باقی مزید رہنمائی کے لئے نیچے دیے گئے اہل علم اس پر زیادہ بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں -
@خضر حیات
@اسحاق سلفی
شکریہ
میں نے اب دوبارہ دو ناموں کو ٹیگ کیا ہے -یہ بھی فورم کے بڑے اہل علم ہیں - امید ہے جلد رہنمائی کریں گے -
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم بھائی :
میں محض ایک طالب علم ہوں ،فورم پر استفادہ کی غرض سے لکھتا ، پڑھتا ہوں ،
اور شیخ خضر حیات صاحب حفظہ اللہ واقعی محقق عالم ہیں ،
آپ کی پیش کردہ روایت اور متعلقہ مسئلہ یعنی فجر کی سنتوں کو بعد از جماعت ادا کرنے کے شرعی حکم کیلئے اپنی طرف سے لکھنے سے پہلے " الاسلام سوال و جواب " سائیٹ سے اس ضمن میں ایک فتوی پیش خدمت ہے ؛
سؤال :هل توجد صلاة سنة بعد صلاة الفجر ؟.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد لله
ليس لصلاة الفجر صلاة سنة بعدها .
أما قبلها فلها سنة راتبة ؛ ركعتان ، وهي آكد السنن الرواتب ، حتى كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يدعهما حضراً ولا سفرا . فعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ : ( لَمْ يَكُنْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنْ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَى رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ ) رواه البخاري (1163) ومسلم (724) .
وفي فضلها قال النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ) رواه مسلم (725) .
ويسن أن يقرأ المصلي فيهما بالكافرون والإخلاص ؛ لما روى مسلم (726) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ فِي رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ : ( قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ) وَ ( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ) .
ومن فاتته سنة الفجر (القبلية) فله أن يصليها بعد صلاة الصبح .
ودليل ذلك ما رواه الترمذي (422) وأبو داود (1267) عَنْ قَيْسٍ بن عمرو قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُقِيمَتْ الصَّلاةُ ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الصُّبْحَ ثُمَّ انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَنِي أُصَلِّي ، فَقَالَ : مَهْلا يَا قَيْسُ ، أَصَلاتَانِ مَعًا ؟! قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنِّي لَمْ أَكُنْ رَكَعْتُ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ . قَالَ : فَلا إِذَنْ ) . ولفظ أبي داود : ( فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ) والحديث صححه الألباني في صحيح الترمذي .
قال الخطابي :
" فِيهِ بَيَان أَنَّ لِمَنْ فَاتَتْهُ الرَّكْعَتَانِ قَبْل الْفَرِيضَة أَنْ يُصَلِّيهِمَا بَعْدهَا قَبْل طُلُوع الشَّمْس " انتهى من "عون المعبود" .
وقال في "تحفة الأحوذي" :
" ( أَصَلاتَانِ مَعًا ؟ ) الاسْتِفْهَامُ لِلإِنْكَارِ . أَيْ أَفَرْضَانِ فِي وَقْتِ فَرْضٍ وَاحِدٍ ؟ إِذْ لا نَفْلَ بَعْدَ صَلاةِ الْفَجْرِ .
( فَلا إِذَنْ )
تَنْبِيهٌ : اِعْلَمْ أَنَّ قَوْلَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : (فَلا إِذَنْ) مَعْنَاهُ : فَلا بَأْسَ عَلَيْك أَنْ تُصَلِّيَهُمَا حِينَئِذٍ , وَيَدُلُّ عَلَيْهِ رِوَايَةُ أَبِي دَاوُدَ بِلَفْظِ : ( فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ) , وَرِوَايَةُ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ الأَنْصَارِ بِلَفْظِ : ( فَلَمْ يَقُلْ لَهُ شَيْئًا ) . قَالَ الْعِرَاقِيُّ : إِسْنَادُهُ حَسَنٌ , وَرِوَايَةُ اِبْنِ أَبِي شَيْبَةَ بِلَفْظِ : ( فَلَمْ يَأْمُرْهُ وَلَمْ يَنْهَهُ ) , وَرِوَايَةُ اِبْنِ حِبَّانَ بِلَفْظِ : ( فَلَمْ يُنْكِرْ عَلَيْهِ ) , وَالرِّوَايَاتُ بَعْضُهَا يُفَسِّرُ بَعْضًا " انتهى باختصار .
والله أعلم .
الإسلام سؤال وجواب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
كيا نماز فجر كے بعد سنتيں ہيں ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
الحمد للہ :
فجر سے قبل دو ركعت سنت مؤكدہ ہيں، اور سنت مؤكدہ ميں فجر كى انہيں دو سنتوں كى زيادہ تاكيد آئى ہے، حتى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نہ تو يہ سنتيں سفر ميں ترك كرتے اور نہ ہى حضر ميں.
ام المومنین سیدہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فجر كى دو ركعتوں سے زيادہ كسى بھى نفل نماز كا اتنا خيال نہيں ركھتے تھے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1163 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 724 )
اور فجر كى ان دو سنتوں كى فضيلت كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" فجر كى دو ركعت دنيا اور دنيا ميں جو كچھ ہے اس سے بھى بہتر ہيں"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 725 ).
فجر كى سنتوں ميں مسنون يہ ہے كہ نمازى ان ميں سورۃ الكافرون، اور سورۃ الاخلاص ( قل ہو اللہ احد ) پڑھے، اس كى دليل مندرجہ ذيل مسلم شريف كى حديث ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فجر كى دو ركعت ميں قل يا ايہا الكافرون، اور قل ہو اللہ احد، كى تلاوت كى"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 726 ).
اور نماز فجر سے قبل اگر كسى شخص كى سنتيں رہ جائيں اور وہ ادا نہ كر سكا ہو تو وہ نماز فجر كے بعد انہيں ادا كر سكتا ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
قيس بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نكلے تو نماز كے ليے اقامت كہى گئى اور ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ صبح كى نماز ادا كى، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے نماز ادا كرتے ہوئے پايا، تو فرمانے لگے:
" اے قيس ٹھر جاؤ، كيا دو نمازيں ايك ساتھ ؟
تو ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نے فجر كى دو ركعت ادا نہيں كى تھيں، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر نہيں " (یعنی پھر ان كے پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں ہے )
اور ابو داود كے الفاظ يہ ہيں:
" تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خاموش ہو گئے"
سنن ترمذى حديث نمبر ( 422 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 1267 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
خطابى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس حديث ميں بيان ہوا ہے كہ جس كى فجر كى سنتيں فرض ادا كرنے سے قبل رہ گئيں ہوں وہ طلوع شمس سے قبل يہ دو ركعات ادا كر سكتا ہے" انتہى۔۔۔۔ماخوذ از: عون المعبود.