• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت فجر کی قضا نماز فجر کے بعد

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
انتخاب اپنا اپنا
یہ ایک آزاد فورم ہے
آپ کی تحریر دوسروں کی آزادی کے مانع ہے
ادارہ نوٹس لے
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
ویسے بطور دلیل پیش ہے کہ مسئلہ هذا کو خود کے لئیے مخصوص کر کے اونچی پرواز سے بچیں ۔
دراصل یہ جید علماء کے مابین علمی بحث کا رئیسی موضوع بهی رہا ہے ۔
جب وہاں دلائل نہیں مل پائے تو آپ کہاں سے دلیل لا پائینگے ۔ دوسرے آپ نے غلط فورم پسند کیا ۔ یہاں طلباء مدارس اور اساتذہ کا مجموعہ ہے ۔ آپ تو خیر سے مدرسے اور اساتذہ سے فیضیاب ہو ہی نا سکے ۔
فی الحال ایک مختصر سا اقتباس آپکے لئیے :

حنفیوں کے اس روایت پر تمام اعتراضات کے جواب شیخ ارشاد الحق نے اپنے مقالات میں بھی دیے ہیں۔
تاریخ پڑہنا نا بہولیں ! میرا مطبل رضا صاحب کی پوسٹ کی تاریخ
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
محترم بھٹی صاحب!
ایک بات پر ٹکے رھیں.
کبھی حدیث پر اعتراض کرتے ھیں کبھی آثار صحابہ پر. کبھی کچھ اور کبھی کچھ.
جناب رضا صاحب نے بلکل صحیح کہا ھیکہ آپ سے بات کرکے وقت کا ضیاع ھے اور کچھ نہیں.
پتہ نہیں اہل دلی نے بمبئی کی مشہور مثل سنی یا نہیں :
دیر آید درست آید
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ایک اور تھریڈ میں ایک چھوٹی سی تحقیق عرض کی ہے۔ یہ تھریڈ دیکھا تو یہاں بھی حوالہ دے دیتا ہوں۔ غلط ہوں تو اصلاح فرما دی جائے۔
روایت جو آپ نے نقل فرمائی وہ یہ ہے:
ثنا الربيع بن سليمان المرادي ، ونصر بن مرزوقبخبر غريب غريب قالا : ثنا أسد بن موسى ، ثنا الليث بن سعد ، حدثني يحيى بن سعيد ، عن أبيه ، عن جده قيس بن عمرو ، أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح ، ولم يكن ركع ركعتي الفجر ، فلما سلم رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قام فركع ركعتي الفجر ، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر إليه ، فلم ينكر ذلك عليه "

اس میں راوی ہیں اسد بن موسی جن کی تحقیق کا آپ نے لنک بھی دیا ہے۔ یہ بلاشبہ ثقہ ہیں۔ لیکن ان میں ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے کہ یہ منکر احادیث بھی روایت کرتے ہیں۔
نسائیؒ کا قول ہے:

