• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3 3 - بَاب مَا أَحْرَزَ الْعَدُوُّ ثُمَّ ظَهَرَ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ
۳۳- باب: دشمن نے مسلمانوں کے مال پر قبضہ کرلیا پھرمسلمان ان پر غالب آگئے اور وہی مال ان کے ہاتھ لگ گیا تو اس کے حکم کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : وہ مال اس کے اصلی مالک کو دے دیا جائے گا ۔


2847- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ،عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: ذَهَبَتْ فَرَسٌ لَهُ، فَأَخَذَهَا الْعَدُوّ، فَظَهَرَ عَلَيْهِمُ الْمُسْلِمُونَ، فَرُدَّ عَلَيْهِ فِي زَمَنِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، قَالَ: وَأَبَقَ عَبْدٌ لَهُ، فَلَحِقَ بِالرُّومِ، فَظَهَرَ عَلَيْهِمُ الْمُسْلِمُونَ، فَرَدَّهُ عَلَيْهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ۔
* تخريج: خ/الجہاد ۱۸۷ (۳۰۶۷ تعلیقاً)، د/الجہاد ۱۳۵ (۲۶۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۴۳) (صحیح)
۲۸۴۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کا ایک گھوڑا چلا گیا، اور اسے د شمن نے پکڑلیا ،پھر مسلمان ان پر غالب آگئے، تو رسول اللہﷺ کے زمانے میں وہ انہیں لوٹایا گیا، ان کا ایک غلام بھی بھاگ گیا، اور روم (کے نصاریٰ) سے جاملا، پھر مسلمان ان پر غالب آگئے ، تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ان کو واپس کردیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کی اونٹنی عضباء کو کافر لے گئے ، پھر ایک عورت اس پر چڑھ کر مسلمانوں کے پاس آگئی، تو اس کے نحر کرنے کی اس نے نذر کی ،نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ''جو نذر گناہ کی ہو ، یا اپنی ملکیت میں نہ ہو وہ پوری نہ کی جائے '' ، علماء کا یہی قول ہے کہ کافر غلبہ سے مسلمانوں کے کسی چیز کے مالک نہ ہوں گے اور جب وہ چیز پھر ہاتھ آئے تو اس کا مالک لے لے گا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
34 - بَاب الْغُلُولِ
۳۴- باب: مال غنیمت میں خیانت اورچوری کا بیان​


2848- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ؛ قَالَ: تُوُفِّيَ رَجُلٌ مِنْ أَشْجَعَ بِخَيْبَرَ، فَقَالَ: النَّبِيُّ ﷺ " صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ "، فَأَنْكَرَ النَّاسُ ذَلِكَ، وَتَغَيَّرَتْ لَهُ وُجُوهُهُمْ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَالَ: " إِنَّ صَاحِبَكُمْ ! غَلَّ فِي سَبِيلِ اللَّهِ " قَالَ زَيْدٌ: فَالْتَمَسُوا فِي مَتَاعِهِ، فَإِذَا خَرَزَاتٌ مِنْ خَرَزِ يَهُودَ، مَا تُسَاوِي دِرْهَمَيْنِ۔
* تخريج: د/الجہاد ۱۴۳ (۲۷۱۰)، ن/الجنائز ۶۶ (۱۹۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۶۷)، وقد أخرجہ: ط/الجہاد۱۳ (۲۳)، حم (۴/۱۱۴، ۵/۱۹۲) (ضعیف)
(ابوعمرہ مجہول العین راوی ہے)
۲۸۴۸- زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ اشبحع کے ایک شخص کا خیبر میں انتقال ہو گیا تونبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''تم لوگ اپنے ساتھی کی صلاۃ (جنازہ ) پڑ ھ لو، لوگوں کو یہ بات پسند نہ آئی، جس سے ان کے چہروں کے رنگ اُڑگئے ، آپ ﷺ نے جب یہ صورت حال دیکھی تو فرمایا: ''تمہا رے ساتھی نے اللہ کے راستے میں( حاصل شدہ مال غنیمت میں) خیانت کی ہے '' ۔
زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر لوگوں نے اس کے سامان کی تلا شی لی توکیا دیکھتے ہیں کہ یہود کے مونگوں میں سے کچھ مونگے جو کہ دو درہم کے برابر تھے اس کے سامان میں موجود تھے ۔


2849- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو؛ قَالَ: كَانَ عَلَى ثَقَلِ النَّبِيِّ ﷺ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: كِرْكِرَةُ فَمَاتَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " هُوَ فِي النَّارِ " فَذَهَبُوا يَنْظُرُونَ فَوَجَدُوا عَلَيْهِ كِسَائً أَوْ عَبَائَةً، قَدْ غَلَّهَا۔
* تخريج: خ/الجہاد ۱۹۰ (۳۰۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۳۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۰) (صحیح)
۲۸۴۹- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے سامان کی نگہبانی پر کرکرہ نامی ایک شخص تھا، اس کا انتقال ہوگیا تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' وہ جہنم میں ہے''،لوگ اس کا سامان دیکھنے لگے تو اس میں ایک کملی یا عباء ملی جو اس نے مال غنیمت میں سے چرالی تھی۔


2850- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عِيسَى بْنِ سِنَانٍ عَنْ يَعْلَى بْنِ شَدَّادٍ،عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ؛ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ حُنَيْنٍ إِلَى جَنْبِ بَعِيرٍ مِنَ الْمَقَاسِمِ، ثُمَّ تَنَاوَلَ شَيْئًا مِنَ الْبَعِيرِ، فَأَخَذَ مِنْهُ قَرَدَةً، يَعْنِي: وَبَرَةً، فَجَعَلَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّ هَذَا مِنْ غَنَائِمِكُمْ، أَدُّوا الْخَيْطَ وَالْمِخْيَطَ، فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ فَمَا دُونَ ذَلِكَ، فَإِنَّ الْغُلُولَ عَارٌ عَلَى أَهْلِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَشَنَارٌ وَنَارٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۲۱ ، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۰۹) (حسن صحیح)
(سند میں عیسیٰ بن سنان لین الحدیث راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے)
۲۸۵۰- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں جنگِ حنین کے دن مال غنیمت کے ایک اونٹ کے پہلو میں صلاۃ پڑھا ئی، صلاۃ کے بعد آپ ﷺ نے اونٹ میں سے کو ئی چیز لی جیسے اونٹ کا بال اور اسے اپنی انگلیوں سے پکڑا پھر فرمایا:'' لوگو! یہ بھی تمہا رے مال غنیمت کا حصہ ہے، لہٰذا دھا گہ سوئی نیز اس سے چھو ٹی اور بڑی چیز بھی جمع کردو کیونکہ مالِ غنیمت میںخیانت ( چوری) کرنے والے کے لئے قیامت کے دن باعث عار( ندامت) وشنار (عیب) اور باعث نار (عذاب) ہوگی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی قیامت کے دن اس کی چوری ظاہر کی جائے گی تو لوگوں میں رسوائی ہوگی ، عذاب الگ ہوگا اور جس قدر ذرہ سی چیز ہو اس کی چوری جب کھلے گی تو اور زیادہ رسوائی ہے ،اس لئے مومن کو چاہئے کہ غنیمت کاکل مال حاکم کے سامنے پیش کردے ایک سوئی یا دھاگہ بھی اپنے پاس نہ رکھ چھوڑے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
35- بَاب النَّفْلِ
۳۵- باب: مال غنیمت میں سے ہبہ کرنے کا بیان​


