پوسٹ نمبر 134 میں مندرج احادیث کی وضاحت
معرفة السنن والآثار للبيهقي - (ج 4 / ص 241)
1472 - وأخبرنا أبو سعيد قال : حدثنا أبو العباس قال : أخبرنا الربيع قال : قال الشافعي فيما بلغه عن يحيى بن عباد ، عن شعبة ، عن إبراهيم بن مهاجر ، عن إبراهيم النخعي ، عن الأسود ، عن عبد الله أنه كان « يوتر بخمس أو سبع » قال : وسفيان ، عن إبراهيم ، عن عبد الله ، أنه كان يكره أن تكون ثلاثا بترا ، ولكن خمسا أو سبعا قال الشافعي : وليسوا يقولون بهذا يقولون : صلاة الليل مثنى مثنى إلا الوتر ؛ فإنها ثلاث متصلات لا يصلى الوتر أكثر من ثلاث
امام شافعی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہرات کی نماز دو دو رکعت ہے سوائے وتر کے۔ بے شک وہ تین رکعات ہیں اکٹھی اور تین رکعات وتر سے زیادہ نہیں ہیں۔
یہ بھی خوب رھی کہاں کی بات کہاں لے گۓ.
اب ھم آپ سے کیا کہیں؟؟؟؟ آپ تو علامہ بننے کی کوشش کرنے لگے. امام شافعی فرما رھے ھیں کہ
لا يصلى الوتر أكثر من ثلاث یعنی: تین رکعات وتر سے زیادہ نہیں ہیں (آپ کا ترجمہ ھے). اور آپ اس سے ایک رکعت کے وتر کے غیر مسنون ھونے پر دلیل لے رھے ھیں.
پہلے آپ امام شافعی رحمة الله عليه سے پہلے کی عبارت کا ترجمہ نقل کر دیں. اسکے بعد ھم ان شاء اللہ اس پر بھی کچھ لکھیں گے.
ھم آپ سے پہلے ھی کہ دیتے ھیں کہ صرف ترجمہ پیش کر دیجۓ گا. فتوے بازی سے پرھیز کیجۓ گا.