• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (قراءت)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
احناف کی وہ فقہ یقینا معتبر ہے جو قرآن حدیث کے موافق ہو. بلکہ احناف کیا سب کی وہ بات معتبر ہے جو قرآن وحدیث کے موافق ہو.
اور اس کا تصفیہ آپ جیسے کریں گے جوآپس میں متفق نہیں۔
فقہ وہ معتبر ہے جو قرآن و حدیث کے موافق ہو اور حدیث وہ معتبر ہے جو قرآن کے موافق ہو۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اور اس کا تصفیہ آپ جیسے کریں گے جوآپس میں متفق نہیں۔
یہ لیں پھر طنز. یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آپ ایک متعصب ہیں. بات کرنے کا سلیقہ اب بھی نہیں آیا؟؟؟
ایسی باتوں میں مجھے شریک نہ کریں.
فقہ وہ معتبر ہے جو قرآن و حدیث کے موافق ہو اور حدیث وہ معتبر ہے جو قرآن کے موافق ہو۔
اسکی وضاحت کر دیں.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
ان احادیث کو کیوں بھول جاتے ہو یا جان بوجھ کر چھپاتے ہو؟
سنن أبي داود: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ: حدیث نمبر 700
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا (تحقيق الألباني: صحيح)

سنن النسائي: كِتَاب الِافْتِتَاحِ: إِيجَابُ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي الصَّلَاةِ: حدیث نمبر 902

أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا

السنن الكبرى للبيهقي - (ج 2 / ص 374)
(اخبرنا) أبو محمد عبد الله بن يوسف الاصبهاني انبأ أبو بكر محمد بن الحسين القطان انبأ احمد بن يوسف السلمى ثنا عبد الرزاق انبأ معمر عن الزهري عن محمود بن الربيع عن عبادة بن الصامت رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا صلوة لمن لم يقرأ بام القرآن فصاعدا

مصنف ابن أبي شيبة - (ج 1 / ص 397)
عن عمران بن حصين قال : لا تجوز صلاة لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب وآيتين فصاعدا

عن عباية بن ربعي قال : قال عمر لا تجزئ صلاة لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب وآيتين فصاعدا.

عن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : لا صلاة لمن لم يقرأ في كل ركعة بالحمد لله وسورة في الفريضة وغيرها.

مصنف ابن أبي شيبة - (ج 1 / ص 398)
حدثنا ابن فضيل عن أبي سفيان السعدي عن أبي نضرة عن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : لا صلاة لمن لم يقرأ في كل ركعة بالحمد لله وسورة في الفريضة وغيرها.

المعجم الأوسط للطبراني - (ج 5 / ص 307)
2352 - حدثنا أحمد بن أنس بن مالك الدمشقي قال : نا محمد بن الخليل الخشني قال : نا الحسن بن يحيى الخشني ، عن سعيد بن عبد العزيز ، عن ربيعة بن يزيد ، عن عبادة بن الصامت قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : « لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب ، وآيتين معها » « لم يرو هذا الحديث عن سعيد بن عبد العزيز إلا الحسن بن يحيى الخشني »

مسند الشاميين للطبراني - (ج 1 / ص 423)
320 - حدثنا أحمد بن أنس بن مالك ، ثنا محمد بن الخليل الخشني ، ثنا الحسن بن يحيى الخشني ، ثنا سعيد بن عبد العزيز ، عن ربيعة بن يزيد ، عن عبادة بن الصامت ، قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : « لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب وآيتين من القرآن »
وما علینا الا البلاغ
احادیث کو نظر انداز کرنا آپ جیسے متعصب کا کام ہے.
ان احادیث کو مع ترجمہ ومتن لکھ دیں. پھر اسکے بارے میں بھی ان شاء اللہ بات کر لیں گے.
لیکن آپ سے بہت ہی ادب واحترام کے ساتھ گزارش ہے کہ براہ کرم بات کرنی ہو تو اچھی انداز میں کریں. اگر طنز وغیرہ کرنا ہے تو بتا دیں. میں اس بحث سے الگ ہو جاتا ہوں. ویسے بھی وقت کم رہتا ہے.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم جناب @اشماریہ شاہ صاحب!
میں آپکی بات سے متفق نہیں ہوں. لیکن اس پر بحث کرنے کے لۓ نہ آپ کے پاس وقت ہوگا اور نہ میرے پاس وقت ہے.
خیر. آپ سے بس ایک بات کی وضاحت پوچھنی ہے کہ احناف مطلق سورہ فاتحہ کے ترک کے قائل کیوں ہیں. اور بعض تو لا صلاۃ..... والی حدیث کو
منسوخ قرار دیتے ہیں. اور ناسخ کے طور پر واذا قرئ القرآن... والی آیت پیش کرتے ہیں؟؟؟! هذا محال في القياس بديع

