43- بَاب مَنْ كَانَ يُعْجِبُهُ الْفَأْلُ وَيَكْرَهُ الطِّيَرَةَ
۴۳-باب: نیک فال لینا اچھا ہے اور بدفالی مکروہ
3536- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُعْجِبُهُ الْفَأْلُ الْحَسَنُ، وَيَكْرَهُ الطِّيَرَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۶۹)، وقد أخرجہ: خ/الطب ۴۳ (۵۷۵۴)، ۴۴ (۵۷۵۵)، م/السلام ۳۳ (۲۲۲۰) (صحیح)
۳۵۳۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو نیک فال (اچھے شگون) اچھی لگتی تھی ،اور فال بد (برے شگون) کو ناپسند فرماتے ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : فال یعنی شگون لینا شریعت میں اس کی کچھ اصل نہیں ہے لیکن جاہلیت کے لوگوں کا اور اب تک جاہلوں کایہ حال ہے کہ جانوروں کی آواز سے، عورت اور بلی کے سامنے آجانے سے، کسی کے چھینک دینے سے شگون لیا کرتے ہیں اور ان میں سے کئی ایک چیزوں کو منحوس جانتے ہیں، او ران سے بدشگونی لیتے ہیں تو حدیث میں یہ آیا ہے کہ شگون لینا شرک ہے، اور رسول اکر م ﷺ ہمیشہ اس کو براجانتے تھے، البتہ نیک فال سے آپ خوش ہوتے، اور اس کی مثال یہ ہے کہ مثلا جنگ کے لئے نکلے ، ایک شخص سامنے سے آیا، اس کا نام فتح خان نکلا کسی نے اس سے نیک فال لیا کہ فتح ہوگی اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، ہوگاتو وہی جو اللہ تعالی کو منظور ہے ،مگر نیک فال لینے سے مسلمانوں کو خوشی ہوتی ہے، اور نیک کام کے لئے اور زیادہ مستعد ہوتے ہیں، بر خلاف بد شگون کے کہ وہ شرک اور حرام ہو نے کے علاوہ دل میں وسوسہ اور رنج پیدا کرتا ہے، اور اس وجہ سے آدمی نیک کام کو چھوڑ دیتا ہے، وہ یہ ہے کہ کوئی شخص قرآن شریف میں فال دیکھتا ہے ،کوئی دیوان حافظ اور کوئی کسی بزرگ کے فالنامے میں اور اس سے آئندہ کی بات بتلاتا ہے، یا علم حاصل کرتا ہے، یہ محض واہیات ہے، قرآن اس لئے نہیں اتراکہ اس میں فال دیکھا جائے بلکہ تلاوت ، تدبر اور عمل کے لئے اترا ہے، اور بہت سے علماء نے کہا ہے کہ قرآن میں فال دیکھنا حرام ہے، اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ آئندہ کی کسی بات کا کسی کو علم نہیں، یہاں تک کہ اولیاء، اور انبیاء بھی اس باب میں عاجز ہیں، بغیر اللہ تعالی کے بتلائے ہوئے ان کو بھی کسی غیب کا علم نہیں ہوگا۔
بدفالی اور بدشگونی کے رد وابطال میں اور یہ کہ یہ سب شرک ہیں، متعدد احادیث آئی ہیں، رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: "لاَ طيرة وخيرها الفأل"۔ (متفق علیہ) اس حدیث میں ان امور کے مؤثر ہونے کی نفی ہے، یا ان کاموں کے کرنے کی ممانعت، یعنی یہ اور یہ کام نہ کرو، لیکن یہاں مقصد نفی وانکار اور جاہلی عقائد پر نکیر ہے، اس لئے کہ نہی وممانعت سے زیادہ نفی وانکار میں ان امور کے ردّ وابطال اور ان کے غیرمؤثر ہونے کی دلیل ہے، جبکہ نہی اور ممانعت میں صرف اس کام سے رک جانے کی بات ثابت ہوتی ہے، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ''الطّيرة شرك، الطّيرة شرك، ثلاثاً، وما منا إلا، ولكن الله يذهبه بالتوكل''.
