16-بَاب الضَّبِّ
۱۶- باب: ضب (صحرائے نجدمیں پائے جانے والے گوہ) کا بیان ۱؎
وضاحت ۱؎ : ضب : گوہ ایک رینگنے والا جانور جو چھپکلی کے مشابہ ہوتا ہے، اس کو سوسما ر بھی کہتے ہیں، سانڈا بھی گوہ کی قسم کا ایک جانور ہے جس کا تیل نکال کر گٹھیا کے درد کے لئے یاطلاء کے لئے استعمال کرتے ہیں، یہ جانور نجد کے علاقہ میں بہت ہوتا ہے، حجاز میں نہ ہونے کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نہ کھایا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر یہ کھایا گیا اس لئے حلال ہے۔
جس جانورکو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کھایا اس کو عربی میں ضب کہتے ہیں اور خودحدیث میں اس کی صراحت ہے کہ یہ نجدکے علاقہ میں پایا جانے والا جانورہے ، جو بلاشبہ حلال ہے۔ احناف اور شیعی فرقوں میں امامیہ کے نزدیک گوہ کا گوشت کھاناحرام ہے، فرقہء زیدیہ کے یہاں یہ مکروہ ہے ، لیکن صحیح بات اس کی حلت ہے ۔
نجدکے علاقے میں پایا جانے والا یہ جانور برصغیر( ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) میں پائے جانے والے گوہ یا سانڈے سے بہت سی چیزوں میں مختلف ہے :
- ضب نامی یہ جانور صحرائے عرب میں پایا جاتاہے ،اور ہندوستان میں پایا جانے والا گوہ یا سانڈازرعی اورپانی والے علاقوں میں عام طورپر پایا جاتاہے۔
- نجدی ضب (گوہ ) پانی نہیںپیتا اور بلاکھائے اپنے سوراخ میں ایک لمبی مدت تک رہتاہے،کبھی طویل صبرکے بعد اپنے بچوں کو کھاجاتاہے، جب کہ برصغیرکا گوہ پانی کے کناروں پرپایا جاتاہے ، اورخوب پانی پیتاہے ۔
- نجدی ضب ( گوہ) شریف بلکہ سادہ لوح جانور ہے ، جلدشکارہوجاتاہے ، جب کہ ہندوستانی گوہ کاپکڑنا نہایت مشکل ہوتاہے ۔
- نجدی ضب( گوہ) کے پنجے آدمی کی ہتھیلی کی طرح نرم ہوتے ہیں، جب کہ ہندوستانی گوہ کے پنجے اوراس کی دم نہایت سخت ہوتی ہیں، اوراس کے ناخن اس قدرسخت ہوتے ہیں کہ اگروہ کسی چیز کو پکڑلے تو اس سے اس کا چھڑانا نہایت دشوار ہوتاہے ، ترقی یافتہ دورسے پہلے مشہورہے کہ چور اس کی دم کے ساتھ رسی باندھ کر اسے مکان کے پچھواڑے سے اوپرچڑھادیتے اوریہ جانور مکان کی منڈیرکے ساتھ جاکرمضبوطی سے چمٹ جاتا اور پنجے گاڑلیتا اور چور اس کی دم سے بندھی رسی کے ذریعہ اوپرچڑھ جاتے اورچوری کرتے ،جب کہ نجدی ضب (گوہ) کی دم اتنی قوت والی نہیں ہوتی ۔
- ہندوستانی گوہ سانپ کی طرح زبان نکالتی اورپھنکارتی ہے ، جب کہ نجدی ضب( گوہ) ایسانہیں کرتی ۔
- ہندوستانی گوہ ایک بدبودار جانورہے اوراس کے قریب سے نہایت ناگوار بدبوآتی ہے ،جب کہ نجدی ضب( گوہ) میں یہ نشانی نہیں پائی جاتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی گوہ گندگی کھاتی ہے ، اورکیڑے مکوڑے بھی ، نجدی ضب( گوہ) کیڑے مکوڑے اورخاص کر ٹڈی کھانے میں مشہور ہے ، لیکن صحراء میں گندگی کا عملاً وجودنہیں ہوتا اوراگرہوبھی تومعمولی اورکبھی کبھار ، صحراء میں پائی جانے والی بوٹیوں کوبھی وہ کھاتاہے ۔
- نجدی ضب( گوہ) کی کھال کوپکاکرعرب اس کی کپی میں گھی رکھتے تھے ، جس کو'' ضبة'' کہتے ہیں اورہندوستانی گوہ کی کھال کا ایسااستعمال کبھی سننے میں نہیں آیا اس لیے کہ وہ بدبودار ہوتی ہے ۔
- نجدی ضب نامی جانور اپنے بنائے ہوئے پُرپیچ اورٹیڑھے میڑھے بلوں (سوراخوں)میں اس طرح رہتاہے کہ اس تک کوئی جانور نہیں پہنچ سکتا، اوراسی لیے حدیث شریف میں امت محمدیہ کے بارے میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں چلے جانے کی تعبیرموجودہے ، اوریہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال باریک بینی اور کمالِ بلاغت پر دال ہے ، امت محمدیہ سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طرح طرح کی گمراہیوں اورضلالتوں کا شکارہوگی ، حتی کہ اگرسابقہ امتیں اپنی