68- بَاب الْخُشُوعِ فِي الصَّلاةِ
۶۸ - باب: صلاۃ میں خشوع و خضوع کا بیان
1043- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <لا تَرْفَعُوا أَبْصَارَكُمْ إِلَى السَّمَاءِ أَنْ تَلْتَمِعَ> يَعْنِي فِي الصَّلاةِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۱۷، ومصباح الزجاجۃ: ۳۷۴) (صحیح)
۱۰۴۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''(صلاۃ کی حالت میں) اپنی نگاہیں آسمان کی طرف نہ اٹھاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری بینائی چھین لی جائے''۔
1044- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا بِأَصْحَابِهِ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلاةَ أَقْبَلَ عَلَى الْقَوْمِ بِوَجْهِهِ فَقَالَ: <مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَرْفَعُونَ أَبْصَارَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ>، حَتَّى اشْتَدَّ قَوْلُهُ فِي ذَلِكَ: <لَيَنْتَهُنَّ عَنْ ذَلِكَ أَوْ لَيَخْطَفَنَّ اللَّهُ أَبْصَارَهُمْ>۔
* تخريج: خ/الأذان ۲ ۹ (۷۵۰)، د/الصلاۃ ۷ ۶ ۱ (۹۱۳)، ن/السہو ۹ (۱۱۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۰۹، ۱۱۲، ۱۱۵، ۱۱۶، ۱۴۰، ۲۵۸)، دي / الصلاۃ ۷ ۶ (۱۳۴۰) (صحیح)
۱۰۴۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک روز اپنے صحابہ کو صلاۃ پڑھائی، جب آپ صلاۃ سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب رخ کرکے فرمایا: ''لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اپنی نگاہیں (بحالت صلاۃ) آسمان کی جانب اٹھاتے رہتے ہیں؟''، یہاں تک کہ بڑی سختی کے ساتھ آپ ﷺ نے یہ تک فرما دیا : ''لوگ اس سے ضرور باز آجائیں ورنہ اللہ تعالی ان کی نگاہیں اچک لے گا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : ابتداء اسلام میں صلاۃ کے اند ر آسمان کی طرف نگاہ اٹھاناجائز تھا، چنانچہ نبی اکرم ﷺ نظر اٹھایا کرتے تھے، پھر یہ آیت اتری :
{الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خَاشِعُونَ} (سورۃ المؤمنون: ۲) اس دن سے آپ ﷺ صلاۃ میں سرجھکا نے لگے اور لوگوں کو بھی اس کی تاکید کی، آدمی جب صلاۃ میں کھڑا ہوتا ہے تو گویا اللہ تعالی کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، پھر اپنے مالک کے سامنے غلام کھڑا ہو تو نیچے دیکھنا، اور سرجھکائے رہنا ہی ادب ہے، اور اوپر دیکھنا ادب کے خلاف ہے، گو اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالی اوپر ہی کی جانب ہے، اس کے لئے فوقیت اور علو کی جہت کتاب وسنت سے متواتر اور قطعی طور پر ثابت ہے، وہ بلندی پر ہے، سات آسمان کے اوپر اور عرش کے اوپر اور مخلوقات سے جدا، اور اسی کے پاس سے تمام احکام وفرامین اور فرشتے اترتے ہیں، اور اسی کی طرف نیک اعمال اور فرشتے چڑھتے ہیں۔
1045- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: <لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ يَرْفَعُونَ أَبْصَارَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ، أَوْ لا تَرْجِعُ أَبْصَارُهُمْ>۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۲۳ (۴۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۳۰)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۱۶۷ (۹۱۲)، حم (۵/۹۰، ۹۳، ۱۰۱، ۱۰۸، دي/الصلاۃ ۶۷ (۱۳۳۹) (صحیح)
۱۰۴۵- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''لوگوں کو (صلاۃ کی حالت میں) آسمان کی طرف اپنی نگاہیں اٹھانے سے باز آجانا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی نگاہیں (صحیح سالم) نہ لوٹیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی صلاۃ کے اندر اس کام سے باز آجائیں، اور بعضوں نے کہا کہ جب دعا کرتا ہو تو صلاۃ سے باہر بھی نگاہ اٹھانی مکروہ ہے، اور اکثر لوگوں نے صلاۃ سے باہر نگاہ اٹھانے کو جائز کہا ہے، اس بناء پر کہ دعا کا قبلہ آسمان ہے جیسے صلاۃ کا قبلہ کعبہ ہے۔
1046- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ خَلّادٍ قَالا: حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَتِ امْرَأَةٌ تُصَلِّي خَلْفَ النَّبِيِّ ﷺ، حَسْنَاءُ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ، فَكَانَ بَعْضُ الْقَوْمِ يَسْتَقْدِمُ فِي الصَّفِّ الأَوَّلِ لِئَلا يَرَاهَا، وَيَسْتَأْخِرُ بَعْضُهُمْ حَتَّى يَكُونَ فِي الصَّفِّ الْمُؤَخَّرِ، فَإِذَا رَكَعَ قَالَ هَكَذَا، يَنْظُرُ مِنْ تَحْتِ إِبْطِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ {وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ} فِي شَأْنِهَا۔
* تخريج: ت/التفسیر سورۃ ۱۵/۱ (۳۱۲۲)، ن/الإمامۃ ۶۲ (۸۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۶۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۰۵) (صحیح)
۱۰۴۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پیچھے صلاۃ پڑھا کرتی تھی، جو بہت زیادہ خوبصورت تھی، کچھ لوگ پہلی صف میں کھڑے ہوتے تاکہ اسے نہ دیکھ سکیں، اور کچھ لوگ پیچھے رہتے یہاں تک کہ بالکل آخری صف میں کھڑے ہوتے اور جب رکوع میں جاتے تو اس طرح بغل کے نیچے سے اس عورت کو دیکھتے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے سلسلے میں آیت کریمہ:
{وَلَقَدْ عَلِمْنَاْ الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِيْنَ} [سورۃ حجر: ۲۴] (ہم نے جان لیا آگے بڑھنے والوں کو، اور پیچھے رہنے والوں کو) نازل فرمائی ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : نفس امارہ اور شیطان ہر ایک کے ساتھ لگا ہوا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی یہ بات تھی، باوجوداس کے کہ ان کو نبی اکرم ﷺ کی صحبت (ساتھ ہو نے) کا شرف حاصل تھا، مگر شیطان کے شرسے وہ معصوم نہ تھے، اور اس قسم کے واقعات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کئی مقامات میں منقول ہوئے ہیں، جیسے اندھے کے گرنے پر صلاۃ کے اندر قہقہہ (زور سے ہنسنا)، اور خطبہ کے دوران نبی اکرم ﷺ کو چھوڑ کر چلے جانا وغیرہ وغیرہ، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ حال خیر القرون میں تھا، تو اور لوگوں کو اپنے نفس پر کیا اطمینان ہو سکتا ہے، شیطان کے شر سے ہمیشہ اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے ۔