2851- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ جَارِيَةَ،عَنْ حَبِيبِ بْنِ مَسْلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَفَّلَ الثُّلُثَ بَعْدَ الْخُمُسِ "۔
* تخريج: د/الجہاد ۱۵۸ (۲۷۴۸، ۲۷۴۹، ۲۷۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۵۹، ۱۶۰)، دي/السیر ۴۳ (۲۵۲۶) (صحیح)
۲۸۵۱- حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ نبی اکرمﷺ مال غنیمت میں سے خمس (پانچواں حصہ جو اللہ او ر اس کے رسول کا حق ہے ) نکال لینے کے بعد مال غنیمت کا ایک تہائی بطو ر نفل ہبہ اور عطیہ دیتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ اللہ اور رسول کا ہے ،اور باقی چار حصے مجاہد ین میں تقسیم کئے جائیں، اور امام کو اختیار ہے کہ باقی ان چارحصوں ۴/۵ میں جسے جتناچاہے ، عطیہ دے ۔


2852- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ الزُّرَقِيِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي سَلامٍ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَفَّلَ فِي الْبَدْأَةِ الرُّبُعَ، وَفِي الرَّجْعَةِ الثُّلُثَ۔
* تخريج: ت/السیر ۱۲ (۱۵۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۹۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۱۹، ۳۲۲، ۳۲۳)، دي/السیر ۴۲ (۲۵۲۵) (صحیح)
(سابقہ حدیث کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، اس کی سند میں عبد الرحمن بن الحارث اور سلمان بن موسیٰ کی وجہ سے ضعف ہے)
۲۸۵۲- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ نبی اکرم ﷺ شروع لڑائی میں ملنے والے مال غنیمت کا چوتھا حصہ بطور ہبہ دیتے، اور لو ٹتے وقت تہا ئی حصہ دیتے ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ لوٹتے وقت پھر لڑائی کرنا دشوار ہوتا ہے اس لئے اس میں زیادہ عطیہ مقرر کیا۔


2853- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ، أَنْبَأَنَا رَجَاءُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو ابْنُ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: لا نَفَلَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، يَرُدُّ الْمُسْلِمُونَ قَوِيُّهُمْ عَلَى ضَعِيفِهِمْ، قَالَ رَجَائٌ: فَسَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ مُوسَى يَقُولُ لَهُ: حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ عَنْ حَبِيبِ بْنِ مَسْلَمَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَفَّلَ فِي الْبَدْأَةِ الرُّبُعَ، وَحِينَ قَفَلَ الثُّلُثَ فَقَالَ عَمْرٌو: أُحَدِّثُكَ عَنْ أَبِي، عَنْ جَدِّي، وَتُحَدِّثُنِي عَنْ مَكْحُولٍ ؟!۔
* تخريج: حدیث عبد اللہ بن عمرو تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۰۵ ، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۱۰)، وحدیث حبیب بن مسلمۃ تقدم تخریجہ، (۲۸۵۱) (صحیح)
۲۸۵۳- عبد اللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے بعد مال غنیمت سے ہبہ اور عطیہ کا سلسلہ ختم ہو گیا، اب طا قتور مسلمان کمزورمسلمانوں کو مال لو ٹا ئیں گے ۱ ؎ ۔
حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے شروع لڑائی میں ملنے والے کو مال غنیمت کا چو تھائی حصہ بطور ہبہ اور عطیہ دیا، اور لو ٹتے وقت تہا ئی حصہ دیا ۲؎ ۔
تو عمرو بن شعیب نے سلیمان بن موسیٰ سے کہا کہ میں تمہیں اپنے والد کے واسطہ سے اپنے دادا (عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما ) سے روایت کر رہاہوں اور تم مجھ سے مکحو ل کے حوالے سے بیان کررہے ہو؟ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی طاقتورلوگوں کے ذریعہ حاصل شدہ مال میں کمزوروں کا بھی حصہ ہو گا۔
وضاحت ۲؎ : یعنی مال غنیمت میں سب مسلمان برابر کے شریک ہوں گے اور برابر حصہ پائیں گے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
36- بَاب قِسْمَةِ الْغَنَائِمِ
۳۶- باب: مال غنیمت کی تقسیم کا بیان​


2854- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَسْهَمَ يَوْمَ خَيْبَرَ لِلْفَارِسِ ثَلاثَةَ أَسْهُمٍ: لِلْفَرَسِ سَهْمَانِ، وَلِلرَّجُلِ سَهْمٌ ۔
* تخريج: د/الجہاد ۱۵۴ (۲۷۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۱۱۱)، وقد أخرجہ: خ/الجہاد ۵۱ (۲۸۶۳)، م/الجہاد ۱۷ (۱۷۶۲)، ت/السیر ۶ (۱۵۵۴)، حم (۲/۲، ۶۲)، دي/السیر۳۳ (۲۵۱۵) (صحیح)
۲۸۵۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے جنگِ خیبر میں گھوڑ سوار کے لیے تین حصے متعین فرمائے، دو حصے گھو ڑے کے، اور ایک حصہ آدمی کا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
37- بَاب الْعَبِيدِ وَالنِّسَاءِ يَشْهَدُونَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ
۳۷- باب: مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں غلام اورعورتوں کی شرکت​


