• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
4-بَاب حَقِّ الْجِوَارِ
۴-باب: جوار ( پڑوس) کے حق کا بیان​


3672- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ نَافِعَ بْنَ جُبَيْرٍ يُخْبِرُ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُحْسِنْ إِلَى جَارِهِ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ "۔
* تخريج: خ/الأدب ۳۱ (۶۰۱۹)، الرقاق ۲۳ (۶۴۷۶)، م/الإیمان ۱۹ (۴۸)، د/الأطعمۃ ۵ (۳۷۴۸)، ت/البر الصلۃ ۴۳ (۱۹۶۷، ۱۹۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۵۶)، وقد أخرجہ: ط/صفۃ النبیﷺ ۱۰ (۲۲)، حم (۴/۳۱، ۶/۳۸۴، ۳۸۵)، دي/الأطعمۃ ۱۱ (۲۰۷۸) (صحیح)
۳۶۷۲- ابوشریح خُزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ نیک سلوک کرے ، اورجو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ اپنے مہمان کا احترام اور اس کی خاطرداری کرے ، اورجوشخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اُسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے'' ۔
وضاحت ۱ ؎ : صرف اچھی بات کہنے یا خاموش رہنے کی اس عمدہ نصیحت نبوی پر عمل کے سلسلے میں اکثر لوگ کوتاہی کا شکار ہیں،لوگوں کے جو جی میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہیں،پھر پچھتاتے ہیں، آدمی کو چاہئے کہ اگر اچھی بات ہو تو منہ سے نکالے، اوربری بات جیسے جھوٹ ، غیبت ، بہتان ، فضول اور بیکار باتوں سے ہمیشہ بچتا رہے ، عقلا ء کے نزدیک کثرت کلام بہت معیوب ہے، تمام حکیموں اور داناوں کا اس پر اتقاق ہے کہ آدمی کی عقل مندی اس کے بات کرنے سے معلوم ہو جاتی ہے، لہذا ضرور ی ہے کہ خوب سوچ سمجھ کر بولے کہ اس کی بات سے کوئی نقصان توپیدا نہ ہوگا، پھر یہ سوچے کہ اس بات میں کوئی فائدہ بھی ہے یا نہیں، اس کے بعد اگر اس بات میں فائدہ ہو تو منہ سے نکالے ورنہ خاموش رہے، اگر خاموشی سے تھک جائے تو ذکر الہی یا تلاوت قرآن کرے ،یا دینی علوم کوحاصل کرے۔


3673- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَعَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، (ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، جَمِيعًا عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ "۔
* تخريج: خ/الأدب ۲۸ (۶۰۱۴)، م/البر والصلۃ ۴۲ (۲۶۲۴)، د/الأدب ۱۳۲ (۵۱۵۱)، ت/البروالصلۃ ۲۸ (۱۹۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۴۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۹۱، ۱۲۵، ۲۳۸) (صحیح)
۳۶۷۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مجھے جبرئیل علیہ السلام برابر پڑوس کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنادیں گے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : پڑوس کا حق بہت ہے ،اگر چہ کافر ہولیکن اس کے ساتھ اچھا سلوک ضرور ی ہے ،اگر وہ کوئی چیز عاریتاً مانگے تو اس کو دے، اگر بھوکا ہو تو اپنے کھانے میں سے اس کو کھلائے ،اگر اس کو قرض کی ضرورت ہو تو دے ،بہر حال خوشی اور مصیبت دونوں میں اس کاشریک رہے، اور اس کی ہمدردی کرتا رہے اس میں دین اور دنیا دونوں کے فائدے ہیں۔


3674- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " ما زَالَ جِبْرَائِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ " ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۵۲، ومصباح الزجاجۃ:۱۲۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۵۹، ۳۰۵،۴۴۵، ۵۱۴) (صحیح)
۳۶۷۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جبرئیل برابرپڑوسی کے بارے میں وصیت وتلقین کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ وہ ہمسایہ کو وارث بنادیں گے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
5- بَاب حَقِّ الضَّيْفِ
۵-باب: مہمان کے حق کا بیان​


