• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (صلاۃ الوتر)

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
باب صلاة الوتر
(الوتر واجب عند أبي حنيفة رحمه الله وقالا سنة) لظهور آثار السنن فيه حيث لا يكفر جاحده ولا يؤذن له. )
یعنی نماز وتر ابوحنیفہ کے نزدیک تو واجب ہے ،لیکن امام محمد و ابو یوسف کے نزدیک سنت ہے ، کیونکہ اس میں آثار سنن ظاہر ہیں ،اس کے منکر کی تکفیر نہیں کی جاتی ، اور اس کیلئے آذان نہیں دی جاتی ،
صاحب الھدایہ کی اس عبارت کے ذیل میں علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
والوتر م: (واجب عند أبي حنيفة) ش: وفي " المحيط " عن أبي حنيفة فيه ثلاث روايات:
أحدها: أنه واجب وهو آخر أقواله، [قلت] : هو الصحيح، وقال قاضي خان: هو الأصح.
کہ امام ابوحنیفہ سے نماز وتر کے متعلق تین روایات منقول ہیں ،ان میں سے ایک وتر کے واجب ہونے کی ہے ، اور وجوب کی ہی صحیح ہے،
(باقی دو سنت ،اور فرض ہونے کی ہیں جیسا ’’ العنایہ ‘‘ کے حوالے سے گزرا )) اور قاضی خان کہتے ہیں : امام صاحب سے وجوب کی روایت اصح ہے ‘‘
اگر آپ متون فقہ کے قاری ہیں تو اس ہمیں ’’ صحیح ۔۔اور اصح ۔۔کے قرب و بعد کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ،
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
امام محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس کی روایت سے نبی کریم ﷺ کا سواری پر وتر پڑھنا ، اور جناب ابن عمر ؓ کا سواری سے اتر کر زمین پر وتر پڑھنا نقل کرکے لکھتے ہیں :
’’ جہاں تک ابن عمر ؓ کا رات کو نوافل سواری پر پڑھنا اور نماز وتر سواری سے اتر کر زمین پڑھنے نقل کیا گیا ہے ،تو اچھی طرح جان لیجیئے کہ اس روایت میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ ابن عمر سواری پر وتر پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے ،اور نہ ہی اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک وتر دیگر فرض نمازوں کی طرح ایک فرض نماز ہے ،
بلکہ (ان روایات سے صرف یہ بات سامنے آتی ہے )کہ سواری سے اتر کر وتر ادا کرنا بھی جائز ہے ،
ان کا یہ عمل (وجوب وتر کیلئے نہیں ،بلکہ محض )
اپنےلئے اختیاری عمل تھا ۔اور اس سے مقصد فضل کا حصول تھا ،نہ کہ وہ اس صورت کو اپنے لئے واجب سمجھتے تھے جس کا ترک جائز نہ ہو ،
ہماری بیان کردہ یہ توجیہ تو اس صورت میں ہے جب ان سے سواری سے اتر کر وتر کی ادائیگی کے خلاف کچھ مروی نہ ہوتا ،
لیکن یہاں تو ان سے سواری پر نماز وتر کی ادائیگی کی مضبوط روایات موجود ہیں ،(جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ وہ سواری سے اتر کر وتر پڑھنا ضروری نہیں سمجھتے تھے ) انتہی ؛
تو ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک دونوں طرح جائز اور صحیح ہے ، اور اس طرح ان کے عمل میں وجوب وتر کی کوئی دلیل نہیں ،