اس حدیث میں طیرہ کو صریحاً شرک اس واسطے کہا گیا ہے کہ اس میں غیر اللہ سے دل کے جڑنے کی بات موجود ہے، اس لئے بد شگونی واضح طور پر حرام ہے۔
حدیث کا دوسرا ٹکڑا
''وما منا إلا ولكن الله يذهب بالتوكل'' (ہم سے ہر آدمی کے یہاں یہ چیز پائی جاتی ہے لیکن اللہ اس کو توکل سے ختم کردیتا ہے) ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔(ملاحظہ ہو : حدیث نمبر۳۵۳۸)
بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ بدشگونی اور بدفالی تین چیزوں میں متحقق ہے، یعنی گھر، عورت اور گھوڑے میں، لیکن صحیح احادیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ اگر بدشگونی کسی چیز میں ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی، جیسا کہ صحیح بخاری میں واضح طور پر اس قید کے ساتھ حدیث آئی ہے، اور دوسرے صحابہ کی احادیث کا بھی یہی تقاضہ ہے اور اسلام کا مزاج بھی یہی بتلاتا ہے، اس لئے جن احادیث میں مطلق ان تین چیزوں میں بدشگونی کی بات کہی گئی ہے، ان کو شاذ اور غلط اور روایت بالمعنی مانا جائے گا، اور
''إن كان الشؤم'' والی حدیث کو محفوظ اور اصول دین کے مطابق مانا جائے گا، اور چونکہ اسلام میں بدشگونی نہیں ہے تو ان تینوں چیزوں میں بھی نہیں ہے۔
اہل جاہلیت کے نزدیک کسی بھی کام کرنے سے پہلے پرندوں کو اڑا کر ان سے شگون اور فال لینے کا اعتقاد اور رواج تھا، اور اس چیز کو وہ مستقل طور پر مؤثر مانتے تھے، اور نفع کے حصول اور ضرر اور نقصان سے بچنے کا سبب مانتے تھے، تو یہ اعتقاد ان کو اپنے ارادوں سے باز رکھتا اور عملی اقدام سے روک دیتا، اس لئے نبی کریم ﷺ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں پرندہ اڑا کر فال نکالنے کو شرک ٹھہرایا، اور اس شرک کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے ایک ایسی چیز کو نفع کے حصول اور نقصان سے بچنے کا سبب ٹھہرا لیا، جو نہ تو شرعی اعتبار سے اور نہ قدرتی اعتبار سے حقیقت میں سبب ہے،تو ایسی صورت میں یہ شرک اصغر ہوا، اور اگر یہ اعتقاد ہو کہ پرندہ کو اڑا کر شگون لینا مستقل مؤثر سبب ہے، اور اللہ کی مشیت وارادہ سے ہٹ کر نفع ونقصان اس سے جڑا ہوا ہے، تو یہ اعتقاد شرک اکبر ہے، اور اسلام نے شرک اصغر اور شرک اکبر دونوں کی نفی کردی، اور اگر کسی حدیث میں شگون کی بات کو مان بھی لیا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ نقصان پہنچنے کی صورت میں آدمی اس طرح کی صورتحال میں اپنے دل میں ایک طرح کی کراہت ونفرت پاتا ہے، تو ایسی صورت میں کہ مباح چیز سے نقصان ہورہا ہے، اس کو چھوڑنے کی بات کہی گئی ہے، تاکہ دل میں جو وسوسے اور خیالات پیداہوتے ہیں ان سے دور ہو کر آدمی مطمئن زندگی گزارے۔
