دو میں سے ایک بات لازم ہے؛
سواری پر بھی وتر پڑھ لینے کا عمل پہلے کا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نماز کے اضافہ والی احادیث بعد کی ہیں۔
یا
سواری پر بھی وتر پڑھ لینے کا عمل بعد کا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نماز کے اضافہ والی احادیث پہلے کی ہیں۔
آپ ہی فیصلہ فرمادیجئے۔
آپ ہی نے امام محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ کا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایات کے بعد جو کلام نقل فرمایا ہے ،اس کا ترجمہ پیش ہے ،
وأما ما روي في ذلك عن ابن عمر : أنه كان يصلي التطوع على راحلته بالليل ، فإذا أراد أن يوتر نزل فأوتر على الأرض ، فإنه لا حجة فيه لمحتج بأن ابن عمر كان يفعل ذلك من أجل أنه كان لا يرى جائزا للمرء أن يوتر راكبا ، وأنه كان يرى أن الوتر فرض كسائر الصلوات المكتوبات وذلك أنه جائز أن يكون نزوله للوتر إلى الأرض ، كان اختيارا منه ذلك لنفسه ، وطلبا للفضل لا على أن ذلك كان عنده الواجب عليه الذي لا يجوز غيره ، هذا لو لم يكن ورد عن ابن عمر بخلاف ذلك خبر ، فكيف والأخبار عنه بخلاف ذلك من الفعل متظاهرة ؟ فإن قال : فاذكر لنا الأخبار الواردة عن ابن عمر بخلاف ذلك
امام محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس کی روایت سے نبی کریم ﷺ کا سواری پر وتر پڑھنا ، اور جناب ابن عمر ؓ کا سواری سے اتر کر زمین پر وتر پڑھنا نقل کرکے لکھتے ہیں :
’’ جہاں تک ابن عمر ؓ کا رات کو نوافل سواری پر پڑھنا اور نماز وتر سواری سے اتر کر زمین پڑھنے نقل کیا گیا ہے ،تو اچھی طرح جان لیجیئے کہ اس روایت میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ ابن عمر سواری پر وتر پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے ،اور نہ ہی اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک وتر دیگر فرض نمازوں کی طرح ایک فرض نماز ہے ،
بلکہ (ان روایات سے صرف یہ بات سامنے آتی ہے )کہ سواری سے اتر کر وتر ادا کرنا بھی جائز ہے ،
ان کا یہ عمل (وجوب وتر کیلئے نہیں ،بلکہ محض )
اپنےلئے اختیاری عمل تھا ۔اور اس سے مقصد فضل کا حصول تھا ،نہ کہ وہ اس صورت کو اپنے لئے واجب سمجھتے تھے جس کا ترک جائز نہ ہو ،
ہماری بیان کردہ یہ توجیہ تو اس صورت میں ہے جب ان سے سواری سے اتر کر وتر کی ادائیگی کے خلاف کچھ مروی نہ ہوتا ،
لیکن یہاں تو ان سے سواری پر نماز وتر کی ادائیگی کی مضبوط روایات موجود ہیں ،(جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ وہ سواری سے اتر کر وتر پڑھنا ضروری نہیں سمجھتے تھے ) انتہی ؛
تو ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک دونوں طرح جائز اور صحیح ہے ، اور اس طرح ان کے عمل میں وجوب وتر کی کوئی دلیل نہیں ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور اسی لئے امام ابوحنیفہ کے دونوں اصحاب گرامی (امام محمد و ابو یوسف ) وتر کو واجب نہیں مانتے بلکہ سنت سمجھتے ہیں ، صاحب ھدایہ لکھتے ہیں :
باب صلاة الوتر
(الوتر واجب عند أبي حنيفة رحمه الله وقالا سنة) لظهور آثار السنن فيه حيث لا يكفر جاحده ولا يؤذن له. )
یعنی نماز وتر ابوحنیفہ کے نزدیک تو واجب ہے ،لیکن امام محمد و ابو یوسف کے نزدیک سنت ہے ، کیونکہ اس میں آثار سنن ظاہر ہیں ،اس کے منکر کی تکفیر نہیں کی جاتی ، اور اس کیلئے آذان نہیں دی جاتی ،(اور اگر فرض واجب ہوتے تو اس منکر کو کافر کہا جاتا ،اور اس کیلئے اذان بھی ہوتی )
اور ’’ العنایہ شرح الھدایہ ‘‘ علامہ البابرتی لکھتے ہیں :
وروى نوح بن أبي مريم عنه أنها سنة، وبه أخذ أبو يوسف ومحمد والشافعي - رحمهم الله -
لیکن نوح بن ابی مریم کی روایت میں امام ابوحنیفہ کا مذہب وتر کی بابت یہ نقل کیا گیا کہ سنت ہے ، اوریہی قول ہے امام محمد و ابویوسف اور امام شافعی کا ‘‘