• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال عبد بن حميد: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ بْنُ الْجَرَّاحِ عَنْ «خَارِجَةَ بْنِ مُصْعَبٍ» عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مَا مِنْ صَبَاحٍ إِلَّا وَمَلَكَانِ يُنَادِيَانِ: وَيْلٌ لِلرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ وَوَيْلٌ لِلنِّسَاءِ مِنَ الرِّجَالِ»


ترجمہ: ہر صبح دو فرشتے آواز دیتے ہیں: مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں کے لیے تباہی ہے اور عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں کے لیے تباہی ہے۔

۩تخريج: المنتخب من مسند عبد بن حميد (٩٦٣) (المتوفى: ٢٤٩هـ)؛ سنن ابن ماجه (٣٩٩٩) (المتوفى: ٢٧٣هـ)؛ الإشراف في منازل الأشراف لابن أبي الدنيا (المتوفى: ٢٨١هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: ٣٦٥هـ) (في ترجمة ٦٠٩- خارجة بن مصعب السرخسي الضبعي)؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم (٢٦٧٢، ٨٦٧٩) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ الضعيفة (٢٠١٨) (ضعيف جدًا)

حاکم رحمہ اللّٰہ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے ان کا رد کرتے ہوئے ایک جگہ کہا ہے کہ اس کا راوی خارجہ بن مصعب ضعیف ہے اور ایک جگہ کہا ہے " خارجة واه " (خارجہ واہیات= بہت زیادہ ضعیف راوی ہے)۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے تقریب التہذیب میں اس کے متعلق کہا کہ وہ متروک ہے اور کذاب راویوں سے تدلیس کرتا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ خارجہ نے یہاں عنعنہ کیا ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں اس لیے یہ حدیث بہت زیادہ ضعیف ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن أبي حاتم: سُئِلَ أَبُو زُرْعَةَ عَنْ حديثٍ رَوَاهُ «يعقوبُ بنُ محمَّد الزُّهْري» عَنْ هِشَامِ بْنِ عُروَة عَنْ أَبِيهِ عَنْ عائِشَة قَالَتْ:

«كَانَ النبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَخَذَ مِنْ شَعْرِهِ أَوْ قَلَّمَ أَظْفَارَهُ أَوِ احْتَجَمَ بَعَثَ بِهِ إِلَى البَقِيْعِ فَدُفِنَ»


ترجمہ: نبی ﷺ جب اپنے بال کاٹتے یا ناخن تراشتے یا پچھنا (سنگی) لگواتے تو اس (بال، ناخن یا خون) کو دفن کرنے کے لیے بقیع (قبرستان) کو بھیجتے تھے۔

۩تخريج: العلل لابن أبي حاتم (٢٥٣٣) (المتوفى: ٣٢٧هـ)؛ الضعيفة (٧١٣) (باطل)

ابو زرعہ رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں یہ حدیث باطل ہے میرے نزدیک اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اور کہا ہے کہ یعقوب بن محمد واہی الحدیث ہے۔

حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں کہا ہے کہ یعقوب بن محمد صدوق راوی ہے، بہت زیادہ وہم والا اور ضعفاء سے روایت کرنے والا ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس کی علت وہ ضعیف راوی ہو سکتے ہیں جنہیں یہ حدیث ملی ہوگی کیونکہ یعقوب کا ہشام بن عروہ سے سماع ثابت نہیں ہے بلکہ اس نے ان کا زمانہ بھی نہیں پایا ہے جیسا کہ امام ذہبی نے یعقوب کی ایک موضوع حدیث میں کہا ہے جو کہ حدیث نمبر: (١٠٤) پر گزر چکی ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن عساكر: أَخْبَرَنَا أَبُو الحَسَنِ الفرضي حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيْزِ الكَتَّانِي أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ عَبْدُ الوَهَّابِ بنُ عَبْدِ اللهِ المُرِّيّ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحِيْمِ بنُ أَحْمَدَ البُخَارِيُّ قَدِمَ عَلَيْنَا أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بنُ نَصْرٍ الكَاتِب بِبُخَارَى أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ أَحْمَدُ بنُ سَهْلٍ حَدَّثَنَا قَيْسُ بنُ أُنَيْف حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ سُلَيْمَانَ المَكِّيّ حَدَّثَنَا «عَبْدُ اللهِ بنُ مَيْمُوْنٍ القَدَّاحُ» عَنْ جَعْفَرٍ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«اغْسِلُوا ثِيَابَكُمْ وَخُذُوا مِنْ شُعُوْرِكُمْ وَاسْتَاكُوا وَتَزَيَّنُوا وَ تَنَظَّفُوا فَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيْلَ لَمْ يَكُوْنُوا يَفعلُوْنَ ذَلِكَ فَزَنَتْ نِسَاؤُهُم»