انس رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! ہم ایسے گھر میں تھے جس میں ہماری تعداد بڑی تھی اور ہماری دولت زیادہ تھی، جب ہم دوسرے مکان میں گئے، تو ہماری تعداد کم ہوگئی اور مال بھی کم ہوگیا ،توکیامیں اس مکان کو چھوڑ دوں؟ سنن ابو داود، موطا امام مالک، الادب المفرد] رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کو وہاں سے ہٹ جانے کا حکم اس واسطے دیا تھا کہ اس گھر کے سلسلے میں آپ نے ان کی نفرت وکراہت کو دیکھا اور نقصان کا ملاحظہ کیا جس کے نتیجے میں یہاں کی رہائش ان کے لئے گراں ہوگئی تو آپ نے اس گھر کے چھوڑدینے کی بات اس وجہ سے کہی کہ ان کے دلوں سے نفرت جاتی رہے، اس لئے کہ اس گھر میں رہنے کی وجہ سے ان کے مال اور اولاد میں قلت ہوئی۔
امام ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کو اس گھر سے چلے جانے کا حکم اس واسطے دیا کہ وہ وہاں پر رہنا بوجھ محسوس کرتے تھے، اور مال ودولت اور اولاد کی قلت سے ان کو وحشت ہورہی تھی، تو وہاں سے چلے جانے کا حکم دیا، اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانی طبائع اور مزاج میں یہ بات رکھی ہے کہ کسی جگہ پر ان کو نقصان پہنچنا ان کے لئے ناگوار ہوتا ہے گرچہ نقصان کا سبب اس جگہ کا قیام نہ ہو، ایسے ہی جس کے ذریعے انہیں کوئی بھلائی ملی ہو گرچہ اس بھلائی کو ان کے لئے نہ کیا ہو، ایسے ہی جس آدمی کے ذریعے سے ان کو کوئی شر اور نقصان پہنچا ہو تو اس سے نفرت رکھتے ہیں، چاہے اس شر کو اس نے ان لوگوں کے ارادے سے نہ کیا ہو۔
یہاں پر ایک مسئلے کی وضاحت اور ضروری ہے کہ اسلام میں نیک شگون اور نیک فالی ثابت ہے کیونکہ رسول اکرم ﷺ کو نیک فالی پسند تھی، اور مختلف مقامات پر آپ نے فال نکالی، جیسے صلح حدیبیہ کے موقع پر صلح کے سلسلے میں جب سہیل بن عمرو کو آپ نے دیکھا تو فرمایا: "لقد سهل لكم من أمركم" مسلمانو! تمہارا مسئلہ آسان ہوگیا ہے''، تو کیا نیک فالی ''طیرۃ'' بدشگونی ہی سے مستثنیٰ ہے، یا ایسا نہیں ہے؟۔
بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ طیرہ سے مستثنیٰ ہے، اس لئے کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: طیرہ مؤثر نہیں ہے، لیکن سب سے اچھا طیرہ فال ہے، لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! فال کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اچھی بات جسے تم میں سے کوئی سنے''،تو اس حدیث میں طیرہ (بدفالی) کا ردّ وابطال ہے، اور یہ بیان ہے کہ فال اسی سے ہے، لیکن اس کی اچھی صورت ہے، تو دونوں کو الگ الگ کردیا، نیک فالی میں نفع اور فائدہ ہے، اور بدفالی اور بدشگونی میں نقصان ہے، جیسے شرکیہ جھاڑ پھونک اور منتر سے ممانعت ہے، اور اگر شرک سے خالی جھاڑ پھونک ہو تو اس میں فائدہ ہے، بعض علماء نے فال کو طیرہ سے الگ چیز مانا ہے، لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ فال جائز ہے، ا ور طیرہ یعنی بدشگونی شرک ہے۔
امام ابن القیم نے فال اور طیرہ کے درمیان فرق بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ دونوں کے درمیان فرق وامتیاز کرنے میں بڑا فائدہ ہے، یعنی طیرہ دیکھی یا سنی چیزوں سے بدفالی کا نام ہے، جب انسان اس کو استعمال کرتا ہے تو اپنے سفر سے لوٹ آتا ہے، اور جس چیز پر عزم کئے رہتا ہے اس سے باز آجاتا ہے، تو اس طریقے سے اس نے شرک کا باب کھٹکھٹایا،بلکہ اس میں داخل ہوگیا، اور اللہ پر توکل اور بھروسہ سے بری اور آزاد ہوگیا، اور غیر اللہ کے ڈر کے تعلق سے جو کچھ سنتا ہے اور دیکھتا ہے اس سے بدفالی اور بدشگونی کا دروازہ اپنے اوپر کھول لیتا ہے، اور یہ چیز اس کو
