بوفے کھانا جائز ہے۔امام وخطیب مسجد الحرام الشیخ دکتور سعود شریم۔
"الشريم": "البوفيه المفتوح" جائز لأن الثمن والطعام معلومان!
إبراهيم الحذيفي- سبق: أجاز إمام وخطيب المسجد الحرام، الشيخ الدكتور سعود الشريم، البوفيه المفتوح، مخالفاً الفتوى التي صدرت من الشيخ صالح الفوزان بتحريمه، وقال الشريم: إن "اﻷصل في المعاملات اﻹباحة، ولا يحرم شيء إلا بدليل يجب الرجوع إليه؛ لقول الله- عز وجل-: "وأحل الله البيع وحرم الربا".
وأوضح الشيخ "الشريم" أن "مدار الخلاف في قول من أجاز البوفيه المفتوح وقول من حرمه؛ هو: هل الجهالة متحققة في هذا البيع أم لا؛ ﻷن النبي- صلى الله عليه وسلم- "نهى عن بيع الغرر". رواه مسلم. وينبني على هذه المسألة مسائل كثيرة مشابهة لها؛ مثل: دخول صالة ألعاب بثمن معين، واللعب دون مدة أو عدد معين، وكذلك بيع كل شيء بريال، أو نحو ذلك.
وتابع: "من تأمل المسألة وجد أن الثمن معلوم، والطعام أمامه معلوم، وفي الغالب أنه يعلم مقدار أكله، ولا تضره جهالة يسيرة يصعب التخلص منها غالب اﻷحيان، وﻷن المراد من البوفيه أكل شيء يشاهده؛ فلا جهالة فيه إذن، ولا علاقة له بشبع المشتري؛ ﻷنه لا تأثير له في الحكم، وإنما التأثير في معرفة المأكول".
ودعا "الشريم" اﻷمة إلى "أن ترعى حق علمائها بتوقيرهم وإنزالهم منازلهم من العلم والمعرفة والثقة؛ فقد حمَّلهم الله الاجتهاد والفتوى، وليس عيبًا أن يكون هناك سؤال عن حكم البوفيه المفتوح، وليس عيبًا على العالم أن يفتي فيه؛ فلكل سؤال جواب، وليست الفتوى مختصة بالمسائل الكبار فحسب".
وأضاف: "لا ينبغي احتقار أي سؤال في العبادات أو المعاملات مهما صغر شأنه، فقد قيل لسلمان الفارسي: قد علمكم نبيكم كل شيء حتى الخراءة" يعني قضاء الحاجة.
لنک
خضر حیات بھائی سےترجمے کی گزارش ہے تاکہ اراکین فورم آگاہ ہو سکیں۔
جزاک اللہ خیرا
اس عبارت کا خلاصہ چند نکات میں یوں ہے :
1۔ شریم صاحب حفظہ اللہ کے نزدیک بوفیہ جائز ہے ۔ کیونکہ قرآن وسنت میں اس کی ممانعت پر واضح دلیل موجود نہیں ۔
2۔ بوفیہ کے جواز اور عدم جواز میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ یہ ’’ غرر ‘‘ میں آتا ہے کہ نہیں ؟ ( کیونکہ بیع الغرر بالاتفاق ممنوع اور حرام ہے ۔ ) مانعین کے نزدیک اس میں کھانے کی مقدار معلوم نہ ہونے کی وجہ سے جہالت ہے لہذا یہ غرر میں شامل ہے ۔ جبکہ جواز کے قائلین کے نزدیک اس میں غرر نہیں کیونکہ یہاں قیمت بھی طے ہے اور کھانا بھی سب کے سامنے متعین ہوتا ہے ۔ اور یہ بھی عموما معلوم ہی ہوتا ہے کہ ایک آدمی اندازا کتنا کھاتا ہے ۔
3۔ کہتے ہیں کہ علماء کی عزت و توقیر کرنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالی نے ان کو بلند مقام سے نوازا ہے ۔ اور ویسے بھی اس فتوی کو بنیاد بناکر شیخ فوازان کا مذاق اڑانے کا کوئی معنی نہیں بنتا ۔ بوفیہ کے بارے میں فتوی پوچھنا عیب نہیں اور نہ ہی اس کا جواب دینا کوئی عجیب بات ہے ۔ دینی مسائل میں سے کسی بھی چھوٹے بڑے مسئلہ کو حقیر یا غیر اہم نہیں سمجھنا چاہیے
( چھوٹے بڑے میں یوں تفریق کا انداز تو اہل کتاب کا ہے ) انہوں نے حضرت سلمان الفارسی کو کہا تھا کہ تمہارا نبی تمہیں قضائے حاجت جیسے مسائل بھی بتاتا ہے !
