• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت فجر کی قضا نماز فجر کے بعد

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مولانا ارشاد الحق اثری صاحب کا اوپر ذکرہ کردہ مضمون ان کے مقالات کی دوسری جلد میں ( 124 تا 254 ) موجود ہے ۔
در حقیقت یہ مسلک دیوبند کے ایک رسالہ الرشید ( نمبر 11 جلد 27 جولائی 1999ء ) میں انڈیا کے ایک عالم دین مولانا ابو جندل قاسمی صاحب کے چھپنے والے مضمون کا جواب ہے ۔
فریقین سے گزارش ہے اگر کوئی خود علمی گفتگو نہیں کرسکتا تو اپنے پسندیدہ عالم دین کا مضمون ٹائپ کرکے لگائیں ، تاکہ ان کے موقف کا اظہار اچھے اور علمی انداز میں ہو جائے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم بھائی :
میں محض ایک طالب علم ہوں ،فورم پر استفادہ کی غرض سے لکھتا ، پڑھتا ہوں ،
اور شیخ خضر حیات صاحب حفظہ اللہ واقعی محقق عالم ہیں ،
آپ کی پیش کردہ روایت اور متعلقہ مسئلہ یعنی فجر کی سنتوں کو بعد از جماعت ادا کرنے کے شرعی حکم کیلئے اپنی طرف سے لکھنے سے پہلے " الاسلام سوال و جواب " سائیٹ سے اس ضمن میں ایک فتوی پیش خدمت ہے ؛

سؤال :هل توجد صلاة سنة بعد صلاة الفجر ؟.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد لله
ليس لصلاة الفجر صلاة سنة بعدها .
أما قبلها فلها سنة راتبة ؛ ركعتان ، وهي آكد السنن الرواتب ، حتى كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يدعهما حضراً ولا سفرا . فعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ : ( لَمْ يَكُنْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنْ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَى رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ ) رواه البخاري (1163) ومسلم (724) .

وفي فضلها قال النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ) رواه مسلم (725) .

ويسن أن يقرأ المصلي فيهما بالكافرون والإخلاص ؛ لما روى مسلم (726) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ فِي رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ : ( قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ) وَ ( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ) .

ومن فاتته سنة الفجر (القبلية) فله أن يصليها بعد صلاة الصبح .

ودليل ذلك ما رواه الترمذي (422) وأبو داود (1267) عَنْ قَيْسٍ بن عمرو قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُقِيمَتْ الصَّلاةُ ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الصُّبْحَ ثُمَّ انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَنِي أُصَلِّي ، فَقَالَ : مَهْلا يَا قَيْسُ ، أَصَلاتَانِ مَعًا ؟! قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنِّي لَمْ أَكُنْ رَكَعْتُ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ . قَالَ : فَلا إِذَنْ ) . ولفظ أبي داود : ( فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ) والحديث صححه الألباني في صحيح الترمذي .
قال الخطابي :
" فِيهِ بَيَان أَنَّ لِمَنْ فَاتَتْهُ الرَّكْعَتَانِ قَبْل الْفَرِيضَة أَنْ يُصَلِّيهِمَا بَعْدهَا قَبْل طُلُوع الشَّمْس " انتهى من "عون المعبود" .
وقال في "تحفة الأحوذي" :
" ( أَصَلاتَانِ مَعًا ؟ ) الاسْتِفْهَامُ لِلإِنْكَارِ . أَيْ أَفَرْضَانِ فِي وَقْتِ فَرْضٍ وَاحِدٍ ؟ إِذْ لا نَفْلَ بَعْدَ صَلاةِ الْفَجْرِ .
( فَلا إِذَنْ )

