محترم بھائ!
مجتہد مصیب ومخطئ ہوتا ہے. اگر مصیب ہے تو اسکو دو اجر ملیں گے اور اسکی بات قابل قبول بھی ہوگی. لیکن اگر مخطئ ہے تو اسکو ایک اجر ملے گا. یہ الگ بات ہے کہ اسکی بات کو ترک کر دیا جاۓ گا.
اصل بات یہ ہے کہ مجتہد مخطی یا مصیب ہوتا ہے. میں واضح الفاظ میں کہوں تو امام ابوحنیفہ رح کا مصیب ہونا ہرگز ضروری نہیں ہے. لیکن اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ یہ مجتہد اس معاملے میں مصیب ہے یا مخطی؟ اس کا فیصلہ کوئی عالم ہی کر سکتا ہے جس کی تمام ادلہ اور ان کی باریکیوں پر نظر ہو. اور علماء میں جہاں وہ علماء موجود ہیں جنہوں نے قراءت خلف الامام کو قبول کیا ہے وہیں وہ بھی ہیں جنہوں نے اس کے مخالف سمجھا ہے.
اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں آراء درست ہیں. اب جس کو جس کی رائے پر اعتماد ہو.
میں اس موضوع پر بحث کر سکتا ہوں, دلائل بھی دے سکتا ہوں اور رد بھی کر سکتا ہوں. لیکن میں ایک عرصہ (تقریبا نو سال) یہ ابحاث کر کے اور پڑھ کے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آراء دونوں درست ہوتی ہیں, فرق دیکھنے کے انداز میں ہوتا ہے. اور یہ فرق لازمی ہے جیسا کہ صحابہ کرام کے بنو قریضہ والے مشہور واقعے میں ہوا تھا.