گمراہی میں اس حدتک جاسکتی ہیں جس تک پہنچنامشکل بات ہے تو امت محمدیہ وہ کام بھی کرگزرے گی ، اسی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان کیا کہ اگرسابقہ امت اپنی گمراہی میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں گھسی ہوگی تو امت محمدیہ کے لوگ بھی اس طرح کا ٹیڑھا میڑھا راستہ اختیارکریں گے اوریہ حدیث ضب (گوہ) کے مکان یعنی سوراخ کے پیچیدہ ہونے پر دلالت کررہی ہے ، اورصحراء نجدکے واقف کار خاص کرضب ( گوہ) کاشکارکرنے والے اس کو بخوبی جانتے ہیں ،اور ضب (گوہ) کو اس کے سوراخ سے نکالنے کے لیے پانی استعمال کرتے ہیں کہ پانی کے پہنچتے ہی وہ اپنے سوراخ سے باہر آجاتی ہے ، جب کہ ہندوستانی گوہ پرائے گھروں یعنی مختلف سوراخوں اوربلوں اور پرانے درختوں میں موجودسوراخ میں رہتی ہے ۔
ضب اورورل میں کیا فرق ہے؟۔
صحرائے عرب میں ضب کے مشابہ اوراس سے بڑا بالو، اورصحراء میں پائے جانے والے جانورکو ''وَرَل'' کہتے ہیں، تاج العروس میں ہے : ورل ضب کی طرح زمین پر رینگنے والا ایک جانورہے ، جوضب کی خلقت پر ہے ، إلا یہ کہ وہ ضب سے بڑا ہوتاہے ، بالواورصحراء میںپایاجاتاہے، چھپکلی کی شکل کا بڑا جانورہے ،جس کی دم لمبی اورسرچھوٹا ہوتاہے ، ازہری کہتے ہیں: ''وَرَل''عمدہ قامت اورلمبی دم والاجانورہے، گویا کہ اس کی دم سانپ کی دم کی طرح ہے،بسااوقات اس کی دم دوہاتھ سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے ، اورضب (گوہ) کی دم گانٹھ دار ہوتی ہے ،اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت لمبی ، عرب ورل کو خبیث سمجھتے اوراس سے گھن کرتے ہیں، اس لیے اسے کھاتے نہیں ہیں، رہ گیا ضب تو عرب اس کا شکارکرنے اوراس کے کھانے کے حریص اورشوقین ہوتے ہیں، ضب کی دم کھُردری ، سخت اورگانٹھ والی ہوتی ہے ،دم کا رنگ سبززردی مائل ہوتاہے ، اورخود ضب مٹ میلی سیاہی مائل ہوتی ہے ،اورموٹا ہونے پر اس کا سینہ پیلاہوجاتاہے ،اوریہ صرف ٹڈی ،چھوٹے کیڑے اورسبزگھاس کھاتی ہے ، اور زہریلے کیڑوں جیسے سانپ وغیرہ کو نہیں کھاتی ، اورورل بچھو ، سانپ ، گرگٹ اور گوبریلاسب کھاتاہے، ورل کا گوشت بہت گرم ہوتاہے ، تریاق ہے ، بہت تیز موٹاکرتا ہے ، اسی لیے عورتیں اس کواستعمال کرتی ہیں، اوراس کی بیٹ (کا سرمہ) نگاہ کوتیز کرتا ہے ، اوراس کی چربی کی مالش سے عضوتناسل موٹا ہوتاہے (ملاحظہ ہو: تاج العروس : مادہ ورل ، و لسان العرب )
سابقہ فروق کی وجہ سے دونوں جگہ کے نجدی ضب اورورل اورہندوستان پائے جانے والے جانورجس کو گوہ یا سانڈاکہتے ہیں، ان میں واضح فرق ہے،بایں ہمہ نجدی ضب( گوہ) کھانا احادیث نبویہ اور اس علاقہ کے مسلمانوں کے رواج کے مطابق حلال ہے، اور اس میں کسی طرح کی قباحت اورکراہت کی کوئی بات نہیں ، رہ گیا ہندوستانی گوہ کی حلت وحرمت کا مسئلہ تو سابقہ فروق کو سامنے رکھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہئے ، اگر ہندوستانی گوہ نجاست کھاتا اور اس نجاست کی وجہ سے اس کے گوشت سے یا اس کے جسم سے بدبواٹھتی ہے تو یہ چیز علماء کے غورکرنے کی ہے ، جب گندگی کھانے سے گائے بکری اور مرغیوں کا گوشت متاثر ہوجائے تو اس کاکھانا منع ہے ، اس کو اصطلاح میں ''جلالہ''کہتے ہیں،تو نجاست کھانے والا جانور گوہ ہو یا کوئی اور وہ بھی حرام ہوگا، البتہ برصغیرکے صحرائی علاقوں میں پایا جانے والا گوہ نجد کے ضب (گوہ) کے حکم میں ہوگا ۔
ضب اورورل کے سلسلے میں نے اپنے دوست ڈاکٹرمحمداحمد المنیع پروفیسرکنگ سعود یونیورسٹی ، ریاض جو زراعت اورغذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور صحرائے نجد کے جانوروں کے واقف کار ہیں ، سوال کیا تو انہوں نے اس کی تفصیل مختصراً یوںلکھ کر دی :
نجدی ضب نامی جانور کھایا جاتاہے ، اور''ورل ''نہیں کھایا جاتاہے ضب کا شکار آسانی سے کیا جاسکتاہے اور ورل کا شکارمشکل کام ہے ،ضب گھاس کھاتا ہے ، اورورل گوشت کھاتاہے ،ضب چیرپھاڑکرنے والا جانور نہیں ہے ،جب کہ ورل چیرپھاڑکرنے والا جانور ہے ، ضب کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے، اور ورل دھاری دھار ہوتاہے ،ضب کی جلد کھُردری ہوتی ہے اور ورل کی جلد نرم ہوتی ہے ، ضب کا سر چوڑا ہوتاہے ، اوروَرل کا سر دم نما ہوتاہے ، ضب کی گردن چھوتی ہوتی ہے ،اورورل کی گردن لمبی ہوتی ہے ، ضب کی دم چھوٹی ہوتی ہے اور ورل کی دم لمبی ہوتی ہے ،ضب کھُردرا اوکانٹے دارہوتا ہے ، اور ورل نرم ہوتاہے ، ضب اپنی دم سے اپنا دفاع کرتاہے ، اورورل بھی اپنی دم سے اپنا دفاع کرتاہے ،اوردُم سے شکاربھی کرتاہے ، ضب گوشت باکل نہیں کھاتا ، اورورل ضب اورگرگٹ سب کھاجاتاہے ، ضب تیز جانورہے ،اورورل تیز ترضب میں حملہ آوری کی صفت نہیں پائی جاتی جب کہ ورل میں یہ صفت موجودہے ،وہ دانتوں سے کاٹتاہے ،اوردم اور ہاتھ سے حملہ کرتاہے ، ضب ضرورت پڑنے پر اپنادفاع کاٹ کراورہاتھوں سے نوچ کر یا دُم سے مارکرتاہے ،اوروَرل بھی ایسا ہی کرتاہے ،ضب میں کچلی دانت نہیں ہے ،اوروَرل میں کچلی دانت ہے ، ضب حلال ہے ، اور ورل حرام، ورل کے بارے میں یہ بھی کہاجاتاہے کہ یہ زہریلا جانورہے ۔
صحرائے عرب کا ضب ، وَرل اورہندوستانی گوہ یا سانڈا سے متعلق اس تفصیل کا مقصدصرف یہ ہے کہ اس جانورکے بارے میں صحیح صورتِ حال سامنے آجائے ، حنفی مذہب میں بھینس کی قربانی جائز ہے اوردوسرے فقہائے کے یہاں بھی اس کی قربانی اس بناپر جائز ہے کہ یہ گائے کی ایک قسم ہے ، جب کہ گائے کے بارے میں یہ مشہور ہے اورمشاہدہ بھی کہ وہ پانی میں نہیں جاتی جب کہ بھینس ایساجانور ہے جس کو پانی سے عشق اور کیچڑسے محبت ہے اورجب یہ تالاب میں داخل ہوجائے تو اس کو باہر نکالنا مشکل ہوتاہے ، اگربھینس کی قربانی کو گائے پر قیاس کرکے فقہاء نے جائز کہا ہے تو دونوں جگہ گوہ کے بعض فرق کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اس جنس کے جانوروں کو حلال ہونا چاہئے ،اہل علم کو فقہی تنگنائے سے ہٹ کر نصوص شرعیہ کی روشنی میں اس مسئلہ پرغورکرنا چاہئے اور عاملین حدیث کے نقطہ نظر کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنا چاہئے ۔
گوہ کی کئی قسمیں ہیں اورہوسکتاہے کہ بہت سی چیزیں سب میں قدر مشترک ہوں جیسے کہ قوت باہ میں اس کا مفیدہونا اس کی چربی کے طبی فوائد وغیرہ وغیرہ۔
حکیم مظفر حسین اعو ان گوہ کے بارے میں لکھتے ہیں: نیولے کے مانندایک جنگلی جانورہے ، دم سخت اورچھوٹی ، قد بلی کے برابرہوتا ہے ، اس کے پنجے میں اتنی مضبوط گرفت ہوتی ہے کہ دیوار سے چمٹ جاتا ہے ، رنگ زرد سیاہی مائل ، مزاج گرم وخشک بدرجہ سوم ...اس کی کھال کے جوتے بنائے جاتے ہیں۔(کتاب المفردات : ۴۲۷) ، ظاہر ہے کہ یہ برصغیر میں پائے جانے والے جانور کی تعریف ہے ۔
گوہ کی ایک قسم سانڈہ بھی ہے جس کے بارے میں حکیم مظفر حسین اعوان لکھتے ہیں: مشہورجانور ہے ، جوگرگٹ یا گلہری کی مانندلیکن اس سے بڑاہوتاہے ،اس کی چربی اورتیل دواء مستعمل ہے ، مزاج گرم وتر بدرجہ اوّل، افعال واستعمال بطورمقوی جاذب رطوبت ، معظم ذکر، اورمہیج باہ ہے (کتاب المفردات : صفحہ ۲۷۵)
3238- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ يَزِيدَ الأَنْصَارِيِّ؛ قَالَ: كُنَّامَعَ النَّبِيِّ ﷺ، فَأَصَابَ النَّاسُ ضِبَابًا، فَاشْتَوَوْهَا فَأَكَلُوا مِنْهَا، فَأَصَبْتُ مِنْهَا ضَبًّا فَشَوَيْتُهُ، ثُمَّ أَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ، فَأَخَذَ جَرِيدَةً فَجَعَلَ يَعُدُّ بِهَا أَصَابِعَهُ فَقَالَ: " إِنَّ أُمَّةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُسِخَتْ دَوَابَّ فِي الأَرْضِ، وَإِنِّي لاأَدْرِي لَعَلَّهَا هِيَ " فَقُلْتُ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اشْتَوَوْهَا فَأَكَلُوهَا، فَلَمْ يَأْكُلْ وَلَمْ يَنْهَ۔
* تخريج: د/الأطعمۃ ۲۸ (۳۷۹۵)، ن/الصید والذبائح ۲۶ (۴۳۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۶۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲۰)، دي/الصید ۸ (۲۰۵۹) (صحیح)
۳۲۳۸- ثابت بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، لوگوں نے ضب (گوہ) پکڑ ے اور انہیں بھونا، اور اس میں سے کھایا ، میں نے بھی ایک گوہ پکڑی اور اسے بھون کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لکڑی لی، اور اس کے ذریعہ اس کی انگلیاں شمار کرنے لگے اور فرمایا: '' بنی اسرائیل کا ایک گروہ مسخ ہو کر زمین میں کا جانور بن گیا، اور میں نہیں جانتا شاید وہ یہی ہو '' ، میں نے عرض کیا: لوگ اسے بھون کر کھا بھی گئے ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو اسے کھایا اور نہ ہی (اس کے کھانے سے) منع کیا ۔
3239- حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحاقَ الْهَرَوِيُّ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا إِسْماعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ يُحَرِّمِ الضَّبَّ، وَلَكِنْ قَذِرَهُ، وَإِنَّهُ لَطَعَامُ عَامَّةِ الرِّعَاءِ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَنْفَعُ بِهِ غَيْرَ وَاحِدٍ وَلَوْ كَانَ عِنْدِي لأَكَلْتُهُ.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۷۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۱۳) (ضعیف)
(سندمیں قتادہ اور سلیمان بن قیس کے درمیان انقطاع ہے)
۳۲۳۹- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب(گوہ) کو حرام نہیں کیا، لیکن آپ نے اس سے گھن کیا، اور وہ عام چرواہوں کا کھانا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ متعدد بہت سارے لوگوں کو فائدہ دیتا ہے، اور وہ اگر میرے پاس ہوتی تو اسے میں ضرور کھاتا ۔
3239/أ- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: نَحْوَهُ۔۳۲۳۹/أ - اس سند سے بھی عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی مرفوع روایت آئی ہے ۔
3240- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ؛ قَالَ: نَادَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ حِينَ انْصَرَفَ مِنَ الصَّلاةِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أَرْضَنَا أَرْضٌ مَضَبَّةٌ، فَمَا تَرَى فِي الضِّبَابِ؟ قَالَ: " بَلَغَنِي أَنَّهُ أُمَّةً مُسِخَتْ " فَلَمْ يَأْمُرْ بِهِ،وَلَمْ يَنْهَ عَنْهُ۔
* تخريج: م/الصید والذبائح ۷ (۱۹۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۵، ۱۹، ۶۶) (صحیح)
۳۲۴۰- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صلاۃ پڑ ھ کر لوٹے تو اہل صفہ میں سے ایک شخص نے آپ کو آواز دی ، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے ملک میں ضب(گوہ) بہت ہوتی ہے، آپ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟آپ نے فرمایا: '' مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ یہ کوئی امت ہے جو مسخ کردی گئی ہے '' پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس کے کھانے کا حکم دیا، اور نہ ہی منع فرمایا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : شاید اس وقت تک آپ کو یہ معلوم نہ ہوا ہو گا کہ جو لوگ مسخ ہوئے تھے ،ان کی نسل باقی نہیں رہی بلکہ وہ سب تین دن میں مرگئے ۔
3241- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، الْحِمْصِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الزُّبَيْدِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ،عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ " أُتِيَ بِضَبٍّ مَشْوِيٍّ، فَقُرِّبَ إِلَيْهِ، فَأَهْوَى بِيَدِهِ لِيَأْكُلَ مِنْهُ،فَقَالَ لَهُ مَنْ حَضَرَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنَّهُ لَحْمُ ضَبٍّ، فَرَفَعَ يَدَهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ خَالِدٌ: يَارَسُولَ اللَّهِ ! أَحَرَامٌ الضَّبُّ ؟ قَالَ: لا،وَلَكِنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِي فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ " قَالَ: فَأَهْوَى خَالِدٌ إِلَى الضَّبِّ، فَأَكَلَ مِنْهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَنْظُرُ إِلَيْهِ۔
* تخريج: خ/الأطعمۃ ۱۰ (۵۳۹۱)، ۱۴ (۵۴۰۰)، الذبائح ۳۳ (۵۵۳۷)، م/الذبائح ۷ (۱۹۴۶)، د/الأطعمۃ ۲۸ (۳۷۹۴)، ن/الصید و الذبائح ۲۶ (۴۳۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۰۴)، وقد أخرجہ: ط/الإستئذان ۴ (۱۰)، حم (۴/۸۸، ۸۹)، دي/الصید ۸ (۲۰۶۰) (صحیح)
۳۲۴۱- خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی ضب( گوہ) لائی گئی، اور آپ کو پیش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لئے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ۱؎ ، تو وہاں موجودایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! یہ ضب( گوہ) کا گوشت ہے ( یہ سن کر ) آپ نے اس سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، خالد رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول ! کیا ضب(گوہ) حرام ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' نہیں ، لیکن وہ میرے علاقہ میں نہیں ہوتی اس لئے میں اس سے گھِن محسوس کرتا ہوں'' ، ( یہ سن کر ) خالد رضی اللہ عنہ نے ضب( گوہ) کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس کو کھایا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ رہے تھے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں یونس نے زہری سے مزید یہ الفاظ نقل کیے ہیں کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کھانے کو اپنے ہاتھ میں لیتے یہاں تک کہ آپ کو اس کے بارے میں بتادیا جاتا ، اسحاق بن راہویہ اوربیہقی نے شعب الإیمان میں عمر رضی اللہ عنہ سے یہ نقل کیا ہے کہ ایک اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ کو ہدیہ دینے کے لیے ایک خرگوش لے کر حاضرہوا اورآپ ہدیہ کا کھانا اس وقت تک نہ کھاتے تھے جب تک کہ صاحب ہدیہ کو اس کے کھانے کا حکم نہ دیتے ، جب وہ کھالیتا تو آپ بھی کھاتے ،ایسا اس واسطے کرتے تھے کہ خیبرمیں آپ کے پاس (مسموم ) بھنی بکری یہودی عورت نے پیش کی تھی (اوراس سے آپ متاثرہوگئے تھے توبعد میں احتیاطی تدبیرکے طورپرہدیہ دینے والے سے کھانے کی ابتداکراتے تاکہ کسی سازش کا خطرہ نہ رہ جائے ) (حافظ ابن حجرنے اس حدیث کی سندکو حسن کہا ہے )
وضاحت ۲؎ : صحیح بخاری کی روایت میں یہ تفصیل ہے کہ خالدبن ولیدنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھرگئے ،اورصحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا تھا کہ یہ ضب( گوہ) کا گوشت ہے ، اورصحیح بخاری کے کتاب الأطعمہ میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب( گوہ) نہ کھاکرپنیرکھائی اوردودھ پیا ۔اس حدیث میں آپ کے گھن اورکراہت کا سبب یہ ہے کہ آپ کے علاقہ میں ضب( گوہ) نہیں پائی جاتی تھی ، ایک دوسری روایت میں ہے کہ ضب(گوہ) کا گوشت میں نے کبھی نہیں کھایا ، حافظ ابن حجرحدیث کی تشریح کرتے ہوئے حدیث میں وارد
