• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (صلاۃ الوتر)

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
صحيح البخاري - (ج 4 / ص 73)
938 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ فَارْكَعْ رَكْعَةً تُوتِرُ لَكَ مَا صَلَّيْتَ

قَالَ الْقَاسِمُ وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَكْنَا يُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ وَإِنَّ كُلًّا لَوَاسِعٌ أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِشَيْءٍ مِنْهُ بَأْسٌ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور جب کوئی اختتام کرنا چاہے تو ایک رکعت پڑھ لے وہ سابقہ نماز کو وتر کر دے گی۔
راوی حدیث قاسم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو تین رکعت وتر ہی پڑھتے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
آپ نے کہا کہ پہلے یہ نفل تھی اسکے بعد واجب ھوگئ.
ایسا بودا فہم آج تک نہیں دیکھا
المستدرك على الصحيحين للحاكم كتاب معرفة الصحابة رضي الله عنهم ذكر أبي بصرة جميل بن بصرة الغفاري رضي الله عنه حدیث نمبر 6591 میں ہے کہ ابو بصرہ رضی الله عنہ صحابہ کی ایک جماعت سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے پس اس کو نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان پڑھو اور وہ صلاۃ الوتر ہے۔
مسند الشاميين للطبراني میں ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے اور وہ ہے صلاۃ الوتر۔
مصنف عبد الرزاق جز 3 باب وجوب الوتر هل شئ من التطوع واجب حدیث نمبر 4582 میں ہے کہ عمرو بن شعیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے پاس آئے اور فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک نماز کا اضافہ تمہاری نمازوں میں کیا ہے پس اس کی حفاظت کرو اور وہ ہے صلاۃ الوتر۔
سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فی من لم يُوتِرْ حدیث نمبر 1209 میں ہے کہ عبد اللہ اپنے باپ بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے کہ وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
آپ نے کہا کہ پہلے یہ نفل تھی اسکے بعد واجب ھوگئ.
ایسا بودا فہم آج تک نہیں دیکھا
المستدرك على الصحيحين للحاكم كتاب معرفة الصحابة رضي الله عنهم ذكر أبي بصرة جميل بن بصرة الغفاري رضي الله عنه حدیث نمبر 6591 میں ہے کہ ابو بصرہ رضی الله عنہ صحابہ کی ایک جماعت سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے پس اس کو نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان پڑھو اور وہ صلاۃ الوتر ہے۔
مسند الشاميين للطبراني میں ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے اور وہ ہے صلاۃ الوتر۔
مصنف عبد الرزاق جز 3 باب وجوب الوتر هل شئ من التطوع واجب حدیث نمبر 4582 میں ہے کہ عمرو بن شعیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے پاس آئے اور فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک نماز کا اضافہ تمہاری نمازوں میں کیا ہے پس اس کی حفاظت کرو اور وہ ہے صلاۃ الوتر۔
سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فی من لم يُوتِرْ حدیث نمبر 1209 میں ہے کہ عبد اللہ اپنے باپ بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے کہ وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
سنن أبي داود: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ:
عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھتے چار اور تین ، چھ اور تین ، آٹھ اور تین ، دس اور تین رکعات ۔ سات رکعات سے کم اور تیرہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔
سنن الترمذي: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ بِثَلَاثٍ:
علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر میں مفصل کی نو(9) سورتیں پڑھتے ہر رکعت میں تین سورتیں پڑھتے- ان میں سے آخری "قل ھو اللہ احد" ہوتی۔
سنن النسائي: كِتَاب قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى أَبِي إِسْحَقَ فِي حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْوِتْرِ:
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات وتر پڑھتے پہلی رکعت میں "سبح اسم ربک الاعلی" دوسری رکعت میں "قل یا ایہاالکافرون" اور تیسری میں "قل ھو اللہ احد" پڑھتے۔
مسند أحمد: مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ: مُسْنَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تین رکعت) وتر مفصل کی نو (9) سورتوں کے ساتھ پڑھتے- پہلی رکعت میں"الھاکم التکاثر"، "انا انزلناہ فی لیلۃ القدر" اور"اذا زلزلت الارض"۔ دوسری رکعت میں "والعصر"، "اذا جاء نصر اللہ والفتح" اور "انا اعطیناک الکوثر"۔ تیسری رکعت میں "قل یا ایھا الکافرون"، " تبت یدا ابی لھب" اور "قل ھو اللہ احد" پڑھتے تھے۔