ثقة ولو لم يصنف كان خيراً له
"ثقہ ہیں۔ اور اگر یہ کتاب نہ لکھتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔"
اس کے آگے معلمیؒ یہ تفصیل بیان کرتے ہیں: وذلك أنه لما صنف احتاج إلى الرواية عن الضعفاء فجاءت في ذلك مناكير، فحمل ابن حزم على أسد، ورأى ابن يونس أن أحاديثه عن الثقات معروفة، وحقق البخاري فقال «حديثه مشهور» يريد والله أعلم مشهور عمن روى عنهم فما كان فيه من إنكار فمن قبله
"یہ اس وجہ سے ہے کہ جب انہوں نے تصنیف کی تو ضعفاء سے روایات کے محتاج ہو گئے تو اس میں مناکیر لے آئے۔ تو ابن حزم نے اسد پر حملہ کیا۔ اور ابن یونس کی رائے یہ ہے کہ ان کی احادیث ثقات سے معروف ہیں۔ اور بخاریؒ نے تحقیق کی تو کہا: ان کی حدیث مشہور ہے۔ ان کا ارادہ تھا (اللہ بہتر جانتا ہے) جن سے انہوں نے روایت کی ہیں ان سے مشہور ہیں اور جو اس میں انکار ہے وہ ان کی طرف سے ہے۔"
(التنکیل 1۔413، ط: المکتب الاسلامی)
ظاہر ہے ان میں اگر ہم نکارۃ مان بھی لیں تب بھی اتنی کم ہوگی کہ کوئی حدیث ثقات کے مخالف ثابت ہو جائے تب ہی اسے منکر کہیں گے (ھذا رایی فقط)
لیکن اب یہاں اس روایت کی طرف آئیے۔
اسے روایت کیا ہے سفیان بن عیینہ اور عبد اللہ بن نمیر نے۔ سفیان سے امام شافعی اور بیہقی نے اور ابن نمیر سے ابو داودؒ اور کئی نے۔
ان سب نے روایت کرتے ہوئے یحیی بن سعید کے بجائے سعد بن سعید کا ذکر کیا ہے جس کی سند گزر چکی ہے۔
سفیان کہتے ہیں عطاء بن ابی رباح نے اس حدیث کو سعد بن سعید سے سنا ہے۔
رہ گئے سعد کے دو بھائی تو ابو داودؒ فرماتے ہیں کہ عبد ربہ اور یحیی اس حدیث کو مرسلا روایت کرتے ہیں۔
لیکن جب اسد بن موسی روایت کرتے ہیں تو ایک تو یحیی بن سعید سے روایت کرتے ہیں اور وہ بھی متصل۔
اسی لیے ابن خزیمہ نے یہ روایت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: غریب غریب۔ اور لفظ غریب محدثین کے یہاں منکر کے لیے بکثرت استعمال ہوتا ہے۔
تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھ لیجیے۔ رہ گئی بات یہ کہ بقول مبارکپوریؒ حاکم نے اس کے طریق کو صحیح قرار دیا ہے تو حاکم کا تساہل معروف ہے۔

اس روایت پر دوسرا اشکال سعید بن قیس کے حوالے سے ہے۔ ان کے عدم سماع کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے لیکن حاکم کے تساہل کی وجہ سے وہ جواب کمزور معلوم ہوتا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے سعید بن قیس مستور الحال ہیں۔ صرف ابن حبان نے ان کے لیے صحابی ہونے کا قول کیا ہے لیکن انہیں شاید ان کے والد یا سعید بن قیس بن صخر رض سے غلطی لگ گئی ہے۔ اور کسی کے یہاں ان کی تعدیل یا جرح نہیں ملتی۔
ور اس طریق کو حاکمؒ نے جو صحیح کہا ہے اس کے بارے میں میں نے عرض کیا تھا کہ حاکم متساہل ہیں۔ کیوں کہ اس طریق میں سعید کا ایک تو بقول حافظ ابن عبد البر اپنے والد سے سماع نہیں ہے (اور جب اپنے والد سے نہیں ہے تو نبی کریم ﷺ کی صحبت کیا ہوگی جبکہ ان کے والد کی وفات بہت بعد کی ہے)۔ ابن عبد البر نے یہ قول نقل کیا ہے۔ دوسرے ان سعید کا حال معلوم نہیں ہے۔
ابن حبان نے انہیں ثقات میں ذکر کر کے "ولہ صحبۃ" کہا ہے جسے دیے گئے ربط میں بھی نقل کیا گیا ہے۔ لیکن کسی اور نے اس معاملے میں ابن حبان کی موافقت نہیں کی۔ یا کم از کم مجھے نہیں ملی۔ یہ میری اس وقت کی بات کا مفہوم تھا۔
ابھی میں نے ابن حبان کی ثقات کی مراجعت کی تو معلوم ہوا کہ ابن حبان نے دراصل "ولہ صحبۃ" ان کے لیے نہیں فرمایا بلکہ ان کے والد کے لیے فرمایا ہے۔ ابن حبان کے الفاظ ہیں:
سعيد بن قيس بن قهد الأنصاري والد يحيى بن سعيد يروي عن أبيه وله صحبة روى عنه ابنه يحيى بن سعيد
الثقات لابن حبان 4۔281، ط: دائرۃ المعارف
اسی طرح کے الفاظ ان کے بیٹے عبد ربہ کے لیے ہیں:
عبد ربه بن سعيد بن قيس بن عمرو النجاري المدني يروى عن جده وله صحبة روى عنه عطاء بن أبي رباح وسعد بن سعيد الأنصاري
الثقات 5۔131
حالانکہ عبد ربہ کا صحابی ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پچھلے قول میں اور اس قول میں "ولہ صحبۃ" سعید کے 'اب' اور عبد ربہ کے 'جد' کے لیے کہا گیا ہے۔ واللہ اعلم
میرا استدلال اس جملے سے تھا:
وحقق البخاري فقال ((حديثه مشهور)) يريد والله أعلم مشهور عمن روى عنهم فما كان فيه من إنكار فمن قبله
کہ جع اس میں نکارۃ ہے وہ ان کی جانب سے ہے۔
اسے اس کے سیاق و سباق کے ساتھ ذکر کر دیا تھا۔ اور ساتھ میں یہ وضاحت بھی کر دی تھی کہ یہ ثقہ ہیں۔ ثقہ ہوتے ہوئے یہ مناکیر کیوں روایت کرتے ہیں تو اس کی تفصیل معلمیؒ کے کلام میں نقل کر دی تھی۔ اس کے علاوہ اپنی رائے بھی یہ عرض کی تھی: ظاہر ہے ان میں اگر ہم نکارۃ مان بھی لیں تب بھی اتنی کم ہوگی کہ کوئی حدیث ثقات کے مخالف ثابت ہو جائے تب ہی اسے منکر کہیں گے (ھذا رایی فقط)