تَنْبِيهٌ : اِعْلَمْ أَنَّ قَوْلَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : (فَلا إِذَنْ) مَعْنَاهُ : فَلا بَأْسَ عَلَيْك أَنْ تُصَلِّيَهُمَا حِينَئِذٍ , وَيَدُلُّ عَلَيْهِ رِوَايَةُ أَبِي دَاوُدَ بِلَفْظِ : ( فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ) , وَرِوَايَةُ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ الأَنْصَارِ بِلَفْظِ : ( فَلَمْ يَقُلْ لَهُ شَيْئًا ) . قَالَ الْعِرَاقِيُّ : إِسْنَادُهُ حَسَنٌ , وَرِوَايَةُ اِبْنِ أَبِي شَيْبَةَ بِلَفْظِ : ( فَلَمْ يَأْمُرْهُ وَلَمْ يَنْهَهُ ) , وَرِوَايَةُ اِبْنِ حِبَّانَ بِلَفْظِ : ( فَلَمْ يُنْكِرْ عَلَيْهِ ) , وَالرِّوَايَاتُ بَعْضُهَا يُفَسِّرُ بَعْضًا " انتهى باختصار .
والله أعلم .
الإسلام سؤال وجواب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
كيا نماز فجر كے بعد سنتيں ہيں ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
الحمد للہ :
فجر سے قبل دو ركعت سنت مؤكدہ ہيں، اور سنت مؤكدہ ميں فجر كى انہيں دو سنتوں كى زيادہ تاكيد آئى ہے، حتى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نہ تو يہ سنتيں سفر ميں ترك كرتے اور نہ ہى حضر ميں.
ام المومنین سیدہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فجر كى دو ركعتوں سے زيادہ كسى بھى نفل نماز كا اتنا خيال نہيں ركھتے تھے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1163 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 724 )

اور فجر كى ان دو سنتوں كى فضيلت كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" فجر كى دو ركعت دنيا اور دنيا ميں جو كچھ ہے اس سے بھى بہتر ہيں"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 725 ).

فجر كى سنتوں ميں مسنون يہ ہے كہ نمازى ان ميں سورۃ الكافرون، اور سورۃ الاخلاص ( قل ہو اللہ احد ) پڑھے، اس كى دليل مندرجہ ذيل مسلم شريف كى حديث ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فجر كى دو ركعت ميں قل يا ايہا الكافرون، اور قل ہو اللہ احد، كى تلاوت كى"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 726 ).

اور نماز فجر سے قبل اگر كسى شخص كى سنتيں رہ جائيں اور وہ ادا نہ كر سكا ہو تو وہ نماز فجر كے بعد انہيں ادا كر سكتا ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

قيس بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نكلے تو نماز كے ليے اقامت كہى گئى اور ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ صبح كى نماز ادا كى، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے نماز ادا كرتے ہوئے پايا، تو فرمانے لگے:
" اے قيس ٹھر جاؤ، كيا دو نمازيں ايك ساتھ ؟
تو ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نے فجر كى دو ركعت ادا نہيں كى تھيں، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر نہيں " (یعنی پھر ان كے پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں ہے )
اور ابو داود كے الفاظ يہ ہيں:
" تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خاموش ہو گئے"
سنن ترمذى حديث نمبر ( 422 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 1267 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

خطابى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس حديث ميں بيان ہوا ہے كہ جس كى فجر كى سنتيں فرض ادا كرنے سے قبل رہ گئيں ہوں وہ طلوع شمس سے قبل يہ دو ركعات ادا كر سكتا ہے" انتہى۔۔۔۔ماخوذ از: عون المعبود.
جزاک الله - الله رب العزت آپ کے علم میں مزید اضافہ فرماے (آمین )-