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
اس حدیث کو اگر بغور پڑھتے تو آپ کو پتہ چل جاتا کہ صحیح معنیٰ میں وتر کی رکعات تین ہیں۔
ھم نے تو پڑھی ھے. لیکن شاید آپ کو نے نہیں پڑھی. اور ھم کو اس حدیث سے معلوم ھو گیا کہ وتر ایک رکعت بھی ثابت ھے. کیونکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے اسی حدیث میں واضح طور پر فرمایا:
صلي ركعة واحدة
اسمیں صاف وضاحت ھے کہ ایک رکعت وتر مسنون ھے. لہذا اسکے بعد آپ کے تاویل اور فہم کی کوئ حاجت نہیں. اور نہ آپ کا فہم اور آپکی تاویل معتبر ھے.
اگر یہ ایک رکعت الگ سے ہوتی تو یہ پڑھی ہوئی (دو دو) رکعت کو کیسے طاق بناسکتی تھی؟ دو طاق نہیں ہوتے اور نہ بنائے جاسکتے ہیں۔ اس حدیث کی صحیح تفہیم یہ ہے کہ آخری دو رکعت کے ساتھ ایک رکعت ملا لے تو وہ طاق بن جائے گی مگر تعداد میں تین ہوگی۔
ایسی تفہیم اس حدیث سے حاصل کرنا درست نہیں. کیونکہ یہ حدیث بالکل واضح ہے.
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
ان تمام روایات میں ” يُسَلِّمُ فِي كُلِّ ثِنْتَيْنِ“ کا ترجمہ ”ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے“ صحیح نہیں بلکہ ہر دو رکعت پر تشہد بیٹھتے ہے کیوں کہ سلام بمعنیٰ تشہد بھی احادیث میں استعمال ہؤا ہے۔
یہ حدیث بھی بالکل واضح ھے. اور اس حدیث کا ترجمہ بھی بالکل واضح ھے. اگر ھمارے ذکر کۓ گۓ ترجمے سے کوئ نقص لازم آتا ھے تو ھمیں بتائیں.
آپ نے ھمارے منقول ترجمے کو غلط قرار دے دیا. لیکن آپ نے اپنی تائید میں کوئ دلیل ذکر نہ کی. لہذا جب تک آپ کوئ دلیل ذکر نہیں کرتے آپ کا ترجمہ غلط ھے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف ایک رکعت پڑھنا بتصریح کہیں ثابت نہیں ہاں اس کا اشتباہ ہوتا ہے۔ ایک رکعت پڑھنے کا طریقہ کسی حدیث میں مذکور نہیں۔
احادیث کو رد کرنے کا ایک نیا تقلیدی قاعدہ؟؟؟
کہاں سے اخذ کیا یہ قاعدہ؟؟؟
ھمیں بھی بتائیں.
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
المستدرك على الصحيحين للحاكم كتاب معرفة الصحابة رضي الله عنهم ذكر أبي بصرة جميل بن بصرة الغفاري رضي الله عنه حدیث نمبر 6591 میں ہے کہ ابو بصرہ رضی الله عنہ صحابہ کی ایک جماعت سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے پس اس کو نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان پڑھو اور وہ صلاۃ الوتر ہے۔
مسند الشاميين للطبراني میں ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے اور وہ ہے صلاۃ الوتر۔
مصنف عبد الرزاق جز 3 باب وجوب الوتر هل شئ من التطوع واجب حدیث نمبر 4582 میں ہے کہ عمرو بن شعیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے پاس آئے اور فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک نماز کا اضافہ تمہاری نمازوں میں کیا ہے پس اس کی حفاظت کرو اور وہ ہے صلاۃ الوتر۔
ھم نے تو سوچا تھا کہ آپ کوئ روایت نقل کریں گے جس سے معلوم ھوگا کہ صلاۃ وتر پہلے نفل تھی اسکے بعد واجب ھوگئ. لیکن آپ تو اس تدریج کو ثابت نہ کر سکے. اور جو روایات نقل کی ھیں اس سے بھی وجوب تک ثابت نہیں ھوتا چہ جائیکہ ان روایات سے صلاۃ وتر کے پہلے نفل اور اسکے بعد اسکے واجب ھونے کا پتہ چلے.
مزید آپ نے ان احادیث کی سندیں بھی نہیں ذکر کی ھیں اور نہ ھی کسی محدث کا کلام.
لہذا ھمیں اب بھی دلیل کا انتظار ھے.
سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فی من لم يُوتِرْ حدیث نمبر 1209 میں ہے کہ عبد اللہ اپنے باپ بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے کہ وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں۔
رھی اس روایت کی بات تو پہلے اس کی سند پر غور کیجۓ گا:
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ الطَّالْقَانِيُّ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْعَتَكِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا
اس کی سند میں ایک راوی عبید اللہ العتکی ھے. جس کی وجہ سے حدیث ضعیف ھے. علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کو ضعیف کہا ھے.
علی رضی الله عنه وتر کے سنت ھونے کو بیان فرماتے ھیں:
عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَهَيْئَةِ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ وَلَكِنْ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ترجمہ: وتر لازم نہیں ہے جیسا کہ فرض صلاۃ کا معاملہ ہے، بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے
(سنن ترمذی: 454)
یہ وتر کے سنت ھونے پر صریح دلیل ھے.
لہذا اب کوئ شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رھتی.
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
صحيح البخاري - (ج 4 / ص 73)
938 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ فَارْكَعْ رَكْعَةً تُوتِرُ لَكَ مَا صَلَّيْتَ