ترجمہ: اپنے کپڑے دھو، بال کاٹو، مسواک کرو اور زینت اختیار کرو اور پاک صاف رہو کیونکہ بنی اسرائیل نے ایسا نہیں کیا تو ان کی عورتوں نے زینت اختیار کی۔

۩تخريج: تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ)؛ الضعيفة (٧٠٢٩)(ضعيف جدًا)

شیخ البانی کہتے ہیں یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے عبداللہ بن میمون قداح کو حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے منکر الحدیث اور متروک کہا ہے اور امام ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے، "إسناده ظلمة" اس کی سند بہت زیادہ ضعیف ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الطبراني: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حَبِيبٍ الطَّرَائِفِيُّ الرَّقِّيُّ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْوَزَّانُ حَدَّثَنَا «الْوَلِيدُ بْنُ الْوَلِيدِ» حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْبَانَ عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ عَنِ الْقَاسِمِ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ: إِنَّ رِجَالًا يُعَرُّونَ نِسَاءَهُمْ يَأْمُرُونَهُنَّ يَمْشِيَنَّ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:

«لَوِ اسْتَطَعْتُ لَأَخْفَيْتُ عَوْرَتِي مِنْ شِعَارِي»


ترجمہ: ایک آدمی نے ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ سے کہا: لوگ اپنی عورتوں کو ننگا کررہے ہیں، وہ عورتوں کو اپنے سامنے چلنے کا حکم دے رہے ہیں، پھر اس آدمی نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اپنی شرمگاہ اپنے اندرونی کپڑوں سے چھپا لیتا ۔

شعار: اس کپڑے کو کہتے ہیں جو جسم سے لگا ہوتا ہے۔

۩تخريج: مسند الشاميين للطبراني (٢٣٠) (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ الضعيفة (٥٥٦٦) (موضوع)

شیخ البانی: یہ موضوع حدیث ہے، اس کی علت ولید (ابن موسی الدمشقی) ہے، حاکم رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ "وہ ابن ثوبان سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے"۔ میں کہتا ہوں یہ حدیث انہی موضوع احادیث میں سے ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
ابدال کے متعلق ضعیف اور موضوع احادیث


قال أبو نعيم: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْخَزَرِ الطَّبَرَانِيُّ حَدَّثَنَا «سَعِيدُ بْنُ أَبِي زَيْدٍ» حَدَّثَنَا «عَبْدُ اللهِ بْنُ هَارُونَ الصُّورِيُّ» حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«خِيَارُ أُمَّتِي فِي كُلِّ قَرْنٍ خَمْسُ مِائَةٍ وَالْأَبْدَالُ أَرْبَعُونَ، فَلَا الْخَمْسُ مِائَةٍ يَنْقُصُونَ وَلَا الْأَرْبَعُونَ، كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْخَمْسِمِائَةِ مَكَانَهُ، وَأَدْخَلَ مِنَ الْأَرْبَعِينَ مَكَانَهُمْ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ دُلَّنَا عَلَى أَعْمَالِهِمْ؟ قَالَ: «يَعْفُونَ عَمَّنْ ظَلَمَهُمْ، وَيُحْسِنُونَ إِلَى مَنْ أَسَاءَ إِلَيْهِمْ، وَيَتَوَاسُونَ فِيمَا آتَاهُمُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ»