3675- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ؛ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَجَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَلا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَ صَاحِبِهِ حَتَّى يُحْرِجَهُ، الضِّيَافَةُ ثَلاثَةُ أَيَّامٍ، وَمَا أَنْفَقَ عَلَيْهِ بَعْدَ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ فَهُوَ صَدَقَةٌ "۔
* تخريج: أنظر حدیث رقم: (۳۶۷۲) (صحیح)
۳۶۷۵- ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہووہ اپنے مہمان کی عزت وتکریم کرے، اور یہ واجبی مہمان نوازی ایک دن اورایک رات کی ہے، مہمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اسے حرج میں ڈال دے، مہمان داری (ضیافت) تین دن تک ہے اور تین دن کے بعد میزبان جو اس پر خرچ کرے گا وہ صدقہ ہوگا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اوائل اسلام میں مہمانی (ضیا فت ) واجب تھی، پھر جمہور کے نزدیک اس کا وجوب منسوخ ہوگیا،لیکن اب بھی وہ اخلاق حسنہ میں داخل ہے، اور مہمانی نہ کرنا بدخلقی اور بے مروتی اور باعث شقاوت ہے، اور مہمان سے مراد ہر ایک مسلمان مسافر ہے جو اس کے پاس آ کر اترے خواہ اس سے پہچان ہو یا نہ ہو ۔


3676- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّهُ قَالَ: قُلْنَا لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ: إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ فَلايَقْرُونَا، فَمَا تَرَى فِي ذَلِكَ؟ قَالَ: لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأَمَرُوا لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ، فَاقْبَلُوا، وَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا، فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ الَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ "۔
* تخريج: خ/المظالم ۱۸ (۲۴۶۱)، الأدب ۸۵ (۶۱۳۷)، م/اللقطۃ ۳ (۱۷۲۷)، ت/السیر ۳۲ (۱۵۸۹)، د/الأطعمۃ ۵ (۳۷۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۵۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۴۹) (صحیح)
۳۶۷۶- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: آپ ہم کو لوگوں کے پاس بھیجتے ہیں، اور ہم ان کے پاس اتر تے ہیں تو وہ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے، ایسی صورت میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ توآ پ نے ہم سے فرمایا: ''جب تم کسی قوم کے پاس اترواور وہ تمہارے لئے اُن چیزوں کے لینے کا حکم دیں جو مہمان کو درکار ہوتی ہیں، تو انہیں لے لو، اور اگر نہ دیں تو اپنی مہمان نوازی کا حق جو ان کے لئے مناسب ہو ان سے وصول کرلو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جب میزبان مہمان کی مہمانی نہ کرے تواس کے عوض میں بقدرمہمانی کے میزبان سے نقد وصول کرسکتا ہے ، اور یہ واجب مہمانی پہلی رات میں ہے کیونکہ رات میں مسافر کونہ کھانا مل سکتا ہے نہ بازار معلوم ہوتا ہے ،تو صاحب خانہ پراس کے کھانے پینے کا انتظام کر دینا واجب ہے ، بعض علماء کے نزدیک یہ وجوب اب بھی باقی ہے ، جمہور کہتے ہیں کہ وجوب منسوخ ہوگیا، لیکن سنت ہو نا اب بھی باقی ہے، تو ایک دن رات مہمانی کرنا سنت مؤ کدہ ہے ،یعنی ضروری ہے اور تین دن مستحب ہے ،اور تین دن بعد پھر مہمانی نہیں ، اب مہمان کو چاہئے کہ وہاں سے چلاجائے یا اپنے کھانے پینے کا انتظام خود کر ے ،اور میزبان پر بوجھ نہ بنے ۔


3677- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْمِقْدَامِ أَبِي كَرِيمَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لَيْلَةُ الضَّيْفِ وَاجِبَةٌ، فَإِنْ أَصْبَحَ بِفِنَائِهِ فَهُوَ دَيْنٌ عَلَيْهِ، فَإِنْ شَائَ اقْتَضَى، وَإِنْ شَائَ تَرَكَ "۔
* تخريج: د/الأطعمۃ ۵ (۳۷۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۶۸) (صحیح)
۳۶۷۷- مقدام ابوکریمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اگر کسی کے یہاں رات کو کوئی مہمان آئے تو اس رات اس مہمان کی ضیافت کرنی واجب ہے، اور اگر وہ صبح تک میزبان کے مکان پر رہے تو یہ مہمان نوازی میزبان کے اوپر مہمان کا ایک قرض ہے ، اب مہمان کی مرضی ہے چاہے اپنا قرض وصول کرے، چاہے چھوڑ دے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
6- بَاب حَقِّ الْيَتِيمِ
۶-باب: یتیم کے حق کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱ ؎ : یتیم وہ لڑکا یا لڑکی ہے جس کا باپ وفات پا گیا ہو، اور و ہ نابالغ ہو۔


