قال أبو نعيم: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ السَّرِيِّ الْقَنْطَرِيُّ حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ قَيْسٍ السَّامِرِيُّ حَدَّثَنَا «عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ يَحْيَى الْأَرْمَنِيُّ» حَدَّثَنَا «عُثْمَانُ بْنُ عُمَارَةَ» حَدَّثَنَا الْمُعَافَى بْنُ عِمْرَانَ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْخَلْقِ ثَلَاثَمِائَةٍ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ أَرْبَعُونَ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ سَبْعَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ خَمْسَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ ثَلَاثَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ مِيكَائِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ وَاحِدٌ قَلْبُهُ عَلَى قَلْبِ إِسْرَافِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَإِذَا مَاتَ الْوَاحِدُ أَبْدَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مَكَانَهُ مِنَ الثَّلَاثَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الثَّلَاثَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْخَمْسَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الْخَمْسَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ السَّبْعَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ السَّبْعَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْأَرْبَعِينَ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الْأَرْبَعِينَ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الثَّلَاثِمِائَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الثَّلَاثِمِائَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْعَامَّةِ، فَبِهِمْ يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَيُمْطِرُ وَيُنْبِتُ، وَيَدْفَعُ الْبَلَاءَ»
قِيلَ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ: كَيْفَ بِهِمْ يُحْيِي وَيُمِيتُ؟ قَالَ: لِأَنَّهُمْ يَسْأَلُونَ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ إِكْثَارَ الْأُمَمِ فَيَكْثُرُونَ، وَيَدْعُونَ عَلَى الْجَبَابِرَةِ فَيُقْصَمُونَ، وَيَسْتَسْقَوْنَ فَيُسْقَوْنَ، وَيَسْأَلُونَ فَتُنْبِتُ لَهُمُ الْأَرْضُ، وَيَدْعُونَ فَيَدْفَعُ بِهِمْ أَنْوَاعَ الْبَلَاءِ»
ترجمہ: بے شک اللّٰہ کی مخلوق میں تین سو لوگ ایسے ہیں جن کے دل آدم علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں، چالیس ایسے ہیں جن کے دل موسیٰ علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں، سات لوگ ایسے ہیں جن کے دل ابراہیم علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں، پانچ لوگ ایسے ہیں جن کے دل جبریل علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں، تین لوگ ایسے ہیں جن کے دل میکائیل علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں، اور ایک آدمی ایسا ہے جس کا دل اسرافیل علیہ السلام کے دل کی طرح ہے۔ جب کوئی ایک مرتا ہے تو اللّٰہ اس کی جگہ تین لے آتا ہے اور جب تین میں سے کوئی مرتا ہے تو اللّٰہ ان کی جگہ پانچ کو لاتا ہے اور جب پانچ میں سے کوئی مرتا ہے تو اللّٰہ ان کی جگہ سات کو لاتا ہے اور جب سات میں سے کوئی مرتا ہے تو اللّٰہ ان کی جگہ چالیس کو لاتا ہے اور جب چالیس میں سے کوئی مرتا ہے تو اللّٰہ تعالی ان کی جگہ تین سو کو لاتا ہے اور جب تین سو میں سے کوئی مرتا ہے تو اللّٰہ تعالی ان کی جگہ عام لوگوں کو لاتا ہے، انہی کی وجہ سے زندگی اور موت دی جاتی ہے، بارش برسایا جاتا ہے نباتات اگائے جاتے ہیں اور مصیبتیں دور کی جاتی ہیں۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ سے پوچھا گیا ان کی وجہ سے کیسے موت اور زندگی دی جاتی ہے؟ تو ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ نے کہا: کیونکہ وہ اللّٰہ سے امت کی کثرت کی دعا کرتے ہیں تو کثرت کی جاتی ہے، وہ ظالموں کے لیے بددعا کرتے ہیں....... وہ بارش طلب کرتے ہیں تو دیا جاتا ہے اور وہ دعا کرتے ہیں تو ان کے لیے زمین کو سرسبز کیا جاتا ہے اور وہ دعا کرتے ہیں تو مختلف قسم کی مصیبتیں دور کی جاتی ہیں۔
