• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (قراءت)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
عجیب بات ہے.
ہم پیار کی بھاشا بولتے ہیں اور یہ جناب طنز.
ہم بات ختم کرنا چاہتے ہیں اور یہ جناب بات پر بات نکالنا چاہتے ہیں.
غیر ضروری باتوں کو کرتے رہنا انکا شیوہ بن چکا ہے. قرآن وحدیث کی جو شخص من مانی تاویلات کرتا ہو اس سے یہ سب بعید نہیں.

محترم شیخ @خضر حیات صاحب حفظہ اللہ.
کیا یہ تھریڈ صرف ذاتیات پر حملے کے لۓ ہے؟؟؟؟
کب تک یہ جناب ایسے کارنامے انجام دیتے رہیں گے.
آزادئ تحریر کا یہ مطلب تو نہیں. آپ ذرا انکے مراسلوں پر نگاہ ڈال لیں. اگر آپکی نظر میں نہ ہوں تو ہم انکے طنز وغیرہ والے اقتباسات جمع کر دیں؟؟؟؟ وقت تو لگے گا. لیکن ہم تیار ہیں. ذرا اس پر بھی غور کیجۓ گا.
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنِّي الْأَذَى وَعَافَانِي
یہ صرف ایک مثال ہے ہم ایسی کئ مثالیں پیش کر سکتے ہیں.
حالانکہ ہم نے اس سے پہلے ان سے عرض کر دی تھی:
یہ لیں پھر طنز. یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آپ ایک متعصب ہیں. بات کرنے کا سلیقہ اب بھی نہیں آیا؟؟؟
ایسی باتوں میں مجھے شریک نہ کریں
لیکن آپ سے بہت ہی ادب واحترام کے ساتھ گزارش ہے کہ براہ کرم بات کرنی ہو تو اچھی انداز میں کریں. اگر طنز وغیرہ کرنا ہے تو بتا دیں. میں اس بحث سے الگ ہو جاتا ہوں. ویسے بھی وقت کم رہتا ہے.
ستم بالاۓ ستم تو یہ کہ ان صاحب سے جب کسی چیز کی وضاحت پوچھی جاتی ہے تو یہ جناب چپی سادھ لیتے ہیں.
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
کیا یہ تھریڈ صرف ذاتیات پر حملے کے لۓ ہے؟؟؟؟
ذاتیات پر کیچڑ اچھالنے اور فضولیات کے لئے مخصوص لوگ؟؟؟
اپنی ہر بات ”بھاشا“ اور دوسرے کی ہر بات ”طنز“؟؟؟
چیخ چنگاڑوالے ”ارباب من دون اللہ“ کی خاطر؟؟؟
دینی مدارس میں نہ ادب سیکھیں نہ دین؟؟؟
سیکھیں تو اختلافات کی تفصیلات کو کہ رنگ میں بھنگ کیسے ڈالنی ہے؟؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
فرمانِ باری تعالیٰ ”وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ“ کا محل وہ قراءت ہے جسے بلند آواز سے کرنے پر کوئی مأمور ہو۔
قرآن مجید کی اس آیت کا حکم تو عام ہے ، کہ " جب بھی قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو "
میرے خیال ہے آپ " جب بھی " کا مطلب تو سمجھتے ہونگے ؟
مگر آپ بلا دلیل اس کو نماز کی جہری قراءت سے خاص کرنے پر کمر بستہ ہیں ،
محل وہ قراءت ہے
اب یہ " وہ قراءت " کی تخصیص کہاں سے آگئی ؟
قرآن کے عموم کی تخصیص کیلئے کیا قاعدہ ہے جناب کے ہاں ۔۔ یہ بھی واضح کیجئے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم شیخ @خضر حیات صاحب حفظہ اللہ.
کیا یہ تھریڈ صرف ذاتیات پر حملے کے لۓ ہے؟؟؟؟
کب تک یہ جناب ایسے کارنامے انجام دیتے رہیں گے.
آزادئ تحریر کا یہ مطلب تو نہیں. آپ ذرا انکے مراسلوں پر نگاہ ڈال لیں. اگر آپکی نظر میں نہ ہوں تو ہم انکے طنز وغیرہ والے اقتباسات جمع کر دیں؟؟؟؟ وقت تو لگے گا. لیکن ہم تیار ہیں. ذرا اس پر بھی غور کیجۓ گا.
ایک آسان سا حل ہے ، ان کے شروع کردہ کسی بھی تھریڈ میں آپ پوسٹ نہ کریں ۔ اس طریقہ کار کو ذرا آزما کر دیکھیں ، افاقہ ہوگا ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جلیل القدر صحابی ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی میں بالکل صحیح سمجھتے تھے اور ان کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا۔ ہاں البتہ کچھ ناسمجھ خواہ مخواہ ان کو قرآن و حدیث کا مخالف بنانا چاہتے ہیں۔ فوا اسفا
شکر ہے آپ سیدنا الامام ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو قرآن و حدیث سمجھنے والا مانتے ہیں ،
ورنہ احناف کے ہاں تو یہ اصولی بات ہے کہ :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ فقیہ نہیں"
مشہور اصولی عالم ملا احمد المعروف ملا جیون حنفی فرماتے ہیں :
"و إن عرف بالعدالة و الضبط دون الفقه كأنس وابى هريرة إن وافق حديثه القياس عمل به و غن خالفه لم يترك إلا بالضرورة لا نسد باب الرائى من كل وجه" (نور الانوار جلد اول صفحہ 509 طبع البشری )
کہ اگر یہ روای عدالت اور ضبط کے ساتھ تو معروف ہو، لیکن فقیہ نہ ہو جیسا کہ انس و ابو ہریرہ رضی اللہ عنھا ہیں تو اگر ان کی حدیث قیاس کے موافق ہو گی تو اِ س پر عمل کیا جائے گا اور اگر قیاس کے خلاف ہو گی تو ضرورت کے تحت چھوڑ دیا جائے گا وگرنہ ہر لحاظ سے رائے کا دروازہ بند ہو جائے گا۔
احناف کا یہ قانون : نور الا نوار ۱۷۹، اصول شاشی ۷۵، الحسامی مع شرح النظامی ۷۵، اصول بزودی ۱۵۹‘التوضیح و التویح ۴۷۳‘ اصول سرخی ۱ /۳۴ اور مراۃ الاصوال و غیرہ میں موجود ہے۔

