عبدالرحمن بھٹی
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 13، 2015
- پیغامات
- 2,435
- ری ایکشن اسکور
- 293
- پوائنٹ
- 165
المستدرك على الصحيحين للحاكم كتاب معرفة الصحابة رضي الله عنهم ذكر أبي بصرة جميل بن بصرة الغفاري رضي الله عنه حدیث نمبر 6591 میں ہے کہ ابو بصرہ رضی الله عنہ صحابہ کی ایک جماعت سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے پس اس کو نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان پڑھو اور وہ صلاۃ الوتر ہے۔
مسند الشاميين للطبراني میں ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے اور وہ ہے صلاۃ الوتر۔
مصنف عبد الرزاق جز 3 باب وجوب الوتر هل شئ من التطوع واجب حدیث نمبر 4582 میں ہے کہ عمرو بن شعیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے پاس آئے اور فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک نماز کا اضافہ تمہاری نمازوں میں کیا ہے پس اس کی حفاظت کرو اور وہ ہے صلاۃ الوتر۔
ھم نے تو سوچا تھا کہ آپ کوئ روایت نقل کریں گے جس سے معلوم ھوگا کہ صلاۃ وتر پہلے نفل تھی اسکے بعد واجب ھوگئ. لیکن آپ تو اس تدریج کو ثابت نہ کر سکے. اور جو روایات نقل کی ھیں اس سے بھی وجوب تک ثابت نہیں ھوتا چہ جائیکہ ان روایات سے صلاۃ وتر کے پہلے نفل اور اسکے بعد اسکے واجب ھونے کا پتہ چلے.
مزید آپ نے ان احادیث کی سندیں بھی نہیں ذکر کی ھیں اور نہ ھی کسی محدث کا کلام.
لہذا ھمیں اب بھی دلیل کا انتظار ھے.
سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فی من لم يُوتِرْ حدیث نمبر 1209 میں ہے کہ عبد اللہ اپنے باپ بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے کہ وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں۔
قارئین کرام نوٹ فرمائیں کہ پہلی تین روایات پر اعتراض ”سند“ کا کیا اور آخری کی بھی سند نہ تھی مگر اس کی سند پر اعتراض اٹھایا خود سند ذکر کرکے۔رھی اس روایت کی بات تو پہلے اس کی سند پر غور کیجۓ گا:
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ الطَّالْقَانِيُّ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْعَتَكِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا
اس کی سند میں ایک راوی عبید اللہ العتکی ھے. جس کی وجہ سے حدیث ضعیف ھے. علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کو ضعیف کہا ھے.
علی رضی الله عنه وتر کے سنت ھونے کو بیان فرماتے ھیں:
عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَهَيْئَةِ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ وَلَكِنْ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ترجمہ: وتر لازم نہیں ہے جیسا کہ فرض صلاۃ کا معاملہ ہے، بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے
(سنن ترمذی: 454)
مقصد بحث برائے بحث ہی ہؤا نہ کہ بحث برائے افادہ۔
ان لوگوں کو حدیث کے متن (جو اصل ہے) سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بس کوشش یہ ہوتی ہے کہ جو حدیث ان کی حدیث نفس کے خلاف ہوتی ہے اسے کسی نہ کسی راوی پر طعن کر کے اسے رد کر دیں گے۔ جو حدیث ان کے مطلب کی ہوتی ہے اس کا متن بھلے قرآن اور صحیح احادیث کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اسے روات سے صحیح ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کریں گے۔ اللہ اسے ہی ہدایت دیتے ہیں جو ہدایت حاصل کرنا چاہے۔