رہنمائی کا شکریہ -
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اب تک اس تھریڈ میں سنت فجر کے بعد از نماز فجر قضا کے جواز پر قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث کے تین طرق پیش کیے گئے ہیں :
1۔ یحیی بن سعید عن أبیہ عن جدہ والا طریق ، جو اس تھریڈ میں شروع میں پیش کیا گیا ۔ یہ طریق بالکل ٹھیک ہے ، اور اس کی سند کی صحت کی تفصیل پہلی پوسٹ میں گزر چکی ہے ۔
2۔ یحیی بن سعید کے بھائی عبد ربہ بن سعید ( ثقۃ ) عن جدہ والا طریق ۔
3۔ یحیی بن سعید کے بھائی سعد بن سعید ( صدوق سیئ الحفظ ) عن محمد بن ابراہیم التیمی والا طریق ۔ جو کہ محمد علی جواد بھائی نے ترمذی کے حوالے سے بیان کیا ۔
ان آخری دو پر کلام کیا گیا ہے ، لیکن اگر ان آخری دو کو ضعیف بھی تسلیم کیا جائے تو یہ حدیث پہلے طریق سے بالکل صحیح ثابت ہے ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سعيد بن قيس بن عمرو الانصاری المدنی۔
آپ ثقہ ہیں ۔
امام ابن حبان نے آپ کو ثقات میں ذکر کیا چنانچہ کہا:
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
سعيد بن قيس بن قهد الأنصاري والد يحيى بن سعيد يروى عن أبيه وله صحبة روى عنه ابنه يحيى بن سعيد [الثقات لابن حبان: 4/ 281]۔
شیخ قاسم ابن قطلوبغا حنفی نے بھی ( ابن حبان کی پیروی میں ) انہیں ’’ ثقات ‘‘ میں ذکر کیا ہے :
سعيد بن قيس بن قَهْد الأنصاري، والد يحيى بن سعيد.يروي عن أبيه، وله صحبة. روى عنه ابنه يحيى بن سعيد ۔وفي كتاب ابن أبي حاتم و «تاريخ البخاري» : سعيد بن قيس بن عمرو الأنصاري، قال البخاري: والد يحيى المديني روى عنه ابنه، وقال ابن أبي حاتم: روى عنه يحيى بن سعيد، وسعد بن سعيد.
(الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة (5/ 12) ، رقم الترجمۃ : 4515 )
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اشماریہ بھائی نے چند علمی پوائینٹس کی نشاندہی کی ہے۔
اس حدیث کو قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ سے درج ذیل لوگ روایت کرتے ہیں:
  • محمد بن ابراہیم بن الحارث التیمی (مرسلا) - محمد بن ابراہیم سے اسے روایت کرنے والے
    • سعد بن سعید الانصاری
  • عبد ربہ بن سعید الانصاری (مرسلا) - ان سے روایت کرنے والے:
    • ابن جریج (مصنف عبد الرزاق، مسند احمد)
    • حماد بن سلمہ (مشکل الآثار للطحاوی)
  • یحیی بن سعید الانصاری عن ابیہ (متصلا) - ان سے روایت کرنے والے:
    • امام لیث بن سعد
اشماریہ بھائی کے مطابق اس روایت کو متصلا روایت کرنے میں اسد بن موسی نے غلطی کی ہے لیکن ایسا تبھی کہا جا سکتا ہے جب روایت ایک ہو اور اسے بیان کرنے والوں نے اختلاف کیا ہو۔ جبکہ یہاں پر ایک نہیں تین روایتیں ہیں۔ سعد بن سعید کی محمد بن ابراہیم سے روایت، عبد ربہ کی روایت، اور یحیی بن سعید الانصاری کی روایت۔ اگر کہا جائے کہ یحیی بن سعید الانصاری نے اس روایت میں اپنے دونوں بھائیوں کی مخالفت کی ہے تو انہی کی روایت کو راجح کہا جائے گا کیونکہ ان دونوں میں وہ سب سے زیادہ ثقہ اور حافظ ہیں جبکہ باقی دو پر کچھ کلام ہے۔
اب جب یحیی بن سعید الانصاری کی روایت باقی دو کی روایتوں سے راجح ثابت ہوگئی تو نکارت کا اعتراض تبھی جائز ہو گا جب یحیی بن سعید الانصاری سے روایت کرنے میں کسی نے نکارت کی ہو، نہ کہ یہ دیکھا جائے کہ یحیی کی روایت کے علاوہ دیگر روایتوں میں مخالفت ہے یا نہیں، کیونکہ وہ یحیی کی روایتیں ہے ہی نہیں جبکہ ہم یہاں صرف یحیی تک اس روایت کی سند کی صحت پر بحث کر رہے ہیں۔