یہ تھا خلاصہ شریم کے فتوی کے اور ان کے نزدیک بوفیہ سے کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ۔
مزید وضاحت کے لیے کچھ گزراشات کا اضافہ کروں گا :
یہ مسئلہ ایسا نہیں کہ شیخ فوزان سے پہلی دفعہ پوچھا گیا ہے اور انہوں نے اس کی تحریم کا فتوی دیا ہے اور اب اس کے بعد شریم صاحب نے جواز کا فتوی فرمایا ہے ۔ بلکہ یہ مسئلہ دیگر علماء کے ہاں بھی زیر بحث رہا ہے ۔ چنانچہ دونوں طرف کبار علماء ہیں جو اپنے اپنے موقف کے دلائل پیش کرچکے ہیں ۔ جواز کے قائلین میں سے ایک بڑا نام شیخ ابن عثیمین کا ہے ۔
جبکہ مانعین میں شیخ محمد مختار شنقیطی ہیں ۔
یہ مسئلہ مختلف فیہ کیوں ہے اس کی طرف اشارہ شریم کے فتوی میں بھی گزر چکا لیکن مزید وضاحت کچھ یوں ہے :
صحیح مسلم کے اندر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے :
نہی عن بیع الغرر
کہ آپ نے جس بیع کے اندر دھوکہ ہو اس سے منع فرمایا ہے ۔
بیع کے اندر دھوکہ کیسے ہوتا ہے اس کی مختلف صورتیں ہیں مثلا کہنا کہ اس تالاب کے اندر جتنی مچھلیاں ہیں وہ آپ کے لیے مثلا 1000 ہزار روپے کی ہیں ۔ اب یہاں مچھلیاں کیسی ہیں ؟ کتنی ہیں ؟ یہ سب مجھول ہے اس لیے یہ بیع جائز نہیں ۔ یا کوئی کہے کہ یہ موٹر سائیکل میں آپ سے خریدتا ہوں ان تمام پیسوں کی جتنے میری جیب میں ہیں ۔ تو یہاں قیمت میں دھوکہ ہے کیونکہ جیب میں ایک روپیہ سے لے کر بڑی سے بڑی رقم ہوسکتی ہے ۔
اب یہ صورتیں باتفاق علماء ناجائز اور ممنوع ہیں ۔ اس کو پہلی قسم تصور کریں ۔
دوسری طرف خرید و فروخت کی کچھ ایسی صورتیں ہیں جن میں تھوڑا بہت غرر کا احتمال ہوتا ہے مثلا کسی جگہ حمام میں نہانے کی قیمت ( یا کرایہ ) 20 روپے ہیں ۔ اب ہر ایک آدمی سے 20 روپے ہی لیے جاتے ہیں حالانکہ کچھ آدمی تھوڑا پانی ( یا دیگر لوازمات صابن وغیرہ ) استعمال کرتے ہیں کچھ لوگ زیادہ استعمال کرتے ہیں ۔
یا بعض دفعہ جہالت کی حالت میں سودا کرنا مجبوری ہوتی ہے مثلا جب کسی جانور کی خرید و فروخت کی جاتی ہے مثلا گائے کی تو اس کے ساتھ ہی اس کے پیٹ کے اندر بچہ بھی فروخت ہوتا ہے حالانکہ اس کی کیفیت معلوم نہیں ہوتی ۔ وہ صحت مند بھی ہوسکتا ہے کمزور بھی ہوسکتا ہے حتی کہ زندہ یا مردہ کا بھی احتمال موجود ہوتا ہے ۔
اب یہاں اسی جہالت کی حالت میں بیع ہوتی ہے اور یہ سب کے نزدیک جائز ہے کیونکہ یہاں مجبوری ہے کہ گائے کا پیٹ پھاڑ کر تو دیکھا نہیں جاسکتا ۔
غرر کی یہ ہلکی اور مجبوری والی صورتوں کے جائز ہونے پر امت کا اجماع ہے ۔ اس کو دوسری قسم تصور کریں ۔
غرر کی ایک تیسری قسم بھی ہے یہ ان اشیاء سے متعلقہ غرر ہے ( یا غرر کی وہ صورتیں ہیں ) جو واضح طور پر نہ تو پہلی قسم سے ہوتا ہے کہ اس کو حرام کہا جائے اور نہ ہی دوسری قسم سے ہوتا ہے کہ اس کو جائز کہا جائے ۔
اب یہاں غرر متعین کرنے میں علماء کی آراء مختلف ہوجاتی ہیں بعض علماء اس کو پہلی قسم سے ملاتے ہیں تو ان کے نزدیک وہ بھی ناجائز اور ممنوع ہوتا ہے بعض اس کو دوسری صورت سے ملاتے ہیں چنانچہ ان کے نزدیک یہ جائز ہوتا ہے ۔
علامہ قرافی مالکی کی درج ذیل عبارت کا یہی مفہوم ہے فرماتے ہیں :
قال القرافي : الغرر والجهالة - أي في البيع - ثلاثة أقسام : كثير ممتنع إجماعا , كالطير في الهواء , وقليل جائز إجماعا , كأساس الدار وقطن الجبة , , ومتوسط اختلف فيههل يلحق بالأول أم بالثاني ؟ وقال ابن رشد الحفيد : الفقهاء متفقون على أن الغرر الكثير في المبيعات لا يجوز ، وأن القليل يجوز.
