حافظ راشد
رکن
- شمولیت
- جولائی 20، 2016
- پیغامات
- 116
- ری ایکشن اسکور
- 29
- پوائنٹ
- 75
نماز وتر پڑھنے کا مسنون طریقہ
تحریر:ابو ثاقب محمد صفدر حضروی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
۱: ‘‘اللہ وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے''[بخاری: ۶۴۱۰، مسلم:۲۶۷۷]
۲: ‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وتر ایک رکعت ہے رات کے آخری حصہ میں سے '' [مسلم:۷۵۶]
۳: ‘‘نبی کریم سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کی نماز دو، دو رکعتیں ہیں۔ جب صبح (صادق) ہونے کا خطرہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لو۔ یہ ایک (رکعت پہلی ساری) نماز کو طاق بنا دیگی''[بخاری:۹۹۳،۹۹۰مسلم:۷۴۹]
۴: ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وتر پڑھتے (آخری ) دو رکعتوں اور ایک رکعت کے درمیان (سلام پھیر کر ) بات چیت بھی کرتے'' [ابن ماجہ:۷۷، مصنف ابن ابی شیبہ: ۲؍۲۹۱]
۵: ‘‘ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے فجر تک گیارہ رکعتیں پڑھتے ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھتے'' [مسلم:۷۳۶]
۶: ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وتر ہر مسلمان پر حق ہے پس جسکی مرضی ہو پانچ وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو تین وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو ایک وتر پڑھے''[ابوداؤد:۱۴۲۲،نسائی:۱۷۱۰، ابن ماجہ:۱۱۹۰، صحیح ابن حبان: ۲۷۰، مستدرک۱؍۳۰۲وغیرہ]
تین رکعت وتر پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیں۔ پھر ایک رکعت وتر پڑھیں جیسا کہ احادیث مبارکہ میں آیا ہے۔[دیکھئے مسلم:۷۵۲ ، ۷۳۶ ، ۷۶۵ ، ۷۶۹ ، بخاری: ۶۲۶، ۹۹۰، ۹۹۳، ۹۹۴ ، ۲۰۱۳، ابن ماجہ: ۱۱۷۷، نسائی ۱۶۹۸صحیح ابن حبان: ۶۷۸ صحیح ابن حبان الاحسان۴؍۷۰، ۲۴۲۶وغیرہ]
۷: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے وتر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ وہ وتر ایک رکعت ہے آخر شب میں اور پوچھا گیا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے تو انہوں نے بھی اسی طرح کہا۔[مسلم:۷۵۳]
۸: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [بخاری: ۹۹۱، طحاوی: ۱۵۴۹ ، ۱۵۵۱، آثار السنن۲۰۰، ۲۰۱، ۲۰۲]
۹: امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [بخاری:۳۷۶۴ ، ۳۷۶۵، آثار السن۲۰۳]
۱۰: سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [بخاری:۲۳۵۶، طحاوی:۱۶۳۴، آثار السنن ۲۰۵ ، ۶٠۶، وغیرہ]
۱۱: امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔[دار قطنی:۱۶۵۷، طحاوی ۱۶۳۱، آثار السنن۲۰۴]
۱۲: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص آخر رات میں نہ اٹھ سکے تو وہ اول شب وتر پڑھ لے اور جو آخر رات اٹھ سکے وہ آخر رات وتر پڑھے کیونکہ آخر رات کی نماز افضل ہے۔ [مسلم:۷۵۵]
۱۳: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اول رات، رات کے وسط اور پچھلی رات(یعنی) رات کے ہر حصہ میں نماز پڑھی۔ [بخاری:۷۵۵،۹۹۶]
۱۴: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک رات میں دو بار وتر پڑھنا جائز نہیں۔[ابو داؤد۱۴۳۹ابن خزیمہ۱۱۰۱، ابن حبان ۶۷۱، وغیرہ]
۱۵: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کو اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ۔[مسلم:۷۵۱]
اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو وتر کے بعد رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتے ہیں۔
۱۶: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین وتر (اکٹھے) نہ پڑھو، پانچ یا سات وتر پڑھو۔ اور محرب کی مشابہت نہ کرو۔[دار قطنی نمبر ۱۶۳۴، ابن حبان ۶۸۰، آثار السنن۵۹۱، ۵۹۶وغیرہ]
نوٹ: اس کے برعکس بعض حضرات نے یہ فتوی دیا ہے کہ ایک رکعت وتر پڑھنا جائز نہیں۔ [دیکھئے علم الفقہ ص ۱۸۶از عبدالشکور لکھنوی دیوبندی]
دیوبندیوں کے مفتی اعظم عزیز الرحمن (دیوبندی) نے فتویٰ دیا ہے‘‘ کہ ایک رکعت وتر پڑھنے والے امام کے پیچھے نماز حتی الوسع نہ پرھیں۔ کیونکہ وہ غیر مقلد معلوم ہوتا ہے اور اس شخص کا امام بنانا اچھا نہیں ہے؟''
[دیکھئے فتاویٰ دارالعلوم دیوبنج ۳ص۱۵۴ سوال نمبر ۷۷۰، مکتبہ امداد یہ ملتان پاکستان]
حرمین شریفین میں بھی امام ایک رکعت وتر پڑھاتے ہیں۔ اب ان حجاج کرام کی نمازوں کا کیا ہوگا؟ اور اس فتویٰ کی زد میں کون سی شخصیات آتی ہیں؟
جبکہ جناب خلیل احمد سہار نپوری(دیوبندی) صاح ب انوار ساطعہ کے بدعتی مولوی پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:‘‘وتر کی ایک رکعت احادیث صحاح میں موجود ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ ہما اس مقر۔ اور امام مالکؒ ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ کا وہ مذھب۔ پھر اس پر طعن کرنا مؤلف کا ان سب پر طعن ہے۔ کہو اب ایمان کا کیا ٹھکانا، [براہین قاطعہ ص۷]
یہ فریق مخالف کی کتب کے ہم حوالے اس لئے دیتے ہیں تاکہ ان پر حجت تمام ہو جائے اور ویسے بھی ہر فریق کے لئے اس کی کتاب یا اپنے اکابرین کی کتاب اس پر حجت ہے۔ [دیکھئے بخاری، ۳۶۳۵، مسلم :۱۲۹۹]جب تک وہ اس سے برأت کا اظہار نہ کرے۔
جو حضرات تین وتر اکٹھے پڑھتے ہیں اور اصلاح کر لیں اور اپنے علماء سے اس کی دلیل طلب کریں کہ کونسی صحیح حدیث میں تین وتر اکٹھے پڑھنا آیا ہے۔ جن روایات میں ایک سلام سے تین رکعتوں کا ذکر آیا ہے وہ سب بلحاظِ سند ضعیف ہیں۔بعض میں فتادہ رحمہ اللہ مدلس ہے اور مدلس کی ‘‘عن'' والی روایت صحیح نہیں ہوتی۔ جب تک وہ سماع کی صراحت نہ کرے یا پھر کوئی دوسرا ثقہ راوی اس کی متابعت نہ کرے(تاہم بعض صحابہ کرام سے تین وتر اکٹھے پڑھنا ثابت ہے)
یاد رہے کہ صحیحین میں تدلیس مضر نہیں وہ دوسرے طرق سے سماع پر محمول ہے۔ [دیکھئے خزائن السنن ص ۱حصہ اول، ازالۃ الریب ۱۲۳۷از جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی، حقائق السنن ص ۱۵۶، ۱۶۱، وغیرہ]
تاہم اگر کوئی ان ضعیف روایات (اور اآثار ) پر عمل کرنا چاہے تو دوسری رکعت میں تشہد کے لئے نہیں بیٹھے گا۔ بلکہ صرف آخری رکعت میں ہی تشہد کے لئے بیٹھے گا۔ جیسا کہ السنن الکبریٰ للبیہقی وغیرہ میں قتادہ کی روایت میں ہے۔ زاد المعادص ۳۳۰ ج ۱اور مسند احمد ص ۱۵۵ج ۵والی روایت ‘‘لا فصل فیھن'' یزید بن یعمر کے ضعف اور حسن بصری رحمہ اللہ کے عنعنہ (دو علتوں) کی وجہ سے ضعیف ہے۔
دو تشہد اور تین وتر والی مرفوع روایت بلحاظِ سند موضوع و باطل ہے۔ دیکھئے الاستیعاب ص ۴۷۱ج ۴ ترجمہ ام عبد بنت اسود، میزان الاعتدال وغیرہ ہما۔ اس کے بنیادی راوی حفص بن سلیمان القاری اور ابان بن ابی عیاش ہیں۔ دونوں متروک و معتہم ہیں۔ نیچے کی سند غائب ہے اور ایک مدلس کا عنعنہ بھی ہے۔ اتنے شدید ضعف کے باوجود‘‘حدیث و اہل حدیث'' کے مصنف نے اس موضوع (جھوٹی) روایت سے استدلال کیا ہے۔ دیکھئے کتاب مذکور ص۵۲۳، نمبر۲۲طبع مئی ۱۹۹۳ء تفصیل کے لئے دیکھیں ھدیۃ المسلمین(ص۵۶)
