" مردوں کو بخشوانے کیلئے اور برادری کو کھلانے کیلئے جب باجماعت بیک وقت سب حاضرین مجلس قرآن خوانی کر رہے ہوتے ہیں ، تو یہ آیت کریمہ ان سب کی مقلدانہ نظر سے اوجھل ہوتی ہے ، سب جہراً پڑھ رہے ہوتے ہیں ؛
اور جیسے ہی نماز میں امام کے پیچھے پہنچتے ہیں سب ہی فقیہ و مفسر بن جاتے ہیں اور اس آیت مبارکہ کو مقتدی پر چسپاں کرنے لگتے ہیں ،
حالانکہ اس آیت میں استماع کا حکم تو عام ہے " اذا قُرِئَ الْقُرْآَنُ " کہ جب بھی قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو "
جبکہ ہمارے ہاں مقلدین کہتے ہیں "اذا قرأ الامام في الصلاة فاستمعوا "
سب سے پہلی بات یہ کہ یہ طعنہ اس کو دیں جو اس کا فاعل ہے۔
دوسری بات یہ کہ فرمانِ باری تعالیٰ ”وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ“ کا محل وہ قراءت ہے جسے بلند آواز سے کرنے پر کوئی مأمور ہو۔ نماز میں صرف امام جہری قراءت پر مأمور ہوتا ہے۔ اور سننے کا حکم بھی اسے ہے جو سننے پر مأمور ہو۔ اور مقتدی سننے پر مأمور ہے۔ علاوہ ازیں کوئی نہ تو من جانب اللہ تعالیٰ اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے بلند آواز سے قراءت کرنے پر مأمور ہے۔ لوگ اگر کسی قاری کوقراءت کے لئے کہتے ہیں تو ان پر اس کا سننا بھی واجب ہے کیوں کہ قاری لوگوں کی خواہش پر بلند آواز سے قراءت پر راضی ہؤا ہے اور لوگ اسی مقصد کے لئے جمع ہوئے۔
باقی رہی حفاظ کرام کی حفظ کلاس میں بلند آواز سے پڑھنا تو یہ صرف یاد کرنے کی غرض سے ہے اس پر وہ مأمور نہیں اور نہ ہی کوئی سننے پر مأ مور ہے۔ اس کو یوں سمجھئے کہ جہری نمازوں میں امام کی قراءت سننا مقتدی پر تو لازم ہے مسجد کے ہمسایہ والوں پر نہیں۔ وگرنہ تو اس دوران گھر میں خواتین نہ کوئی کام کاج کرسکیں اور نہ ہی اس دوران نماز پڑھ سکیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور اس کے مطابق عمل کی ہمت۔ وما علینا الا البلاغ