یہاں دو دعوے ہیں ،
(۱) نماز وتر پہلے نفل تھی ،بعد ازاں واجب ہوئی ،
(۲) دوسرا دعوی یہ کہ (( اس وقت تک آقا علیہ السلام اور صحابہ کرام اس نماز کو ہر طرح پڑھتے رہے ))
یہ دونوں دعوے بالکل بے بنیاد کیئے گئے ہیں ، ان کا کوئی ثبوت مرفوع یا موقوف نہیں دیا گیا ،
محترم بھٹی صاحب!الحمد للہ کہ آپ نے بھی تسلیم کر لیا کہ ”حنفی طریقہ نماز (صلاۃ الوتر)“ بعین ”سنت طریقہ نماز (صلاۃ ا؛وتر)“ ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ یہ سب رمضان کی برکات ہیں۔
یہ روایات تو حنفی مذہب کے سراسر خلاف ہیں ، کیونکہ ان روایات میں بتایا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ وتر اور دیگر غیر فرضی نمازیں سواری پر پڑھ لیا کرتے تھے ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وتر واجب ، فرض نہیں ،صحيح البخاري - (ج 4 / ص 247)وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ قَالَ سَالِمٌ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُصَلِّي عَلَى دَابَّتِهِ مِنْ اللَّيْلِ وَهُوَ مُسَافِرٌ مَا يُبَالِي حَيْثُ مَا كَانَ وَجْهُهُ قَالَ ابْنُ عُمَرَ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَبِّحُ عَلَى الرَّاحِلَةِ قِبَلَ أَيِّ وَجْهٍ تَوَجَّهَ وَيُوتِرُ عَلَيْهَا غَيْرَ أَنَّهُ لَا يُصَلِّي عَلَيْهَا الْمَكْتُوبَةَ
1034 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْن بُكَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ أَنَّ عَامِرَ بْنَ رَبِيعَةَ أَخْبَرَهُ قَالَ
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الرَّاحِلَةِ يُسَبِّحُ يُومِئُ بِرَأْسِهِ قِبَلَ أَيِّ وَجْهٍ تَوَجَّهَ وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ
ابتسامہبات کا غلط مطلب نکالنا یا تاویل کرنا یہ صفت صرف آپکے اندر ہی ہے یا سارے احناف ہی اس صفت سے متصف ہیں؟؟؟
محترم اور معزز بھائ!ابتسامہ
کبھی میں بھی بحث کے دوران "فریق مخالف" کے افعال سے تنگ آ کر یہ کہتا تھا۔
بس احناف کی جگہ کچھ اور ہوتا تھا۔
ہم کہاں حنفی مقلد بن رہے ہیں! کہ جاہل بنیں!آپ تو جاہل نہ بنیں۔ آپ تو مجتہد ہیں؛
یہ واقعات فقہ حنفی اور فقہاء احناف کی ''فقاہت'' کو عیاں کرنے کے لئے بتلائے گئے ہیں!واقعات کی بجائے قرآن اور حدیث سے دلیل دیں۔ شکریہ