قال الترمذي: حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبِي «جُنَادَةُ بْنُ سَلْمٍ» عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«آخِرُ قَرْيَةٍ مِنْ قُرَى الإِسْلَامِ خَرَابًا المَدِينَةُ»
ترجمہ: اسلامی شہروں میں سے سب سے آخر میں ویران ہونے والا شہر مدینہ ہے۔
۩تخريج: سنن الترمذي (٣٩١٩) (المتوفى: ٢٧٩هـ)؛ صحيح ابن حبان (٦٧٧٦) (المتوفى: ٣٥٤هـ)؛ السنن الواردة في الفتن وغوائلها والساعة وأشراطها لأبي عمرو الداني (٤٦٠) (المتوفى: ٤٤٤هـ)؛ الضعيفة (١٣٠٠) (ضعيف)
امام ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے، اس کو ہم صرف جنادہ کی ہی سند سے جانتے ہیں اور کہا کہ بخاری رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو سن کر تعجب کا اظہار کیا (کہ یہ کیسے صحیح ہو سکتی ہے)
مناوی رحمہ اللّٰہ نے فیض القدیر میں کہا ہے کہ "سیوطی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے اور یہ حدیث ضعیف ہی ہے کیونکہ ترمذی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو اپنی کتاب العلل میں بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ انہوں نے اس کے متعلق امام بخاری سے سوال کیا تو امام بخاری نے تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ میں جنادہ کو مقارب الحدیث سمجھتا تھا۔ پھر مناوی کہتے ہیں کہ جنادہ کو محدثین کی جماعت نے ضعیف کہا ہے جن میں حافظ مزی وغیرہ ہیں"
شیخ البانی کہتے ہیں کہ تہذیب التہذیب میں ہے کہ:
ابو زرعہ نے اسے ضعیف اور ابو حاتم نے ضعیف الحدیث کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے روایت نہ کی جائے۔ ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے اس کا ذکر "الثقات" میں کیا ہے، ابن حجر کہتے ہیں کہ ساجی رحمہ اللّٰہ نے کہا کہ جنادہ نے ہشام بن عروہ سے ایک منکر حدیث روایت کی ہے۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ شاید ساجی کی مراد یہی حدیث ہے۔
پھر کہا ہے کہ اس کی توثیق ابن خزیمہ رحمہ اللّٰہ نے بھی کی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جنادہ کی توثیق ابن حبان نے ابن خزیمہ رحمہ اللّٰہ ہی سے لی ہے کیونکہ وہ ان شیخ ہیں اور وہ دونوں ہی توثیق میں متساہل ( نرمی برتنے والے) ہیں جیسا کہ یہ بات اہل علم و تحقیق کے نزدیک مشہور و معروف ہے۔ پس جنادہ کی جنہوں نے تضعیف کی ہے وہ ابن خزیمہ اور ابن حبان رحمہما اللّٰہ کی توثیق پر بھاری ہے۔
«آخِرُ قَرْيَةٍ مِنْ قُرَى الإِسْلَامِ خَرَابًا المَدِينَةُ»
ترجمہ: اسلامی شہروں میں سے سب سے آخر میں ویران ہونے والا شہر مدینہ ہے۔
۩تخريج: سنن الترمذي (٣٩١٩) (المتوفى: ٢٧٩هـ)؛ صحيح ابن حبان (٦٧٧٦) (المتوفى: ٣٥٤هـ)؛ السنن الواردة في الفتن وغوائلها والساعة وأشراطها لأبي عمرو الداني (٤٦٠) (المتوفى: ٤٤٤هـ)؛ الضعيفة (١٣٠٠) (ضعيف)
امام ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے، اس کو ہم صرف جنادہ کی ہی سند سے جانتے ہیں اور کہا کہ بخاری رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو سن کر تعجب کا اظہار کیا (کہ یہ کیسے صحیح ہو سکتی ہے)
مناوی رحمہ اللّٰہ نے فیض القدیر میں کہا ہے کہ "سیوطی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے اور یہ حدیث ضعیف ہی ہے کیونکہ ترمذی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو اپنی کتاب العلل میں بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ انہوں نے اس کے متعلق امام بخاری سے سوال کیا تو امام بخاری نے تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ میں جنادہ کو مقارب الحدیث سمجھتا تھا۔ پھر مناوی کہتے ہیں کہ جنادہ کو محدثین کی جماعت نے ضعیف کہا ہے جن میں حافظ مزی وغیرہ ہیں"
شیخ البانی کہتے ہیں کہ تہذیب التہذیب میں ہے کہ:
ابو زرعہ نے اسے ضعیف اور ابو حاتم نے ضعیف الحدیث کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے روایت نہ کی جائے۔ ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے اس کا ذکر "الثقات" میں کیا ہے، ابن حجر کہتے ہیں کہ ساجی رحمہ اللّٰہ نے کہا کہ جنادہ نے ہشام بن عروہ سے ایک منکر حدیث روایت کی ہے۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ شاید ساجی کی مراد یہی حدیث ہے۔
پھر کہا ہے کہ اس کی توثیق ابن خزیمہ رحمہ اللّٰہ نے بھی کی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جنادہ کی توثیق ابن حبان نے ابن خزیمہ رحمہ اللّٰہ ہی سے لی ہے کیونکہ وہ ان شیخ ہیں اور وہ دونوں ہی توثیق میں متساہل ( نرمی برتنے والے) ہیں جیسا کہ یہ بات اہل علم و تحقیق کے نزدیک مشہور و معروف ہے۔ پس جنادہ کی جنہوں نے تضعیف کی ہے وہ ابن خزیمہ اور ابن حبان رحمہما اللّٰہ کی توثیق پر بھاری ہے۔