کسی کے بلا دلیل ”کہہ“ دینے سے کوئی بات بلا دلیل نہیں ہوجایا کرتی بلکہ ”دلیل“ سے اس کو بلا دلیل ثابت کیا جاتا ہے۔
ھم دلیل دے رھے ھیں کہ ایک رکعات وتر پڑھنا مسنون ھے.
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَلِّمُ فِي كُلِّ ثِنْتَيْنِ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ .
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت پہ سلام پھیرتے تھے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔
ابن ماجہ: 1177 (باب: ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان.)
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى الْفَجْرِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُسَلِّمُ فِي كُلِّ اثْنَتَيْنِ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ، وَيَسْجُدُ فِيهِنَّ سَجْدَةً بِقَدْرِ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنَ الْأَذَانِ الْأَوَّلِ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ، قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ .
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء کے بعد سے فجر تک گیارہ رکعت پڑھتے تھے، اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے، اور ان رکعتوں میں سجدہ اتنا طویل کرتے کہ کوئی سر اٹھانے سے پہلے پچاس آیتیں پڑھ لے، اور جب مؤذن صبح کی پہلی اذان سے فارغ ہو جاتا تو آپ کھڑے ہوتے، اور دو ہلکی رکعتیں پڑھتے.
ابن ماجہ: 1358
أن رجلا ، جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو يخطب فقال كيف صلاة الليل فقال مثنى مثنى ، فإذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة ، توتر لك ما قد صليت . قال الوليد بن كثير حدثني عبيد الله بن عبد الله أن ابن عمر حدثهم أن رجلا نادى النبي صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد.
ترجمہ: ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خطبہ دے رہے تھے آنے والے نے پوچھا کہ رات کی نماز کس طرح پڑھی جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو دو رکعت پھر جب طلوع صبح صادق کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت وتر کی پڑھ لے تاکہ تو نے جو نماز پڑھی ہے اسے یہ رکعت طاق بنا دے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ولید بن کثیر نے کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ عمری نے بیان کیا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دی جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے۔
صحیح بخاری: 473
حدثنا عبد الله بن مسلمة ، عن مالك ، عن مخرمة بن سليمان ، عن كريب ، أن ابن عباس ، أخبره أنه ، بات عند ميمونة ، وهى خالته ، فاضطجعت في عرض وسادة ، واضطجع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأهله في طولها ، فنام حتى انتصف الليل أو قريبا منه ، فاستيقظ يمسح النوم عن وجهه ، ثم قرأ عشر آيات من آل عمران ، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى شن معلقة ، فتوضأ فأحسن الوضوء ، ثم قام يصلي فصنعت مثله فقمت إلى جنبه ، فوضع يده اليمنى على رأسي ، وأخذ بأذني يفتلها ، ثم صلى ركعتين ، ثم ركعتين ، ثم ركعتين ، ثم ركعتين ، ثم ركعتين ، ثم ركعتين ، ثم أوتر ، ثم اضطجع حتى جاءه المؤذن فقام فصلى ركعتين ثم ، خرج فصلى الصبح.
ترجمہ: آپ ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سوئے (آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ) میں تکیہ کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی لمبائی میں لیٹیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے جب آدھی رات گزر گئی یا اس کے لگ بھگ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے نیند کے اثر کو چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور کیا۔ اس کے بعد آل عمران کی دس آیتیں پڑھیں۔ پھر ایک پرانی مشک پانی کی بھری ہوئی لٹک رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور اچھی طرح وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیار سے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر رکھ کر اور میرا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت سب بارہ رکعتیں پھر ایک رکعت وتر پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے، یہاں تک کہ مؤذن صبح صادق کی اطلاع دینے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کھڑے ہو کر دو رکعت سنت نماز پڑھی۔ پھر باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی۔
صحیح بخاری: 992
اسکے علاوہ ایک رکعت وتر کے مسنون ھونے پر کثرت سے احادیث ھیں.