• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (صلاۃ الوتر)

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
بالکل بلا دلیل ھے. ایک نہیں سو بار کہیں گے.
کسی کے بلا دلیل ”کہہ“ دینے سے کوئی بات بلا دلیل نہیں ہوجایا کرتی بلکہ ”دلیل“ سے اس کو بلا دلیل ثابت کیا جاتا ہے۔

شاید آپ نے ھماری بات کو غلط سمجھ بیٹھے یا ھم سمجھا نہیں پاۓ. ھم نے یہ کہنا چاھا تھا کہ ھم تین اور ایک دونوں کو مسنون مانتے ھیں. ھمارے کہنے کا مطلب یہ ھرگز نہیں تھا کہ ھم ایک اور تین کے علاوہ کے انکاری ھیں. ایک سنت کو منسوخ قرار دینے کی مذموم سعی کوئ مقلد اور جاھل شخص ھی جرات کر سکتا ھے ھم نہیں
یہ بیان کہیں ”داؤ پیچ“ ہی کا شاخصانہ تو نہیں؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
ھم آپ سے دوبارہ سوال کرتے ھیں کہ تین کے علاوہ باقی رکعات والی احادیث کا آپ کیا جواب دیں گے.
واضح الفاظ میں دلیل کے ساتھ عرض کریں
جن الفاظ کو میں نے ملون کیا ہے ان پر ”تھوڑا سا“ غور فرمائیے گا۔
آپ کی اس پوسٹ کا جواب اس تھریڈ کی پہلی پوسٹ میں موجود ہے اسے ”غور“ سے پڑھئے گا۔
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
اس حدیث میں ”تین“ کے علاوہ کی نفی ”اہلِ بصیرت“ کو بخوبی نظر آتی ہے۔ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سارا سال چار چار اور ”تین“ رکعات پر زیادتی نہیں کرتے تھے۔ جب ”تین“ کاتعین ہوگیا تو بقیہ اعداد کی نفی خود بخود ہوگئی۔
اب کیا کہیں آپکو. حد درجہ افسوس ھے.
ھم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ آپ ھماری رھنمائ حدیث کے اس ٹکڑے کی طرف کر دیں جس سے ایک رکعت وتر کی نفی ھوتی ھو. اور اس ٹکڑے کی طرف جس سے تین پر دوام ثابت ھو. لیکن آپ صرف لفاظیوں میں ھی کھو کر رھ گۓ.
ھم نے آپ سے یہ بھی تقاضہ کیا تھا کہ آپ یہ بتا دیں کہ یہ حدیث کس سنہ کی ھے. لیکن اس پر بھی آپ خاموش رھے.
ھم کہتے ھیں کہ جب علم نہ ھوا کرے تو خاموشی اختیار کریں. کیوں بلاوجہ اپنا اور دوسروں کا وقت برباد کرتے ھیں؟
میں نے حدیث لکھ کر اس سے جو واضح طور پر مفہوم حاصل ہو رہا تھا وہ بیان کر دیا۔ اگر آپ کے بقول یہ ”داؤ پیچ“ ہیں تو آپ اپنی دلیل میں قرآن و حدیث پیش کریں ”میں نہ مانوں“ والی حرکت نہ کریں
ھم دلیل پیش کۓ دیتے ھیں:
عن ابن عمر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن رجلا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الليل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ صلاة الليل مثنى مثنى ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ توتر له ما قد صلى ‏ ‏‏.‏
ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ھیکہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات میں نماز کے متعلق معلوم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے پھر جب کوئی صبح ہو جانے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔
یہ حدیث صحیح بخاری میں ھے: 990
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
کسی کے بلا دلیل ”کہہ“ دینے سے کوئی بات بلا دلیل نہیں ہوجایا کرتی بلکہ ”دلیل“ سے اس کو بلا دلیل ثابت کیا جاتا ہے۔
ھم دلیل دے رھے ھیں کہ ایک رکعات وتر پڑھنا مسنون ھے.
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَلِّمُ فِي كُلِّ ثِنْتَيْنِ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ .
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت پہ سلام پھیرتے تھے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔
ابن ماجہ: 1177 (باب: ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان.)