{إياك نعبدُ وإياك نستعين} { فاعبده وتوكل عليه}اور
{عليه توكلت وإليه أنيب} یعنی عبودیت واستعانت ،اور توکل وانابت کے مقام سے الگ کردیا، تو عبادت اور توکل کے باب میں اس کا دل غیر اللہ سے جڑ جائے گا، اور اس سے اس کا دل، اس کا ایمان، اور اس کی حالت میں فساد پیدا ہوجائے گا، اور بدشگونی کے تیر کا شکار رہے گا۔
تو یہ نیک فالی جس سے دل خوش ہوتے ہیں اور امیدوں کو تائید وتقویت ملتی ہے، امید کے دروازے کھلتے ہیں، خوف سے سکون ملتا ہے، دل کو تقویت پہنچتی ہے، اور اللہ سے استعانت اور توکل پر یہ چیز ابھارنے والی ہوتی ہے، اور امیدوں کو تقویت پہنچانے والی خوشخبری جو اس کے نفس کے لئے خوش کن ہوتی ہے، تو یہ چیز بدشگونی کی ضد اور عکس ہے، نیک فالی انسان کو اطاعت اور توحید کی طرف لے جاتی ہے، اور بدشگونی معصیت وشرک کی طرف لے جاتی ہے، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے نیک فالی کو پسند فرمایا، اور بدشگونی کو باطل قرار دیا۔(حررہ الفریوائی)
3537- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ؛ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " لا عَدْوَى، وَلا طِيَرَةَ، وَأُحِبُّ الْفَأْلَ الصَّالِحَ "۔
* تخريج: خ/الطب ۴۵ (۵۷۷۶)، م/السلام ۳۴ (۲۲۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۹)، وقد أخرجہ: د/الطب ۲۴ (۳۹۱۶)، ت/السیر ۴۷ (۱۶۱۵)، حم (۳/۱۱۸، ۱۵۴، ۱۳۰، ۱۷۸، ۲۵۱، ۱۷۳، ۲۷۵) (صحیح)
۳۵۳۷- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' چھوت چھات ۱؎ اور بدشگونی کوئی چیز نہیں ، اور میں فالِ نیک کو پسند کرتا ہوں '' ۔
وضاحت ۱ ؎ : عدوى: یعنی چھوت چھات کے ہونے یا نہ ہو نے یا ان کی تاثیر یا عدم تاثیر کے متعلق مختلف احادیث آئی ہیں ، ائمہ اسلام نے ان میں جمع وتطبیق اور ان کے صحیح معانی ومطالب کو بیان کر نے میں مختلف انداز کی کوششیں فرمائیں ہیں، اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر ہم اختصار کے ساتھ اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہیں، تاکہ یہ مسئلہ اچھی طرح واضح ہوجائے ، وباللہ التوفیق۔
حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ
''لا عدوى'' چھوت چھات نہیں ہے، اس میں زمانۂ جاہلیت کے اس اعتقاد کی نفی کی گئی ہے کہ امراض خود بخود متعدی ہوتے ہیں، اس لئے کہ اس اعتقاد میں اللہ رب العزت کی مشیت اور اس کے فعل سے قطع نظر نفس بیماری یعنی چھوت چھات کی بیماری کو مستقل سبب کی حیثیت دی گئی تھی، اور اس کا اعتقاد رکھا گیا تھا اور یہ شرک اکبر ہے، یہ واضح رہے کہ سبب کی طرف دیکھنا اور اس میں غلو کرنا شرک اصغر ہے۔ اور کسی آدمی کا سبب کے بارے میں اعتقاد ہی اس کام کے شرک اکبر یا اصغر ہونے میں مؤثر ہے۔