2855- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ مُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَيْرًا، مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ (قَالَ وَكِيعٌ: كَانَ لا يَأْكُلُ اللَّحْمَ) قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ مَوْلايَ يَوْمَ خَيْبَرَ، وَأَنَا مَمْلُوكٌ، فَلَمْ يَقْسِمْ لِي مِنَ الْغَنِيمَةِ، وَأُعْطِيتُ مِنْ خُرْثِيِّ الْمَتَاعِ سَيْفًا وَكُنْتُ أَجُرُّهُ إِذَا تَقَلَّدْتُهُ۔
* تخريج: د/الجہاد ۱۵۲ (۲۷۳۰)، ت/السیر ۹ (۱۵۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۹۸)، وقد أخرجہ: حم ۵/۲۲۳)، دي/السیر ۳۵ (۲۵۱۸) (حسن)
۲۸۵۵- محمد بن زید کہتے ہیں کہ میں نے آبی اللحم (وکیع کہتے ہیں کہ وہ گوشت نہیں کھا تے تھے) کے غلام عمیر رضی اللہ عنہما سے سنا؛ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے مالک کے ہمراہ خیبر کے دن جہاد کیا، چو نکہ میں غلام تھا لہٰذا مجھے مال غنیمت میں حصہ نہیں ملا، صرف ردی چیزوں میں سے ایک تلوار ملی، جب اسے میں لٹکا کر چلتاتو ( وہ اتنی لمبی تھی ) کہ وہ گھسٹتی رہتی تھی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس وجہ سے کہ تلوار لمبی ہوگی یا ان کا قد چھوٹا ہوگا لیکن امام جو مناسب سمجھے انعام کے طور پر ان کو دے،صحیح مسلم میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا :غلام اور عورت کا کوئی حصہ معین تھا، جب وہ لوگوں کے ساتھ حاضرہوں ، توانہوں نے جو اب دیاکہ ان دونوں کا کوئی حصہ متعین نہ تھا مگر یہ کہ مال غنیمت میں سے کچھ ان کو دیا جائے، اور ایک روایت میں یوں ہے کہ نبی اکر م ﷺ جہاد میں عورتوں کو رکھتے تھے ،وہ دو زخمیوں کا علاج کرتیں اور مال غنیمت میں سے کچھ انعام ان کو دیا جاتا لیکن ان کا حصہ مقرر نہیں کیا گیا۔


2856- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ الأنصَارِيَّةِ؛ قَالَتْ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ سَبْعَ غَزَوَاتٍ، أَخْلُفُهُمْ فِي رِحَالِهِمْ، وَأَصْنَعُ لَهُمُ الطَّعَامَ، وَأُدَاوِي الْجَرْحَى، وَأَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى۔
* تخريج: م/الجہاد ۴۸ (۱۸۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۳۷)، وقد أخرجہ: خ/الحیض ۲۴ (۳۲۴)، الحج ۸۱ (۱۶۵۲)، دي/الجہاد ۳۰ (۲۴۶۶) (صحیح)
۲۸۵۶- ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ہمراہ سا ت غزوات میں شرکت کی تھی، مردوں کی غیر مو جو دگی میں ان کے ڈیروں میں رہتی، ان کے لئے کھا نا بنا تی ، زخمیوں کا علا ج کر تی اور بیما روں کی دیکھ بھال کر تی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
38- بَاب وَصِيَّةِ الإِمَامِ
۳۸- باب: مجاہدین کو امام اور حاکم کی وصیت​


2857- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلالُ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنِي عَطِيَّةُ بْنُ الْحَارِثِ أَبُو رُوقٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو الْغَرِيفِ عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ؛ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي سَرِيَّةٍ، فَقَالَ: " سِيرُوا بِاسْمِ اللَّهِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، وَلا تَمْثُلُوا، وَلا تَغْدِرُوا، وَلا تَغُلُّوا، وَلا تَقْتُلُوا وَلِيدًا "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۵۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۴۰) (حسن صحیح)
۲۸۵۷- صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے ایک فو جی دستے میں بھیجا تو فرمایا:''اللہ کے نام پر، اللہ کے را ستے میں جا ئو، جو اللہ تعالی کے سا تھ کفر کرے اس سے لڑو، لیکن مثلہ نہ کرنا، ( ناک کان مت کاٹنا) عہد شکنی نہ کرنا، مال غنیمت میں چوری نہ کرنا،اور بچے کو قتل نہ کرنا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دوسری روایت میں اتنا زیادہ ہے :اور نہ عورت کو نہ شیخ فانی کوقتل کرنا یعنی ایسے بوڑھے کو جو لڑائی کے قابل نہ رہا ہو ۔