ترجمہ: ہر زمانے میں میری امت کے بہترین لوگ پانچ سو ہوں گے اور ابدال چالیس ہوں گے، نہ پانچ سو کم ہوں گے اور نہ چالیس، جب بھی ان میں سے کسی کو موت آئے گی اللّٰہ پانچ سو میں سے کسی کو اس سے بدل دے گا اور چالیس میں ان کی جگہ داخل کر دے گا۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم ہمیں ان کے اعمال کے بارے میں بتائیے، نبی ﷺ نے فرمایا: وہ ان لوگوں کو معاف کریں گے جنہوں نے ان پر ظلم کیا ہوگا، ان لوگوں کے ساتھ بھلائی کریں گے جنہوں نے ان کے ساتھ برا کیا ہو گا، اور جو اللّٰہ نے انہیں دیا ہو گا اس میں سے خرچ کریں گے ۔

۩تخريج: حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ الضعيفة (٩٣٥) (موضوع)

شیخ البانی کہتے ہیں یہ سند مظلم ہے سعید بن ابی زید اور عبداللہ بن ہارون کو میں نہیں جانتا، عبداللہ بن ہارون کا ذکر امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں کیا ہے اور اوزاعی رحمہ اللّٰہ کا قول نقل کیا ہے: " میں اس کو نہیں جانتا اور ابدال کے اخلاق کے متعلق یہ روایت جھوٹی ہے"۔
حافظ ابن حجر نے بھی لسان المیزان میں اس بات کی توثیق کی ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ ابدال کی احادیث میں سے کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے، تمام روایات معلول ہیں اور بعض بعض سے زیادہ ضعیف ہیں، میں اس کتاب میں آپ کے لیے ان میں سے کچھ روایات کا ذکر کروں گا اور ان کی علتیں بھی واضح کروں گا۔ إن شاء الله تبارك وتعالى۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الطبراني: حَدَّثَنَا «أَحْمَدُ بْنُ دَاوُدَ الْمَكِّيُّ» حَدَّثَنَا «ثَابِتُ بْنُ عَيَّاشٍ الْأَحْدَبُ» حَدَّثَنَا «أَبُو رَجَاءٍ الْكَلْبِيُّ» حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«لَا يَزَالُ أَرْبَعُونَ رَجُلًا مِنْ أُمَّتِي قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ إِبْرَاهِيمَ، يَدْفَعُ اللهُ بِهِمْ عَنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، يُقَالُ لَهُمُ الْأَبْدَالُ» قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهُمْ لَمْ يُدْرِكُوهَا بِصَلَاةٍ وَلَا بِصَوْمٍ وَلَا صَدَقَةٍ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ فَبِمَ أَدْرَكُوهَا؟ قَالَ: «بِالسَّخَاءِ وَالنَّصِيحَةِ لِلْمُسْلِمِينَ»


ترجمہ: میری امت میں چالیس آدمی ہمیشہ ایسے رہیں گے جن کے دل ابراہیم علیہ السلام کے دل کی طرح ہوں گے ان کی وجہ سے اللّٰہ زمین والوں کی مصیبتیں دور کرے گا اور انہیں ابدال کہا جائے گا، انہیں یہ رتبہ نماز، روزہ اور صدقے کی وجہ سے نہیں ملے گا، پوچھا گیا پھر کیسے ملے گا؟ نبی ﷺ نے فرمایا: سخاوت اور تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کی وجہ سے۔

۩تخريج: المعجم الكبير للطبراني (١٠٣٩٠) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ الضعيفة (١٤٧٨، ٥٢٤٨) (ضعيف جدًا)

شیخ البانی کہتے ہیں ابو رجاء کا نام روح بن مسیب ہے ابن عدی کہتے ہیں اس کی احادیث محفوظ نہیں ہیں۔ ابن حبان کہتے ہیں وہ ثقہ راویوں سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے اور موقوف روایات کو مرفوع بیان کرتا ہے اس سے روایت کرنا جائز نہیں ہے۔ ابن معین رحمہ اللّٰہ نے اس کے ضعیف ہونے کی طرف صویلح کہ کر اشارہ کیا ہے۔ اس کا تعارف میزان الاعتدال اور لسان المیزان میں موجود ہے۔

ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ وہ ثابت بن عیاش احدب اور ابو رجاء کلبی دونوں کو نہیں جانتے اور باقی تمام راوی صحیح کے راوی ہیں۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ احمد بن داود مکی صحیح کے راویوں میں سے نہیں ہے بلکہ یہ ہیثمی رحمہ اللّٰہ کی عادت ہے کہ وہ ایسا ہی کہتے ہیں لیکن ان کی مراد طبرانی رحمہ اللّٰہ کے شیخ نہیں ہوتے۔

شیخ البانی کہتے ہیں ثابت بن عیاش احدب اور اس سے روایت کرنے والے کو میں نہیں جانتا۔ والله اعلم


قال ابن أبي الدنيا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ الْوَاسِطِيُّ خَلَفُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُجَاشِعُ بْنُ عَمْرٍو عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ عَنِ ابْنِ هُبَيْرَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زُرَيْرٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّه صَلَى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْأَبْدَالِ قَالَ:

«هُمْ سِتُّونَ رَجُلًا» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جَلِّهِمْ لِي قَالَ: «لَيْسُوا بِالْمُتَنَطِّعِينَ، وَلَا بِالْمُبْتَدِعِينَ، وَلَا بِالْمُتَنَعِّمِينَ، لَمْ يَنَالُوا مَا نَالُوه بِكَثْرَةِ صِيَامٍ وَلَا صَلَاةٍ وَلَا صَدَقَةٍ، وَلَكِنْ بِسَخَاءِ الأنَّفْسِ، وَسَلَامَةِ الْقُلُوبِ، وَالنَّصِيحَةِ لِأَئِمَّتِهِمْ، إِنَّهُمْ يَا عَلِيُّ فِي أُمَّتِي أَقَلُّ مِنَ الْكِبْرِيتِ الْأَحمرِ»


تخريج: الأولياء لابن أبي الدنيا (٨) (المتوفى: ٢٨١هـ)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں یہ حدیث موضوع ہے اس کی علت مجاشع ہے کیونکہ وہ کذاب تھا جیسا کہ ابن معین رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے۔

ابن ابی الدنیا نے حسن بصری کی مرسل بھی روایت کی ہے:

قال ابن أبي الدنيا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ذَكَرَ صَالِحٌ الْمُرِّيُّ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«إِنَّ بُدَلَاءَ أُمَّتِي لَمْ يَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِكَثْرَةِ صَلَاةٍ، وَلَا صَوْمٍ، وَلَا صَدَقَةٍ، وَلَكِنْ دَخَلُوهَا بِرَحْمَةِ اللَّهِ، وَسَخَاوَةِ الْأَنْفُسِ، وَسَلَامَةِ الصُّدُورِ»


تخريج: الأولياء لابن أبي الدنيا (٥٨) (المتوفى: ٢٨١هـ)

شیخ البانی کہتے ہیں یہ حسن بصری کی مرسل روایت ہے، صالح مری ضعیف راوی ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن أبي الدنيا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا «عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ» عَنْ «بَكْرِ بْنِ خُنَيْسٍ» يَرْفَعْهُ قَالَ:

«عَلَامَةُ أَبْدَالِ أُمَّتِي أَنَّهُمْ لَا يَلْعَنُونَ شَيْئًا أَبَدًا»


ترجمہ: میری امت کے اَبدال کی علامت یہ ہے کہ وہ کبھی بھی کسی بھی چیز پر لعنت نہیں کرئیں گے۔

۩تخريج: الأولياء لابن أبي الدنيا (٥٩) (المتوفى: ٢٨١هـ)؛ الضعيفة (١٤٧٥) (موضوع)


شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یہ سند ضعیف معضل ہے کیونکہ بکر بن خنیس کے متعلق حافظ ابن حجر کہتے ہیں: صدوق ہے، اس کی کئی غلطیاں ہیں، ابن حبان نے اس کے متعلق افراط سے کام لیا ہے۔ امام ذہبی الضعفاء میں کہتے ہیں کہ دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے اس کو متروک کہا ہے اور الکاشف میں واہی کہا ہے۔