یادش بخیر! مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ سری نمازوں میں فاتحہ کا پڑھنا مستحب ہے. میرے پاس درس ترمذی موجود نہیں ہے لیکن کوئی ساتھی دیکھ کر تصدیق یا تردید کر سکتا ہے.

سوال یہ ہے کہ احناف کا یہ مسلک کیوں تھا کہ قراءت فاتحہ درست نہیں ہے؟ اور ابھی بھی اکثر احناف کا یہ مسلک ہے.
اس کی وجہ کے لیے اگر میں ذرا گہرائی میں جاؤں تو فقہاء میں امام مالک, سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ رح وغیرہ کا زمانہ چونکہ خیر القرون کا زمانہ ہے اس لیے ان کا طرز بعد کے فقہاء سے مختلف ہے. یہ حضرات احادیث کے ظاہری الفاظ کے ساتھ ساتھ اسلاف صحابہ و تابعین کے عمل کو بھی دیکھتے ہیں کہ انہوں نے ان روایات سے کیا سمجھا. ظاہر ہے قائل کی سب سے بہتر مراد سمجھنے والے وہ ہوتے ہیں جو اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں. پھر اس کے بعد ثوری اور ابوحنیفہ, اور امام مالک کے طرز میں مدرسہ اہل حجاز اور اہل عراق کے طرز کا فرق آیا جو معروف ہے. اہل عراق کا معروف طرز یہ تھا کہ وہ قرآن کریم, احادیث مشہورہ اور آثار صحابہ سے ایک قاعدہ کلیہ حاصل کرتے تھے اور اس کی روشنی میں اخبار آحاد کو دیکھتے تھے. یہ طرز ابن مسعود, عمر, ابن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم کے استدلالات میں ملتا ہے. شعبہ وہ پہلے محدث تھے جنہوں نے روات پر کلام شروع کیا, تو کیا شعبہ سے پہلے سب احادیث صحیح ہوتی تھیں؟ ایسا نہیں تھا بلکہ پرکھنے کا انداز مختلف تھا.

اس بنیادی بات کو سمجھنے کے بعد یہاں آتے ہیں کہ قرآن کریم کی قراءت کے وقت خاموش رہنا یہ وہ عمومی حکم ہے جو خود قرآن میں کم از کم دو جگہ آیا ہے. سورہ فاتحہ بھی قرآن کا حصہ ہے.
سوال یہ ہوا کہ کیا نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا عمومی حکم سے مستثنی ہے یا نہیں؟
اس سلسلے میں دو روایات آ گئیں. عبادہ بن صامت رض کی, اور حضرت جابر اور ابو ہریرہ رض اللہ عنہما کی.
(ابو ہریرہ رض عنہ کی روایت تو صحیح ہے جیسا کہ امام مسلم نے فرمایا ہے. جابر رض کی جابر جعفی والی روایت سخت مجروح ہے لیکن ابوحنیفہ رح نے خود بھی روایت کی ہے. اگر ہم وقتی طور پر ابو حنیفہ رح کو حفظ حدیث میں ضعیف بھی مان لیں تب بھی ان کی فقہ کا تو اقرار کیا گیا ہے. انہوں نے اس روایت کو سمجھ کر اس سے مسئلہ اخذ کر لیا. آگے جا کر اگر وہ بھول بھی جاتے ہیں تب بھی اخذ شدہ مسئلہ موجود ہے.)
اب ترجیح کسے دی جائے؟
ظاہر ہے جن روایات کی تائید قرآن کریم کے عمومی حکم سے ہوتی ہے انہیں ترجیح دی گئی. اور مسئلہ اس طرح یہ اخذ ہوا کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا درست نہیں.

