176- بَاب فِي حُسْنِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ
۱۷۶ -باب: قرآن مجید کو اچھی آواز سے پڑھنے کا بیان
1337- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرِ بْنِ ذَكْوَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو رَافِعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وقَدْ كُفَّ بَصَرُهُ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِابْنِ أَخِي، بَلَغَنِي أَنَّكَ حَسَنُ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ نَزَلَ بِحُزْنٍ، فَإِذَا قَرَأْتُمُوهُ فَابْكُوا، فَإِنْ لَمْ تَبْكُوا فَتَبَاكَوْا، وَتَغَنَّوْا بِهِ، فَمَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِهِ، فَلَيْسَ مِنَّا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۰۰، ومصباح الزجاجۃ: ۴۶۹) وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۳۵۵ (۱۴۶۹) (ضعیف)
(اس میں راوی ابورافع، اسماعیل بن رافع ضعیف ومترو ک ہیں، لیکن آخری جملہ
'' وتغنوا به ......'' صحیح ہے، کیونکہ صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، (البخاری ۱۳/ ۵۰ و مسلم (۱/۵۴۵)
۱۳۳۷- عبدالرحمن بن سائب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آئے، وہ نابینا ہوگئے تھے، میں نے ان کو سلام کیا، تو انہوں نے کہا: تم کون ہو؟ میں نے انہیں (اپنے بارے میں) بتایا: تو انہوں نے کہا: بھتیجے! تمہیں مبارک ہو، مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم قرآن اچھی آواز سے پڑھتے ہو، میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا:''یہ قرآن غم کے ساتھ اترا ہے لہٰذا جب تم قرآن پڑھو، تو رؤو، اگر رو نہ سکو تو بہ تکلف رؤو، اور قرآن پڑھتے وقت اسے اچھی آواز کے ساتھ پڑھو ۱؎ ، جو قرآن کو اچھی آواز سے نہ پڑھے، وہ ہم میں سے نہیں ہے'' ۔
وضاحت ۱ ؎ : حدیث میں ''تغنى'' کا لفظ ہے، اور''تغنى''کا معنی گاناہے، قرآن میں''تغنى'' نہیں ہوسکتی، لہذا ''تغنى'' سے یہ مراد ہوگا کہ باریک آواز سے درد کے ساتھ اس کو پڑھنا بایں طور کہ پڑھنے والے پر اور سننے والے سب پر اثر ہو، اور دلوں میں اللہ کا خوف او ر خشوع پیدا ہو، اورتجوید کے قواعد کی رعایت باقی رہے، کلمات اور حروف میں کمی اور بیشی نہ ہو، سفیان بن عیینہ نے کہا: تغنی بالقرآن کا یہ معنی ہے کہ قرآن کو دولت لازوال سمجھے، اور دنیاداروں سے غنی یعنی بے پرواہ رہے ۔
1338- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ سَابِطٍ الْجُمَحِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَتْ: أَبْطَأْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لَيْلَةً بَعْدَ الْعِشَاءِ، ثُمَّ جِئْتُ فَقَالَ: <أَيْنَ كُنْتِ؟ > قُلْتُ: كُنْتُ أَسْتَمِعُ قِرَائَةَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِكَ لَمْ أَسْمَعْ مِثْلَ قِرَائَتِهِ وَصَوْتِهِ مِنْ أَحَدٍ، قَالَتْ، فَقَامَ وَقُمْتُ مَعَهُ حَتَّى اسْتَمَعَ لَهُ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ: < هَذَا سَالِمٌ، مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي أُمَّتِي مِثْلَ هَذَا >۔
* تخريج: تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۰۳، ومصباح الزجاجۃ: ۴۷۰)، و حم (۶/۱۶۵) (صحیح)
۱۳۳۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک روز میں نے عشاء کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے میں دیرکردی، جب میں آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم کہاں تھیں''؟ میں نے کہا: آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص کی تلاوت سن رہی تھی، ویسی تلاوت اور ویسی آواز میں نے کسی سے نہیں سنی، یہ سنتے ہی آپ کھڑے ہوئے، اورآپ ﷺ کے ساتھ میں بھی کھڑی ہوئی، آپ نے اس شخص کی قراء ت سنی، پھر آپ میری جانب متوجہ ہوئے، اور فرمایا: ''یہ ابوحذیفہ کے غلام سالم ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسا شخص پیدا کیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سالم مولی ابو حذیفہ مشہور قاری اور خوش آواز تھے، یہ دونوں صفات ایک قاری میں بہت کم جمع ہوتی ہیں، اکثر لوگ خوش آواز تو ہوتے ہیں لیکن تجوید یعنی قواعد قرأت سے ناواقف ہوتے ہیں، اور بعض قاری ہوتے ہیں لیکن ان کی آواز اچھی نہیں ہوتی، نیز حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ عورت کو اجنبی مرد کی آواز سننے میں کو ئی حرج نہیں ۔