3678- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أُحَرِّجُ حَقَّ الضَّعِيفَيْنِ: الْيَتِيمِ وَالْمَرْأَةِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۴۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۳۹) (حسن)
۳۶۷۸ - ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اے اللہ!میں دو کمزوروں ایک یتیم اور ایک عورت کا حق مارنے کوحرام قرار دیتا ہوں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بیوہ اور یتیم دونوں کا مال کھا جانا اور اس میں الٹ پھیر کرنا سخت گناہ ہے، اگر چہ اور کسی کا مال کھا جانا حرام اور گناہ ہے، مگر ان دونوں کا مال ناجائز طور پر کھانا نہایت سخت گناہ ہے، اس لئے کہ یہ دونوں نا تواں اور کمزور ہیں ، روزی کمانے کی ان میں قدرت نہیں ہے، تو ان کو اور دینا چاہیے نہ کہ انہی کا مال لے لینا ، بہت بد بخت ہیں وہ لوگ جو یتیم اور بیوہ کا مال ناحق کھالیں۔


3679- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي عَتَّابٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " خَيْرُ بَيْتٍ فِي الْمُسْلِمِينَ بَيْتٌ فِيهِ يَتِيمٌ يُحْسَنُ إِلَيْهِ، وَشَرُّ بَيْتٍ فِي الْمُسْلِمِينَ بَيْتٌ فِيهِ يَتِيمٌ يُسَاءُ إِلَيْهِ ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۰۹، ومصباح الزجاجۃ: ۲۸۲) (ضعیف)
(سند میں یحییٰ بن سلیمان لین الحدیث ہیں)
۳۶۷۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' مسلمانوں میں سب سے بہترگھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم (پرورش پاتا) ہو،اور اس کے ساتھ نیک سلوک کیاجاتا ہو، اور سب سے بدترین گھروہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو ''۔


3680- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْكَلْبِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الأَنْصَارِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ عَالَ ثَلاثَةً مِنَ الأَيْتَامِ، كَانَ كَمَنْ قَامَ لَيْلَهُ وَصَامَ نَهَارَهُ، وَغَدَا وَرَاحَ شَاهِرًا سَيْفَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَكُنْتُ أَنَا وَهُوَ فِي الْجَنَّةِ أَخَوَيْنِ كَهَاتَيْنِ، أُخْتَانِ "، وَأَلْصَقَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةَ وَالْوُسْطَى۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۸۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۸۳) (ضعیف)
(سند میں اسماعیل بن ابراہیم مجہول اور حماد کلبی ضعیف راوی ہے)
۳۶۸۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے تین یتیموں کی پرورش کی تو وہ ایسا ہی ہے جیسے وہ رات میں تہجد پڑھتا رہا ، دن میں صیام رکھتا رہا، اور صبح وشام تلوار لے کر جہاد کرتا رہا، میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح بھائی بھائی ہوکر رہیں گے جیسے یہ دونوں بہنیں ہیں، اور آپ ﷺ نے درمیانی اور شہادت کی انگلی کو ملا یا ( اور دکھایا ) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
7-بَاب إِمَاطَةِ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ
۷-باب: راستے سے تکلیف دہ چیزہٹانے کا بیان​


3681- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَمْعَةَ، عَنْ أَبِي الْوَازِعِ الرَّاسِبِيِّ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ؛ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ أَنْتَفِعُ بِهِ، قَالَ: " اعْزِلِ الأَذَى عَنْ طَرِيقِ الْمُسْلِمِينَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۹۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۸۴)، وقد أخرجہ: م/البر والصلۃ ۳۶ (۲۶۱۸)، حم (۴/۴۲۰، ۴۲۲، ۴۲۳) (صحیح)
۳۶۸۱- ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جس سے میں فائدہ اٹھاؤں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' مسلمانوں کے راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹادیا کرو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جیسے کانٹا اورکوڑا کرکٹ وغیرہ ،اگر راستہ میں گڑھا ہو تو اس کو برابرکردے یا اس پر روک لگادے تاکہ کوئی آدمی اندھیرے میں اس میں گرنہ جائے، مفید عام کاموں کے ثواب میں یہ حدیث اصل ہے جیسے سڑک کابنانا، سڑک پرروشنی کرنا،سرا ئے بنانا، کنواں بنانا، یہ سب اعمال اس قسم کے ہیں۔


