• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
69- بَاب الصَّلاةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ
۶۹ -باب: ایک کپڑے میں صلاۃ پڑھنے کا بیان​


1047- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَتَى رَجُلٌ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَحَدُنَا يُصَلِّي فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < أَوَ كُلُّكُمْ يَجِدُ ثَوْبَيْنِ؟ >۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۴۵)، وقد أخرجہ: خ/الصلا ۴۹ (۲۵۸)، م/الصلاۃ ۵۲ (۵۱۵)، د/الصلاۃ ۸ ۷ (۶۲۵)، ن/القبلۃ ۱۴ (۷۶۴)، ط/الجماعۃ ۹ (۳۰)، حم (۶/۲۳۰، ۲۳۹، ۲۸۵، ۳۴۵، ۴۹۵، ۴۹۸، ۴۹۹، ۵۰۱)، دي/الصلاۃ ۹۹ (۱۴۱۰) (صحیح)
۱۰۴۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہم میں سے کوئی ایک کپڑے میں صلاۃ پڑھ سکتا ہے،؟نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''کیا تم میں سے ہرشخص کو دوکپڑے میسر ہیں'' ؟ ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اور ظاہر ہے کہ ہر شخص کو دو کپڑے نہیں مل سکتے، اکثر کے پاس ایک ہی کپڑا ہو تا ہے، اور صلاۃ سب پر فرض ہے، تو ضرور ایک کپڑے میں صلاۃ جائز ہوگی، جمہور علماء کے نزدیک صلاۃ ایک کپڑے میں جائز ہے گو اس کے پاس دوسرے کپڑے بھی ہوں، اور بعضوں نے کہا کہ افضل یہ ہے کہ دو کپڑوں میں صلاۃ پڑھے گو ایک کپڑے میں بھی جائز ہے۔


1048- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ يُصَلِّي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، مُتَوَشِّحًا بِهِ
* تخريج: م/الصلاۃ ۵۲ (۵۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۸۲) (صحیح)
۱۰۴۸- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ ایک کپڑا لپیٹے ہوئے صلاۃ پڑھ رہے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : ''متوشحًا'' یعنی لپیٹے ہوئے، تو شح یہ ہے کہ کپڑے کا جو کنارہ داہنے کندھے پر ہو اس کو بائیں بغل کے نیچے سے لے جائے، پھر دونوں کناروں کو ملا کر سینے پر گرہ دے لے۔


1049- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ؛ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، مُتَوَشِّحًا بِهِ، وَاضِعًا طَرَفَيْهِ عَلَى عَاتِقَيْهِ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ۴ (۳۵۴، ۳۵۵)، م/الصلاۃ ۵۲ (۵۱۷)، ت/الصلاۃ ۱۳۸ (۳۳۹)، ن/القبلۃ ۱۴ (۷۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۸۴)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۷۸ (۶۷۸)، ط/الجماعۃ ۹ (۲۹)، حم (۴/۲۶، ۲۷) (صحیح)
۱۰۴۹- عمربن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ایک کپڑا لپیٹے ہوئے صلاۃ پڑھ رہے تھے، اور اس کے دونوں کناروں کو اپنے کندھوں پرڈالے ہوئے تھے ۔


1050- حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الشَّافِعِيُّ، إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَبَّاسِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ حَنْظَلَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادٍ الْمَخْزُومِيُّ، عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ مُشْكَانَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ كَيْسَانَ عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي بِالْبِئْرِ الْعُلْيَا، فِي ثَوْبٍ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (۰۲تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۷۰، ومصباح الزجاجۃ: ۳۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۱۷) (حسن)
(اس کی سندمیں عبد الرحمن بن کیسان مستور اور محمد بن حنظلہ غیر معروف ہیں، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے حسن ہے، ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجۃ: ۳۷۹ بتحقیق الشہری)
۵۰ ۱۰- کیسان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بئر علیا کے پاس ایک کپڑے میں صلاۃ پڑھتے دیکھا ۔


1051- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يُصَلِّي الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، مُتَلَبِّبًا بِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۷۰، مصباح الزجاجۃ: ۳۷۵) (حسن)
(بوصیری نے اس اسناد کی تحسین کی ہے)
۱۰۵۱- کیسان بن جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا آپ ظہر وعصر ایک ہی کپڑے میں پڑھ رہے تھے، اس حال میں کہ آپ اس کولپیٹے ہوئے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
70- بَاب سُجُودِ الْقُرْآنِ
۷۰ -باب: قرآن کے سجدوں کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱ ؎ : قرآن کریم کے سجدوں سے مراد سجدئہ تلاوت ہے، اکثر ائمہ کے نزدیک سجدئہ تلاوت سنت ہے، اگر کوئی ترک کرے تو گنہ گار نہ ہوگا، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک واجب ہے۔


1052- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِذَا قَرَأَ ابْنُ آدَمَ السَّجْدَةَ فَسَجَدَ، اعْتَزَلَ الشَّيْطَانُ يَبْكِي، يَقُولُ: يَا وَيْلَهُ! أُمِرَ ابْنُ آدَمَ بِالسُّجُودِ، فَسَجَدَ، فَلَهُ الْجَنَّةُ، وَأُمِرْتُ بِالسُّجُودِ، فَأَبَيْتُ، فَلِيَ النَّارُ>۔
* تخريج: م/الإیمان ۳۵ (۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۴۳) (صحیح)
۱۰۵۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب انسان آیت سجدہ تلاوت کرتا اور سجدہ کرتا ہے، تو شیطان روتا ہوا الگ ہوجاتا ہے، اور کہتا ہے: ہائے خرابی! ابن آدم کو سجدہ کا حکم ہوا، اس نے سجدہ کیا، اب اس کے لئے جنت ہے، اور مجھ کو سجدہ کا حکم ہوا، میں نے انکار کیا، میرے لئے جہنم ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جن لوگوں کو ذرہ برابر بھی اللہ تعالی کا خوف اورڈر نہیں، نہ جنت اور جہنم سے کچھ غرض ہے، اس حدیث کے بیان کے مطابق ان سے شیطان ہی اچھا ہے کہ کبھی کبھی اپنے حال پر روتا، اور اپنے افعال پر پچھتا تا تو ہے، نسأل اللہ السلامہ والعافیہ ۔


1053- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلادٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ جُرَيْجٍ: يَا حَسَنُ! أَخْبَرَنِي جَدُّكَ، عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ الْبَارِحَةَ -فِيمَا يَرَى النَّائِمُ- كَأَنِّي أُصَلِّي إِلَى أَصْلِ شَجَرَةٍ، فَقَرَأْتُ السَّجْدَةَ فَسَجَدْتُ، فَسَجَدَتِ الشَّجَرَةُ لِسُجُودِي، فَسَمِعْتُهَا تَقُولُ: اللَّهُمَّ احْطُطْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا، وَاكْتُبْ لِي بِهَا أَجْرًا، وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا.
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ قَرَأَ السَّجْدَةَ فَسَجَدَ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ فِي سُجُودِهِ مِثْلَ الَّذِي أَخْبَرَهُ الرَّجُلُ عَنْ قَوْلِ الشَّجَرَةِ ۔
* تخريج: ت/الجمعۃ ۵۵ (۵۷۹)، الدعوات ۳۳ (۳۴۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۶۷) (حسن)
۱۰۵۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس تھا کہ اس دوران ایک شخص آیا ۱؎ اور اس نے عرض کیا کہ کل رات میں نے ایک خواب دیکھا ہے جیسے سونے والا دیکھتا ہے، گویا میں ایک درخت کی جڑ میں صلاۃ پڑھ رہا ہوں، میں نے سجدے کی آیت پڑھی اور سجدہ کیا، تو درخت نے بھی میرے ساتھ سجدہ کیا، اور میں نے اس کو یہ کہتے ہوئے سنا ''اللَّهُمَّ احْطُطْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا، وَاكْتُبْ لِي بِهَا أَجْرًا، وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا'' یعنی: (اے اللہ! اس سجدہ کی وجہ سے میرے گناہ ختم کردے، اورمیرے لئے اجر لکھ دے، اور اس اجر کو میرے لئے اپنے پاس ذخیرہ بنادے) ۲؎ ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے سجدہ کی آیت پڑھی اور سجدہ کیا، تو میں نے سناآپ سجدہ میں وہی دعا پڑھ رہے تھے، جو اس آدمی نے درخت سے سن کر بیان کی تھی۔
وضاحت ۱ ؎ : یہاں پر شخص سے مراد ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں جیسا کہ دوسری روایت میں تصریح ہے ۔
وضاحت ۲؎ : سجدئہ تلاوت میں یہ دعا پڑھے، یا ''سبحان ربي الأعلى'' کہے، یا وہ دعا جو آگے آرہی ہے، بعض نے کہا کہ یہ دعا پڑھے: ''سبحان ربنا إن كان وعد ربنا لمفعولا''۔


1054- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَمْرٍو الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا سَجَدَ قَالَ: < اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، أَنْتَ رَبِّي، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي شَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، تَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ >۔
* تخريج: م/المسافرین ۲۶ (۷۷۱)، د/الصلاۃ۱۲۱ (۷۶۰)، ت/الدعوات ۳۲ (۳۴۲۱، ۳۴۲۲)، ن/الافتتاح ۱۷ (۸۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۵، ۱۰۲) (صحیح)
۱۰۵۴- علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب سجدہ کرتے تو کہتے : ''اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، أَنْتَ رَبِّي، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي شَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، تَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ '' (اے اللہ! میں نے تیرے ہی لئے سجدہ کیا، اور تجھ ہی پر ایمان لایا، اور تیرا ہی فرماں بردار ہوا تو میرا رب ہے، اور میرے چہرے نے سجدہ کیا اس ذات کے لئے جس نے کان اور آنکھ کو بنایا، اللہ تعالی کتنا بابرکت ہے جو سب سے اچھا بنانے والا ہے) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
71- بَاب عَدَدِ سُجُودِ الْقُرْآنِ
۷۱- باب: قرآن کریم میں سجود تلاوت کی تعداد ۱ ؎​
وضاحت ۱؎ : قرآن کریم میں (۱۵) سجدے ہیں، اور یہ سجدے ان سورتوں میں ہیں: سورہ اعراف، سورہ رعد، سورہ نحل، سورہ بنی اسرائیل، سورہ مریم، سورہ حج (دو سجدے)، سورہ فرقان، سورہ نمل، سورۃ السجدۃ، سورہ ''ص''، سور ہ فصلت (حم سجدہ)، سورہ نجم، سورہ الانشقاق، سورہ علق (اقرأ)، امام احمد اور اہل حدیث کا یہی قول ہے۔
سورہ ''حج'' میں دو سجدے ہیں، اور سورہ ''ص'' میں ایک سجدہ ہے، امام شافعی کے نزدیک سورۃ ''ص'' میں سجدہ نہیں، اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک سورہ ''حج'' میں ایک ہی سجدہ ہے وہ سورہ حج کے دوسرے سجدہ کو صلاۃ کا سجدہ بتلاتے ہیں۔


