• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
50- بَاب إِقَامَةِ الصُّفُوفِ
۵۰-باب: صفیں برابر کرنے کا بیان​


992- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ السُّوَائِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <أَلا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟>، قَالَ: قُلْنَا: وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ قَالَ: <يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الأُوَلَ، وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ >۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۲۷ (۴۳۰)، د/الصلاۃ ۹۴ (۶۶۱)، ن/الإمامۃ ۲۸ (۸۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۰۱) (صحیح)
۹۹۲- جابر بن سمرہ سوائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم اس طرح صفیں کیوں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے پاس باندھتے ہیں؟''، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! فرشتے اپنے رب کے پاس کس طرح صف باندھتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں، اور صف میں ایک دوسرے سے خوب مل کر کھڑے ہوتے ہیں''۔


993- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ (ح) وحَدَّثَنَا نَصْرُ ابْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا أَبِي، وَبِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <سَوُّوا صُفُوفَكُمْ، فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ تَمَامِ الصَّلاةِ>۔
* تخريج: خ/الأذان ۷۴ (۷۲۳)، م/الصلاۃ (۴۳۳)، د/الصلاۃ ۹۴ (۶۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۳)، وقد أخرجہ: ن/الإمامۃ ۲۸ (۸۱۶)، التطبیق۶۰ (۱۱۱۸)، حم (۲/۲۳۴، ۳۱۹، ۵۰۵، ۳/۱۷۷، ۱۷۹، ۲۵۴، ۲۷۴، ۲۹۱)، دي/الصلاۃ ۴۹ (۱۲۹۹) (صحیح)
۹۹۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اپنی صفیں برابر کرو، اس لئے کہ صفوں کی برابری تکمیل صلاۃ میں داخل ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : نبی اکرم ﷺ خود امامت کے وقت صفوں کو دیکھتے، اور جب اطمینان ہوجاتا کہ صفیں برابر ہوگئیں تو اس وقت تکبیر کہتے، اور کبھی اپنے ہاتھ سے صف میں لوگوں کو آگے اور پیچھے کرتے، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ ہر ایک امام کو بذات خاص صفوں کے برابر کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے، اور مقتدیوں کو دیکھنا چاہئے کہ وہ برابر کھڑے ہوئے ہیں یا آگے پیچھے ہیں، اور صف بندی میں یہ ضروری ہے کہ لوگ برابر کھڑے ہوں آگے پیچھے نہ ہوں، اور قدم سے قد م مونڈھے سے مونڈھا ملا کر کھڑے ہوں، اور جب تک پہلی صف پوری نہ ہو دوسری صف میں کوئی کھڑا نہ ہو، اسی طرح سے اخیر صف تک لحاظ رکھا جائے۔


994- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ أَنَّهُ سَمِعَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُسَوِّي الصَّفَّ حَتَّى يَجْعَلَهُ مِثْلَ الرُّمْحِ أَوِ الْقِدْحِ، قَالَ، فَرَأَى صَدْرَ رَجُلٍ نَاتِئًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <سَوُّوا صُفُوفَكُمْ، أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ>۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۲۸ (۴۳۶)، د/الصلاۃ ۹۴ (۶۶۳و۶۶۵)، ت/الصلاۃ ۵۳ (۲۲۷)، ن/الإمامۃ ۲۵ (۸۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۲۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۷۰، ۲۷۱، ۲۷۲، ۲۷۳، ۲۷۴) (صحیح)
۹۹۴- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نیزہ یاتیر کی طرح صف سیدھی کرتے تھے، ایک بارآپ ﷺ نے ایک شخص کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا دیکھا تو فرمایا: ''اپنی صفیں برابر کرو، یا اللہ تمہارے چہروں کے درمیان اختلا ف پیدا فرمادے گا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : چہروں کے درمیان اختلاف پیدا فرما دے گا، کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے درمیان پھوٹ ڈال دے گا، جس کی وجہ سے افتراق وانتشار عام ہو جائے گا، اور بعضوں نے کہا ہے کہ اس کے حقیقی معنی مراد ہیں، یعنی تمہارے چہروں کو گدّی کی طرف پھیر کر انھیں بدل اور بگاڑ دیگا ۔


995- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الَّذِينَ يَصِلُونَ الصُّفُوفَ، وَمَنْ سَدَّ فُرْجَةً رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً>۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۶۴، ومصباح الزجاجۃ:۳۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۸۹) (صحیح)
(سند میں اسماعیل بن عیاش ہیں، اور ان کی اہل حجاز سے روایت ضعیف ہے، لیکن دوسرے طرق اور شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحہ : ۱۸۹۲، ۲۵۳۲، ومصباح الزجاجۃ: ۳۵۸، بتحقیق عوض الشہری)
۹۹۵- ا م المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بیشک اللہ تعالی ان لوگوں پہ اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے دعاکرتے ہیں جو صفیں جوڑتے ہیں، اور جو شخص صف میں خالی جگہ بھر دے تو اللہ تعالی اس کے سبب اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
51- بَاب فَضْلِ الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ
۵۱-باب: پہلی صف کی فضیلت​


996- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَسْتَغْفِرُ لِلصَّفِّ الْمُقَدَّمِ ثَلاثًا وَلِلثَّانِي، مَرَّةً ۔
* تخريج: ن/الإمامۃ ۲۹ (۸۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۲۶، ۱۲۷، ۱۲۸)، دي/الصلاۃ ۵۰ (۱۳۰۰) (صحیح)
۹۹۶- عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پہلی صف کے لئے تین بار اور دوسری صف کے لئے ایک بار مغفرت کی دعا کرتے تھے ۔


997- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ مُصَرِّفٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ عَوْسَجَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: <إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الصَّفِّ الأَوَّلِ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۱۷۸۰، ومصباح الزجاجۃ: ۳۵۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۸۵، ۲۹۶، ۲۹۷، ۲۹۸، ۲۹۹، ۳۰۴)، دي/الصلاۃ ۴۹ (۱۲۹۹) (صحیح)
۹۹۷- براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''بیشک اللہ تعالیٰ پہلی صف والوں پہ اپنی صلاۃبھیجتایعنی رحمت نازل فرماتا ہے، اور اس کے فرشتے صلاۃ بھیجتے یعنی اس کے حق میں دعا کرتے ہیں'' ۔


998- حَدَّثَنَا أَبُو ثَوْرٍ، إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ خِلاسٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي الصَّفِّ الأَوَّلِ لَكَانَتْ قُرْعَةٌ >۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۲۸ (۴۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۶۳)، وقد أخرجہ: ط/صلاۃ الجماعۃ ۲ (۶)، حم (۲/۲۳۶، ۲۷۱، ۳۰۳، ۳۷۴) (صحیح)
۹۹۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اگر لوگ جان لیں کہ پہلی صف میں کتنا (ثواب) ہے تو اس کو پانے کے لئے قرعہ اندازی ہو'' ۔


999- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الصَّفِّ الأَوَّلِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۱۴، ومصباح الزجاجۃ: ۳۵۸) (حسن صحیح)
۹۹۹- عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بیشک اللہ تعالی پہلی صف والوں پہ اپنی صلاۃ یعنی رحمت نازل فرماتا ہے، اور فرشتے صلاۃ بھیجتے یعنی دعا کرتے ہیں'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
52- بَاب صُفُوفِ النِّسَاءِ
۵۲ -باب: عورتوں کی صف کا بیان​


1000- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < خَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ آخِرُهَا، وَشَرُّهَا أَوَّلُهَا، وَخَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُهَا، وَشَرُّهَا آخِرُهَا >۔
* تخريج: حدیث العلاء عن أبیہ تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۸۳)، وحدیث سہیل عن أبیہ قد أخرجہ: م/الصلاۃ ۲۸ (۴۴۱)، ت/الصلاۃ ۵۲ (۲۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۰۱)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۹۸ (۶۷۸)، ن/الإمامۃ ۳۲ (۸۲۱)، حم (۲/۲۴۷، ۳۳۶، ۳۴۰، ۳۶۶، ۴۸۵)، دي/الصلاۃ ۵۲ (۱۳۰۴) (صحیح)
۱۰۰۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''عورتوں کی سب سے بہترصف ان کی پچھلی صف ہے، اور سب سے خراب صف ان کی اگلی صف ہے ۱؎ ، مردوں کی سب سے اچھی صف ان کی اگلی صف ہے، اور سب سے بری صف ان کی پچھلی صف ہے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اگلی صف سے مراد امام کے پیچھے والی صف ہے، سب سے اچھی صف پہلی صف ہے کا مطلب یہ ہے کہ دوسری صفوں کی بہ نسبت اس میں خیر وبھلائی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ جو صف امام سے قریب ہوتی ہے تو جو لوگ اس میں ہوتے ہیں وہ امام سے براہِ راست مستفید ہوتے ہیں، تلاوت قرآن اور تکبیرات سنتے ہیں، اور عورتوں سے دور رہنے کی وجہ سے صلاۃ میں خلل انداز ہونے والے وسوسوں اور برے خیالات سے عام طور سے محفوظ رہتے ہیں، اور سب سے بری صف ان مردوں کی آخری صف ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں خیروبھلائی دوسری صفوں کی بہ نسبت کم ہے، یہ مطلب نہیں کہ اس میں جو لوگ ہوں گے وہ برے ہوں گے۔
وضاحت ۲؎ : عورتوں کی آخری صف اس لئے بہترہے کہ وہ مردوں سے دورہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ فتنوں سے محفوظ رہتی ہیں، اور عورتوں کی اگلی صف سب سے خراب صف اس لئے ہے کہ وہ مردوں سے قریب ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ شیطان کے وسوسوں اور فتنوں سے محفوظ نہیں رہ پاتی ہیں۔


