• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (صلاۃ الوتر)

شمولیت
جولائی 20، 2016
پیغامات
116
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
75

نماز وتر پڑھنے کا مسنون طریقہ

تحریر:ابو ثاقب محمد صفدر حضروی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
۱: ‘‘اللہ وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے''[بخاری: ۶۴۱۰، مسلم:۲۶۷۷]

۲: ‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وتر ایک رکعت ہے رات کے آخری حصہ میں سے '' [مسلم:۷۵۶]

۳: ‘‘نبی کریم سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کی نماز دو، دو رکعتیں ہیں۔ جب صبح (صادق) ہونے کا خطرہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لو۔ یہ ایک (رکعت پہلی ساری) نماز کو طاق بنا دیگی''[بخاری:۹۹۳،۹۹۰مسلم:۷۴۹]

۴: ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وتر پڑھتے (آخری ) دو رکعتوں اور ایک رکعت کے درمیان (سلام پھیر کر ) بات چیت بھی کرتے'' [ابن ماجہ:۷۷، مصنف ابن ابی شیبہ: ۲؍۲۹۱]

۵: ‘‘ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے فجر تک گیارہ رکعتیں پڑھتے ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھتے'' [مسلم:۷۳۶]

۶: ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وتر ہر مسلمان پر حق ہے پس جسکی مرضی ہو پانچ وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو تین وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو ایک وتر پڑھے''[ابوداؤد:۱۴۲۲،نسائی:۱۷۱۰، ابن ماجہ:۱۱۹۰، صحیح ابن حبان: ۲۷۰، مستدرک۱؍۳۰۲وغیرہ]

تین رکعت وتر پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیں۔ پھر ایک رکعت وتر پڑھیں جیسا کہ احادیث مبارکہ میں آیا ہے۔[دیکھئے مسلم:۷۵۲ ، ۷۳۶ ، ۷۶۵ ، ۷۶۹ ، بخاری: ۶۲۶، ۹۹۰، ۹۹۳، ۹۹۴ ، ۲۰۱۳، ابن ماجہ: ۱۱۷۷، نسائی ۱۶۹۸صحیح ابن حبان: ۶۷۸ صحیح ابن حبان الاحسان۴؍۷۰، ۲۴۲۶وغیرہ]

۷: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے وتر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ وہ وتر ایک رکعت ہے آخر شب میں اور پوچھا گیا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے تو انہوں نے بھی اسی طرح کہا۔[مسلم:۷۵۳]

۸: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [بخاری: ۹۹۱، طحاوی: ۱۵۴۹ ، ۱۵۵۱، آثار السنن۲۰۰، ۲۰۱، ۲۰۲]

۹: امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [بخاری:۳۷۶۴ ، ۳۷۶۵، آثار السن۲۰۳]

۱۰: سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [بخاری:۲۳۵۶، طحاوی:۱۶۳۴، آثار السنن ۲۰۵ ، ۶٠۶، وغیرہ]

۱۱: امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔[دار قطنی:۱۶۵۷، طحاوی ۱۶۳۱، آثار السنن۲۰۴]

۱۲: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص آخر رات میں نہ اٹھ سکے تو وہ اول شب وتر پڑھ لے اور جو آخر رات اٹھ سکے وہ آخر رات وتر پڑھے کیونکہ آخر رات کی نماز افضل ہے۔ [مسلم:۷۵۵]

۱۳: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اول رات، رات کے وسط اور پچھلی رات(یعنی) رات کے ہر حصہ میں نماز پڑھی۔ [بخاری:۷۵۵،۹۹۶]

۱۴: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک رات میں دو بار وتر پڑھنا جائز نہیں۔[ابو داؤد۱۴۳۹ابن خزیمہ۱۱۰۱، ابن حبان ۶۷۱، وغیرہ]

۱۵: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کو اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ۔[مسلم:۷۵۱]

اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو وتر کے بعد رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتے ہیں۔

۱۶: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین وتر (اکٹھے) نہ پڑھو، پانچ یا سات وتر پڑھو۔ اور محرب کی مشابہت نہ کرو۔[دار قطنی نمبر ۱۶۳۴، ابن حبان ۶۸۰، آثار السنن۵۹۱، ۵۹۶وغیرہ]

نوٹ: اس کے برعکس بعض حضرات نے یہ فتوی دیا ہے کہ ایک رکعت وتر پڑھنا جائز نہیں۔ [دیکھئے علم الفقہ ص ۱۸۶از عبدالشکور لکھنوی دیوبندی]
دیوبندیوں کے مفتی اعظم عزیز الرحمن (دیوبندی) نے فتویٰ دیا ہے‘‘ کہ ایک رکعت وتر پڑھنے والے امام کے پیچھے نماز حتی الوسع نہ پرھیں۔ کیونکہ وہ غیر مقلد معلوم ہوتا ہے اور اس شخص کا امام بنانا اچھا نہیں ہے؟''
[دیکھئے فتاویٰ دارالعلوم دیوبنج ۳ص۱۵۴ سوال نمبر ۷۷۰، مکتبہ امداد یہ ملتان پاکستان]

حرمین شریفین میں بھی امام ایک رکعت وتر پڑھاتے ہیں۔ اب ان حجاج کرام کی نمازوں کا کیا ہوگا؟ اور اس فتویٰ کی زد میں کون سی شخصیات آتی ہیں؟
جبکہ جناب خلیل احمد سہار نپوری(دیوبندی) صاح ب انوار ساطعہ کے بدعتی مولوی پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:‘‘وتر کی ایک رکعت احادیث صحاح میں موجود ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ ہما اس مقر۔ اور امام مالکؒ ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ کا وہ مذھب۔ پھر اس پر طعن کرنا مؤلف کا ان سب پر طعن ہے۔ کہو اب ایمان کا کیا ٹھکانا، [براہین قاطعہ ص۷]
یہ فریق مخالف کی کتب کے ہم حوالے اس لئے دیتے ہیں تاکہ ان پر حجت تمام ہو جائے اور ویسے بھی ہر فریق کے لئے اس کی کتاب یا اپنے اکابرین کی کتاب اس پر حجت ہے۔ [دیکھئے بخاری، ۳۶۳۵، مسلم :۱۲۹۹]جب تک وہ اس سے برأت کا اظہار نہ کرے۔