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى الْفَجْرِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، ‏‏‏‏‏‏يُسَلِّمُ فِي كُلِّ اثْنَتَيْنِ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيَسْجُدُ فِيهِنَّ سَجْدَةً بِقَدْرِ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنَ الْأَذَانِ الْأَوَّلِ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ، ‏‏‏‏‏‏قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ .
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء کے بعد سے فجر تک گیارہ رکعت پڑھتے تھے، اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے، اور ان رکعتوں میں سجدہ اتنا طویل کرتے کہ کوئی سر اٹھانے سے پہلے پچاس آیتیں پڑھ لے، اور جب مؤذن صبح کی پہلی اذان سے فارغ ہو جاتا تو آپ کھڑے ہوتے، اور دو ہلکی رکعتیں پڑھتے.
ابن ماجہ: 1358

أن رجلا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو يخطب فقال كيف صلاة الليل فقال ‏ ‏ مثنى مثنى ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ توتر لك ما قد صليت ‏ ‏‏.‏ قال الوليد بن كثير حدثني عبيد الله بن عبد الله أن ابن عمر حدثهم أن رجلا نادى النبي صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد‏.‏
ترجمہ: ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خطبہ دے رہے تھے آنے والے نے پوچھا کہ رات کی نماز کس طرح پڑھی جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو دو رکعت پھر جب طلوع صبح صادق کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت وتر کی پڑھ لے تاکہ تو نے جو نماز پڑھی ہے اسے یہ رکعت طاق بنا دے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ولید بن کثیر نے کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ عمری نے بیان کیا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دی جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے۔
صحیح بخاری: 473

حدثنا عبد الله بن مسلمة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن مالك ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن مخرمة بن سليمان ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن كريب ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن ابن عباس ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبره أنه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ بات عند ميمونة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وهى خالته ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فاضطجعت في عرض وسادة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ واضطجع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأهله في طولها ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فنام حتى انتصف الليل أو قريبا منه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فاستيقظ يمسح النوم عن وجهه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم قرأ عشر آيات من آل عمران ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى شن معلقة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فتوضأ فأحسن الوضوء ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم قام يصلي فصنعت مثله فقمت إلى جنبه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فوضع يده اليمنى على رأسي ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأخذ بأذني يفتلها ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم صلى ركعتين ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم ركعتين ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم ركعتين ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم ركعتين ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم ركعتين ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم ركعتين ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم أوتر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم اضطجع حتى جاءه المؤذن فقام فصلى ركعتين ثم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ خرج فصلى الصبح‏.‏
ترجمہ: آپ ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سوئے (آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ) میں تکیہ کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی لمبائی میں لیٹیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے جب آدھی رات گزر گئی یا اس کے لگ بھگ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے نیند کے اثر کو چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور کیا۔ اس کے بعد آل عمران کی دس آیتیں پڑھیں۔ پھر ایک پرانی مشک پانی کی بھری ہوئی لٹک رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور اچھی طرح وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیار سے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر رکھ کر اور میرا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت سب بارہ رکعتیں پھر ایک رکعت وتر پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے، یہاں تک کہ مؤذن صبح صادق کی اطلاع دینے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کھڑے ہو کر دو رکعت سنت نماز پڑھی۔ پھر باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی۔
صحیح بخاری: 992