1001- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ ابْنِ عَقِيلٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ مُقَدَّمُهَا، وَشَرُّهَا مُؤَخَّرُهَا، وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ مُؤَخَّرُهَا، وَشَرُّهَا مُقَدَّمُهَا>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۷۱، ومصباح الزجاجۃ: ۳۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۹۳، ۳۳۱، ۳۸۷) (حسن صحیح)
(یہ سند حسن ہے اور دوسرے شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، ملا حظہ ہو: مصباح الزجاجۃ : ۳۶۲، بتحقیق الشہری، وصحیح ابی داود: ۶۸۱)
۱۰۰۱- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مردوں کی سب سے اچھی صف ان کی اگلی صف ہے، اور سب سے بری صف ان کی پچھلی صف ہے، عورتوں کی سب سے اچھی صف ان کی پچھلی صف ہے، اور سب سے بری صف ان کی اگلی صف ہے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
53- بَاب الصَّلاةِ بَيْنَ السَّوَارِي فِي الصَّفِّ
۵۳ -باب: کھمبوں کے درمیان صف بندی کے حکم کابیان​


1002- حدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ أَبُو طَالِبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، وَأَبُو قُتَيْبَةَ، قَالا: حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كُنَّا نُنْهَى أَنْ نَصُفَّ بَيْنَ السَّوَارِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَنُطْرَدُ عَنْهَا طَرْدًا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۸۵، ومصباح الزجاجۃ: ۳۶۰) (حسن صحیح)
(سند میں ہارون بن مسلم مستور ہیں، اور ان سے تین ثقات نے روایت کی ہے، اس لئے اس سند کی شیخ البانی نے تحسین فرمائی ہے، اور شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ : ۳۳۵، صحیح ابی داود: ۶۷۷، و الصحیحہ : ۳۳۵)
۱۰۰۲- قرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں کھمبوں کے مابین صف بندی سے روکا جاتا تھا، اور سختی سے وہاں سے ہٹایا جاتا تھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : ستونوں (کھمبوں) کے بیچ میں صف باندھنے سے منع کئے جاتے تھے کیونکہ ان کے بیچ میں حائل ہو نے کی وجہ سے صف ٹوٹ جاتی ہے، بعضوں نے کہا: اگر جگہ کی قلت ہو تو ستونوں کے بیچ میں بھی صف کرلیں، ترمذی نے کہا :امام احمد اور اسحاق نے ستونوں کے بیچ میں صف لگانے کو مکروہ کہا ہے، اور دوسرے علماء نے اس کی اجازت دی ہے، اور اگر ایک دو آدمی ہوں تو بالاتفاق ستونوں کے بیچ میں صلاۃ پڑھنا جائز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
54- بَاب صَلاةِ الرَّجُلِ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ
۵۴ -باب: صف کے پیچھے اکیلے صلاۃپڑھنے کے حکم کا بیان​


1003- حدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُلازِمُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بَدْرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَلِيِّ بْنِ شَيْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ شَيْبَانَ -وَكَانَ مِنَ الْوَفْدِ- قَالَ: خَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فَبَايَعْنَاهُ، وَصَلَّيْنَا خَلْفَهُ، ثُمَّ صَلَّيْنَا وَرَائَهُ صَلاةً أُخْرَى، فَقَضَى الصَّلاةَ، فَرَأَى رَجُلا فَرْدًا يُصَلِّي خَلْفَ الصَّفِّ قَالَ، فَوَقَفَ عَلَيْهِ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ حِينَ انْصَرَفَ قَالَ: <اسْتَقْبِلْ صَلاتَكَ، لا صَلاةَ لِلَّذِي خَلْفَ الصَّفِّ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۲۰، ومصباح الزجاجۃ: ۳۶۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۳، ۲۲) (صحیح)
۱۰۰۳- علی بن شیبان رضی اللہ عنہ اور (وہ وفد میں سے تھے) کہتے ہیں کہ ہم سفر کر کے نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، ہم نے آپ ﷺ سے بیعت کی اور آپ کے پیچھے صلاۃ پڑھی، پھر ہم نے آپ کے پیچھے دوسری صلاۃ پڑھی، آپﷺ نے صلاۃ پوری کرنے کے بعد ایک شخص کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے اکیلا صلاۃ پڑھ رہا ہے، آپ اس کے پاس ٹھہرے رہے، جب وہ صلاۃ سے فارغ ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''دوبارہ صلاۃ پڑھو''، جو صف کے پیچھے اکیلے صلاۃ پڑھے اس کی صلاۃ نہیں ہوتی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ جب ہے کہ صف میں جگہ ہو، اور بلا عذر اکیلے رہ کر صف کے پیچھے صلاۃ پڑھے، تو اس کی صلاۃ جائز نہ ہوگی۔