جو حضرات تین وتر اکٹھے پڑھتے ہیں اور اصلاح کر لیں اور اپنے علماء سے اس کی دلیل طلب کریں کہ کونسی صحیح حدیث میں تین وتر اکٹھے پڑھنا آیا ہے۔ جن روایات میں ایک سلام سے تین رکعتوں کا ذکر آیا ہے وہ سب بلحاظِ سند ضعیف ہیں۔بعض میں فتادہ رحمہ اللہ مدلس ہے اور مدلس کی ‘‘عن'' والی روایت صحیح نہیں ہوتی۔ جب تک وہ سماع کی صراحت نہ کرے یا پھر کوئی دوسرا ثقہ راوی اس کی متابعت نہ کرے(تاہم بعض صحابہ کرام سے تین وتر اکٹھے پڑھنا ثابت ہے)
یاد رہے کہ صحیحین میں تدلیس مضر نہیں وہ دوسرے طرق سے سماع پر محمول ہے۔ [دیکھئے خزائن السنن ص ۱حصہ اول، ازالۃ الریب ۱۲۳۷از جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی، حقائق السنن ص ۱۵۶، ۱۶۱، وغیرہ]

تاہم اگر کوئی ان ضعیف روایات (اور اآثار ) پر عمل کرنا چاہے تو دوسری رکعت میں تشہد کے لئے نہیں بیٹھے گا۔ بلکہ صرف آخری رکعت میں ہی تشہد کے لئے بیٹھے گا۔ جیسا کہ السنن الکبریٰ للبیہقی وغیرہ میں قتادہ کی روایت میں ہے۔ زاد المعادص ۳۳۰ ج ۱اور مسند احمد ص ۱۵۵ج ۵والی روایت ‘‘لا فصل فیھن'' یزید بن یعمر کے ضعف اور حسن بصری رحمہ اللہ کے عنعنہ (دو علتوں) کی وجہ سے ضعیف ہے۔

دو تشہد اور تین وتر والی مرفوع روایت بلحاظِ سند موضوع و باطل ہے۔ دیکھئے الاستیعاب ص ۴۷۱ج ۴ ترجمہ ام عبد بنت اسود، میزان الاعتدال وغیرہ ہما۔ اس کے بنیادی راوی حفص بن سلیمان القاری اور ابان بن ابی عیاش ہیں۔ دونوں متروک و معتہم ہیں۔ نیچے کی سند غائب ہے اور ایک مدلس کا عنعنہ بھی ہے۔ اتنے شدید ضعف کے باوجود‘‘حدیث و اہل حدیث'' کے مصنف نے اس موضوع (جھوٹی) روایت سے استدلال کیا ہے۔ دیکھئے کتاب مذکور ص۵۲۳، نمبر۲۲طبع مئی ۱۹۹۳ء تفصیل کے لئے دیکھیں ھدیۃ المسلمین(ص۵۶)

محترم بھائیو!اللہ تعالی نے ان لوگوں کے بارے میں سخت وعید فرمائی ہے۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے۔‘‘ان لوگوں کو ڈرنا چاہیئے جو آپ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں کہ کہیں ان پر فتنہ (شرک و کفر) اور دردناک عذاب آ نہ جائے۔'' [سورۃ النور۶۳]مومن کی تو یہ شان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آ جائے تو سرِ تسلیم خم کر دے۔ اس کا عمل اگر پہلے خلاف سنت تھا۔ تو اب دلیل مل جانے پر اپنے عمل کو حدیث،ِ رسول کے مطابق کرے، یہ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ حدیثِ رسول کو اپنے پہلے سے طے شدہ اصول اور عمل کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا رہے!(ماخوذ ازھدیہ المسلمین ص ۵۴، از حافظ زبیر علی زئی)

خود تو بدلتے نہیں حدیث کو بدل دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسی سوچ و فکر سے اپنی پناہ میں رکھے آمین۔

۱۷: فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: میری تمام امت جنت میں اخل ہو گی سوائے اس کے جس نے انکار کر دیا۔ کسی نے پوچھا انکار کرنے والا کون ہو گا؟ آپ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا۔ اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے میرا انکار کیا'' [صحیح بخاری ۷۶۸۰]نیز فرمایا:

۱۸: ‘‘جس نے بھی میری سنت سے منہ موڑا وہ ہم میں سے نہیں ہے''[بخاری ۵۰۲۳، مسلم: ۱۴۰۱]

۱۹: ‘‘جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے بجا لاؤ'' [بخاری:۷۶۸۸، مسلم:۱۳۳۷]
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا:

۲۰: نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔[بخاری:۲۳۱]

۲۱: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے ہماری طرح نماز پڑھی۔ ہمارے قبلہ کا رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا تو وہ مسلمان ہے۔[بخاری:۳۹۱]ایک دوسری روایت میں ہے۔

۲۲: ‘‘مجھے اللہ نے حکم دیا کہ میں لوگوں کے ساتھ جنگ کروں جب تک لوگ اللہ کی وحدانیت کا اقرار کر لیں اور ہماری طرح نماز پڑھیں۔[بخاری۳۹۶]