یہ میری صلاحیت کے مطابق شاید سب سے معتدل بات ہے جو توثیق اور نکارۃ دونوں کلاموں کا احاطہ کرکے نتیجہ نکالتی ہے۔ ممکن ہے آپ اس سے اچھی تشریح فرمائیں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اس تھریڈ میں لکھنے میں کیا حرج ہے؟ اتنا کچھ لکھا مگر ”حدیث“ کے لئے آگے کی نشاندہی کردی!!! براہِ کرم یہاں سند لکھیں اور اس کی تصحیح بھی ثابت کریں۔ شکریہ
جامع الترمذي: أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ تَفُوتُهُ الرَّكْعَتَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ صَلاَةِ الْفَجْرِ)

422
. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ الْبَلْخِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ جَدِّهِ قَيْسٍ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الصُّبْحَ ثُمَّ انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَنِي أُصَلِّي فَقَالَ مَهْلًا يَا قَيْسُ أَصَلَاتَانِ مَعًا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَمْ أَكُنْ رَكَعْتُ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ قَالَ فَلَا إِذَنْ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ لَا نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ و قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ سَمِعَ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ مِنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ مُرْسَلًا وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ لَمْ يَرَوْا بَأْسًا أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَكْتُوبَةِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ قَالَ أَبُو عِيسَى وَسَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ هُوَ أَخُو يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ وَقَيْسٌ هُوَ جَدُّ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ وَيُقَالُ هُوَ قَيْسُ بْنُ عَمْرٍو وَيُقَالُ هُوَ قَيْسُ بْنُ قَهْدٍ وَإِسْنَادُ هَذَا الْحَدِيثِ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ قَيْسٍ وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ فَرَأَى قَيْسًا وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ حکم : صحیح