1055- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ أَبِي هِلالٍ، عَنْ عُمَرَ الدِّمَشْقِيِّ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ قَالَتْ: حَدَّثَنِي أَبُو الدَّرْدَاءِ أَنَّهُ سَجَدَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ إِحْدَى عَشْرَةَ سَجْدَةً، مِنْهُنَّ النَّجْمُ۔
* تخريج: ت/الجمعۃ ۴۷ (۵۶۸، ۵۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۹۳)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۳۲۸ (۱۴۰۱)، حم (۵/۱۹۴) (ضعیف)
(اس کی سند میں عمر الدمشقی مجہول ہیں)
۱۰۵۵- ابوالدر داء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ گیارہ سجدے کئے، ان میں سے ایک سورہ نجم کا سجدہ بھی تھا ۔


1056- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ فَائِدٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنِ الْمَهْدِيِّ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ عُبَيْدَةَ بْنِ خَاطِرٍ قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَمَّتِي أُمُّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ؛ قَالَ: سَجَدْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ إِحْدَى عَشْرَةَ سَجْدَةً، لَيْسَ فِيهَا مِنَ الْمُفَصَّلِ شَيْئٌ: الأَعْرَافُ، وَالرَّعْدُ، وَالنَّحْلُ، وَبَنِي إِسْرَائِيلَ، وَمَرْيَمُ، وَالْحَجُّ، وَسَجْدَةُ الْفُرْقَانِ، وَسُلَيْمَانُ سُورَةِ النَّمْلِ، وَالسَّجْدَةُ، وَفِي (ص)، وَسَجْدَةُ الْحَوَامِيمِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۹۷، ومصباح الزجاجۃ: ۳۷۷) (ضعیف)
(اس کی سندمیں عثمان بن فائد ضعیف ہیں)
۱۰۵۶- ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ گیارہ سجدے کئے، جن میں سے کوئی مفصل میں نہ تھا (اور وہ گیارہ سجدے اِن سورتوں میں تھے) : اعراف، رعد، نحل، بنی اسرائیل، مریم، حج، فرقان، نمل، سورۃ السجدۃ، سورہ (ص) اور سور ہ حم سجدہ ۔


1057- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى. حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ سَعِيدٍ الْعُتَقِيُّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُنَيْنٍ، مِنْ بَنِي عَبْدِكِلالٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَقْرَأَهُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَجْدَةً فِي الْقُرْآنِ، مِنْهَا ثَلاثٌ فِي الْمُفَصَّلِ، وَفِي الْحَجِّ سَجْدَتَيْنِ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۲۸ (۱۴۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۳۵) (ضعیف)
(اس کی سند میں حارث بن سعید العتقی مجہول ہیں)
۱۰۵۷- عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو قرآن میں پندرہ سجدے پڑھائے، ان میں سے تین سجدے مفصل میں اوردو سجدے سورہ حج میں ہیں ۔


1058- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ عَطَاءِ بْنِ مِينَاءَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَجَدْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي {إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ} وَ{اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ}۔
* تخريج: م/المساجد ۲۰ (۵۷۸)، د/الصلاۃ ۳۳۱ (۱۴۰۷)، ت/الصلاۃ ۲۸۵ (۵۷۳)، ن/الافتتاح ۵۲ (۹۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۰۶)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۱۰۰ (۷۶۶)، حم (۲/۲۴۹، ۴۶۱، دي/الصلاۃ ۱۶۲، (۱۵۰۹) (صحیح)
(اس کی سند میں عطاء بن میناء مجہول ہیں، لیکن دوسری صحیح سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے )
۱۰۵۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ: {إذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ} اور{اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ} میں سجدہ کیا ۔


1059- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سَجَدَ فِي {إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ}.
قَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ: هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَذْكُرُهُ غَيْرَهُ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۵ ۲۸ (۵۷۳)، ن/الافتتاح ۵۱ (۹۶۴)، (تحفۃ الأشراف: (۱۴۸۶۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۴۷) (صحیح)
۱۰۵۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے : {إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ} میں سجدہ کیا ۔
ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث یحییٰ بن سعید سے مروی ہے، میں نے ان کے علاوہ کسی اور کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
72- بَاب إِتْمَامِ الصَّلاةِ
۷۲-باب: صلاۃ کو مکمل طور پر ادا کرنے کا بیان​


1060- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلا دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى، وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي نَاحِيَةٍ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَجَاءَ فَسَلَّمَ فَقَالَ: <وَعَلَيْكَ، فَارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ> فَرَجَعَ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: <وَعَلَيْكَ، فَارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ بَعْدُ>، قَالَ فِي الثَّالِثَةِ: فَعَلِّمْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: <إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلاةِ فَأَسْبِغِ الْوُضُوءَ، ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَاعِدًا، ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلاتِكَ كُلِّهَا>۔
* تخريج: خ /الاستئذان ۸۱ (۶۲۵۱)، الأیمان والنذور ۱۵ (۶۶۶۷)، م/الصلاۃ ۱۱ (۳۹۷) د/الصلاۃ ۸ ۱۴ (۸۵۶)، ت/الصلاۃ ۱۱۱ (۲۶۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۸۳)، وقد أخرجہ: ن/الافتتاح ۷ (۸۸۵)، التطبیق ۱۵ (۱۰۵۴)، السہو ۶۶ (۱۳۱۴)، حم (۲/۷ ۴۳) (صحیح)
۱۰۶۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور اس نے صلاۃ پڑھی، رسول اللہ ﷺ مسجد کے ایک گوشے میں تشریف فرماتھے، اس نے آکر آپ کو سلام کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:''اور تم پر بھی سلام ہو، جاؤ دوبارہ صلاۃ پڑھو تم نے صلاۃ نہیں پڑھی''، وہ واپس گیا اور اس نے پھر سے صلاۃ پڑھی، پھر آکر نبی اکرم ﷺ کو سلام کیا، آپﷺ نے پھر فرمایا:''اور تم پر بھی سلام ہو، جاؤ پھر سے صلاۃ پڑھو، تم نے ابھی بھی صلاۃ نہیں پڑھی''، آخر تیسری مرتبہ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! مجھے صلاۃ کا طریقہ سکھا دیجیے، آپﷺ نے فرمایا: ''جب تم صلاۃ کا ارادہ کرو تو کامل وضو کرو، پھر قبلے کی طرف منہ کرو، اور''الله أكبر'' کہو، پھر قرآن سے جو تمہیں آسان ہو پڑھو، پھر رکوع میں جاؤ یہاں تک کہ پورا اطمینان ہوجائے، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھاؤ، اور پورے اطمینان کے ساتھ قیام کرو، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ میں مطمئن ہو جاؤ، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے بیٹھ جاؤ، پھر اسی طرح اپنی ساری صلاۃ میں کرو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ حدیث ''مسيء الصلاة'' کے نام سے اہل علم کے یہاں مشہور ہے، اس لئے کہ صحابی رسول خرباق رضی اللہ عنہ نے یہ صلاۃ اس طرح پڑھی تھی جس میں ارکان صلاۃ یعنی قیام، رکوع اور سجود وغیرہ کو اچھی طرح نہیں ادا کیا تھا جس پر رسول اکرم ﷺ نے تنبیہ فرمائی، اور صلاۃ کی یہ تفصیل بیان کی، یعنی ساری صلاۃ کو اسی طرح اطمینان اور تعدیل ارکان کے ساتھ ادا کرنے کی ہدایت کی، ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ اس شخص نے ہلکی صلاۃپڑھی تھی، اور رکوع اور سجدے کو پورا نہیں کیا تھا، اس حدیث سے صاف معلوم ہوا ہے کہ صلاۃ میں تعدیل ارکان یعنی اطمینان کے ساتھ رکوع، سجود اور قومہ وجلسہ ادا کرنا فرض ہے، جب ہی تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ تم نے صلاۃ ادا نہیں کی۔
ائمہ حدیث نیز امام شافعی، امام احمد، اور امام ابو یوسف وغیرہم نے یہ اور اس طرح کی دوسری احادیث کے پیش نظر تعدیل ارکان کو فرض اور واجب کہا ہے، اور امام ابو حنیفہ اور امام محمد نے تعدیل ارکان کو فرض نہیں کہا، بلکہ کرخی کی روایت میں واجب کہا ہے، اور جرجانی کی روایت میں سنت کہا ہے، وجوب اور فرضیت کے قائلین کا استدلال یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اس حدیث میں جتنی باتیں بتائی ہیں وہ سب کی سب یا شروط صلاۃ میں سے ہیں جیسے وضو، استقبال قبلہ، یا فرائض وواجبات میں سے، جیسے تکبیر تحریمہ، قرأت فاتحہ، وغیرہ وغیرہ، اور اگر یہ اعمال فرض نہ ہوتے تو رسول اکرم ﷺ اس صحابی کو بار بار صلاۃ ادا کرنے کے لئے کیوں حکم دیتے؟ اور یہ فرماتے کہ ابھی تمہاری صلاۃ نہیں ہوئی، یہ اور اس طرح کی احادیث کی روشنی میں تعدیل ارکان کو فرض اور واجب کہنے والے ائمہ کا مسلک صحیح اورراجح ہے، اس کے مقابل میں صرف ان چیزوں کو سنت کہنے والے ائمہ کے اتباع اور مقلدین کے طریقۂ صلاۃ کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کافی ہے کہ خشوع وخضوع اور تعدیل ارکان کی کتنی اہمیت ہے، اور اس کے مقابل میں سب سے اہم عبادت کو اس طرح ادا کرنا کہ کسی طور پر بھی اطمئنان نہ ہوبس جلدی جلدی ٹکریں مار لی جائیں، یہ بعینہ وہی صلاۃ ہو جائے گی جس کو رسول اکرم ﷺ نے صحابی سے فرمایا کہ ''تم نے صلاۃ ہی نہیں ادا کی اس لئے دوبارہ صلاۃ ادا کرو''، والله الهادي إلى الصواب.