اسکے علاوہ ایک رکعت وتر کے مسنون ھونے پر کثرت سے احادیث ھیں.
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
جن الفاظ کو میں نے ملون کیا ہے ان پر ”تھوڑا سا“ غور فرمائیے گا۔
آپ کی اس پوسٹ کا جواب اس تھریڈ کی پہلی پوسٹ میں موجود ہے اسے ”غور“ سے پڑھئے گا۔
ھم نے دیکھا کہ کیسے آپ نے طفلانہ حرکت کی ھے.
آپ نے کہا کہ پہلے یہ نفل تھی اسکے بعد واجب ھوگئ.
ایسا بودا فہم آج تک نہیں دیکھا
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
بات فقہ کے حوالہ سے نہیں ہو رہی قرآن اور حدیث کے حوالہ سے ہو رہی ہے۔ قرآن و حدیث ”بودا فہم“ نہیں دیتے بلکہ ”صحیح فہم“ دیتے ہیں بشرطیکہ ”عصبیت“ کو چھوڑ کر ان سے فہم حاصل کریں تب۔
یقینا وہ فہم. بودا ھی ھوگا جو قرآن وحدیث کے خلاف ھے. اور آپ کا فہم ایسا ھی ھے. پھر کہوں گا لفاظی نہ کریں. ھوش کا سامان کریں اور سیدھے سادے الفاظ میں ھماری سوال کا جواب دے دیں.
معلوم نہیں قرآن و حدیث سے لاعلمی کس کو ہے؟ میں نے تو حدیث لکھی اور اس کا مفہوم بیان کر دیا جو اس میں موجود ہے۔ سطحی مطالعہ کرنے والوں سے یا ”متعصبین“ سے ایسی باتیں اوجھل رہتی ہیں۔ فلا شک
ھم نے تو کہا کہ آپ ھماری رھنمائ کردیں. لیکن آپ لیکر کے فقیر بنے بیٹھے ھیں. اب تک ھمارے سوال کا جواب نہ بن پڑا.
میں نے حدیث لکھ کر اس سے جو واضح طور پر مفہوم حاصل ہو رہا تھا وہ بیان کر دیا۔ اگر آپ کے بقول یہ ”داؤ پیچ“ ہیں تو آپ اپنی دلیل میں قرآن و حدیث پیش کریں ”میں نہ مانوں“ والی حرکت نہ کریں
ھم نے دلیل نقل کر دی ھے. اب لفاظی نہ کریں. اور فورا سے پیشتر صرف ھمارے سوال کا جواب دے دیں.
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
عن ابن عمر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن رجلا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الليل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ صلاة الليل مثنى مثنى ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ توتر له ما قد صلى ‏ ‏‏.‏
ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ھیکہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات میں نماز کے متعلق معلوم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے پھر جب کوئی صبح ہو جانے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔
یہ حدیث صحیح بخاری میں ھے: 990
اس حدیث کو اگر بغور پڑھتے تو آپ کو پتہ چل جاتا کہ صحیح معنیٰ میں وتر کی رکعات تین ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور جب کوئی صبح ہو جانے سے ڈرے توا یک رکعت پڑھ لے وہ اس کی پڑھی ہوئی نماز کو طاق بنا دے گی۔
اگر یہ ایک رکعت الگ سے ہوتی تو یہ پڑھی ہوئی (دو دو) رکعت کو کیسے طاق بناسکتی تھی؟ دو طاق نہیں ہوتے اور نہ بنائے جاسکتے ہیں۔ اس حدیث کی صحیح تفہیم یہ ہے کہ آخری دو رکعت کے ساتھ ایک رکعت ملا لے تو وہ طاق بن جائے گی مگر تعداد میں تین ہوگی۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَلِّمُ فِي كُلِّ ثِنْتَيْنِ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ .
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت پہ سلام پھیرتے تھے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔
ابن ماجہ: 1177 (باب: ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان.)
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى الْفَجْرِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، ‏‏‏‏‏‏يُسَلِّمُ فِي كُلِّ اثْنَتَيْنِ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيَسْجُدُ فِيهِنَّ سَجْدَةً بِقَدْرِ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنَ الْأَذَانِ الْأَوَّلِ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ، ‏‏‏‏‏‏قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ .
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء کے بعد سے فجر تک گیارہ رکعت پڑھتے تھے، اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے، اور ان رکعتوں میں سجدہ اتنا طویل کرتے کہ کوئی سر اٹھانے سے پہلے پچاس آیتیں پڑھ لے، اور جب مؤذن صبح کی پہلی اذان سے فارغ ہو جاتا تو آپ کھڑے ہوتے، اور دو ہلکی رکعتیں پڑھتے.
ابن ماجہ: 1358
ان تمام روایات میں ” يُسَلِّمُ فِي كُلِّ ثِنْتَيْنِ“ کا ترجمہ ”ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے“ صحیح نہیں بلکہ ہر دو رکعت پر تشہد بیٹھتے ہے کیوں کہ سلام بمعنیٰ تشہد بھی احادیث میں استعمال ہؤا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف ایک رکعت پڑھنا بتصریح کہیں ثابت نہیں ہاں اس کا اشتباہ ہوتا ہے۔ ایک رکعت پڑھنے کا طریقہ کسی حدیث میں مذکور نہیں۔
 
Top