۩تخريج: حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ ميزان الاعتدال للذهبي (في ترجمة ٥٥٤٩ - عثمان بن عمارة) (المتوفى: ٧٤٨هـ)؛ الضعيفة (١٤٧٩) (موضوع)
ذہبی رحمہ اللّٰہ نے اس روایت کو عثمان بن عمارہ کے تعارف میں بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ جھوٹی روایت ہے اللّٰہ اس شخص کو برباد کرے جس نے یہ حدیث گڑھی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے لسان المیزان میں اسی طرح کہا ہے لیکن اس کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث عبدالرحیم یا عثمان نے گڑھی ہے۔ یعنی اس حدیث کو گڑھنے کا الزام عبدالرحیم ارمنی اور عثمان دونوں میں سے کسی ایک پر ہے کیونکہ وہ دونوں ہی مجہول ہیں اور صرف اسی باطل حدیث سے جانے جاتے ہیں۔
فائدہ: شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ میں نے گزشتہ اکثر احادیث کی اسانید سیوطی کے رسالے " الخبر الدال على وجود القطب والأوتاد والنجباء والأبدال " سے نقل کی ہیں جو ضعیف احادیث اور واہیات آثار سے بھری ہوئی ہے جن میں بعض بعض سے زیادہ ضعیف ہیں جیسا کہ اوپر کی تخریج سے معلوم ہوا۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس رسالے میں سیوطی نے ایک بھی حدیث مزعوم قطب کے متعلق ذکر نہیں کی اور صوفیوں کی اتباع کرتے ہوئے قطب کو غوث بھی کہا ہے اور اسی طرح اوتاد اور نجباء کے متعلق بھی کوئی مرفوع حدیث بیان نہیں کی، یہ سب صرف نام ہے جن کو صوفیوں نے گھڑھا ہے اور سلف صالحین کے پاس یہ نام معروف نہیں تھے۔ و اللّٰہ اعلم
پھر سیوطی نے یافعی سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ بعض عارفین نے کہا ہے کہ قطب وہی ہے جس کا ذکر عبداللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ وہ اسرافیل کے دل پر ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں پہلے حدیث ثابت تو کرو، یہ حدیث جھوٹی ہے جیسا کہ امام ذہبی اور عسقلانی رحمہما اللّٰہ نے کہا ہے، اور تعجب یافعی پر نہیں بلکہ سیوطی پر ہوتا کہ ان سے یہ بات کیسے مخفی رہی۔
«إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْخَلْقِ ثَلَاثَمِائَةٍ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ أَرْبَعُونَ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ سَبْعَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ خَمْسَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ ثَلَاثَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ مِيكَائِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ وَاحِدٌ قَلْبُهُ عَلَى قَلْبِ إِسْرَافِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَإِذَا مَاتَ الْوَاحِدُ أَبْدَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مَكَانَهُ مِنَ الثَّلَاثَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الثَّلَاثَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْخَمْسَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الْخَمْسَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ السَّبْعَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ السَّبْعَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْأَرْبَعِينَ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الْأَرْبَعِينَ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الثَّلَاثِمِائَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الثَّلَاثِمِائَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْعَامَّةِ، فَبِهِمْ يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَيُمْطِرُ وَيُنْبِتُ، وَيَدْفَعُ الْبَلَاءَ»