1061- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فِيهِمْ أَبُو قَتَادَةَ، فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، قَالُوا: لِمَ؟ فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ بِأَكْثَرِنَا لَهُ تَبَعَةً، وَلا أَقْدَمَنَا لَهُ صُحْبَةً، قَالَ: بَلَى، قَالُوا: فَاعْرِضْ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاةِ كَبَّرَ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، وَيَقِرَّ كُلُّ عُضْوٍ مِنْهُ فِي مَوْضِعِهِ، ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ، وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ مُعْتَمِدًا، لا يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلا يُقْنِعُ، مُعْتَدِلا، ثُمَّ يَقُولُ: < سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ > وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ، ثُمَّ يَهْوِي إِلَى الأَرْضِ وَيُجَافِي بَيْنَ يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا وَيَفْتَخُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ، ثُمَّ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ وَيَجْلِسُ عَلَى رِجْلِهِ الْيُسْرَى حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ مِنْهُ إِلَى مَوْضِعِهِ ثُمَّ يَقُومُ فَيَصْنَعُ فِي الرَّكْعَةِ الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، كَمَا صَنَعَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلاةِ، ثُمَّ يُصَلِّي بَقِيَّةَ صَلاتِهِ هَكَذَا، حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِي يَنْقَضِي فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ إِحْدَى رِجْلَيْهِ وَجَلَسَ عَلَى شِقِّهِ الأَيْسَرِ، مُتَوَرِّكًا، قَالُوا: صَدَقْتَ، هَكَذَا كَانَ يُصَلِّي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۴۵ (۸۲۸)، لارد/الصلاۃ ۱۸۱ (۹۶۳، ۹۶۴)، ت/الصلاۃ ۱۱۱ (۳۰۴، ۳۰۵)، ن/التطبیق ۶ (۱۰۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۲۴)، دي/الصلاۃ ۷۰ (۱۳۴۶) (صحیح)
۱۰۶۱- محمد بن عمروبن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے دس صحابہ کی موجودگی میں ۱؎ ، جن میں ایک ابوقتادہ رضی اللہ عنہ تھے، ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا :میںآپ لوگوں میں سب سے زیا دہ رسول اللہ ﷺ کی صلاۃ کے بارے میں جا نتا ہوں، لوگوں نے کہا: کیسے؟جب کہ اللہ کی قسم آپ نے ہم سے زیا دہ نہ رسول اکرمﷺ کی پیروی کی ہے اور نہ آپ ہم سے زیا دہ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ رہے؟، ابو حمید رضی اللہ عنہ نے کہا :ہا ں...ضرور لیکن میں آپ لوگوں سے زیادہ جا نتا ہوں، لوگوں نے کہا: پھر نبی اکرم ﷺ کا طریقہ صلاۃ بیا ن کریں، انہو ں نے کہا : نبی اکرم ﷺ جب صلاۃ کے لئے کھڑے ہو تے تو ''الله أكبر'' کہتے، پھر اپنے دونوں ہاتھ مو نڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے، اور آپ کا ہر عضو اپنی جگہ پر برقرار رہتا، پھر قرا ء ت کر تے، پھر''الله أكبر'' کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے، پھر رکوع کرتے اور اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے دونوں گھٹنوں پرٹیک کر رکھتے، نہ تو اپنا سر پیٹھ سے نیچا رکھتے نہ اونچا بلکہ پیٹھ اور سر دونوں برابر رکھتے، پھر ''سمع الله لمن حمده''کہتے، اور دونوں ہا تھ کندھے کے بالمقابل اٹھاتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آجا تی، پھر زمین کی طرف (سجدہ کے لئے) جھکتے اور اپنے دونوں ہاتھ پہلو سے جدا رکھتے، پھر سجدہ سے اپنا سر اٹھا تے اور اپنا بایاں پائوں موڑکراس پر بیٹھ جاتے، اور سجدہ میں پائوں کی انگلیاں کھڑی رکھتے، پھر سجدہ کرتے، پھر''الله أكبر'' کہتے، اور اپنے بائیں پائوں پر بیٹھ جا تے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ واپس لوٹ آتی، پھر کھڑے ہو تے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے، پھر جب دو رکعتوں کے بعد (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہو تے، تواپنے دونوں ہاتھ کندھے کے بالمقابل اٹھا تے جیسا کہ نماز شروع کرتے وقت کیا تھا ۳؎ ، پھر اپنی باقی صلاۃ اسی طرح ادا فرماتے، یہاں تک کہ جب اس آخری سجدہ سے فارغ ہوتے جس کے بعد سلام ہے تو بائیں پائوں کو ایک طرف نکا ل دیتے، اور بائیں پہلو پہ سرین کے بل بیٹھتے ۲؎ ، لوگوں نے کہا :آپ نے سچ کہا، رسول اللہﷺ اسی طرح صلاۃ پڑھتے تھے ۳؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : گویا یہ حدیث دس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے روایت کی کیونکہ ان سبھوں نے ابو حمید رضی اللہ عنہ کے کلام کی تصدیق کی۔
وضاحت ۲ ؎ : اس بیٹھک کو تورّک کہتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ آخری تشہدمیں تورک مسنون ہے، رہی افتراش والی روایت تو وہ مطلق ہے اس میں یہ وضاحت نہیں کہ یہ دونوں تشہدکے لئے ہے یا پہلے تشہد کے لئے ہے، ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی اس روایت نے اس اطلاق کی وضاحت کر دی ہے اور یہ کہ افتراش پہلے تشہد میں ہے اور تورّک آخری تشہد میں ہے۔''تورّک'' کے مسئلہ میں اختلاف ہے، یعنی تشہد میں سرین (چوتڑ) کے بل بیٹھے یا نہ بیٹھے، بعض نے کہا کہ دونوں قعدوں (تشہد) میں تورّک کرے، اما م مالک کا یہی مذہب ہے، اور بعض نے کہا کسی قعدہ (تشہد) میں تورک نہ کرے، بلکہ بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھے، یہی امام ابو حنیفہ کا مذہب ہے، اور بعض نے کہا کہ جس قعدہ (تشہد) کے بعد سلام ہو تو اس میں تورّک کرے، خواہ وہ پہلا تشہد ہو، جیسے صلاۃ فجر میں، یا دوسرا تشہد ہو، جیسے چار یا تین رکعتوں والی صلاۃ، اور جس قعدہ (تشہد) کے بعد سلام نہ ہو اس میں بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھے، اور یہ امام شافعی کا مذہب ہے، اور بعض نے کہا کہ جس صلاۃ میں دو قعدے ہوں تو دوسرے قعدہ میں تورک کرے، اور جس صلاۃ میں ایک ہی قعدہ ہو تو اس میں بایاں پاؤں بچھا کر بیٹھے، امام احمد اور اہل حدیث نے اسی کو اختیار کیا ہے اور حدیث سے یہی ثابت ہے۔
وضاحت ۳؎ : اس روایت سے ان لوگوں کے قول کی بھی تردید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین شروع اسلام میں تھا بعد میں منسوخ ہوگیا کیونکہ حدیث کا سیاق یہ بتا رہا ہے کہ ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں ان سے جو گفتگو کی وہ نبی اکرم ﷺ کی موت کے بعد کا واقعہ ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صلاۃ میں چارجگہوں پر رفع یدین کیاجائے گا، تکبیرتحریمہ کے وقت، رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے اٹھتے ہوئے، اور قعدئہ اولیٰ (پہلے تشہد) کے بعد تیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت ۔


1062- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ أَبِي الرِّجَالِ عَنْ عَمْرَةَ، قَالَتْ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ، كَيْفَ كَانَتْ صَلاةُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ؟ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا تَوَضَّأَ فَوَضَعَ يَدَيْهِ فِي الإِنَاءِ سَمَّى اللَّهَ، وَيُسْبِغُ الْوُضُوءَ، ثُمَّ يَقُومُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ، فَيُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يَرْكَعُ فَيَضَعُ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، وَيُجَافِي بِعَضُدَيْهِ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيُقِيمُ صُلْبَهُ، وَيَقُومُ قِيَامًا هُوَ أَطْوَلُ مِنْ قِيَامِكُمْ قَلِيلا، ثُمَّ يَسْجُدُ فَيَضَعُ يَدَيْهِ تُجَاهَ الْقِبْلَةِ، وَيُجَافِي بِعَضُدَيْهِ مَا اسْتَطَاعَ فِيمَا رَأَيْتُ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَجْلِسُ عَلَى قَدَمِهِ الْيُسْرَى، وَيَنْصِبُ الْيُمْنَى، وَيَكْرَهُ أَنْ يَسْقُطَ عَلَى شِقِّهِ الأَيْسَرِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۸۸) (ضعیف جدا)
(ملاحظہ ہو حدیث نمبر: ۸۷۴)
۱۰۶۲- عمرہ کہتی ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : رسول اللہﷺ کی صلاۃ کیسی تھی؟ انہو ں نے کہا: نبی اکرمﷺ جب وضو ء شروع کرتے تو اپنا ہاتھ برتن میں ڈال کر ''بسم الله'' کہتے اور وضو مکمل کرتے، پھر قبلہ رخ کھڑے ہوتے اور ''الله أكبر'' کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں کے بالمقابل اٹھا تے، پھر رکوع کر تے، اور اپنے دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں پہ رکھتے اور بازؤں کو پسلیوں سے جدا رکھتے، پھر رکوع سے سر اٹھا تے اور پیٹھ سیدھی کرتے، اور تمہارے قیام سے کچھ لمبا قیام کرتے، پھر سجدہ کرتے اور اپنے دونوں ہاتھ قبلہ رخ رکھتے، اور میرے مشاہدہ کے مطابق آپﷺ جہاں تک ہو سکتا اپنے بازؤں کو (اپنی بغلوں سے) جدا رکھتے، پھر سجدہ سے اپنا سر اٹھا تے اور بائیں قدم پہ بیٹھ جاتے، اور دائیں پائوں کو کھڑارکھتے، (اور قعدہ اولیٰ میں) بائیں طرف مائل ہو نے کو نا پسند فرماتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
73- بَاب تَقْصِيرِ الصَّلاةِ فِي السَّفَرِ
۷۳-باب: سفر میں صلاۃ قصر کرنے کا بیان​


