جناب یہ روایت آپ کی خوہش پر ہی پیش کی تھی اور اسی بات کو ثابت کرنے کے لئے لکھی تھی کہ پہلے وتر نفل تھے بعد میں واجب ہوئے۔ اور واجب ہونے کے بعد عبد اللہ ابن عمر کا عمل بطور دلیل لکھا تھا جس کی طرف آپ نے التفات نہیں کیا۔
آپ کی پیش کردہ روایات میں صرف ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے ،اور وہ یہ کہ نبی اکرم ﷺ نماز وتر سواری پر پڑھ لیتے تھے ،
اس میں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پہلے ایسا کرتے تھے ،بعد میں نہیں ،
اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل مجھے نظر نہیں آیا ، جو موجود ہے وہ تو نبی کریم ﷺ کا عمل مبارک ہے ،
اس کا ترجمہ میں پیش کئے دیتا ہوں ، جس سے سواری پر وتر پڑھنا ثابت ہوتا ہے ، جسے حنفی نہیں مانتے ؛
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ
كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ فَتَخَلَّفْتُ عَنْهُ فَقَالَ أَيْنَ كُنْتَ فَقُلْتُ أَوْتَرْتُ فَقَالَ أَلَيْسَ لَكَ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ عَلَى رَاحِلَتِهِ
قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
امام ترمذی نقل کرتے ہیں کہ :
المحدث الإمام الثقة الجوال راوية الإسلام شيخ الإسلام، قتیبہ بن سعید امام مالک سے نقل کرتے ہیں ،اور وہ ابوبکر بن عبد الرحمن سے روایت کرتے ہیں
کہ مدینہ شریف کے جلیل القدر عالم مشہور تابعی ،اور ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے غلام جناب سعیدبن یسار فرماتے ہیں :
میں ایک سفر میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھا ، تو دوران سفر میں ان سے پیچھے رہ گیا، تو انہوں نے پوچھا: تم کہاں رہ گئے تھے؟
میں نے کہا: میں وتر پڑھ رہا تھا، انہوں نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لیے اسوہ نہیں؟
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اپنی سواری ہی پر وتر پڑھتے دیکھا ہے۔
امام ترمذیؒ کہتے ہیں: ۱-جناب ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے