50-بَاب الاقْتِصَادِ فِي الأَكْلِ وَكَرَاهَةِ الشِّبَعِ
۵۰-باب: کھا نے میں میانہ روی کا بیان اور بھر پیٹ کھا نے کی کراہت
وضاحت ۱ ؎ : یعنی کھانے میں اعتدال اور میانہ روی یہ ہے کہ آدمی اتنا کھانا کھائے کہ طبیعت سست نہ ہو، اور عبادت کی طاقت اور فرائض کی ادائیگی کی قوت باقی رہے، اور اس کا اندازہ مختلف ہے ہر شخص اپنے مزاج کے لحاظ سے اس کا اندازہ کرلے،نیک اورصالح لوگ تہائی پیٹ سے زیادہ نہیں کھاتے یعنی اگر تین پائو کی بھوک ہو، تو ایک پائو پر اکتفاء کرتے ہیں ، اور ہمارے زمانہ میں یہ بھی غنیمت ہے کہ کوئی آدھے پیٹ پر قناعت کرے، یا ایک تہائی خالی رکھے، اب تو لوگ ناکوں ناک بھر لیتے ہیں کہ سانس لینے کی جگہ نہیں رہتی اورصحیح طریقہ وہی ہے جو مقدام رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آرہا ہے ۔
3349- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَتْنِي أُمِّي عَنْ أُمِّهَا أَنَّهَا سَمِعَتِ الْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِ يكَرِبَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: مَا مَلأَ آدَمِيٌّ وِعَائً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ حَسْبُ الآدَمِيِّ لُقَيْمَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ،فَإِنْ غَلَبَتِ الآدَمِيَّ نَفْسُهُ، فَثُلُثٌ لِلطَّعَامِ، وَثُلُثٌ لِلشَّرَابِ، وَثُلُثٌ لِلنَّفَسِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۷۸)، وقد أخرجہ: ت/الزہد ۴۷ (۲۳۸۰)، حم (۴/۱۳۲) (صحیح)
۳۳۴۹- مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: آدمی نے پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں بھرا ،آدمی کے لیے کا فی ہے کہ وہ اتنے لقمے کھا ئے جو اس کی پیٹھ سیدھی رکھ سکیں ،لیکن اگر آدمی پر اس کا نفس غالب آجائے، تو پھر ایک تہا ئی پیٹ کھا نے کے لئے، ایک تہا ئی پینے کے لئے، اور ایک تہائی سانس لینے کے لئے رکھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ خواہش نفس کی اتباع سے دور ہیں وہ تہائی پیٹ سے بھی کم کھاتے ہیں ،اور تہائی پیٹ سے زیادہ کھانا سنت کے خلاف ہے۔
3350- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ أَبُو يَحْيَى، عَنْ يَحْيَى الْبَكَّاءِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: تَجَشَّأَ رَجُلٌ عِنْدَالنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: " كُفَّ جُشَائَكَ عَنَّا، فَإِنَّ أَطْوَلَكُمْ جُوعًا، يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَكْثَرُكُمْ شِبَعًا فِي دَارِ الدُّنْيَا "۔
* تخريج: ت/القیامۃ ۳۷ (۲۴۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۶۳) (حسن)
(سند میں عبد العزیز بن عبد اللہ منکر الحدیث ، اور یحییٰ البکاء ضعیف راوی ہیں ، لیکن حدیث شاہد کی وجہ سے حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو : الصحیحہ : ۳۴۳)
۳۳۵۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس ڈکا ر لی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''اپنی ڈکار کو ہم سے روکو ،اس لئے کہ قیامت کے دن تم میں سب سے زیا دہ بھو کا وہ رہے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ سیر ہو کر کھا تا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جو آدمی کھاتا ہے اس کواگر کھانا نہ ملے تو اس کو بڑی تکلیف ہوتی ہے، بہ نسبت اس کے جو کم کھاتا ہے جو بھوک پر صبر کرسکتا ہے، قیامت کا دن بہت لمبا ہوگا،اور دن بھر کھانا نہ ملنے سے زیادہ کھانے والے بہت پریشان ہوں گے، بعضوں نے کہا: جو لوگ بہت کھاتے ہیں ان کی آخری خواہش کھانا اور پینا ہوتی ہے، اور موت سے یہ خواہشیں ختم ہو جاتی ہیں، تو ان کو بہت ناگوار ہوگا ، اور جو لوگ کم کھاتے ہیں، ان کو کھانے کی خواہش نہیں ہوتی، بلکہ زندگی کی بقاء اور عبادت کے لئے اپنی ضروریات اور بھوک پیاس پرقابو پالیتے ہیں، ان کی خواہش عبادت اور تصفیہ قلب کی ہوتی ہے، اور وہ موت کے بعد قائم رہے گی، اس لئے وہ راحت اور عیش میں رہیں گے۔
3351- حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْعَسْكَرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالا: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الثَّقَفِيُّ عَنْ مُوسَى الْجُهَنِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَطِيَّةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ؛ قَالَ: سَمِعْتُ سَلْمَانَ، وَأُكْرِهَ عَلَى طَعَامٍ يَأْكُلُهُ فَقَالَ: حَسْبِي أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " إِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ شِبَعًا فِي الدُّنْيَا،أَطْوَلُهُمْ جُوعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۰۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۵۶) (حسن)
(سند میں سعید بن محمد الوراق ضعیف ہے، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے ، ملاحظہ ہو: الصحیحہ : ۳۴۳)
۳۳۵۱- عطیہ بن عامر جہنی کہتے ہیں کہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو کھا نا کھا نے پر مجبور کیا گیا تو میں نے ان کو کہتے سنا : میرے لئے کافی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا ہے :''دنیا میں سب سے زیادہ شکم سیر ہو کر کھا نے والا قیامت کے دن سب سے زیادہ بھو کا ہو گا ''۔