• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (صلاۃ الوتر)

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
المستدرك على الصحيحين للحاكم كتاب معرفة الصحابة رضي الله عنهم ذكر أبي بصرة جميل بن بصرة الغفاري رضي الله عنه حدیث نمبر 6591 میں ہے کہ ابو بصرہ رضی الله عنہ صحابہ کی ایک جماعت سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے پس اس کو نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان پڑھو اور وہ صلاۃ الوتر ہے۔
مسند الشاميين للطبراني میں ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے اور وہ ہے صلاۃ الوتر۔
مصنف عبد الرزاق جز 3 باب وجوب الوتر هل شئ من التطوع واجب حدیث نمبر 4582 میں ہے کہ عمرو بن شعیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے پاس آئے اور فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک نماز کا اضافہ تمہاری نمازوں میں کیا ہے پس اس کی حفاظت کرو اور وہ ہے صلاۃ الوتر۔
ھم نے تو سوچا تھا کہ آپ کوئ روایت نقل کریں گے جس سے معلوم ھوگا کہ صلاۃ وتر پہلے نفل تھی اسکے بعد واجب ھوگئ. لیکن آپ تو اس تدریج کو ثابت نہ کر سکے. اور جو روایات نقل کی ھیں اس سے بھی وجوب تک ثابت نہیں ھوتا چہ جائیکہ ان روایات سے صلاۃ وتر کے پہلے نفل اور اسکے بعد اسکے واجب ھونے کا پتہ چلے.
مزید آپ نے ان احادیث کی سندیں بھی نہیں ذکر کی ھیں اور نہ ھی کسی محدث کا کلام.
لہذا ھمیں اب بھی دلیل کا انتظار ھے.
سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فی من لم يُوتِرْ حدیث نمبر 1209 میں ہے کہ عبد اللہ اپنے باپ بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے کہ وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں۔
رھی اس روایت کی بات تو پہلے اس کی سند پر غور کیجۓ گا:
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ الطَّالْقَانِيُّ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْعَتَكِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا
اس کی سند میں ایک راوی عبید اللہ العتکی ھے. جس کی وجہ سے حدیث ضعیف ھے. علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کو ضعیف کہا ھے.
علی رضی الله عنه وتر کے سنت ھونے کو بیان فرماتے ھیں:
عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَهَيْئَةِ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ وَلَكِنْ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ترجمہ: وتر لازم نہیں ہے جیسا کہ فرض صلاۃ کا معاملہ ہے، بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے
(سنن ترمذی: 454)
قارئین کرام نوٹ فرمائیں کہ پہلی تین روایات پر اعتراض ”سند“ کا کیا اور آخری کی بھی سند نہ تھی مگر اس کی سند پر اعتراض اٹھایا خود سند ذکر کرکے۔
مقصد بحث برائے بحث ہی ہؤا نہ کہ بحث برائے افادہ۔
ان لوگوں کو حدیث کے متن (جو اصل ہے) سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بس کوشش یہ ہوتی ہے کہ جو حدیث ان کی حدیث نفس کے خلاف ہوتی ہے اسے کسی نہ کسی راوی پر طعن کر کے اسے رد کر دیں گے۔ جو حدیث ان کے مطلب کی ہوتی ہے اس کا متن بھلے قرآن اور صحیح احادیث کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اسے روات سے صحیح ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کریں گے۔ اللہ اسے ہی ہدایت دیتے ہیں جو ہدایت حاصل کرنا چاہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
آپ نے ”وَإِنَّ كُلًّا لَوَاسِعٌ أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِشَيْءٍ مِنْهُ بَأْسٌ“ کا ترجمہ کیوں چھوڑ دیا؟؟؟.
میں نے جو چھوڑا اس کی نشاندہی بھی کی ۔۔۔ سے اور چھوڑا اس لئے کہ جس فقرہ سے میرا مقصود تھا وہ”وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَكْنَا يُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ“ تھا جو ایک الگ فقرہ ہے اور جو آپ نے ذکر کیا وہ الگ فقرہ اور الگ مفہوم کا حامل ہے۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ قاسم رحمۃ اللہ نے یہ ذکرتو بالجزم کیا کہ ہم نے لوگوں کو تین رکعت ہی پڑھتے پایا مگر ایک رکعت پڑھنے والوں کا ذکر نہیں کیا۔ کیوں؟

