39- بَاب طَاعَةِ الإِمَامِ
۳۹- باب: اما م کی اطاعت و فرماں بر داری کا بیان
2859- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمَنْ أَطَاعَ الإِمَامَ فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ عَصَى الإِمَامَ فَقَدْ عَصَانِي "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: (۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۷۷) (صحیح)
۲۸۵۹- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جس نے میر ی بات ما نی اس نے اللہ کی بات ما نی، اور جس نے میر ی نا فرمانی کی اس نے اللہ کی نا فرمانی کی، ( اسی طرح) جس نے امام کی بات مانی اس نے میری بات مانی، اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نا فرما نی کی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حدیث سے یہ معلوم ہواکہ امام کی اطاعت فرض ہے اور اس کی نافرمانی رسول کی نافرمانی ہے مگر یہ جب تک ہے کہ امام کا حکم شریعت کے خلاف نہ ہو، اگر مسئلہ اختلافی ہو اور امام ایک قول پر چلنے کا حکم دے تو اس کی اطاعت کرنی چاہئے ، لیکن جو بات صریح اور بالاتفاق شریعت کے خلاف ہو اس میں اطاعت نہ کرنی چاہئے ، دوسری حدیث میں ہے کہ خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔
2860- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَأَبُو بِشْرٍ، بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي أَبُو التَّيَّاحِ ،عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "اسْمَعُوا، وَأَطِيعُوا، وَإِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۹)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۵۴ (۶۹۳)، حم (۳/۱۱۴، ۱۷۱) (صحیح)
۲۸۶۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''سنو اور اطا عت کرو، گرچہ تم پر حبشی غلام ہی امیر (حاکم) کیوں نہ بنا دیا جا ئے، جس کا سر منقی (کشمش) کی طرح ہو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حبشی چھوٹے سروالا امامت کبری (خلافت) کے لائق ہے کیونکہ امامت کبری کے لئے قرشی ہونا شرط ہے ، بلکہ حدیث کا یہ مطلب ہے کہ امام کے حکم سے اگر کسی لشکر یا ٹکڑی کا سردار معمولی حیثیت کا بھی بنادیا جائے تو بھی امام کے حکم کی اطاعت کرنی چاہئے اور اس کے بنائے ہوئے امیر اورسردار کی اطاعت پر اعتراض اور اس کی مخالفت نہ کرنا چاہئے ، اور بعضوں نے کہا : یہ مبالغہ کے طور پر فرمایاہے ، یعنی اگر بالفرض حبشی بھی تمہارا امام ہو تو اس کی اطاعت بھی لازم ہے، اور اس حدیث میں امام اور حاکم کی اطاعت کی بھرپور ترغیب ہے ۔
2861- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ الْحُصَيْنِ ؛ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " إِنْ أُمِّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ مُجَدَّعٌ " فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، مَا قَادَكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ "۔
* تخريج: م/الحج ۵۱ (۱۲۹۸)، الإمارۃ ۸ (۱۸۳۸)، ن/البیعۃ ۲۶ (۴۱۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۶۹، ۵/۳۸۱، ۶/۴۰۲، ۴۰۳) (صحیح)
۲۸۶۱- ام الحصین رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرما تے ہو ئے سنا:'' اگر تم پر کوئی نک کٹا حبشی غلام امیر (حاکم) بنا دیا جا ئے تو بھی اس کی با ت سنو اور مانو، جب تک کہ وہ اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق تمہا ری سربراہی کرتا رہے''۔
2862- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى الرَّبَذَةِ، وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلاةُ فَإِذَا عَبْدٌ يَؤُمُّهُمْ، فَقِيلَ: هَذَا أَبُو ذَرٍّ، فَذَهَبَ يَتَأَخَّرُ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: أَوْصَانِي خَلِيلِي ﷺ أَنْ أَسْمَعَ وَأُطِيعَ، وَإِنْ كَانَ عَبْدًا حَبَشِيًّا مُجَدَّعَ الأَطْرَافِ۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۸ (۱۸۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۵۰)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۱۲۵۶) (صحیح)
۲۸۶۲- ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ وہ مقام ربذہ میں پہنچے تو صلاۃ کے لیے تکبیر کہی جا چکی تھی، توکیا دیکھتے ہیں کہ ایک غلام لوگوں کی اما مت کر رہا ہے، اس سے کہا گیا: یہ ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں، یہ سن کر وہ پیچھے ہٹنے لگاتو ابو ذررضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے خلیل (جگری دوست) محمد ﷺ نے مجھے یہ وصیت کی کہ امام گر چہ اعضاء کٹا حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو میں اس کی با ت سنو ں اور مانوں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر حال میں جماعت المسلمین سے اتفاق کا خیال رکھنا ضروری ہے اور اگر کسی مستحب یا مسنون امر کی وجہ سے اتفاق ختم ہو جانے کا اندیشہ ہو تو جب تک یہ اندیشہ باقی رہے، اس امر مستحب یا مسنون سے باز رہ سکتے ہیں ، لیکن جہاں تک ہوسکے حکمت عملی سے لوگوں کو سمجھا دینا چاہئے کہ یہ فعل مستحب اور سنت رسول ہے، اور اس کے لئے فتنہ و فساد کرنا صریح غیر ایمانی بات ہے ۔