۲۳: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘میری سنت کو میرے خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے پکڑ لو''
[ابو داؤد:۲۶۰۷، الترمذی:۶۲۷۶وقال: حسن صحیح وصححہ ابن حبان:۱۰۲اوالحاکم۱؍۹۵ ، ۹۶ووافقہ الذھبی]

۲۴: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آخری زمانہ میں دجال اور کذاب ہوں گے وہ تمہیں ایسی ایسی احادیث سنائیں گے جنہیں تم نے اور تمہارے آباو اجداد نے نہیں سنا ہو گا۔ لہذا ان سے اپنے آپ کو بچانا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں گمراہ کر دیں اور فتنہ میں ڈال دیں۔ [مسلم:۷]

محترم بھائیو، بزرگو! اپنی نمازوں کی اصلاح کیجئے اور امام الانبیاء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی‘‘نماز محمدی'' کو سینے سے لگائیں۔ اسی میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔

۲۵: ‘‘جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ عظیم کامیابی سے ہمکنار ہو گا''[الاحزاب:۷۱]

ورنہ یاد رکھیں‘‘قیامت کے دن انسان اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے''بخاری:۳۲۸۸مسلم:۲۶۳۹

وما علینا إلا البلاغ
 
شمولیت
جولائی 20، 2016
پیغامات
116
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
75

