• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (مقتدی کی قراءت)

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
امام کے ساتھ رکوع کا ملنا

اوپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور صحابہ کرام کے ارشادات سے ثابت ہؤا کہ امام کی قراءت مقتدی کو کفایت کرتی ہے۔ اب آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور حکم سے ثابت کرتے ہیں کہ امام کی قراءت مقتدی کو کفایت کرتی ہے۔
صحيح البخاري کتاب مواقیت الصلاۃ بَاب مَنْ أَدْرَكَ مِنْ الصَّلَاةِ رَكْعَةً
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ الصَّلَاةِ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ
رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے (امام کے ساتھ) رکوع پا لیا تحقیق اس نے نماز (کی رکعت) پالی۔
صحيح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ بَاب مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ الصَّلَاةِ فَقَدْ أَدْرَكَ تِلْكَ الصَّلَاةَ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ الصَّلَاةِ مَعَ الْإِمَامِ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ
رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے امام کے ساتھ نماز میں رکوع پا لیا تحقیق اس نے نماز (کی رکعت) پا لی ۔
سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فِي الرَّجُلِ يُدْرِكُ الْإِمَامَ سَاجِدًا كَيْفَ يَصْنَعُ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلَا تَعُدُّوهَا شَيْئًا وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ
رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم نماز کے لئے (مسجد میں) آؤ ہم سجدہ میں ہوں تو (ہمارے ساتھ) سجدہ کرو اور اس کو کسی شمار میں نہ لاؤ ۔ اور جس نے (امام کے ساتھ) رکوع پا لیا تحقیق اس نے نماز (کی رکعت) پالی۔
السنن الكبرى للبيهقي: باب ادراك الامام في الركوع:
عن ابى هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من ادرك ركعة من الصلوة فقد ادركها قبل ان يقيم الامام صلبه
رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے امام کے رکوع سے اٹھنے سے پہلے (امام کے ساتھ) رکوع پا لیا تحقیق اس نےاسے (یعنی رکعت کو) پا لیا ۔
السنن الكبرى للبيهقي: باب ادراك الامام في الركوع:
عن عبدالله يعنى ابن مسعود قال من لم يدرك الامام راكعا لم يدرك تلك الركعة
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے امام کو رکوع میں نہیں پایا تحقیق اس نے وہ رکعت نہیں پائی ۔
السنن الكبرى للبيهقي: باب ادراك الامام في الركوع:
عن عبد الله قال من لم يدرك الركعة فلا يعتد بالسجود
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے رکوع نہیں پایا وہ سجدوں (کی ادائیگی سےاس رکعت کو) نہ گنے ۔
السنن الكبرى للبيهقي: باب ادراك الامام في الركوع:
عن ابن عمر انه كان يقول من ادرك الامام راكعا فركع قبل ان يرفع الامام رأسه فقد ادرك تلك الركعة
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے جس نے امام کو رکوع میں پایا اس کے سر اٹھانے سے پہلے رکوع میں مل گیا تحقیق اس نے وہ رکعت پالی ۔
السنن الكبرى للبيهقي: باب ادراك الامام في الركوع:
عبد الله بن عمر كان يقول إذا فاتتك الركعة فقد فاتتك السجدة
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے جس کا (امام کے ساتھ) رکوع فوت ہوگیا تحقیق اس کا سجدہ شمار نہ ہوگا ۔
السنن الكبرى للبيهقي: باب ادراك الامام في الركوع:
عبد الله ابن عمر وزيد بن ثابت كانا يقولان من ادرك الركعة قبل ان يرفع الامام رأسه فقد ادرك السجدة
عبد اللہ ابن عمر اور زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا جس نے امام کے ساتھ رکوع اس کے سر اٹھانے سے پہلے پا لیا تحقیق اس کا سجدہ شمار ہوگیا ۔
ظاہر ہے کہ جو رکوع میں آکر ملا اس نے نہ خود قراءت کی اور نہ ہی امام کی قراءت سنی مگر اس کی وہ رکعت شمار ہوگئی اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے امام کی قراءت مقتدی کو کفایت کرتی ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
ایک تھریڈ مقفل ھوگیا تو اب یہاں براجمان ھوگۓ؟؟؟
”سید“ کے شایانِ شان نہیں کہ وہ ”لغویات“ میں مبتلا ہو۔
یہ تھریڈ میرا شروع کردہ ہے ”یہاں براجمان“ ہونا ”لغو“ بات ہے۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
ابتسامہ