1004- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ قَالَ: أَخَذَ بِيَدِي زِيَادُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ، فَأَوْقَفَنِي عَلَى شَيْخٍ بِالرَّقَّةِ، يُقَالُ لَهُ وَابِصَةُ ابْنُ مَعْبَدٍ، فَقَالَ: صَلَّى رَجُلٌ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يُعِيدَ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۰۰ (۶۸۲)، ت/الصلاۃ ۵۶ (۲۳۰، ۲۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۳۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲۷، ۲۲۸)، دي/الصلاۃ ۶۱ (۱۳۲۲) (صحیح)
۱۰۰۴- ہلال بن یساف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ زیاد بن ابی الجعد نے میرا ہاتھ پکڑا اور رقہ کے ایک شیخ کے پاس مجھے لاکر کھڑا کیا، جن کو وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ کہا جاتا تھا، انہوں نے کہا : ایک شخصنے صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھی تو نبی اکرم ﷺ نے اسے صلاۃ لوٹانے کا حکم دیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھنے میں اہل علم کا اختلاف ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایسے شخص کی صلاۃ ظاہر حدیث کی رو سے فاسد ہے، یہی قول ابراہیم نخعی، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا ہے، مالک، اوزاعی اور شافعی کا کہنا ہے اس کی صلاۃ جائز ہے، اور یہی قول اصحاب الرائے کا بھی ہے، ان لوگوں نے اس حدیث کی تاویل یہ کی ہے کہ اعادہ کا یہ حکم مستحب ہے واجب نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
55- بَاب فَضْلِ مَيْمَنَةِ الصَّفِّ
۵۵ - باب: صف کے داہنی جانب کی فضیلت کابیان​


1005- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى مَيَامِنِ الصُّفُوفِ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۹۶ (۶۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۶۶) (ضعیف)
(اسامہ بن زید العدوی ضعیف الحفظ ہیں، اور معاویہ بن ہشام کے حفظ میں ضعف ہے، اور ثقات نے اس کے خلاف روایت کی ہے: ''إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الَّذِيْنَ يُصَلُّونَ فِي الصُّفُوفِ'' ، اور یہ ثابت ہے، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود : ۱۰۴)
۱۰۰۵- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''صفوں کے دائیں جانب پر اللہ تعالی اپنی صلاۃ یعنی رحمت نازل فرماتا ہے، اور اس کے فرشتے صلاۃ یعنی دعا کرتے ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اللہ تعالیٰ کی صلاۃ رحمت اور فرشتوں کی صلاۃ دعا ہے، یہ جب ہے کہ دائیں اور بائیں طرف برابر ہوں، اور دونوں طرف مصلی ہوں اگر بائیں جانب خالی ہو اور ادھر مصلی نہ ہوں، تو بائیں جانب میں بھی وہی فضیلت ہوگی، جو دائیں جانب میں ہے ۔


1006- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنِ ابْنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، (قَالَ مِسْعَرٌ) مِمَّا نُحِبُّ أَوْ مِمَّا أُحِبُّ أَنْ نَقُومَ عَنْ يَمِينِهِ۔
* تخريج: م/المسافرین ۸ (۷۰۹)، د/الصلاۃ ۷۲ (۶۱۵)، ن/الإمامۃ ۳۴ (۸۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۹) (صحیح)
۱۰۰۶- براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے صلاۃ پڑھتے تو ہم پسند کرتے یا میں پسند کرتا کہ آپ کے دائیں جانب کھڑے ہوں۔


1007- حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْحُسَيْنِ أَبُو جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْكِلابِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ، عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ ﷺ: إِنَّ مَيْسَرَةَ الْمَسْجِدِ تَعَطَّلَتْ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: <مَنْ عَمَّرَ مَيْسَرَةَ الْمَسْجِدِ كُتِبَ لَهُ كِفْلانِ مِنَ الأَجْرِ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۸۳۲۰، ومصباح الزجاجۃ: ۳۶۲) (ضعیف)
(اس کی سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہیں)
۱۰۰۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا گیا: مسجد کا بایاں جانب خالی ہوگیا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے مسجد کا بائیں جانب آباد کیا، اسے دہرا اجر ملے گا'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
56- بَاب الْقِبْلَةِ
۵۶ - باب: قبلہ کا بیان​