1063- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عُمَرَ قَالَ: صَلاةُ السَّفَرِ رَكْعَتَانِ، وَالْجُمُعَةُ رَكْعَتَانِ، وَالْعِيدُ رَكْعَتَانِ، تَمَامٌ غَيْرُ قَصْرٍ، عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ ﷺ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۹۶، ومصباح الزجاجۃ: ۳۷۸)، وقد أخرجہ: ن/الجمعۃ ۳۷ (۱۴۲۱)، حم (۱/۳۷) (صحیح)
(سند میں شریک القاضی سیء الحفظ ہیں، لیکن سفیان ثوری نے مسند احمد میں ان کی متابعت کی ہے، اور عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ کا عمر رضی اللہ عنہ سے سماع مختلف فیہ ہے، لیکن بعض علماء نے سماع کو ثابت مانا ہے، ملاحظہ ہو: نصب الرایہ : ۲/۱۸۹، و الإرواء: ۳/۱۰۶)
۱۰۶۳- عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سفر کی صلاۃ دورکعت ہے، جمعہ اور عید بھی دو رکعت ہیں، بہ زبان محمد ﷺ یہ کامل ہیں ناقص نہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی سفر میں دوہی رکعتیں واجب ہیں، اور یہ نہیں ہے کہ چار واجب تھیں سفر کی وجہ سے دو ہوگئیں اب قرآن کریم میں جو آیا ہے: { وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُواْ مِنَ الصَّلاَةِ" (سورۂ نساء: ۱۰۱) ،یعنی: ''جب تم سفرمیں ہو تو تم پر صلاۃ کو قصر پڑھنے میں کوئی گناہ نہیں ہے''، یہاں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، کہ یہ آیت سفر میں نازل ہوئی، اور خوف کی قید اتفاقی ہے، مفسرین کی ایک جماعت کی یہی رائے ہے، یا خوف کی حالت میں نازل ہوئی، اور سفر کی حالت اتفاقی ہے، مفسرین کی ایک جماعت نے آیت میں قصر سے مراد رکوع اور سجود کو ایما اور اشارہ سے کرنے کے معنی میں لیا ہے، اور امام بخاری نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ صلاۃ پہلے دو ہی رکعت فرض ہوئی تھی پھر سفر کی صلاۃ اپنی حالت پر باقی رہی اور حضر میں دو دو رکعتیں بڑھا دی گئیں، اکثر ائمہ کے یہاں سفر میں قصر واجب ہے، امام ابو حنیفہ کے یہاں اتمام ناجائز ہے، اور امام شافعی کے نزدیک سفر میں قصر واتمام دونوں جائز ہے، اور قصر افضل ہے، اور احادیث سے قصر کا وجوب ہی ثابت ہوتا ہے، اور نبی کریم ﷺ سے اسفار میں ہمیشہ قصر ہی ثابت ہے، ملاحظہ ہو: (الروضہ الندیہ : ۱/۳۷۳، ۳۷۴)


1064- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، أَنْبَأَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ عُمَرَ قَالَ: صَلاةُ السَّفَرِ رَكْعَتَانِ، وَصَلاةُ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَانِ، وَالْفِطْرُ وَالأَضْحَى رَكْعَتَانِ، تَمَامٌ غَيْرُ قَصْرٍ، عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ ﷺ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۲۹، ومصباح الزجاجۃ:۳۷۹) (صحیح)
۱۰۶۴- عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سفر کی صلاۃ دو رکعت ہے، اورجمعہ کی صلاۃ دو رکعت ہے، عیدالفطر اور عیدالاضحی کی دو دو رکعت ہے، بہ زبان محمد ﷺ یہ کا مل ہیں نا قص نہیں۔


1065- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ: سَأَلْتُ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ، قُلْتُ: {لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمِ الَّذِينَ كَفَرُوا} وَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ؟ فَقَالَ: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ: <صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ، فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ>۔
* تخريج: م/المسافرین ۱ (۶۸۶)، د/الصلاۃ۲۷۰ (۱۱۹۹، ۱۲۰۰)، ت/تفسیر سورۃ النساء (۳۰۳۴)، ن/تقصیر الصلاۃ ۱ (۱۴۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۵، ۳۶)، دي/الصلاۃ ۱۷۹ (۱۵۴۶) (صحیح)
۱۰۶۵- یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، میں نے کہا: اللہ تعالی فرما تا ہے {لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمِ الَّذِينَ كَفَرُوا}، یعنی: ''صلاۃ قصر کرنے میں تمہا رے اوپر کوئی گنا ہ نہیں اگر کا فروں کی فتنہ انگیزیوں کا ڈر ہو'' (سو رۃ النساء : ۱۰۱)، اب اس وقت تو لوگ مامون (امن وامان میں) ہو گئے ہیں؟ ! انہوں نے کہا: جس بات پرتمہیں تعجب ہوا مجھے بھی اسی پر تعجب ہوا تھا، تو میں نے رسول اللہﷺ سے اس سلسلے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''یہ صدقہ ہے، جو اللہ تعالی نے تم پر کیا ہے، لہٰذاتم اس کے صد قہ کو قبول کرو'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اللہ تعالیٰ کا ایک صدقہ ہمارے اوپر یہ ہے کہ سفر میں دشمنوں کا ڈر نہ رہتے بھی صلاۃِ قصر مشروع اور ثابت ہے، اور رسول اکرم ﷺ اپنے تمام اسفار میں قصر کرتے تھے، اس حدیث سے بھی قصر کے وجوب کی تائید ہوتی ہے، اس لئے کہ اس میں نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے صدقے کو قبول کرنے کا حکم دیا ہے۔


1066- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ خَالِدٍ أَنَّهُ قَالَ لِعَبْدِاللَّهِ ابْنِ عُمَرَ: إِنَّا نَجِدُ صَلاةَ الْحَضَرِ وَصَلاةَ الْخَوْفِ فِي الْقُرْآنِ، وَلا نَجِدُ صَلاةَ السَّفَرِ؟ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ إِلَيْنَا مُحَمَّدًا ﷺ وَلا نَعْلَمُ شَيْئًا، فَإِنَّمَا نَفْعَلُ كَمَا رَأَيْنَا مُحَمَّدًا ﷺ يَفْعَلُ ۔
* تخريج: ن/التقصیر۱ (۱۴۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۶۶، ۹۴) (صحیح)
۱۰۶۶- امیہ بن عبداللہ بن خالد سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا : ہم قرآن میں صلاۃ حضر اور صلاۃ خوف کا ذکر پاتے ہیں، لیکن سفر کی صلاۃ کا ذکر نہیں پاتے؟ ! توعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا: اللہ تعالیٰ نے ہما ری جا نب محمد ﷺ کو مبعوث فر ما یا ہے، اور ہم دین کی کچھ بھی بات نہ جا نتے تھے، ہم وہی کرتے ہیں جسے ہم نے محمد ﷺ کو کرتے دیکھا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حالانکہ قرآن کریم میں یہ آیت موجود ہے: {وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُواْ مِنَ الصَّلاَةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ} اخیر تک، یعنی: ''جب تم زمین میں سفر کرو تو صلاۃ کے قصرکر نے میں تم پر گناہ نہیں، اگر تم کو ڈر ہو کہ کافر تم کو ستائیں گے''، اس آیت سے سفر کی صلاۃ کا حکم نکلتا ہے، مگر چونکہ اس میں قید ہے کہ اگر تم کو کافروں کا ڈر ہو تو امیہ بن عبد اللہ نے صلاۃِ خوف سے اس کو خاص کیا، کیونکہ صرف سفر کا حکم جس میں ڈر نہ ہو قرآن میں نہیں پایا، اور عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ حکم صاف طور سے قرآن میں نہیں ہے، لیکن نبی اکرم ﷺ کے فعل سے مطلق سفر میںقصر کرنا ثابت ہے، پس حدیث سے جو امر ثابت ہو اس کی پیروی تو ویسے ہی ضروری ہے، جیسے اس امر کی جو قرآن سے ثابت ہو، ہم تک قرآن اور حدیث دونوں نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ سے پہنچا ہے، اور قرآن میں حدیث کی پیروی کا صاف حکم ہے، جو کوئی صرف قرآن پر عمل کرنے کا دعویٰ کرے، اور حدیث کو نہ مانے وہ گمراہ ہے، اور اس نے قرآن کو بھی نہیں مانا، اس لئے کہ قرآن میں صاف حکم ہے:{ وما آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا} اور فرمایا :{مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ} اور یہ ممکن نہیں کہ حدیث کے بغیر کوئی قرآن پر عمل کرسکے، اس لئے کہ قرآن مجمل ہے، اور حدیث اس کی تفسیر ہے، مثلاً قرآن میں صلاۃ ادا کرنے کا حکم ہے لیکن اس کے شرائط، ارکان، اور کیفیات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، اسی طرح زکاۃ، حج، صیام وغیرہ دین کے ارکان بھی صرف قرآن دیکھ کر ادا نہیں ہوسکتے، اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے : ''ألا إني أوتيت القرآن ومثله معه'' (خبردار ہو! مجھے قرآن دیا گیا، اور اس کے مثل ایک اور)، یعنی حدیث۔