عبدالرحمن بن محمد محاربی کے متعلق حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے کہا: "لا بأس به" اور وہ تدلیس کرتا تھا۔ امام ذہبی الضعفاء میں کہتے ہیں ثقہ ہے اور ابن معین رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ وہ مجہول راویوں سے منکر احادیث روایت کرتا ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ متن بغیر کسی شک و شبہ کے منکر ہے بلکہ جھوٹ ہے کیونکہ لعنت کرنا نبی ﷺ سے ثابت ہے آپ نے کئی مرتبہ لعنت کی ہے جو کئی صحیح احادیث سے ثابت ہے اور کچھ احادیث ہم نے السلسلۃ الصحیحہ میں ( رقم: ٨٣، ٨٥، ١٧٥٨) بیان کی ہیں۔ کیا یہ ابدال نبی ﷺ سے زیادہ کامل ہونگے؟؟

قال مسلم: حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَانِ فَكَلَّمَاهُ بِشَيْءٍ، لَا أَدْرِي مَا هُوَ فَأَغْضَبَاهُ، فَلَعَنَهُمَا، وَسَبَّهُمَا، فَلَمَّا خَرَجَا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ مَنْ أَصَابَ مِنَ الْخَيْرِ شَيْئًا، مَا أَصَابَهُ هَذَانِ، قَالَ: «وَمَا ذَاكِ» قَالَتْ: قُلْتُ: لَعَنْتَهُمَا وَسَبَبْتَهُمَا، قَالَ: " أَوَ مَا عَلِمْتِ مَا شَارَطْتُ عَلَيْهِ رَبِّي؟ قُلْتُ: اللهُمَّ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، فَأَيُّ الْمُسْلِمِينَ لَعَنْتُهُ، أَوْ سَبَبْتُهُ فَاجْعَلْهُ لَهُ زَكَاةً وَأَجْرًا "

عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو آدمی آئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے بارے میں بات کی میں نہیں جانتی کہ وہ کیا بات تھی انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں آدمیوں پر لعنت کی اور ان کو برا کہا تو جب وہ دونوں آدمی چلے گئے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ان دونوں آدمیوں کو جو تکلیف پہنچی ہے وہ تکلیف اور کسی کو نہ پہنچی ہوگی آپ نے فرمایا وہ کس طرح عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا آپ نے ان دونوں آدمیوں پر لعنت فرمائی ہے اور انہیں برا کہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو نہیں جانتی کہ میں نے اپنے پروردگار سے کیا شرط لگائی ہے؟ میں نے کہا ہے: اے اللہ میں ایک انسان ہوں، میں مسلمانوں میں سے جس پر لعنت کروں یا اسے برا کہوں تو تو اسے اس کے گناہوں کی پاکی اور اجر بنا دے۔

صحيح مسلم (٢٦٠٠)
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن حبان: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ قَالَ حَدَّثَنَا «عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَرْزُوقٍ بَطَرَسُوسَ» قَالَ حَدَّثَنَا «عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنِ عَطَاءِ الْخَفَّافِ» عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَن النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم قَالَ:

«لَنْ تَخْلُوَ الأَرْضُ مِنْ ثَلاثِينَ مِثْلِ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ الرَّحْمَنِ بِهِمْ تُغَاثُونَ وَبِهِمْ تُرْزَقُونَ وَبِهِمْ تُمْطَرُونَ»


ترجمہ: زمین ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام جیسے تیس لوگوں سے کبھی خالی نہیں ہوتی، انہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے تمہیں رزق دیا جاتا ہے اور تمہیں بارش دیا جاتا ہے۔

۩تخريج: المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين لابن حبان (في ترجمة ٦٠٥ - عبد الرَّحْمَن بن مَرْزُوق) (المتوفى: ٣٥٤هـ)؛ الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ الضعيفة (١٣٩٢) (موضوع)

ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو ابن مرزوق کے تعارف میں روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ ابن مرزوق احادیث گڑھتا تھا۔