'' بأرض قومي'' کے بارے میں فرماتے ہیں کہ قوم سے مراد قریش ہیں، تو ضب(گوہ) کے نہ پائے جانے کا معاملہ مکہ اور اس کے ارد گرد کے علاقہ سے متعلق ہوگا ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ حجاز کے دوسرے علاقے میں ضب( گوہ) موجودہی نہ ہو صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ مدینہ میں ایک دلہا نے ہمیںدعوتِ ولیمہ دی اورہمارے سامنے تیرہ ضب(گوہ) پیش کیے تو کسی نے کھایا اورکسی نے نہیں کھایا ، حافظ ابن حجرکہتے ہیں کہ اس سے پتہ چلتاہے کہ علاقہ حجاز میں ضب(گوہ) بکثرت پائی جاتی ہے ، اس حدیث میں صرف خالد رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ انہوں نے ضب(گوہ) کا گوشت کھایا ، صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ تم ضب(گوہ) کا گوشت کھاؤتو فضل بن عباس ،خالداورمذکورہ عورت نے کھایا، شعبی نے ابن عمررضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے فرمایا : ضب(گوہ) کھاؤ اور کھلاؤ، اس لیے کہ یہ حلال ہے یا فرمایا کوئی حرج نہیں ، لیکن یہ میری خوراک نہیں ،ان تصر یحات سے پتہ چلا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب( گوہ) کا گوشت صرف اس واسطے نہ کھایا کہ آپ کو اس کے کھانے کی سابقہ عادت نہ تھی ۔(الفریوائی)
3242- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : " لا أُحَرِّمُ " يَعْنِي الضَّبَّ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۱۷۸)، وقد أخرجہ: خ/الصید ۳۳ اتم منہ (۵۵۳۶)، م/الصید ۷ اتم منہ (۱۹۴۳)، ت/الأطعمۃ ۳ (۱۷۹۰)، ط/الإستئذان ۴ (۱۱)، حم (۲/۹، ۱۰،۳۳، ۴۱، ۴۶،۶۰، ۶۲، ۷۴، ۱۱۵)، دي/الصید ۸ (۲۰۵۸) (صحیح)
۳۲۴۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' میں حرام نہیں کرتا '' یعنی ضب( گوہ) کو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ۱- جمہورعلماء کے نزدیک ضب( گوہ) کا گوشت کھاناحلال ہے ،ابن ماجہ نے اس باب میں کئی احادیث کاذکرکیا ہے ، جس سے اس کی حلت واضح ہے ،ضب(گوہ) امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے دسترخوان پر رکھی گئی ، ساتھ میں دودھ اورپنیربھی تھا،دسترخوان پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے ، یہودی عورت کے گوشت میں زہر ملادینے اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متاثر ہوجانے کے بعد آپ دسترخوان پر موجودچیزوں کے بارے میں سوال کرتے تھے ، اور احتیاط کے نقطہ نظر سے یہ بڑی اچھی بات تھی ،امہات المومنین اور صحابہ کرام کو یہ بات معلوم تھی ، یہ بھی واضح رہے کہ آپ بہت نفاست پسند تھے ، جبریل علیہ السلام قرآن لے کر آتے تو ان سے ملاقات کے سلسلے میں بھی ہرطرح کی صفائی ستھرائی اور نظافت مطلوب تھی ،یہ بھی ہوسکتاہے کہ علاقہ حجاز میں آپ کے عہد میں ضب (گوہ) نہ پائی جاتی تھی یا کم پائی جاتی تھی ، یا مکہ میں بالخصوص قبیلہ قریش میں ضب(گوہ) کھانے کا رواج نہ تھا ، علاقہ میں نہ ہونے کی وجہ سے یا کم پائے جانے کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ یہ عام طورپر بدؤں اوردیہاتیوں کی غذاتھی تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع دی گئی کہ یہ ضب(گوہ) کا گوشت ہے ، توآپ نے اس کے نہ کھانے کا یہ عذرکیا کہ اس سے طبیعت کو گھن آتی ہے ، جی نہیں بھرتا کہ اس سے پہلے کبھی اس کے کھانے کا تجربہ نہیں ہوا اور دودھ اورپنیرپر اکتفا کیا ، ضب(گوہ) کے دسترخوان پرہونے کامطلب ہی یہ تھا کہ امہات المومنین کے یہاں اوردوسرے صحابہ کے یہاں بلاکراہت کھانا جائز تھا اور آپ کے دسترخوان پر خالدبن ولیدنے اسے مزے لے کر کھایا بھی ، اس طرح سے آپ نے اس پر صادکیا اس کو تقریری سنت کہتے ہیں، اگرضب(گوہ) حرام ہوتی یا اس کی کراہت کا علم ہوتا تو آپ کی موجودگی میں اس دسترخوان پر اسے کوئی نہ کھاتااس لیے اس واقعہ سے ضب( گوہ) کی حرمت لازم نہیں آتی۔