یہ ھے پورا ترجمہ. بطور خاص آپ کے ترک کۓ ھوۓ ترجمہ کو ھم پھر نقل کر دیتے ھیں:
وَإِنَّ كُلًّا لَوَاسِعٌ أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِشَيْءٍ مِنْهُ بَأْسٌ
یعنی: اور تین یا ایک سب جائز اور مجھ کو امید ہے کہ کسی میں قباحت نہ ہوگی۔
میں نے تو ترجمہ کیا ہی نہیں کہ اس کی ضرورت نہ تھی مگر جناب نے جو حرکت کی اس کو کیا کہیں؟ عربی کے کس لفظ کا ترجمہ ”تین یا ایک“ ہے نشاندہی فرمادیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
ھمیں نہیں معلوم کہ آپ نے یہ روایات کیوں نقل کی ھیں. لہذا ھم اس پر ابھی سکوت کرتے ھیں.
جب آپ میں کسی حدیث کو براہِ راست سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں تو آپ کا بحث کرنا بے فائدہ ہے لہٰذا آپ کا سکوت و سکون کرنا ہی بہتر ہے اس سے کہ جو دوسرا پٹی پڑھا دے اسے رٹنا شروع ہوجائیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
پوسٹ نمبر 134 میں مندرج احادیث کی وضاحت
معرفة السنن والآثار للبيهقي - (ج 4 / ص 241)
1472 - وأخبرنا أبو سعيد قال : حدثنا أبو العباس قال : أخبرنا الربيع قال : قال الشافعي فيما بلغه عن يحيى بن عباد ، عن شعبة ، عن إبراهيم بن مهاجر ، عن إبراهيم النخعي ، عن الأسود ، عن عبد الله أنه كان « يوتر بخمس أو سبع » قال : وسفيان ، عن إبراهيم ، عن عبد الله ، أنه كان يكره أن تكون ثلاثا بترا ، ولكن خمسا أو سبعا قال الشافعي : وليسوا يقولون بهذا يقولون : صلاة الليل مثنى مثنى إلا الوتر ؛ فإنها ثلاث متصلات لا يصلى الوتر أكثر من ثلاث
امام شافعی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہرات کی نماز دو دو رکعت ہے سوائے وتر کے۔ بے شک وہ تین رکعات ہیں اکٹھی اور تین رکعات وتر سے زیادہ نہیں ہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
معرفة السنن والآثار للبيهقي - (ج 4 / ص 239)
الوتر بثلاث ركعات موصولات بتشهدين ويسلم من الثالثة