3682- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: " كَانَ عَلَى الطَّرِيقِ غُصْنُ شَجَرَةٍ يُؤْذِي النَّاسَ، فَأَمَاطَهَا رَجُلٌ فَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ "۔
* تخريج:تفردبہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۳۲)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۳۲ (۶۵۲)، المظالم ۲۸ (۲۴۷۲)، م/البر الصلۃ ۳۶ (۱۹۱۴)، الإمارۃ ۵۱ (۱۹۱۴)، د/الأدب ۱۷۲ (۵۲۴۵)، ت/البر والصلۃ ۳۸ (۱۹۵۸)، ط/صلاۃ الجماعۃ ۲ (۶)، حم (۲/۴۹۵) (صحیح)
۳۶۸۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' راستے میں ایک درخت کی شاخ (ٹہنی) پڑی ہوئی تھی جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی ، ایک شخص نے اسے ہٹا دیا( تاکہ مسافروں اور گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہو) اسی وجہ سے وہ جنت میں داخل کردیا گیا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان مرتے ہی جنت میں جاتے ہیں اور کا فر جہنم میں اور قیامت تک وہیں رہیں گے، لیکن حشر ونشر اور حساب کتاب کے بعداپنے خاص خاص مقام میں جو ان کے لئے تیار ہوئے ہیں جائیں گے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے زیر تحقیق قید ی سب طرح کی تحقیق سے پہلے حوالات کے ایک ہی مقام میں رکھے جاتے ہیں، پھر فیصلہ ہونے کے بعد کوئی قید بامشقت میں رہتا ہے، کوئی ہلکی قید میں، کوئی مشقت میں۔اہل حدیث اورعلمائے محققین کے نزدیک یہی راجح مذہب ہے ، اوپر ایک حدیث میں گزرا کہ ایک بلی کو قید کرنے کی وجہ سے ایک عورت جہنم میں چلی گئی ، اورنبی کریم ﷺ نے معراج کی رات جہنم میں بہت سے گنہگاروں اورکافروں کو دیکھا ۔أعاذنا اللہ من نارجہنم۔


3683- حدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ وَاصِلٍ، مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ؛ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " عُرِضَتْ عَلَيَّ أُمَّتِي بِأَعْمَالِهَا، حَسَنِهَا وَسَيِّئِهَا، فَرَأَيْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الأَذَى يُنَحَّى عَنِ الطَّرِيقِ، وَرَأَيْتُ فِي سَيِّئِ أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ فِي الْمَسْجِدِ لا تُدْفَنُ "۔
* تخريج: تفردبہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۹۲)، وقد أخرجہ: م/المساجد ۱۳ (۵۵۳)، حم (۵/۱۷۸) (صحیح)
۳۶۸۳- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' میری امت کے اچھے اور برے اعمال میرے سامنے پیش کیے گئے، تو میں نے ان میں سب سے بہتر عمل راستے سے تکلیف دہ چیز کے ہٹانے، اور سب سے برا عمل مسجد میں تھوکنے، اور اس پر مٹی نہ ڈالنے کو پایا'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
8- بَاب فَضْلِ صَدَقَةِ الْمَاءِ
۸ -باب: پانی صدقہ کرنے کی فضیلت کا بیان​


3684- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامٍ صَاحِبِ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ؛ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " سَقْيُ الْمَاءِ "۔
* تخريج: د/الزکاۃ ۴۱ (۱۶۷۹، ۱۶۸۰)، ن/الوصایا ۸ (۳۶۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۸۵، ۶/۷) (حسن) (تراجع الألبانی: رقم: ۴۱۳)
۳۶۸۴- سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:'' اللہ کے رسول! کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' پانی پلانا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جہاں پرلوگوں کو پانی کی حاجت ہو ،وہاں سبیل لگانا، یا کنواں یا حوض بنادینا، اسی طرح جہاں جس چیز کی ضرورت ہو، وہاں اسی کا صدقہ افضل ہوگا ، حاصل یہ کہ اللہ تعالی کی مخلوق کو راحت پہنچانے سے زیادہ ثواب کسی چیز میں نہیں ،یہاں تک کہ جانوروں کو راحت پہنچانے میں بڑا اجر ہے ۔


