وقال عبد الله بن المبارك، عن يونس عن الزهري قال: لا يقرأ من وراء الإمام فيما يجهر به الإمام، تكفيهم قراءة الإمام وإن لم يسمعهم صوته، ولكنهم يقرءون فيما لا يجهر به سرًا في أنفسهم، ولا يصلح لأحد خلفه أن يقرأ معه فيما يجهر به سرًا ولا علانية، فإن الله تعالى قال: { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ }
مقطوع روایات نہ لگائے اور اسکا جواب پہلے بھی دیا ہے بار بار ذحمت نہ کریں
والمراد بقوله " اقرأ بها في نفسك " أن يتلفظ بها سرا ، دون الجهر بها ، ولا يجوز حمله على ذكرها بقلبه دون التلفظ بها ، لإجماع أهل اللسان على أن ذلك لا يسمى قراءة ، ولإجماع أهل العلم على أن ذكرها بقلبه دون التلفظ بها ليس بشرط ولا مسنون ، فلا يجوز حمل الخبر على ما لا يقول به أحد ، ولا يساعده لسان العرب ، وبالله التوفيق
القراءة خلف الإمام للبيهقي ٤١
اقرأ بها في نفسك اوپر عبارت سے کچھ آپکی طبیعت میں افاقہ ہوگا
محترم آپ نے ایک جلیل القدر تابعی کی بات کو تو مقطوع روایت کہہ کر ردّ کر دیا، اور خود ایک بیان جو کہ ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان ”
اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ“ کا تشریحی ہے، اور وہ تشریح اللہ تعالیٰ
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے متصادم بھی ہے، اسے آنکھیں بند کر کے قبول کر لیا۔
تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى
اہم بات
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے قراءتِ قرآن کے وقت سامع کو خاموش رہنے کا حکم دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین بھی اسی کے مطابق ہیں۔ صحابہ کرام بھی قراءت کے وقت خاموشی کی بات کرتے ہیں۔ تابعین بھی قراءت کے وقت خاموش رہنے کی بات کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں؛
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (القرآن)
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
أبي موسى الأشعري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا" (صحیح مسلم)
ابو موسیٰ اشعری سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب پڑھے خاموش رہو
صحيح وضعيف سنن النسائي - (ج 3 / ص 65)
( سنن النسائي )
921 أخبرنا الجارود بن معاذ الترمذي قال حدثنا أبو خالد الأحمر عن محمد بن عجلان عن زيد بن أسلم عن أبي صالح عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا اللهم ربنا لك الحمد .
تحقيق الألباني : حسن صحيح
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو خاموش رہو اور جب کہے " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " تو کہو " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ "
صحيح وضعيف سنن أبي داود - (ج 2 / ص 326)
( سنن أبي داود )
826 حدثنا القعنبي عن مالك عن ابن شهاب عن ابن أكيمة الليثي عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة فقال هل قرأ معي أحد منكم آنفا فقال رجل نعم يا رسول الله قال إني أقول مالي أنازع القرآن قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه النبي صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أبو داود روى حديث ابن أكيمة هذا معمر ويونس وأسامة بن زيد عن الزهري على معنى مالك .
تحقيق الألباني : صحيح
(ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ) فرماتے ہیں کہ ایک نماز کے بعد جس میں جہری قراءت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی؟ ایک شخص نے کہا کہ جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! فرمایا میں بھی کہوں کہ میرے ساتھ قرآن میں کیوں جگڑا ہو رہا ہے۔
فرمایا کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قراءت سے رک گئے جن نمازوں میں نبی صلى الله عليہ وسلم جہری قراءت کرتے تھے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا۔
تنبیہ
اس حدیث میں ہے کہ (فانتهى الناس عن القراءة) ۔ قراءت جہری بھی ہوتی ہے اور سری بھی۔ صحابہ کرام ہر دو قراءت سے رک گئے۔