معرفة السنن والآثار للبيهقي - (ج 4 / ص 240)
1471 - أخبرنا أبو عبد الله الحافظ قال : أخبرنا الحسن بن يعقوب العدل قال : حدثنا يحيى بن أبي طالب قال : حدثنا عبد الوهاب بن عطاء قال : أخبرنا سعيد ، عن قتادة ، عن زرارة بن أوفى ، عن سعيد بن هشام ، عن عائشة قالت : كان النبي صلى الله عليه وسلم «لا يسلم في الركعتين الأوليين من الوتر» هكذا روياه عبد الوهاب بن عطاء ، وعيسى بن يونس ، عن سعيد بن أبي عروبة ، وهو مختصر من الحديث الأول
.
معرفة السنن والآثار للبيهقي - (ج 4 / ص 241)
1472 - وأخبرنا أبو سعيد قال : حدثنا أبو العباس قال : أخبرنا الربيع قال : قال الشافعي فيما بلغه عن يحيى بن عباد ، عن شعبة ، عن إبراهيم بن مهاجر ، عن إبراهيم النخعي ، عن الأسود ، عن عبد الله أنه كان « يوتر بخمس أو سبع » قال : وسفيان ، عن إبراهيم ، عن عبد الله ، أنه كان يكره أن تكون ثلاثا بترا ، ولكن خمسا أو سبعا قال الشافعي : وليسوا يقولون بهذا يقولون : صلاة الليل مثنى مثنى إلا الوتر ؛ فإنها ثلاث متصلات لا يصلى الوتر أكثر من ثلاث
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
قارئین کرام نوٹ فرمائیں کہ پہلی تین روایات پر اعتراض ”سند“ کا کیا اور آخری کی بھی سند نہ تھی مگر اس کی سند پر اعتراض اٹھایا خود سند ذکر کرکے۔
اب آپکی ھی زبان میں ھم بات کریں گے.
قارئین کرام نوٹ فرما لیں. ھمیں یہ قطعا علم نہیں تھا کہ بھٹی صاحب نرے جاھل ھیں. ورنہ ھم وھیں پر وضاحت کر دیتے. لیکن اب جب کہ ھم پر یہ واضح ھو چکا ھے کہ یہ شخص نہ صرف جاھل بلکہ جاھل مطلق ھے ساتھ ساتھ اعلی درجے کا متعصب بھی تو ھم وضاحت کرتے چلیں. حالانکہ اسکی چنداں ضرورت نہیں ھے. لیکن شاید کہ جاھلوں کی قوم کو کچھ عقل آجاۓ. (ھم نے صرف ان لوگوں کو جاھل کہا ھے جو ایسا رویہ اپناتے ھیں. جو نبي صلي الله عليه وسلم کی اس فرمان کو پس پشت ڈال دیتے ھیں: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا. ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بدگمانی سے بچتے رہو ، کیونکہ گمان ( بدظنی ) سب سے جھوٹی بات ہے ۔ آپس میں ایک دوسرے کی برائی کی تلاش میں نہ لگے رہو نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرو ، بلکہ اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو ۔ (صحیح بخاری: 6724)