ا صل روایت ملاحظہ فرمائیں؛
تهذيب الآثار للطبري - (ج 6 / ص 401)
2886 - حدثنا ابن بشار ، قال : حدثنا يحيى ، قال : حدثنا سفيان ، قال : حدثني منصور ، عن إبراهيم ، قال : « كانوا يصلون على ظهور رواحلهم أينما توجهت ، إلا الفريضة والوتر » وقال هذا ابن عمر وإبراهيم ينكران أن يصلى الوتر على ظهور الرواحل مع من قال في ذلك مثل قولهما من أهل العراق ، اعتلالا منهم بقول النبي صلى الله عليه وسلم : « إن الله زادكم صلاة ، وهي الوتر ، فأوتروا »
ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ (صحابہ کرام) سواریوں پر نمازڑھ لیتے تھے وہ جس طرف بھی رخ کرتیں سوائے فرض نماز اور وتر کے۔
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ سواری پر وتر پڑھنے سے منع کرتے تھے اور اسی طرح اہل عراق بھی۔ یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ”بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ کی نماز میں اضافہ کیا ہے اور وہ وتر ہے پس اسے ادا کرو“ کی وجہ سے ہی منع کرتے تھے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
وتر جب تک نفل رہے اس وقت تک اسے ہر طرح ادا کرلیا جاتا تھا۔ اس کی تعداد بھی متعین نہ تھی۔ بعد ازاں جب اس کی ادائیگی لازم قرار پاگئی تو اس کی رکعات بھی متعین ہو گئیں دوسرے فرائض و واجبات اور سنن مؤکدہ و غیر مؤکدہ کی مانند۔
وتر تین رکعات ہیں اس سے کم و بیش پڑھنا جائز نہیں۔
دلائل پوسٹ نمبر ایک (1) میں گذر چکے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
یعنی نماز وتر ابوحنیفہ کے نزدیک تو واجب ہے ،لیکن امام محمد و ابو یوسف کے نزدیک سنت ہے ، کیونکہ اس میں آثار سنن ظاہر ہیں ،اس کے منکر کی تکفیر نہیں کی جاتی ، اور اس کیلئے آذان نہیں دی جاتی ،(اور اگر فرض واجب ہوتے تو اس منکر کو کافر کہا جاتا ،اور اس کیلئے اذان بھی ہوتی )
نمازِ جنازہ فرض ہے مگر اس کے لئے نہ آذان مشروع ہے اور نہ ہی اقامت۔ عیدین کی نمازیں واجب ہیں ان کے لئے نہ آذان مشروع ہے اور نہ ہی اقامت۔ نمازِ جمعہ کے لئے آذان بھی مشروع ہے اور اقامت بھی۔
دراصل جو نماز کسی دوسری نماز کی قائم مقام ہے اس کے لئے آذان بھی مشروع ہے اور اقامت بھی جیسے نمازِ جمعہ۔ کیوں کہ ایک دن میں یا تو جمعہ ادا کیا جائے گا یا ظہر یہ نہیں کہ جمعہ بھی پڑھے اور ظہر بھی۔ اور جو نمازیں کسی کی قائم مقام نہیں ان کے لئے نہ آذان مشروع ہے اور نہ ہی اقامت جیسے صلاۃ الوتر، عیدین کی نمازیں اور نمازِ جنازہ وغیرہ۔ واللہ اعلم بالصواب
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
اور اسی لئے امام ابوحنیفہ کے دونوں اصحاب گرامی (امام محمد و ابو یوسف ) وتر کو واجب نہیں مانتے بلکہ سنت سمجھتے ہیں ، صاحب ھدایہ لکھتے ہیں :
باب صلاة الوتر
(الوتر واجب عند أبي حنيفة رحمه الله وقالا سنة) لظهور آثار السنن فيه حيث لا يكفر جاحده ولا يؤذن له. )