انکا کام ہی یہی ہے سوال کا جواب مانگو تو بغلیں جھانکتے ہیں
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
اسکا تو جواب دے دو کہاں گئے ؟

عقل تو ویسے بیچ کھا گئے اب کیا آنکھیں بھی گئی ؟



Screenshot_2016-09-04-15-29-26.png
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
ً
فَانْتَهَى النَّاسُ عَنْ الْقِرَاءَةِ

کا فقرہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا نہیں بلکہ ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے جیسا کہ ان روایات سے ظاہر ہے۔

موطأ مالك - (ج 1 / ص 260)
179 - و حَدَّثَنِي يَحْيَى عَنْ مَالِك عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ ابْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ هَلْ قَرَأَ مَعِي مِنْكُمْ أَحَدٌ آنِفًا فَقَالَ رَجُلٌ نَعَمْ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي أَقُولُ مَا لِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ فَانْتَهَى النَّاسُ عَنْ الْقِرَاءَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِرَاءَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رواہ ایضاً؛
سنن أبي داود - (ج 2 / ص 487) حدیث 703
سنن الترمذي - (ج 2 / ص 25) حدیث 287
مسند أحمد - (ج 15 / ص 13) حدیث
6972
صحيح ابن حبان - (ج 8 / ص 191) حدیث 1881
تحقيق الألباني: صحيح

فَانْتَهَى النَّاسُ عَنْ الْقِرَاءَةِ

کا فقرہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا نہیں بلکہ ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے جیسا کہ ان روایات سے ظاہر ہے۔


جی ذرا یہ اپنا دعوی ثابت کریں شاباش!
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
قارئینِ کرام

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب قراءتِ قرآن کی جائے تو اس کی طرف کان لگا کر اسے سنو اور خاموش رہو (سورۃ الاعراف آیت 204
صحابہ کرام نے نے وضاحت فرمادی کہ یہ حکم نماز میں کی جانے والی قراءت کے متعلق ہے (دیکھئے کتب تفاسیر)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو (صحیح مسلم)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو (
ابن ماجہ وقال البانی الصحیح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب ’’
وَلَا الضَّالِّينَ‘‘ کہے تو آمین کہو (مسندِ احمد حديث صحيح
رفع الاشتباہ
بعض لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ ‘‘ سے دھوکہ ہوتا ہے کہ شائد مقتدی کو خود قراءت کرنی ہوگی وگرنہ اس کی نماز نہ ہوگی۔
کیا امام کی قراءت مقتدی کو کفایت کرتی ہے؟
جی ہاں امام کی قراءت مقتدی کو کفایت کرتی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے ثابت ہے کہ امام کی قراءت مقتدی کو کفایت کرتی ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہیئے وگرنہ فرمانِ باری تعالیٰ (جب قرآن پڑھا جائے تو خاموش رہو) اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم (جب امام قراءت کرے تو کاموش رہو) لا یعنی ہو کر رہ جائیں۔ حاشا و کلا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم لا یعنی باتوں کا حکم دیں۔ ایسی سوچ سے بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ صَلَّى خَلْفَ الإِمَامِ فَإِنَّ قِرَاءَةَ الإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ» (موطأ مالك)
قَالَ مُحَمَّدٌ , حَدَّثَنَا الشَّيْخُ أَبُو عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ التِّرْمِذِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَلِيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى خَلْفَ الإِمَامِ، فَإِنَّ قِرَاءَةَ الإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ» (موطأ مالك)
عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا قَرَأَ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الظُّهْرِ أَوِ الْعَصْرِ، قَالَ: قَالَ: فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَنَهَاهُ فَأَبَى، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: أَتَنْهَانِي أَنْ أَقْرَأَ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَتَذَاكَرْنَا ذَلِكَ حَتَّى سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى خَلْفَ إِمَامٍ، فَإِنَّ قِرَاءَةَ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ» (الآثار لأبي يوسف)
مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجُلٌ خَلْفَهُ يَقْرَأُ، فَجَعَلَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَاهُ عَنِ الْقِرَاءَةِ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ: أَتْنَهَانِي عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَنَازَعَا حَتَّى ذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى خَلْفَ إِمَامٍ فَإِنَّ قِرَاءَةَ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ» قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهِ نَأْخُذُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ (الآثار لمحمد بن الحسن)
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: «مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ القُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الإِمَامِ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»،(سنن الترمذي)
و حَدَّثَنِي عَنْ مَالِك عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ

يَقُولُ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا وَرَاءَ الْإِمَامِ (موطأ مالك)
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «كَلُّ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ» (مصنف ابن أبي شيبة)
آثار
زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ’’لَا قِرَاءَةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَيْءٍ‘‘ (صحیح مسلم)
مفسرِ قرآن عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ’’
وسيكفيك ذاك الامام‘‘ (سنن الکبریٰ للبیہقی)
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
فرماتے ہیں ’’ يكفيك ذاك الامام ‘‘ (ابن ابی شیبہ)
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
فرماتے ہیں ’’ فَحَسْبُهُ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ ‘‘ (مؤطا امام مالک)، ’’وسيكفيك ذلك الامام ‘‘ (مصنف عبد الرزاق)


ضعیف روایات


پہلے سب کا جواب دیا ہے الحمدللہ
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
50
پوائنٹ
52
سید“ کے شایانِ شان نہیں کہ وہ ”لغویات“ میں مبتلا ہو۔
چلو از کم بالآخر یہ قبول تو کیا کہ آپ لغویات میں پڑے رھتے ھیں.
یہ تھریڈ میرا شروع کردہ ہے ”یہاں براجمان“ ہونا ”لغو“ بات ہے
جہاں آپ جیسے لوگ موجود ھوں گے ھم ضرور حاضر ھوں گے. کیونکہ کچھ جاھل جپاٹ لوگ قرآن وحدیث کی دھجیاں اڑانے کو اپنا پیشہ سمجھتے ھیں. ایسا لگتا جیسے انکا یہ خاندانی پیشہ ھے.
ھم نے آپ سے صلاۃ وتر والے تھریڈ میں ایک نہیں کئ بار جواب مانگا لیکن آپ نے جواب نہیں دیا. بس اپنی رٹ لگائی رھی. یہاں بھی آپ ایسا ھی کریں گے؟؟؟؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
ضعیف روایات

پہلے سب کا جواب دیا ہے الحمدللہ
قارئینِ کرام
موصوف نے میرے جس مراسلہ کا اقتباس لیا ہے اس میں مندرج اصل دلائل یہ ہیں جن کو ”ضعیف“ باور کرانے کی مذموم کوشش کی ہے؛
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب قراءتِ قرآن کی جائے تو اس کی طرف کان لگا کر اسے سنو اور خاموش رہو (سورۃ الاعراف آیت 204
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو (صحیح مسلم)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو (ابن ماجہ حدیث صحیح

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب ’’وَلَا الضَّالِّينَ‘‘ کہے تو آمین کہو (مسندِ احمد حديث صحيح
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
چلو از کم بالآخر یہ قبول تو کیا کہ آپ لغویات میں پڑے رھتے ھیں.
”سید“ صاحب آپ ”لغویات“ سے ترقی کرکے ”تہمت“ پر آگئے۔
جس خاندان سے آپ اپنی نسبت بتا رہے ہیں ان کا شیوہ اپنائیں۔ وہ بد اخلاق نہ تھے اور نہ ہی تہمت لگانے والے تھے۔ وہ تو انتہائی خوش اخلاق اور لغویات سے مبرا تھے۔ طعن و تشنیع کرنے والے نہ تھے۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرنے والے تھے اورسارے امتی اصل سادات سے چھوٹے ہی ہیں الا ماشاء اللہ۔
 
Top