1008- حدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ ابْنُ أَنَسٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ طَوَافِ الْبَيْتِ أَتَى مَقَامَ إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَذَا مَقَامُ أَبِينَا إِبْرَاهِيمَ، الَّذِي قَالَ اللَّهُ -وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى-.
قَالَ الْوَلِيدُ: فَقُلْتُ لِمَالِكٍ: أَهَكَذَا قَرَأَ -وَاتَّخِذُوا-؟ قَالَ: نَعَمْ۔
* تخريج: د/الحروف ۱ (۳۹۶۹)، ت/الحج ۳۳ (۸۵۶)، ۳۸ (۸۶۲)، ن/المناسک ۱۶۳ (۲۹۶۴)، ۱۶۴ (۲۹۶۶)، ۱۷۲ (۲۹۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۹۵) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۲۹۶۰) (ضعیف)
(عمر رضی اللہ عنہ سے آیت کا پڑھنا منکر ہے، جب کہ دوسری کتب حدیث کی اسی روایت میں یہ قراء ت رسول اکرم ﷺ سے ہے، اس لئے یہ صحیح ہے، اور ابن ماجہ کی روایت منکر ہے، یہ حدیث مکرر ہے، کما تقدم، پہلی جگہ شیخ البانی صاحب نے حدیث کو منکر کہا، اور اگلی حدیث (۱۰۰۹) کو معروف بتایا، اور (۲۹۶۰) میں نفس سند ومتن کو صحیح کہا، اور مسلم کا ذکر کرتے ہوئے حجۃ النبی ﷺ کا حوالہ دیا، ملاحظہ ہو: ضعیف ابن ماجہ: ۱۹۲، وصحیح ابن ماجہ: ۲۴۱۳، میرے خیال میں نکارت کی وجہ عمر رضی اللہ عنہ کا آیت کا پڑھنا ہے، جب کہ سنن ابی داود وترمذی اور نسائی (کبری) میں اس حدیث میں آیت کی تلاوت رسول اکرم ﷺ نے ہی فرمائی ہے، اور حج کی جابر رضی اللہ عنہ کی احادیث میں آیت کریمہ رسول اکرم ﷺ نے تلاوت فرمائی)
۱۰۰۸- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ بیت اللہ (خانہ کعبہ) کے طوا ف سے فارغ ہوگئے تو مقام ابراہیم پر آئے، عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اللہ کے رسول! یہ ہمارے باپ ابراہیم کا مقام ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى"، یعنی: (مقام ابراہیم کو صلاۃ کی جگہ بناؤ) ۔
ولیدکہتے ہیں کہ میں نے مالک سے کہا : کیا یہ انہوں نے اسی طرح (امر کے صیغہ کے ساتھ) "وَاتَّخِذُوا" (خاء کے زیر ''کسرے'' کے ساتھ) پڑھا؟ تو انہوں نے کہا: ہاں۔


1009- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ عُمَرُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَوِ اتَّخَذْتَ مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى؟ فَنَزَلَتْ {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى}۔
* تخريج:خ/الصلاۃ ۳۲ (۴۰۲)، تفسیر سورۃ البقرۃ ۵ (۴۹۱۶)، ت/تفسیر سورۃ البقرۃ ۷ (۲۹۵۹، ۲۹۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۳، ۲۴، ۳۶) (صحیح)
۱۰۰۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! اگر آپ مقام ابراہیم کو صلاۃ کی جگہ بنالیں (تو بہتر ہو)؟ تو یہ آیت کریمہ نازل ہو ئی: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} [سورة البقرة: 125]، یعنی: (اور تم مقام ابراہیم کو صلاۃ کی جگہ بناؤ) ۔