ترجمہ : . قیس (بن عمروبن سہل) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نکلے اورجماعت کے لیے اقامت کہہ دی گئی ، تومیں نے آپ کے ساتھ فجر پڑھی، پھر نبی اکرمﷺ پلٹے تو مجھے دیکھا کہ میں صلاۃ پڑھنے جارہاہوں، توآپ نے فرمایا: قیس ذرا ٹھہرو، کیا دوصلاتیں ایک ساتھ ۱؎ (پڑھنے جارہے ہو؟) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں نے فجر کی دونوں سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔ آپ نے فرمایا: تب کوئی حرج نہیں ۲؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ہم محمد بن ابراہیم کی حدیث کواس کے مثل صرف سعد بن سعید ہی کے طریق سے جانتے ہیں،۲- سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح نے بھی یہ حدیث سعد بن سعید سے سنی ہے، ۳- یہ حدیث مرسلاً بھی روایت کی جاتی ہے، ۴- اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں نے اسی حدیث کے مطابق کہا ہے کہ آدمی کے فجرکی فرض صلاۃ پڑھنے کے بعد سورج نکلنے سے پہلے دونوں سنتیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، ۵- سعد بن سعید یحییٰ بن سعید انصاری کے بھائی ہیں، اور قیس یحیی بن سعید انصاری کے دادا ہیں۔ انہیں قیس بن عمرو بھی کہاجاتا ہے اور قیس بن قہد بھی، ۶- اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔ محمد بن ابراہیم تیمی نے قیس سے نہیں سنا ہے،بعض لوگوں نے یہ حدیث سعد بن سعید سے اورسعد نے محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے کہ' نبی اکرمﷺ نکلے تو قیس کودیکھا'،اوریہ عبدالعزیزکی حدیث سے جسے انہوں نے سعد بن سعید سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے [حكم الالبانى] : صحيح، ابن ماجة (1151)-

نوٹ : مرسل حدیث صحیح ہے اور اس سے نتائج اخذ کیے جائیں گے۔ یہ تین آئمہ یعنی امام ابو حنیفہ ،امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہ الله کا نقطہ نظر ہے۔ علماء کا یہ گروہ اس بنیاد پر اس قسم کی حدیث کو قبول کرتا ہے کہ مرسل حدیث صرف ثقہ راوی سے ہی روایت کی گئی ہو- مندرجہ بالا حدیث اگر مرسل تسلیم کر بھی لی جائے تو بھی اس کے تمام راوی ثقة ہیں -

باقی مزید رہنمائی کے لئے نیچے دیے گئے اہل علم اس پر زیادہ بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں -

@خضر حیات
@اسحاق سلفی
شکریہ
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
باقی مزید رہنمائی کے لئے نیچے دیے گئے اہل علم اس پر زیادہ بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں -

@کفایت اللہ
@رضا میاں
@خضر حیات
@اسحاق سلفی
@[S]عمر اثری[/S]
محترم جناب جواد صاحب!
میں ایک طالب علم ھوں.
میرا شمار اہل علم حضرات میں نہیں ھو سکتا.
دوسری بات یہ کہ ایک ساتھ بس دو کو ٹیگ کیا جا سکتا ھے. دو سے زیادہ ٹیگ کرنے پر کسی کو خبر نہیں ھوتی.
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
محترم جناب جواد صاحب!
میں ایک طالب علم ھوں.
میرا شمار اہل علم حضرات میں نہیں ھو سکتا.
دوسری بات یہ کہ ایک ساتھ بس دو کو ٹیگ کیا جا سکتا ھے. دو سے زیادہ ٹیگ کرنے پر کسی کو خبر نہیں ھوتی.
اللہ آپ کے علم میں برکت دے
اساتذہ کی نگرانی میں منزل تک پہونچنا آسان ہوجاتا ہے ۔ آج کے طلباء کل کے اساتذہ ہونگے ۔ ان شاء اللہ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اہلحدیث کہلانے والوں کا عجیب رویہ!
اتنا تعصب درست نہیں محترم.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا تو یہ تھا کہ
لگتا ھے آپکو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں ھے.......ابتسامہ
محترم جواد صاحب نے تو آپ کو لنک اور حدیث نمبر بتا دیا تھا جس کے بعد آپ کو پریشانی نہیں آنی چاہیۓ تھی. لیکن آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں ھے تبھی تو آپ نے کہا تھا:
محترم! صحابہ کرام ایسا کرتے تھے۔ تفصیل کے لئے کتب حدیث کی طرف مراجعت فرمائیں۔ شکریہ
محترم! کتب حدیث کو جب پڑھیں گے نہ تو ان سب باتوں کا آپ کو پتہ چل جائے گا۔
آپنے تو مجھے پوری کتب حدیث پلٹنے کو کہا تھا اور محترم جواد صاحب نے تو آپ کو حدیث نمبر تک بتا دیا تھا.
میں نے سند اور اس کی تصحیح کا پوچھا تھا تو اہلحدیث کہلانے والے پوری حدیث بمع سند و ترجمہ تحریر کردیتے اور اگر کوئی کہتا کہ دوبارہ لکھ دیں وہ پھر لکھ دیتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات جتنی دفعہ لکھے گا باعثاجر ہی ہے۔ مگر ہائے ری قسمت ۔۔۔۔۔۔۔
اپنے لۓ الگ اصول ھمارے لۓ الگ... ھاۓ رے تعصب
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محترم جناب جواد صاحب!
میں ایک طالب علم ھوں.
میرا شمار اہل علم حضرات میں نہیں ھو سکتا.
دوسری بات یہ کہ ایک ساتھ بس دو کو ٹیگ کیا جا سکتا ھے. دو سے زیادہ ٹیگ کرنے پر کسی کو خبر نہیں ھوتی.
شکریہ محترم آپ کی پوسٹ کا- لیکن احادیث نبوی کے بارے میں کم ازکم آپ مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں -

میں نے اب دوبارہ دو ناموں کو ٹیگ کیا ہے -یہ بھی فورم کے بڑے اہل علم ہیں - امید ہے جلد رہنمائی کریں گے -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
باقی مزید رہنمائی کے لئے نیچے دیے گئے اہل علم اس پر زیادہ بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں -

@خضر حیات
@اسحاق سلفی
شکریہ
میں نے اب دوبارہ دو ناموں کو ٹیگ کیا ہے -یہ بھی فورم کے بڑے اہل علم ہیں - امید ہے جلد رہنمائی کریں گے -
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم بھائی :
میں محض ایک طالب علم ہوں ،فورم پر استفادہ کی غرض سے لکھتا ، پڑھتا ہوں ،
اور شیخ خضر حیات صاحب حفظہ اللہ واقعی محقق عالم ہیں ،
آپ کی پیش کردہ روایت اور متعلقہ مسئلہ یعنی فجر کی سنتوں کو بعد از جماعت ادا کرنے کے شرعی حکم کیلئے اپنی طرف سے لکھنے سے پہلے " الاسلام سوال و جواب " سائیٹ سے اس ضمن میں ایک فتوی پیش خدمت ہے ؛

سؤال :هل توجد صلاة سنة بعد صلاة الفجر ؟.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد لله
ليس لصلاة الفجر صلاة سنة بعدها .
أما قبلها فلها سنة راتبة ؛ ركعتان ، وهي آكد السنن الرواتب ، حتى كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يدعهما حضراً ولا سفرا . فعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ : ( لَمْ يَكُنْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنْ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَى رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ ) رواه البخاري (1163) ومسلم (724) .

وفي فضلها قال النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ) رواه مسلم (725) .

ويسن أن يقرأ المصلي فيهما بالكافرون والإخلاص ؛ لما روى مسلم (726) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ فِي رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ : ( قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ) وَ ( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ) .

ومن فاتته سنة الفجر (القبلية) فله أن يصليها بعد صلاة الصبح .

ودليل ذلك ما رواه الترمذي (422) وأبو داود (1267) عَنْ قَيْسٍ بن عمرو قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُقِيمَتْ الصَّلاةُ ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الصُّبْحَ ثُمَّ انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَنِي أُصَلِّي ، فَقَالَ : مَهْلا يَا قَيْسُ ، أَصَلاتَانِ مَعًا ؟! قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنِّي لَمْ أَكُنْ رَكَعْتُ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ . قَالَ : فَلا إِذَنْ ) . ولفظ أبي داود : ( فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ) والحديث صححه الألباني في صحيح الترمذي .
قال الخطابي :
" فِيهِ بَيَان أَنَّ لِمَنْ فَاتَتْهُ الرَّكْعَتَانِ قَبْل الْفَرِيضَة أَنْ يُصَلِّيهِمَا بَعْدهَا قَبْل طُلُوع الشَّمْس " انتهى من "عون المعبود" .
وقال في "تحفة الأحوذي" :
" ( أَصَلاتَانِ مَعًا ؟ ) الاسْتِفْهَامُ لِلإِنْكَارِ . أَيْ أَفَرْضَانِ فِي وَقْتِ فَرْضٍ وَاحِدٍ ؟ إِذْ لا نَفْلَ بَعْدَ صَلاةِ الْفَجْرِ .
( فَلا إِذَنْ )