پھر اب حدیث عبادہ بن صامت رض کا کیا مطلب ہے؟ عموما محدثین مرجوح حدیث کو بغیر تفصیل کے چھوڑ دیتے ہیں لیکن فقہاء یہ نہیں کرتے. ایک تو حدیث عبادہ میں "فصاعدا" کا لفظ بھی ہے بعض طرق میں جو کہ بالاجماع فعل متروک ہے اس لیے اس میں ابہام پیدا ہو گیا.
دوسری بات حدیث عبادہ بین السطور یہ دلالت کرتی ہے کہ امام کے پیچھے قراءت کرنا صحابہ کرام کا عمومی طرز نہیں تھا ورنہ یہ منازعہ قرآن کا سلسلہ تو روز پیدا ہوتا. لیکن ایسا نہیں ہوا. اور اس روایت کے بعد صحابہ کرام رض نے قراءت شروع کر دی تھی, اس کا بھی ثبوت نہیں ہے. اور نبی کریم ص سے صحابہ نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ ہماری پچھلی نمازوں کا کیا حکم ہے؟ اعادہ کریں یا نہیں؟ حالانکہ صحابہ ان چیزوں کا خیال رکھتے تھے.
یہ سب چیزیں یہ بتاتی ہیں کہ صحابہ کرام رض نے اس حدیث کا حکم کچھ اور سمجھا تھا. اور وہ حکم ہے اقرا بہا فی نفسک یعنی اپنے دل میں پڑھو.
دل میں پڑھنا کسے کہتے ہیں تو یہ معروف ہے. آج بھی اور پہلے بھی معروف تھا. آپ دن میں کتنی چیزیں دل میں کہتے ہیں؟ کیا آپ کے ہونٹ ہلتے ہیں؟ میں اس مضمون کو لکھتے وقت اسے اپنے دل میں مرتب کر رہا ہوں لیکن میرے ہونٹ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ہلے.
تو مطلب یہ ہوا کہ امام کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ بغیر ہونٹ ہلائے اسے پڑھتے جاؤ.
حضرت عبادہ رض نے یہ مطلب نہیں لیا. انہوں نے یہ سمجھا کہ زبان سے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے. اس لیے انہوں نے اسے اختیار کیا.
بعینہ اسی طرح جس طرح بنو قریضہ میں عصر کے واقعے پر صحابہ کرام نے دو الگ الگ معنی سمجھے تھے.