اور جن احادیث سے عدویٰ یعنی چھوت چھات کے ثبوت کا پتہ چلتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بیمار سے صحت مند کی طرف مرض کی منتقلی کا سبب بنایا ہے، اورجس حدیث میں چھوت چھات کی نفی ہے، اسی میں طیرہ، ھامہ، اور صفر کے مؤثر ہونے کی بھی نفی ہے، اس لئے کہ یہ ساری چیزیں اہل جاہلیت کے معتقدات میں سے تھیں، جس کا اسلام نے ردّوابطال کیا، چھوت چھات کے مطلقاً انکار کردینے یا غیر مؤثر ماننے کی صورت میں طبی اصول وضوابط معطل ہوکر رہ جاتے ہیں، جبکہ شریعت ان اصولوں کو معطل نہیں کرتی بلکہ ان کو تسلیم کرتی ہے، ہاں! اگر اصول توحید کے منافی کوئی چیز ہوگی تو اس کا رد وابطال مقصود ہے، رہ گیا چھوت چھات کا معاملہ تو وہ احادیث سے ثابت ہے، استقراء سے بھی اس کا پتہ چلتا ہے، اور طبی اصول وضوابط اور حقائق کا بھی یہی تقاضہ ہے، حدیث شریف میں ہے:
"لا يورد ممرّضٌ على مصحٍّ" ''یعنی بیمار کو صحت مند کے پاس نہ لایا جائے''۔ دوسری حدیث میں ہے:
''فرّ من المجذوم، فرارك من الأسد'' ''کوڑھی سے ویسے ہی دور بھاگو جیسے کہ شیر سے بھاگتے ہو''۔ طاعون کے بارے میں فرمان نبوی ہے:
''وإذا سمعتم بأرض ، فلا تقدموا عليه وإذا وقع بأرضٍ وأنتم بها فلا تخرجوا فراراً منه'' ''جب تم طاعون کے کسی جگہ پھیل جانے کی خبر سنو تو وہاں نہ جاؤ، اور جب کسی جگہ طاعون پھیل جائے اور وہاں تم موجود ہو تو وہاں سے بھاگ کر باہر نہ جاؤ''۔
جہاں تک استقراء کا مسئلہ ہے تو انسانوں کے مشاہدے میں برابر یہ بات آتی رہتی ہے کہ مریض سے میل جول کے نتیجے میں امراض پیدا ہوتے ہیں خاص کر کھجلی اور کوڑھ پن جیسے امراض ۔
اور جدید طبی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ چھوت چھات ایک ایسی حقیقت بلکہ ایسا مسلمہ ہے جس کا انکار یا جس سے تجاہل ناممکن ہے، طب کی تقریباً ہر کتاب میں چھوت چھات پیدا کرنے والی چیزیں اور ان سے بچنے کی تفاصیل ملتی ہیں، عصر حاضر کے ایک مصری ڈاکٹر محمد علی البار فرماتے ہیں کہ متعدی امراض جو ایک مریض سے دوسرے آدمی تک منتقل ہوتے ہیں، مختلف متعدی طریقوں سے ایسا ہوتا ہے ،یا یہ تنفس کے طریقے سے منتقل ہوتے ہیں، جیسے انفلونزا، سل اور دق کے امراض یا منہ کے ذریعہ سے جیسے آلات ہضم کے امراض جیسے بچوں کا مفلوج ہوجانا یا کلیجے کاوبائی التہاب۔
ایسے ہی زنا اور اغلام بازی کے نتیجے میں منتقل ہونے والے امراض جیسے سیلان، ایڈز وغیرہ،یا چھونے سے پیدا ہونے والے امراض، جیسے کھجلی یا کوڑھ۔
ایسے ہی انجکشن یا خون نکالنے کے ذریعے سے پیدا ہونے والے امراض، جیسے کلیجے کے التہابی وائرس،یا کیڑے مکوڑوں کے ڈنک مارنے کے نتیجے میں ہونے والے امراض، جیسے مچھر جو ملیریا کا مرض منتقل کرتے ہیں۔
اس تفصیل کی روشنی میں اس موضوع کی ساری احادیث کے درمیان تطبیق ہوجاتی ہے، اور کسی طرح کا کوئی تعارض یا اشکال باقی نہیں رہتا، اور جدید طبی نظریات اور احادیث نبویہ کے درمیان مکمل اتفاق ویکسانیت ہوجاتی ہے،بلکہ اگر چھوت چھات کو ثابت کرنے والی احادیث نبویہ کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ نبی اکرم ﷺ کی صداقت پر ایک معجزہ اور دلیل ہے، تو بے جا نہ ہوگا، اس لئے کہ جدید طبی تحقیقات نے صدیوں پہلے رسول اکرم ﷺ کی باتوں کو آج سچ کر دکھایا ہے۔