ابن جوزی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے اور ابن حبان کا قول نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ عبدالوہاب بن عطاء کے متعلق احمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ وہ ضعیف، مضطرب الحدیث ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ عبدالوہاب میں ضعف ہے لیکن بعض نے ان کی توثیق بھی کی ہے اور مسلم رحمہ اللّٰہ نے اپنی صحیح میں ان سے روایت بھی کی ہے اس لیے صحیح یہی لگتا ہے کہ ان کا اس حدیث میں کوئی دخل نہیں ہے۔امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں اس حدیث کو ابن مرزوق کے تعارف میں ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور ان کی موافقت ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے لسان المیزان میں کی ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں یہ بات جان لیں کہ ابدال کے متعلق جتنی احادیث ہیں سب کی سب ضعیف ہیں اس میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے بلکہ بعض بعض سے زیادہ ضعیف ہیں۔

میں نے ان احادیث کی تحقیق کی جن کو سیوطی نے اپنے رسالے " الخبر الدال على وجود القطب والأوتاد والنجباء والأبدال " میں جمع کیا ہے پھر میں نے ان کی اسانید پر کلام کیا اور ان علتوں کو واضح کیا جن پر سیوطی نے سکوت اختیار کیا تھا۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال البيهقي: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي لَيْلَى أَخْبَرَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَاءٍ كُوفِيٌّ عَنْ «صَالِحٍ الْمُرِّيِّ» عَنِ «الْحَسَنِ» عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَوْ غَيْرُهُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«إِنَّ أَبْدَالَ أُمَّتِي لَمْ يَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِالْأَعْمَالِ، وَلَكِنْ إِنَّمَا دَخَلُوهَا بِرَحْمَةِ اللهِ، وَسَخَاوَةِ الْأَنْفُسِ، وَسَلَامَةِ الصُّدُورِ، وَرَحْمَةٍ لِجَمِيعِ الْمُسْلِمِينَ»


ترجمہ: میری امت کے اَبدال اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہونگے بلکہ اللّٰہ کی رحمت، اپنی سخاوت، دلوں کی سلامتی اور تمام مسلمانوں کے لیے رحمت ہونے کی وجہ سے داخل ہوں گے۔

۩تخريج: مفتاح المعاني لأبي بكر الكلاباذي (المتوفى: ٣٨٠هـ)؛ شعب الإيمان للبيهقي (١٠٣٩٤) (المتوفى: ٤٥٨ھ)؛ الضعيفة (١٤٧٧) (ضعيف جدًا)

بیہقی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد کہا ہے:

وَكَذَلِكَ رَوَاهُ عُثْمَانُ الدَّارِمِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ، أَنَّهُ قَالَ: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، لَمْ يَقُلْ أَوْ غَيْرُهُ. وَقِيلَ: عَنْ صَالِحٍ الْمُرِّيِّ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ. وَقِيلَ: عَنْ عَوْفٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسٍ.

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں یہ سند ضعیف ہے، صالح بن بشیر مری ضعیف ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں کہا ہے اور متروک الحدیث بھی کہا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے اور سند یاد رکھنے میں اس نے غلطی کی ہے جیسا کہ بیہقی رحمہ اللّٰہ نے بیان کیا ہے۔

حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے۔

یہ حدیث مرسلًا حسن بصری سے روایت ہے:

قال ابن أبي الدنيا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ذَكَرَ صَالِحٌ الْمُرِّيُّ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«إِنَّ بُدَلَاءَ أُمَّتِي لَمْ يَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِكَثْرَةِ صَلَاةٍ، وَلَا صَوْمٍ، وَلَا صَدَقَةٍ، وَلَكِنْ دَخَلُوهَا بِرَحْمَةِ اللَّهِ، وَسَخَاوَةِ الْأَنْفُسِ، وَسَلَامَةِ الصُّدُورِ»


۩تخريج: الأولياء لابن أبي الدنيا (٥٨) (المتوفى: ٢٨١هـ)؛ نوادر الأصول في أحاديث الرسول للحكيم الترمذي (المتوفى: نحو ٣٢٠هـ)؛ شعب الإيمان للبيهقي (١٠٣٩٤) (المتوفى: ٤٥٨ھ)؛

اس حدیث کو بعض ضعفاء نے حسن بصری کی سند سے انس رضی اللّٰہ عنہ سے مرفوعًا بھی روایت کیا ہے:

رواه الديلمي: من طريق ابن لال مُعَلَّقًا عَنْ «مُحَمَّدٍ بْنِ عَبْدُ الْعَزِيْزِ الدينوري» حَدَّثَنَا «عثمان بن الهيثم» حَدَّثَنَا عوف عن ‌«الْحَسَنِ» عن أنس مرفوعًا:

«إِنَّ بُدَلَاءَ أُمَّتِي لَمْ يَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِصَوْمٍ وَلَا صَلَاةٍ وَلَكِنْ بِسَلَامَةِ الصُّدُوْرِ وَ سِخَاءِ النَّفْسِ وَنَصِيْحَةٍ لِلْمُسْلِمِيْن»


الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٨٨٤) (المتوفى: ٥٠٩هـ)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ عثمان بن ہیثم ثقہ ہیں لیکن ان کا حافظہ کمزور ہو گیا تھا۔ اور محمد بن عبدالعزیز دینوری کو ذہبی رحمہ اللّٰہ نے ضعیف، منکر الحدیث کہا ہے۔
حافظ ابن حجر نے لسان المیزان میں محمد بن عبدالعزیز دینوری کی منکر احادیث میں سے یہ حدیث بیان کی ہے اور اس کے بعد کہا ہے کہ "اس حدیث کو عثمان دارمی نے صالح بن بشیر مری ابو بشر بصری سے اس نے ثابت سے اور انہوں نے انس رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کیا ہے(جیسا کہ بیہقی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد کہا ہے-مترجم)۔ اور یہ حدیث صالح مری کی حسن بصری سے مرسل روایت ہی معروف ہے، صالح مری متروک الحدیث ہے"۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال أحمد: حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ حَدَّثَنِي شُرَيْحٌ يَعْنِي ابْنَ عُبَيْدٍ قَالَ: ذُكِرَ أَهْلُ الشَّامِ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَهُوَ بِالْعِرَاقِ فَقَالُوا: الْعَنْهُمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ: لَا، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:

«الْأَبْدَالُ يَكُونُونَ بِالشَّامِ، وَهُمْ أَرْبَعُونَ رَجُلًا، كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللهُ مَكَانَهُ رَجُلًا، يُسْقَى بِهِمُ الْغَيْثُ، وَيُنْتَصَرُ بِهِمْ عَلَى الْأَعْدَاءِ، وَيُصْرَفُ عَنْ أَهْلِ الشَّامِ بِهِمِ الْعَذَابُ»


ترجمہ: شریح بن عبید کہتے ہیں کہ جب علی رضی اللّٰہ عنہ عراق میں تھے ان کے پاس اہل شام کا تذکرہ کیا گیا اور لوگوں نے کہا اے امیر المومنین آپ ان پر لعنت کریں تو علی رضی اللّٰہ عنہ نے کہا: نہیں، کیونکہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ابدال شام سے ہوں گے اور وہ چالیس آدمی ہوں گے، جب بھی ان میں سے کوئی مرے گا اللّٰہ اس کی جگہ دوسرے کو لے آئے گا، ان کی وجہ سے بارش برسایا جاتا ہے، ان کی وجہ سے دشمنوں کے خلاف مدد کی جاتی ہے اور انہی کی وجہ سے اہل شام سے عذاب کو پھیرا جاتا ہے۔

۩تخريج: مسند أحمد (٨٩٦) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ)؛ الأحاديث المختارة لضياء الدين المقدسي (٤٨٤) (المتوفى: ٦٤٣هـ)؛ الضعيفة (٢٩٩٣) (ضعيف)

ابن عساکر رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں یہ سند شریح بن عبید اور علی رضی اللّٰہ عنہ کے درمیان منقطع ہے کیونکہ شریح نے علی رضی اللّٰہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔

شیخ البانی کہتے ہیں یہ اثر "لَا تَسُبَّ أَهْلَ الشَّامِ جَمًّا غَفِيرًا فَإِنَّ فِيهِمُ الأَبْدَالَ" علی رضی اللّٰہ عنہ سے موقوفا صحیح ثابت ہے جسے کہ ضیاء الدین مقدسی نے مختارہ میں روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ موقوف روایت مرفوع سے بہتر ہے۔
 
Top