اب بوفیہ کے اندر جس قسم کا غرر پایا جاتا ہے وہ اسی تیسری قسم سے کہا جاسکتا ہے ۔ اس کی مزید وضاحت شیخ ابن عثیمین کی درج ذیل عبارت سے ہو گی فرماتے ہیں :
" الشرح الممتع " (4/322)
"مسألة : هناك محلات تبيع الأطعمة تقول : ادفع عشرين ريالا والأكل حتى الشبع ؟
الجواب : الظاهر أن هذا يتسامح فيه ؛ لأن الوجبة معروفة ، وهذا مما تتسامح فيه العادة ، ولكن لو عرف الإنسان من نفسه أنه أكول فيجب أن يشترط على صاحب المطعم ؛ لأن الناس يختلفون " .
سائل : بعض ہوٹلوں والے کہتے ہیں کہ 20 ریال ادا کریں اور پیٹ بھرنے تک کھاتے رہیں ؟
شیخ : ظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس میں نرمی کرنی چاہیے کیونکہ عموما آدمی جتنا کھاتا ہے وہ سب کے ہاں معروف ہے ۔ ہاں البتہ اگر کسی انسان کو پتہ ہو کہ وہ خلاف عادت عام انسانوں سے بڑھ کر زیادہ کھاتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہوٹل کے مالک کو اس سے باخبر کردے ( تاکہ وہ دھوکے میں نہ رہے ) ۔
شیخ کا فتوی جواز کا ہے لیکن اس میں دو باتیں بہت واضح ہیں :
1۔ ایک تو کھانے کو والے کو حسب عادت ہی کھانا چاہیے ( نہ یہ کہ اب پیسے تو دیے ہی ہیں لہذا کسر نکال لیں ۔ ابتسامہ )
2۔ اگر کوئی معروف مقدار اور عادت سے زیادہ کھاتا ہو ( یا کھانے کی نیت ہو ) تو اسے ہوٹل والے کو باخبر کرنا ضروری ہے ۔
اب پہلی صورت میں ہوٹل والے کے ساتھ کھانے کی مقدار طے کرنے کااس وجہ سے نہیں کہا کیونکہ ایس صورت میں غرر بالکل تھوڑا ہوتا ہے ۔
جبکہ دوسری صورت میں ہوٹل والے کے ساتھ پہلے سے طے کرنا ضروری کیوں قرار دیا ہے کیونکہ یہاں غرر کثیر کا احتمال موجود ہے ۔
گزارش :
اس طرح کے مسائل میں فریقین کے دلائل دیکھ لینے چاہییں اور انصاف کے ساتھ جو بات زیادہ درست لگے اس پر عمل کرنا چاہیے ۔
اس طرح کے مسائل جن میں اختلاف ہو ان میں واقع ہونے سے پرہیز کرنا بھی ایک بہترین طریقہ ہے تاکہ آدمی مختلف فیہ اور شک و شبہ والی صورت سے نکل جائے ۔ واللہ اعلم ۔
ایک سوال :
یہ بوفیہ کا نظام شروع کب سے ہوا ؟ اور کہاں سے آیا ؟
کوئی بھائی اس سلسلے میں معلومات رکھتے ہوئے ضرور بیان فرمائیں ۔