• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (صلاۃ الوتر)

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
محترم @عبدالرحمن بھٹی صاحب!
آپ سے بار بار تقاضہ کر رہا ہوں کہ متن اور ترجمہ مع حوالہ. لیکن پتہ نہیں کیوں آپ نظر انداز کر دے رہے ہیں.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اس حدیث کے ان الفاظ (قَالَ ابْنُ عُمَرَ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَبِّحُ عَلَى الرَّاحِلَةِ قِبَلَ أَيِّ وَجْهٍ تَوَجَّهَ وَيُوتِرُ عَلَيْهَا غَيْرَ أَنَّهُ لَا يُصَلِّي عَلَيْهَا الْمَكْتُوبَةَ) سے ثابت ہؤا کہ وتر پہلے نفل تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر صرف نفل ہی پڑھا کرتے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اونٹنی پر نفل نماز پڑھا کرتے چاہے اس کا منہ کدھر ہی ہو اور وتر بھی سواری پر پڑھ لیتے تھے البتہ فرض اس پر نہیں پڑھتے تھے۔انتہی
اب بغور دیکھ کر بتائیں :
اس روایت میں کون سا لفظ ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ : سواری پر نماز وتر پڑھنے کا یہ عمل پہلے تھا ، اور بعد میں بدل گیا ،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
2882 - حدثنا ابن حميد ، قال : حدثنا الصباح ، عن الفضيل بن غزوان ، عن نافع ، قال : كان ابن عمر « يصلى أينما توجهت به راحلته عليها ، وكان إذا أراد أن يوتر نزل فأوتر على الأرض »
اس میں کہاں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ سواری سے اتر کر وتر پڑھنے کا عمل بعد میں ہے ،اور سواری پر پڑھنے کا ناسخ ہے ؟
یا کس صحابی نے زمین پر نماز وتر کی ادائیگی کو ناسخ کہا ہے ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
وأما ما روي في ذلك عن ابن عمر : أنه كان يصلي التطوع على راحلته بالليل ، فإذا أراد أن يوتر نزل فأوتر على الأرض ، فإنه لا حجة فيه لمحتج بأن ابن عمر كان يفعل ذلك من أجل أنه كان لا يرى جائزا للمرء أن يوتر راكبا ، وأنه كان يرى أن الوتر فرض كسائر الصلوات المكتوبات وذلك أنه جائز أن يكون نزوله للوتر إلى الأرض ، كان اختيارا منه ذلك لنفسه ، وطلبا للفضل لا على أن ذلك كان عنده الواجب عليه الذي لا يجوز غيره ، هذا لو لم يكن ورد عن ابن عمر بخلاف ذلك خبر ، فكيف والأخبار عنه بخلاف ذلك من الفعل متظاهرة ؟ فإن قال : فاذكر لنا الأخبار الواردة عن ابن عمر بخلاف ذلك
آپ نے امام طبری کا یہ کلام تو نقل کردیا ،لیکن اس کا ترجمہ آپ نہ کر سکے۔ یا اپنے مذہب کے خلاف دیکھ کر ترجمہ نہ کیا ،
حالانکہ تہذیب الآثار میں جناب ابن عمر ؓ کی ان روایات سے آپ جو وجوب وتر کشید کرنا چاہتے ہیں ،اس کا زبر دست جواب طبری کے اس کلام میں موجود ہے ،
اس لئے ہمت کرکے اس کا ترجمہ لکھ دیجئے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اس روایت میں کون سا لفظ ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ : سواری پر نماز وتر پڑھنے کا یہ عمل پہلے تھا ، اور بعد میں بدل گیا ،
اس میں کہاں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ سواری سے اتر کر وتر پڑھنے کا عمل بعد میں ہے ،اور سواری پر پڑھنے کا ناسخ ہے ؟
یا کس صحابی نے زمین پر نماز وتر کی ادائیگی کو ناسخ کہا ہے ؟
دو میں سے ایک بات لازم ہے؛
سواری پر بھی وتر پڑھ لینے کا عمل پہلے کا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نماز کے اضافہ والی احادیث بعد کی ہیں۔
یا
سواری پر بھی وتر پڑھ لینے کا عمل بعد کا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نماز کے اضافہ والی احادیث پہلے کی ہیں۔
آپ ہی فیصلہ فرمادیجئے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کیا نماز صرف فرض اور نفل ہوتی ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
دو میں سے ایک بات لازم ہے؛
