• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سند ِ کتاب اور منہجِ محدثین

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
خلاصہ:
ہماری سابقہ بحث کا لبِ لباب یہ ہے کہ جس کتاب کا مولف خود ثقہ یا کم از کم قابل اعتماد ہو، اس کتاب کی سند صحیح یا حسن ہو، محدثین کے ہاں وہ معتبر ہو، مخطوط کی صحت سے متعلق دیگر شرائط کا لحاظ رکھا گیا ہو، کسی خارجی قرینے سے اس کی صحت مشکوک نہ ہو تو یہ اعلیٰ ترین درجے کی صحیح کتاب ہو گی، یعنی نسبت کے لحاظ سے سو فیصد صحیح کتاب ہو گی۔
اور جس کتاب کی سند موجود ہو یا اس میں کوئی راوی ضعیف ہو، اس کے باوجود محدثین کے ہاں معتبر ہو، وہ اس کتاب کی نسبت پر جرح نہ کرتے ہوں، اس سے استدلال کرتے ہوں، کسی خارجی قرینے سے اس کا غلط ہونا بھی ثابت نہ ہو، اس میں کسی چیز کے زبردستی داخل کیے جانے کی دلیل بھی نہ ہو تو ایسی کتاب یا نسخہ قابلِ قبول ہو گا۔ اس میں جس قدر ضعف ہو گا، اسی تناسب سے اس کی صحت اور ثقاہت میں کمی واقع ہوتی جائے گی۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اس پوری تحریر میں مقالہ نگار نے متعدد مقامات پر یہ لکھاہے کہ جس کتاب کو محدثین صحیح تسلیم کریں، کتاب کی صحت کیلئے محدثین خاص نہیں ہیں، اہل علم کے درمیان وہ کتاب مشہور ہونی چاہئے، بطورخاص جس فن کی کتاب ہے اس فن کے ماہرین کےد رمیان وہ کتاب مقبول ہو۔
 
شمولیت
نومبر 18، 2014
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
54
خلاصہ:
ہماری سابقہ بحث کا لبِ لباب یہ ہے کہ جس کتاب کا مولف خود ثقہ یا کم از کم قابل اعتماد ہو، اس کتاب کی سند صحیح یا حسن ہو، محدثین کے ہاں وہ معتبر ہو، مخطوط کی صحت سے متعلق دیگر شرائط کا لحاظ رکھا گیا ہو، کسی خارجی قرینے سے اس کی صحت مشکوک نہ ہو تو یہ اعلیٰ ترین درجے کی صحیح کتاب ہو گی، یعنی نسبت کے لحاظ سے سو فیصد صحیح کتاب ہو گی۔
اور جس کتاب کی سند موجود ہو یا اس میں کوئی راوی ضعیف ہو، اس کے باوجود محدثین کے ہاں معتبر ہو، وہ اس کتاب کی نسبت پر جرح نہ کرتے ہوں، اس سے استدلال کرتے ہوں، کسی خارجی قرینے سے اس کا غلط ہونا بھی ثابت نہ ہو، اس میں کسی چیز کے زبردستی داخل کیے جانے کی دلیل بھی نہ ہو تو ایسی کتاب یا نسخہ قابلِ قبول ہو گا۔ اس میں جس قدر ضعف ہو گا، اسی تناسب سے اس کی صحت اور ثقاہت میں کمی واقع ہوتی جائے گی۔