1010- حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ عَمْرٍو الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَصُرِفَتِ الْقِبْلَةُ إِلَى الْكَعْبَةِ بَعْدَ دُخُولِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ بِشَهْرَيْنِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا صَلَّى إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ أَكْثَرَ تَقَلُّبَ وَجْهِهِ فِي السَّمَاءِ، وَعَلِمَ اللَّهُ مِنْ قَلْبِ نَبِيِّهِ ﷺ أَنَّهُ يَهْوَى الْكَعْبَةَ، فَصَعِدَ جِبْرِيلُ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُتْبِعُهُ بَصَرَهُ وَهُوَ يَصْعَدُ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، يَنْظُرُ مَا يَأْتِيهِ بِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: +قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ} الآيَةَ، فَأَتَانَا آتٍ، فَقَالَ: إِنَّ الْقِبْلَةَ قَدْ صُرِفَتْ إِلَى الْكَعْبَةِ، وَقَدْ صَلَّيْنَا رَكْعَتَيْنِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسٍ وَنَحْنُ رُكُوعٌ فَتَحَوَّلْنَا، فَبَنَيْنَا عَلَى مَا مَضَى مِنْ صَلاتِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <يَا جِبْرِيلُ! كَيْفَ حَالُنَا فِي صَلاتِنَا إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟>، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: +وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ}.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۱۹۱۰، ومصباح الزجاجۃ: ۳۶۳)، وقد أخرجہ: خ/التفسیر ۱۲ (۴۴۹۲)، م/المساجد ۲ (۵۲۵)، ت/الصلاۃ ۱۳۸ (۳۴۰)، ن/الصلاۃ ۲۲ (۴۸۹)، القبلۃ ۱ (۷۴۳) (منکر)
(سند میں ابو بکر بن عیاش سئ الحفظ ہیں، اس لئے تحویل قبلہ کے بارے میں ۱۸ مہینہ کا ذکر اور یہ کہ مدینہ جانے کے ود ماہ بعد تحویل قبلہ ہوا، یہ چیز شاذ اور ضعیف ہے، ملاحظہ ہو:فتح الباری ۱/۹۷، البانی صاحب نے بھی انہیں زیادات کی وجہ سے حدیث پر ''منکر'' کا حکم لگایا ہے، ورنہ اصل حدیث صحیحین میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے بیت المقدس کے طرف (۱۶) یا (۱۷) مہینے تک صلاۃ پڑھی...الخ، اسی واسطے بوصیری نے حدیث کے ابتدائی دو فقرے نقل کرنے کے بعد لکھا کہ اس کی سند صحیح ہے، اور رجال ثقات ہیں، اور بخاری و مسلم وغیرہ نے اس طریق سے مذکور نص کے علاوہ بقیہ حدیث روایت کی ہے)
۱۰۱۰- براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اٹھارہ مہینے تک بیت المقد س کی جانب منہ کر کے صلاۃ ادا کی، اورآپ ﷺ کی مدینہ تشریف آوری کے دو مہینہ بعد قبلہ خانہ کعبہ کی جانب تبدیل کردیاگیا، رسول اللہ ﷺ جب بیت المقدس کی جانب صلاۃ پڑھتے تو اکثر اپنا چہرہ آسمان کی جانب اٹھاتے تھے، اللہ تعالی نے اپنے نبی کے دل کا حال جان لیا کہ آپ خانہ کعبہ کی جانب رخ کرنا پسند فرماتے ہیں، ایک بار جبرئیل اوپر چڑھے، آپ ان کی طرف نگاہ لگائے رہے، وہ آسمان وزمین کے درمیان اوپر چڑھ رہے تھے، آپ انتظار میں تھے کہ جبرئیل کیا حکم لاتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی : {قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاء فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا} (سورۃ بقرۃ: ۱۴۴)، ہمارے پا س ایک شخص آیا اور اس نے کہا: قبلہ کعبہ کی طرف بدل دیا گیا، ہم دو رکعتیں بیت المقدس کی جانب پڑھ چکے تھے، اور رکوع میں تھے، ہم اسی حالت میں خانہ کعبہ کی جانب پھر گئے، ہم نے اپنی پچھلی صلاۃ پر بنا کیا اور دو رکعتیں اور پڑھیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جبرئیل ہماری ان صلاۃ کا کیا حال ہوگا جو ہم نے بیت المقدس کی جانب پڑھی ہیں''، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: {وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ} [سورة البقرة:143]، یعنی: (اللہ تعالی تمہاری صلاۃ کو ضائع کرنے والا نہیں) ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ :آپﷺ قبلہ کو کعبہ کی طرف ہونا پسند کرتے تھے، اس خیال سے کہ عربوں کی عبادت گا ہ اور مرکز وہی تھا، اور اس میں اس بات کی امید اور توقع تھی کہ عرب جلد اسلام کو قبول کرلیں گے، اور یہودی رسول اکرم ﷺ کے سخت دشمن تھے، ان کا قبلہ بیت المقدس تھا، اس وجہ سے بھی آپ کو ان کی موافقت پسند نہیں تھی، اور یہ آپ کا کمال ادب تھا کہ اللہ تعالیٰ سے قبلے کے بدلنے کا سوال نہیں کیا، بلکہ دل ہی میں یہ آرزو لئے رہے، اس خیال سے کہ اللہ ر ب العزت دلوں کی بات بھی خوب جانتا ہے ۔
1011 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ>۔
* تخريج: ت/الصلاۃ۱۴۰ (۳۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۲۴) (صحیح)
۱۰۱۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مشرق (پورب) اور مغرب (پچھم) کے درمیان جو ہے وہ سب قبلہ ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ حکم مدینہ والوں کے لئے ہے کیونکہ ان کا قبلہ جنوب کی طرف ہے، اور مشرق اور مغرب کے وہ درمیان ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
57- بَاب مَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلا يَجْلِسْ حَتَّى يَرْكَعَ
۵۷-باب: مسجد میں داخل ہونے والا دو رکعت پڑھے بغیر نہ بیٹھے​