1339- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُجَمِّعٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ صَوْتًا بِالْقُرْآنِ، الَّذِي إِذَا سَمِعْتُمُوهُ يَقْرَأُ، حَسِبْتُمُوهُ يَخْشَى اللَّهَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۴۶، ومصباح الزجاجۃ: ۴۷۱) (صحیح)
(دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس حدیث کی سند میں دو راوی عبد اللہ بن جعفر او رابراہیم بن اسماعیل بن مجمع ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجۃ: ۴۷۵، بتحقیق عوض الشہری)
۱۳۳۹- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''لوگوں میں سب سے عمدہ آواز میں قرآن پڑھنے والا وہ ہے کہ جب تم اس کی قرا ء ت سنو توتمہیں ایسا لگے کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی دردانگیز آواز سے پڑھتا ہو، اور اس پر رقت طاری ہوجاتی ہو ۔
1340- حَدَّثَنَا رَاشِدُ بْنُ سَعِيدِ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ مَيْسَرَةَ، مَوْلَى فَضَالَةَ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لَلَّهُ أَشَدُّ أَذَنًا إِلَى الرَّجُلِ الْحَسَنِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ يَجْهَرُ بِهِ، مِنْ صَاحِبِ الْقَيْنَةِ إِلَى قَيْنَتِهِ >.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۴۰، ومصباح الزجاجۃ:۴۷۲)، وقد أخرجہ : حم (۶/۱۹، ۲۰) (ضعیف)
(ولید بن مسلم کثیر التدلیس والتسویہ اور میسرہ لین الحدیث ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۲۹۵۱)
۱۳۴۰- فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالی خوش الحان شخص کا قرآن اس سے زیادہ متوجہ ہو کر سنتا ہے جتنا کہ گانا سننے والا اپنی توجہ گانے والی کی طرف لگاتا ہے'' ۔
1341- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْمَسْجِدَ فَسَمِعَ قِرَائَةَ رَجُلٍ فَقَالَ: < مَنْ هَذَا؟ > فَقِيلَ: عَبْدُاللَّهِ بْنُ قَيْسٍ، فَقَالَ: < لَقَدْ أُوتِيَ هَذَا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۱۹، ومصباح الزجاجۃ: ۴۷۳)، وقد أخر جہ: ن/الافتتاح ۸۳ (۱۰۲۰)، حم (۲/۳۵۴، ۳۶۹، ۴۵۰) (حسن صحیح)
۱۳۴۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے، وہاں آپ ﷺ نے ایک شخص کی قراءت سنی تو پوچھا: ''یہ کون ہے''؟عرض کیا گیا : عبداللہ بن قیس ہیں، آپﷺ نے فرمایا: ''انہیں داود (علیہ السلام) کی خوش الحانی میں سے حصہ ملا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مزامیر: جمع ہے مزمار کی، مزمار کہتے ہیں ستارکو، یا بجانے کے آلہ کو، یہاں مزمار سے مراد خوش الحانی ہے، اور داود علیہ السلام بہت خوش الحان تھے، اور آپ کی اچھی آواز سے آدمی تو آدمی جانور بھی مست ہوکر کھڑے ہو جاتے تھے۔
1342- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْحَةَ الْيَامِيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ عَوْسَجَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ يُحَدِّثُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < زَيِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِكُمْ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۵۵ (۱۴۶۸)، ن/الافتتاح ۸۳ (۱۰۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۵)، وقد أخرجہ: خ/التوحید ۵۲ تعلیقًا، حم (۴/۲۸۳، ۲۸۵، ۳۰۴)، دي/فضائل القرآن ۳۴ (۳۵۴۳) (صحیح)
۱۳۴۲- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : خطابی وغیرہ نے اس کاایک مفہوم یہ بتایا ہے کہ قرآن کے ذریعہ اپنی آواز کوزینت دو، یعنی اپنی آوازوں کوقرآن کی تلاوت میں مشغول رکھو، اس مفہوم کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں
''زَيِّنُوا أَصْوَاتَكُمْ بالْقُرْآنَ''کے الفاظ ہیں، اور یہ مطلب نہیں ہے کہ موسیقی کی طرح آواز نکالو ۔