2858- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا أَمَّرَ رَجُلا عَلَى سَرِيَّةٍ، أَوْصَاهُ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا، فَقَالَ: " اغْزُوا بِاسْمِ اللَّهِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، اغْزُوا وَلا تَغْدِرُوا، وَلا تَغُلُّوا وَلا تَمْثُلُوا وَلا تَقْتُلُوا وَلِيدًا، وَإِذَا أَنْتَ لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَادْعُهُمْ إِلَى إِحْدَى ثَلاثِ خِلالٍ، أَوْ خِصَالٍ، فَأَيَّتُهُنَّ أَجَابُوكَ إِلَيْهَا فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمُ: ادْعُهُمْ إِلَى الإِسْلامِ، فَإِنْ أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ، وَأَخْبِرْهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ أَنَّ لَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ، وَأَنَّ عَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ، وَإِنْ أَبَوْا فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ، يَجْرِي عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللَّهِ الَّذِي يَجْرِي عَلَى الْمُؤْمِنِينَ، وَلايَكُونُ لَهُمْ فِي الْفَيْئِ وَالْغَنِيمَةِ شَيْئٌ، إِلا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا أَنْ يَدْخُلُوا فِي الإِسْلامِ، فَسَلْهُمْ إِعْطَاءَ الْجِزْيَةِ، فَإِنْ فَعَلُوا فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْ، فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ عَلَيْهِمْ وَقَاتِلْهُمْ، وَإِنْ حَاصَرْتَ حِصْنًا، فَأَرَادُوكَ أَنْ تَجْعَلَ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ نَبِيِّكَ، فَلا تَجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَلا ذِمَّةَ نَبِيِّكَ، وَلَكِنِ اجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّتَكَ وَذِمَّةَ أَبِيكَ وَذِمَّةَ أَصْحَابِكَ، فَإِنَّكُمْ، إِنْ تُخْفِرُوا ذِمَّتَكُمْ وَذِمَّةَ آبَائِكُمْ أَهْوَنُ عَلَيْكُمْ مِنْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ رَسُولِهِ، وَإِنْ حَاصَرْتَ حِصْنًا فَأَرَادُوكَ أَنْ يَنْزِلُوا عَلَى حُكْمِ اللَّهِ، فَلا تُنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ، وَلَكِنْ أَنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِكَ، فَإِنَّكَ لا تَدْرِي أَتُصِيبُ فِيهِمْ حُكْمَ اللَّهِ أَمْ لا؟ "، قَالَ عَلْقَمَةُ: فَحَدَّثْتُ بِهِ مُقَاتِلَ بْنَ حَيَّانَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ هَيْضَمٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، مِثْلَ ذَلِكَ۔
* تخريج: م/الجہاد ۲ (۱۷۳۱)، د/الجہاد ۹۰ (۲۶۱۲، ۲۶۱۳)، ت/السیر ۴۸ (۱۶۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۵۲، ۳۵۸)، دي/السیر ۵ (۲۴۸۳) (صحیح)
۲۸۵۸- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب کسی فو جی دستے پر کسی شخص کو امیر متعین فرما تے تو اسے ذاتی طو ر پر اللہ سے ڈرتے رہنے اور اپنے سا تھی مسلمانوں کے سا تھ حسن سلوک کرنے کی وصیت کر تے، اور فرماتے: ''اللہ کے را ستے میں اللہ کانام لے کر لڑنا، جو اللہ کے ساتھ کفر کرے اس سے لڑنا، اوربد عہدی نہ کرنا،(مال غنیمت میں) خیانت نہ کرنا، مثلہ نہ کرنا ، اور کسی بچے کو قتل نہ کرنا، جب مشرکوں میں سے اپنے دشمن سے مڈ بھیڑ ہو تو انہیں تین باتوں میں سے ایک کی دعوت دینا، ان میں سے جس با ت پر وہ راضی ہو جا ئیں اسے قبول کرنا، اور ان سے جنگ سے رک جانا (سب سے پہلے ) انہیں اسلام کی دعوت دینا، اگر وہ قبول کر لیں تو ان کا اسلام قبول کرنا، اور ان کے قتل سے باز رہنا، پھر انہیں گھر با ر چھو ڑ کر مہا جرین کے سا تھ رہنے کی دعوت دینا، اور انہیں بتانا کہ اگر وہ ایسا گریں گے تو انہیں مہا جرین جیسے حقوق حاصل ہو ں گے، اور جرم وسزا کا جو قانون مہاجرین کے لیے ہے وہی ان کے لیے بھی ہوگا، اگر وہ ہجرت کر نے سے انکا ر کریں تو انہیں بتا ناکہ ان کا حکم اعرابی( دیہاتی) مسلمانوں جیسا ہو گا، اللہ تعالی کے جو احکام مسلمانوں پر جاری ہو تے ہیں ان پر بھی جاری ہوں گے، لیکن مال غنیمت میں اور اس مال میں جو کافروں سے جنگ کے بغیر ہاتھ آجائے، ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا، مگر اس صورت میں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں، اگر وہ اسلام میں داخل ہو نے سے انکا ر کریں، تو ان سے جز یہ دینے کا مطالبہ کرنا، اگر وہ جزیہ دیں توان سے قبول کرنا، اور ان سے اپنا ہاتھ روک لینا، اور اگر وہ انکار کریں تو ( کا میا بی کے لیے) اللہ تعالی سے مدد مانگنا،اور ان سے جنگ کرنا، اگر تم کسی قلعہ کا محاصرہ کر لو اور قلعہ والے تم سے اللہ اور نبی کا عہد کرانا چاہیں تواللہ اور نبی کا عہد مت دینا، بلکہ اپنا،اپنے باپ کا،اور ا پنے ساتھیوں کا ذمہ دینا، کیوں کہ تم اپنا اور اپنے باپ کا ذمہ اللہ اور رسول کے ذمہ کے مقابلے میں آسانی سے تو ڑ سکتے ہو، اگر تم نے کسی قلعے کا محاصرہ کر لیا، اور وہ اللہ کے حکم پر اتر نا چاہیں تو انہیں اللہ کے حکم پہ مت اتارنا، بلکہ اپنے حکم پہ اتارنا کیوں کہ تمہیں کیا معلوم کہ ان کے بارے میں تم اللہ کے حکم پر چل رہے ہو یا نہیں ۱؎ ۔
علقمہ کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث مقاتل بن حیان سے بیان کی ، انہوں نے کہا: مجھ سے مسلم بن ہیضم نے بیان کی، مسلم نے نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کی۔
وضاحت ۱؎ : امام نووی کہتے ہیں : اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ فئی او رغنیمت میں دیہات کے مسلمانوں کا حصہ نہیں جو اسلام لانے کے بعد اپنے ہی وطن میں رہے ، بشرطیکہ وہ جہاد میں شریک نہ ہوں ، دوسرے یہ کہ ہر ایک کافر سے جزیہ لینا جائز ہے عربی ہو یا عجمی ، کتابی ہو یا غیر کتابی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
39- بَاب طَاعَةِ الإِمَامِ
۳۹- باب: اما م کی اطاعت و فرماں بر داری کا بیان​


2859- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمَنْ أَطَاعَ الإِمَامَ فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ عَصَى الإِمَامَ فَقَدْ عَصَانِي "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: (۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۷۷) (صحیح)
۲۸۵۹- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جس نے میر ی بات ما نی اس نے اللہ کی بات ما نی، اور جس نے میر ی نا فرمانی کی اس نے اللہ کی نا فرمانی کی، ( اسی طرح) جس نے امام کی بات مانی اس نے میری بات مانی، اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نا فرما نی کی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حدیث سے یہ معلوم ہواکہ امام کی اطاعت فرض ہے اور اس کی نافرمانی رسول کی نافرمانی ہے مگر یہ جب تک ہے کہ امام کا حکم شریعت کے خلاف نہ ہو، اگر مسئلہ اختلافی ہو اور امام ایک قول پر چلنے کا حکم دے تو اس کی اطاعت کرنی چاہئے ، لیکن جو بات صریح اور بالاتفاق شریعت کے خلاف ہو اس میں اطاعت نہ کرنی چاہئے ، دوسری حدیث میں ہے کہ خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔


2860- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَأَبُو بِشْرٍ، بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي أَبُو التَّيَّاحِ ،عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "اسْمَعُوا، وَأَطِيعُوا، وَإِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۹)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۵۴ (۶۹۳)، حم (۳/۱۱۴، ۱۷۱) (صحیح)
۲۸۶۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''سنو اور اطا عت کرو، گرچہ تم پر حبشی غلام ہی امیر (حاکم) کیوں نہ بنا دیا جا ئے، جس کا سر منقی (کشمش) کی طرح ہو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حبشی چھوٹے سروالا امامت کبری (خلافت) کے لائق ہے کیونکہ امامت کبری کے لئے قرشی ہونا شرط ہے ، بلکہ حدیث کا یہ مطلب ہے کہ امام کے حکم سے اگر کسی لشکر یا ٹکڑی کا سردار معمولی حیثیت کا بھی بنادیا جائے تو بھی امام کے حکم کی اطاعت کرنی چاہئے اور اس کے بنائے ہوئے امیر اورسردار کی اطاعت پر اعتراض اور اس کی مخالفت نہ کرنا چاہئے ، اور بعضوں نے کہا : یہ مبالغہ کے طور پر فرمایاہے ، یعنی اگر بالفرض حبشی بھی تمہارا امام ہو تو اس کی اطاعت بھی لازم ہے، اور اس حدیث میں امام اور حاکم کی اطاعت کی بھرپور ترغیب ہے ۔


2861- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ الْحُصَيْنِ ؛ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " إِنْ أُمِّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ مُجَدَّعٌ " فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، مَا قَادَكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ "۔
* تخريج: م/الحج ۵۱ (۱۲۹۸)، الإمارۃ ۸ (۱۸۳۸)، ن/البیعۃ ۲۶ (۴۱۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۶۹، ۵/۳۸۱، ۶/۴۰۲، ۴۰۳) (صحیح)
۲۸۶۱- ام الحصین رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرما تے ہو ئے سنا:'' اگر تم پر کوئی نک کٹا حبشی غلام امیر (حاکم) بنا دیا جا ئے تو بھی اس کی با ت سنو اور مانو، جب تک کہ وہ اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق تمہا ری سربراہی کرتا رہے''۔


2862- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى الرَّبَذَةِ، وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلاةُ فَإِذَا عَبْدٌ يَؤُمُّهُمْ، فَقِيلَ: هَذَا أَبُو ذَرٍّ، فَذَهَبَ يَتَأَخَّرُ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: أَوْصَانِي خَلِيلِي ﷺ أَنْ أَسْمَعَ وَأُطِيعَ، وَإِنْ كَانَ عَبْدًا حَبَشِيًّا مُجَدَّعَ الأَطْرَافِ۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۸ (۱۸۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۵۰)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۱۲۵۶) (صحیح)
۲۸۶۲- ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ وہ مقام ربذہ میں پہنچے تو صلاۃ کے لیے تکبیر کہی جا چکی تھی، توکیا دیکھتے ہیں کہ ایک غلام لوگوں کی اما مت کر رہا ہے، اس سے کہا گیا: یہ ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں، یہ سن کر وہ پیچھے ہٹنے لگاتو ابو ذررضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے خلیل (جگری دوست) محمد ﷺ نے مجھے یہ وصیت کی کہ امام گر چہ اعضاء کٹا حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو میں اس کی با ت سنو ں اور مانوں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر حال میں جماعت المسلمین سے اتفاق کا خیال رکھنا ضروری ہے اور اگر کسی مستحب یا مسنون امر کی وجہ سے اتفاق ختم ہو جانے کا اندیشہ ہو تو جب تک یہ اندیشہ باقی رہے، اس امر مستحب یا مسنون سے باز رہ سکتے ہیں ، لیکن جہاں تک ہوسکے حکمت عملی سے لوگوں کو سمجھا دینا چاہئے کہ یہ فعل مستحب اور سنت رسول ہے، اور اس کے لئے فتنہ و فساد کرنا صریح غیر ایمانی بات ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
40- بَاب لا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ
۴۰- باب: اللہ تعالی کی نا فرمانی میں کسی کی اطاعت نہ کرنے کا بیان​


2863- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَكَمِ بْنِ ثَوْبَانَ ،عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَعَثَ عَلْقَمَةَ بْنَ مُجَزِّرٍ عَلَى بَعْثٍ، وَأَنَا فِيهِمْ، فَلَمَّا انْتَهَى إِلَى رَأْسِ غَزَاتِهِ، أَوْ كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، اسْتَأْذَنَتْهُ طَائِفَةٌ مِنَ الْجَيْشِ، فَأَذِنَ لَهُمْ وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ حُذَافَةَ بْنِ قَيْسٍ السَّهْمِيَّ، فَكُنْتُ فِيمَنْ غَزَا مَعَهُ، فَلَمَّا كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ أَوْقَدَ الْقَوْمُ نَارًا لِيَصْطَلُوا أَوْ لِيَصْنَعُوا عَلَيْهَا صَنِيعًا، فَقَالَ عَبْدُاللَّهِ (وَكَانَتْ فِيهِ دُعَابَةٌ): أَلَيْسَ لِي عَلَيْكُمُ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ ؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَمَا أَنَا بِآمِرِكُمْ بِشَيْئٍ إِلا صَنَعْتُمُوهُ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّي أَعْزِمُ عَلَيْكُمْ إِلا تَوَاثَبْتُمْ فِي هَذِهِ النَّارِ، فَقَامَ نَاسٌ فَتَحَجَّزُوا، فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّهُمْ وَاثِبُونَ، قَالَ: أَمْسِكُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّمَا كُنْتُ أَمْزَحُ مَعَكُمْ، فَلَمَّا قَدِمْنَا ذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ أَمَرَكُمْ مِنْهُمْ بِمَعْصِيَةِ اللَّهِ، فَلا تُطِيعُوهُ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۶۶ ، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۶۷) (حسن)
۲۸۶۳- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ رسول اللہﷺ نے علقمہ بن مجزر رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر کا سر دار بنا کر بھیجا، میں بھی اس لشکر میں تھا،جب وہ لشکر کے آخری پڑائو پر پہنچے یا درمیان راستے ہی میں تھے تو لشکر کی ایک جماعت نے (آگے جانے کی) اجا زت ما نگی، علقمہ رضی اللہ عنہ نے اجا زت دے دی، اور عبداللہ بن حذافہ بن قیس سہمی رضی اللہ عنہ کوان پر امیر مقرر کردیا، میں بھی ان لوگوں میں تھا جنہوں نے ان کے ساتھ غزوہ کیا ، ابھی وہ راستہ ہی میں تھے کہ ان لوگوں نے تاپنے یا کچھ پکانے کے لیے آگ جلائی، تو عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ (جن کے مزاج میں خوش طبعی پا ئی جا تی تھی) نے کہا: کیا تم پر میری با ت سننا اور اطاعت کرنا واجب نہیں؟لوگوں نے جواب دیا: کیوں نہیں؟ کہا: میں کسی کام کے کرنے کا تمہیں حکم دوں تو تم حکم بجا لائو گے؟ لوگوں نے جو اب دیا : ہاں ،کہا : میں لازمی حکم دیتا ہوں کہ تم اس آگ میں چھلا نگ لگا دو، کچھ لوگ کھڑے ہو گئے اور کو دنے کے لیے کمر کس لی، عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ گمان ہوا کہ واقعی یہ تو کود ہی جا ئیں گے،تو بولے : ٹھہرو، میں تم سے یونہی مذاق کر رہاتھا ۱؎ ۔
جب ہم لو گ واپس مدینہ آئے، لوگوں نے نبی اکرمﷺ کو سا را ما جراسنایا،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' حکام میں جو تمہیں اللہ تعالی کی نافرما نی کا حکم دے تو اس کی با ت نہ ما نو'' ۔
وضاحت ۱؎ : اس واقعہ سے پتہ چلاکہ جو اللہ تعالی کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کی بات ہر گز مت مانو اگرچہ وہ امام ہو یا حاکم یا خلیفہ یا بادشاہ یا رئیس یا سردار ، اللہ کی اطاعت سب پر مقدم ہے ، پھر جب خلاف شریعت باتوں میں امام کی اطاعت منع ہوئی تواللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف کسی مجتہد یا عالم کی اطاعت کیوں کر جائز ہوگی، اس حدیث سے تقلید کی جڑ کٹ گئی اور یہ بھی معلوم ہو ا کہ جو بادشاہ یا امام شریعت کے خلاف حکم دے تو اس کی بات نہ ماننی چاہئے بلکہ اس کو شریعت کی اطاعت کے لئے مجبور کرنا چاہئے، اگر شریعت کی اطاعت قبول نہ کرے تو اگرقدرت اورطاقت ہوتو اس کو فوراً معزول کرکے دوسرے کسی پرہیزگار دین دار کو اپنا امام یا بادشاہ بنانا چاہئے ، یہی اسلام کا شیوہ ہے اور یہی حکم الٰہی ہے ۔