یہ وہ تفصیل ہے جو میری فہم میں آتی ہے. اور کافی عرصہ مغز کھپا کر آئی ہے. شاید اس ترتیب سے آپ کو کتب میں نہ ملے. البتہ الگ الگ ضرور مل جائے گی.
واللہ اعلم
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صحیح مسلم کی حدیث
ہےکہ مقتدی سراً سورہ فاتحہ پڑھ لے :
’’ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَکُونُ وَرَائَ الْإِمَامِ، فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ ‘‘
کہ پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے :جس نے بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی ،اس کی نماز نامکمل ہے ۔یہ تین دفعہ فرمایا ؛
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ ہم جب امام کے پیچھے ہوں (تب یہ سورت پڑھنی چاہیے یا نہیں؟) انھوں نے فرمایا :سورہ فاتحہ کو آہستہ ،پڑھ لے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
«اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ» سے مراد « دل ہی دل » میں نہیں ،بلکہ ’’ سراً ۔۔دون الجہر ‘‘ ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ « كتاب القراءة خلف الإمام » میں فرماتے ہیں :
’’ والمراد بقوله: «اقرأ بها في نفسك» أن يتلفظ بها سرا دون الجهر بها ولا يجوز حمله على ذكرها بقلبه دون التلفظ بها لإجماع أهل اللسان على أن ذلك لا يسمى قراءة »
یعنی «اقرأ بها في نفسك» کا معنی ہے :جہر کے بغیر سراً لفظ پڑھے جائیں ۔۔اور «اقرأ بهافي نفسك»کو ’’ الفاظ زبان سے ادا کئے بغیر قلبی ذکر پر محمول کرنا جائز نہیں ، کیونکہ اہل زبان کا اس پر اجماع ہے کہ الفاظ ادا کئے بغیر قلبی ذکر ‘‘ کو ۔۔قراءة۔۔نہیں کہا جاتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ انور شاہ کاشمیری « العرف الشذی » میں فرماتے ہیں :
« وأما ما قال المدرِّسون: من أن المراد بالقراءة في نفسه التدبر والتفكر فلا يوافقه اللغة فإنه لم يثبت معنى التفكر للقراءة في النفس »
’’ جو لوگ کہتے ہیں کہ :فی نفسہ قراءۃ سے مراد ۔۔تفکر و تدبر ۔۔ہے ،تو انکی یہ بات غلط ہے ، یہ لغت کے موافق نہیں ،لغت میں ’’ قراءۃ فی النفس ‘‘ کیلئے ’’ تفکر ‘‘ کا معنی ثابت نہیں؛
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
ان احادیث کو مع ترجمہ ومتن لکھ دیں. پھر اسکے بارے میں بھی ان شاء اللہ بات کر لیں گے.
پہلے بھی یہ بات لکھی تھی کہ اگر آپ عالم ہیں تو ترجمہ کی ضرورت نہیں اور اگر آپ عربی نہیں سمجھتے تو دوسروں سے لجھنا آپ کو روا نہیں۔
متن سے آپ کی کیا مراد ہے اسے میں سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہا ہوں (ابتسامہ)۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
لیکن آپ سے بہت ہی ادب واحترام کے ساتھ گزارش ہے کہ براہ کرم بات کرنی ہو تو اچھی انداز میں کریں. اگر طنز وغیرہ کرنا ہے تو بتا دیں. میں اس بحث سے الگ ہو جاتا ہوں. ویسے بھی وقت کم رہتا ہے.
آپ بحث میں شامل ہی کب رہے سوائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
صحیح مسلم کی حدیث
ہےکہ مقتدی سراً سورہ فاتحہ پڑھ لے :
’’ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَکُونُ وَرَائَ الْإِمَامِ، فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ ‘‘
کہ پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے :جس نے بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی ،اس کی نماز نامکمل ہے ۔یہ تین دفعہ فرمایا ؛
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ ہم جب امام کے پیچھے ہوں (تب یہ سورت پڑھنی چاہیے یا نہیں؟) انھوں نے فرمایا :سورہ فاتحہ کو آہستہ ،پڑھ لے ‘‘
سب سے پہلے تو اس بات کو پیشِ نظر رکھیں کہ بحث آیتِ مبارکہ؛
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ( سورۃ الاعراف آیت 204)
کے حوالہ سے ہو رہی ہے اور اس آیت میں توجہ سے سننے اور خاموش رہنے کا حکم صاف ظاہر ہے جہری قراءت کے لئے ہے سری کے لئے نہیں۔
دوسرے یہ کہ امام کے پیچھے جہری قراءت کے نہ آپ قائل ہیں نہ ہی کوئی اہلِ سنت مسلک۔
حقیقی جھگڑا یہ ہے کہ امام جب جہری قراءت کر رہا ہو تو اس وقت مقتدی سراً قراءت کرسکتا ہے کہ نہیں۔ قرآنِ پاک کی آیت میں اس کی صریحاً ممانعت موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی کے مطابق حکم فرمایا کہ ”إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا“ (ابن ماجہ وقال البانی صحیح) اور یہ بھی جہری قراءت سے متعلق حکم ہے۔ اس اصولی بات پر اصولی طور پر چاروں مسالک متفق ہیں (امام شافعی کے مسلک میں بھی امام کے سکتات میں پڑھنے کو کہا گیا ہے اور سکتات کا علم جہر میں ہی ہوتا ہے سر میں نہیں)۔
آپ کی پیش کردہ مذکورہ حدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف کیوں کر کسی بات کا حکم دے سکتے ہیں؟ حاشا وکلا انہوں نے جہری نماز میں ایسا کرنے کو نہیں کہا۔ اس حدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان ”فی نفسک“ سے اگر بفرضِ محال ”سرا“ بھی لیا جائے تو یہ سری نماز کے لئے ہے نہ کہ جہری نماز کے لئے۔ واللہ اعلم بالصواب
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
«اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ» سے مراد « دل ہی دل » میں نہیں ،بلکہ ’’ سراً ۔۔دون الجہر ‘‘ ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ « كتاب القراءة خلف الإمام » میں فرماتے ہیں :
’’ والمراد بقوله: «اقرأ بها في نفسك» أن يتلفظ بها سرا دون الجهر بها ولا يجوز حمله على ذكرها بقلبه دون التلفظ بها لإجماع أهل اللسان على أن ذلك لا يسمى قراءة »
یعنی «اقرأ بها في نفسك» کا معنی ہے :جہر کے بغیر سراً لفظ پڑھے جائیں ۔۔اور «اقرأ بهافي نفسك»کو ’’ الفاظ زبان سے ادا کئے بغیر قلبی ذکر پر محمول کرنا جائز نہیں ، کیونکہ اہل زبان کا اس پر اجماع ہے کہ الفاظ ادا کئے بغیر قلبی ذکر ‘‘ کو ۔۔قراءة۔۔نہیں کہا جاتا ۔
محترم بھائی! بیہقی رح کی یہ فقہی رائے ہے جو کہ ظاہر کے بھی خلاف ہے. اور اہل زبان کا جو انہوں نے اجماع نقل کیا ہے وہ کہاں ہے؟