سواری پر بھی وتر پڑھ لینے کا عمل پہلے کا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نماز کے اضافہ والی احادیث بعد کی ہیں۔
یا
سواری پر بھی وتر پڑھ لینے کا عمل بعد کا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نماز کے اضافہ والی احادیث پہلے کی ہیں۔
آپ ہی فیصلہ فرمادیجئے۔
آپ ہی نے امام محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ کا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایات کے بعد جو کلام نقل فرمایا ہے ،اس کا ترجمہ پیش ہے ،
وأما ما روي في ذلك عن ابن عمر : أنه كان يصلي التطوع على راحلته بالليل ، فإذا أراد أن يوتر نزل فأوتر على الأرض ، فإنه لا حجة فيه لمحتج بأن ابن عمر كان يفعل ذلك من أجل أنه كان لا يرى جائزا للمرء أن يوتر راكبا ، وأنه كان يرى أن الوتر فرض كسائر الصلوات المكتوبات وذلك أنه جائز أن يكون نزوله للوتر إلى الأرض ، كان اختيارا منه ذلك لنفسه ، وطلبا للفضل لا على أن ذلك كان عنده الواجب عليه الذي لا يجوز غيره ، هذا لو لم يكن ورد عن ابن عمر بخلاف ذلك خبر ، فكيف والأخبار عنه بخلاف ذلك من الفعل متظاهرة ؟ فإن قال : فاذكر لنا الأخبار الواردة عن ابن عمر بخلاف ذلك
امام محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس کی روایت سے نبی کریم ﷺ کا سواری پر وتر پڑھنا ، اور جناب ابن عمر ؓ کا سواری سے اتر کر زمین پر وتر پڑھنا نقل کرکے لکھتے ہیں :
’’ جہاں تک ابن عمر ؓ کا رات کو نوافل سواری پر پڑھنا اور نماز وتر سواری سے اتر کر زمین پڑھنے نقل کیا گیا ہے ،تو اچھی طرح جان لیجیئے کہ اس روایت میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ ابن عمر سواری پر وتر پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے ،اور نہ ہی اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک وتر دیگر فرض نمازوں کی طرح ایک فرض نماز ہے ،
بلکہ (ان روایات سے صرف یہ بات سامنے آتی ہے )کہ سواری سے اتر کر وتر ادا کرنا بھی جائز ہے ،
ان کا یہ عمل (وجوب وتر کیلئے نہیں ،بلکہ محض )
اپنےلئے اختیاری عمل تھا ۔اور اس سے مقصد فضل کا حصول تھا ،نہ کہ وہ اس صورت کو اپنے لئے واجب سمجھتے تھے جس کا ترک جائز نہ ہو ،
ہماری بیان کردہ یہ توجیہ تو اس صورت میں ہے جب ان سے سواری سے اتر کر وتر کی ادائیگی کے خلاف کچھ مروی نہ ہوتا ،
لیکن یہاں تو ان سے سواری پر نماز وتر کی ادائیگی کی مضبوط روایات موجود ہیں ،(جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ وہ سواری سے اتر کر وتر پڑھنا ضروری نہیں سمجھتے تھے ) انتہی ؛
تو ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک دونوں طرح جائز اور صحیح ہے ، اور اس طرح ان کے عمل میں وجوب وتر کی کوئی دلیل نہیں ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور اسی لئے امام ابوحنیفہ کے دونوں اصحاب گرامی (امام محمد و ابو یوسف ) وتر کو واجب نہیں مانتے بلکہ سنت سمجھتے ہیں ، صاحب ھدایہ لکھتے ہیں :
باب صلاة الوتر
(الوتر واجب عند أبي حنيفة رحمه الله وقالا سنة) لظهور آثار السنن فيه حيث لا يكفر جاحده ولا يؤذن له. )
یعنی نماز وتر ابوحنیفہ کے نزدیک تو واجب ہے ،لیکن امام محمد و ابو یوسف کے نزدیک سنت ہے ، کیونکہ اس میں آثار سنن ظاہر ہیں ،اس کے منکر کی تکفیر نہیں کی جاتی ، اور اس کیلئے آذان نہیں دی جاتی ،(اور اگر فرض واجب ہوتے تو اس منکر کو کافر کہا جاتا ،اور اس کیلئے اذان بھی ہوتی )
اور ’’ العنایہ شرح الھدایہ ‘‘ علامہ البابرتی لکھتے ہیں :
وروى نوح بن أبي مريم عنه أنها سنة، وبه أخذ أبو يوسف ومحمد والشافعي - رحمهم الله -
لیکن نوح بن ابی مریم کی روایت میں امام ابوحنیفہ کا مذہب وتر کی بابت یہ نقل کیا گیا کہ سنت ہے ، اوریہی قول ہے امام محمد و ابویوسف اور امام شافعی کا ‘‘
 
Last edited:
Top