اشماریہ بھائی نے چند علمی پوائینٹس کی نشاندہی کی ہے۔
اس حدیث کو قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ سے درج ذیل لوگ روایت کرتے ہیں:
- محمد بن ابراہیم بن الحارث التیمی (مرسلا) - محمد بن ابراہیم سے اسے روایت کرنے والے
- عبد ربہ بن سعید الانصاری (مرسلا) - ان سے روایت کرنے والے:
- ابن جریج (مصنف عبد الرزاق، مسند احمد)
- حماد بن سلمہ (مشکل الآثار للطحاوی)
- یحیی بن سعید الانصاری عن ابیہ (متصلا) - ان سے روایت کرنے والے:
اشماریہ بھائی کے مطابق اس روایت کو متصلا روایت کرنے میں اسد بن موسی نے غلطی کی ہے لیکن ایسا تبھی کہا جا سکتا ہے جب روایت ایک ہو اور اسے بیان کرنے والوں نے اختلاف کیا ہو۔ جبکہ یہاں پر ایک نہیں تین روایتیں ہیں۔ سعد بن سعید کی محمد بن ابراہیم سے روایت، عبد ربہ کی روایت، اور یحیی بن سعید الانصاری کی روایت۔ اگر کہا جائے کہ یحیی بن سعید الانصاری نے اس روایت میں اپنے دونوں بھائیوں کی مخالفت کی ہے تو انہی کی روایت کو راجح کہا جائے گا کیونکہ ان دونوں میں وہ سب سے زیادہ ثقہ اور حافظ ہیں جبکہ باقی دو پر کچھ کلام ہے۔
اب جب یحیی بن سعید الانصاری کی روایت باقی دو کی روایتوں سے راجح ثابت ہوگئی تو نکارت کا اعتراض تبھی جائز ہو گا جب یحیی بن سعید الانصاری سے روایت کرنے میں کسی نے نکارت کی ہو، نہ کہ یہ دیکھا جائے کہ یحیی کی روایت کے علاوہ دیگر روایتوں میں مخالفت ہے یا نہیں، کیونکہ وہ یحیی کی روایتیں ہے ہی نہیں جبکہ ہم یہاں صرف یحیی تک اس روایت کی سند کی صحت پر بحث کر رہے ہیں۔
اب امام یحیی الانصاری سے اس روایت کو نقل کرنے والے امام لیث بن سعد ہیں جو کہ اعلیٰ درجے کے ثقہ امام ہیں اور ان کے خلاف کسی نے اس روایت میں کوئی دوسری بات نہیں کی ہے۔
اور لیث بن سعد سے پھر اسے اسد بن موسی نے روایت کیا ہے۔ اور ان کے خلاف بھی لیث کے کسی شاگرد نے کوئی دوسری بات نہیں کی ہے۔
تو جب یحیی تک اس سند میں کوئی مخالفت نہیں ہے تو اسد بن موسی کی نکارت کا اعتراض جائز نہیں ہے۔ مخالفت تو یحیی اور ان کے بھائیوں میں ہے لہٰذا نکارت یا ترجیح کا فیصلہ یہاں سے ہونا چاہیے اور یہ بالکل واضح ہے کہ امام یحیی کی روایت کو ہی ترجیح دی جائے گی۔ لہٰذا یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اسد بن موسی نے سفیان بن عیینہ ودیگر حفاظ کی مخالفت کی ہے کیونکہ سفیان وابن نمیر نے یحیی الانصاری کی روایت بیان ہی نہیں کی انہوں نے تو سعد بن سعید کی روایت بیان کی ہے تو مخالفت کیسی؟ اور اس میں بھی ان کا مقابلہ اسد بن موسی سے نہیں لیث بن سعد سے ہے۔
پتہ نہیں یہ وضاحت قابلِ سمجھ ہے یا نہیں۔
واللہ اعلم۔