166- بَاب مَا جَاءَ فِيمَا إِذَا اجْتَمَعَ الْعِيدَانِ فِي يَوْمٍ
۱۶۶ -باب: عید اور جمعہ ایک دن اکٹھا ہوجائیں تو کیسے کرے؟
1310- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ أَبِي رَمْلَةَ الشَّامِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلا سَأَلَ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ: هَلْ شَهِدْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عِيدَيْنِ فِي يَوْمٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ؟ قَالَ: صَلَّى الْعِيدَ، ثُمَّ رَخَّصَ فِي الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَالَ: < مَنْ شَاءَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُصَلِّ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۱۷ (۱۰۷۰)، ن/العیدین ۳۱ (۱۵۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۵۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۷۲)، دي/الصلاۃ ۲۲۵، (۱۶۵۳) (صحیح)
۱۳۱۰- ایاس بن ابورملہ شامی کہتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہوئے سنا :کیا آپ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کبھی ایک ہی دن دو عید میں حاضر رہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، اس آدمی نے کہا:تو آپﷺ کیسے کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپﷺ نے عید پڑھائی پھر جمعہ کے بارے میں رخصت دے دی اور فرمایا: ''جو پڑھنا چاہے پڑھے'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جمعہ اور عید دونوں پڑھنا افضل ہے، اور دور دراز کے لوگوں کو اگر جمعہ کے لئے جامع مسجد آنے میں مشقت اوردشواری ہو تو اس صورت میں صرف عید پر اکتفا ہوسکتا ہے، اور اس صورت میں ظہر پڑھ لے۔
1311- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي مُغِيرَةُ الضَّبِّيُّ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < اجْتَمَعَ عِيدَانِ فِي يَوْمِكُمْ هَذَا، فَمَنْ شَاءَ أَجْزَأَهُ مِنَ الْجُمُعَةِ، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ >.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۱۹، ومصباح الزجاجۃ: ۴۶۱) (صحیح)
(ابوداود : ۱۰۷۳) نے محمدبن المصفی سے اسی سند سے یہ حدیث روایت کی ہے، اور ابن عباس کے بجائے، ابو ہریرہ کہاہے، بوصیری نے اس کو محفوظ کہاہے، اور وہ مولف کے ہاں آنے والی روایت ہے)
۱۳۱۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تمہارے آج کے دن میں دو عیدیں جمع ہوئی ہیں، لہٰذا جو جمعہ نہ پڑھنا چاہے اس کے لئے عید کی صلاۃ ہی کافی ہے، اور ہم تو ان شاء اللہ جمعہ پڑھنے والے ہیں''۔
[1311/أ] حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِرَبِّهِ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُغِيرَةَ الضَّبِّيِّ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ۔
* تخريج: د/ الصلاۃ ۲۱۷ (۱۰۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۲۷) (ضعیف)
(سند میں بقیہ بن الولید مدلسہیں، اور ان کی احادیث عمدہ نہیں ہوتیں)
(۱۳۱۱/أ) اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی روایت مرفوعاً آئی ہے ۔
1312- حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ، حَدَّثَنَا مِنْدَلُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: اجْتَمَعَ عِيدَانِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، ثُمَّ قَالَ: < مَنْ شَاءَ أَنْ يَأْتِيَ الْجُمُعَةَ فَلْيَأْتِهَا، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يَتَخَلَّفَ فَلْيَتَخَلَّفْ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۷۲، ومصباح الزجاجۃ: ۴۶۲) (صحیح)
(سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں دوراوی مندل و جبارہ ضعیف ہیں)
۱۳۱۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں دو عیدیں (عید اور جمعہ) ا کٹھا ہو گئیں، تو آپ نے لوگوں کو عید پڑھائی، پھر فرمایا ''جو جمعہ کے لئے آنا چاہے آئے، اور جو نہ چاہے نہ آئے'' ۔