3685- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍوَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "يَصُفُّ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صُفُوفًا (وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: أَهْلُ الْجَنَّةِ) فَيَمُرُّ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ عَلَى الرَّجُلِ " فَيَقُولُ: يَا فُلانُ! أَمَا تَذْكُرُ يَوْمَ اسْتَسْقَيْتَ فَسَقَيْتُكَ شَرْبَةً؟ قَالَ: فَيَشْفَعُ لَهُ، وَيَمُرُّ الرَّجُلُ فَيَقُولُ: أَمَا تَذْكُرُ يَوْمَ نَاوَلْتُكَ طَهُورًا؟، فَيَشْفَعُ لَهُ، قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: " وَيَقُولُ: يَا فُلانُ! أَمَا تَذْكُرُ يَوْمَ بَعَثْتَنِي فِي حَاجَةِ كَذَا وَكَذَا، فَذَهَبْتُ لَكَ؟ فَيَشْفَعُ لَهُ " ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۸۶) (ضعیف)
(سند میں یزید بن أبان الرقاشی، ضعیف راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۹۳-۵۱۸۶)
۳۶۸۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے دن لوگوں کی صف بندی ہوگی ( ابن نمیر کی روایت میں ہے کہ اہل جنت کی صف بندی ہوگی) پھر ایک جہنمی ایک جنتی کے پاس گزرے گا اوراس سے کہے گا: اے فلاں! تمہیں یاد نہیں کہ ایک دن تم نے پانی مانگا تھا اور میں نے تم کو ایک گھونٹ پانی پلایا تھا؟ ( وہ کہے گا: ہاں، یاد ہے ) وہ جنتی اس بات پر اس کی سفارش کرے گا، پھر دوسرا جہنمی ادھر سے گزرے گا، اور اہل جنت میں سے ایک شخص سے کہے گا: تمہیں یاد نہیں کہ میں نے ایک دن تمہیں طہارت ووضو کے لیے پانی دیا تھا؟تو وہ بھی اس کی سفارش کرے گا ۔
ابن نمیر نے اپنی روایت میں بیان کیا کہ وہ شخص کہے گا : اے فلاں! تمہیں یاد نہیں کہ تم نے مجھے فلاں اور فلاں کام کے لئے بھیجا تھا، اور میں نے اسے پورا کیا تھا؟تو وہ اس بات پر اس کی سفارش کرے گا ۔


3686- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحاقَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمِّهِ سُرَاقَةَ بْنِ جُعْشُمٍ، قَالَ: " سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ ضَالَّةِ الإِبِلِ تَغْشَى حِيَاضِي قَدْ لُطْتُهَا لإِبِلِي، فَهَلْ لِي مِنْ أَجْرٍ إِنْ سَقَيْتُهَا؟ قَالَ: " نَعَمْ "، فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ حَرَّى أَجْرٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۲۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۸۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۷۵) (صحیح)
(سند میں محمد بن اسحاق مد لس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے ، لیکن دوسرے طریق سے یہ حدیث صحیح ہے ، نیزملاحظہ ہو: الصحیحہ : ۲۱۵۲)
۳۶۸۶- سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے گم شدہ اونٹوں کے متعلق پوچھا کہ وہ میرے حوض پر آتے ہیں جس کو میں نے اپنے اونٹوں کے لئے تیار کیا ہے ، اگر میں ان اونٹوں کو پانی پینے دوں تو کیا اس کا بھی اجر مجھے ملے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' ہاں! ہر کلیجہ والے جانور کے جس کو پیاس لگتی ہے، پانی پلانے میں ثواب ہے '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
9- بَاب الرِّفْقِ
۹ -باب: نرمی اور ملائمیت کا بیان​


3687- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ هِلالٍ الْعَبْسِيِّ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الْبَجَلِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ يُحْرَمِ الرِّفْقَ يُحْرَمِ الْخَيْرَ "۔
* تخريج: م/البر والصلۃ ۲۳ (۱۵۹۲)، د/الأدب ۱۱ (۴۸۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۱۹)،وقد أخرجہ: حم (۴/۳۶۲، ۳۶۶) (صحیح)
۳۶۸۷- جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص نرمی (کی خصلت )سے محروم کر دیا جاتا ہے ، وہ ہر بھلائی سے محروم کر دیا جاتا ہے ''۔