اب ان جاھل مطلق کی سمجھ میں ایک بات نہیں آئ کہ کتب ستہ بھی تمام علموں کے پاس نہیں ھوتی ھیں. عامی کے پاس بھی کم ھی ھوتی ھیں. تو یہ مستدک حاکم اور مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ ھونا تو دور کی بات ھے. لہذا ھم ان روایات کی سندیں کہاں تلاش کرتے پھرتے؟؟؟
مقصد بحث برائے بحث ہی ہؤا نہ کہ بحث برائے افادہ۔
جب سے ھم نے آپ سے بحث کا آغاز کیا ھے تو ھم پر یہ حقیقت منکشف ھوئ ھے کہ بحث براۓ بحث تو آپ کر رھے ھیں.
ان لوگوں کو حدیث کے متن (جو اصل ہے) سے کوئی سروکار نہیں ہوتا
علم غیب رکھتے ھیں کیا؟؟؟
یا مفتی بننے کا زیادہ شوق ھے؟؟؟
پہلے جو مطالبات کۓ گۓ تھے انکو پورا کرتے اسکے بعد فتوے بازی شروع کرتے. ھم نے پیار سے بس آپ سے مطالبات کۓ تھے لیکن آپ تو اپنی جہالت کا مظاھرہ کرنے لگے.
بس کوشش یہ ہوتی ہے کہ جو حدیث ان کی حدیث نفس کے خلاف ہوتی ہے اسے کسی نہ کسی راوی پر طعن کر کے اسے رد کر دیں گے۔
یہ آپ کے جاھل مطلق ھونے کا سب سے بڑا ثبوت ھے.
ھم تو بس محدثین کے اقوال کی روشنی میں اپنی بات کہ دیتے ھیں. لہذا اعتراض سب سے پہلے جا کر ان محدثین پر کریں جنھوں نے راویوں کے سلسلے میں کلام کیا ھے. اور یہ ضرور سوچ لیجۓ گا کہ آپ کے اس اعتراض کی زد میں کون کون آرھا ھے.
جو حدیث ان کے مطلب کی ہوتی ہے اس کا متن بھلے قرآن اور صحیح احادیث کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اسے روات سے صحیح ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کریں گے
اس میں بھی آپ نے اپنے جاھل مطلق ھونے کا ثبوت دیا ھے. خود اپنے الفاظ پر غور فرما لیں. ورنہ ھم اگر عرض کریں گے تو آپ کو ندامت وشکایت ھوگی.
اللہ اسے ہی ہدایت دیتے ہیں جو ہدایت حاصل کرنا چاہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
ندامت تو هرگز نہیں هونی ، هاں ، شکایت ضرور هونی هے بلکہ واویلہ هوگا ۔ ادارہ پر حرف لایا جائیگا ۔ ذاتیات پر کلام هونگے ۔ آزادی تحریر کی دہائی الگ هو گی ۔ مضحکہ دانستہ اڑایا جائیگا اور پرسش پر اس عمل کو مذاق کہا جائیگا ، اس طرح: ابتسامہ کہکر ۔۔۔۔ دعوی سکهانے کا هے ویسے انکا اور باوضو هو کر ، "نیت" بهی کی هے کہ "چند ایک اہلحدیث کو 'راہ راست' پر لے آئنگے" اس لئیے هوشیار باش ۔۔۔ اللہ آپ سبکو آزمائشوں میں ثابت قدم رکہے اور صراط المستقیم پر قائم رکهے ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
قارئینِ کرام!
جناب @سید شاد صاحب نے اپنے ایک مراسلہ میں کتنے ڈھیر سارے دلائل کتنے ”احسن انداز “ میں ”تعصب“ سے پاک انداز میں دیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اہلِ سنت احناف کو ایسے ”احسن انداز“ میں گفتگو سے اور ”عصبیت“ سے دور رکھے (کہو آمین)۔