مولوی خلیل احمد سہارنپوری جنہوں نے صحیح بخاری کے حاشی مرتب کئے انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ ہمارے حنفی علماء کا ہی یہ قاعدہ وکلیہ ہے چنانچہ بخاری شریف کے حاشیہ ۱/ ۲۸۸ پر لکھتے ہیں :
" والأصل عندنا أن الرواى إن كان معروفا بالعدالة والحفظ و الضبط دون الفقه والإجتهاد مثل أبى هريرة و أنس بن مالك فإن وافق حديثه القياس عمل به و إلا لم يترك إلا لضرورة وانسد باب الراى تمامه فى أصول الفقه"
ہمارے نزدیک قاعد ہ یہی ہے کہ اگر راوی عدالت حفظ اور ضبط میں تو مصروف ہو لیکن قفاہت و اجہتاد کی دولت سے محروم ہو جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں تو اگر ان کی حدیث قیاس کے مطابق ہو گی تو عمل کیاجائیگااور اگر قیاس کے خلاف ہو گی تو بوقت ضرورت چھوڑ دیا جائیگا تاکہ رائے و قیاس کا دروازہ بند نہ ہو اور اس کی مکمل بحث اصول فقہ کی کتب میں موجود ہے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلے سوچا تھا کہ نہ لکھوں. اسی لۓ صرف غیر متفق کا بٹن دبا دیا تھا. لیکن اپنی طبیعت کی وجہ سے صبر نہ کر سکا. میری عادت ہیکہ میں اپنی بات کا اظہار جلد ہی کر دیتا ہوں الا یہ کہ کوئ مصلحت وغیرہ ہو. اس لۓ میں عرض کرنے کے لۓ پھر سے حاضر ہوا ہوں. برا لگے تو معاف فرمائیۓ گا.
ایک آسان سا حل ہے ، ان کے شروع کردہ کسی بھی تھریڈ میں آپ پوسٹ نہ کریں ۔ اس طریقہ کار کو ذرا آزما کر دیکھیں ، افاقہ ہوگا ۔
مجھے یاد آرہا ہیکہ فورم پر کئ جگہ میں نے یہ بات مذکور دیکھی تھی کہ اگر آپکو کسی سے تکلیف ہے یعنی اگر کوئ آپ پر طنز وغیرہ کر رہا ہے اور قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو آپ اسکی شکایت درج کرا سکتے ہیں. اسی لۓ میں نے شکایت درج کرائ. لیکن آپ نے جو مشورہ مجھے دیا اس سے مجھے سخت تکلیف ہوئ. ہونا تو یہ چاہیۓ تھا کہ آپ انکو یا (اگر میری غلطی تھی تو) مجھ کو متنبہ کرتے لیکن آپ نے تو مجھے بھٹی صاحب کے شروع کردہ تھریڈز سے ہی دور رہنے کی نصیحت فرما دی. بھٹی صاحب کو کچھ نہ کہا. اور ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا کہ یہاں آزادئ راۓ کے نام پر کوئ کچھ بھی لکھ سکتا ہے. کسی پر بھی طنز کر سکتا ہے.
کوئ بات نہیں شیخ محترم! ان شاء اللہ آپکی نصیحت پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش کروں گا. اور بھٹی صاحب کے تھریڈز سے دور رہوں گا. بلکہ بھٹی صاحب کیا میں ہر تھریڈز سے دور رہنے کی کوشش کروں گا. کیونکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید میرے اندر کوئ خرابی ہے. اللہ آپکو خوش رکھے.
بے ادبی وغیرہ کے لۓ معذرت چاہتا ہوں. اگر کوئ بات بری لگی ہو تو معاف کیجۓ گا. کیونکہ قیامت کے دن مجھ سے حساب نہ دیا جاۓ گا.

