔
کیونکہ اسراف تو اس وقت بھی حرام اور ناجائز ہے جب ایک آدمی قیمت متعین کرکے متعین مقدار میں ضرورت سے زیادہ کھانا لے اور پھر اس کو ضائع کردے ۔
اب اسراف تو یہاں بھی پایا جارہا ہے لیکن اس فضول خرچی کی مذمت کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسی صورت میں خرید و فروخت ہی ممنوع یا ناجائز ہے ۔ واللہ اعلم ۔

جزاک اللہ خیرا -
 
شمولیت
ستمبر 23، 2014
پیغامات
23
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
13
اسلام ٹائمز: فتویٰ پر مفتی منیب الرحمان کہتے ہیں کہ بوفے کے تمام معاملات دو فریقین پر واضح ہیں اور شر کا باعث نہیں جبکہ پاکستان میں شہریوں کی بڑی تعداد نے بھی اس فتویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں اس سے زیادہ اہم معاملات ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

مفتی منیب الرحمان شائد کہہ رہے ہیں پہلے ایمان اور کفر کا عوام کو علم ہونا چاہیئے۔ لیکن جاہل عوام کسی عالم کی بات کو کیسے مسترد کر سکتے ہیں بغیر دلیل جانے یا بات کو سمجھے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ایک سوال :
یہ بوفیہ کا نظام شروع کب سے ہوا ؟ اور کہاں سے آیا ؟
کوئی بھائی اس سلسلے میں معلومات رکھتے ہوئے ضرور بیان فرمائیں ۔
یادہانی!
 

فلک شیر

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2013
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
100
پوائنٹ
81
بصد ادب..............کیا اسلامی ممالک کسی قسم کا اسلامی مالیاتی نظام ترتیب دے پائے ہیں، جو بین الاقوامی لین دین کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہو؟
سوال شاید یہاں مناسب نہ ہو..........لیکن جس قسم کی "دقیق"علمی تحقیقات سے متعلق یہ دھاگہ ہے، مجھے امید ہے جواب اثبات میں آئے گا :)
 
Top