1067- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ بِشْرِ بْنِ حَرْبٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا خَرَجَ مِنْ هَذِهِ الْمَدِينَةِ لَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۹۹، ۱۲۴) (حسن صحیح)
۱۰۶۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اس شہر سے باہر نکلتے تو دو رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے یہاں تک کہ آپ یہاں لو ٹ آتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : حالانکہ مدینہ سے نکلتے ہی کافروں کا ڈر نہ ہوتا، پھر معلوم ہوا کہ بغیر ڈر کے بھی سفر میں قصر درست ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسافر جب شہر سے نکل جائے اس وقت سے قصر شروع کرے۔


1068- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، وَجُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُوعَوَانَةَ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَخْنَسِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: افْتَرَضَ اللَّهُ الصَّلاةَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّكُمْ ﷺ فِي الْحَضَرِ أَرْبَعًا، وَفِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ۔
* تخريج: م/المسافرین (۶۸۷)، د/الصلاۃ ۲۸۷ (۱۲۴۷)، ن/الصلاۃ ۳ (۴۵۷)، التقصیر۱ (۱۴۴۳) الخوف ۱ (۱۵۳۳)، (تحفۃ الأشراف : ۶۳۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۳۷، ۲۴۳) (صحیح)
۱۰۶۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے تمہارے نبی اکرم ﷺ کی زبان سے حضر (اقامت) میں چار رکعتیں اور سفر میں دو رکعتیں فرض کیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
74- بَاب الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ فِي السَّفَرِ
۷۴-باب: سفر میں جمع بین الصلاتین (دو صلاۃ جمع کر نے) کا بیا ن ۱؎​
وضاحت ۱ ؎ : یعنی ظہر کے وقت ظہر اور عصر پڑھنا، اور مغرب کے وقت مغرب اور عشاء، اس کو جمع تقدیم کہتے ہیں، یا عصر کے وقت ظہر اور عصر کو پڑھنا، یا عشاء کے وقت مغرب اور عشاء، اس کو جمع تاخیر کہتے ہیں، مسافر کے لئے جمع تقدیم وتاخیر کی دونوں صورتیں جائز ہیں، شافعی، احمد، اہل حدیث اور جمہور علماء کا یہی قول ہے، صرف ابو حنیفہ نے سفر میں جمع کرنے کو ناجائز کہا ہے، اور جو صحیح حدیثیں اس باب میں وارد ہوئی ہیں، ان کی تاویل کی ہے، اور کہا ہے کہ قرآن میں یہ آیت ہے: {إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا} (سورۂ نساء: ۱۰۳)، یعنی: ''یقینا صلاۃ کی ادائیگی مومنوں پر مقررہ اوقات میں فرض ہے''پس اگر دو صلاۃ کو ایک وقت میں ادا کیا جائے تویہ آیت کے خلاف ہوگا، واضح رہے کہ امام ابو حنیفہ نے آیت کے خلاف سفر میں قصر کو جائز کہا ہے، حالانکہ قرآن میں قصر اسی وقت جائز ہے جب ڈر ہو، اب اگر یہ کہیں کہ آپ نے یہ حدیث سے نکالا ہے، تو جمع بن الصلاتین کے قائلین کہیں گے کہ بہت ساری حدیثوں سے سفر میں بھی جمع ثابت ہے، علاوہ ا س کے عرفات اور مزدلفہ میں حنفیہ بھی جمع بین الصلاتین کو جائز کہتے ہیں، پھر یہاں آیت کے خلاف کیسے کرتے ہیں، اور آیت سے صرف یہی نکلتا ہے کہ صلاۃ کا ایک وقت ہے اور جمع کرنے سے بھی آخر وقت تک باقی رہتا ہے، اور احتمال ہے کہ آیت خاص ہو حضر (اقامت) سے اور اہل حدیث کے نزدیک بیماری اور بارش وغیرہ کے عذر کی بنا پر حضر میں بھی جمع بین الصلاتین صحیح ہے ۔


1069- حَدَّثَنَا مُحْرِزُ بْنُ سَلَمَةَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْمَاعِيلَ،عَنْ عَبْدِالْكَرِيمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، وَسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَعَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، وَطَاوُسٍ، أَخْبَرُوهُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ فِي السَّفَرِ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يُعْجِلَهُ شَيْئٌ، وَلا يَطْلُبَهُ عَدُوُّ، وَلا يَخَافَ شَيْئًا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۵۰، ۵۹۰۷، ۶۴۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۱۷)
(ضعیف)
(اس کی سند میں ابراہیم بن اسماعیل ضعیف ہیں)
۱۰۶۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مغرب اور عشاء کی صلاۃ کو سفر میں جمع کرتے تھے، نہ تو آپ کو کسی چیز کی عجلت ہو تی، نہ کو ئی دشمن آپ کا پیچھا کئے ہو ئے ہوتا، اورنہ آپ کو کسی چیز کا خوف ہی ہوتا ۔


1070- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فِي السَّفَرِ.
* تخريج: م/المسافرین ۶ (۷۰۶)، د/الصلاۃ ۲۷۴ (۱۲۰۶ و ۱۲۰۸)، ن/المواقیت ۴۲ (۵۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۲۰)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۲۷۷ (۵۵۳)، ط/ قصر الصلاۃ ۱ (۱)، دي/الصلاۃ ۱۸۲ (۱۵۵۶) (صحیح)
۱۰۷۰- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ظہر وعصر، اورمغرب وعشاء کی صلاۃ کو غزوہ تبوک کے سفر میں جمع فرمایا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جمع بین الصلاتین کی دوقسمیں ہیں: ایک صوری، دوسری حقیقی، پہلی صلاۃ کوآخروقت میں اور دوسری صلاۃ کواوّل وقت میں پڑھنے کوجمع صوری کہتے ہیں، اور ایک صلاۃ کودوسری صلاۃ کے وقت میں جمع کرکے پڑھنے کو جمع حقیقی کہتے ہیں، اس کی دو صورتیں ہیں ایک جمع تقدیم، دوسری جمع تاخیر، جمع تقدیم یہ ہے کہ ظہر کے وقت میں عصر اورمغرب کے وقت میں عشا ء پڑھی جائے، اور جمع تاخیر یہ ہے کہ عصر کے وقت میں ظہر اور عشاء کے وقت میں مغرب پڑھی جائے، یہ دونوں جمع رسول اللہﷺ سے ثابت ہے۔
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جمع سے مراد جمع صوری ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ جمع سے مراد جمع حقیقی ہے کیوں کہ جمع کی مشروعیت آسانی کے لیے ہوئی ہے اور جمع صوری کی صورت میں تو اور زیادہ پریشانی اور زحمت ہے کیوں کہ تعیین کے ساتھ اول اور آخر وقت کا معلوم کرنا بہت دشوار امر ہے، اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جمع بین الصلاتین کی رخصت عرفہ اور مزدلفہ کے ساتھ خاص نہیں کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے تبوک میں بھی دو صلاۃ کوایک ساتھ جمع کیاہے، واضح رہے کہ جمع بین الصلاتین کے لئے سفر کا تسلسل شرط نہیں، سفر کے دوران قیام کی حالت میں بھی جمع بین الصلاتین جائز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
75- بَاب التَّطَوُّعِ فِي السَّفَرِ
۷۵-باب: سفر میں نوافل پڑھنے کا بیان​


1071- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ ابْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: كُنَّا مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ، فَصَلَّى بِنَا، ثُمَّ انْصَرَفْنَا مَعَهُ وَانْصَرَفَ، قَالَ فَالْتَفَتَ فَرَأَى أُنَاسًا يُصَلُّونَ، فَقَالَ: مَا يَصْنَعُ هَؤُلاءِ؟ قُلْتُ: يُسَبِّحُونَ قَالَ: لَوْ كُنْتُ مُسَبِّحًا لأَتْمَمْتُ صَلاتِي، يَا ابْنَ أَخِي! إِنِّي صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ فِي السَّفَرِ، حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ، ثُمَّ صَحِبْتُ أَبَا بَكْرٍ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَحِبْتُ عُمَرَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَحِبْتُ عُثْمَانَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى قَبَضَهُمُ اللَّهُ، وَاللَّهُ يَقُولُ: {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ}۔
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۱۱ (۱۱۰۱)، م/المسافرین ۱ (۶۸۹)، د/الصلاۃ ۲۷۶ (۱۲۲۳)، ن/تقصیر الصلاۃ ۵ (۱۴۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۲۴)، دي/الصلاۃ ۱۷۹ (۱۵۴۷) (صحیح)
۱۰۷۱- حفص بن عاصم بن عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ ہم ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک سفر میں تھے، انہوں نے ہمیں صلاۃ پڑھائی، پھر ہم ان کے ساتھ لوٹے، انہوں نے مڑ کر دیکھا تو کچھ لوگ صلاۃ پڑھ رہے تھے، پوچھا: یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا : سنت پڑھ رہے ہیں، انہوں نے کہا: اگر مجھے نفلی صلاۃ (سنت) پڑھنی ہوتی تو میں پوری صلاۃ پڑھتا، میرے بھتیجے! میں رسول اللہﷺ کے ساتھ رہا، آپ ﷺ نے سفر میں دو رکعت سے زیا دہ نہ پڑھی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، پھر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا، انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، پھر میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا، تو انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، پھر میں عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا تو انھوں نے بھی دو رکعت سے زیا دہ نہ پڑھی، اور پوری زندگی ان سب لوگوںکا یہی عمل رہا یہاں تک کہ اللہ تعا لی نے ان کو وفات دے دی، اور اللہ تعالی فرماتا ہے: {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ}، یعنی: ''تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے'' (سورۃ الا ٔحزاب: ۲۱) ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : تو صلاۃ ایسی عبادت میں بھی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سنت سے زیادہ پڑھنا مناسب نہ جانا، یہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا کمال اتباع ہے، اور وہ نبی اکرم ﷺ کی اتباع میں بہت سخت تھے، یہاںتک کہ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ان مقامات پر ٹھہرتے جہاں نبی اکرم ﷺ ٹھہرتے تھے، اور وہیں صلاۃ ادا کرتے جہاں آپ ﷺ صلاۃ پڑھتے تھے۔
سفر میں صلاۃ کی سنتوں کے پڑھنے کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، اکثر کا یہ قول ہے کہ اگر پڑھے گا تو ثواب ہوگا، اور خود ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ترمذی کی روایت میں ظہر کی سنتیں پڑھنا منقول ہے، اور بعض علماء کا یہ قول ہے کہ سفر میں صرف فرض ادا کرے، سنتیں نہ پڑھے، ہاں عام نوافل پڑھنا جائز ہے، نبی کریم ﷺ اپنے اسفار مبارکہ میں فرض صلاۃ سے پہلے یا بعد کی سنتوں کو نہیں پڑھتے تھے، سوائے فجر کی سنت اور وتر کے کہ ان دونوں کو سفر یا حضر کہیں نہیں چھوڑتے تھے، نیز عام نوافل کا پڑھنا آپ سے سفر میں ثابت ہے۔