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
قرآن مجید کی اس آیت کا حکم تو عام ہے ، کہ " جب بھی قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو "
میرے خیال ہے آپ " جب بھی " کا مطلب تو سمجھتے ہونگے ؟
مگر آپ بلا دلیل اس کو نماز کی جہری قراءت سے خاص کرنے پر کمر بستہ ہیں ،
آپ کی بات اس وقت بالکل بجا ہوتی جب اس کی تخصیص میں احادیث و آثارنہ ہوتے۔ جب احادیث و آثار نے اسے قرأتِ مأمور پرمحمول کر دیا تو ”جب بھی“ عام نہ رہا۔
تفسير الطبري - (ج 13 / ص 346)
حدثنا حميد بن مسعدة قال: حدثنا بشر بن المفضل قال: حدثنا الجريري، عن طلحة بن عبيد الله بن كريز قال: رأيت عبيد بن عمير وعطاء بن أبي رباح يتحدثان والقاصّ يقص، فقلت: ألا تستمعان إلى الذكر وتستوجبان۔ْ الموعود؟ قال: فنظرا إلي، ثم أقبلا على حديثهما. قال: فأعدت، فنظرا إلي، ثم أقبلا على حديثهما. قال: فأعدت الثالثة قال: فنظرا إلي فقالا إنما ذلك في الصلاة:(وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا).

تفسير الطبري - (ج 13 / ص 347)
حدثنا ابن بشار قال: حدثنا عبد الرحمن قال: حدثنا سفيان، عن أبي هاشم إسماعيل بن كثير، عن مجاهد في قوله:(وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا) قال: في الصلاة.

حدثنا ابن المثنى قال: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن رجل، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب:(وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا) قال: في الصلاة.

تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 536)
ولكن يتأكد ذلك في الصلاة المكتوبة إذا جهر الإمام بالقراءة كما ورد الحديث الذي رواه مسلم في صحيحه، من حديث أبي موسى الأشعري، رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا قرأ فأنصتوا"
سنن النسائي - (ج 3 / ص 486)
913 - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا
قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ كَانَ الْمُخَرِّمِيُّ يَقُولُ هُوَ ثِقَةٌ يَعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيَّ

سنن ابن ماجه - (ج 3 / ص 83)
838 - حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي غَلَّابٍ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ ذِكْرِ أَحَدِكُمْ التَّشَهُّدُ
اب آپ پر لازم ہے کہ اس کو عام ثابت کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ایک فرمان جس میں یہ تصریح ہو کہ نماز کے علاوہ اگر کوئی بھی بلند آواز سے تلاوت کر رہا ہو تو دوسروں کو اس کا سننا لازم ہو۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اب یہ " وہ قراءت " کی تخصیص کہاں سے آگئی ؟
قرآن کے عموم کی تخصیص کیلئے کیا قاعدہ ہے جناب کے ہاں ۔۔ یہ بھی واضح کیجئے !
قرآن کی تفسیر کا حق اللہ تعالیٰ نے صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا۔ جو تفسیر فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ہوگی وہی معتبر کہلائے گی۔ اس مذکورہ آیت کی تفسیر جنہوں نے قیاس سے کرنے کی کوشش کی ہے یہ ان ہی کی جرأت ہے۔ کہتے ہیں یہ آیت ”مکی“ ہے اور اس میں کفار کو تنبیہ ہے کہ وہ اس کو غور سے سنیں۔ گویا مسلمانوں کو غور سے سننے کی ضرورت نہیں۔
قرآن کے مفسر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہیں یا پھر وہ جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حق دیا یا پھر وہ جو مزاج شناسِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ ”إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا“۔ واللہ اعلم بالصواب
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
شکر ہے آپ سیدنا الامام ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو قرآن و حدیث سمجھنے والا مانتے ہیں ،
ورنہ احناف کے ہاں تو یہ اصولی بات ہے کہ :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ فقیہ نہیں"
مشہور اصولی عالم ملا احمد المعروف ملا جیون حنفی فرماتے ہیں :
"و إن عرف بالعدالة و الضبط دون الفقه كأنس وابى هريرة إن وافق حديثه القياس عمل به و غن خالفه لم يترك إلا بالضرورة لا نسد باب الرائى من كل وجه" (نور الانوار جلد اول صفحہ 509 طبع البشری )
کہ اگر یہ روای عدالت اور ضبط کے ساتھ تو معروف ہو، لیکن فقیہ نہ ہو جیسا کہ انس و ابو ہریرہ رضی اللہ عنھا ہیں تو اگر ان کی حدیث قیاس کے موافق ہو گی تو اِ س پر عمل کیا جائے گا اور اگر قیاس کے خلاف ہو گی تو ضرورت کے تحت چھوڑ دیا جائے گا وگرنہ ہر لحاظ سے رائے کا دروازہ بند ہو جائے گا۔
احناف کا یہ قانون : نور الا نوار ۱۷۹، اصول شاشی ۷۵، الحسامی مع شرح النظامی ۷۵، اصول بزودی ۱۵۹‘التوضیح و التویح ۴۷۳‘ اصول سرخی ۱ /۳۴ اور مراۃ الاصوال و غیرہ میں موجود ہے۔

مولوی خلیل احمد سہارنپوری جنہوں نے صحیح بخاری کے حاشی مرتب کئے انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ ہمارے حنفی علماء کا ہی یہ قاعدہ وکلیہ ہے چنانچہ بخاری شریف کے حاشیہ ۱/ ۲۸۸ پر لکھتے ہیں :
" والأصل عندنا أن الرواى إن كان معروفا بالعدالة والحفظ و الضبط دون الفقه والإجتهاد مثل أبى هريرة و أنس بن مالك فإن وافق حديثه القياس عمل به و إلا لم يترك إلا لضرورة وانسد باب الراى تمامه فى أصول الفقه"
ہمارے نزدیک قاعد ہ یہی ہے کہ اگر راوی عدالت حفظ اور ضبط میں تو مصروف ہو لیکن قفاہت و اجہتاد کی دولت سے محروم ہو جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں تو اگر ان کی حدیث قیاس کے مطابق ہو گی تو عمل کیاجائیگااور اگر قیاس کے خلاف ہو گی تو بوقت ضرورت چھوڑ دیا جائیگا تاکہ رائے و قیاس کا دروازہ بند نہ ہو اور اس کی مکمل بحث اصول فقہ کی کتب میں موجود ہے۔
میں یہاں کسی مکتبۂ فکر کی نمائندگی نہیں کر رہا اور نہ یہ میرے شایاں ہے۔ میں تو آپ لوگوں کی تعلیوں سے متنبہ کرنے والا ہوں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top