2864- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، (ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ رَجَائٍ الْمَكِّيُّ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " عَلَى الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ الطَّاعَةُ فِيمَا أَحَبَّ أَوْ كَرِهَ، إِلا أَنْ يُؤْمَرَ بِمَعْصِيَةٍ،فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَلا سَمْعَ وَلا طَاعَةَ "۔
* تخريج: حدیث عبد اللہ بن رجاء المکی تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۲۷)، وحدیث اللیث بن سعد أخرجہ: م/الإمارۃ ۸ (۱۸۳۹)، ت/الجہاد ۲۹ (۱۷۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۰۸۸) وقد أخرجہ: خ/الجہاد ۱۰۸ (۲۹۵۵)، الأحکام ۴ (۷۱۴۴)، د/الجہاد ۹۶ (۲۶۲۶)، ن/البیعۃ ۳۴ (۴۲۱۱)، حم (۲/۱۷، ۴۲) (صحیح)
۲۸۶۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' مسلمان آدمی پر ( امیر اور حاکم کی ) بات ماننا لا زم ہے، چاہے وہ اسے پسند ہو یا نا پسند، ہاں اگر اللہ اور رسول کی نا فرمانی کا حکم دیا جا ئے تو اس کو سننا ماننا نہیں ہے'' ۔


2865- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، (ح) وحَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " سَيَلِي أُمُورَكُمْ بَعْدِي رِجَالٌ يُطْفِئُونَ السُّنَّةَ وَيَعْمَلُونَ بِالْبِدْعَةِ، وَيُؤَخِّرُونَ الصَّلاةَ عَنْ مَوَاقِيتِهَا " فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنْ أَدْرَكْتُهُمْ، كَيْفَ أَفْعَلُ ؟ قَالَ: " تَسْأَلُنِي يَا ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ كَيْفَ تَفْعَلُ؟ لا طَاعَةَ لِمَنْ عَصَى اللَّهَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۷۰ ، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۹۹، ۵/۳۲۵، ۳۲۹) (صحیح)
(صحیح أبی داود : ۴۵۸، و الصحیحہ : ۲/ ۱۳۹)
۲۸۶۵- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' وہ زمانہ قریب ہے کہ میرے بعد تمہارے معاملات کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آئے گی جو سنت کو مٹا ئیں گے، بدعت پرعمل پیر اہوں گے، اور صلاۃ کی وقت پر ادائیگی میں تاخیر کر یں گے''، میں نے کہا: اللہ کے رسول !اگر میں ان کا زمانہ پا ئوں تو کیا کروں؟ فرمایا:'' اے ام عبد کے بیٹے! مجھ سے پو چھ رہے ہو کہ کیا کروں؟ جو شخص اللہ کی نا فرمانی کرے اس کی بات نہیں مانی جا ئے گی''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
41- بَاب الْبَيْعَةِ
۴۱- باب: بیعت کا بیان​