شافعی ، مالک ، احمداوراکثرفقہاء اوراہل حدیث کے یہاں یہ حلال ہے ، اوراس کی حلت کے ثبوت میں بہت سی احادیث وارد ہیں ، حرمت کی کوئی دلیل قوی نہیں ہے ، سنن ابی داود میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب( گوہ) کھانے سے منع کیا ، اس کی سند ضعیف ہے ۔
ابن ماجہ نے اوپر۳۲۴۲نمبرکی حدیث ذکرفرمائی ہے ، بخاری میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں: الضب لست آكله ولا أحرمه (۵۵۳۶) ( ضب- گوہ- نہ میں کھاتاہوں نہ اسے حرام قراردیتاہوں)۔
صحیح مسلم میں یہ تفصیل ہے کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضب( گوہ) کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے سابقہ جواب دیا ۔
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ سوال وجواب منبررسول پرہوا ، نیز ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث جواوپر(۳۲۴۱) نمبرپرگزری سے بھی ضب (گوہ) کے گوشت کی حلت ثابت ہے ۔
حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: اس حدیث سے ضب(گوہ) کا گوشت کھانا جائز ہے ، قاضی عیاض نے ایک جماعت سے اس کی حرمت نقل کی ہے ، اور حنفیہ سے اس کا مکروہ ہونا نقل ہے ، نووی اس نقل کا انکارکرتے ہوئے فرماتے ہیں: میرے خیال میں کسی سے بھی (اس کے حرام یا مکروہ ہونے)کاقول صحیح اورثابت نہیں ہے ، اوراگرصحیح بھی ہوتوجواز وحلت کے نصوص سے اورپہلے لوگوں کے اجماع سے یہ رائے مرجوح ہے ۔
حافظ ابن حجرکہتے ہیں: ابن المنذر نے علی رضی اللہ عنہ سے اس کا مکروہ ہونا نقل کیا ہے تو علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی صورت میں یہ کون سا اجماع ہوا؟۔
نیز امام ترمذی نے بعض اہل علم سے اس کی کراہت نقل کی ہے ۔
امام طحاوی معانی الأثارمیں کہتے ہیں: ایک جماعت نے ضب( گوہ) کا گوشت کھانے کو مکروہ کہا ہے ، ان میں ابوحنیفہ ، ابویوسف ، محمد بن الحسن ہیں، نیز فرمایا : محمدبن الحسن نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے استدلال کیا ہے ، جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ضب (گوہ) ہدیہ میں آئی،تو آپ نے اسے نہ کھایا، ایک سائل کھڑا ہوا، عائشہرضی اللہ عنہا نے اسے ضب(گوہ) کودینا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا جوچیز تم نہیں کھارہی ہووہ سائل کودوگی ''۔
طحاوی کہتے ہیں: اس حدیث میں کراہت کی دلیل اس احتمال کی وجہ سے نہیں ہے کہ عائشہرضی اللہ عنہا نے ضب(گوہ) کے گوشت سے گھن کی ہو تو اللہ کے رسول نے یہ سوچا کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے صرف بہترین کھاناہی پیش کیا جائے ، جیسا کہ ردّی کھجوردینے سے آپ نے منع فرمایاہے ۔
عبدالرحمن بن حسنہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی غزوہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھوک کا شکارہوئے ، اورصحابہ کرام کوکچھ ضب(گوہ) ملیں تو انہوں نے اسے پکایا ،ابھی یہ ہانڈیوںپر ابل ہی رہی تھیں کہ اس کا علم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا تو آپ نے اسے اُڈیل دینے کا حکم دیا ، اس میں یہ بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کی ایک قوم مسخ کرکے زمین پر رینگنے والی مخلوق بنادی گئی تھی تو مجھے ڈرہے کہ کہیںیہ ضب(گوہ) وہی مسخ شدہ مخلوق نہ ہو، اس لیے اسے اُنڈیل دو ( اس حدیث کو احمد نے مسند میں روایت کیا ہے ،اورابن حبان نے اس کو صحیح کہاہے،اورطحاوی نے بھی اس کی روایت کی ہے ۔
حافظ ابن حجرکہتے ہیں : اس کی سندشیخین (بخاری ومسلم ) کی شرط پر ہے صرف ایک راوی ضحاک سے بخاری ومسلم نے روایت نہیں کی ہے،طحاوی نے ایک دوسرے طریق سے روایت کی ہے جس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبردی گئی کہ لوگوں نے ضب (گوہ) کوبھونا اور اسے کھایا تو نہ توآپ نے کھایا اورنہ اس کے کھانے سے منع کیا ۔