تَنْبِيهٌ : اِعْلَمْ أَنَّ قَوْلَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : (فَلا إِذَنْ) مَعْنَاهُ : فَلا بَأْسَ عَلَيْك أَنْ تُصَلِّيَهُمَا حِينَئِذٍ , وَيَدُلُّ عَلَيْهِ رِوَايَةُ أَبِي دَاوُدَ بِلَفْظِ : ( فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ) , وَرِوَايَةُ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ الأَنْصَارِ بِلَفْظِ : ( فَلَمْ يَقُلْ لَهُ شَيْئًا ) . قَالَ الْعِرَاقِيُّ : إِسْنَادُهُ حَسَنٌ , وَرِوَايَةُ اِبْنِ أَبِي شَيْبَةَ بِلَفْظِ : ( فَلَمْ يَأْمُرْهُ وَلَمْ يَنْهَهُ ) , وَرِوَايَةُ اِبْنِ حِبَّانَ بِلَفْظِ : ( فَلَمْ يُنْكِرْ عَلَيْهِ ) , وَالرِّوَايَاتُ بَعْضُهَا يُفَسِّرُ بَعْضًا " انتهى باختصار .
والله أعلم .
الإسلام سؤال وجواب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
كيا نماز فجر كے بعد سنتيں ہيں ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
الحمد للہ :
فجر سے قبل دو ركعت سنت مؤكدہ ہيں، اور سنت مؤكدہ ميں فجر كى انہيں دو سنتوں كى زيادہ تاكيد آئى ہے، حتى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نہ تو يہ سنتيں سفر ميں ترك كرتے اور نہ ہى حضر ميں.
ام المومنین سیدہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فجر كى دو ركعتوں سے زيادہ كسى بھى نفل نماز كا اتنا خيال نہيں ركھتے تھے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1163 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 724 )

اور فجر كى ان دو سنتوں كى فضيلت كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" فجر كى دو ركعت دنيا اور دنيا ميں جو كچھ ہے اس سے بھى بہتر ہيں"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 725 ).

فجر كى سنتوں ميں مسنون يہ ہے كہ نمازى ان ميں سورۃ الكافرون، اور سورۃ الاخلاص ( قل ہو اللہ احد ) پڑھے، اس كى دليل مندرجہ ذيل مسلم شريف كى حديث ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فجر كى دو ركعت ميں قل يا ايہا الكافرون، اور قل ہو اللہ احد، كى تلاوت كى"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 726 ).

اور نماز فجر سے قبل اگر كسى شخص كى سنتيں رہ جائيں اور وہ ادا نہ كر سكا ہو تو وہ نماز فجر كے بعد انہيں ادا كر سكتا ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

قيس بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نكلے تو نماز كے ليے اقامت كہى گئى اور ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ صبح كى نماز ادا كى، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے نماز ادا كرتے ہوئے پايا، تو فرمانے لگے:
" اے قيس ٹھر جاؤ، كيا دو نمازيں ايك ساتھ ؟
تو ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نے فجر كى دو ركعت ادا نہيں كى تھيں، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر نہيں " (یعنی پھر ان كے پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں ہے )
اور ابو داود كے الفاظ يہ ہيں:
" تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خاموش ہو گئے"
سنن ترمذى حديث نمبر ( 422 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 1267 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

خطابى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس حديث ميں بيان ہوا ہے كہ جس كى فجر كى سنتيں فرض ادا كرنے سے قبل رہ گئيں ہوں وہ طلوع شمس سے قبل يہ دو ركعات ادا كر سكتا ہے" انتہى۔۔۔۔ماخوذ از: عون المعبود.
 
Last edited:
Top