محترم بھائیو!اللہ تعالی نے ان لوگوں کے بارے میں سخت وعید فرمائی ہے۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے۔‘‘ان لوگوں کو ڈرنا چاہیئے جو آپ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں کہ کہیں ان پر فتنہ (شرک و کفر) اور دردناک عذاب آ نہ جائے۔'' [سورۃ النور۶۳]مومن کی تو یہ شان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آ جائے تو سرِ تسلیم خم کر دے۔ اس کا عمل اگر پہلے خلاف سنت تھا۔ تو اب دلیل مل جانے پر اپنے عمل کو حدیث،ِ رسول کے مطابق کرے، یہ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ حدیثِ رسول کو اپنے پہلے سے طے شدہ اصول اور عمل کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا رہے!(ماخوذ ازھدیہ المسلمین ص ۵۴، از حافظ زبیر علی زئی)
خود تو بدلتے نہیں حدیث کو بدل دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسی سوچ و فکر سے اپنی پناہ میں رکھے آمین۔
۱۷: فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: میری تمام امت جنت میں اخل ہو گی سوائے اس کے جس نے انکار کر دیا۔ کسی نے پوچھا انکار کرنے والا کون ہو گا؟ آپ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا۔ اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے میرا انکار کیا'' [صحیح بخاری ۷۶۸۰]نیز فرمایا:
۱۸: ‘‘جس نے بھی میری سنت سے منہ موڑا وہ ہم میں سے نہیں ہے''[بخاری ۵۰۲۳، مسلم: ۱۴۰۱]
۱۹: ‘‘جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے بجا لاؤ'' [بخاری:۷۶۸۸، مسلم:۱۳۳۷]
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا:
۲۰: نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔[بخاری:۲۳۱]
۲۱: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے ہماری طرح نماز پڑھی۔ ہمارے قبلہ کا رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا تو وہ مسلمان ہے۔[بخاری:۳۹۱]ایک دوسری روایت میں ہے۔
۲۲: ‘‘مجھے اللہ نے حکم دیا کہ میں لوگوں کے ساتھ جنگ کروں جب تک لوگ اللہ کی وحدانیت کا اقرار کر لیں اور ہماری طرح نماز پڑھیں۔[بخاری۳۹۶]
۲۳: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘میری سنت کو میرے خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے پکڑ لو''
[ابو داؤد:۲۶۰۷، الترمذی:۶۲۷۶وقال: حسن صحیح وصححہ ابن حبان:۱۰۲اوالحاکم۱؍۹۵ ، ۹۶ووافقہ الذھبی]
۲۴: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آخری زمانہ میں دجال اور کذاب ہوں گے وہ تمہیں ایسی ایسی احادیث سنائیں گے جنہیں تم نے اور تمہارے آباو اجداد نے نہیں سنا ہو گا۔ لہذا ان سے اپنے آپ کو بچانا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں گمراہ کر دیں اور فتنہ میں ڈال دیں۔ [مسلم:۷]
محترم بھائیو، بزرگو! اپنی نمازوں کی اصلاح کیجئے اور امام الانبیاء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی‘‘نماز محمدی'' کو سینے سے لگائیں۔ اسی میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔
۲۵: ‘‘جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ عظیم کامیابی سے ہمکنار ہو گا''[الاحزاب:۷۱]
ورنہ یاد رکھیں‘‘قیامت کے دن انسان اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے''بخاری:۳۲۸۸مسلم:۲۶۳۹
وما علینا إلا البلاغ