قَالَ الْقَاسِمُ وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَكْنَا يُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ وَإِنَّ كُلًّا لَوَاسِعٌ أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِشَيْءٍ مِنْهُ بَأْسٌ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور جب کوئی اختتام کرنا چاہے تو ایک رکعت پڑھ لے وہ سابقہ نماز کو وتر کر دے گی۔
راوی حدیث قاسم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو تین رکعت وتر ہی پڑھتے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے ”وَإِنَّ كُلًّا لَوَاسِعٌ أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِشَيْءٍ مِنْهُ بَأْسٌ“ کا ترجمہ کیوں چھوڑ دیا؟؟؟.
اب ھم اس پوری حدیث کو ترجمہ کے ساتھ نقل کر دیتے ھیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ فَارْكَعْ رَكْعَةً تُوتِرُ لَكَ مَا صَلَّيْتَ قَالَ الْقَاسِمُ وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَكْنَا يُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ وَإِنَّ كُلًّا لَوَاسِعٌ أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِشَيْءٍ مِنْهُ بَأْسٌ
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، رات کی نمازیں دو دو رکعتیں ہیں اور جب تو ختم کرنا چاہے تو ایک رکعت وتر پڑھ لے جو ساری نماز کوطاق بنا دے گی۔ قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ ہم نے بہت سوں کو تین رکعت وتر پڑھتے بھی پایا ہے اور تین یا ایک سب جائز اور مجھ کو امید ہے کہ کسی میں قباحت نہ ہوگی۔
(صحیح بخاری : 994)
یہ ھے پورا ترجمہ. بطور خاص آپ کے ترک کۓ ھوۓ ترجمہ کو ھم پھر نقل کر دیتے ھیں:
وَإِنَّ كُلًّا لَوَاسِعٌ أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِشَيْءٍ مِنْهُ بَأْسٌ
یعنی: اور تین یا ایک سب جائز اور مجھ کو امید ہے کہ کسی میں قباحت نہ ہوگی۔
لیجۓ قاسم خود کہ رھے ھیں کہ ایک بھی صحیح ھے.
مزید ھم کہتے ھیں کہ قاسم رحمة الله علیه نے ایک رکعت وتر کا انکار نہیں کیا. اور نہ ھی ان کے قول سے یہ لازم آتا ھے کہ کوئ بھی ایک رکعت وتر کا قائل نہیں. یا کوئ بھی تین کے علاوہ نہیں پڑھتا. بلکہ انھوں نے کچھ لوگوں کا عمل بتلایا ھے.
اسکے علاوہ ھمارے پاس صحابہ کرام کے آثار موجود ھیں جو ایک رکعت وتر پر صریح دلیل ھیں.
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
سنن أبي داود: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ:
عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھتے چار اور تین ، چھ اور تین ، آٹھ اور تین ، دس اور تین رکعات ۔ سات رکعات سے کم اور تیرہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔
سنن الترمذي: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ بِثَلَاثٍ:
علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر میں مفصل کی نو(9) سورتیں پڑھتے ہر رکعت میں تین سورتیں پڑھتے- ان میں سے آخری "قل ھو اللہ احد" ہوتی۔
سنن النسائي: كِتَاب قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى أَبِي إِسْحَقَ فِي حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْوِتْرِ:
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات وتر پڑھتے پہلی رکعت میں "سبح اسم ربک الاعلی" دوسری رکعت میں "قل یا ایہاالکافرون" اور تیسری میں "قل ھو اللہ احد" پڑھتے۔
مسند أحمد: مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ: مُسْنَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تین رکعت) وتر مفصل کی نو (9) سورتوں کے ساتھ پڑھتے- پہلی رکعت میں"الھاکم التکاثر"، "انا انزلناہ فی لیلۃ القدر" اور"اذا زلزلت الارض"۔ دوسری رکعت میں "والعصر"، "اذا جاء نصر اللہ والفتح" اور "انا اعطیناک الکوثر"۔ تیسری رکعت میں "قل یا ایھا الکافرون"، " تبت یدا ابی لھب" اور "قل ھو اللہ احد" پڑھتے تھے۔
ھمیں نہیں معلوم کہ آپ نے یہ روایات کیوں نقل کی ھیں. لہذا ھم اس پر ابھی سکوت کرتے ھیں.
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
ھم نے اپنی دانست میں آپ کے تمام دلائل کا جواب دے دیا ھے. اگر کوئ بات رہ گئ ھو تو ھمیں بتائیۓ.

اور اسی طرح آپ بات کریں. ھم کو بیحد خوشی ھوئ کہ آپ دلیل دیکر بات کرنے لگے.
 
Top