3688- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ حَفْصٍ الأُبُلِّيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ، وَيُعْطِي عَلَيْهِ مَا لا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۹۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۸۸) (صحیح)
۳۶۸۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''بیشک اللہ تعالیٰ مہربان ہے، اور مہربانی اور نرمی کرنے کو پسند فرماتا ہے، اور نرمی پر وہ ثواب دیتا ہے جو سختی پرنہیں دیتا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : نرمی یہ ہے کہ اپنے نو کروں ، خادموں ،بال بچوں اور دوستوں سے آہستگی اور لطف ومہربانی کے ساتھ گفتگو کرے، ان پر غصہ نہ ہو جیسے نبی اکرم ﷺ کا حال تھا کہ انس رضی اللہ عنہ نے آپ کی دس برس خدمت کی لیکن آپ ﷺ نے کبھی نہ ان کو سخت لفظ کہا، نہ گھورا،نہ جھڑکا۔


3689- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، (ح) وحَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ؛ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الأَمْرِ كُلِّهِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۲۷)، وقد أخرجہ: خ/الأدب ۳۵ (۶۰۲۴)، الاستئذان ۲۰ (۶۲۵۴)، الدعوات ۵۷ (۶۳۹۱)، م/السلام ۴ (۲۱۶۵)، البر والصلۃ ۲۳ (۲۵۹۳)، ت/الاستئذان ۱۲ (۲۷۰۱)، حم (۶/۸۵)، دي/الرقاق ۷۵ (۲۸۳۶) (صحیح)
۳۶۸۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''بے شک اللہ نرمی کرنے والاہے اور سارے کاموں میں نرمی کو پسند کرتا ہے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
10- بَاب الإِحْسَانِ إِلَى الْمَمَالِيكِ
۱۰ -باب: غلاموں کے ساتھ احسان (اچھے برتاؤ) کرنے کا بیان​


3690- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِخْوَانُكُمْ جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ، وَأَلْبِسُوهُمْ مِمَّا تَلْبَسُونَ، وَلا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ، فَأَعِينُوهُمْ "۔
* تخريج: خ/الإیمان ۲۲ (۳۰)، م/الأیمان ۱۰ (۱۶۶۱)، د/الأدب ۱۳۳ (۵۱۵۸)، ت/البر والصلۃ ۲۹ (۱۹۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۵۸، ۱۶۱، ۱۷۳) (صحیح)
۳۶۹۰- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ( حقیقت میں لونڈی اور غلام ) تمہارے بھائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کیا ہے ، اس لئے جو تم کھاتے ہو وہ انہیں بھی کھلاؤ، اور جو تم پہنتے ہو وہ انہیں بھی پہناؤ،اور انہیں ایسے کام کی تکلیف نہ دو جو ان کی قوت وطاقت سے باہر ہو، اور اگر کبھی ایسا کام ان پر ڈالو تو تم بھی اس میں شریک رہ کر ان کی مدد کرو'' ۔


3691- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ مُرَّةَ الطَّيِّبِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَيِّئُ الْمَلَكَةِ " قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَلَيْسَ أَخْبَرْتَنَا أَنَّ هَذِهِ الأُمَّةَ أَكْثَرُ الأُمَمِ مَمْلُوكِينَ وَيَتَامَى؟ قَالَ: " نَعَمْ، فَأَكْرِمُوهُمْ كَكَرَامَةِ أَوْلادِكُمْ،وَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ "، قَالُوا: فَمَا يَنْفَعُنَا فِي الدُّنْيَا؟ قَالَ: " فَرَسٌ تَرْتَبِطُهُ تُقَاتِلُ عَلَيْهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مَمْلُوكُكَ يَكْفِيكَ، فَإِذَا صَلَّى فَهُوَ أَخُوكَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۱۸)، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۸۹)، وقد أخرجہ: ت/البر والصلۃ ۲۹ (۱۹۴۶ مختصراً)، حم (۱/۱۲) (ضعیف)
(سند میں ''فرقد السبخي'' ضعیف ہے)
۳۶۹۱- ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بدخلق شخص جو اپنے غلام اور لونڈی کے ساتھ بدخلقی سے پیش آتا ہو، جنت میں داخل نہ ہوگا ''، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ نے ہمیں نہیں بتایا کہ اس امت کے اکثر افراد غلام اور یتیم ہوں گے؟ ۱؎ آپ ﷺ نے فرمایا:'' کیوں نہیں؟ لیکن تم ان کی ایسی ہی عزت وتکریم کرو جیسی اپنی اولاد کی کرتے ہو، اور ان کو وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو'' ، پھر لوگوں نے عرض کیا : ہمارے لئے دنیا میں کون سی چیز نفع بخش ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' گھوڑا جسے تم جہاد کے لئے باندھ کر رکھتے ہو، پھر اس پر اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہو (اس کی جگہ) تمہارا غلام تمہارے لیے کافی ہے، اور جب صلاۃ پڑھے تو وہ تمہارا بھائی ہے '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
11- بَاب إِفْشَاءِ السَّلامِ
۱۱-باب: سلام کو عام کرنے اورپھیلانے کا بیان​