1012- حدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، وَيَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ فَلا يَجْلِسْ حَتَّى يَرْكَعَ رَكْعَتَيْنِ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۱۵، ومصباح الزجاجۃ: ۳۶۴) (صحیح)
(شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں مطلب بن عبداللہ، اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، ملاحظہ ہو:مصباح الزجاجۃ : والإرواء: ۴۶۷، و صحیح ابی داود: ۴۸۶)
۱۰۱۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو دو رکعت پڑھے بغیر نہ بیٹھے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھ لے، اور اگر دوسری کوئی سنت یا فرض جاتے ہی شروع کردے تو تحیۃ المسجد ادا ہو جائے گی، اب اس کو علیحدہ پڑھنے کی ضرورت نہ ہوگی، اس حدیث سے معلوم ہو ا کہ جب مسجد میں جائے تو دو رکعت پڑھے، اور یہ ہر حالت کو عام اور شامل ہے، چنانچہ اگر امام خطبہ دے رہا ہو اور اس وقت کوئی مسجد میں پہنچے تب بھی دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھے، سلیک غطفا نی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کی تصریح ہے، او ر اہل حدیث کا یہی مذہب ہے ۔


1013- حدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: <إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ>۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۶۰ (۴۴۴)، التہجد ۲۵ (۱۱۶۳)، م/المسافرین ۱۱ (۷۱۴)، د/الصلاۃ ۱۹ (۴۶۷، ۴۶۸)، ت/الصلاۃ ۱۱۹ (۳۱۶)، ن/المساجد ۳۷ (۷۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۲۳)، وقد أخرجہ: ط/قصر الصلاۃ ۱۸ (۵۷)، حم۵/۲۹۵، ۲۹۶، ۳۰۳، دي/الصلاۃ ۱۱۴ (۱۴۳۳) (صحیح)
۱۰۱۳- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہوتو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
58- بَاب مَنْ أَكَلَ الثُّومَ فَلا يَقْرَبَنَّ الْمَسْجِدَ
۵۸ -باب: لہسن کھا کر مسجد میں آنے کی ممانعت​


1014- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ الْغَطَفَانِيِّ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمُرِيِّ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَامَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ خَطِيبًا، أَوْ خَطَبَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ؛ ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ شَجَرَتَيْنِ لا أُرَاهُمَا إِلا خَبِيثَتَيْنِ، هَذَا الثُّومُ وَهَذَا الْبَصَلُ، وَلَقَدْ كُنْتُ أَرَى الرَّجُلَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، يُوجَدُ رِيحُهُ مِنْهُ، فَيُؤْخَذُ بِيَدِهِ حَتَّى يُخْرَجَ إِلَى الْبَقِيعِ، فَمَنْ كَانَ آكِلَهَا، لا بُدَّ، فَلْيُمِتْهَا طَبْخًا۔
* تخريج: م/المساجد ۱۷ (۵۶۷)، ن/المساجد ۱۷ (۷۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۴۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۹) (صحیح)
۱۰۱۴- معدان بن ابی طلحہ یعمری سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطیب کی حیثیت سے کھڑے ہوئے یا خطبہ دیا، تو انہوں نے اللہ کی حمد وثنا بیان کی، پھر کہا: ''لوگو! تم دو درختوں کے پھل کھاتے ہو، اور میں انہیں خبیث ۱؎ اور گندہ سمجھتا ہوں، وہ پیاز اور لہسن ہیں، میں دیکھتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں جس شخص کے منہ سے اس کی بوآتی تھی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بقیع کی طرف نکال دیا جاتا تھا، لہٰذا جو کوئی اسے کھانا ہی چاہے تو اس کو پکا کر اس کی بو زائل کرلے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ دونوں خبیث اس اعتبار سے ہیں کہ انہیں کچا کھا کر مسجد میں جانا منع ہے، البتہ پک جانے کے بعد ان کا حکم بدل جائے گا، اور ان کا کھانا جائز ہوگا۔


1015- حدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، الثُّومِ، فلا يُؤْذِينَا بِهَا فِي مَسْجِدِنَا هَذَا >، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: وَكَانَ أَبِي يَزِيدُ فِيهِ الْكُرَّاثَ وَالْبَصَلَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، يَعْنِي أَنَّهُ يَزِيدُ عَلَى حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي الثُّومِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۱۱)، وقد أخرجہ: م/المساجد ۱۷ (۵۶۳)، حم (۲/۲۶۴، ۲۶۶) (صحیح)
۱۰۱۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو اس پودے یعنی لہسن کو کھائے، وہ ہماری مسجد میں آکر ہمیں تکلیف نہ پہنچائے''۔
ابراہیم کہتے ہیں: میرے والد سعد ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں گندنا (کراث) ۱؎ اور پیاز کا اضافہ کرتے تھے اور اسے بھی نبی اکرم ﷺ سے نقل کرتے تھے ۔
وضاحت ۱ ؎ : ایک تیز بو والی سبزی جس کی بعض قسمیں پیاز اور لہسن کے مشابہ ہوتی ہیں، اسی قسم کی ایک سبزی کراث مصری وکراث شامی کہلاتی ہے ۔


