- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
خلاصہ:
ہماری سابقہ بحث کا لبِ لباب یہ ہے کہ جس کتاب کا مولف خود ثقہ یا کم از کم قابل اعتماد ہو، اس کتاب کی سند صحیح یا حسن ہو، محدثین کے ہاں وہ معتبر ہو، مخطوط کی صحت سے متعلق دیگر شرائط کا لحاظ رکھا گیا ہو، کسی خارجی قرینے سے اس کی صحت مشکوک نہ ہو تو یہ اعلیٰ ترین درجے کی صحیح کتاب ہو گی، یعنی نسبت کے لحاظ سے سو فیصد صحیح کتاب ہو گی۔
اور جس کتاب کی سند موجود ہو یا اس میں کوئی راوی ضعیف ہو، اس کے باوجود محدثین کے ہاں معتبر ہو، وہ اس کتاب کی نسبت پر جرح نہ کرتے ہوں، اس سے استدلال کرتے ہوں، کسی خارجی قرینے سے اس کا غلط ہونا بھی ثابت نہ ہو، اس میں کسی چیز کے زبردستی داخل کیے جانے کی دلیل بھی نہ ہو تو ایسی کتاب یا نسخہ قابلِ قبول ہو گا۔ اس میں جس قدر ضعف ہو گا، اسی تناسب سے اس کی صحت اور ثقاہت میں کمی واقع ہوتی جائے گی۔
ہماری سابقہ بحث کا لبِ لباب یہ ہے کہ جس کتاب کا مولف خود ثقہ یا کم از کم قابل اعتماد ہو، اس کتاب کی سند صحیح یا حسن ہو، محدثین کے ہاں وہ معتبر ہو، مخطوط کی صحت سے متعلق دیگر شرائط کا لحاظ رکھا گیا ہو، کسی خارجی قرینے سے اس کی صحت مشکوک نہ ہو تو یہ اعلیٰ ترین درجے کی صحیح کتاب ہو گی، یعنی نسبت کے لحاظ سے سو فیصد صحیح کتاب ہو گی۔
اور جس کتاب کی سند موجود ہو یا اس میں کوئی راوی ضعیف ہو، اس کے باوجود محدثین کے ہاں معتبر ہو، وہ اس کتاب کی نسبت پر جرح نہ کرتے ہوں، اس سے استدلال کرتے ہوں، کسی خارجی قرینے سے اس کا غلط ہونا بھی ثابت نہ ہو، اس میں کسی چیز کے زبردستی داخل کیے جانے کی دلیل بھی نہ ہو تو ایسی کتاب یا نسخہ قابلِ قبول ہو گا۔ اس میں جس قدر ضعف ہو گا، اسی تناسب سے اس کی صحت اور ثقاہت میں کمی واقع ہوتی جائے گی۔