3692- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَابْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لاتَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْئٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلامَ بَيْنَكُمْ "۔
* تخريج: حدیث أبي معاویۃ تقد م تخریجہ في السنۃ برقم: (۶۸)،حدیث عبداللہ بن نمیر تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۳۱)، وقد أخرجہ: حم ۲/۳۹۱، ۴۹۵) (صحیح)
۳۶۹۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، تم جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم مومن نہ بن جاؤ، اور اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے ہو جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو ، کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم اسے کرنے لگوتو تم میں باہمی محبت پیدا ہوجائے ( وہ یہ کہ) آپس میں سلام کو عام کرو اورپھیلاؤ ''۔


3693- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ؛ قَالَ: أَمَرَنَا نَبِيُّنَا ﷺ، أَنْ نُفْشِيَ السَّلامَ ۔
* تخريج: تفردبہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۲۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۹۰) (صحیح)
۳۶۹۳- ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم سلام کو عام کریں اورپھیلائیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی آپس میں جب ایک دوسرے سے ملو تو السلام علیکم کہو خواہ اس سے تعارف ہو یا نہ ہو، تعارف کا سب سے پہلا ذریعہ سلام ہے، اور محبت کی کنجی ہے، اور ہر مسلمان کوضروری ہے کہ جب دوسرے مسلمان سے ملے تو اس کے سلام کا منتظر نہ رہے بلکہ خود پہلے سلام کرے خواہ وہ ادنی ہو یا اعلی یا ہمسر، کمال ایمان کا یہی تعارف ہے ۔


3694- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " اعْبُدُوا الرَّحْمَنَ، وَأَفْشُوا السَّلامَ "۔
* تخريج: ت/الأطعمۃ ۴۵ (۱۸۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۷۰، ۱۹۶)، دي/الأطعمۃ ۳۹ (۲۱۲۶) (صحیح)
۳۶۹۴- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' رحمن کی عبادت کرو ، اور سلام کو عام کرو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عمار رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جس نے تین باتیں کیں اس نے ایمان اکٹھا کر لیا : ایک تو اپنے نفس سے انصاف، دوسرے ہر شخص کو سلام کرنا، تیسرے تنگی کے وقت خرچ کرنا ۔(صحیح بخاری تعلیقا)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
12- بَاب رَدِّ السَّلامِ
۱۲-باب: سلام کے جواب کا بیان​


3695- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍالْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ أَنَّ رَجُلا دَخَلَ الْمَسْجِدَ، وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ جَالِسٌ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ ، فَصَلَّى، ثُمَّ جَائَ فَسَلَّمَ، فَقَالَ: " وَعَلَيْكَ السَّلامُ "۔
* تخريج: أنظرحدیث رقم:( ۱۰۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۸۳) (صحیح)
۳۶۹۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد نبوی میں داخل ہوا ، رسول اکرم ﷺ اس وقت مسجد کے ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے تھے تو اس نے صلاۃ پڑھی ، پھر آپ کے پاس آکر سلام کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''وعلیک السلام (اور تم پر بھی سلامتی ہو) ''۔


3696- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ لَهَا: "إِنَّ جِبْرَائِيلَ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلامَ " قَالَتْ: وَعَلَيْهِ السَّلامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ۔
* تخريج: خ/بدء الخلق ۶ (۳۲۱۷)، فضائل الصحابۃ ۳۰ (۳۷۶۸)، الأدب ۱۱۱ (۶۲۰۱)، الإستئذان ۱۶ (۶۲۴۹)، ۱۹ (۶۲۵۳)، م/فضائل ۱۳ (۲۴۴۷)، ت/الإستئذان ۵ (۲۶۹۳)، د/الآدب ۱۶۶ (۵۲۳۲)، ن/عشرۃ النساء ۳ (۳۴۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۴۶، ۱۵۰، ۲۰۸، ۲۲۴)، دي/الاستئذان ۱۰ (۲۶۸۰) (صحیح)
۳۶۹۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:'' جبرئیل علیہ السلام تمہیں سلام کہتے ہیں''( یہ سن کر )انہوں نے جواب میں کہا: '' وَعَلَيْهِ السَّلامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ '' ۱؎ (اور ان پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو) ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث میں غائبانہ سلام کے جو اب دینے کے طریقے کا بیان ہے کہ جو اب میں '' وعلیکم'' کے بجائے'' علیہ السلام '' ضمیر غائب کے ساتھ کہا جائے ، یہاں اس حدیث سے ام المومنین عائشہ بنت ابی بکرصدیق رضی اللہ عنہما کی عظمتِ شان بھی معلوم ہوئی کہ سیدالملائکہ جبریل علیہ السلام نے ان کو سلام پیش کیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
13- بَاب رَدِّ السَّلامِ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ
۱۳-باب: ذمیوں کے سلام کے جواب کا بیان​