1016- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ رَجَائٍ الْمَكِّيُّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ شَيْئًا فَلا يَأْتِيَنَّ الْمَسْجِدَ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۲۸)، وقد أخرجہ: خ/الأذان۱۶۰ (۸۵۳)، م/المساجد ۱۷ (۵۶۱)، د/الأطعمۃ ۴۱ (۳۸۲۵)، دي/الأطعمۃ ۲۱ (۲۰۹۷) (صحیح)
۱۰۱۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو اس پودے (پیاز ولہسن) سے کچھ کھائے تو مسجد میں ہرگز نہ آئے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : کیونکہ دوسرے مصلیان کو اس کی بدبو سے ایذا پہنچے گی، اور تکلیف ہوگی، یا فرشتوں کو تکلیف ہوگی، تمباکو، سگریٹ، بیڑی اور حقہ وغیرہ لہسن یا پیاز سے بھی زیادہ سخت بد بو والی چیزیں ہیں، اس لئے اس کے کھانے اور پینے سے پیدا ہونے والی بدبو کا حکم بھی پیاز اور لہسن ہی کا ہو نا چاہئے، بلکہ اس سے بھی سخت ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
59- بَاب الْمُصَلِّي يُسَلَّمُ عَلَيْهِ كَيْفَ يَرُدُّ؟
۵۹ -باب: مصلی دوران صلاۃ سلام کا جواب کیسے دے؟​


1017- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّنَافِسِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: أَتَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَسْجِدَ قُبَاءَ يُصَلِّي فِيهِ، فَجَائَتْ رِجَالٌ مِنَ الأَنْصَارِ يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ، فَسَأَلْتُ صُهَيْبًا وَكَانَ مَعَهُ: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ؟ قَالَ: كَانَ يُشِيرُ بِيَدِهِ۔
* تخريج: ن/السہو ۶ (۱۱۸۸)، (تحفۃ الأشراف : ۴۹۶۷) (صحیح)
۱۰۱۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد قباء میں آکر صلاۃ پڑھ رہے تھے، اتنے میں انصار کے کچھ لوگ آئے اور آپ کو سلام کرنے لگے، تو میں نے صُہیب رضی اللہ عنہ سے پوچھا جو آپ کے ساتھ تھے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے سلام کا جواب کیسے دیا تھا؟ اُنہوں نے کہا: آپ ﷺ ہاتھ کے اشارے سے جواب دے رہے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دورانِ صلاۃ سلام کاجواب زبان سے نہ دے ورنہ صلاۃ فاسد ہو جائے گی، البتہ انگلی یا ہاتھ کے اشارے سے جواب دے سکتا ہے، اور اکثر علماء کا یہی قول ہے ۔


1018- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ ﷺ لِحَاجَةٍ، ثُمَّ أَدْرَكْتُهُ وَهُوَ يُصَلِّي، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَأَشَارَ إِلَيَّ، فَلَمَّا فَرَغَ دَعَانِي، فَقَالَ: < إِنَّكَ سَلَّمْتَ عَلَيَّ آنِفًا وَأَنَا أُصَلِّي >۔
* تخريج: م/المساجد ۷ (۵۴۰)، ن/السہو ۶ (۱۱۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۳۴) (صحیح)
۱۰۱۸- جا بر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے کسی ضرورت کے تحت بھیجا، جب میں واپس آیا تو آپ صلاۃ پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا، تو آپﷺ نے اشارے سے جواب دیا، جب آپ صلاۃ سے فارغ ہوگئے تو مجھے بلایا، اور پوچھا: ''ابھی تم نے مجھے سلام کیا، اور میں صلاۃ پڑھ رہا تھا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ آپ ﷺ نے اس لئے فرمایا کہ جابر رضی اللہ عنہ کو جواب نہ دینے کی وجہ معلوم ہو جائے اور ان کے دل کو رنج نہ ہو، سبحان اللہ آپ کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کا کس قدر خیال تھا ۔


1019 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ ابْنُ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ فِي الصَّلاةِ، فَقِيلَ لَنَا: إِنَّ فِي الصَّلاةِ لَشُغْلاً۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۲۵، ومصباح الزجاجۃ: ۳۶۵)، وقد أخرجہ: خ/العمل في الصلاۃ ۳ (۱۲۰۱)، ۱۵ (۱۲۱۶)، المناقب ۳۷ (۳۸۷۵)، م/ المساجد ۷ (۵۳۸)، د/الصلاۃ ۱۷۰ (۹۲۳)، حم (۱/۳۷۶، ۴۰۹) (صحیح)
۱۰۱۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم صلاۃ میں سلام کیا کرتے تھے، پھر ہمیں ارشاد ہوا کہ صلاۃ میں خود ایک ایک مشغولیت ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جس میں مصلی کو مصروف رہنا چاہیے، اور دوسرا کام نہیں کرنا چاہئے، وہ کام جس میں مصلی کو مصروف رہنا چاہئے اللہ تعالیٰ کی یاد ہے، اور اس سے خشوع کے ساتھ دل لگانا ۔
 
Top