وتر کی مسنون رکعات


تحریر غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز وتر کی ایک ، تین ، پانچ، سات اور نو رکعات ثابت ہیں۔ ایک رکعت نماز وتر: ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
«سئل الشافعي عن الوتر : أيجوز أن يوتر الرجل بواحدة ، ليس قبلھا شيء ؟ قال : نعم ، والّذي أختار أن أصلّي عشر ركعات ، ثمّ أوتر بواحدة ، فقلت للشافعي : فما الحجة في أن الوتر يجوز بواحدة ؟ فقال : الحجة فيه السنّة و الآثار»
”امام شافعی رحمہ اللہ سے وتر كے بارے ميں سوال كيا گيا كہ آدمی ایک وتر ایسے پڑھے کہ اس سے پہلے کوئی نماز نہ ہو تو کیا جائز ہے ؟ فرمایا : ہاں، جائز ہے، لیکن میں پسند یہ کرتا ہوں کہ دس رکعات پڑھ کر پھر ایک وتر پڑھوں۔ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے پوچھا : ایک وتر جائز ہونے کی دلیل ہے ؟ فرمایا : اس بارے میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار سلف دلیل ہیں۔ “ ( السنن الصغریٰ للبیھقی : ۵۹۳، وہ سندہٗ حسنٌ)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«صلاة الليل مثنى مثنى فإذا خشی أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة ، توتر له ما قد صلى»
”رات کی نماز دو دو رکعت ہے پھر جب کوئی صبح ہونے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔ “ ( صحیح بخاری : 990، صحیح مسلم : 749) صحیح مسلم (۱۵۸/۷۴۹) کی ایک روایت کے الفاظ ہیں :
«ويوتر بركعة من آخر الليل»
”رات كے آخری حصے میں ایک رات وتر پڑھ لے۔ “
صحیح مسلم (۷۵۲ ، ۷۵۳) میں سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«الوتر ركعة من آخر الليل»
”وتر رات کے آخری حصہ میں ایک رکعت کا نام ہے ۔ “ صحیح مسلم (۱۵۹/۷۴۹) کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں :
«صلاة الليل مثنى مثنى فإذا رآيت أنّ الصبح يدر كك ، فاوتر بواحدة»
”رات کی نماز دو ، دو رکعت ہے ، جب تو دیکھے کہ صبح ہونے کو ہے تو ایک وتر پڑھ لے ۔ “
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
«أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي باليل إحدى عشرة ركعة ، يوتر منھا بواحدة ، فإذا فرغ منھا اضطجع على شقه الأيمن ، حتى يأتيه المؤذن ، فيصلی ركعتين خفيفتين»
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعت پڑھتے تھے، ان میں سے ایک وتر ادا فرماتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہو جاتے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مؤذن آتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو ہلکی سی رکعتیں ( فجر کی سنتیں ) ادا فرماتے۔ “ (صحیح البخاری : ۹۹۴، صحیح مسلم : ۷۳۶، و للفظ له‘)
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«الوتر حق فمن شاء أوتر بسبع ومن شاء أوتر بخمس ، ‏‏‏‏ ومن شاء أوتر بثلاث ومن شاء أوتر بواحدة»
”وتر حق ہے، جو چاہے سات پڑھے، جو چاہے پانچ پڑھے، جو چاہے تین پڑھے، اور جو چاہے ایک پڑھے۔ “ (سنن ابی داؤد۱۴۲۲، سنن النسائی : ۱۷۱۱، سنن ابن ماجه : ۱۱۹۰، وسندہٗ صحیح )
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (۲۴۱۰) اور حافظ ابن الملقن ( البدر المنیر : ۲۹۶/۴) نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ نے بخاری و مسلم کی شرط پر ”صحیح“ قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
«أن النبی صلى الله عليه وسلم أوتر بركعة.»
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت وتر ادا فرمایا۔ “ ( سنن الدارقطنی : ۱۶۵۶، وسندہٗ صحیحٌ)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
«أوتر بركعة.»
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت وتر پڑھا۔ “ (صحیح ابن حبان : ۲۴۲۴۔ وسندہٗ صحیحٌ)
ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد ایک وتر پڑھا۔ ان کے پاس سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے غلام بھی موجود تھے۔ انہوں نے آ کر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بتایا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
دعه فإنه صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم.
”ان کو چھوڑ دو، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں۔ “ ( صحیح بخاری : ۳۷۶۴)
صحیح بخاری ہی کی ایک روایت (۳۷۶۵) میں ہے کہ ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ امیرالمؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں، انہوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا إنه فقيه. ”وہ فقیہ ہیں۔عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
”أن معاوية أوتر بركعة ، فأنكر ذلك عليه ، فسئل ابن عباس ، فقال : أصاب السنّة.“
” سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک وتر پڑھا، ان پر اس چیز کا اعتراض کیا گیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : انہوں نے سنت پر عمل کیا ہے۔ “ ( مصنف ابن ابی شيبة : ۲۹۱/۲، وسندہٗ صحیحٌ)
ایک رکعت وتر سنت ہے، فقیہ کی نشانی بھی یہی ہے کہ وہ ایک رکعت وتر کا قائل و فاعل ہوتا ہے۔ سیدنا معاویہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم دو جلیل القدر صحابی ایک رکعت وتر کے قائل و فاعل ہیں۔ دیگر صحابہ کرا م کا عمل ابومجلز بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے وتر کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ اگر میں سفر میں ہوں تو کیا کروں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ركعة من آخر الليل. ”رات كے آخری حصے میں ایک رکعت پڑھ لو۔“ ( مصنف ابن ابی شيبة : ۳۰۱/۲، وسندہٗ صحیحٌ) عبدالرحمٰن تیمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ آج رات قیام اللیل پر مجھ سے کوئی سبقت نہ لے جائے گا۔ میں اٹھا تو اپنے پیچھے ایک آدمی کی آہٹ پائی۔ وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔ میں ایک طرف ہٹ گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، قرآن کریم شروع کیا اور ختم کر دیا، پھر رکوع کیا اور سجدہ کیا۔ میں نے سوچا : شیخ بھول گئے ہیں۔ جب آپ رضی اللہ عنہ نماز پڑھ چکے تو میں نے عرض کیا : اے امیر المؤمنین ! آپ نے ایک ہی رکعت وتر ادا کی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہاں۔ یہ میرا وتر ہے۔“ ( شرح معانی الآثار للطحاوی : ۲۹۴/1، سنن الدارقطنی : ۳۴/۲، ح، ۱۶۵۶-۱۶۵۸، و سندہٗ حسنٌ) عبداللہ بن مسلمہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز عشاء پڑھائی، پھر مسجد کے ایک کونے میں ایک رکعت ادا کی۔ میں آپ کے پیچھے گیا اور عرض کیا : اے ابواسحاق ! یہ کیسی رکعت ہے ؟ فرمایا : وتر، أنام عليه. ”يه وتر هے، جو پڑھ کر میں سو رہا ہوں۔“ عمرو بن مرۃ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات مصعب بن سعد کو بتائی تو انہوں نے کہا : سیدنا سعد رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی : ۲۹۵/۱، و سندہٗ حسنٌ) سیدنا عبداللہ بن ثعبلہ بن صغیر رضی اللہ عنہ جن کے چہرے پر فتح مکہ کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پھیرا تھا، وہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ جو کہ بدر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، نماز عشاء کے بعد ایک وتر پڑھا کرتے تھے۔ اس سے زیادہ نہ پرھتے تھے، حتیٰ کہ رات کے وسط میں قیام کرتے تھے۔ ( معرفة السنن والآثار للبيھقي : 3142 ح،، 1390 صحيح البخاري : 6356 : وسندہٗ صحیحٌ) نافع رحمہ اللہ، سيدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
أنه كان يوتر بركعتة
”آپ رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ “
(الاوسط لابن لمنذر : 179/5، وسندہٗ صحیحٌ) ابومجلز بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے مکہ و مدینہ کے درمیان عشاء کی نماز دو رکعت ادا کی، پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت وتر پڑھا۔ (الاوسط لابن لمنذر : 179/5، وسندہٗ صحیحٌ) جریر بن حازم بیان کرتے ہیں :
«سألت عطاء : أوتر بركعة ؟ فقال : نعم ، إن شئت.»
”ميں نے امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ کیا میں ایک رکعت وتر پڑھ لیا کروں ؟ فرمایا : ہاں اگر چاہے تو پڑھ لیا کر۔ “ ( مصنف ابن ابی شيبة : ۲۹۲/۲، وسندہٗ صحیحٌ) ابن عون بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے پوچھا کہ اگر آدمی سو گیا اور صبح ہو گئی تو کیا صبح ہونے کے بعد وہ ایک رکعت وتر پڑھ لے ؟ فرمایا :
«لا أعلم به بأسا.»
”ميں اس ميں كچھ حرج نہیں سمجھتا۔ “ ( مصنف ابن ابی شيبة : ۲۹۰/۲، وسندہٗ صحیحٌ)