قِيلَ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ: كَيْفَ بِهِمْ يُحْيِي وَيُمِيتُ؟ قَالَ: لِأَنَّهُمْ يَسْأَلُونَ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ إِكْثَارَ الْأُمَمِ فَيَكْثُرُونَ، وَيَدْعُونَ عَلَى الْجَبَابِرَةِ فَيُقْصَمُونَ، وَيَسْتَسْقَوْنَ فَيُسْقَوْنَ، وَيَسْأَلُونَ فَتُنْبِتُ لَهُمُ الْأَرْضُ، وَيَدْعُونَ فَيَدْفَعُ بِهِمْ أَنْوَاعَ الْبَلَاءِ»
ترجمہ: بے شک اللّٰہ کی مخلوق میں تین سو لوگ ایسے ہیں جن کے دل آدم علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں، چالیس ایسے ہیں جن کے دل موسیٰ علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں، سات لوگ ایسے ہیں جن کے دل ابراہیم علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں، پانچ لوگ ایسے ہیں جن کے دل جبریل علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں، تین لوگ ایسے ہیں جن کے دل میکائیل علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں، اور ایک آدمی ایسا ہے جس کا دل اسرافیل علیہ السلام کے دل کی طرح ہے۔ جب کوئی ایک مرتا ہے تو اللّٰہ اس کی جگہ تین لے آتا ہے اور جب تین میں سے کوئی مرتا ہے تو اللّٰہ ان کی جگہ پانچ کو لاتا ہے اور جب پانچ میں سے کوئی مرتا ہے تو اللّٰہ ان کی جگہ سات کو لاتا ہے اور جب سات میں سے کوئی مرتا ہے تو اللّٰہ ان کی جگہ چالیس کو لاتا ہے اور جب چالیس میں سے کوئی مرتا ہے تو اللّٰہ تعالی ان کی جگہ تین سو کو لاتا ہے اور جب تین سو میں سے کوئی مرتا ہے تو اللّٰہ تعالی ان کی جگہ عام لوگوں کو لاتا ہے، انہی کی وجہ سے زندگی اور موت دی جاتی ہے، بارش برسایا جاتا ہے نباتات اگائے جاتے ہیں اور مصیبتیں دور کی جاتی ہیں۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ سے پوچھا گیا ان کی وجہ سے کیسے موت اور زندگی دی جاتی ہے؟ تو ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ نے کہا: کیونکہ وہ اللّٰہ سے امت کی کثرت کی دعا کرتے ہیں تو کثرت کی جاتی ہے، وہ ظالموں کے لیے بددعا کرتے ہیں....... وہ بارش طلب کرتے ہیں تو دیا جاتا ہے اور وہ دعا کرتے ہیں تو ان کے لیے زمین کو سرسبز کیا جاتا ہے اور وہ دعا کرتے ہیں تو مختلف قسم کی مصیبتیں دور کی جاتی ہیں۔
۩تخريج: حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ ميزان الاعتدال للذهبي (في ترجمة ٥٥٤٩ - عثمان بن عمارة) (المتوفى: ٧٤٨هـ)؛ الضعيفة (١٤٧٩) (موضوع)
ذہبی رحمہ اللّٰہ نے اس روایت کو عثمان بن عمارہ کے تعارف میں بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ جھوٹی روایت ہے اللّٰہ اس شخص کو برباد کرے جس نے یہ حدیث گڑھی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے لسان المیزان میں اسی طرح کہا ہے لیکن اس کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث عبدالرحیم یا عثمان نے گڑھی ہے۔ یعنی اس حدیث کو گڑھنے کا الزام عبدالرحیم ارمنی اور عثمان دونوں میں سے کسی ایک پر ہے کیونکہ وہ دونوں ہی مجہول ہیں اور صرف اسی باطل حدیث سے جانے جاتے ہیں۔
فائدہ: شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ میں نے گزشتہ اکثر احادیث کی اسانید سیوطی کے رسالے " الخبر الدال على وجود القطب والأوتاد والنجباء والأبدال " سے نقل کی ہیں جو ضعیف احادیث اور واہیات آثار سے بھری ہوئی ہے جن میں بعض بعض سے زیادہ ضعیف ہیں جیسا کہ اوپر کی تخریج سے معلوم ہوا۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس رسالے میں سیوطی نے ایک بھی حدیث مزعوم قطب کے متعلق ذکر نہیں کی اور صوفیوں کی اتباع کرتے ہوئے قطب کو غوث بھی کہا ہے اور اسی طرح اوتاد اور نجباء کے متعلق بھی کوئی مرفوع حدیث بیان نہیں کی، یہ سب صرف نام ہے جن کو صوفیوں نے گھڑھا ہے اور سلف صالحین کے پاس یہ نام معروف نہیں تھے۔ و اللّٰہ اعلم
پھر سیوطی نے یافعی سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ بعض عارفین نے کہا ہے کہ قطب وہی ہے جس کا ذکر عبداللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ وہ اسرافیل کے دل پر ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں پہلے حدیث ثابت تو کرو، یہ حدیث جھوٹی ہے جیسا کہ امام ذہبی اور عسقلانی رحمہما اللّٰہ نے کہا ہے، اور تعجب یافعی پر نہیں بلکہ سیوطی پر ہوتا کہ ان سے یہ بات کیسے مخفی رہی۔