بھائی آج کل اکثر لوگ ایک سوال کرتے ہیں کے جب کتب حدیث موجود نہیں تھیں تو لوگ اس وقت حدیث پر عمل کیسے کرتے تھے ۔۔۔۔۔ اکثر بریلوی اور دیوبندی حضرات چیہ سوال کرتے ہیں ۔۔۔ برائے مہربانی اس کا جواب دیں اگر اس کی تصدیق قرآن و حدیث سے ہو جاے تو الحمدوللہ اکثر منکروں کی زبان کو تالہ لگا جائے گا ان شاءاللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بھائی آج کل اکثر لوگ ایک سوال کرتے ہیں کے جب کتب حدیث موجود نہیں تھیں تو لوگ اس وقت حدیث پر عمل کیسے کرتے تھے ۔۔۔۔۔ اکثر بریلوی اور دیوبندی حضرات چیہ سوال کرتے ہیں ۔۔۔ برائے مہربانی اس کا جواب دیں اگر اس کی تصدیق قرآن و حدیث سے ہو جاے تو الحمدوللہ اکثر منکروں کی زبان کو تالہ لگا جائے گا ان شاءاللہ
قرآن کریم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نازل ہوتا تھا، لیکن ایک ’ کتاب‘ یعنی ’ مصحف‘ کی شکل میں نہیں تھا، لوگ براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد کرلیتے ، یا اسے اپنے پاس لکھ کر محفوظ کرلیتے۔
بعد میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے مکمل قرآن کریم ایک ’ کتاب‘ کی شکل میں تیار کروا دیا۔
حضرت عثمان بن عفان کے عہد سے پہلے بھی قرآن کریم پر عمل ہوتا تھا، اور بعد میں بھی۔ کوئی معترض یہ نہیں کہے گا کہ قرآن تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے بعد جمع ہواہے، پہلے لوگ کس پر عمل کرتے تھے؟
کیونکہ قرآن کریم بہر صورت سینوں میں محفوظ اور اجزاء و صحائف اور قطعات کی شکل میں موجود تھا۔
اسی طرح احادیث بھی باقاعدہ کتابوں کی شکل میں مدون و مرتب ہونے سے پہلے موجود تھیں، لوگوں کو زبانی یاد تھیں، یا انہوں نے اپنے طور پر الگ الگ لکھی ہوئی تھیں۔
اعتراض کرنے والے کتب احادیث پڑھ کر تو دیکھیں، مثال کے طور پر بخاری شریف دیکھ لیں، امام صاحب نے جتنی بھی احادیث اس میں نقل کی ہیں، سب کے شروع یا آخر میں یہ وضاحت درج ہے کہ یہ احادیث انہوں نے کہاں سے لی ہیں، پورا سلسلہ سند موجود ہے، جو حدیث کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت کی واضح دلیل ہے۔
 
شمولیت
نومبر 18، 2014
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
54
قرآن کریم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نازل ہوتا تھا، لیکن ایک ’ کتاب‘ یعنی ’ مصحف‘ کی شکل میں نہیں تھا، لوگ براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد کرلیتے ، یا اسے اپنے پاس لکھ کر محفوظ کرلیتے۔
بعد میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے مکمل قرآن کریم ایک ’ کتاب‘ کی شکل میں تیار کروا دیا۔
حضرت عثمان بن عفان کے عہد سے پہلے بھی قرآن کریم پر عمل ہوتا تھا، اور بعد میں بھی۔ کوئی معترض یہ نہیں کہے گا کہ قرآن تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے بعد جمع ہواہے، پہلے لوگ کس پر عمل کرتے تھے؟
کیونکہ قرآن کریم بہر صورت سینوں میں محفوظ اور اجزاء و صحائف اور قطعات کی شکل میں موجود تھا۔
اسی طرح احادیث بھی باقاعدہ کتابوں کی شکل میں مدون و مرتب ہونے سے پہلے موجود تھیں، لوگوں کو زبانی یاد تھیں، یا انہوں نے اپنے طور پر الگ الگ لکھی ہوئی تھیں۔
اعتراض کرنے والے کتب احادیث پڑھ کر تو دیکھیں، مثال کے طور پر بخاری شریف دیکھ لیں، امام صاحب نے جتنی بھی احادیث اس میں نقل کی ہیں، سب کے شروع یا آخر میں یہ وضاحت درج ہے کہ یہ احادیث انہوں نے کہاں سے لی ہیں، پورا سلسلہ سند موجود ہے، جو حدیث کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت کی واضح دلیل ہے۔
بہت شکریا بھائی ۔۔۔۔۔ جزاک اللہ
 
Top