3697- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَقُولُوا: وَعَلَيْكُمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۷)، وقد أخرجہ: خ/الإستئذان ۲۲ (۶۲۵۸)، استتابۃ المرتدین ۴ (۶۹۲۶)، م/السلام ۴ (۲۱۶۳)، د/الأدب ۱۴۹ (۵۲۰۷)، ت/تفسیر القرآن ۵۸ (۳۳۰۱)، حم (۳/۱۴۰، ۱۴۴، ۱۹۲، ۲۱۴،۲۴۳، ۲۶۲، ۲۸۹) (صحیح)
۳۶۹۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جب اہل کتاب ( یہود ونصاریٰ) میں سے کوئی تمہیں سلام کرے تو تم ( جواب میں صرف) ''وعلیکم ''کہو''۔ ( یعنی تم پر بھی تمہاری نیت کے مطابق )۔


3698- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ؛ أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ نَاسٌ مِنَ الْيَهُودِ، فَقَالُوا: السَّامُ عَلَيْكَ، يَا أَبَاالْقَاسِمِ! فَقَالَ: " وَعَلَيْكُمْ "۔
* تخريج: م/السلام ۴ (۲۱۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۴۱)، وقد أخرجہ: خ/الجہاد ۹۸ (۲۹۳۵)، والأدب ۳۵ (۶۰۲۴)، الاستئذان ۲۲ (۶۲۵۶)، الدعوات ۵۷ (۶۳۹۱)، الاستتابۃ المرتدین ۴ (۶۹۲۷)، ت/الاستئذان ۱۲ (۲۷۱)، حم (۶/۲۲۹) (صحیح)
۳۶۹۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس کچھ یہودی آئے ، اور کہا : ''السَّامُ عَلَيْكَ، يَا أَبَا الْقَاسِمِ '' ( اے ابوالقاسم ۱ ؎ تم پر موت ہو )، توآپ نے ( جواب میں صرف ) فرمایا: ''وَعَلَيْكُمْْ'' اور تم پر بھی ہو ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : ابو القاسم ، رسول اللہ ﷺ کی کنیت ہے ۔
وضاحت ۲ ؎ : یہ ان یہودیوں کی شرارت تھی کہ سلام کے بدلے سام کا لفظ استعمال کیا، سام کہتے ہیں موت کو تو'' السام علیک'' کے معنی یہ ہوئے کہ تم مرو ،اورہلاک ہو، جو بدعا ہے، آپ ﷺ نے جواب میں صرف'' وعلیک'' فرما یا، یعنی تم ہی مرو، جب کوئی کافر سلام کرے ،تو جواب میں صرف ''وعلیک ''کہے ۔


3699- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الْيَزَنِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ الْجُهَنِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنِّي رَاكِبٌ غَدًا إِلَى الْيَهُودِ،فَلا تَبْدَئُوهُمْ بِالسَّلامِ، فَإِذَا سَلَّمُوا عَلَيْكُمْ، فَقُولُوا: وَعَلَيْكُمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۶۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۹۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۳۳) (صحیح)
(سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے)
۳۶۹۹- ابوعبدالرحمن جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میں کل سوار ہوکر یہودیوں کے پاس جاؤں گا ، تو تم خود انہیں پہلے سلام نہ کرنا، اور جب وہ تمہیں سلام کریں تو تم جواب میں ۱؎ '' وعَلَيْكُمْ '' کہو''، ( یعنی تم پر بھی تمہاری نیت کے مطابق )۔
وضاحت ۱ ؎ : کیونکہ اگر انہوں نے سلام کا لفظ ادا کیا تو '' وعلیکم '' کا مطلب یہ ہوگا کہ تم پر بھی سلام اور اگر شرارت سے ''سام'' کا لفظ'' کہا تو سام یعنی موت ہی ان پر لوٹے گی۔
 
Top