خلاصہ یہ کہ جن احادیث میں چھوت چھات کی نفی ہے اس میں مشرکین کے اس اعتقاد کی نفی ہے کہ بذاتِ خود یہ چیز دوسرے آدمی میں مؤثر ہے، اور اللہ تعالیٰ کی قدرت وحکمت اور حکم سے بالا تر ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر چھوت چھات کے ذریعے سے دوسرے لوگوں میں یہ امراض پھیلتے ہیں تو ان کا پھیلنا متحقق ہے ،لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور مشیت کے بغیر ناممکن ہے ، اصل مسبب الاسباب وہی ذاتِ شریفہ ہے اور دنیا کی بہت ساری چیزیں ایک دوسرے پر اللہ کے حکم سے مؤثر ہیں، جس کو سبھی مانتے اور تسلیم کرتے ہیں اور احتیاطی تدابیر بھی اسلام کا اصل الاصول ہے۔ (حررہ الفریوائی)
3538- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَلَمَةَ، عَنْ عِيسَى بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، وَمَا مِنَّا إِلا، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ "۔
* تخريج: د/الطب ۲۴ (۳۹۱۰)، ت/السیر ۴۷ (۱۶۱۴)، تحفۃ الأشراف (۹۲۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۹، ۴۳۸، ۴۴۰) (صحیح)
۳۵۳۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بدشگونی شرک ہے ۱؎ اور ہم میں سے جسے بھی بدشگونی کا خیال آئے تو اللہ تعالیٰ پر توکل کی وجہ سے یہ خیال دور کردے گا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی اللہ کے اوپر بھروسہ کرنے سے یہ وہم جاتا رہے گا، انسان کو چاہئے کہ اگر ایسا وہم کبھی دل میں آئے ،تو اس کو بیان نہ کرے، اور منھ سے نہ نکالے ،اور اللہ پر بھروسہ کرے، جو وہ چاہے وہ ہوگا ،امام بخاری نے کہا : سلیمان بن حرب کہتے تھے کہ میرے نزدیک یہ قول: ومامنا ۔۔۔اخیر تک ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے، بلکہ اکثر حفاظ نے اس کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا کلام کہا ہے۔
3539- حدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا عَدْوَى، وَلا طِيَرَةَ، وَلا هَامَةَ، وَلا صَفَرَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۲۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۶۹، ۳۲۸) (صحیح)
۳۵۳۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' چھوت چھات ۱؎ اور بدشگونی کوئی چیز نہیں ہے ، اسی طرح الّو اور ماہ صفر کی نحوست کوئی چیز نہیں ہے '' ۔
وضاحت ۱ ؎ : چھوت چھات یعنی بیماری خود سے متعدی نہیں ہے ، بلکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر سے ہوتا ہے ، البتہ بیمار یوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسباب کو اپنانا مستحب ہے، الو کو دن میں دکھا ئی نہیں دیتا ہے، تو وہ رات کو نکلتا ہے، اور اکثر ویرانوں میں رہتا ہے، عرب لوگ اس کو منحوس جانتے تھے، اوربعض یہ سمجھتے تھے کہ مقتول کی روح الو بن کر پکارتی پھر تی ہے، جب اس کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو وہ اڑجاتا ہے ، رسول اکرم ﷺ نے اس خیال کوباطل قرار دیا ،اسی طرح صفر کے مہینے کو عوام اب تک منحوس جانتے ہیں، صفر کے مہینے کے پہلے تیرہ دن جس میں رسول اکرم ﷺ بیمار ہوئے تھے ان ایام کو تیرہ تیزی کہتے ہیں، ان میں عورتیں کوئی بڑا کام جیسے شادی بیاہ وغیرہ کرنے نہیں دیتیں ،یہ بھی لغو ہے، صفر کا مہینہ اور مہینوں کی طرح ہے، کچھ فرق نہیں ہے۔