اور علامہ انور شاہ کاشمیری « العرف الشذی » میں فرماتے ہیں :
« وأما ما قال المدرِّسون: من أن المراد بالقراءة في نفسه التدبر والتفكر فلا يوافقه اللغة فإنه لم يثبت معنى التفكر للقراءة في النفس »
’’ جو لوگ کہتے ہیں کہ :فی نفسہ قراءۃ سے مراد ۔۔تفکر و تدبر ۔۔ہے ،تو انکی یہ بات غلط ہے ، یہ لغت کے موافق نہیں ،لغت میں ’’ قراءۃ فی النفس ‘‘ کیلئے ’’ تفکر ‘‘ کا معنی ثابت نہیں؛
انور شاہ کشمیری رح نے تفکر و تدبر کی نفی کی ہے. یعنی معانی و مفاہیم میں غور کرنے کی. میں نے بھی اس کا نہیں کہا. بلکہ دل میں پڑھنے کا کہا ہے.

بہرحال آراء کے اختلاف کی بنیاد پر ہی فقہی مذاہب بنتے ہیں. اس لیے میں اپنی بات پر اصرار نہیں کرتا.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
آپ کی پیش کردہ مذکورہ حدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف کیوں کر کسی بات کا حکم دے سکتے ہیں؟ حاشا وکلا انہوں نے جہری نماز میں ایسا کرنے کو نہیں کہا۔ اس حدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان ”فی نفسک“ سے اگر بفرضِ محال ”سرا“ بھی لیا جائے تو یہ سری نماز کے لئے ہے نہ کہ جہری نماز کے لئے۔ واللہ اعلم بالصواب
آپ کو تقلید کی سرمستی میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فرمان قرآن حدیث کے خلاف نظر آرہا ہے
سالہا سال امام الانبیاء ﷺ کا مقتدی صحابی قرآن و حدیث کو نہ سمجھ سکا ، اور آپ کو سمجھ آگئی ؟
اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ امام کی جہری ، سری کی قید لگائے بغیر مقتدی کو سراً فاتحہ پڑھنے کا فتوی دے رہے ہیں
جبکہ آپ ان کے فتوی کی بلا دلیل سری نمازوں سے تخصیص کر رہے ہیں ،
ویسے آپ کو پہلے بھی گذآرش کی تھی کہ
" مردوں کو بخشوانے کیلئے اور برادری کو کھلانے کیلئے جب باجماعت بیک وقت سب حاضرین مجلس قرآن خوانی کر رہے ہوتے ہیں ، تو یہ آیت کریمہ ان سب کی مقلدانہ نظر سے اوجھل ہوتی ہے ، سب جہراً پڑھ رہے ہوتے ہیں ؛
اور جیسے ہی نماز میں امام کے پیچھے پہنچتے ہیں سب ہی فقیہ و مفسر بن جاتے ہیں اور اس آیت مبارکہ کو مقتدی پر چسپاں کرنے لگتے ہیں ،
حالانکہ اس آیت میں استماع کا حکم تو عام ہے " اذا قُرِئَ الْقُرْآَنُ " کہ جب بھی قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو "
جبکہ ہمارے ہاں مقلدین کہتے ہیں "اذا قرأ الامام في الصلاة فاستمعوا "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top