مذکورہ بالا احادیث سے ہرطرح سے ضب(گوہ) کے گوشت کی حلت جائز ہے ،اس بارے میں نصوص صریح ہیں، توجن احادیث میں ضب(گوہ) کے گوشت کھانے کی ممانعت وارد ہے ، اس کے درمیان اور حلال ثابت کرنے والی احادیث کے درمیان توفیق وتطبیق یوں دی جائے گی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے جب پکی ہانڈیوں کو اُلٹ دینے کا حکم دیا تھا تووہ اس خیال کی بناپر تھا کہ کہیں یہ مسخ شدہ جانور ہی تونہیں ہے ، پھربعد میں توقف فرمایا تو نہ تو اس کے کھانے کا حکم دیا اورنہ اس کے کھانے سے روکا ، اورجب آپ کو اس بات کا علم ہوگیا کہ مسخ شدہ اقوام کی نسل نہیں باقی رہتی تو آپ نے کھانے کی اجازت دے دی ،پھراس کے بعد آپ ضب (گوہ) سے گھن کرنے کی وجہ سے نہ اسے کھاتے تھے نہ اسے حرام قراردیتے تھے ،اورجب وہ آپ کے دسترخوان پر کھائی گئی تو اس سے اس کا مباح ہوناثابت ہوگیا ، کراہت ان آدمیوں کے حق میں ہے جو اس سے گھن کرتے ہوں تو یہ ان کے حق میں کراہت تنزیہی ہوگی ، یعنی نہ کھانا ان کے حق میں زیادہ بہترہے ، اورجن لوگوں کو ضب(گوہ) سے گھن نہیں آتی ان کے لیے احادیث سے ضب ( گوہ) کا کھانا جائز اورمباح ٹھہرا ، اس سے یہ نہیں لازم آتا کہ گوہ مطلقاً مکروہ ہے۔
امام طحاوی ضب( گوہ) سے متعلق احادیث وآثار کی روایت کے بعد فرماتے ہیں : ان آثار سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ضب(گوہ) کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اورمیں بھی اس کا قائل ہوں، اوپرعائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جس میں یہ ہے کہ انہوں نے ہدیہ میں آئی ضب (گوہ) کو سائل کو دینا چاہا تو اللہ کے رسول نے کہا کہ جوچیز تم نہیں کھاتی کیا تم اسے سائل کو دوگی! اس کے بارے میں امام طحاوی کہتے ہیں کہ اس سے محمدبن حسن نے اپنے اصحاب کے لیے دلیل پکڑی ہے ، محمدبن حسن کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس چیز کو اللہ کے رسول نے اپنے لیے اوردوسروں کے لیے مکروہ سمجھا ،امام طحاوی اس پرتعاقب فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس قصہ میں اس بات کا احتمال ہے کہ وہ آیت کریمہ:
{ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ } [ سورة البقرة:267]کے قبیل سے ہو،پھرخراب کھجورکوصدقہ میں دینے کی کراہت سے متعلق احادیث ذکرکیں اوربراء بن عازبرضی اللہ عنہما کی یہ حدیث نقل کی کہ لوگ اپنی سب سے خراب کھجوروں کو صدقہ میں دینا پسندکرتے تھے توآیت کریمہ:
{ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ }[ سورة البقرة:267]نازل ہوئی، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ناپسند کیا کہ عائشہ ضب( گوہ) کو صدقہ میں دیں اس لیے نہیں کہ وہ حرام ہے ۔
حافظ ابن حجرفرماتے ہیں: یہ کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طحاوی نے محمدبن حسن کے نزدیک کراہت کو تحریمی سمجھا ، جب کہ معروف یہ ہے کہ حنفیہ کی اکثریت کراہت تنزیہی کی قائل ہے ، بعض لوگوں کا میلا ن تحریم کی طرف ہے، ان کی تعلیل یہ ہے کہ ''احادیث مختلف ہیں، اورپہلے کون ہے اوربعد میں کون ؟اس کا جاننا مشکل ہے ، اس لیے ہم نے تحریم کو راجح قراردیا ''۔
حافظ ابن حجرفرماتے ہیں: تحریم کے قائل کا یہ دعویٰ کہ پہلے کون ہے اور بعدمیں کون ؟ یہ جاننا مشکل ہے، سابقہ احادیث کی بناپر ممنوع ہے ۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فتح الباری شرح صحیح البخاری ، حدیث نمبر ۵۵۳۷)،( نیز: المحلی لإبن حزم ۶/۱۱۲، مسألہ نمبر۱۰۳۲، و الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۵/۱۴۲، توضیح الأحکام للبسام) (حررہ الفریوائی)