3540- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،عَنْ أَبِي جَنَابٍ،عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا عَدْوَى، وَلا طِيَرَةَ، وَلا هَامَةَ، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ! الْبَعِيرُ يَكُونُ بِهِ الْجَرَبُ فَتَجْرَبُ بِهِ الإِبِلُ " قَالَ: " ذَلِكَ الْقَدَرُ،فَمَنْ أَجْرَبَ الأَوَّلَ " ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: (۸۶)، (تحفۃ الأشراف:۸۵۸۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۳۵) (صحیح)
۳۵۴۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' چھوت چھات ، بدشگونی اور الو دیکھنے کی کوئی حقیقت نہیں ، ایک شخص آ پ ﷺ کی جانب اٹھ کر بولا: اللہ کے رسول ! ایک اونٹ کو جب کھجلیہوتی ہے تو دوسرے اونٹ کو بھی اس کی وجہ سے کھجلی ہوجاتی ہے ۱ ؎ ، آپ ﷺ نے فرمایا:'' یہی تو تقدیر ہے ، آخر پہلے اونٹ کو کس نے کھجلی والا بنایا '' ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مطلب یہ کہ امراض متعدی بھی ہوتے ہیں ۔
وضاحت ۲ ؎ : اور جو ڈاکٹر یا حکیم ہمارے زمانے میں بعض بیماری میں عدوی بتلاتے ہیں ، ان سے جب یہ اعتراض کرو کہ بھلا اگر عدوی صحیح ہوتا تو جس گھر میں ایک شخص کو ہیضہ ہو تو چاہیے کہ اس گھر کے بلکہ اس محلہ کے سب لوگ مرجائیں، تو اس کا کوئی معقول جواب نہیں دیتے، بلکہ یوں کہتے ہیں کہ بعض مزاجوں میں اس بیماری کے قبول کرنے کا مادہ ہوتا ہے تو ان کو بیماری لگ جاتی ہے ، بعض مزاجوں میں یہ مادہ نہیں ہوتا تو ان کو باوجود قرب کے بیماری نہیں لگتی، ہم یوں کہتے ہیں کہ مادے کا مزاج میں پیدا کرنے والا کون ہے؟ اللہ تعالی، تو پھر سب امور اللہ تعالی ہی کی طرف سے ہوئے اسی کی مرضی اور تقدیر سے پھر عدوی کا قائل ہونا کیا ضروری ہے؟۔
3541- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا يُورِدُ الْمُمْرِضُ عَلَى الْمُصِحِّ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۷۵)، وقد أخرجہ: م/السلام ۳۳ (۲۲۲۱، ۲۲۲۳)، د/الطب ۲۴ (۳۹۱۱)، حم (۲/۴۳۴) (حسن صحیح)
۳۵۴۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بیمار اونٹ کو تندرست اونٹ کے پاس نہ جانے دیا جائے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیمار ی متعدی ہوتی ہے، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے تندرست اور غیر مریض جانور وں کو مریض اونٹوں کے قریب لے جانے سے منع کیا ،بلکہ آپ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اکثر ایسا سابقہ تقدیر اور اللہ کی مرضی کے مطابق ہو جاتا ہے، تو جانورں کا مالک تعدی کے ناحیہ سے فتنہ اور شک میں مبتلا ہوسکتا ہے، اس وجہ سے آپ نے دور رکھنے کا حکم دیا ۔