نمونے ملاحظہ فرمائیں؛
ھمیں یہ قطعا علم نہیں تھا کہ بھٹی صاحب نرے جاھل ھیں.
ھم پر یہ واضح ھو چکا ھے کہ یہ شخص نہ صرف جاھل بلکہ جاھل مطلق ھے
اب ان جاھل مطلق کی سمجھ میں ایک بات نہیں آئ کہ کتب ستہ بھی تمام علموں کے پاس نہیں ھوتی ھیں.
ھم نے پیار سے بس آپ سے مطالبات کۓ تھے لیکن آپ تو اپنی جہالت کا مظاھرہ کرنے لگے.
یہ آپ کے جاھل مطلق ھونے کا سب سے بڑا ثبوت ھے.
اس میں بھی آپ نے اپنے جاھل مطلق ھونے کا ثبوت دیا ھے.
یہ صرف ایک مراسلہ کے اقتباسات ہیں ہے بقیہ مراسلات کو اسی پر گھمان کرلیں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
علم غیب میں کمال رکهتے ہیں چنانچہ اگر آپ اور میں کسی کو دعاء بهی دیں تو یہ اس دعاء سے بهی حسد رکهتے ہیں ۔ ریٹنگ پر بهی نظر بد لگائے هوتے ہیں ۔۔ واللہ المستعان
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
میں نے جو چھوڑا اس کی نشاندہی بھی کی ۔۔۔ سے اور چھوڑا اس لئے کہ جس فقرہ سے میرا مقصود تھا وہ”وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَكْنَا يُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ“ تھا
ھم نے اسی لۓ کہا تھا کہ لا تقربوا الصلاة سے استدلال کرنے والوں کی مثال نہ بنیں بلکہ آگے وانتم سكٰري کو بھی دیکھ لیں.
جو ایک الگ فقرہ ہے اور جو آپ نے ذکر کیا وہ الگ فقرہ اور الگ مفہوم کا حامل ہے۔
ھم نے تو واضح کر دیا کہ اس فقرے کا تعلق پیچھے سے ھی ھے. اگر ھم غلط تھے تو آپ ھماری تصحیح کرتے نہ کہ اپنی متعصب ھونے کا ثبوت دیتے ھوۓ فتوے بازی کرتے.
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ قاسم رحمۃ اللہ نے یہ ذکرتو بالجزم کیا کہ ہم نے لوگوں کو تین رکعت ہی پڑھتے پایا مگر ایک رکعت پڑھنے والوں کا ذکر نہیں کیا۔ کیوں؟
اب جنکی عقل پر پردہ ھو انھیں یہ سب کیسے نظر آۓ گا؟؟؟
حالانکہ قاسم رحمه الله نے آگے خود بتا دیا کہ اس معاملے میں وسعت ھے. اور یہ وسعت متعصب اور جاھل مطلق کو یقینا نظر نہیں آۓ گی. رھی بات قاسم رحمه الله کے مشاھدے کی تو انھوں نے یہ قطعا نہیں کہا کہ تین کے علاوہ کوئ پڑھتا ھی نہیں یا تین کے علاوہ سب منسوخ ھیں. ظاھر سی بات ھے کہ وہ اپنا محدود مشاھدہ بتا رھے ھیں. مزید ھم آپ کے سامنے کچھ آثار وغیرہ نقل کرتے ھیں جس سے ھماری تائید ھوتی ھے:
عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ أَوْتَرَ مُعَاوِيَةُ بَعْدَ الْعِشَاءِ بِرَكْعَةٍ وَعِنْدَهُ مَوْلًى لِابْنِ عَبَّاسٍ فَأَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ دَعْهُ فَإِنَّهُ قَدْ صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ترجمہ: ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاءکے بعد وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ، وہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ( کریب ) بھی موجود تھے ، جب وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ( حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ایک رکعت وتر کا ذکر کیا ) اس پر انہوں نے کہا : کوئی حرج نہیں ہے ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہے ۔ (صحیح بخاری: 3764)

عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ أَنَّ أَبَا مُوسَى كَانَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَصَلَّى الْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَةً أَوْتَرَ بِهَا فَقَرَأَ فِيهَا بِمِائَةِ آيَةٍ مِنْ النِّسَاءِ ثُمَّ قَالَ مَا أَلَوْتُ أَنْ أَضَعَ قَدَمَيَّ حَيْثُ وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدَمَيْهِ وَأَنَا أَقْرَأُ بِمَا قَرَأَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ترجمہ: حضرت ابومجلز سے منقول ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (سفر کے دورن میں) مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے تو انھوں نے عشاء کی نماز دو رکعت پڑھی، پھر کھڑے ہوئے اور ایک رکعت وتر پڑھا اور اس میں سورۂ نسا کی سو آیات پڑھیں، پھر فرمایا: میں نے اس بات میں ذرہ بھر کوتاہی نہیں کی کہ وہاں پاؤں رکھوں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قدم مبارک رکھے اور وہی کچھ پڑھوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا۔ (سنن نسائی: 1728)

اسکے علاوہ بھی کئ آثار موجود ھیں.

میں نے تو ترجمہ کیا ہی نہیں کہ اس کی ضرورت نہ تھی مگر جناب نے جو حرکت کی اس کو کیا کہیں؟ عربی کے کس لفظ کا ترجمہ ”تین یا ایک“ ہے نشاندہی فرمادیں۔
ھم نے ترجمہ صحیح کیا ھے. اگر ھم نے غلط کیا ھے تو آپ صحیح ترجمہ کر دیں. تاکہ ھم دارالسلام والوں کو آگاہ کر دیں کہ آپ نے ترجمہ غلط کیا ھے:
http://sunnah.com/bukhari/14/4
 
Top