1072- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلاد، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: سَأَلْتُ طَاوُسًا عَنِ السُّبْحَةِ فِي السَّفَرِ، وَالْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ يَنَّاقٍ جَالِسٌ عِنْدَهُ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي طَاوُسٌ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ صَلاةَ الْحَضَرِ وَصَلاةَ السَّفَرِ، فَكُنَّا نُصَلِّي فِي الْحَضَرِ قَبْلَهَا وَبَعْدَهَا، وَكُنَّا نُصَلِّي فِي السَّفَرِ قَبْلَهَا وَبَعْدَهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۹۶، ومصباح الزجاجۃ:۳۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۳۲) (منکر)
(اسامہ بن زید میں کچھ ضعف ہے، اور یہ حدیث سابقہ حدیث اور خود ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک حدیث سے معارض ہے، نیز سنن نسائی میں ابن عمر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ سفر میں دورکعت سے زیادہ (فرض) نہیں پڑھتے تھے، اور نہ اس فریضہ سے پہلے اور نہ اس کے بعد (نوافل) پڑھتے تھے، (۱۴۵۹)، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء : ۲/۶۰۵)
۱۰۷۲- اُسامہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس سے سفر میں نفل پڑھنے کے بارے سوال کیا، اور اس وقت ان کے پاس حسن بن مسلم بھی بیٹھے ہوئے تھے، تو حسن نے کہا:طاؤس نے مجھ سے بیان کیاہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہﷺ نے حضر اور سفر دونوں کی صلاۃ فرض کی، تو ہم حضر میں فرض سے پہلے اور اس کے بعد سنتیں پڑھتے، اور سفر میں بھی پہلے اور بعد صلاتیں پڑھتے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
76- بَاب كَمْ يَقْصُرُ الصَّلاةَ الْمُسَافِرُ إِذَا أَقَامَ بِبَلْدَةٍ؟
۷۶- باب: جب مسافر کسی مقام پر ٹھہرے تو کتنے دنوں تک قصر کر سکتا ہے؟​


1073- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ الزُّهْرِيِّ قَالَ: سَأَلْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، مَاذَا سَمِعْتَ فِي سُكْنَى مَكَّةَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ الْعَلاءَ ابْنَ الْحَضْرَمِيِّ يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < ثَلاثًا لِلْمُهَاجِرِ بَعْدَ الصَّدَرِ >۔
* تخريج: خ/مناقب الانصار ۴۷ (۳۹۳۳)، م/الحج۸۱ (۱۳۵۲)، د/الحج۹۲ (۲۰۲۲)، ت/الحج ۱۰۳ (۹۴۹)، ن/تقصیرالصلاۃ ۴ (۱۴۵۵، ۱۴۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۳۹، ۵/۵۲)، دي/الصلاۃ ۱۸۰ (۱۵۵۳) (صحیح)
۱۰۷۳- عبدالرحمن بن حمید زہری کہتے ہیں کہ میں نے سائب بن یزید سے پوچھا کہ آپ نے مکہ کی سکونت کے متعلق کیا سنا ہے؟تو انہوں نے کہاکہ میں نے علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کوکہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''مہاجرین کو منیٰ سے لوٹنے کے بعد تین دن تک مکہ میں رہنے کی اجازت ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مہاجر وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ تعالی کے لئے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی، آپﷺ نے مہاجرین کو تین دن سے زیادہ مکہ میں رہنے کی اجازت نہ دی، اس حدیث کا تعلق ترجمہ باب سے معلوم نہیں ہوتا مگر یوں کہہ سکتے ہیں کہ جب مہاجرین کو جو کہ مکہ میں مسافر تھے نبی اکرم ﷺ نے تین دن رہنے کی اجازت دی، تو معلوم ہوا کہ تین دن کی اقامت سے سفر کا حکم باطل نہیں ہوتا، پس اگر کوئی مسافر کسی شہر میں تین دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو قصر کرے، اور اس مسئلہ میں علماء کا بہت اختلاف ہے لیکن اہل حدیث نے اس کو اختیار کیا ہے کہ اگر تردد وشک کے ساتھ مسافر کو کہیں ٹھہرنے کا اتفاق ہو تو بیس دن تک قصر کرتا رہے، اس کے بعد پوری صلاۃ ادا کرے، کیونکہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے تبوک میں بیس راتوں تک کی اقامت میں قصر کا حکم دیا، اس واسطے کہ قصر حالت ِسفر میں مشروع تھا، اور جب اقامت کی تو سفر نہ رہا، اور اگر یقین کے ساتھ مسافر کہیں ٹھہر نے کا ارادہ کرے، تو اگر چار دن یا زیادہ کی اقامت کی نیت کرے، تو چار دن کے بعد صلاۃ پوری پڑھے، اور جو چار دن سے کم رہنے کی نیت کرے تو قصر کرے، یہ حنبلی مذہب کا مشہور مسئلہ ہے، اور دلیل اس کی یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ ذوالحجہ کی چوتھی تاریخ کی صبح کو مکہ میں تشریف لائے، اور ساتویں دن تک قیام فرمایا، اور آٹھویں تاریخ کی صبح کو صلاۃ فجر پڑھ کر منیٰ تشریف لے گئے، اور چار دنوں میں مکہ میں قصر کرتے رہے، جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے مکہ میں انیس دن تک صلاۃ قصرادا کی (صحیح البخاری)، اس سے معلوم ہوتاہے کہ اقامت کی حد چاردن نہیں ہے، سنن ابی داود (۱۲۳۵) میں جابررضی اللہ عنہسے مروی ہے کہ تبوک میں بیس دن تک اقامت رہی، اورقصرپڑھتے رہے، مختلف احادیث میں مختلف مدتوں کے ذکرکا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کوئی تعارض کی بات ہے، رواۃ نے اپنی اپنی معلومات کے مطابق بیان کیا، راجح قول یہی ہے کہ مسافرجب تک اقامت کی نیت نہ کر ے صلاۃ کو قصر کرے اور جمع بھی، جب تک کہ اقامت کی نیت نہ کر ے اورسفر کو ختم نہ کردے، شیخ الإسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ مسافر کے لیے قصر وافطار اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اقامت اور سکونت نہ اختیارکرلے، اورچند دن کی اقامت کی نیت سے مقیم اور مسافر کے درمیان فرق وتمیز شرع اورعرف میں غیرمعروف چیز ہے ۔


1074- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، وَقَرَأْتُهُ عَلَيْهِ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَطَائٌ، حدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، فِي أُنَاسٍ مَعِي، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ مَكَّةَ صُبْحَ رَابِعَةٍ مَضَتْ مِنْ شَهْرِ ذِي الْحِجَّةِ۔
* تخريج: خ/الشرکۃ ۱۵ (۲۵۰۵) التمنی ۳ (۷۲۲۹)، ن/الحج ۱۰۸ (۲۸۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۴۸)، وقد أخرجہ: م/الحج ۱۸ (۱۲۱۶)، د/الحج ۲۳ (۱۷۸۸)، حم (۳/۳۰۵، ۳۱۷) (صحیح)
۱۰۷۴- عطاء کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے میرے ساتھ کئی لوگوں کی موجودگی میں حدیث بیان کی کہ نبی اکرمﷺ مکہ مکرمہ چار ذی الحجہ کی صبح تشریف لائے ۔


1075- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الأَحْوَلُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ تِسْعَةَ عَشَرَ يَوْمًا يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، فَنَحْنُ إِذَا أَقَمْنَا تِسْعَةَ عَشَرَ يَوْمًا، نُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، فَإِذَا أَقَمْنَا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، صَلَّيْنَا أَرْبَعًا۔
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۱ (۱۰۸۰)، المغازي (۴۲۹۸)، ت/الصلاۃ ۲۷۵ (۵۴۹)، د/الصلاۃ (۱۲۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۳۴) (صحیح)
۱۰۷۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں اُنیس (۱۹) دن رہے، اور دو دو رکعت پڑھتے رہے، لہٰذا ہم بھی جب انیس (۱۹) دن قیام کرتے ہیں تو دو دو رکعت پڑھتے ہیں، اور جب اس سے زیادہ قیام کرتے ہیں تو چار رکعت پڑھتے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مذہب انیس دن کی اقامت تک قصر کا تھا ۔


1076- حَدَّثَنَا أَبُو يُوسُفَ الصَّيْدَلانِيُّ، مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَقَامَ بِمَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ خَمْسَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، يَقْصُرُ الصَّلاةَ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۷۹ (۱۲۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۴۹)، وقد أخرجہ: ن/تقصیر الصلاۃ ۴ (۱۴۵۴) (ضعیف)
(اس حدیث کی سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ۳/۲۶، ۲۷)
۱۰۷۶- ا بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال مکہ میں پندرہ دن قیام کیا، اور صلاۃ قصر کرتے رہے ۔