ایک تین ، پانچ اور سات وتر احناف کی نظر میں

ایک، تین، پانچ اور سات رکعات وتر پڑھنا جائز ہیں۔ اب ہم مقلدین کی معتبر کتب کے حوالہ جات پیش کرتے ہیں :
۱۔ مشہور حنفی جناب عبدالحیئ لکھنوی صاحب لکھتے ہیں :
وقد صحّ من جمع من الصحابة أنّھم أوتروا بواحدة، دون تقدّم نفل قبلھا.
”صحابہ کرام کی ایک جماعت سے یہ بات ثابت ہے کہ انہوں نے پہلے کوئی نفل پڑھے بغیر ایک رکعت وتر ادا کیا۔ “
( التعلیق الممجد للکنوی : ۵۰۸/۱)
۲۔ علامہ سندھی حنفی، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
ھذا صريح في جواز الوتر بواحدة.
”یہ حدیث ایک وتر کے جائز ہونے میں واضح ہے۔ “
( حاشیة السندي علی النسائي : ۳۰/۲)
۳۔ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں :
نعم، ثابت عن بعض الصحابة بلا ريب.
”ہاں، بعض صحابہ کرام سے بلاشک و شبہ ایک وتر پڑھنا ثابت ہے۔ “
( العرف الشذی للکشمیری : ۱۲/۲)
۴۔ جناب عبدالشکور فاروقی لکھنوی دیوبندی لکھتے ہیں :
”یہ ( صرف تین وتر پڑھنا ) مذہب امام صاحب کا ہے۔ ان کے نزدیک ایک رکعت کی وتر جائز نہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وتر میں ایک رکعت بھی جائز ہے۔ دونوں طرف بکثرت احادیث صحیحہ موجود ہیں۔ “
( علم الفقه از عبدالشكور اللكونوي : حصه دوم : ۱۸۲)
تنبیہ نمبر ۱ :
بعض الناس پر لازم ہے کہ وہ اپنے امام سے ایک رکعت وتر کا عدم جواز بسندِ صحیح ثابت کریں۔


تنبیہ نمبر ۲ :
جس روایت میں تین وتر ہے ذکر ہے، اس سے ایک یا پانچ وتر کی نفی نہیں ہوتی۔

۵۔ جناب خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی لکھتے ہیں :
وتر کی رکعت احادیث صحاح میں موجود اور سیدنا عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہما صحابہ کرام اس کے مقر اور مالک رحمہ اللہ و شافعی رحمہ اللہ و احمد رحمہ اللہ کا وہ مذہب، پھر اس پر طعن کرنا ان سب پر طعن ہے، کہو اب ایمان کا کیا ٹھکانہ ؟۔۔۔۔ “
( براھین قاطعه : ص ۷)
یاد رہے کہ اس کتاب پر جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی کی تقریظ بھی ہے۔
سہارنپوری دیوبندی صاحب کی عبارت سے بہت سی باتیں ثابت ہوتی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک رکعت وتر پر طعن کرنے والے بے ایمان ہیں۔

۶۔ جب بعض لوگوں نے جناب سہارنپوری کی مذکورہ بالا کتاب پر اعتراضات کئے تو ان کے ردّ جواب میں دیوبندیوں کے عقیدۂ وحدت الوجود کے امام حاجی امداد اللہ ”مکی“ دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
”ایسے ہی ایک وتر کی بحث میں جو آپ نے لکھا ہے کہ صاحب ”براہین“ کا اعتراض امام صاحب و صاحبین تک پہنچتا ہے۔ یہ تو محض تعصب یا سفاہت ہے۔ صاحب ”براہین“ اس شخص کو ردّ کرتے ہیں، جو عموماً ایک وتر پڑھنے والوں پر طعن کرے کیونکہ ایک وتر پڑھنے والے بعض صحابہ و ائمہ بھی ہیں۔ حضرت امام و صاحبین نے کب ایک وتر پڑھنے والوں پر طعن کیا ہے اور کب طعن کر سکتے ہیں کہ اس طرف بھی صحابہ کبار اور ائمہ خیار ہیں۔ صاحب ”انوار ساطعہ“ نے چونکہ بالعموم ایک وتر پڑھنے والوں کو مطعون کیا تھا، حالانکہ ان میں صحابہ و ائمہ ہیں۔ اس کو متنبہ کیا ہے اور اس گستاخی سے روکا ہے۔ “
( یہ تحریر براھین کے آخر میں ملحق ہے : ص : ۲۸۰)
۷۔ اس تحریر کے ایک مقلد محشی لکھتے ہیں :
”پس معترض کا یہ کہنا کہ ”براہین“ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے امام صاحب و صاحبین کے ایمان کا بھی کیا ٹھکانہ، نہایت حمق و شقاوت ہے، کیونکہ ان حضرات نے ایک وتر پڑھنے والوں صحابہ و ائمہ کو کبھی طعن نہیں کیا اور نہ کلمات تحقیر ان حضرات کی شان میں لکھے۔ مؤلفِ ”انوارِ ساطعہ“ نے بالعموم ایک وتر پڑھنے والوں کی نسبت کلماتِ ناشائشتہ لکھے، اس لیے اس کو گستاخی سے روکا گیا ہے اور سمجھایا گیا ہے کہ تحقیر احادیث و تحقیر سلف میں ایمان کا ٹھکانا نہیں۔ اگر مؤلف ”انوارِ ساطعہ“ کہے کہ میری مراد صحابہ و ائمہ قائلین وترِ واحد پر اعتراض کرنا نہیں تو یہ عذر گناہ بدتر از گناہ ہے، کیونکہ اس کتاب میں بالتعمیم ایک وتر پڑھنے والوں پر اعتراض کیا ہے۔ حکم شرعی ظاہر پر ہے اور پھر سلف ہوں یا خلف، جس امر میں متبع حدیثِ نبوی ہیں، اس فعل پر اعتراض نہیں ہو سکتا اور نہ اس کی تحقیر زیبا اعتراض جس پر ہے، کسی احادیث یا اتباع ہونے کی وجہ سے ہے، ورنہ چاہیئے کہ فرقِ باطلہ و اہلِ ہویٰ جن عقائد و اعمال میں اہلِ حق کے موافق ہیں، ان عقائد و اعمال میں بھی اعتراض یا جائے، پھر جب ایک وتر کے قائلین بھی صحابہ و اہل سنت ہیں تو اس فعل پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے ؟“
( ایضاً ص۔ ۲۸۰)
۸۔ جناب سہارنپوری کی تائید اور مؤلف ”انوارِ ساطعہ“ کے ردّ میں مشہور مقلد جناب محمود الحسن دیوبندی لکھتے ہیں :
” ( عبدالسمیع رامپوری مؤلفِ انوارِ ساطعہ نے ) وتر کی ایک رکعت پڑھنے والوں پر سخت الفاظ کے ساتھ طعن کیا ہے۔ خیر اور تو وہی پرانا رونا ہے، جو مؤلف مذکور ( عبدالسمیع) کے سلف کر چکے تھے، مگر وتر کی ایک رکعت پڑھنے والوں پر جس کے بارے میں احادیث صحاح موجود ہیں اور بعض ائمہ مثل امام شافعی و امام احمد وغیرہ رحمہ اللہ علیہم کا وہ مذہب ہے۔ زبان درازی کرنا مؤلف مذکور کا ہی حصہ ہے۔ یہ جدا قصہ ہے کہ علمائے حنفیہ رحمہ اللہ کا یہ مذہب بوجہ اور دلائل کے نہ ہو، مگر فقط اس امر سے ایک دوسرے پر طعن نہیں کر سکتا۔ “
( الجھد المقل فی تنزيه المعز والمذل از محمو الحسن دیوبندی : ص۱۷)
۹۔ اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب کہتے ہیں :
” بعض لوگوں کے نزدیک وتر ایک رکعت ہے اور بعض کے نزدیک تین ہیں اور بعض کے نزدیک پانچ ہیں اور ان سب میں تاویل مذکور جاری ہو سکتی ہے، مگر میرے نزدیک عمدہ طریقہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تینوں طرح ثابت ہے۔ “
( تقریر ترمذی از تھانوی : ۱۳۶)
اس کتاب پر جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب کا مقدمہ موجود ہے۔