یعنی نماز وتر ابوحنیفہ کے نزدیک تو واجب ہے ،لیکن امام محمد و ابو یوسف کے نزدیک سنت ہے ، کیونکہ اس میں آثار سنن ظاہر ہیں ،اس کے منکر کی تکفیر نہیں کی جاتی ، اور اس کیلئے آذان نہیں دی جاتی ،(اور اگر فرض واجب ہوتے تو اس منکر کو کافر کہا جاتا ،اور اس کیلئے اذان بھی ہوتی )
اور ’’ العنایہ شرح الھدایہ ‘‘ علامہ البابرتی لکھتے ہیں :
وروى نوح بن أبي مريم عنه أنها سنة، وبه أخذ أبو يوسف ومحمد والشافعي - رحمهم الله -
لیکن نوح بن ابی مریم کی روایت میں امام ابوحنیفہ کا مذہب وتر کی بابت یہ نقل کیا گیا کہ سنت ہے ، اوریہی قول ہے امام محمد و ابویوسف اور امام شافعی کا ‘‘
وتر جب تک نفل رہے اس وقت تک اسے ہر طرح ادا کرلیا جاتا تھا۔ اس کی تعداد بھی متعین نہ تھی۔ بعد ازاں جب اس کی ادائیگی لازم قرار پاگئی
امام محمد اور قاضی ابو یوسف تو وتر کو لازمی ماننے کے منکر ہو گئے،
@اشماریہ بھائی، بھٹی صاحب کو فقہ حنفی کی فرض واجب کی تقسیم سمجھائیں، کہ یہ فرق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ کے لئے نہیں، بلکہ بعد کے زمانے میں قوت ثبوت کی بناء پر ہے، اگر وتر صحابہ کے لئے لازمی قرار دئیے جائیں تو معنی یہ نہیں کہ ان کے لئے یہ فرض و واجب کے فرق کے ساتھ واجب ہو، بلکہ وہ فرض ہی ہوا۔
نمازِ جنازہ فرض ہے مگر اس کے لئے نہ آذان مشروع ہے اور نہ ہی اقامت۔ عیدین کی نمازیں واجب ہیں ان کے لئے نہ آذان مشروع ہے اور نہ ہی اقامت۔ نمازِ جمعہ کے لئے آذان بھی مشروع ہے اور اقامت بھی۔
دراصل جو نماز کسی دوسری نماز کی قائم مقام ہے اس کے لئے آذان بھی مشروع ہے اور اقامت بھی جیسے نمازِ جمعہ۔ کیوں کہ ایک دن میں یا تو جمعہ ادا کیا جائے گا یا ظہر یہ نہیں کہ جمعہ بھی پڑھے اور ظہر بھی۔ اور جو نمازیں کسی کی قائم مقام نہیں ان کے لئے نہ آذان مشروع ہے اور نہ ہی اقامت جیسے صلاۃ الوتر، عیدین کی نمازیں اور نمازِ جنازہ وغیرہ۔ واللہ اعلم بالصواب
بہت دیر کردی مہرباں آتے آتے، یعنی کہ آپ دنیا میں دیر سے آئیں ہیں، اگر صاحب ہدایہ مرغنیانی حنفی کو پا لیتے، تو آپ یہ انہیں سمجھا دیتے۔
اور اسی لئے امام ابوحنیفہ کے دونوں اصحاب گرامی (امام محمد و ابو یوسف ) وتر کو واجب نہیں مانتے بلکہ سنت سمجھتے ہیں ، صاحب ھدایہ لکھتے ہیں :
باب صلاة الوتر
(الوتر واجب عند أبي حنيفة رحمه الله وقالا سنة) لظهور آثار السنن فيه حيث لا يكفر جاحده ولا يؤذن له. )
یعنی نماز وتر ابوحنیفہ کے نزدیک تو واجب ہے ،لیکن امام محمد و ابو یوسف کے نزدیک سنت ہے ، کیونکہ اس میں آثار سنن ظاہر ہیں ،اس کے منکر کی تکفیر نہیں کی جاتی ، اور اس کیلئے آذان نہیں دی جاتی ،(اور اگر فرض واجب ہوتے تو اس منکر کو کافر کہا جاتا ،اور اس کیلئے اذان بھی ہوتی )
@اشماریہ اور @ابن عثمان بھائی، فقہ حنفی میں صاحب ہدایہ مرغنیانی کی بات معتبر ہے یا بھٹی صاحب کی؟
 
Last edited:
Top