1077- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، وَعَبْدُ الأَعْلَى قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى رَجَعْنَا.
قُلْتُ: كَمْ أَقَامَ بِمَكَّةَ؟ قَالَ عَشْرًا۔
* تخريج: خ/تقصیرالصلاۃ ۱ (۱۰۸۱)، المغازي ۵۲ (۴۲۹۷)، م/المسافرین ۱ (۶۹۳)، د/الصلاۃ ۲۷۹ (۱۲۳۳)، ت/الصلاۃ ۲۷۵ (۵۴۸)، ن/تقصیر الصلاۃ (۱۴۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۸۷، ۱۹۰) (صحیح)
۱۰۷۷- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لئے نکلے اور واپسی تک دو دو رکعت صلاۃ پڑھتے رہے ۔
یحییٰ کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کتنے دنوں تک مکہ میں رہے؟ کہا: دس دن تک۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
77- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ تَرَكَ الصَّلاةَ
۷۷- باب: تارک ِ صلاۃ کے گناہ کابیان​


1078- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلاةِ>۔
* تخريج: د/السنۃ ۱۵ (۴۶۷۸)، ت/الإیمان ۹ (۲۶۲۰)، (تحفۃ الأشراف :۲۷۴۶)، وقد أخرجہ: م/الإیمان ۳۵ (۸۲)، ن/الصلاۃ ۸ (۴۶۴، ۴۶۵)، حم (۳/۳۷۰، ۳۸۹)، دي/الصلاۃ ۲۹ (۱۲۶۹) (صحیح)
۱۰۷۸- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بندہ اور کفر کے درمیان حدفاصل صلاۃ کا چھوڑنا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی کفر اور بندے میں صلاۃ ہی حد فاصل اور حائل ہے، جہاں صلاۃ چھوڑی یہ حد فاصل اٹھ گئی اور آدمی کافر ہوگیا، یہی امام احمد اور اصحاب حدیث کا مذہب ہے اور حماد بن زید، مکحول، مالک اور شافعی نے کہا کہ تارک صلاۃ کا حکم مثل مرتد کے ہے، یعنی اگر توبہ نہ کرے تو وہ واجب القتل ہے، اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک تارک صلاۃ کافر نہ ہو گا، لیکن کفر کے قریب ہو جائے گا، حالانکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ''صلاۃ کا ترک کفر ہے''، اور ایسا ہی منقول ہے عمر اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے، جمہور علماء اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو صلاۃ کے چھوڑ دینے کو حلال سمجھے، وہ شخص جو محض سستی کی وجہ سے اسے چھوڑ دے وہ کافرنہیں ہوتا، لیکن بعض محققین کے نزدیک صلاۃ کی فرضیت کے عدم انکارکے باوجود عملاً وقصداً صلاۃ چھوڑ دینے والا بھی کافرہے، دیکھئے اس موضوع پر عظیم کتاب ''تعظيم قدر الصلاة'' تالیف امام محمد بن نصر مروزی، بتحقیق ڈاکٹر عبدالرحمن الفریوائی، اور''تارک صلاۃ کاحکم''تالیف شیخ محمد بن عثیمین، ترجمہ ڈاکٹر عبدالرحمن الفریوائی۔


1079- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ>۔
* تخريج: ت/الإیمان ۹ (۲۶۲۱)، ن/الصلاۃ ۸ (۴۶۴)، (تحفۃ الأشراف:۱۹۶۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۴۶) (صحیح)
۱۰۷۹- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ہمارے اور منافقوں کے درمیان صلاۃ معاہدہ ہے ۱؎ ، جس نے صلاۃ ترک کردی اس نے کفر کیا''۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی جب تک وہ صلاۃ ادا کرتے رہیں گے، ہم ان پر اسلام کے احکام جاری رکھیں گے ۔


1080- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <لَيْسَ بَيْنَ الْعَبْدِ وَالشِّرْكِ إِلا تَرْكُ الصَّلاةِ، فَإِذَا تَرَكَهَا فَقَدْ أَشْرَكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۱، ومصباح الزجاجۃ: ۳۸۱) (صحیح)
(اس کی سند میں یزید بن أبان الرقاشی ضعیف ہیں، لیکن دوسری احادیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: المشکاۃ: ۵۷۴، مصباح الزجاجۃ : ۳۸۴ بتحقیق عوض الشہری)
۱۰۸۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''بندے اور شرک کے درمیان صلاۃ چھوڑ نے کا فرق ہے، جب اس نے صلاۃ چھوڑدی تو شرک کیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مشرک اور کافر دونوں کا حکم ایک ہے، دونوں جہنم میں ہمیشہ رہیں گے، معاذ اللہ! اتنی صاف حدیثوں کو دیکھ کر بھی کوئی صلاۃ ترک کردے تو اس سے زیادہ بد بخت وبدنصیب کو ن ہوگا کہ مشرک اور کافر ہوگیا، اور دین محمدی سے نکل گیا، أعاذنا الله!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
78- بَاب فِي فَرْضِ الْجُمُعَةِ
۷۸-باب: جمعہ کی فرضیت کابیان​


1081- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ بُكَيْرٍ أَبُو جَنابٍ ۱؎ ، حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَدَوِيُّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < يَا أَيُّهَا النَّاسُ! تُوبُوا إِلَى اللَّهِ قَبْلَ أَنْ تَمُوتُوا، وَبَادِرُوا بِالأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ قَبْلَ أَنْ تُشْغَلُوا، وَصِلُوا الَّذِي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رَبِّكُمْ بِكَثْرَةِ ذِكْرِكُمْ لَهُ، وَكَثْرَةِ الصَّدَقَةِ فِي السِّرِّ وَالْعَلانِيَةِ، تُرْزَقُوا وَتُنْصَرُوا وَتُجْبَرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْكُمُ الْجُمُعَةَ فِي مَقَامِي هَذَا، فِي يَوْمِي هَذَا، فِي شَهْرِي هَذَا، مِنْ عَامِي هَذَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَمَنْ تَرَكَهَا فِي حَيَاتِي أَوْ بَعْدِي، وَلَهُ إِمَامٌ عَادِلٌ أَوْ جَائِرٌ، اسْتِخْفَافًا بِهَا، أَوْ جُحُودًا لَهَا، فَلا جَمَعَ اللَّهُ لَهُ شَمْلَهُ، وَلا بَارَكَ لَهُ فِي أَمْرِهِ، أَلا، وَلا صَلاةَ لَهُ، وَلا زَكَاةَ لَهُ وَلا حَجَّ لَهُ وَلا صَوْمَ لَهُ، وَلا بِرَّ لَهُ حَتَّى يَتُوبَ، فَمَنْ تَابَ، تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ، أَلا، لا تَؤُمَّنَّ امْرَأَةٌ رَجُلا، وَلا يَؤُمَّ أَعْرَابِيٌّ مُهَاجِرًا، وَلا يَؤُمَّ فَاجِرٌ مُؤْمِنًا، إِلا أَنْ يَقْهَرَهُ بِسُلْطَانٍ، يَخَافُ سَيْفَهُ وَسَوْطَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۵۸، ومصباح الزجاجۃ: ۳۸۲) (ضعیف)
(اس حدیث کی سند میں علی بن زید بن جدعان، اور عبداللہ بن محمد العدوی ضعیف اور متروک راوی ہے، نیزملاحظہ ہو: الإرواء : ۵۹۱)
وضاحت ۱ ؎ : ابوجناب : جیم پر فتحہ، اور اس کے بعد نون، ذہبی نے ''ابو خباب'' (خ ، ب ، ا ، ب) ضبط کیا ہے۔
۱۰۸۱- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: ''لوگو ! مرنے سے پہلے اللہ کی جناب میں توبہ کرو، اور مشغولیت سے پہلے نیک اعمال میں سبقت کرو، جو رشتہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان ہے اسے جوڑو، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کو خوب یاد کرو، اور خفیہ واعلانیہ طور پر زیادہ سے زیادہ صدقہ وخیرات کرو، تمہیں تمہارے رب کی جانب سے رزق دیا جائے گا، تمہاری مدد کی جائے گی اور تمہاری گرتی حالت سنبھال دی جائے گی، جان لو کہ اللہ تعالی نے تم پر جمعہ اس مقام، اس دن اور اس مہینہ میں فرض کیا ہے، اور اس سال سے تا قیامت فرض ہے، لہٰذا جس نے جمعہ کو میری زندگی میں یا میرے بعد حقیر ومعمولی جان کر یا ا س کا انکار کرکے چھوڑ دیا حالاں کہ امام موجود ہو خواہ وہ عادل ہو یا ظالم، تواللہ تعالی اس کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دے اور اس کے کام میں برکت نہ دے، سن لو! اس کی صلاۃ، زکاۃ، حج، صوم اور کوئی بھی نیکی قبول نہ ہوگی، یہاں تک کہ وہ توبہ کرے، لہٰذا جس نے توبہ کی اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا، سن لو! کوئی عورت کسی مرد کی، کوئی اعرابی (دیہاتی) کسی مہاجر کی، کوئی فاجر کسی مومن کی امامت نہ کرے، ہاں جب وہ کسی ایسے حاکم سے مغلوب ہوجائے جس کی تلوار اور کوڑوں کا ڈر ہو'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی ظالم حاکم کی طرف سے کوئی امام ایسا ہو یا وہ خود امامت کرے، اور لوگوں کو ڈر ہو کہ اگر اس کی اقتداء نہ کریں گے تو عزت وآبرو کو نقصان پہنچے گا تومجبوراً اور مصلحتاً فاسق کے پیچھے صلاۃ ادا کرنی جائز ہے، اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ امام ہمیشہ صالح اور نیک اور ذی علم ہونا چاہئے اور اسی وجہ سے اعرابی کو مہاجر کی امامت سے منع کیاگیا ہے، کیونکہ مہاجر ذی علم نیک اور صالح ہوتے تھے بہ نسبت اعراب (بدؤں) کے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعہ فرض ہے، اور جمعہ کی فرضیت پر علماء کا اتفاق ہے لیکن اختلاف یہ ہے کہ کیا وہ فرض عین ہے یا فرض کفایہ، اکثر علماء کے نزدیک فرض عین ہے، اس لئے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث میں ہے کہ لوگ جمعہ کے ترک سے باز آئیں، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا، پھر وہ غافلوں میں سے ہو جائیں گے، ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ہر بالغ پر جمعہ کو جانا واجب ہے'' (سنن نسائی) اور طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جمعہ ہر مسلمان پر حق ہے'' (سنن ابی داود)، اور رسول اکرم ﷺ نے ہمیشہ جمعہ پڑھا، یہ سب جمعہ کے وجوب اور فرضیت کے دلائل ہیں، جمعہ کے بارے میں ایک اختلاف یہ ہے کہ جمعہ کب اور کہاں فرض ہے، امام شافعی کہتے ہیں کہ جس گاؤں میں چالیس آزاد آدمی مقیم ہوں ان پر جمعہ واجب ہے، اور اس کے لئے حاکم اور امیر کا ہونا شرط نہیں ہے، امام ابوحنیفہ کے نزدیک شہر یا مضافات شہر میں جمعہ ہے، اس کے علاوہ دیہاتوں میں جمعہ صحیح نہیں ہے، اور چار آدمیوں سے کم میں جمعہ نہیں ہے، یعنی امام کے علاوہ تین آدمی ہونے چاہئیں۔
امام مالک کے نزدیک جس گاؤں میں بازار اور مسجد ہو اور گھر ملے ہوں وہاں جمعہ پڑھا جائے گا، حاکم اور بادشاہ کا ہونا شرط نہیں ہے، اہل حدیث کے نزدیک جمعہ دیگر صلاۃ کی طرح ہے چنانچہ دو آدمی بھی ہوں اور جمعہ پڑھیں تو وہ ادا ہوجائے گا، اگر ان میں سے ایک خطبہ پڑھے تو بہتر ہے، اور اگر خطبہ نہ پڑھے تو کوئی بات نہیں کیونکہ خطبہ سنت ہے، اور جمعہ کے لئے شہر یا حاکم یا خاص تعداد یا جامع مسجد کا ہونا یہ چیزیں شرط نہیں ہیں، اس لئے کہ ان کے شرط ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے، انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بصرہ میں اپنے گھر میں جمعہ ادا کیا، حنفیہ کے نزدیک اپنے گھر میں جمعہ ادا کرنا صحیح ہے، برصغیرپاک وہند اور بنگلہ دیش میں دیہات میں جمعہ کے پڑھنے اور نہ پڑھنے میں لوگوں میں بڑا اختلاف ہے، اس کی وجہ فقہی فروع میں تشدد وتصلب ہے، جب کہ دلائل کی روشنی میں اور دینی، ملی، دعوتی اور تعلیمی ضروریات اور فوائد کو سامنے رکھتے ہوئے جمعہ کا اہتمام ہر چھوٹی بڑی جگہوں پر ہونا چاہئے، اور اس کے لئے اربابِ علم وفضل کو جد وجہد کرنی چاہئے تاکہ اجتماعی طور پر مسلمان اس فریضے کو ادا کریں، اور دینی معلومات بھی لے کر جائیں۔