۱۰۔ جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب اپنے استاذ جناب شیخ محمد تھانوی صاحب دیوبندی سے نقل کرتے ہیں :
” ( اہل حدیث ) نے وتر کی تمام احادیث میں سے ایک رکعت والی حدیث پسند کی ہے، حالانکہ تین رکعتیں بھی آئیں ہیں، پانچ بھی آئی ہیں، سات بھی آئی ہیں۔ “
( قصص الاکابر از تھانوی : ۱۲۲) تبصرہ:
جناب تھانوی صاحب کا یہ بہتان ہے کہ اہل حدیث نے ایک رکعت والی حدیث پسند کی ہے جبکہ اہل حدیث ایک رکعت کے علاوہ تین، پانچ اور سات رکعت وتر کی احادیث کو بھی ناپسند نہیں کرتے، بلکہ ان کے بھی قائل و فاعل ہیں۔
والحمدلله علي ذلك !
۱۱۔ جناب احمد سعید کاظمی بریلوی لکھتے ہیں : ”یعنی علامہ کرمانی نے فرمایا کہ سیدنا قاسم بن محمد ( سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے ) کے قول ”إنَ کّلا“ کے معنی یہ ہیں کہ وتر ایک رکعت، تین رکعت اور پانچ رکعت اور سات وغیرہ سب جائز ہیں۔“ (مقالات کاظمی : حصہ سوم : ۴۸۸ )
۱۲۔ جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں :
”حضور صلی اللہ علیہ وسلم وتر ایک رکعت پڑھتے تھے، تین یا پانچ پڑھتے تھے، سات پڑھتے تھے تو گیارہ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔“
( جاء الحق از نعیمی، جلد دوم : ص ۲۶۳)
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
تین رکعت وتر پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیں۔ پھر ایک رکعت وتر پڑھیں جیسا کہ احادیث مبارکہ میں آیا ہے۔[دیکھئے مسلم:۷۵۲ ، ۷۳۶ ، ۷۶۵ ، ۷۶۹ ، بخاری: ۶۲۶، ۹۹۰، ۹۹۳، ۹۹۴ ، ۲۰۱۳، ابن ماجہ: ۱۱۷۷، نسائی ۱۶۹۸صحیح ابن حبان: ۶۷۸ صحیح ابن حبان الاحسان۴؍۷۰، ۲۴۲۶وغیرہ]
محترم یہ تو ایک رکعت وتر ہے تین کیسے ہیں؟

: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین وتر (اکٹھے) نہ پڑھو، پانچ یا سات وتر پڑھو۔ اور محرب کی مشابہت نہ کرو۔[دار قطنی نمبر ۱۶۳۴، ابن حبان ۶۸۰، آثار السنن۵۹۱، ۵۹۶وغیرہ]
اس حدیث سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین رکعات وتر پڑھنے کی ممناعت فرمائی ہے اور پانچ یا سات وتر پڑھنے کو کہا ہے۔ تین رکعت اکٹھے نہ پڑھنے کی بات کچھ سمجھ نہیں آرہی۔
اس حدیث کا عربی متن لکھ دیں تاکہ بات سمجھنا آسان ہو جائے۔ شکریہ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
نماز وتر پڑھنے کا مسنون طریقہ
نماز وتر پڑھنے کا مسنون طریقہ
تحریر:ابو ثاقب محمد صفدر حضروی
وتر کی مسنون رکعات

