17- بَاب الاسْتِئْذَانِ
۱۷-باب: (گھر کے اند رداخل ہونے کے لئے )اجازت لینے کا بیان
3706- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ؛ أَنَّ أَبَا مُوسَى اسْتَأْذَنَ عَلَى عُمَرَ ثَلاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَانْصَرَفَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ عُمَرُ مَا رَدَّكَ؟ قَالَ: اسْتَأْذَنْتُ الاسْتِئْذَانَ الَّذِي أَمَرَنَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ثَلاثًا، فَإِنْ أُذِنَ لَنَا دَخَلْنَا، وَإِنْ لَمْ يُؤْذَنْ لَنَا رَجَعْنَا، قَالَ: فَقَالَ: لَتَأْتِيَنِّي عَلَى هَذَا بِبَيِّنَةٍ أَوْ لأَفْعَلَنَّ، فَأَتَى مَجْلِسَ قَوْمِهِ، فَنَاشَدَهُمْ، فَشَهِدُوا لَهُ، فَخَلَّى سَبِيلَهُ۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۲۳)، وقد أخرجہ: خ/البیوع ۹ (۲۰۶۲)، الاستئذان ۱۳ (۶۲۴۵)، م/الأدب ۷ (۲۱۵۳)، د/الأدب ۱۳۸ (۵۱۸۰)، ت/الاستئذان ۳ (۲۶۹۰)، ط /الاستئذان ۱ (۳)، دي/الاستئذان ۱ (۲۶۷۱) (صحیح)
۳۷۰۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ سے ( اندر آنے کی) اجازت طلب کی لیکن انہیں اجازت نہیں دی گئی، تو وہ لوٹ گئے ، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پیچھے ایک آدمی بھیجا اور بلا کر پوچھا کہ آپ واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے ویسے ہی تین مرتبہ اجازت طلب کی جیسے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیاہے، اگر ہمیں تین دفعہ میں اجازت دے دی جائے تو اندر چلے جائیں ورنہ لوٹ جائیں ، تب انہوں نے کہا: آپ اس حدیث پر گواہ لائیں ورنہ میں آپ کے ساتھ ایسا ایسا کروں گا یعنی سزا دوں گا ، تو ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنی قوم کی مجلس میں آئے ، اور ان کو قسم دی (کہ اگر کسی نے یہ تین مرتبہ اجازت طلب کرنے والی حدیث سنی ہو تو میرے ساتھ اس کی گواہی دے ) ان لوگوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا کر گواہی دی تب عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو چھوڑا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : استئندان کیا ہے؟ ایک یہ ہے کہ دروازے پر کھڑے ہو کر تین بار بلند آواز سے ''السلام علیکم ''کہے ،اور پوچھے کہ فلاں شخص یعنی اپنا نام لے کر بتائے کہ اندر داخل ہو یا نہیں؟ اگر تینوں بار میں گھر والا جواب نہ دے تولوٹ آئے ،لیکن بغیر اجازت کے اندر گھسنا جائز نہیں ہے ، اور یہ ضروری اس لئے ہے کہ آدمی اپنے مکان میں کبھی ننگا کھلا ہوتا ہے ،کبھی اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا ہے، اگربلااجازت اندر داخل ہوناجائز ہو تو بڑی خرابی ہوگی، اب یہ مسئلہ عام تہذیب اور اخلاق میں داخل ہوگیا ہے کہ کسی شخص کے حجرہ یا مکان میں بغیر اجازت لئے اور بغیر اطلاع دئیے لوگ نہیں گھستے، اور جو کوئی اس کے خلاف کرے اس کو بے ادب اوربے وقوف جانتے ہیں،اسلامی شریعت میں بھی ایسا ہی حکم ہے کہ تین وقت اجازت لے کر اندرگھسنا چاہیے: ایک تو صلاۃ فجر سے پہلے ، دوسرے دوپہر کے وقت جب لوگ اپنے کپڑے اتار کر آرام کرتے ہیں، تیسرے صلاۃ عشاء کے بعد جیسے قرآن شریف میں واردہے، اور قرآن میں صاف حکم ہے:
{ لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا}( یعنی اپنے گھروں کے سوا دوسرے کے گھروں میں نہ گھسو یہاں تک کہ اجازت حاصل کرلو اور گھروالوں پر سلام کرو) ( سورة النــور : 27) ۔
3707- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ وَاصِلِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي سَوْرَةَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ؛ قَالَ: قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَذَا السَّلامُ،فَمَا الاسْتِئْذَانُ؟ قَالَ: " يَتَكَلَّمُ الرَّجُلُ تَسْبِيحَةً وَتَكْبِيرَةً وَتَحْمِيدَةً، وَيَتَنَحْنَحُ، وَيُؤْذِنُ أَهْلَ الْبَيْتِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۹۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۹۲) (ضعیف)
(سند میں ابوسورہ منکر الحدیث ہے)
۳۷۰۷- ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! سلام تو ہمیں معلوم ہے ، لیکن اِستئذان کیا ہے؟ ( یعنی ہم اجازت کیسے طلب کریں ) آپ ﷺ نے فرمایا:''استئذان یہ ہے کہ آدمی تسبیح ، تکبیراورتحمید ( یعنی ''سبحان الله، الله أكبر، الحمد لله'' کہہ کر یا کھنکا ر کر گھر والوں کو خبردار کرے''۔
3708- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: كَانَ لِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مُدْخَلانِ: مُدْخَلٌ بِاللَّيْلِ، وَمُدْخَلٌ بِالنَّهَارِ، فَكُنْتُ إِذَا أَتَيْتُهُ وَهُوَ يُصَلِّي، يَتَنَحْنَحُ لِي۔
* تخريج: ن/السہو ۱۷ (۱۲۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۰۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۰) (ضعیف)
(سند میں عبد اللہ بن نجی اور حارث ضعیف ہیں)۔
۳۷۰۸- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جانے کے لئے میرے دووقت مقرر تھے: ایک رات میں، ایک دن میں، تو میں جب آتا اور آپ صلاۃ کی حالت میں ہوتے تو آپ میرے لئے کھنکار دیتے ۔
3709- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: اسْتَأْذَنْتُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: " مَنْ هَذَا "، فَقُلْتُ: أَنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " أَنَا، أَنَا "۔
* تخريج: خ/الاستئذان ۱۷ (۶۲۵۰)، م/الآداب ۸ (۲۱۵۵)، د/الأدب ۱۳۹ (۵۱۸۷)، ت/الاستئذان ۱۸ (۲۷۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۴۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/ ۲۹۸، ۳۲۰، ۳۶۳)، دي/الاستئذان ۲ (۲۶۷۲) (صحیح)
۳۷۰۹- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے ( اندر آنے کی ) اجازت طلب کی تو آپ نے ( مکان کے اندر سے ) پوچھا :'' کون ہو'' ؟ میں نے عرض کیا: میں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''میں میں کیا ؟ '' ( نام لو ) ۔