2866- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَجْلانَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِيه ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ؛ قَالَ: بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ وَالأَثَرَةِ عَلَيْنَا، وَأَنْ لا نُنَازِعَ الأَمْرَ أَهْلَهُ، وَأَنْ نَقُولَ الْحَقَّ حَيْثُمَا كُنَّا، لا نَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لائِمٍ۔
* تخريج: خ/الفتن ۲ (۷۰۵۶)، الأحکام ۴۳ (۷۱۹۹،۷۲۰۰)، م/الإمارۃ ۸ (۱۷۰۹)، ن/البیعۃ ۱ (۴۱۵۴، ۴۱۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۱۸)، وقد أخرجہ: ط/الجہاد۱ (۵)، حم (۴/۳۱۴، ۳۱۸، ۳۱۹، ۳۲۱، ۳۲۵) (صحیح)
۲۸۶۶- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی اور فراخی، خوشی و نا خوشی ،اور اپنے اوپر دوسروں کوترجیح دئیے جانے کی حالت میں بھی رسول اللہﷺ سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ حکمرانوں سے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی ہوں حق با ت کہیں، اور اللہ کے سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جس بات میں اللہ کی خوشی ہو یعنی ثواب اور عبادت کے کام میں کسی کی بدگوئی سے ہم کو ڈر نہ ہو، یہ مومنین کاملین کی شان ہے کہ وہ سنت پر چلنے میں کسی سے نہیں ڈرتے اورنہ ہی جاہلوںاوراہل بدعت کے غلط پروپگنڈہ سے متاثر ہوتے ہیں، جاہل اور بدعتی حدیث سے محبت رکھنے اوران پر عمل کرنے والوں کو برے القاب اورخطابات سے پکارتے اورانہیں طرح طرح سے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب یہ محبان رسول صلاۃ میں زورسے آمین ، رفع یدین اور امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی قرأت کرتے ہیں، تو جاہل مقلد اور بدعتی ان کو لا مذہب کہتے ہیں اور جب شرک کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں،اورغیر اللہ کے پکارنے یا ماسوااللہ کی عبادت کرنے یا مدد مانگنے سے خود رکتے ہیں اوردوسروں کو روکتے ہیں، تو یہ لوگ انہیں وہابی کے نام سے بدنام کرتے ہیں، اور جب یہ محبان رسول ،اللہ تعالیٰ کی صفات جیسے استواء علی العرش، ضحک،(ہنسنا) نزول(آسمان دنیا پر اترنا) وغیرہ وغیرہ ثابت کرتے ہیں تو یہ انہیں مشبہہ کہتے ہیں ، اور جب ید(ہاتھ)، وجہ(چہرہ) ،عین (آنکھ)، قدم ،صوت(آواز)جیسی صفات کا اثبات کرتے ہیں تو وہ انہیں مجسمہ کا لقب دیتے ہیں ، لیکن ان سب تہمتوں سے حق پرستوں کو کوئی ڈر نہیں، اور وہ جاہلوں اوربدعتیوں کی عیب جوئی ، اورگالی گلوج اورغلط پروپگنڈے سے ڈرتے اور گھبراتے نہیںبلکہ بلا کھٹکے احادیث صحیحہ پر عمل کرتے ہیں، اس حدیث میں آپ ﷺ نے صبر وثبات پر اور شرع کی اطاعت اور حاکم کی اطاعت پر بیعت لی ۔


2867- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ التَّنُوخِيُّ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيِّ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ؛ قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَبِيبُ الأَمِينُ { أَمَّا هُوَ إِلَيَّ، فَحَبِيبٌ، وَأَمَّا هُوَ عِنْدِي، فَأَمِينٌ }عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ الأَشْجَعِيُّ؛ قَالَ: كُنَّا عِنْدَالنَّبِيِّ ﷺ سَبْعَةً أَوْ ثَمَانِيَةً أَوْ تِسْعَةً، فَقَالَ: " أَلا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ " فَبَسَطْنَا أَيْدِيَنَا، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ، فَعَلامَ نُبَايِعُكَ ؟ فَقَالَ: " أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُوا الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَتَسْمَعُوا وَتُطِيعُوا {وَأَسَرَّ كَلِمَةً خُفْيَةً}،وَلا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا " قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ بَعْضَ أُولَئِكَ النَّفَرِ يَسْقُطُ سَوْطُهُ فَلا يَسْأَلُ أَحَدًا يُنَاوِلُهُ إِيَّا هُ۔
* تخريج: م/الزکاۃ ۳۵ (۱۰۴۳)، د/الزکاۃ ۲۷ (۱۶۴۲)، ن/الصلاۃ ۵ (۴۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۱۹) (صحیح)
۲۸۶۷- عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس ہم سا ت یا آٹھ یا نو آدمی تھے، آپﷺ نے فرمایا: '' کیا تم لو گ اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کروگے'' ؟ ہم نے بیعت کے لئے اپنے ہا تھ پھیلا دئے (بیعت کرنے کے بعد) ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ہم آپ سے بیعت تو کر چکے! لیکن یہ کس بات پرہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ''اس بات پر کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، پانچ وقت کی صلاۃ کا اہتمام کرو ،حکم سنو اورمانو''، پھرایک بات چپکے سے فر مائی: ''لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو''، راوی کا بیان ہے کہ (اس بات کا ان لوگوں پر اتنا اثر ہوا کہ ) میں نے ان میں سے بعض کو دیکھا کہ اس کا کو ڑا بھی گر جا تا توکسی سے یہ نہ کہتا کہ کوڑا اٹھا کر مجھے دو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ بات عادت میں داخل ہے کہ جب آدمی گھوڑے یا کسی دوسری سواری پر ہو اور اس کا کوڑا گرپڑے تو کسی سے بھی کہتا ہے کہ بھائی ذرا میرا کوڑا اٹھادو، اور ہر ایک راہ چلتا یہ کام کردیتا ہے ، بلکہ اگر کوئی نہ کرے تو لوگ اس کو برا کہیں گے، مگر ان لوگوں نے جن کو آپ ﷺ نے بیعت میں یہ فرمایا تھا کہ کسی سے کچھ مت مانگنا ، اتنا کام بھی اپنا کسی اور سے کرانا گوارا نہ کیا ، یہ بہت بڑا مرتبہ ہے کہ آدمی سوا اپنے مالک کے کسی سے درخواست نہ کرے، نہ کسی سے کچھ مانگے اور چونکہ یہ کام بہت مشکل تھا اور ہر ایک شخص اس کو نہیں کرسکتا تھا، لہذا آپ ﷺ نے آہستہ سے اس کو فرمایا ۔


2868- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَتَّابٍ، مَوْلَى هُرْمُزَ؛ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فَقَالَ: " فِيمَا اسْتَطَعْتُمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۱۹، ۱۷۲، ۱۸۵) (صحیح)
۲۸۶۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ سے سننے اور اطا عت کر نے پر بیعت کی، تو آپ نے فرمایا: '' جہاں تک تم سے ہو سکے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سبحان اللہ ، آپ ﷺ ماں باپ سے زیادہ اپنی امت کے لوگوں پر مہربان تھے ، آپﷺ نے فرمایا: ''جہاں تک تم سے ہوسکے '' تاکہ وہ لوگ جھوٹے نہ ہوں جب کسی ایسی بات کا ان کو حکم دیا جائے جو ان کی طاقت سے خارج ہو ۔