تحریر غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
سب سے پہلے آپ سے یہ پوچھنا پسند فرماؤں گا کہ آپ کس کس کے مقلد ہیں؟ کیوں کہ آپ نے ان پر بھروسہ کیا مگر ان کے دلائل کو خود پرکھنے کی کوشش نہیں کی۔
عام قاری کو پتہ نہیں ہوتا کہ کیا یہ عالم جوکچھ لکھ رہا ہے اس میں کسی قسم کی ڈنڈی تو نہیں مار رہا۔ مثلاً آپ دیکھیں کہ بہت سی اہم احادیث کو موصوف نے ذکر ہی نہیں کیا۔ نمونہ کے طور پر چند ایک ملاحظہ فرمائیں؛
سنن النسائی: كِتَاب قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ: بَاب ذِكْرِ الِاخْتِلَافِ عَلَى الزُّهْرِيِّ فِي حَدِيثِ أَبِي أَيُّوبَ فِي الْوِتْرِ: حدیث نمبر 1691:
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِخَمْسٍ وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِوَاحِدَةٍ (تحقيق الألباني :صحيح)
ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وتر حق ہے۔ جو چاہے سات وتر پڑھ لے، جو چاہے پانچ وتر پڑھ لے جو چاہے تین وتر پڑھ لے، جو چاہے ایک وتر پڑھ لے۔
اوپر موصوف کے مراسلہ میں ذکر ہے کہ تین رکعت وتر اکٹھے نہ پڑھے۔ فیاللعجب

ان احادیث کو بھی ملاحظہ فرمائیں؛
سنن أبي داود: کتاب الصلاۃ: باب فی صلاۃ اللیل حديث نمبر 1155
قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بِكَمْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ قَالَتْ كَانَ يُوتِرُ بِأَرْبَعٍ وَثَلَاثٍ وَسِتٍّ وَثَلَاثٍ وَثَمَانٍ وَثَلَاثٍ وَعَشْرٍ وَثَلَاثٍ وَلَمْ يَكُنْ يُوتِرُ بِأَنْقَصَ مِنْ سَبْعٍ وَلَا بِأَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثَ عَشْرَةَ ٭
عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی کتنی رکعات پڑھتے تھے- عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھتے چار اور تین رکعات ﭼﻬ اور تین رکعات آﮢﮭ اور تین رکعات دس اور تین رکعات ۔ سات رکعات سے کم اور تیرہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔

سنن النسائي: کتاب قیام اللیل و تطوع النہار: ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى أَبِي إِسْحَقَ فِي حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْوِتْرِ: حديث نمبر 1684:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ يَقْرَأُ فِي الْأُولَى بِسَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَفِي الثَّانِيَةِ بِقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ٭

ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے ۔ پہلی رکعت میں"سبح اسم ربک الاعلی" پڑھتے دوسری میں "قل یا ایہاالکافرون" اور تیسری میں "قل ہو اللہ احد" پڑھتے تھے۔

مسند أحمد: مسند العشرۃ المبشرین بالجنة: وَمِنْ مُسْنَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: حديث نمبر640
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِتِسْعِ سُوَرٍ مِنْ الْمُفَصَّلِ قَالَ أَسْوَدُ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى أَلْهَاكُمْ التَّكَاثُرُ وَإِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَإِذَا زُلْزِلَتْ الْأَرْضُ وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ وَالْعَصْرِ وَإِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَإِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّالِثَةِ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَتَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ۔
علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم (تین رکعت) وتر مفصل کی نو (9) سورتوں کے ساتھ پڑھتے- پہلی رکعت میں " الھاکم التکاثر " ، " انا انزلناہ فی لیلۃ القدر " اور " اذا زلزلت الارض" پڑھتے اور دوسری رکعت میں " والعصر" ، " اذا جاء نصر اللہ والفتح" اور " انا اعطیناک الکوثر" پڑھتے اور تیسری رکعت میں " قل یا ایھا الکافرون" ، " تبت یدا ابی لھب" اور " قل ھو اللہ احد" پڑھتے-

سنن الترمذي: کتاب الصلاۃ: باب ما جاء بالوتر بثلاث: حديث نمبر 422
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ يَقْرَأُ فِيهِنَّ بِتِسْعِ سُوَرٍ مِنْ الْمُفَصَّلِ يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِثَلَاثِ سُوَرٍ آخِرُهُنَّ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ٭
علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر میں مفصل کی نو (9) سورتیں پڑھتے ۔ہر رکعت میں تین سورتیں پڑھتے ۔ ان میں سے آخری "قل ھو اللہ احد" ہوتی ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
نماز وتر پڑھنے کا مسنون طریقہ
نماز وتر پڑھنے کا مسنون طریقہ
تحریر:ابو ثاقب محمد صفدر حضروی
وتر کی مسنون رکعات

تحریر غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
سب سے پہلے آپ سے یہ پوچھنا پسند فرماؤں گا کہ آپ کس کس کے مقلد ہیں؟ کیوں کہ آپ نے ان پر بھروسہ کیا مگر ان کے دلائل کو خود پرکھنے کی کوشش نہیں کی۔
عام قاری کو پتہ نہیں ہوتا کہ کیا یہ عالم جوکچھ لکھ رہا ہے اس میں کسی قسم کی ڈنڈی تو نہیں مار رہا۔ مثلاً آپ دیکھیں کہ بہت سی اہم احادیث کو موصوف نے ذکر ہی نہیں کیا۔ نمونہ کے طور پر چند ایک ملاحظہ فرمائیں؛
سنن النسائی: كِتَاب قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ: بَاب ذِكْرِ الِاخْتِلَافِ عَلَى الزُّهْرِيِّ فِي حَدِيثِ أَبِي أَيُّوبَ فِي الْوِتْرِ: حدیث نمبر 1691:
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِخَمْسٍ وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِوَاحِدَةٍ (تحقيق الألباني :صحيح)
ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وتر حق ہے۔ جو چاہے سات وتر پڑھ لے، جو چاہے پانچ وتر پڑھ لے جو چاہے تین وتر پڑھ لے، جو چاہے ایک وتر پڑھ لے۔
اوپر موصوف کے مراسلہ میں ذکر ہے کہ تین رکعت وتر اکٹھے نہ پڑھے۔ فیاللعجب
 