1082- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كُنْتُ قَائِدَ أَبِي حِينَ ذَهَبَ بَصَرُهُ، فَكُنْتُ إِذَا خَرَجْتُ بِهِ إِلَى الْجُمُعَةِ فَسَمِعَ الأَذَانَ اسْتَغْفَرَ لأَبِي أُمَامَةَ، أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، وَدَعَا لَهُ، فَمَكَثْتُ حِينًا أَسْمَعُ ذَلِكَ مِنْهُ، ثُمَّ قُلْتُ فِي نَفْسِي: وَاللَّهِ، إِنَّ ذَا لَعَجْزٌ، إِنِّي أَسْمَعُهُ كُلَّمَا سَمِعَ أَذَانَ الْجُمُعَةِ يَسْتَغْفِرُ لأَبِي أُمَامَةَ وَيُصَلِّي عَلَيْهِ، وَلا أَسْأَلُهُ عَنْ ذَلِكَ لِمَ هُوَ؟ فَخَرَجْتُ بِهِ كَمَا كُنْتُ أَخْرُجُ بِهِ إِلَى الْجُمُعَةِ، فَلَمَّا سَمِعَ الأَذَانَ اسْتَغْفَرَ كَمَا كَانَ يَفْعَلُ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَتَاهُ! أَرَأَيْتَكَ صَلاتَكَ عَلَى أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ كُلَّمَا سَمِعْتَ النِّدَاءَ بِالْجُمُعَةِ لِمَ هُوَ؟ قَالَ: أَيْ بُنَيَّ! كَانَ أَوَّلَ مَنْ صَلَّى بِنَا صَلاةَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ مَقْدَمِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنْ مَكَّةَ، فِي نَقِيعِ الْخَضَمَاتِ، فِي هَزْمٍ مِنْ حَرَّةِ بَنِي بَيَاضَةَ، قُلْتُ: كَمْ كُنْتُمْ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: أَرْبَعِينَ رَجُل ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۱۶ (۱۰۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۴۹) (حسن)
۱۰۸۲- عبدالرحمن بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ جب میرے والد کی بینائی چلی گئی تو میں انہیں پکڑ کرلے جایا کرتا تھا، جب میں انہیں صلاۃ جمعہ کے لئے لے کر نکلتا اور وہ اذان سنتے تو ابو امامہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لئے استغفار اور دعا کرتے، میں ایک زمانہ تک ان سے یہی سنتا رہا، پھر ایک روز میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اللہ کی قسم یہ تو بے وقوفی ہے کہ میں اتنے عرصے سے ہر جمعہ یہ بات سن رہا ہوں کہ جب بھی وہ جمعہ کی اذان سنتے ہیں تو ابوامامہ رضی اللہ عنہ کے لئے استغفار اور دعا کرتے ہیں، اور ابھی تک میں نے ان سے اس کی وجہ نہیں پوچھی، چنانچہ ایک روز معمول کے مطابق انہیں جمعہ کے لئے لے کر نکلا، جب انہوں نے اذان سنی تو حسب معمول (اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لئے) مغفرت کی دعا کی تو میں نے ان سے کہا : ابا جان! جب بھی آپ جمعہ کی اذان سنتے ہیں تو اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لئے دعا فرماتے ہیں، آخر اس کی وجہ کیا ہے، تو انہوں نے کہا: میرے بیٹے ! اسعد ہی نے ہمیں سب سے پہلے نبی اکرمﷺ کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے قبیلہ بنی بیاضہ کے ہموار میدان ''نقیع الخضمات'' میں صلاۃ جمعہ پڑھائی، میں نے سوال کیا: اس وقت آپ لوگوں کی تعداد کیا تھی؟ کہا: ہم چالیس آدمی تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : بظاہر یہاں ایک اشکال ہوتا ہے کہ جمعہ تو مدینہ میں فرض ہو ا، پھر اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے کیونکر جمعہ ادا کیا، اس کا جواب علماء نے یہ دیا ہے کہ جمعہ مکہ ہی میں فرض ہوگیا تھا، نبی اکرم ﷺ کافروں کے ڈر سے اس کو ادانہ کرسکتے تھے، اور مدینہ میں اس کی فرضیت قرآن میں اتری، اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوتاہے جنہوں نے جمعہ کے لئے مسلمان حاکم کی شرط رکھی ہے، کیونکہ مدینہ طیبہ میں اس وقت کوئی مسلمان حاکم نہ تھا، اس کے باوجود اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جمعہ ادا کیا ۔


1083- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مَالِكٍ الأَشْجَعِيُّ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، وَعَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَضَلَّ اللَّهُ عَنِ الْجُمُعَةِ مَنْ كَانَ قَبْلَنَا، كَانَ لِلْيَهُودِ يَوْمُ السَّبْتِ، وَالأَحَدُ لِلنَّصَارَى، فَهُمْ لَنَا تَبَعٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، نَحْنُ الآخِرُونَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا، وَالأَوَّلُونَ الْمَقْضِيُّ لَهُمْ قَبْلَ الْخَلائِقِ >۔
* تخريج: حدیث ربعي بن حراش عن حذیفۃ أخرجہ: م/الجمعۃ ۶ (۸۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۱۱)، وحدیث أبي حازم عن أبي ہریرۃ أخرجہ مثلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۹۷)، وقد أخرجہ: خ/الجمعۃ ۱۲ (۸۹۶)، ن/الجمعۃ ۱ (۱۳۶۹) (صحیح)
۱۰۸۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلی امتوں کو جمعہ سے بھٹکا دیا ۱؎ ، یہود نے سنیچر کا دن، اور نصاریٰ نے اتوار کا دن (عبادت کے لئے) منتخب کیا، اس طرح وہ قیامت تک ہمارے پیچھے رہیں گے، ہم دنیا والوں سے (آمد کے لحاظ سے) آخر ہیں، اور آخرت کے حساب وکتاب میں ساری مخلوقات سے اوّل ہیں'' ۲ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جمعہ سے بھٹکا نے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں جمعہ اور اس کے علاوہ دوسرے دنوں کے اختیار کی توفیق دی، لیکن انہوں نے اسے اختیار نہ کرکے دوسرا دن اختیار کیا ۔
وضاحت ۲ ؎ : یہ امت محمد یہ پر اللہ تعالیٰ کی عنایت ہوئی کہ دنیا میں ان کو سب کے بعد رکھا، اور آخرت میں سب سے پہلے رکھے گا، دنیا میں بعد میں رکھنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ امت سابقہ امتوں پر گواہ ہے جیسے کہ قرآن میں وارد ہے، بہرحال جمعہ کی فضیلت یہوداور نصاریٰ کو نہیں ملی، انہوں نے اس دن کے پہچاننے میں غلطی کی، اور امت محمد یہ کو اللہ تعا لیٰ نے صاف کھول کر یہ دن بیان کردیا، اور جمعہ کی تخصیص کی وجہ یہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش اسی دن کی، یعنی آدم وضاحت کو اسی دن پیدا کیا، پس ہر ایک انسان پر اس دن اپنے مالک کا شکر ادا کرنا فرض ہوا، اور قیامت بھی اسی دن آئے گی، گویا شروع اور خاتمہ دونوں اسی دن ہیں۔
 
Top