2869- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: جَاءَ عَبْدٌ فَبَايَعَ النَّبِيَّ ﷺ عَلَى الْهِجْرَةِ، وَلَمْ يَشْعُرِ النَّبِيُّ ﷺ أَنَّهُ عَبْدٌ، فَجَاءَ سَيِّدُهُ يُرِيْدُهُ فَقَالَ: النَّبِيُّ ﷺ: " بِعْنِيهِ " فَاشْتَرَاهُ بِعَبْدَيْنِ أَسْوَدَيْنِ، ثُمَّ لَمْ يُبَايِعْ أَحَدًا بَعْدَ ذَلِكَ، حَتَّى يَسْأَلَهُ أَعَبْدٌ هُوَ ؟۔
* تخريج: م/المساقاۃ ۲۳ (۱۶۰۲)، د/البیوع ۱۷ (۳۳۵۸مختصرا)، ت/البیوع ۲۲ (۱۲۳۹)، السیر ۳۶ (۱۵۹۶)، ن/البیعۃ ۲۱ (۴۱۸۹)، البیوع ۶۴ (۴۶۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۴۹، ۳۷۲) (صحیح)
۲۸۶۹- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا، اور نبی اکرمﷺ سے ہجرت پر بیعت کر لی، اور آپﷺ کو اس کے غلام ہو نے کا احساس ہی نہ ہوا، چنانچہ اس کا مالک جب اسے لینے کے مقصد سے آیا تو آپﷺ نے فرمایا: '' یہ غلام مجھے بیچ دو''، آپﷺ نے اسے دو کا لے غلاموں کے عوض خرید لیا، پھر اس کے بعد کسی سے بھی یہ معلوم کئے بغیر بیعت نہیں کرتے کہ وہ غلام تو نہیں ہے؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
42- بَاب الْوَفَاءِ بِالْبَيْعَةِ
۴۲- باب: بیعت پو ری کرنے کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : عرب میں یہ قاعدہ تھا کہ جہاں ہاتھ پر ہاتھ مار کر کوئی اقرار کیا تو بیعت ہوگئی ، اب اس معاہدہ کے خلاف کرنا نہایت درجہ مذموم اور مروت اور شرافت کے خلاف سمجھتے تھے ۔


2870- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " ؤثَلاثَةٌ لا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: رَجُلٌ عَلَى فَضْلِ مَائٍ بِالْفَلاةِ يَمْنَعُهُ مِنِ ابْنِ السَّبِيلِ، وَرَجُلٌ بَايَعَ رَجُلا بِسِلْعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ فَحَلَفَ بِاللَّهِ لأَخَذَهَا بِكَذَا وَكَذَا، فَصَدَّقَهُ، وَهُوَ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ، وَرَجُلٌ بَايَعَ إِمَامًا، لا يُبَايِعُهُ إِلا لِدُنْيَا، فَإِنْ أَعْطَاهُ مِنْهَا وَفَى لَهُ، وَإِنْ لَمْ يُعْطِهِ مِنْهَا لَمْ يَفِ لَهُ "۔
* تخريج: خ/الشہادات ۲۲ (۲۶۷۲)، الأحکام ۴۸ (۷۲۱۲)، م/الإیمان ۴۶ (۱۰۸)، البیوع ۶۲ (۱۵۶۶)، ت/السیر ۳۵ (۱۵۹۵)، ن/البیوع ۶ (۴۴۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۲۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۵۳،۴۸۰)، (یہ حدیث مکرر ہے دیکھئے: ۲۲۰۷) (صحیح)
۲۸۷۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:''قیامت کے دن اللہ تعالی تین آدمیوں سے نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ہی انہیں پا ک کر ے گا، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے :ایک وہ آدمی جس کے پاس چٹیل میدان میں فالتو پانی ہو اور مسافر کو پانی لینے سے منع کرے ،دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد کسی کے ہاتھ سامان بیچا اور اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ اس نے یہ چیز اتنے اتنے میں لی ہے، پھر خرید ار نے اس کی بات کا یقین کر لیا، حالانکہ اس نے غلط بیانی سے کام لیا تھا، تیسراوہ آدمی جس نے کسی امام کے ہاتھ پربیعت کی، اور مقصد محض دنیا وی فائدہ تھا، چنانچہ اگراس نے اسے کچھ دیا توبیعت کو پورا کیا، اور اگر نہیں دیا تو پورا نہیں کیا''۔


2871- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ حَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَتْ تَسُوسُهُمْ أَنْبِيَاؤُهُمْ، كُلَّمَا ذَهَبَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَأَنَّهُ لَيْسَ كَائِنٌ بَعْدِي نَبِيٌّ فِيكُمْ " قَالُوا: فَمَا يَكُونُ؟ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: " تَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُوا" قَالُوا: فَكَيْفَ نَصْنَعُ؟ قَالَ: " أَوْفُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ،أَدُّوا الَّذِي عَلَيْكُمْ فَسَيَسْأَلُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنِ الَّذِي عَلَيْهِمْ "۔
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۵۰ (۳۴۵۵)، م/الإمارۃ ۱۰ (۱۸۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۱۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۹۷) (صحیح)
۲۸۷۱- ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''بنی اسرائیل کی حکو مت ان کے انبیاء چلایا کرتے تھے، ایک نبی چلا جا تا تو دوسرااس کی جگہ لے لیتا، لیکن میرے بعد تم میں کو ئی نبی ہو نے والا نہیں''، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھرکیا ہوگا ؟ آپﷺ نے فرمایا: '' خلیفہ ہو ں گے اور بہت ہوں گے''، لوگوں نے کہا: پھر کیسے کریں گے ؟ فرمایا: '' پہلے کی بیعت پو ری کرو، پھر اس کے بعد والے کی، اور اپنا حق ادا کرو، اللہ تعالیٰ ان سے ان کے حق کے بارے میں سوال کرے گا ''۔


2872- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، (ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُقَالُ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُلان ".
* تخريج: خ/الجزیۃ والموادعۃ ۲۲ (۳۱۸۶)، م/الجہاد ۴ (۱۷۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۵۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۱۱، ۴۱۷، ۴۴۱)، دي/البیوع ۱۱ (۲۵۸۴) (صحیح متواتر)
۲۸۷۲- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: '' قیامت کے دن ہر دغاباز کے لئے ایک جھنڈا نصب کیا جا ئے گا ،پھر کہا جائے گا کہ یہ فلاں شخص کی دغا بازی ہے ''۔


2873- حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى اللَّيْثِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " أَلا إِنَّهُ يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بِقَدْرِ غَدْرَتِهِ "۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۶۸ ، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۱۴)، وقد أخرجہ: م/الجہاد ۴ (۱۷۳۸)، ت/الفتن ۲۶ (۲۱۹۱) (صحیح)
(سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے ) ۔
۲۸۷۳- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ''خبر دار !قیامت کے دن ہر دغا باز کے لئے اس کی دغا بازی کے بقدر ایک جھنڈا نصب کیا جا ئے گا '' ۔
 
Top