آپ کی پیش کردہ مذکورہ حدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف کیوں کر کسی بات کا حکم دے سکتے ہیں؟ حاشا وکلا انہوں نے جہری نماز میں ایسا کرنے کو نہیں کہا۔ اس حدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان ”فی نفسک“ سے اگر بفرضِ محال ”سرا“ بھی لیا جائے تو یہ سری نماز کے لئے ہے نہ کہ جہری نماز کے لئے۔ واللہ اعلم بالصواب
آپ کو تقلید کی سرمستی میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فرمان قرآن حدیث کے خلاف نظر آرہا ہے
سالہا سال امام الانبیاء ﷺ کا مقتدی صحابی قرآن و حدیث کو نہ سمجھ سکا ، اور آپ کو سمجھ آگئی ؟
اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ امام کی جہری ، سری کی قید لگائے بغیر مقتدی کو سراً فاتحہ پڑھنے کا فتوی دے رہے ہیں
جبکہ آپ ان کے فتوی کی بلا دلیل سری نمازوں سے تخصیص کر رہے ہیں ،
ویسے آپ کو پہلے بھی گذآرش کی تھی کہ
" مردوں کو بخشوانے کیلئے اور برادری کو کھلانے کیلئے جب باجماعت بیک وقت سب حاضرین مجلس قرآن خوانی کر رہے ہوتے ہیں ، تو یہ آیت کریمہ ان سب کی مقلدانہ نظر سے اوجھل ہوتی ہے ، سب جہراً پڑھ رہے ہوتے ہیں ؛
اور جیسے ہی نماز میں امام کے پیچھے پہنچتے ہیں سب ہی فقیہ و مفسر بن جاتے ہیں اور اس آیت مبارکہ کو مقتدی پر چسپاں کرنے لگتے ہیں ،
حالانکہ اس آیت میں استماع کا حکم تو عام ہے "
اذا قُرِئَ الْقُرْآَنُ " کہ جب بھی قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو "
جبکہ ہمارے ہاں مقلدین کہتے ہیں
"اذا قرأ الامام في الصلاة فاستمعوا "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