اب امام یحیی الانصاری سے اس روایت کو نقل کرنے والے امام لیث بن سعد ہیں جو کہ اعلیٰ درجے کے ثقہ امام ہیں اور ان کے خلاف کسی نے اس روایت میں کوئی دوسری بات نہیں کی ہے۔
اور لیث بن سعد سے پھر اسے اسد بن موسی نے روایت کیا ہے۔ اور ان کے خلاف بھی لیث کے کسی شاگرد نے کوئی دوسری بات نہیں کی ہے۔
تو جب یحیی تک اس سند میں کوئی مخالفت نہیں ہے تو اسد بن موسی کی نکارت کا اعتراض جائز نہیں ہے۔ مخالفت تو یحیی اور ان کے بھائیوں میں ہے لہٰذا نکارت یا ترجیح کا فیصلہ یہاں سے ہونا چاہیے اور یہ بالکل واضح ہے کہ امام یحیی کی روایت کو ہی ترجیح دی جائے گی۔ لہٰذا یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اسد بن موسی نے سفیان بن عیینہ ودیگر حفاظ کی مخالفت کی ہے کیونکہ سفیان وابن نمیر نے یحیی الانصاری کی روایت بیان ہی نہیں کی انہوں نے تو سعد بن سعید کی روایت بیان کی ہے تو مخالفت کیسی؟ اور اس میں بھی ان کا مقابلہ اسد بن موسی سے نہیں لیث بن سعد سے ہے۔
پتہ نہیں یہ وضاحت قابلِ سمجھ ہے یا نہیں۔
واللہ اعلم۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
معجم ابن الاعربی میں اس روایت کا ایک اور شاہد ہے:
نا ابْنُ عَفَّانَ، نا يَحْيَى بْنُ فُضَيْلٍ، نا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، نا أَبُو سَعْدٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وسلم قَالَ: " صَلَّى رَجُلٌ الْفَجْرَ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، فَقِيلَ لَهُ: مَا هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ؟ فَقَالَ: الرَّكْعَتَانِ اللَّتَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ، لَمْ أَكُنْ صَلَّيْتُهُمَا فَلَمْ يَأْمُرْهُ، وَلَمْ يَنْهَهُ
اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں سوائے یحیی بن فضیل کے، وہ حسن بن صالح سے ایک نسخہ کے زریعے روایت کرتے ہیں، اور ان سے کئی لوگ روایت کرتے ہیں، البتہ کتاب الجرح والتعدیل وغیرہ میں ان کا ترجمہ بنا کسی جرح وتعدیل کے منقول ہے، لیکن مستخرج ابو عوانہ اور حاکم وغیرہ میں ان کی روایات موجود ہیں۔ واللہ اعلم
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
جامع الترمذي: أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ تَفُوتُهُ الرَّكْعَتَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ صَلاَةِ الْفَجْرِ)
422
. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ الْبَلْخِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ جَدِّهِ قَيْسٍ
ترجمہ : . قیس (بن عمروبن سہل) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نکلے
[حكم الالبانى] : صحيح، ابن ماجة (1151)-
مرسل حدیث صحیح ہے اور اس سے نتائج اخذ کیے جائیں گے۔
مندرجہ بالا حدیث اگر مرسل تسلیم کر بھی لی جائے تو بھی اس کے تمام راوی ثقة ہیں -
باقی مزید رہنمائی کے لئے نیچے دیے گئے اہل علم اس پر زیادہ بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں -
اہلحدیث کہلانے والوں کے اپنے اصول (صحیح صریح مرفوع غیر مجروح) پر کیا یہ حدیث پوری اترتی ہے؟
سرکردہ اہلحدیث کہلانے والے جواب دیں۔
 
Top