شمولیت
فروری 01، 2012
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
85
پوائنٹ
54
سب سے پہلے آپ سے یہ پوچھنا پسند فرماؤں گا کہ آپ کس کس کے مقلد ہیں؟ کیوں کہ آپ نے ان پر بھروسہ کیا مگر ان کے دلائل کو خود پرکھنے کی کوشش نہیں کی۔
عام قاری کو پتہ نہیں ہوتا کہ کیا یہ عالم جوکچھ لکھ رہا ہے اس میں کسی قسم کی ڈنڈی تو نہیں مار رہا۔ مثلاً آپ دیکھیں کہ بہت سی اہم احادیث کو موصوف نے ذکر ہی نہیں کیا۔ نمونہ کے طور پر چند ایک ملاحظہ فرمائیں؛
سنن النسائی: كِتَاب قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ: بَاب ذِكْرِ الِاخْتِلَافِ عَلَى الزُّهْرِيِّ فِي حَدِيثِ أَبِي أَيُّوبَ فِي الْوِتْرِ: حدیث نمبر 1691:
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِخَمْسٍ وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِوَاحِدَةٍ (تحقيق الألباني :صحيح)
ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وتر حق ہے۔ جو چاہے سات وتر پڑھ لے، جو چاہے پانچ وتر پڑھ لے جو چاہے تین وتر پڑھ لے، جو چاہے ایک وتر پڑھ لے۔
اوپر موصوف کے مراسلہ میں ذکر ہے کہ تین رکعت وتر اکٹھے نہ پڑھے۔ فیاللعجب
اس حدیث پر امام نووی کا حکم

المجموع شرح المهذب - للنووي
عن أبي أيوب إن النبي صلى الله عليه وسلم قال " الوتر
حق فمن أحب أن يوتر بخمس فليفعل ومن أحب أن يوثر بثلاث فليفعل ومن أحب أن يوثر بواحدة فليفعل " حديث صحيح رواه أبو داود باسناده صحيح وصححه الحاكم

وتر ایک تین پانچ وغیرہ جائز ہے :: ایک سلام کے ساته تین رکعت وتر کا طریقہ


السنن الكبرى للبيهقي
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، أنبأ أبو نصر أحمد بن سهل الفقيه ببخارى، ثنا صالح بن محمد بن حبيب الحافظ، ثنا شيبان بن أبي شيبة، ثنا أبان، عن قتادة، عن زرارة بن أوفى، عن سعد بن هشام، عن عائشة قالت: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر بثلاث لا يقعد إلا في آخرهن



يعنی دو ركعتوں کے بعد تشهد نہ پڑہے


اس كی تائید ان آثار سے بهی ہوتی ہے

السنن الكبرى للبيهقي
وأخبرنا أبو عبد الله الحافظ، ثنا محمد بن صالح بن هانئ، ثنا الحسين بن الفضل البجلي، ثنا مسلم بن إبراهيم، وسليمان بن حرب قالا: ثنا جرير بن حازم، عن قيس بن سعد، عن عطاء " أنه كان يوتر بثلاث لا يجلس فيهن، ولا يتشهد إلا في آخرهن


مصنف عبد الرزاق
عبد الرزاق عن ابن التيمي، عن ليث، عن عطاء قال: قال ابن عباس: الوتر مثل صلاة المغرب إلا أنه لا يجلس إلا في الثالثة (تنبیہ: لیث ضعیف مدلس هیں)


مختصر قيام الليل للمروزي
وعن طاوس أنه: «كان يوتر بثلاث لا يقعد بينهن» وعن عطاء، أنه: «كان يوتر بثلاث ركعات لا يجلس فيهن ولا يتشهد إلا في أخراهن» وقال حماد، كان أيوب، يصلي بنا في رمضان، فكان يوتر بثلاث لا يجلس إلا في آخرهن،


السنن الكبرى للبيهقي
دو تشہد والی ایک دو ضعیف روایتیں میری نظر سے گزری ہیں

بهائی عبدالرحمن بھٹی الله آپ کے علم میں اضافہ کرے تین رکعت وتر دو تشہد کوی صریح صحیح حدیث معلوم ہے تو ضرور بتا دیں میں اس کی مکمل تحقیق نهیں کر پایا
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
وتر ایک تین پانچ وغیرہ جائز ہے :: ایک سلام کے ساته تین رکعت وتر کا طریقہ

السنن الكبرى للبيهقي
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، أنبأ أبو نصر أحمد بن سهل الفقيه ببخارى، ثنا صالح بن محمد بن حبيب الحافظ، ثنا شيبان بن أبي شيبة، ثنا أبان، عن قتادة، عن زرارة بن أوفى، عن سعد بن هشام، عن عائشة قالت: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر بثلاث لا يقعد إلا في آخرهن
السنن الكبرى للبيهقي
دو تشہد والی ایک دو ضعیف روایتیں میری نظر سے گزری ہیں
سب سے پہلے وتر کی رکعات کتنی پڑھنی ہیں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل کتنی رکعات وتر پڑھنے کا تھا؟
یہ پہلے طے ہوجائے پھر وتر کی ادائیگی کا طریقہ بھی معلوم ہو جائے گا۔
کیا آپ اس پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل تین رکعات وتر پڑھنے کا تھا جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
السنن الكبرى للبيهقي
دو تشہد والی ایک دو ضعیف روایتیں میری نظر سے گزری ہیں
ان کو احاطۂ تحریر میں بھی لے آتے خیر اب لکھ دیں عربی متن کے ساتھ۔ شکریہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کیا آپ اس پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل تین رکعات وتر پڑھنے کا تھا جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے
عبد الرحمان بھائی! کس روایت کی بات کر رہے ہیں؟
 
Top